1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مقام سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏27 دسمبر 2008۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​

    مقام سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں​


    خلیفہء راشد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک مثالی حکمراں اور بلند پایہ منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ مجسم تقویٰ تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کی ساری حیات مبارکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری، ایثار و قربانی اور اسلام کی ترویج و اشاعت میں گزری۔
    روایت کے مطابق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مغیرہ بن شعبہ کے ایرانی غلام ابولولو فیروز مجوسی نے ستائیس ذی الحج سن تیئس ہجری کو فجر کی نماز کے وقت مسجد میں داخل ہو کر خنجر سے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا ،بعد ازاں یکم محرم الحرام سن چوبیس ہجری کو تریسٹھ برس کی عمر میں آ پ زخموں کی تاب نہ لا کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ساڑھے دس برس پر محیط تھا۔جس میں پس ماندہ طبقات کی فلاح اور عدل و مساوات کیلئے گرانقدد اقدامات کئے گئے۔آزاد عدلیہ، پولیس کا نظام،جیل خانوں کا قیام ،محاصل کے حصول کا نظام، مختلف آمدنیوں کا حساب ،آب پاشی کا نظام اور ضابطے تعلیم اور قرآن و حدیث کا باضابط آغاز کیا گیا ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے یتیم خانے بنوائے،سماجی بہبود کے مراکز قائم کئے۔آپ کے دور میں اسلامی فوج کو منظم شکل دی گئی اور خبر رسانی اور جاسوسی کیلئے علیحدہ شعبے قائم کیے گئے۔ اپنے دورِ خلافت میں آپ نے تعلیماتِ اسلامیہ کی روشنی میں عظیم اسلامی فلاحی ریاست کے لیے جو زریں اصول وضع فرمائے ان سے فیضیاب ہوکر تاریخِ انسانی کے مختلف ادوار میں ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو خوشحالی سے ہمکنار کر چکے ہیں۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

    ذیل میں احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ۔۔۔ دعائے رسول اکرم :saw:​

    عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

    الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759.


    ’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

    حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام پر آسمانوں میں خوشیاں منانا​


    عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ

    ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182.


    ’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

    حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے محبت​


    عَنِ ابْنِ أَبِيْ مُلَيْکَةَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ عَلٰی سَرِيْرِه فَتَکَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُوْنَ وَيُثْنُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ قَالَ : فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِيْ مِنْ وَرَائِيْ. فًالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَی اﷲَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، مِنْکَ وَأيْمُ اﷲِ ! إنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ وَ ذَاکَ إِنِّيْ کُنْتُ أکَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ جِئْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ دَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ. فَإِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو، أوْ لَأظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

    البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427.


    ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘

    عَنْ أَبِي السَّفْرٍ قَالَ : رُئِيَ عَلٰی عَلِيٍّ بُرْدٌ کَانَ يُکْثِرُ لِبْسَهُ قَالَ : فَقِيْلَ لَهُ : إِنَّکَ لَتُکْثِرُ لِبْسَ هَذَا الْبُرْدَ فَقَالَ : إِنَّهُ کَسَانِيْهِ خَلِيْلِيْ وَصَفِيِّيْ وَصَدِيْقِيْ وَخَاصِيْ عُمَرُ إِنَّ عُمَرَ نَاصِحُ اﷲِ فَنَصَحَهُ اﷲُ ثُمَّ بَکیٰ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شيبة.

    ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الحديث رقم : 31997.


    ’’حضرت ابو سفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پرایک چادر دیکھی گئی جو آپ رضی اللہ عنہ اکثر پہنتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ کثرت سے یہ چادر (کیوں) پہنتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک یہ مجھے میر ے نہایت پیارے اور خاص دوست عمر نے پہنائی تھی۔ بے شک عمر اﷲ تعالیٰ کے لئے خالص ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے خالص بھلائی چاہی پھر آپ رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

    مقامِ غور ہے کہ ان اصحاب و اہلبیت رسول :saw: کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کتنی محبت و خلوص تھا ۔ اور آج امت مسلمہ ، اپنی نادانی و بدبختی کی وجہ سے اہلبیت پاک و اصحاب کرام رضوان اللہ عنہم کے نام پر فرقہ واریت کی آگ میں جل کر ٹکڑے ٹکڑے ہورہی ہے۔ استغفراللہ العظیم


    فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا​


    عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

    البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261.


    ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

    سیدنا عمرفاروق :rda: کے لیے جنت کی بشارت​


    عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَاطَّلَعَ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. فَاطَّلَعَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ۔۔۔ وَفِي الْبَابِ عَن أَبِي مُوْسٰی وَ جَابِرٍ.

    الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3694، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 104، الحديث رقم : 76 و الطبرانی فی المعجم الاوسط، 7 / 110، الحديث رقم : 7002، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 10 / 167، الحديث رقم : 10343، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 57.


    ’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پر ایک شخص داخل ہو گا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تمہارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اس باب میں حضرت ابوموسیٰ اور حضرت جابر رضی اﷲ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔‘‘

    سیدناعمر فاروق :rda: کو علمِ نبوی :saw: سے حصہ عطا ہونا​

    عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَا أنَا نَائِمٌ، شَرِبْتُ يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّی أنْظُرَ إِلَی الرِّيِّ يَجْرِيْ فِي ظُفُرِيْ أوْ فِي أظْفَارِي ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ فَقَالُوا : فَمَا أوَّلْتَهُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ الْبُخَارِيُ.

    البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3478، و الدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب في القمص و البئر و اللبن، 2 / 171، الحديث رقم : 2154، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 179، الحديث رقم : 30492.


    ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دورانِ خواب میں نے اتنا دودھ پیا کہ جس کی تازگی میرے ناخنوں سے بھی ظاہر ہونے لگی، پھر بچا ہوا میں نے عمر کو دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد ’’علم ( علمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے حصہ ) ہے‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

    (نوٹ : یاد رہے کہ انبیائے کرام علیہم التسلیم کے خواب وحیء الہی ہوتے ہیں )

    درجاتِ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اور عملِ صحابہ رضوان اللہ عنھم​


    عَنِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زمَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نَعْدِلُ بِأَبِيْ بَکْرِ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرَکُ أَصْحَابَ النَّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ.

    البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب في مناقب عثمان، 3 / 1352، الحديث رقم : 3494، أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4627، و أبويعلي في المسند، 9 / 454، الحديث رقم : 5602، و ابن أبي عاصم، 2 / 567، الحديث رقم : 1192، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 366.


    ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ ہم حضرت ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں ٹھہراتے، ان کے بعد حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو شمار کیا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں کسی کو کسی پر فضلیت نہیں دیتے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری اور ابوداؤد نے راویت کیا ہے۔‘‘

    دوستانِ مکرم ! احادیث و روایات بہت زیادہ ہیں ۔ مگر طوالت کے خوف سے مضمون کو یہی اختتام دیتا ہوں ۔
    اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہمیں ان عظیم اصحابِ رسول :saw: کی سیرت طیبہ سے نورِ ہدایت عطا کرے تاکہ ہم اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کے قابل ہوسکیں۔ آمین بجاہِ النبی الرحمۃ اللعلمین :saw:

    والسلام علیکم
     
  2. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم

    اللھم صل علی محمد :saw: وعلی آل محمد :saw:


    اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

    سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم


    جزاک اللہ
     
  3. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ماشاءاللہ ۔ بہت پیارا مضمون ہے ۔
    خصوصاً حضرت علی :rda: کی حضرت عمر فاروق :rda: سے محبت پر مبنی روایات بہت اہم ہیں۔

    جزاک اللہ ۔
     
  4. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    :salam:
    اللہ تعالی ھم سب کو غلامانِ مصطفی :saw: کا سچا غلام بنائے ۔ امین :yes:
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کاشفی بھائی ، الف بھائی اور زاہرا صاحبہ
    مضمون کی پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کا شکریہ :flor:
     
  6. طارق راحیل
    آف لائن

    طارق راحیل ممبر

    شمولیت:
    ‏18 ستمبر 2007
    پیغامات:
    414
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  7. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جزاک اللہ ۔ نعیم صاحب
    بہت ہی نفیس اور علمی انداز میں آپ نے اہلبیت اطہار اور اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم کی باہمی محبت و الفت کا ثبوت مہیا فرمایا ہے۔

    اللہ تعالی ہمیں ایمان کا سچا نور عطا فرمائے۔ آمین
     
  8. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم۔ نعیم بھائی آپ نے بہت درد دل اور محنت سے اتنا ایمان افروز مضمون شئیر کیا ہے۔ جزاک اللہ ۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم
    طارق راحیل بھائی ۔ نور بہنا اور وسیم بھائی ۔
    عاجزانہ کاوش کو پسند کرنے پر شکریہ ۔
    اللہ تعالی ہم سب کو نور ایمان عطا فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں