1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ممبئی ڈرامہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏18 دسمبر 2008۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ممبئی ڈرامہ(ضمیر خالد)(روزنامہ جنگ 2008-12-18)

    مبئی ڈرامہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ کی بنائی ہوئی ایسی فلاپ فلم تھی جس کے ناظرین کی تعداد ہر روز گھٹتی چلی جارہی ہے ۔اس فلم کے تقسیم کاروں  فلم سازوں اور ہدایت کاروں کا خیال تھا کہ ممبئی ڈرامہ گولڈن جوبلی بلکہ پلاٹنیم جوبلی کریگی اور کھڑکی توڑ ہفتے کئی مہینوں تک چلیں گے لیکن برا ہو عوام کی پسند اور دانشمندی کا انہوں نے پہلے ہی ہفتے میں فلم میں جابجا جھول تلاش کرلئے اور فلم کو ”ڈبہ “ قرار دے دیاکچھ ہی دن جاتے ہیں جب ممبئی ڈرامہ ڈبوں میں بند ہوکر سٹور کی زینت بن جائے گی اور بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار کسی اور اچھوتے موضوع کی تلاش میں لگ جائیں گے۔ممبئی ڈرامہ تو ہدایت کاری کے نقائص اور پلاٹ میں پائی جانے والی خامیوں کی وجہ سے فلاپ ہوچکی ہے تاہم تجزیہ نگاروں کو اس فلم کے ڈبہ بن جانے پر تبصرہ کرنے کا حق حاصل ہے۔

    ممبئی ڈرامہ کے آغاز میں کہا گیا کہ 25 سے 30 دہشت گرد شہر کے مختلف حصوں میں دہشت گردی میں مصروف ہیں لیکن آخر میں یہ تعداد گھٹتے گھٹتے دس تک پہنچ گئی ۔جس سے ناظرین جو دنیا بھر کے نیوز چینلز پر بڑے انہماک سے فلم کا آغاز دیکھ رہے تھے انتہائی مایوسی اور جھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور فلم کے ہدایت کاروں کو کوسنے لگے خصوصاً بھارتی نیوز چینلز جنہوں نے طوفان مچادیا تھا ۔ان کے متعلق ناپسندیدہ کلمات بے اختیارمنہ سے نکالنے لگے۔اس فلم کے آغاز میں کہا گیا کہ دہشت گرد پاکستان کے شہر کراچی سے پاکستان کے دو جہازوں الکبیر اور الفاء پر سوار ہوکر بھارتی صوبے گجرات پہنچے جہاں سے تیز رفتار بوٹس پر سوار ہوکر ممبئی پہنچ گئے اور دہشت گردی کی وارداتیں شروع کردی گئیں۔ممبئی ڈرامے کے ابتدائی مناظر میں یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردی کے ساتھی ممبئی کے ساحل پر ان کے منتظر تھے جو انہیں لیکر شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔بعد میں پتہ چلا کہ جن جہازوں پر پاکستان کے بحری جہاز ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ان پر بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قبضہ کرلیا تھا وہ پانامہ اور ایک ملک کے تھے جو کراچی سے گجرات نہیں پہنچے تھے بلکہ بین الاقوامی سمندری روٹ استعمال کرتے ہوئے بھارتی صوبے گجرات کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے تھے ۔فلم کے اس بودے منظر پر بھی ناظرین بہت مایوس ہوئے بعدازاں جب ممبئی پولیس کے چیف کمشنر حسن غفور نے اس بات کا انکشاف کیا کہ دہشت گردوں کو مقامی حمایت حاصل نہیں تھی ۔ناظرین بہت جزبز ہوئے ۔ممبئی ڈرامہ فلاپ ہونے کی دیگر وجوہات بھی ہیں فلم کے درمیان میں انکشاف کیا گیا کہ دہشت گرد ایک ماہ سے ممبئی میں مقیم تھے اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے ہوٹلوں میں بھی مقیم رہے فلم کے ہدایت کار نے مصالحہ ڈالنے کیلئے ایسے مناظر بھی فلم میں شامل کردیئے جو انتہائی غیر حقیقی نظرآتے تھے۔کہا گیا کہ دہشت گرد ہوٹل کے ایک مخصوص کمرے میں رہائش رکھتے تھے اور وہاں اپنا اسلحہ جمع کرتے رہے۔فلم کے ایک گھٹیا منظر میں یہ بھی کہاگیا کہ ہوٹل کا ایک شخص دہشت گردوں کے ساتھ شامل تھا ۔اس منظر میں بھی بعد ازاں تبدیلیاں کردی گئیں اور یہ منظر شامل کیا گیا کہ ایک دہشت گرد ہوٹل کے شیف کی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔صرف یہ منظر ہی فلم کو فلاپ کرنے کیلئے کافی نہیں تھا۔کیونکہ ایک طرف طوطے یہ سبق پڑھ رہے تھے کہ دہشت گرد اسی روز ممبئی پہنچے تھے دوسری طرف دوسرا سبق یہ پڑھایا جارہا تھا کہ دہشت گرد ایک ماہ سے ممبئی میں مقیم تھے۔

    بھارت کے خفیہ اداروں نے دہشت گردوں کے قبضے سے ”برآمد“کئے گئے موبائل فون کی سیموں کا سراغ لگایا تو پتہ چلا کہ یہ سمیں ایک ماہ قبل خریدی گئیں تھیں۔ممبئی ڈرامہ کے آغازمیں ہی بھارت کی انسداد دہشت گردی فورس کے سربراہ ہمنت کرکرے  ایڈیشنل کمشنر آشوک مہتا اور 90 سے زیادہ بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ان کاؤنٹر ماہر سالسے کو دہشت گردوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا ۔فلم کے ہدایت کار نے اس منظر پر بہت محنت کی تھی کیونکہ ہمنت کرکرے وہ پولیس آفیسر تھا جو اپنی سچائی اور اصولوں کی بنیاد پر پورے بھارت میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا لیکن انتہا پسند ہندو ذہنیت کی نظروں میں کھٹکتا تھا ۔اس عظیم پولیس آفیسر نے کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی بے شمار وارداتوں میں بھارتی فوج کے اعلیٰ افسران اور انتہا پسندہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔اس لئے فلم میں اس کو ایسے مارا جانا تھاکہ منظر غیر حقیقی محسوس نہ ہولیکن فلم کامصنف کوئی کہنہ مشق نہیں تھا اس لئے منظر میں حقیقت کے رنگ نہیں بھرے جاسکے اور فلم کا یہ سارا منظر ہی مشکوک ہوگیا ۔کہا گیا کہ ابواسماعیل اور اجمل قصاب ممبئی ریلوے سٹیشن پر دہشت گردی کے بعد کاما ہاسپٹل پہنچے اور وہاں دہشت گردی کرنے کے بعد جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے ۔دوسرے منظر میں یہ دیکھا گیا کہ ہمنت کرکرے کو اپنے دفتر میں ٹیلی فون پر اطلاع موصول ہوئی کہ دہشت گرد سرخ گاڑی میں سوار ہسپتال کے قریب دہشت گردی میں مصروف ہیں۔انسداد دہشت گردی کا سربراہ اپنے ساتھی افسران کے ہمراہ فوراً جیپ میں سوار ہوکر موقع واردات پر پہنچا اور زخمی ہیڈ کانسٹیبل کے بقول کاما ہسپتال کے نزدیک جونہی یہ سرخ گاڑی نظر آئی پولیس جیپ کی رفتار سست کردی گئی اسی دوران سرخ گاڑی سے فائرنگ کی گئی جس میں تینوں پولیس افسران مارے گئے ۔جب کہ دوسرے منظر میں یہ کہاگیا کہ دودہشت گرد کاما ہسپتال کے ساتھ واقع گلی میں موجود جھاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے جیسے ہی پولیس افسران کی جیپ پہنچی انہوں نے جیپ پر فائرنگ کردی تمام افسران ہلاک ہوگئے دہشت گردوں نے جیپ پر قبضہ کرلیا اور مردہ افسران کو سڑک پر پھینک کر آگے بڑھ گئے اور اگلے ناکے پر پولیس مقابلہ ہوا جس میں ابو اسماعیل مارا گیا اور اجمل قصاب پاؤں میں لگی گولی کی وجہ سے زندہ گرفتار کرلیا گیا۔فلم کے یہ دونوں مناظر بھی اس قدر بودے تھے کے ناظرین مایوس ہوگئے اور فلم کو پہلے شو میں ہی ”ڈبہ“ قرار دینے لگے۔

    ممبئی ڈرامہ جیسی فلموں کے تمام ہدایت کاروں  فلم سازوں اور تقسیم کاروں سے درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ ناظرین کے جذبات کا خیال کریں ڈبہ فلموں کے ذریعے ان کی جیبوں پر نہ ہی ڈاکہ ڈالیں اور نہ ان کا قیمتی وقت ضائع کریں۔فلم بناتے وقت بنیادی نکات کا خیال رکھا جانا بہت ضروری ہے فلم سازی میں کثیرسرمایہ صرف ہوتا ہے۔عمارتوں کے مصنوعی ڈھانچے بنائے جاتے ہیں اور یہاں تو اوبرائے اور تاج ہوٹل جیسی اصل عمارتیں استعمال کی گئیں تھیں۔ویسے بھی ممبئی فلم سازی کے لحاظ سے دنیا بھر کی فلم انڈسٹری میں ایک بہت محترم مقام رکھتا ہے ۔کم از کم فلم کے ہدایت کاروں کو بالی وڈ کی عزت کا ہی خیال کرنا چاہئے تھا۔ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں بنائی جانے والی ممبئی ڈرامہ طرز کی فلم میں خامیوں کا خیال رکھا جائے گااور ناظرین کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ بھارتی فلموں کی مارکیٹ بھارت سے باہر نکل چکی ہے اور عالمی ناظرین بھی بھارتی فلموں کے شائقین میں شامل ہوچکے ہیں۔
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ

    زبردست :a180:

    میڈیا کے پروپیگنڈہ کا جواب صرف میڈیا ہی دے سکتا ھے بات صرف اتنی سی ھے کہ آپ کا میڈیا کتنا مضبوط اور سرگرم ھے
     
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    انڈین حکومت اس طرح کے ڈرامے سٹیج کرنے کے اب تو ماہر ۔۔۔۔۔ماہر کو ماہر کے معنی میں نہ پڑھیں بلکہ آپ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ہوگئے ہیں۔

    انتہا تو یہ ہے کہ ان ڈراموں کے سٹیج کرنے کے لیے اپنے غریب عوام۔۔۔صرف وہ جو ان ڈراموں میں کام آتے ہیں۔۔۔۔۔۔کو قربانی کا بکرا۔۔۔۔بلکہ بکرے۔۔۔۔بنا دیتی ہے۔ اور یہ ان کے لیے کوئی انہونی یا مشکل نہیں ہے۔

    واہ جی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت۔۔۔۔لگے رہو۔۔۔۔آخر تنگ آکر ایک دن عام عوام نے انہی حکمرانوں کے جوتے مارنے ہیں۔
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :201: بہت خوب۔ بہت ہی خوب عکس بندی بلکہ جوتا ماری کی گئی ہے :201:
    مضمون نگار ضمیر خالد مبارکباد کے مستحق ہیں۔
    اور آزاد بھائی ۔ عمدہ مضمون شئیر کرنے پر آپ کا شکریہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں