1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ملت مرحوم - رضی طاہر کی تحریر

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از محمد رضی الرحمن طاہر, ‏6 ستمبر 2013۔

  1. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    ملت مرحوم
    رضی طاہر

    امت مسلمہ کے شاندار ماضی کی داستانیںکسی دور میں خون میں حرارت پیدا کردیتی تھیں مگر اب انہیں پڑھنے سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، کہاں وہ عظمت رفتہ ۔۔۔ کہاں آج چاردانگ عالم ذلت رسوائی۔۔ کہاں وہ عظیم بندگان خدا ۔۔۔ اور کہاں آج مردہ لاشیں ۔۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ذلت کا جو سفر شروع ہوا وہ اب صدیوں پر محیط ہوچکا ہے ۔اقبال نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر امید کے نئے چراغ روشن کیے ۔۔
    اگرچہ عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
    خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
    مگر ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہم ’’ڈھیٹ ‘‘ ہوچکے ہیں جس وجہ سے آج کا مسلمان ناامید ہوچکا ہے۔ ملت کا وجود زخموں سے چورچور ہوچکا ہے ۔زیادہ دور نہیں جائیں ملت کو پچھلی دودہائیوں میں جو زخم ملے وہ قیامت صغریٰ سے کم نہ تھے ۔قبلہ ائول بیت المقدس اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے ،آئے روز خون مسلم پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی میں لاکھوں مسلمانا ن کشمیر حق خودارادیت کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں ، اور ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو جاری ہے ، مساجد و مذہبی مقامات کو مسمار کرنا ہندو فوج کی عادت بن چکی ہے ، ادھر ہندوستان کے مسلمان معاشی طور پر کمزور ہیں اور گجرات میں خون کی ہولی کون بھولا ہے ؟ بابری مسجد کی شہادت کس نے فراموش کی ہے ؟ عراق و افغانستان میں امریکی مداخلت اور نیٹو کے حملے سے تباہ کاریوں کی ایک نئی داستان رقم ہوئی ۔ بغداد جو کبھی علم و عرفان کا مرکز ہوا کرتا تھا بم دھماکوں کا گڑھ بن گیا ، بوسنیا ، چیچنیا کے کمزورو معصوم مسلمان انہی دودہائیوں کے اندر خوراک کے ایک ایک لقمے کو ترسے ۔ خون مسلم بہتا رہا ، اب نیٹو خصوصا عالمی قوت ہونے کا دعویدارامریکہ کی نظر مقدس ہستیوں کے ملک شام کی جانب ہے ، مگر کھیل کے انداز اب بدل چکے ہیں ، پاکستان ، افغانستان ، عراق ، شام ، مصرمیں قتل و غارت گری کا ذمہ دار وہی قوتیں ہیں جنہوں نے خون مسلم کو کبھی اعلانیہ بہایا تو کبھی غیر اعلانیہ ۔۔۔ کبھی یہ قوتیں پس پردہ رہیں تو کبھی آمنے سامنے ۔ اس صورتحال پہ جتنے آنسو بہائیں کم ہیں مگر انہی دودہائیوں میں ایک کردار نے جبر اور ظلم کی وہ تاریخ رقم کی جس نے آنکھ کے آنسو بھی خشک کردئیے ۔ جنہوںنے مساجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کو بھی نشانہ بنایا اور سکول میں پڑھنے والے نونہال بچوں اور قوم کو مستقبل کو بھی ۔۔۔ دربار ،درگاہ، مقبرے ، بازار معصوم لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والے ان سفاک درندوں کو ’’خوارج ‘‘ کہتے ہیں ۔یہی طاقتیں جن کی پست پناہی کرتی ہیں انہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کے اسلام کی پیٹھ پر چھرا گونپا ۔اسلام کو عالمی سطح پربدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔نتیجتاً یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کا جینا بھی دشوار ہوگیا ، پیش امام ہفتہ وار انکوائریوں کا حصہ بنے اور نمازی شک کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔ عالمی میڈیا کے دجالی کردار نے رہی سہی کسر پوری کردی ۔ آہ ۔۔ علامہ محمد اقبال کی روح تڑپ کے بولی ۔۔
    شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
    اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
    آج اسلام کے 56دیس ہیں اور مگر اسلام پردیسی ہے ۔ اسلام کا وجود کسی دیس میں نہیں ہے ۔ عرب ممالک کے حکمرانوں کی عیاشیاں ، ملت کے زخمی وجود پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔عربوں کے شہزادے دولت کے نشے سے چور ہیں ۔ سعودیہ کی مثال لے لیں کہ سعودی عرب پورے عالم اسلام کا قبلہ ہے جبکہ وہاں کے عیاش شہزادوں کا قبلہ وائٹ ہائوس ہے ۔ شاہ فیصل کے بعد کوئی باضمیر شخص وہاں کا بادشاہ نہ بن سکا،مصر، شام ، ایران ، ترکی ، عراق اسلامی ممالک مگر سوتیلے بھائیوں جیسا سلوک ۔۔۔ پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان کی قیادتیں اپنے مسلمان بھائی ملک کی قیادت پر اعتماد نہیں کرتی بلکہ اس کے برعکس ہندووں سے دوستی اور ہاتھ بڑھانے میں پیش پیش نظر آتی ہیں ۔ ہم اخوت کو کھو چکے ہیں ،مروتیں بھول چکے ہیں ۔رشتوں کا معیار مفاد پر ہے ۔ اسلام ہمارے دیس میں نہ رہا اور ہم وہ مسلمان نہ رہے کہ کانٹا میں چبے تو محمد بن قاسم سمندر پار سے مدد کو آئے۔
    وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
    اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیم ’’ OIC‘‘ جس کا کردار ہر بڑے امتحان کے بعد فقط اتنا رہ چکا ہے کہ تنظیم OH I Seeایسا بھی ہوا ہے کہہ کر انجان بن جاتی ہے ۔عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی سی حیثیت رکھنے والی یہ نام نہاد تنظیم کی زبان گنگ ہے اور آنکھوں پہ پٹی ۔۔ سنتے جائیے اورشرماتے جائیے ۔۔ نبی کریم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی شان مبارکہ میں عالم کفر نے گستاخیوں کی حد کردی مگرOICخاموش ۔ مسلمان بہنوں کی عزتیں پامال ہوتی رہیں اورسربازار بکتی رہیں مگرOICخاموش ۔ کشمیر میں کیا ہوا کیسے ہوا OICخاموش ۔ خاموشی انکا جرم ہے اور ان کے پیچھے تمام ممبران مسلمان ممالک کے بے حمیت حکمران اس جرم میں برابر کے شریک ہیں ۔
    یہ راز اب کوئی راز نہیں سب اہل چمن جان گئے
    ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا
    افسوس صد افسوس ہم اپنی عزت رفتہ کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتے اس کی بحالی کا سوچنا تو درکنار۔۔ ہم تدبر کی دولت کھو چکے ، حکمت کے زیور سے مرحوم ہوچکے ، علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے محروم ہوچکے ۔ ایسے میں ہم کس جانب جائیں ؟ ہمارا مستقبل کیا ہو؟ کیا ملت کے امام ہمیں صحیح راستے کے انتخاب میں مد د کریں گے؟ نہیں وہ توعالمی طاقتوں کے غلام ہیں۔ کیا مذہب کے عالم ہمیں صراط مستقیم دکھائیں گے ؟ نہیں وہ تو فرقہ وارانہ فسادات کے جڑ ہیں ، تنگ نظری کو انہوں نے دین کا نام دے دیا اور من گھڑت اسلام کے پیروکار ہیں ،کفر و شرک کے فتووں کی تاریک دنیا میں خود بھی ہیں ہمیں بھی لے چلیں گے ۔ کون سی ایسی درسگاہ ہے جہاں سے اب ہدایت کا نور ملے گا۔ ملت مرحوم پھر سے زندگی حاصل کیسے کرے گی ۔ اقبال جنجھوڑ جنجھوڑ کر پکار رہے ہیں ۔
    کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
    وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو ٹوٹا ہو تارا
    نوجوان مسلم کو ہر دوسرا چہرہ میر جعفر و میر صادق معلوم ہوتا ہے ، نوجوان مسلم کو ہر شخص مفاد کا قیدی لگتا ہے ۔ کیوں کہ مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی روشنی اور دئیے جلانے والوں میں سے اکثر ’’ فراڈیے ‘‘ واقع ہوتے ہیں جو درست راہ کا انتخاب چاہنے والوں کو اپنے راہ کی جانب لے جاتے ہیں ۔ نوجوان مسلم نے اقبال سے سنا تھا ’’ کی محمد سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں ‘‘ وہ محمد ی راستے پہ چلنا چاہتے ہیں تو لے جانے والے ان کیساتھ دھوکہ کرجاتے ہیں ۔ اب عالمی طاقتوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ملت کی کشتی ۔۔ جس میں اپنوں نے ہی سوراخ کردئیے پار لگانے کا فریضہ ادا کرنے کا وقت آچکا ہے ۔ ہر صدی اسلام کی صدی ہے ، ہر دورمصطفی کریم صلے اللہ علیہ والہ وسلم کا دور ہے ۔ قرآن پاک میں وعدہ کیا گیا ہے ۔یہ دین اسلام ہی غالب آکر رہے گا ۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے دئیے ہوئے نظام ، جس کا عملی نفاذ ریاست مدینہ کی صورت میں محمد مصطفی صلے اللہ علیہ والہ وسلم نے کیا فرمایا تھا نے ہی برقرار رہنا ہے ۔ بقا مصطفی صلے اللہ علیہ والہ وسلم کی ہے ، دین مصطفی کی ہے اور غلامان مصطفی کی ہے ۔ اسلئے کسی اور کیساتھ جڑنے کے بجائے اقبال نے دین اسلام کو اپنانے کی ترغیب دی ۔
    اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب پہ نہ کر
    خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
    اب تلاش خوش نصیبوں کی ہے جنہوں نے سیف اللہ کا کردار دہرانا ہے ، صلاح الدین ایوبی کی تاریخ دوبارہ سے لکھنی ہے ، محمد بن قاسم جیسا جذبہ پھر سے زندہ کرنا ہے ۔ اکیسویں صدی میں اسلام کے غلبے کیلئے اٹھنے والا ہر شخص خوش نصیب ہوگا ۔ صدیوں کی غفلت کی نیند سے بیدار کرنے والا ہر ذی الشعور مجاہد کہلائے گا۔ جھوٹے اماموں ، میر جعفر و میر صادق کے پیروکاروں ، واشنگٹن کے پجاریوں کے تخت اکھاڑ پھینکنے کا وقت آچکا ہے ۔ اب عرب و عجم میں بیداری امت مسلمہ کی ضرورت ہے ۔ انقلاب پاکستان ہی انقلاب زمانہ کاآغاز ہوگا چونکہ پاکستان کا قیام اس دور زوال میں عمل میں آیا ۔ اور نظریہ اسلام اسکی بنیاد بنا، ہزاروں سال کی بے رونقی میں جو نرگس کا پھول کھلا اس کا ایک اشارہ پاکستان ہی جانب تھا۔ جی ہاں غلامی و محکومی میں جکڑی قوم ، قوم رسول ہاشمی ، ملت مرحوم کیلئے اب سفینہ پاکستان ہے ۔
    میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
    میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
    اہلیان پاکستان ۔ غفلت سے بیدار ہوں اور پاکستان کو ایک درست سمت دینے کیلئے اور عالم اسلام کیلئے محفوظ قلعہ بنانے کیلئے اہل قیادت کا انتخاب کریں ۔کیونکہ پاکستان ہماری ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کی امانت ہے ۔


    [​IMG]
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    رضی بھائی ۔ تلخ حقائق مگر امید افزاء ، بہت درد مندی سے لکھی جانے والی تحریر ہے۔
    اللہ کر ےزور قلم اور زیادہ
     
    سلطان مہربان اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سندس اعوان
    آف لائن

    سندس اعوان ممبر

    شمولیت:
    ‏14 مئی 2013
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی تحریر ہے ۔ خون مسلم اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے مگر ہمارے ملت کے نام نہاد راہ نما خاموش تماشائی ہیں ۔ اب جاگنے کا وقت ہے
     
    سلطان مہربان، نعیم اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں