1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مقابلہ مضمون نویسی برائے یوم پاکستان

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏3 مارچ 2012۔

?

دونوں مضامین میں سے آپ کی پسند ؟

رائے شماری ختم ہوگئی ‏22 مارچ 2012۔
  1. محمد رضی الرحمن طاہر

    3 ووٹ
    42.9%
  2. صدیقی

    4 ووٹ
    57.1%
  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:


    السلام علیکم

    ہر بار کی طرح اس بار بھی ماہ مارچ آ چکا ہے ۔
    مارچ کے آتے ہی کچھ عجیب سی سرشاری رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے ، اور ہمیں اسی سر شاری کو رقم کرنا ہے ، آئیے وطن سے محبت کو الفاظ کو روپ دیں اور اپنے الفاظ میں اپنے وطن سے اپنی محبت کو ایک چھوٹے سے مضمون میں ڈھالیں ۔
    آپ یہاں 15 مارچ تک اپنے مضامین ارسال کر سکتے ہیں اس کے بعد آپ سب کے سامنے رائے شماری کا آپشن رکھا جائے گا آپ لوگ اپنے ووٹس کے زریعے بہتر اور زیادہ بہتر مضمون کا انتخاب کرینگے جو کہ 16 مارچ سے 22 مارچ تک ہو گی جس کے بعد 23 مارچ کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا ۔ یاد رہے یہ مقابلہ بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان ہے ۔

    انتظامیہ میں شامل دوست بھی اپنے مضامین بھیج سکتے ہیں مگر وہ اس مقابلے کا حصہ نہیں ہونگے

    ایک گزارش یہ بھی کرنی تھی کہ کوشش کریں کہ غیر ضروری تبصروں کو اس لڑی کا حصہ نہ بنایا جائے کہ اس سے اس لڑی کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔ شکریہ ۔
     
  2. محمد رضی الرحمن طاہر
    آف لائن

    محمد رضی الرحمن طاہر ممبر

    شمولیت:
    ‏19 اپریل 2011
    پیغامات:
    465
    موصول پسندیدگیاں:
    40
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مقابلہ مضمون نویسی برائے یوم پاکستان

    23 مارچ ۔ اسلامیان ہند کی جدوجہد آزادی کا سنگ میل
    محمدرضی الرحمن طاہر ​



    خیبر سے راس کماری تک اسلامیان ہند کے اس نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے​

    دھڑکتے دل ۔۔۔۔خود منزل کی طلب اور شوق منزل کا نظارہ بنے ہوئے تھے ​



    ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ اسلامیان ہند کی قومی تاریخ کا روز سعید ہے ، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کا ایک اہم موڑ ۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی نگاہ بلند سخن دلنواز قیادت میں ۔۔۔مسلمانان ہند نے اپنی منزل کا تعین کیا ۔۔۔ ایک علیحدہ اسلامی مملکت جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہوگی ، جس میں مسلمان آزادی کیساتھ اپنی تہذیب تمدن اور اسلامی نظام کے تحت زندگی گزاریں گے ۔قرارداد پاکستان کے دن سے سات سال کے مختصر عرصہ میں ایک آزاد ، خودمختار اسلامی مملکت کا قیام ۔۔مسلمانان برصغیر کے اتحاد اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت کاکرشمہ تھا ۔
    ۳۲ مارچ قومی جشن کا دن ہے جسے ہر سال جذبہ تشکر کیساتھ منایا جاتا ہے یہ دن مسرت اور خوشی کا دن بھی ہے اور قومی اعمال کے محاسبے کا دن بھی ۔۔۔ضروری ہے کہ ہم خوشیوں کے اظہار کیساتھ ان مجاہدوں اور شہیدوں کو خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے ظالم ،متعصب ہندووں کیخلاف ایک سو سالہ جدوجہد کرکے عزم پیہم کیساتھ بت خانہ ہند کے اندر ایک اسلامی جمہوری مملکت کے قیام کیلئے راہ ہموار کیا ۔
    پروفیسر محمد اسحق قریشی جن کا تعلق ریاست کشمیر سے ہے انہوں نے 23مارچ 1993کو اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھا کہ ”23پارچ 1940کی قرارداد کو گزرے اکاون برس ہوگئے مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے اس سہ روز اجلاس کی تمام یادیں مری زندگی کی متاع عزیز ہیں “۔ساتھ ہی23مارچ کی قرارداد کا خوبصورت نقشہ کھینچتے ہیں ” موسم بہار اپنے جوبن پہ تھا ، ہر سو ہر یالی اور پھول کھلے تھے ، خوشگوار موسم دلوں اور نگاہوں کو مخمور کر رہاتھا ۔ رنگین موسم۔۔۔۔ لاہور کا خوبصورت شہر ۔۔۔۔منٹوپارک۔۔۔ اور اس پر بادشاہی مسجد کے میناروں کا سایہ ۔۔۔۔ایک آراستہ و پیراستہ پنڈال میں ہندوستان کے کونے کونے سے آیا ہوا اسلامیان ہند کا سمندر اپنے مستقبل کی تعمیر کررہا تھا ۔۔۔۔جلسہ گاہ خود اک پررونق شہر کا سماں پیش کررہی تھی۔۔۔مسرت اور امید سے منور مسکراتے چہرے ۔۔۔روشن آنکھیں ۔۔۔دھڑکتے دل ۔۔۔۔خود منزل کی طلب اور شوق منزل کا نظارہ بنے ہوئے تھے ۔ ان کے اور ان کی منزل کے درمیان ایک جست کا قافلہ باقی تھا۔۔۔ موسم بہار اور قرارداد پاکستان میری خوشگوار یادوں کی دو ہم رنگ تصویریں ہیں ۔ جن کے نقوش لوح دل پر ہمیشہ تازہ اور زندہ رہیں گے “ ۔
    یہ بات ہر شک سے پاک ہے کہ مسلمانان برصغیر نے صرف اسلام کے نام پر قرارداد منظور کی اور بالاخر لاکھوں جانیں دینے کے بعد پاکستان بنا اسلئے یہاں اس امر کا ذکر کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بدقسمتی سے بعد نام نہاد دانشوروں کو جب اپنے وجود کے جواز کی ضرورت پڑی تو وہ تاریخی حقائق مسخ کرتے چلے گئے ۔ تحریک پاکستان کے محرکات اور اسلامیان ہند کی بے مثال اور عظیم قربانی اور جدوجہد کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں روز اول سے جاری ہیں ۔ یہ ناپاک سازش اگر ہندو ذہن کی طرف سے ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بھارتی استعمار نے ابھی تک تاریخی سچائیوں کو قبول نہیں کیا۔ دوقومی نظریہ آج بھی ان کی راتوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے اور پاکستان کا اسلامی تشخص آج بھی ان کیلئے سوہان روح بناہوا ہے ۔ اس کے برعکس کچھ نام نہاد دانشور اور سیاست دان جو ایک طرف پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب وطن عزیز کی نظریاتی اساس پر خود ساختہ دانشوری کی دیمک بکھیرنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
    افسوس صد افسوس کہ یہ لوگ تحریک پاکستان کی مبادیات سے ہی واقف نہیں ۔ پس پردہ نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر قائد اعظم کے پاکستان کو دفن کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ ہم میں سے اکثر ان چہروں کو جانتے ہیں کہ جو تحریک پاکستان کے حقیقی مقاصد کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کے زیر اثر دوقومی نظریے کی من مانی تاویلیں کرنے کے سنگین جرم میں ملوث ہیں ، ہمارے بے حمیت نمائندوں کی مجرمانہ غفلت سے ان لوگوں نے ہمارے نصیب میں یہ بدقسمتی لکھ دی ہے کہ آج 64سال گزر جانے کے باوجود پاکستانی سوال کرتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا تھا ؟؟
    دل کے کانوں سے سنئے !! روح کے کانوں سے سنئے !! بیدار آنکھوں سے مشاہدہ کیجئے !! خیبر سے راس کماری تک اسلامیان ہند کے اس نعرہ مستانہ کی گونج سنائی دے رہی ہے جو ہر بچے ، بوڑھے ، جوان نے لگایا تھا ۔ ۔۔۔
    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ
    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ
    پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ
    وطن عزیز کی فضائیں پھر سے ایک صدا سننے کو بے تاب ہیں ،مسلمان کو پھر سے رشتہ مواخات میں جوڑنے کی ضرورت ہے قرارداد تکمیل پاکستان کی ضرورت ہے ۔ دل چاہتا تھاکہ پکار پکار کہ ہرپاکستانی کو بتا دوں !!!
    تیرا میرا رشتہ کیا لا الہ الا اللہ
    یہ سعادت صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اس کی بنیاد عظیم کلمہ انقلاب پر رکھی گئی جس کا اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کرکے ایک انسان کاروان اسلام میں داخل ہونے کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے ۔
    ۳۲ مارچ تجدید عہد کا دن بھی ہے کہ ہم یکجا و یکجان ہوکر اس ملک کی خاطر ، پاکستان کی خاطر وطن عزیز کی سلامتی کیلئے ، وہ قربانی دیں جو اس کے قومی وقار کا تقاضا ہو ۔ ہم وطن عزیز کو قائد کا حقیقی پاکستان اور اقبال کے خواب کی عملی تعبیر بنادیں ۔
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مقابلہ مضمون نویسی برائے یوم پاکستان

    چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!!



    قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں ، باوجود کانگریس کی تمام ترسازشوں اور انگریزوں کی جانبداری کے، بر صغیر کے مسلمانوں نے بالاآخر ایک علیحدہ وطن حاصل کر ہی لیاتاکہ وہ اپنے تصورات کے مطابق امن و سکون سے زندگی گزاریں اور وہ مذہبی وسماجی احترام اور معاشی خوشحالی حاصل کریں جو انہیں ہندوستان میں متعصب ہندوؤں کی اکثریت تلے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کا شہری بننے والا ہر شخص اپنا اپنا تصور پاکستان رکھتا تھا اور آج بھی رکھتا ہے۔ کوئی پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام چاہتا ہے تو کوئی پاکستان کو فلاحی اور روشن خیال ریاست دیکھنے کا خواہاں ہے تو کوئی پاکستان کو جدید جمہوری ریاست بنانے کا خواہاں ہے۔ سب کے تصورات اور نظریات قابل احترام ہیں لیکن ان تمام تصورات و نظریات اور نظام سے قطع نظر بحیثیت قوم جو ریاستی اجزائے فکر وعمل د رکار ہیں وہ خلوص نیت، مصلحت سے پاک قیادت، ایمانداری، خوداحتسابی، نظم و ضبط، آئین و قانون کی پاسداری ، باہمی سماجی اور دیگرمذاہب و عقائد کا احترام ہیں۔ بدقسمتی سے ملک میں موجود ان تصورات اور نظریات کے حامل افراد و جماعتوں کے قول و فعل کے تضادات نے ملک کو اسلامی رہنے دیا اور نہ ہی جمہوری اور فلاحی۔اسلامی نظام کے خواہشمندوں نے فرقہ ورانہ جماعتیں بنا ڈالیں، غیر جمہوری قوتوں کی ہمنوائی کی اور ان کے الہ کار بنے، ملک کو جمہوری دیکھنے والوں نے خو د اپنی جماعتوں میں غیرجمہوری روایتیں پیدا کیں اور ہر جمہوری اصول کی نفی کی۔ ملک کو فلاحی ریاست بنانے والے ملک کے و سائل کو لٹتا دیکھتے رہتے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتے۔فکری انتشار اور باہمی عدم اعتمادکا یہ عالم ہو گیا ہے کہ ڈیم بنانا ہو یا صوبے بنانا ہو ، بلدیاتی نظام کیسا ہویا تعلیمی نظام کیسا ہو ہم بحیثیت قوم کہیں اتفاق رائے کے قابل نہیں رہے۔
    ہر یوم آزادی (یوم پاکستان)زندہ اور بیدار قوموں کے لئے ایک سنگ میل ہوتا ہے تاکہ اس دن وہ ٹھہر کر ایک نظراپنے گزرے ہوئے کل پر ڈالیں ، سرزد ہونے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کریں اور آئندہ کے لئے ان غلطیوں کے ارتکاب سے گریز کریں۔ ملک کو اس کے قیام کے بعد حالات و واقعات نے منزل مقصود سے دور کردیا۔ ریاستی اجزائے فکر وعمل کو پس پشت ڈالنے کے باعث ہم ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کی جڑوں میں بے یقینی ، خودغرضی اور اجتماعی بے حسی رچ بس گئی ہے۔ ہمیں ان تمام قومی بیماریوں سے چھٹکارا پانا ہو گااگر ہم ایک قوم کے طور پر باقی رہنا چاہتے ہوں۔
    ایک اور یوم پاکستان ہمیں پھر سوچنے کا موقع فراہم کررہا ہے کہ جن مقاصد کے لیے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی حاصل نہیں ہوئے ، جو زندگی گزارنے کے لئے پاکستان بنایا تھا وہ ابھی صرف خواب ہے، جو معاشی آزادی چاہتے تھے اس کی منزل ابھی کوسوں دور ہے۔ اس خطے میں ہم اپنے پڑوسی ممالک سے ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔۔ ہمیں پڑھنا ہے۔۔۔ آگے بڑھنا ہے ۔۔۔۔۔ خود کو بدلنا ہے۔۔۔ اپنی منزل پانے کے لئے۔۔۔۔ اپنی رفتار بڑھانی ہے اور تیز دوڑنا ہے۔۔۔ جوش کے ساتھ۔۔ لیکن ہوش میں رہ کر۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں