1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از عاصم مٹھو, ‏11 اکتوبر 2010۔

  1. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ
    عمررضی اللہ تعالٰی عنہ بن خطاب بن فضیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی کعب پر پہنچ کر یہ سلسلہ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب سے مل جاتا ہے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کنیت ابو حفص اور لقب "فاروق" ہے امام نووی کی تحقیق کے مطابق آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تیرہ سال بعد ہوئی اور جیسا کہ ذہبی نے لکھا ہے ۔ بعمر ١٧سال ٦ھ نبوی میں مشرف بہ اسلام ہوئے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ٥ھ نبوی میں اسلام لائے اس وقت تک چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں نے اسلام قبول کیا تھا ۔آپ کو " فاروق " کا لقب اس واقعہ کے بعد ملا کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوا اور تصفیہ کے لئے یہودی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث بنانے کی تجویز رکھی ، منافق یہودکے اس سردار کعب بن اشرف کو ثالث بنانے پر مصر تھا ، کافی حیل وحجت کے بعد دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث بنانا مان لیا ۔چنانچہ وہ دونوں اپنا قضیہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا کیونکہ اس کا حق پر ہونا ثابت تھا لیکن منافق نے اس فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور کہنے لگا کہ اب ہم عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو ثالث بنائیں گے ، وہ جو فیصلہ دیں گئے ہم دونوں کے لئے واجب التسلیم ہوگا ۔ یہودی نے معاملہ کو نمٹانے کی خاطرمنافق کی یہ بات بھی مان لی اور اس ساتھ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے پا س گیا ۔ یہودی نے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ بتایا کہ ہم دونوں پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ثالث مان کر ان کے پاس گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا تھا مگر یہ شخص (منافق ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہ ہوا اور اب مجھے آپ کے پاس لے کر آیا ہے ۔ حضرت عمر نے منافق سے پوچھا : اس (یہودی ) نے جو بیان کیا ہے وہ صحیح ہے ؟منافق نے تصدیق کی کہ ہاں اس کا بیان بالکل درست ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا : تم دونوں یہیں ٹھہرو ،جب تک میں نہ آؤں واپس نہ جانا ۔ یہ کہہ کر گھر میں گئے اور تلوار لے کر باہر نکلے اور پھر اس تلوار سے منافق کی گردن اڑا دی اور کہا جو شخص اللہ اور اللہ کے رسول علیہ السلام کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے اس کے حق میں میرا فیصلہ یہی ہوتا ہے ،
    اس منافق کے وارث حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ پر قتل کا دعویٰ کیا اور قسمیں کھانے لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ کے پاس تو صرف اس وجہ سے گئے تھے کہ شایدوہ اس معاملہ میں باہم صلح کرادیں یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے انکار تھا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں۔
    الم تر الی الذین یزعمون انہم امنوبما انزل الیک وماانزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت ۔
    " کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور اس کتاب پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی وہ اپنے مقدمے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں (حالانکہ ان کو یہ حکم ہواہے کہ اس کا کفر کریں ) ۔"
    ان آیات میں اصل حقیقت ظاہر فرما دی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا لقب ۣۣ::فاروق:: فرمایا۔
    اب کوئی منافق اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے یہ نہ کہہ دے کہ میرا بھائی اُس وقت اکیلا تھا اس لیے اس کو قتل کردیا تھا اگر میں ساتھ ہوتا تو وہ ایسا نہ کر سکتے۔
    اور یہاں ایک اور بات قابلِ فکر ہے کہ جو نبی علیہ السلام اور اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا، یا لیتا یا پسند نہیں کرتا تو اس کا ایمان نہیں ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ کا ارشاد بھی ہے کہ
    اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ 44؀
    ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالٰی کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچواور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ سورۃ المائدہ :آیت:۴۴
    تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ عدالتیں کس قانون کے تحت لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کرتی ہیں؟
    اگر تو وہ اللہ کے نازل کردہ قانون سے کرتی ہیں تو ٹھیک بصورتِ دیگر معاملہ سنگین ہے۔
    جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  2. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0

    حدیث نمبر ۱
    ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سونے کی حالت میں تھا کہ میں نے یہ خواب دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ان (کے بدن) پر قمیص ہے، بعض کی قمیص تو صرف چھاتی تک ہی ہے، اور بعض کی اس سے نیچے ہےاورعمررضی اللہ تعالٰی عنہ بھی میرے آگے پیش کئے گئے اور ان (کے بدن) پر جو قمیص ہے (وہ اتنا نیچا) ہے کہ وہ اس کو کھینچتے ہوئے چلتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر دین ہے۔
    صحیح بخاری:جلد اول:
    باب :اہل ایمان کا اعمال میں ایک دوسرے سے زیادہ ہونے کا بیان
    اس حدیث سے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے دین و ایمان کا پتا چلتا ہے کہ آپ کا ایمان اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے زیادہ تھا اور آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ نبی علیہ السلام کی خواب بھی وحی کی قسموں میں سے ایک قسم ہوتی ہے۔ اور اب اگر کوئی عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایمان پر شک کرتا ہے تو اصل میں وہ نبی علیہ السلام کی بات کا انکار کرتا ہے۔

    حدیث نمبر ۲
    ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ میں سورہا تھا (خواب میں) مجھے ایک پیالہ دودھ کا دیا گیا، تو میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیری (کے سبب سے رطوبت) میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ نے فرمایا کہ علم۔
    صحیح بخاری:جلد اول: باب : علم کی فضیلت کا بیان
    اس فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ نے بہت زیادہ علمِ دین عطاء کیا تھا، اور یہ علم بذریعہ نبی علیہ السلام عطاء کیا گیا اور اس سے ثابت ہوا کہ نبی علیہ السلام عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاد محترم ہیں۔
    حدیث نمبر ۳
    حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تم میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنہ کے متعلق حدیث یاد ہے ؟ میں نے کہا مجھے یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا، عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا تم اس پر زیادہ دلیر ہو بتاؤ آپ نے کیا فرمایا ؟ میں نے کہا آپ نے فرمایا انسان کے لئے اس کے بیوی بچے اور پڑوسی میں ایک فتنہ ہوتا ہے نماز صدقہ اور اچھی بات اس کے لئے کفارہ ہے اور سلیمان نے کہا کبھی اس طرح کہتے کہ نماز صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا (اس کا کفارہ ہے) عمر رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا مقصد یہ نہیں، میرا مقصد تو وہ فتنہ ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح موج مارے گا۔ حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا میں نے کہا اے امیرالمؤمنین ! آپ کو اس سے کوئی خطرہ نہیں، اس لئے کہ آپ اور اُس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا وہ بند دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے ؟ میں نے جواب دیا نہیں ! بلکہ توڑا جائے گا انہوں نے کہا کہ جب وہ توڑا جائے گا تو کیا پھر کبھی بند نہ ہوگا میں نے جواب دیا ہاں (کبھی بند نہ ہوگا) ابووائل کا بیان ہے ہم نے مسروق سے کہا حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھو، انہوں نے حذیفہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، کہا ہاں اس یقین کے ساتھ جانتے ہیں جس طرح ہر آنے والے دن کے بعد رات کے آنے کا یقین ہوتا ہے اور یہ اس لئے کہ جو حدیث میں نے بیان کی ہے اس میں غلطی نہیں ہے۔
    صحیح بخاری:جلد اول:
    اور یہ نبی علیہ السلام کا فرمان حرف با حرف سچ ثابت ہوا کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کیا گیا تھا اور آپ کو شہید کرنے والا کوئی مسلم نہیں تھا اور نہ ہی منافق تھا بلکہ آتش پرست ایرانی تھا، اور اس سے عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی وہ دُعا پوری ہوئی جو انہوں نے اپنے اللہ سے مانگی تھی کہ
    زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے تھے اے پروردگار!میرا قاتل ایسے شخص کو نہ بنانا جس نے تجھے ایک سجدہ بھی کیا ہو تاکہ اس سجدہ کی وجہ سے قیامت کے دن تیرے سامنے مجھ سے جھگڑے ۔موطا امام مالک:جلد اول:
    ایک حیران کن بات وہ یہ کہ اُس آتش پرست کا بہت بڑا دربار ایران میں بنایا گیا ہے اور اس کو لوگ اتنا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ ان کا کوئی قومی ہیرو ہو اس کی ویڈیو بھی میں یہاں اپلوڈ کرونگا آپ لوگ خود اس کو دیکھیں اور ان ظالموں کے کرتوت اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
     
  3. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

    حدیث نمبر ۴
    ابن عمررضی اللہ تعالٰی عنہم روایت کرتے ہیں، کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہود و نصاری کو سر زمین حجاز سے جلا وطن کر دیا، اور رسول اللہ علیہالسلام جب خیبر پر غالب ہوئے تو یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا، اس لئے کہ جب آپ کا غلبہ وہاں ہو گیا تو وہاں کی زمین اللہ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کی ہو گی، چناچہ جب یہودیوں کو نکالنا چاہا، تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو زمین پر قائم رہنے دیں اور کھیتی کا سارا کام کریں اور آدھی پیداوار لے لیں تو ان یہودیوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہم تم کو اس پر قائم رکھیں گے جب تک ہماری مرضی ہو گی، اس لئے وہ لوگ اس پر قائم رہے، یہاں تک کہ حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے (اپنی خلافت میں) یہودیوں کو تیماء اور اریحاء کی طرف جلاوطن کر دیا۔
    صحیح بخاری:جلد اول
    کچھ یہودیوں کو نبی علیہ السلام نے ہی جلاوطن کر دیا تھا اور کچھ نے یہ آفر کی کہ آپ ہم کو یہاں رہنے دیں ہم آپ کو غلہ کا آدھا حصہ دیں گے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تک ہماری مرضی ہوگی یعنی ہم کسی بھی وقت تم لوگوں کو یہاں سےنکال سکتے ہیں، تو پھر اس کا م کو عمررضی اللہ تعالٰی عنہ نے سرانجام دیا تھااور تمام یہود کے قبائل کو جلاوطن کر دیا۔
    حدیث نمبر ۵
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا تو وہاں ایک عورت ایک محل کی جانب میں وضو کرتی ہوئی ملی میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ تو فرشتوں نے کہا کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا فورا مجھے عمرکی غیرت کا خیال آیا تو میں الٹے پاؤں واپس آگیا (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بھلا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیرت کرسکتا ہوں۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل چکی تھی اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی نبی علیہالسلام سے والہانہ محبت کا بھی پتا چلتا ہے کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ رو پڑے کہ میں بھلا آپ علیہ السلام پر غیرت کرسکتا ہوں۔ اور تیسرا یہ معلوم ہوا کہ جن کی غیرت کا احساس نبی علیہ السلام کرتے تھے وہ واقعی بہت غیرت والے ہوں گے اور جو عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں آج کے گندی ذہنیت والے لوگ الزام تراشیاں کرتے ہیں اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں ایسی گندی زبان استعمال کرتے ہیں کہ میں اس کو لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ صرف اور صرف اپنے گٹیے پن کا اظہار کرتے ہیں وہ سب الزام ایسے ہی ہیں جیسے منافقین نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگائے تھےاور ان الزامات کو اللہ نے جھوٹا قرار دے دیا تھا، اور جو آج کے منافق اور بےدین لوگ نبی علیہ السلام کے مخلص اور پیارے ساتھیوں پر الزامات لگا رہے ہیں اور ان کے سب الزامات احادیث مبارک سے رد ہوجاتے ہيں الحمدللہ۔
     
  4. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حدیث نمبر ۶
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم سے پہلی امتوں میں کچھ لوگ محدث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدث (ملہم) ہوا تو وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگا، زکریا ابن ابی زائدہ سعد ابی سلمہ ابوہریرہ کی دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے بیشتر بنی اسرائیل میں کچھ لوگ ایسے ہوتے تھے کہ ان سے (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) الہام ہوتا تھا پس اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوگا تو عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہوگا۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اس حدیث مبارک سے دو۲ چیزیں ثابت ہوتی ہیں ایک یہ کہ عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کی بزرگی کی دلیل کہ آپ اللہ کے کتنے قریب تھے اور دوسرا یہ کہ نبی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق کہ اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوا کہ جسے اللہ کی طرف سے الہام ہو تو وہ صرف عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں اور جو آجکل جاہل ایسا دعوی کرتے ہیں کہ ان کو الہام ہوتا ہے تو ان کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی فرمانِ رسول علیہ السلام کافی ہے کہ اگر میری امت میں ایسا کوئی ہوا تو وہ صرف اور صرف عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
    حدیث نمبر ۷
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا چرواہے نے اس بکری کو بھیڑیئے سے چھڑا لیا تو بھیڑیئے نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا سبع کے دن (پھاڑنے والے) بکری کا کون محافظ ہوگا؟ جس دن کہ میرے سوا بکری چرانے والا کوئی نظر نہ آئے گا اور ایک شخص بیل کو ہانکے جا رہا تھا کہ اس پر سوار ہو گیا تو بیل نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا مجھے اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ تم مجھ پر سواری کرو بلکہ میں کاشت کاری کے کاموں کے لئے پیدا کیا گیا ہوں لوگوں نے یہ واقعہ سن کر سبحان اللہ کہا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ اس پر ایمان لائے ہیں۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    سبحان اللہ اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی علیہ السلام کی نظر میں ان صحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بہت زیادہ قدرو منزلت تھی اسی لیے ان سےپوچھے بِنا یہ فرمایا کہ اس واقعہ پر مَیں ،ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے ۔
     
  5. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حدیث نمبر ۸
    ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں وضو کر کے باہر نکلے اور جی میں کہا کہ میں آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگا رہوں گا اور آپ ہی کے ہمراہ رہوں گا وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے مسجد میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا لوگوں نے بتلایا کہ آپ اس جگہ تشریف لے گئے میں بھی آپ کے نشان قدم مبارک پر چلا یہاں تک کہ بیراریس پر جا پہنچا اور دروازہ پر بیٹھ گیا اور اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں کا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت سے فارغ ہوئے اور آپ نے وضو کیا پھر میں آپ کے پاس گیا تو آپ بیراریس پر تشریف فرما تھے آپ اس کے چبوترے کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو کھول کر کنویں میں لٹکا دیا تھا میں نے سلام کیا اس کے بعد میں لوٹ آیا اور دروازہ پر بیٹھ گیا اور اپنے جی میں کہا کہ آج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان بنوں گا پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے کہا ابوبکر! میں نے کہا ٹھریئے پھر میں آپ کے پاس گیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ابوبکر اجازت مانگتے ہیں فرمایا ان کو اجازت دو اور جنت کی بشارت دے دو میں نے آگے بڑھ کر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا اندر آ جائیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں چناچہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف چبوترے پر بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیئے اور اپنی پنڈلیاں کھول لیں پھر میں لوٹ گیا اور اپنی جگہ بیٹھ گیا میں نے اپنے بھائی کو گھر میں وضو کرتا ہوا چھوڑا تھا وہ میرے ساتھ آنے والا تھا میں نے اپنے جی میں کہا کاش اللہ فلاں شخص (یعنی میرے بھائی) کے ساتھ بھلائی کرے اور اسے بھی یہاں لے آئے یکایک ایک شخص نے دروازہ ہلایا میں نے کہا کون؟ اس نے کہا عمر میں نے کہا ٹھریئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کر کے عرض کیاعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں اجازت مانگتے ہیں فرمایا ان کو اجازت دو اور انہیں بھی جنت کی بشارت دے دو میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کہا اندر آ جایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے وہ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چبوترہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا دیئے اس کے بعد میں لوٹا اور اپنی جگہ جا بیٹھا پھر میں نے کہا کاش اللہ تعالیٰ فلاں شخص (یعنی میرے بھائی) کے ساتھ بھلائی کرتا اور اسے بھی یہاں لے آتا چناچہ ایک شخص آیا دروازہ پر دستک دینے لگا میں نے پوچھا کون؟ اس نے کہا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عفان! میں نے کہا ٹھریئے اور میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اندر جا کر اطلاع دی فرمایا ان کو اندر آنے کی اجازت دو نیز انہیں جنت کی بشارت دو ایک مصیبت پر جو ان کو پہنچے گی میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا اندر آ جائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی پھر وہ اندر آئے اور انہوں نے چبوترہ کو بھرا ہوا دیکھا تو اس کے سامنے دوسری طرف بیٹھ گئے (شریک راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ سعید بن مسیب کہتے تھے میں نے اس کی تاویل ان کی قبروں سے لی ہے۔
    صحیح بخاری:جلد دوم
    سبحان اللہ اس حدیث میں تین خلفاءراشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہےاور بہت افسوس کے ساتھ کہ کچھ ظالم اور نیچ ذہنیت رکھنے والے لوگ ان تین اصحابِ رسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہی سب سے زیادہ دشمن ہیں وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کو نبی علیہ السلام نے اپنے بہترین اصحاب میں شامل فرمایا اور ان کو جنت کی بشارت ان کی زندگی میں کردی تھی جوکہ منافقین کو ایک آنکھ بھی نہ بائی اور شروع سے لے کر آج تک آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ انہی تین اصحاب رضی اللہ عنہم کے سب سے زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔

    حدیث نمبر ۹
    عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (میں نے خواب میں دیکھا) کہ میں ایک کنویں کے اوپر ہوں اور اس سے پانی کھینچ رہا ہو ابوبکر اور عمر میرے پاس آئے ابوبکر نے ڈول لیا تو انہوں نے ایک دو ڈول پانی نکالے اور ان کے ڈول کھینچنے میں کمزوری (پائی جاتی) تھی اللہ تعالیٰ معاف کریں پھر عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ سے وہ ڈول لے لیا جو ان کے ہاتھ میں ہلکا پھلکا بن گیا پس میں نے کسی جوان قوی مضبوط شخص کو نہیں دیکھا جو ایسی قوت کے ساتھ کام کرتا ہو انہوں نے اس قدر پانی کھینچا کہ تمام لوگ سیراب ہو گئے پانی کافی ہونے کی وجہ سے اس جگہ کو لوگوں نے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا لیا۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اس خواب کی تعبیر شاید یہ ہو کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں کم علاقہ مسلمانوں نے فتح کیا تھا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورمیں زیادہ علاقہ تقریبا ۲۴ لاکھ مربع کلومیٹر کا علاقہ فتح کیا تھا۔ باقی اصل حقیقتِ حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
     
  6. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حدیث نمبر ۱۰
    حضرت عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمررضی اللہ عنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اس واقعہ سے نبی علیہ السلام اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آپس کی محبت اور الفت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سبحان اللہ
    حدیث نمبر ۱۱
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم ، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن ابی مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا تو جب آپ جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن پکڑ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز پڑھائیں گے جس نے ایک دن یہ باتیں کہیں تھیں غرض میں نے اس کی حرکتیں آپ کو یاد دلائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قدرے مسکرائے اور ارشاد فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! مجھے جانے دو کیونکہ اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ اگر میں یہ سمجھوں کہ کوئی ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے بخش دیا جائے گا تو میں ستر سے زیادہ بار استغفار کروں گا۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس تشریف لائے کہ فورا سورت براءت کی یہ آیات نازل کی گئیں کہ (وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ 84؀) اور ان میں سے کسی پر کبھی نماز بھی نہیں پڑھنا جو مرجائے، اور نہ ہی کھڑے ہونا اس کی قبر پر، کیوں کہ انہوں نے کفر کیا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ، اور یہ مرے تو اس حال میں کہ فاسق تھے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بعد کہا کرتے تھے کہ مجھے اپنی جرات پر حیرت ہوتی ہے کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز جنازہ سے روکا حالانکہ اللہ اور اس کا رسول علیہ السلام خوب جانتے ہیں۔
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اس حدیث سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ نبی مکرم علیہ السلام کتنے زیادہ شفیق و کریم تھے کہ منافق کے لیے بھی اتنا دردِ دل رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے آپ کتنے شفیق ہوں گے اس کا اندازہ لگانا ہمارے لیے مشکل ہے۔
    اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ آپ کی بات کی تعید اللہ نے قرآن میں کردی اور اس کے بعد نبی علیہ السلام نے کبھی بھی کسی منافق کا جنازہ نہ پڑھا۔
    حدیث نمبر ۱۲
    غزوہ بدر
    عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دن مشرکین کی طرف دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تین سو انیس تھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف منہ فرما کر اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور اپنے رب سے پکار پکار کر دعا مانگنا شروع کر دی اے اللہ! میرے لئے اپنے کئے ہوئے وعدہ کو پورا فرمایا اے اللہ! اپنے وعدہ کے مطابق عطا فرما اے اللہ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اپنے رب سے ہاتھ دراز کئے قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ سے گر پڑی پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھایا اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ڈالا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور عرض کیا اے اللہ کے نبی آپ کی اپنے رب سے دعا کافی ہو چکی عنقریب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے کئے ہوئے وعدے کو پورا کرے گا اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّي) جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا پس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں کے ذریعہ امداد فرمائی حضرت ابوزمیل نے کہا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حدیث اس دن بیان کی جب مسلمانوں میں ایک آدمی مشرکین میں سے آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس سے آگے تھا اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی ضرب لگنے کی آواز سنی اور یہ بھی سنا کہ کوئی گھوڑ سوار یہ کہہ رہا ہے اے حیزوم آگے بڑھ پس اس نے اپنے آگے مشرک کی طرف دیکھا کہ وہ چت گرا پڑا ہے جب اس کی طرف غور سے دیکھا تو اس کا ناک زخم زدہ تھا اور اس کا چہرہ پھٹ چکا تھا پس اس انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے سچ کہا یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی پس اس دن ستر آدمی مارے گئے اور ستر قید ہوئے ابوزمیل نے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جب قیدیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے فرمایا تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہمارے چچا زاد اور خاندان کے لوگ ہیں میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فدیہ وصول کر لیں اس سے ہمیں کفار کے خلاف طاقت حاصل ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ اللہ انہیں اسلام لانے کی ہدایت عطا فرما دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب آپ کی کیا رائے ہے میں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول میری وہ رائے نہیں جو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے ہے بلکہ میری رائے یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہمارے سپرد کر دیں تاکہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں عقیل کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کریں اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک کا نام لیا تاکہ میں اس کی گردن مار دوں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا اور سردار ہیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی طرف مائل ہوئے اور میری رائے کی طرف مائل نہ ہوئے جب آئندہ روز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے بتائیں تو سہی کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست کو رلا دیا پس اگر میں رو سکا تو میں بھی روؤں گا اور اگر مجھے رونا نہ آیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت ہی اختیار کرلوں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس وجہ سے رو رہا ہوں جو مجھے تمہارے ساتھیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے پیش آیا ہے تحقیق مجھ پر ان کا عذاب پیش کیا گیا جو اس درخت سے بھی زیادہ قریب تھا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریبی درخت کی طرف اشارہ کیااور اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی (مَا کَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَکُونَ لَهُ) نبی کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اس کے قبضہ میں قیدی ہوں اور وہ انکو چھوڑ دے یہاں تک کہ قتل یا زیر نہ کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے اللہ عزوجل کے قول پس کھاؤ جو مال غنیمت تمہیں ملا ہے۔ پس اللہ نے صحابہ کے لئے غنیمت حلال کر دی۔
    صحیح مسلم:جلد سوم:
    بعض لوگ کہتے ہیں کہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی جہاد میں خود شرکت نہیں کی، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں جو صرف نبی کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے خلاف ہی ہوتی ہیں کہ جنہوں نے شروع اسلام سے ہی آپ علیہ السلام کا ساتھ دیا اور جہاد کیا اپنے مال و جان کے ساتھ دین اسلام کے لیے وہ وہ قربانیاں دیں جن کا یہ منافق سوچ بھی نہیں سکتے تھے اس سب کے باوجود جو زبان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولے ایسی زبان کو کاٹ دینا بھی اہم جہاد ہے اب دیکھیں اس حدیث میں اسلام کی پہلی جنگ کا ذکر ہے اور ۳۱۹ ایک اور روایت کے مطابق ۳۱۳ مسلمانوں کا مقابلہ ۱۰۰۰ مشرکین سے تھا اور لیکن اللہ کی نصرت اور اصحاب رسول علیہ السلام کی ثابت قدمی سے اللہ نے فتح عطاء فرمائی اور اس غزوہ میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے اور اس جگہ بھی اللہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تعید میں آیات نازل فرمائیں اور ساتھ مسلمانوں پر مالِ غنیمت بھی حلال کردیا گیا، اس سے پہلے یہ مسلمانوں پر حرام تھا بعض روایات کے مطابق مال غنیمت کو ایک کھلی جگہ رکھ دیا جاتا اور آگ آ کر اس مال کو بھسم کر دیتی تھی۔ اب آگے بھی کچھ ایسی احادیث پیش کرتا ہوں جن میں غزوات میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت کا ذکر ہے۔
     
  7. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حدیث نمبر ۱۳
    غزوہ خیبر میں شرکت

    ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، غزوہ خیبر میں چند صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ فلاں آدمی شہید ہے یہاں تک کہ ایک آدمی پر گزر ہوا تو اس کے متعلق بھی کہنے لگے کہ فلاں شہید ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں میں نے اسے چادر یا عباء کی چوری کی وجہ سے اس کو جہنم میں دیکھا ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عمربن خطاب جاؤ اور لوگوں میں آواز لگا دو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نکل کر لوگوں میں یہ آواز لگادی کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
    صحیح مسلم:جلد اول:
    اس حدیث سے ایک بات یہ بھی ملی کہ مال غنیمت میں سے چوری کرنا کتنا سخت گناہ ہے کہ جس کی سزا جہنم ہے، غزوہ خیبر میں بھی عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ شریک ہوئے تھے اور نبی علیہ السلام کے منادی کے بھی فرائض انجام دیے جو کہ ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔
    حدیث نمبر ۱۴

    غزوہ خندق
    جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ خندق والے دن قریش کے کافروں کو سب وشتم کرنے لگے اور عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول، اللہ کی قسم عصر کی نماز ابھی تک نہیں پڑھی اور سورج غروب ہونے کے قریب ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میں نے بھی عصر کی نماز پڑھی ہو، پھر ہم بطحان کی طرف اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور ہم نے بھی وضو کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھائی پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔
    صحیح مسلم:جلد اول:
    یعنی غصہ کی وجہ سے مشرکین کو کوسنے لگے کہ جن کی وجہ سے نماز فوت ہو گئی تھی۔ اس حدیث سے ایک مسئلہ بھی ملا کہ اگر کسی وجہ سے نماز فوت ہو جائے تو پہلے اس نماز کو ادا کیا جائے جو رہ گئی ہو پھر دوسری نماز پڑھی جائے جس کا وقت شروع ہو گیا ہو۔
    حدیث نمبر ۱۵
    غزوہ بدر اور فتح مکہ
    ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رمضان میں دو جنگیں لڑیں غزوہ بدر اور غزوہ فتح مکہ ان دونوں جنگوں میں ہم نے روزہ نہیں رکھا اس باب میں حضرت ابوسعید سے بھی روایت ہے امام ابوعیسی ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو اس سند کے علاوہ نہیں جانتےابوسعید سے بھی یہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غزوہ میں افطار کا حکم بھی دیا تھا اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سے بھی مروی ہے کہ وہ بھی دشمن سے مقابلے کے وقت افطار کی اجازت دیتے تھے بعض اہل علم کا یہی قول ہے۔
    جامع ترمذی:جلد اول:
    ان چند احادیث سے روزروشن کی طرح واضح ہوا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جتنے بھی غزوات ہوئے تھے سبھی میں شرکت کی اور نبی علیہ السلام کے شانہ بشانہ کفار و مشرکین کے خلاف قتال کیا اور کئی ایک مشرکین کو واصل جہنم کیا،یہ وہ احادیث ہیں جو مجھ کم علم کی نظر سے گزری ہیں اس کے علاوہ بھی بےشمار احادیث ہوں گی۔اب بھی کوئی جھوٹا، جھوٹے الزام لگائے تو لگاتا رہے، سیانے کیا کہتے ہیں کہ چاند کی طرف کوئی تھوکے تو وہ تھوک اسی پر واپس گڑتاہے نہ کہ چاند پر۔
    حدیث نمبر ۱۶
    سالم بن عبد اللہ بن عمر، عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے کچھ عطا کیا کرتے تھے۔ تو میں عرض کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عطا فرمائیں۔ حسب معمول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ کچھ مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو اسے عطا فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے لے لے اور تیرے پاس اگر بغیر لالچ کے اور بغیر مانگنے کے کچھ مال آجائے تو اس کو حا صل کر لیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے اس کا دل میں خیال نہ کرو۔
    صحیح مسلم:جلد اول:
    یعنی عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے مسلمانوں کو اپنے اوپر اہمیت دیتے تھے جو کہ ایک اچھے مسلم کی پہچان ہے۔اور یہ کہ نبی علیہ السلام عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحفہ یا ویسے کوئی چیز محبت سے دیتے تھے۔
     
  8. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حدیث نمبر ۱۷
    حضرت ابن عدی سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو شخص مال فئی کا مصرف دریافت کرے تو اس کو بتا دینا چاہئے کہ اس کا مصرف وہی ہے جہاں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صرف کرنے کا حکم فرمایا ہے اور تمام مؤمنین نے ان کے فیصلہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی روشنی میں کہ اللہ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان اور دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے۔ عین عدل تصور کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عطایا کو مقرر کیا اور جزیہ کے بدلہ میں سب مذاہب والوں کا ذمہ لیا۔ اس میں نہ آپ نے پانچواں حصہ مقرر کیا اور نہ اس کو مال غنیمت کے مثل تصور کیا۔
    سنن ابوداؤد:جلد دوم:
    سبحان اللہ کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان اور دل پر حق کو جاری فرما دیا ہے اور اب بھی کوئی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کرئے تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے؟
    حدیث نمبر ۱۸
    حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔
    یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اس حدیث کو صرف مشرح بن ہاعان کی روایت سے جانتے ہیں۔
    جامع ترمذی:جلد دوم:
    حدیث نمبر ۱۹
    حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو ایک سونے کا محل دیکھا میں نے پوچھا کہ یہ کس کے لئے ہے؟ کہنے لگے قریش کے ایک نوجوان کے لئے ہے میں سمجھا کہ وہ میں ہی ہوں پس میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ کہنے لگے وہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
    جامع ترمذی:جلد دوم:
    حدیث نمبر ۲۰
    عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب وہ طواف کر رہے تھے خانہ کعبہ کا حجر اسود کو! کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں نہ چومتا تجھ کو پھر چوما حجر اسود کو۔
    موطا امام مالک:جلد اول:
    اس واقعہ میں عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سنت کے پابند اور توحید و ایمان سے لبریز نظر آتے ہیں۔

    حدیث نمبر ۲۱
    عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کر لینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔
    (ابو داؤد،ترمذی )
    مشکوۃ شریف:جلد دوم:
    اس حدیث میں نبی علیہ السلام عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انتہا درجے کی محبت کا اظہار فرما رہے ہیں کہ میرے جھوٹے بھائی ہمیں اپنی دُعاوں شریک کر لینا حالانکہ نبی علیہ السلام کو کسی کی دُعا کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی کہنا محبت کی نشانی ہے، اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا کہ نبی علیہ السلام نے ایسا کلمہ فرمایا کہ اس کے بدلہ میں مجھے ساری دنیا بھی دے دی جائے تو بھی مجھے اتنی خوشی نہ ہو جتنی اس ایک کلمہ کی وجہ سے مجھے ہوئی، اب وہ کلمہ کیا ہے اس کی اس میں وضاحت نہیں ہے شاید یہی ہو کہ :::میرے چھوٹے بھائی:::اس کے علاوہ بھی کوئی اور کلمہ ہوسکتا ہے جوکہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھ بیان نہیں کیا اس معاملہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا، بہرحال جو بھی ہوگا اس میں اتنی اہم اور خاص بات ہوگی توہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی خوشی کا اظہار کیا ہے۔

    حدیث نمبر ۲۲
    حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کی (ایک دن) اجازت طلب کی اس وقت کچھ عورتیں قریش کی (یعنی ازواج مطہرات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں اور باتیں کرنے میں ان کی آوازیں آپ سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (آپ سے) اجازت طلب کی اور ان عورتوں نے ان کی آواز سنی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور پردہ میں ہو گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت دی چناچہ وہ اندر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کے دانتوں کو ہمیشہ ہنسائے آپ اس وقت کیوں مسکرا رہے ہیں؟ حضور نے فرمایا ان عورتوں کی حالت پر مجھ کو تعجب ہے (میرے پاس بیٹھی ہوئی شور مچار ہی تھیں) تمہاری آواز سنتے ہی پردہ میں چلی گئیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آپ اس بات کے زیادہ مستحق تھے کہ وہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے کہا اے اپنی جان کی دشمن عورتو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں انہوں نے کہا ہاں تم سے اس لئے ڈرتی ہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنسبت عادت کے سخت اور سخت گو ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا! اے خطاب کے بیٹے کوئی اور بات کرو ان کو چھوڑو مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ جب تم سے شیطان کسی راستہ میں چلتے ہوئے ملتا ہے تو وہ تمہارے راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔
    صحیح بخاری:جلد دوم: باب: قرشی عدوی ابو حفص حضرت عمر بن خطاب کے فضائل کا بیان
    اس حدیث میں عمر رضی اللہ عنہ کی فصیلت ثابت ہوئی کہ آپ کو دیکھ کرشیطان آپ کا راستہ چھوڑ دیتا تھا کہ یہاں دال گلنے والی نہیں ہے، شیطان آپ کے جلال اور رعب کی وجہ سے آپ سے دوڑ رہتے، مگر آج کچھ ایسے بھی ہیں جو کہ عمر رضی اللہ عنہ کا نام سنتے ہی ان کی حالت بگڑنے لگتی ہے، چہرے کی حالت تبدیل ہوجاتی ہے، دل میں انتقام کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے، ان کا بس نہیں چلتا کہ اپنے بڑوں کا بدلہ کس طرح ان سے لیں کہ جن کو دیکھ وہ بھاگنے پر مجبور ہو جاتے تھے، اب لینا تو وہ اپنے بڑوں کا بدلہ چاہتے ہیں مگر بہانہ کوئی اور بنایا ہوا ہے۔
     
  9. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اثر نمبر ۱
    ایک کوفہ کے رہنے والے سے روایت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لشکر کے ایک افسر کو لکھا؛ کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض لوگ تم میں سے کافر عجمی کو بلاتے ہیں جب وہ پہاڑ پر چڑھ جاتا ہے اور لڑائی سے باز آتا ہے، تو ایک شخص اس سے کہتا ہے مت ڈر، پھر قابو پاکر اس کو مار ڈالاتا ہے؛ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں کسی کو ایسا کرتے جان لوں گا تو اس کی گردن ماروں گا۔
    موطا امام مالک:جلد اول:
    یعنی دینِ اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ جنگ میں دھوکہ دہی کی جائے کہ جھوٹ بول کر کسی کافر کو پاس بلایا جائے اور پھر اس کو قتل کردیا جائے۔ اسلام تو سچائی کا عَلم بلند کرنے والا دین ہے اس میں اس طرح دھوکہ دہی نہیں ہے جیسا کہ آج کل بھی یہ بات بہت مشہور ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے، یہ بہت غلط بات ہے۔

    اثر نمبر ۲
    زید بن اسلم سے روایت ہے کہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے اے اللہ میں چاہتا ہوں کہ شہید ہوں تیری راہ میں اور مروں تیرے رسول علیہ السلام کے شہر میں۔
    موطا امام مالک:جلد اول:
    سبحان اللہ کتنا پیار تھا آپ کو اپنے پیارے نبی علیہ السلام سے اور ان کے شہر مدینہ طیبہ سے کہ یہاں پر ہی مرنے کی دُعا کیا کرتے تھے تو اللہ نے بھی آپ کی دُعا قبول فرمائی اور آپ کو شہید مدینہ میں ہی کیا گیا تھا اور آپ کی محبت تھی کہ آپ نبی علیہ السلام کے پہلو میں دفن بھی ہوئے اور یہ اعزاز صرف ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہی ملا ہے

    اثر نمبر ۳
    یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے؛ عزت مومن کے تقوی میں ہے اور دین اس کی شرافت ہے اور مروت اس کا خلق ہے اور بہادری اور نامردی دونوں خلقی صفتیں ہیں جس شخص میں اللہ چاہتا ہے ان صفتوں کو رکھتا ہے تو نامرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور بہادر اس شخص سے لڑتا ہے جس کو جانتا ہے کہ گھر تک نہ جانے دے گا اور قتل ایک موت ہے موتوں میں سے اور شہید وہ ہے جو اپنی جان خوشی سے اللہ کے سپرد کر دے ۔
    موطا امام مالک:جلد اول:
    یہ اقوالِ زریں عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں۔
     
  10. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اثر نمبر ۴
    عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ آپ کیوں اپنا قائم مقام مقرر نہیں کر دیتے، انہوں نے کہا کہ اگر میں اپنا قائم مقام مقرر کر دوں، تو مجھ سے پہلے ابوبکر جو مجھ سے اچھے خلیفہ تھے، بنا چکے ہیں۔ اور اگر میں چھوڑ دوں تو ہم سے جو بہتر ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلیفہ نہیں بنایا، لوگوں نے ان کی تعریف کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ لوگ (خلافت کی) خواہش کرنے والے اس سے ڈرنے والے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میں اس سے پوری طرح نجات پاؤں، نہ مجھے اس سے کچھ فائدہ ہو اور نہ کوئی نقصان ہو، میں نہ تو زندگی میں اور نہ مرنے کے بعد اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔
    صحیح بخاری:جلد سوم:
    اس واقعہ میں بھی عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نبی علیہ السلام سے والہانہ محبت کا اظہار ہو رہا ہےکہ انہوں نے اپناقائم مقام مقرر اس لیے نہیں کیا کہ ایسا نبی علیہ السلام نے نہیں کیا تھا اور آپ اگر چاہتے تو اپنے بیٹوں میں سے بھی کسی کو نامزد کرسکتے تھے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا، آپ نے زندگی کے آخری لمحات میں بھی سنت نبی علیہ السلام کو نہیں چھوڑا یہ ہوتی ہے محبت اور ایک آج ہم لوگ ہیں کہ بس زبان سے محبتِ رسول علیہ السلام کے دعوئے کر دیتے ہیں عمل میں بےشک کبھی اس محبت کا اظہار نظر نہ آتا ہو۔
    دعوی محبت کا ہے کہ ہم کو نبی علیہ السلام سے کوئی پیارا نہیں لگتا مگر اپنے چہرے کو سنتِ نبوی علیہ السلام سے سجاتے نہیں ہیں،
    دعوی محبتِ نبوی علیہ السلام کا ہے پر ان کے اخلاق کا ایک نمونہ بھی زندگی میں نظر نہیں آتا،
    دعوی محبتِ نبوی علیہ السلام کا ہے پر زندگی گزارنے کے سب طریقے کفار کے لینے ہیں،
    دعوی محبت نبوی علیہ السلام کا ہے پر خوشی غمی میں وہ سب کام کرنے ہیں جو سنتِ نبوی علیہ السلام کے خلاف ہیں۔
    کیا ایسا دعوی محبت اللہ قبول فرمائے گا؟؟؟
    کیا ایسا دعوی محبت آخرت میں کوئی فائدہ پہچائے گا؟؟؟
    کیا ایسا دعوی محبت ہم کو نبی علیہ السلام کی شفاعت کا حقدار ٹھہرائے گا؟؟؟
    کیا ایسا دعوی محبت ہم کو محبانِ رسول علیہ السلام میں داخل کرتا ہے؟؟؟
    بھائیو اور بہنو آج ہمارے پاس وقت ہے اپنی زندگیوں کو باعمل بنا لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا دعوی محبت ہمارے منہ پر مار دیا جائے۔
    اثر نمبر۵
    حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب میرے ابو یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زخمی کیا گیا تو میں اس وقت موجود تھا لوگوں نے ان کی تعریف کی اور کہنے لگے اللہ تعالی آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اللہ کی رحمت کی امید کرنے والا ہوں اور اس سے ڈرنے والا ہوں لوگوں نے عرض کیا آپ خلیفہ مقرر فرما دیں تو آپ نے کہا کیا میں تمہارے معاملات کا بوجھ زندہ اور مرنے دونوں صورتوں میں برداشت کروں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس معاملہ خلافت سے میرا حصہ برابر ہو جائے نہ یہ مجھ پر بوجھ ہو اور نہ میرے لئے نفع اگر میں خلیفہ مقرر کروں تو تحقیق ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے بہتر وافضل تھے جنہوں نے خلیفہ نامزد کیا اور اگر میں تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دوں تو تمہیں اس حال میں ہم سے بہتر وافضل اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا عبد اللہ نے کہا جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں فرمائیں گے۔
    صحیح مسلم:جلد سوم:
    اس واقعہ سے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تقوی کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر اللہ سے ڈرنے والے تھے کہ آپ نے کسی کو خلیفہ نامزد اس لیے نہیں کیا کہ اس طرح اگر وہ خلیفہ کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے تو اس کا بوجھ مجھ پر نہ آئے اسی لیے کہا کہ :::کیا میں تمہارے معاملات کا بوجھ زندہ اور مرنے دونوں صورتوں میں برداشت کروں میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اس معاملہ خلافت سے میرا حصہ برابر ہو جائے نہ یہ مجھ پر بوجھ ہو اور نہ میرے لئے نفع::: تو اس ساری بات میں اللہ کا ڈر اور خوف نمایاں ہے جو کہ آپ کا تقوی تھا ورنہ آپ کے دور خلافت میں بہت ہی اچھے اور اسلام کی ترقی کے کام ہی ہوئے تھے۔
     
  11. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اثر نمبر ۶
    معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماریں اور میں اسے یہی خیال کرتا ہوں کہ میری موت قریب ہے کچھ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور خلافت اور اس چیز کو جسے دے کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا ہے ضائع نہیں کرے گا اگر میری موت جلد ہی آجائے تو خلافت مشورہ کے بعد ان چھ حضرات::: علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم ::: کے درمیان رہے گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات تک راضی رہے اور میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس معاملہ میں جن کو خود میں نے اپنے ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر طعن کریں گے اگر انہوں نے اس طرح کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن اور کافر گمراہ ہیں اور میں اپنے بعد کسی چیز کو اتنا اہم نہیں سمجھتا جتنا اہم میرے نزدیک کلالہ ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں اتنا نہیں پوچھا جتنا کہ کلالہ کے بارے میں پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی چیز میں اتنی سختی نہیں فرمائی جتنی کہ اس مسئلہ میں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں ماری پھر فرمایا اے عمر کیا تجھے وہ آیت کافی نہیں جو گرمیوں کے موسم میں سورة النساء آیت نمبر ۱۷۶ نازل ہوئی (یَستَفتُونَکَ قُلِ اللہ یُفتِیکُم فِی الکَلا لَہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حکم پوچھتے ہیں فرما دیں کہ اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے۔۔۔۔الخ اور اگر میں زندہ رہا تو کلالہ کے بارے میں ایسا فیصلہ کروں گا جس کے متعلق ہر آدمی جس نے قرآن پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ تو ان لوگوں پر گواہ رہنا کہ جنہیں میں نے شہروں کی حکومت دی اور میں نے انہیں اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ ان پر انصاف کریں اور ان لوگوں کو دین کی باتیں سکھائیں اور ان کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سکھائیں اور جو مال غنیمت ان کو ملے اسے تقسیم کریں اور جس معاملہ میں کوئی مشکل پیش آئے تو میری طرف رجوع کریں پھر (فرمایا) اے لوگو! تم دو پودوں کو کھاتے ہو۔ میں ان کو اچھا نہیں سمجھتا ہوں:::یعنی ان کو کھا کر مسجد میں آنا:::، یہ پودے پیاز اور لہسن کے ہیں اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ان پودوں کے پھل کی کسی آدمی سے بدبو محسوس کرتے تو حکم فرماتے کہ اسے بقیع کی طرف نکال دیا جائے، تو جو آدمی انہیں کھائے تو خوب انہیں پکا کر ان کی بدبو مار دے۔
    صحیح مسلم:جلد اول:
    عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد میں کسی کی طرف خاص اشارہ ہے کہ:::اور میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اس معاملہ میں جن کو خود میں نے اپنے ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر طعن کریں گے اگر انہوں نے اس طرح کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمن اور کافر گمراہ ہیں :::اس میں بیان تو یہی کیا کہ اسلام پر طعن کریں گے جبکہ مارا عمر رضی اللہ عنہ نے ہے، تو اصل میں عمر رضی اللہ عنہ پر طعن کرنا اسلام پر طعن کرنا ہے۔ کیونکہ آپ نے کچھ منافقین کو مارا تھا، اور کسی کو جرم کرنے کی پاداش میں خود اپنے ہاتھ سے سزا بھی دی تھی، ان کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔ بہرحال اصل بات کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

    اثر نمبر۷
    حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے اردگرد جمع ہو گئے اور ان کے لئے دعا کی اور ان کی تعریف کرنے لگے اور ان کا جنازہ اٹھانے سے پہلے ان کی نماز جنازہ پڑھ رہے تھے اور میں بھی انہی لوگوں میں تھا، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں گھبرایا سوائے ایک آدمی سے کہ جس نے میرے پیچھے سے آ کر میرا کندھا پکڑا، میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے رحم کی دعا فرمائی اور پھر فرمایا (اے عمر!) آپ نے اپنے پیچھے کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا جس کے اعمال ایسے ہوں کہ ان اعمال پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو، آپ سے زیادہ اور اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کا ساتھ فرمائے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا کہ آپ فرماتے تھے کہ میں آیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور میں داخل ہوا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر داخل ہوئے، میں نکلا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نکلے، اور میں امید کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان دونوں کے ساتھ (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے ساتھ کر دے گا۔
    صحیح مسلم:جلد سوم:
    اس واقعہ میں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آپ کی تعریف کرنا اس بات کی شہادت ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض تھے اور نہ ہی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض تھے، بعض لوگ اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے خلیفہ نہ بننے کا غصہ اور غم تھا جس کی وجہ سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان اصحاب سے ناراض رہے یہ صرف ایک جھوٹا الزام ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر، کیونکہ حکومت کی خواہش کرنا اسلام میں منع ہے نبی علیہ السلام کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ ہم اُس کو امیر یا کوئی اور عہدہ نہیں دیتے جو اس کی مانگ کرتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے اعلي مرتبہ اور مقام والے حکومت کی حرص کرتے یہ صرف ایک الزام ہے جس کی وجہ سے آپ کی شان میں بھی کمی ہوتی ہے کہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حکومت کرنے کی لالچ رکھتے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ملنا انسان کے لیے بہت آزمائش کا کام ہے اور قیامت کےدن خلیفہ و امیر سے اس کے مامورین کی بابت بات پرس ہوگی۔اسی معاملے پر ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ
    ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عامل نہ بنائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک میرے کندھے پر مار کر فرمایا اے ابوذر تو کمزور ہے اور یہ امارت امانت ہے اور یہ قیامت کے دن کی رسوائی اور شرمندگی ہے سوائے اس کے جس نے اس کے حقوق پورے کئے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو ادا کیا۔
    صحیح مسلم:جلد سوم: باب: امارت اورخلافت کا بیان
     
  12. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اثر نمبر ۸
    عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب کو شہید ہونے سے چند دن پہلے مدینہ منورہ میں دیکھا وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف کے پاس کھڑے ہوئے فرما رہے تھے کہ تم دونوں نے جو کیا اچھا نہیں کیا کیا تم کو اس بات کا خیال نہیں آیا؟ کہ تم نے ارض سواد پر اس کی طاقت سے زیادہ خراج مقرر کر دیا ہے ان دونوں نے عرض کیا نہیں، ہم نے اس پر اس قدر خراج مقرر کر دیا جس کی وہ طاقت رکھتے ہے اس میں زیادتی کی کوئی بات نہیں ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، غور کرو شاید تم نے اس زمین پر اس قدر خراج مقرر کیا ہے جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے اس پر انہوں نے عرض کیا کہ نہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا تو میں اہل عراق کی بیوہ عورتوں کو اتنا خوش حال کر دونگا کہ اس کے بعد وہ کسی کی محتاج نہ رہیں گی عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ چوتھے دن وہ شہید کر دیئے گئے نیز عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ جس دن آپ شہید ہوئے میں کھڑا ہوا تھا میرے اور ان کے درمیان بجز عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور کوئی دوسرا نہیں تھا اور آپ دو صفوں کے بیچ میں سے گزرتے تھے تو صف سیدھی کرنے کی تلقین کرتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب صفوں میں کچھ خلل نہ دیکھتے تو آگے بڑھتے تھے اور اکثر سورہ یوسف یا سورہ نحل یا ایسی کوئی صورت پہلی ركعت میں پڑھا کرتے تھے، تاکہ سب لوگ جمع ہو جائیں جیسے ہی آپ نے تکبیر کہی (ایک شخص نے آپ کو زخمی کر دیا) میں نے آپ کو کہتے سنا مجھے کتے نے قتل کر ڈالا یا کاٹ کھایا، جب وه غلام دو دھاری چھری لئے ہوئے بھاگا تو دائیں بائیں جدهر بھی جاتا لوگوں کو اس سے مارتا، اس نے تیره آدمیوں کو زخمی كیا، ان میں سات تو قتل ہو گئے اس کو ایک مسلمان نے دیکھا اس نے اپنا لمبا کوٹ اس پر ڈال دیا پھر اس غلام کو خیال ہوا کہ وہ گرفتار کر لیا جائے گا، تو اس نے اسی خنجر سے خودکشی کر لی، حضرت عمر نے عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر ان کو آگے کیا جو شخص اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب تھا وه ان باتوں کو دیکھ رہا تھا جو میں نے دیکھیں اور جو لوگ مسجد کے کنارے پر کھڑے تھے ان کو کچھ معلوم نہ ہوا انهوں نے صرف حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز نہ سنی اور وه سبحان الله! سبحان الله! کہتے تھے، پھر ان لوگوں کو عبدالرحمن بن عوف نے جلد جلد نماز پڑھائی، جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر نے فرمایا، ابن عباس! دیکھو تو مجھ پر کون حمله آور ہوا ہے؟ وه تھوڑی دیر تک ادھر ادھر دیکھتے رهے، پھر انهوں نے کہا مغیره کے غلام نے آپ پر حمله کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا، کیا اس کاریگر نے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا جی ہاں! تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، اللہ تعالی اس کو غارت کرے میں نے تو اس کو ایک مناسب بات بتائی تھی، اللہ تعالی کا شکر ہے که اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر نهیں کی جو اسلام کے پیرو ہونے کا دعوی کرتا ہو، بلاشبه تم اور تمهارے والد ماجد اس بات کو پسند کرتے تھے که مدینه منوره میں غلام بہت ہو جائیں، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سب سے زیاده غلام تھے، ابن عباس نے کہا اگر آپ چاہو تو میں ایسا کروں، اگر چاہو تو میں انکو قتل کر دوں، حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے تو جھوٹ بولتا ہے کیونکہ جب وه تمهاری زبان میں گفتگو کرنے لگے اور تمهارے قبله کی طرف نماز پڑھنے لگے اور تمهاری طرح حج کرنے لگے، تو پھر تم انکو قتل نہیں کر سکتے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان كے گھر لے جایا گیا لوگوں کے رنج و الم کا یه حال تھا که گویا ان کو اس دن سے پہلے کوئی مصیبت ہی نه پہنچی تھی، کوئی کہتا فکر کی کچھ بات نہیں اچھے ہوجائیں گے، اور کوئی کہتا مجھے ان کی زندگی کی کوئی آس نہیں ہے پھر چھواروں کا بھیگا ہوا پانی لایا گیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسکو نوش فرمایا، تو وه ان کے پیٹ سے نکل گیا، اس کے بعد دودھ لایا گیا انهوں نے نوش فرمایا تو وه بھی شکم مبارک سے نکل گیا، لوگوں نے سمجھ لیا که وه اب زنده نه رهیں گے، پھر ہم سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، وهاں اور لوگ بھی آ رهے تھے، اکثر لوگ آپ کی تعریف کرنے لگے پھر ایک جوان شخص آیا اس نے کها اے امیرالمومنین! آپ کو اللہ تعالی کی جانب سے خوشخبری ہو اس لئے که آپ کو رسول الله صلی الله علیه وسلم کی صحبت اور اسلام قبول کرنے میں تقدم حاصل ہوا جس کو آپ خود بھی جانتے ہیں، جب آپ خلیفه بنائے گئے تو آپ نے انصاف کیا اور آخرکار شهادت پائی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں چاهتا ہوں که یه سب باتیں مجھ پر برابر ہو جائیں نه عذاب ہو نه ثواب جب وه شخص لوٹا تو اس کا تہبند زمین پر لٹک رها تھا.حضرت عمر نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس لاؤ چنانچه وه لایا گیا تو آپ نے فرمایا اے بھتیجے اپنا کپڑا اونچا کر که یه بات کپڑے کو صاف رکھے گی اور اللہ کو بھی پسند ہے، پھر آپ نے اپنے بیٹے عبدالله رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا دیکھو مجھ پر لوگوں کا کتنا قرض ہے؟ لوگوں نے حساب لگایا، تو تقریبا چھیاسی ہزار قرضه تھا، فرمایا اگر اس قرض کی ادائیگی کے لئے عمر کی اولاد کا مال کافی ہو تو انهی کے مال سے اسے ادا کرنا، وگر نہ پھر بنی عدی بن کعب سے مانگنا اگر ان کا مال بھی ناکافی ہو تو قریش سے طلب کر لینا، اس كے سوا کسی اور سے قرض لے کر میرا قرض ادا نہ کرنا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں جاؤ اور کہو کہ عمر آپ کو سلام کہتا ہے امیرالمومنین نہ کہنا کیونکہ اب میں امیر نہیں ہوں، اور کہنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اس بات کی اجازت مانگتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن کیا جائے چناچہ عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہم نے پہنچ کر سلام کے بعد اندر آنے کی اجازت چاہی (اجازت ملنے پر) اندر گئے تو ام المومنین کو روتے ہوئے دیکھا حضرت ابن عمر نے عرض کیا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب سلام کہتے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ اپنے دوستوں کے پاس دفن کئے جائیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا اس جگہ کو میں نے اپنے لیے اٹھا رکھا تھا مگر اب میں ان کو اپنی ذات پر ترجیح دیتی ہوں جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم واپس آئے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ تو ایک شخص نے ان کو اپنے سہارے لگا کر بٹھا دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا جواب لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین وہی جو آپ چاہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اجازت دے دی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے میں کسی چیز کو اس سے زیادہ اہم خیال نہ کرتا تھا پس جب میں مر جاوں تو مجھے اٹھانا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو سلام کر کے کہنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے سونپ دینا اور اگر وہ واپس کر دیں تو مجھ کوعام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اور اس کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاتشریف لائیں اور ان کے ساتھ اور عورتیں بھی آئیں جب ہم نے ان کو دیکھا تو ہم لوگ اٹھ گئے وہ تمام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئیں اور ان کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر روئیں جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ عورتیں مکان میں چلی گئیں پھر ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی لوگوں نے عرض کیا امیرالمومنین کچھ وصیت فرمائیں اور کسی کو خلیفہ بنا دیں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں سے زیادہ کوئی خلافت کا مستحق نہیں ہے جن سے رسول اللہ انتقال کے وقت راضی تھے پھر آپ نے حضرت علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا نام لیا اور فرمایا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم تمہارے پاس حاضر رہا کریں گے مگر خلافت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے آپ نے یہ جملہ ابن عمر کی تسلی کے لیے کہا اور فرمایا کہ اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ حقیقتا اس کے حقدار ہیں ورنہ جو شخص بھی خلیفہ بنے وہ ان سے امور خلافت میں مدد لے میں نے ان کو ناقابلیت اور خیانت کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد جو خلیفہ مقرر ہو اس کو وصیت کرتا ہوں کہ مہاجرین کا اولین حق سمجھے، ان کی عزت کی نگہداشت کرے اس کو انصار کے ساتھ بھلائی کی بھی وصیت کرتا ہوں جو دارالہجرت دارالایمان میں مہاجرین سے پہلے سے مقیم ہیں خلیفہ کو چاہیے کہ ان میں سے نیک لوگوں کی نیکوکاری کو بنظر استحسان دیکھے اور ان کے خطا کار لوگوں کی خطا سے درگزر کرے، نیز میں اس کو تمام شہروں کے مسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ وہ لوگ اسلام کی پشت وپناہ ہیں وہی مال غنیمت حاصل کرنے والے اور دشمن کو تباہ کرنے والے ہیں، اور وصیت کرتا ہوں کہ ان سے ان کی رضا مندی سے اس قدر مال لیا جائے جو ان کی ضروریات زندگی سے زائد ہو میں اس کو اعراب کے ساتھ نیکی کرنے کی وصیت کرتا ہوں اس لیے کہ وہی اصل عرب اور مادہ اسلام ہیں اور ان کی (ضروریات سے) زائد مال لے جائیں اور ان کے فقراء پر تقسیم کر دیں میں اس کو اللہ تعالی اور رسول علیہ السلام کے ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ ان کا عہد پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں پر زور جنگ کی جائے، اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے، جب ان کی وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کو لیے جا رہے تھے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جا کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام کیا اور کہا کہ عمر بن خطاب اجازت مانگتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ ان کو داخل کر دو چناچہ وہ لائے گئے اور وہاں اپنے دوستوں کے پہلو میں دفن کیے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
    صحیح بخاری:جلد دوم:
    اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی
     
  13. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

    بے شک اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
    جزاک اللہ عاصم بھائی بہت اعلیٰ مضمون تحریر فرمانے پر تہہ دل سے ہدیہ تشکر پیش ہے۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

    خلیفۃ المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خصائص و فضائل یہاں جمع فرمانے کے لیے بہت شکریہ ۔ اللہ تعالی آپکو جزائے خیر دے۔ آمین
    ایک برادرانہ گذارش ہے کہ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر " صلوۃ و سلام " کا قرآنی حکم ہے جو کہ صرف " علیہ السلام " لکھنے سے پورا نہیں ہوتا۔ اس لیے تاجدارِ کائنات سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ صلوۃ و السلام کا اہتمام فرمائیں تو اللہ تعالی کی بارگاہ سے مزید برکات نصیب ہوں گی۔
     
  15. عاصم مٹھو
    آف لائن

    عاصم مٹھو ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2010
    پیغامات:
    26
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جواب: مناقب عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ

    جی نعیم بھائی مجھے اس بات کا احساس ہے اصل میں جب لکھا جاتا ہے تو جلدی میں ہی ایسا ہوتا ہے۔
    باقی اللہ قبول کرنے والا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں