1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مغرب کی قرأت کا بیان

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏24 ستمبر 2020۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سنن ترمذي
    کتاب: نماز کے احکام و مسائل
    118۔ باب: مغرب کی قرأت کا بیان۔

    حدیث نمبر: 308

    حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن امه ام الفضل، قالت: خرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عاصب راسه في مرضه فصلى المغرب فقرا ب: " المرسلات "، قالت: فما صلاها بعد حتى لقي الله قال: وفي الباب عن جبير بن مطعم، وابن عمر ، وابي ايوب ، وزيد بن ثابت، قال ابو عيسى: حديث ام الفضل حديث حسن صحيح، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم انه " قرا في المغرب ب: الاعراف في الركعتين كلتيهما " وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه قرا في المغرب ب: الطور " وروي عن عمر انه كتب إلى ابي موسى، ان اقرا في المغرب بقصار المفصل، وروي عن ابي بكر الصديق انه قرا في المغرب بقصار المفصل، قال: وعلى هذا العمل عند اهل العلم، وبه يقول: ابن المبارك ، واحمد ، وإسحاق، وقال الشافعي: وذكر عن مالك انه كره ان يقرا في صلاة المغرب بالسور الطوال نحو الطور و المرسلات، قال الشافعي: لا اكره ذلك بل استحب ان يقرا بهذه السور في صلاة المغرب۔

    عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے: ان کی ماں ام الفضل رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے، مغرب پڑھائی تو سورۂ ”مرسلات“ پڑھی، پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے ۱؎۔

    امام ترمذی کہتے ہیں:
    ۱- ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے،
    ۲- اس باب میں جبیر بن مطعم، ابن عمر، ابوایوب اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
    ۳- اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورۃ الاعراف پڑھی، اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں سورۃ الطور پڑھی،
    ۵- عمر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی الله عنہ کو لکھا کہ تم مغرب میں «قصار مفصل» پڑھا کرو،
    ۶- اور ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں «قصار مفصل» پڑھتے تھے،
    ۷- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،
    ۸- امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اور مرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جانا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا، بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتا ہوں۔

    32373 - 308

    تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 98 (763)، والمغازی 83 (4429)، صحیح مسلم/الصلاة 35 (462)، سنن ابی داود/ الصلاة 132 (810)، سنن النسائی/الافتتاح 64 (986)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 9 (831)، (تحفة الأشراف: 18052)، مسند احمد (6/338، 340)، سنن الدارمی/الصلاة 64 (1331) (صحیح)»

    وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے «إن آخر صلاة صلاّها النبي صلى الله عليه وسلم في مرض موته الظهر» بظاہر ان دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جو نماز آپ نے مسجد میں پڑھی اس میں سب سے آخری نماز ظہر کی تھی، اور آپ نے جو نمازیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری نماز مغرب تھی، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے «خرج إلينا رسول الله وهو عاصب رأسه» ”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہماری طرف نکلے آپ سر پر پٹی باندھے ہوئے تھے“ جس سے لگتا ہے کہ یہ نماز بھی آپ نے مسجد میں پڑھی تھی، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہاں نکلنے سے مراد مسجد میں جانا نہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھر والوں کے پاس آنا مراد ہے۔

    قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (831)
     

اس صفحے کو مشتہر کریں