1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مغربی بنگال کے مدارس میں ہندو طلبہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏18 جون 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    مغربی بنگال کے مدارس میں ہندو طلبہ​


    ہندوستان میں دینی مدارس کو اکثر شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ ان مذہبی اداروں پر یہ الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے کہ یہاں پر صرف قدیم مذہبی علوم کی ہی تعلیم دی جاتی ہے اور بعض اوقات تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان درسگاہوں میں دہشتگردی کے نظریات بھی فروغ پاتے ہیں۔ ان تمام الزام تراشیوں کے باوجود مغربی بنگال کے مدارس نہ صرف ترقی کر رہے ہيں بلکہ ان میں ہندو طلبہ کی تعداد میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے۔

    ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہائی مدرسہ یعنی ہائي سکول کے مساوی امتحان دینے والے ہر چار میں ایک طالب علم غیر مسلم ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر طلبہ کی کل تعداد کا تقریباً 20 فیصد غیر مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تعلیمی سال 2007 میں ہائی مدرسہ امیدواروں میں غیر مسلمان طلبہ کا تناسب تقریباً 28 فیصد تھا۔

    نارتھ ڈنجا پور ضلع کے قصبے موہوسو کے ہائی مدرسہ میں مسلمان طلبہ اقلیت میں ہیں اور طالب علموں کی کل تعداد کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ ہندو طالب علموں پر مشتمل ہے۔

    بورڈ کے امتحان میں مدارس کی اعلیٰ کارکردگی اور میڈیکل، انجینئرنگ اور ایم بی اے کے داخلی امتحانات میں یہاں سے نکلنے والے طلبہ کی کامیابیاں بھی مدارس کے بارے میں غیر مسلمانوں کے بدلتے ہوئے خیالات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دراصل ان درسگاہوں میں اسلامیات اور عربی کی بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ تمام عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ امتحانات مغربی بنگال مدرسہ بورڈ کے تحت ہوتے ہیں اور یہاں سے ملنے والی سند مغربی بنگال سیکنڈری بورڈ کی سند کے ہی مساوی مانی جاتی ہے۔

    ریاستی وزیر برائے تعلیم مدرسہ عبدالستار کہتے ہیں کہ ’ہمارے طالب علم کسی بھی مین اسٹریم اسکول کے طلبہ کے شانہ بہ شانہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں اور روز نئی کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔‘

    مسٹر ستار کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدارس کے نصاب کی جدیدیت کے ساتھ شمولیت بھی غیر مسلم طلباء کی اس بڑی تعداد کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔

    ان مدارس میں برہمن، پسماندہ اور دلت ہندو اور عیسائی اور قبائلی طلبا سبھی زیر تعلیم ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں تعلیم کی مفت فراہمی اور دلت اور قبائلی طلبہ کو ملنے والی مالی امداد ہے۔

    مدارس کے ہندو طالب علموں کو اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملتا ہے جو کہ ان دو برادریوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں کافی معاون ثابت ہوا ہے۔

    عزیزہ ہائی مدرسے کے سنندا کھویا بتاتے ہیں کہ ان کے ذہن میں اسلام کی تصویر ایک سخت گیر مذہب کی ہوا کرتی تھی۔ لیکن یہاں آنے کے بعد انہوں نے پایا کہ اسلام کا انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’میں نے پیغمبر اسلام کی حیات کا مطالعہ کیا ہے، ان کی تعلمیات میں میں تعصب اور نفرت؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

    ایک اور طالب علم سنجے پاترو جنہوں نے مدرسہ ہائی امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا ہے کہتے ہیں: ’میری برادری کے کچھ افراد اکثر مجھےطنز و تنقید کا نشانہ بنایا کرتےتھے لیکن امتحانات میں اس کامیابی کے بعد اب وہی لوگ مدارس اور ان کے طرز تعلیم کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کر رہے ہيں۔‘

    عزیزہ مدرسے کی ہی طالبات موہانا مکھرجی، میناکشی منڈل اور شیاملی داس کہتی ہیں کہ ان کو مدرسے میں کبھی بھی کسی قسم کے تعصب یا تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مکھرجی مسکراتے ہو‎ئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے سبھی اساتذہ کی بے حد پسندیدہ ہیں۔ ان سبھی طلبہ کا موقف ہے کہ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد ان سبھی کے نظریات میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اور یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ تا زندگی وہ لوگ مسلمانوں کے بے حد قریب رہیں گے۔

    اپنی تعلیمی کامیابیوں کے لیے بھی یہ لوگ مدرسہ کے بے حد ممنون ہیں۔ مدارس کے انفراسٹریکچر کی جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگی اور غیر مسلم طلباء کی یہاں موجودگی کی مخالفت میں بعض حلقوں سے گاہے بہ گاہے دبی دبی آوزیں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔ یہ بھی اعتراض ہوتا ہے کہ ان مذہبی مکاتب کی اسلامی شناخت متاثر ہو رہی ہے۔ جبکہ اس کی تائید کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ بنا جدید تعلیم حاصل کیے مسلمان دور حاضر کے مسائل کا سامنا نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کو مین اسٹریم میں لانے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی تربیت روحانی اور عصری دونو‍ں سطح پر یکساں ہو۔

    مغربی بنگال بورڈ کے صدر سہراب حسین کے الفاظ میں ’ہمیں وقت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہے۔ برٹش راج کے دوران ہمارے رہنماؤں نے انگریزی اور سائنسی تعلیم کو مسترد کرکے قوم کا ناقابل تلافی نقصان کیا ہے۔ اب ہم ماضی کی غلطیاں نہیں دوہرا سکتے ہیں۔‘

    ماخوذ از : بی بی سی ڈاٹ کوم
     
  2. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سبحان اللہ!!!

    محترم پیا جی اتنی خوبصورت تحریر ارسال کرنے پر جزاکَ اللہ!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں