1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

موت کو جس کےتصوّر سے پسینہ آجائے

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از شعیب۔امین, ‏29 اکتوبر 2011۔

  1. شعیب۔امین
    آف لائن

    شعیب۔امین ممبر

    شمولیت:
    ‏4 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    148
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    موت کو جس کےتصوّر سے پسینہ آجائے
    زیست کےدوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں

    وقت کے تند سمندرمیں ہر اک دھارے نے
    کتنے خنجر مری گردن پہ رواں دیکھےہیں

    پھر بھی اےحسن جنوں،کیف جنوں،جوش جنوں
    کب مہ وسال نے یہ عزم جواں دیکھے ہیں

    سابقہ کس سے پڑا ہے ابھی طوفانوں کو
    ہاں ابھی موت نےانسان کہاں دیکھےہیں

    مصطفی زیدی
     
  2. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: موت کو جس کےتصوّر سے پسینہ آجائے

    واہ واہ واہ مزہ آگیا ہے کیا بات جناب کی
    مصطفیٰ زیدی جو کہ پہلے تیغ کا تخلص استعمال کرتے تھے الٰہ آباد سے متعلق تھے فراق گھورقپوری سے شروع کے زمانہ میں اصلاح لیتے تھے۔
    مجھی سے میری صدا ہمکلام ہوتی رہی
    یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
    پہلے پاکستانی سی ایس ایس ٹاپر یعنی 1947 کے بعد (میرے علم کے مطابق
    مصطفیٰ زیدی کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں
    میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو
    میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    انہی پتھروں پہ چل کہ اگر آسکو تو آؤ
    میرے گھر کہ راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
    تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔
    شہناز کی بے وفائی کے بعد خودکشی کی
    فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی
    وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
    اترا تھا جس پہ بابِ حیا کا ورق ورق
    بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی
    واصف بھیا سے التماس ہے کہ اگر کچھ غلط لکھ دیا ہے تو تصحیح کردیں کیونکہ یہ سب کچھ اپنی یاداشت کے بل بوتے پر لکھ رہا ہوں غالبا 1996 میں سرگزشت ڈائجسٹ میں مصطفیٰ زیدی پر ایک مضمون چھپا تھا ادھر پڑھا تھا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں