1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مناقب مولا علی علیہ السلام حدیث منزلت

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از بہرام, ‏17 مارچ 2013۔

  1. بہرام
    آف لائن

    بہرام ممبر

    شمولیت:
    ‏16 ستمبر 2012
    پیغامات:
    28
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    حدثنا مسدد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا يحيى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن شعبة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحكم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن مصعب بن سعد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبيه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى تبوك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ واستخلف عليا فقال أتخلفني في الصبيان والنساء قال ‏"‏ ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه ليس نبي بعدي ‏"‏‏.‏ وقال أبو داود حدثنا شعبة عن الحكم سمعت مصعبا‏.
    ترجمہ از داؤد راز​
    ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے حکم بن عتبہ نے ، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔
    حوالہ :
    1۔صحیح بخاری :کتاب المغازی :باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔ :حدیث نمبر :4416
    2۔ صحیح بخاری :کتاب فضائل اصحاب النبی :باب: حضرت ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی کے فضائل کا بیان :حدیث نمبر :3706
    صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 2404
    مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/122
    مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/113
    مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 9/112
    صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 7951
    صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم:1484
    مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 5/25
    10۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/94
    11۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/88
    12۔ مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 3/56
    خلاصہ
    شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلہ نے حجاز میں داخل ھونے کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررھی ھے کسی حادثہ کے بارے میں حفظ ، ماتقدم اس کے مقابلے سے بھتر ھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ھوا ۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا ، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیر زن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ھوگئے اور اس عظیم جھاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
    چند مخبروں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ خبر دی کہ مدینہ کے منافق منصوبہ بندی کررھے ھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم موجودگی میں مدینہ میں بغاوت کرکے خون کی ھولی کھیلیں گے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ھر قسم کے حادثہ کی روک تھام کے لئے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انھیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ھی رھیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
    جب منافقین حضرت علی علیہ السلام کے مدینہ میں رھنے کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو انھیں اپنی سازشیں ناکام ھوتی نظر آئیں ۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے وہ چاھتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی علیہ السلام مدینہ سے باھر چلے جائیں ۔ لہذا انھوں نے یہ افواہ پھیلادی کہ حضرت علی (علیہ السلام) اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان رنجش پیدا ھوگئی ھے اسی لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کے ساتھ یہ سلوک کیا ھے کہ انھیں اس اسلامی جھاد میں شرکت کرنے کی اجازت نھیں دی!
    مدینہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں __جو روز پیدائش سے ھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مھر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے__اس قسم کی افواہ کا پھیلنا ، حضرت علی (علیہ السلام) اور آپ (علیہ السلام) کے دوستوں کیلئے شدید تکلیف کا سبب بنا ۔ لہذا حضرت علی (علیہ السلام) اس افواہ کی تردید کیلئے مدینہ سے باھر نکلے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں پھنچے ،جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے آپ (علیہ السلام) نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس واقعہ سے آگاہ فرمایا۔ یھاں پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظھار کرتے ھوئے علی علیہ السلام کے مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملہ میں بیان فرمایا:
    ” اما ترضی ان تکون منّی بمنزلة ھارون من موسیٰ ، الّا انہ لا نبیّ بعدی "
    یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں حدیث ”منزلت“ کے نام سے مشھور ھے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ھے۔
    لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس حدیث کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نھیں کرنا چاہئے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس حدیث کی دلالت ، مفھوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے ۔
    پھلے مرحلہ میں جملہ ” الاّ انہ لا نبی بعدی“ قابل غور ھے کہ اصطلاح میں اسے ” جملہٴ استثنائی “ کھا جاتا ھے ، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ھیں اورکھا جاتا ھے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ھم پلہ ھیں ، تو اھل زبان اس جملہ سے اس کے سوا کچھ اور نھیں سمجھتے ھیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شاٴن و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ھیں ۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء ، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ھوتا ھے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ھر لحاظ سے ایک دوسرے کے ھم رتبہ ھیں ۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں