1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از فواد -, ‏8 مارچ 2011۔

  1. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    مریکی ریاست ورجینیا میں ایک مسلح شخص کی فائرنگ سے 8 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ ورجینیا کی پولیس کے مطابق یہ واقعہ ریاست ورجینیا کے علاقے Appomottox میں پیش آیا۔


    ورجینیا کی لا اینڈ آرڈر ایجنسی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بین الاقوامی خبررساں ادارے AP کو بتایا کہ تنہا ایک شخص کی فائرنگ میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق مرکزی ورجینیا میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 8 افراد میں سے 7 کی لاشیں ایک گھر سے ملی ہیں۔ پولیس نے مزید بتایا ہے کہ 39 سالہ مبینہ مجرم Christopher Speight غالباً اسی گھر کے نزدیک جنگل میں چھپا ہوا ہے، جسے پولیس نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ قبل ازیں اس واقعے کی تفتیش کے بارے میں ایک افسر نے تفصیلات یہ کہہ کر بتانے سے انکار کردیا تھا کہ اُسے تفتیشی کارروائی کے بارے میں کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔

    ورجینیا کی پولیس کے مطابق اس کے سو سے زائد اہلکار اُن جھاڑیوں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں، جن میں غالباً مبینہ مجرم چھپا ہوا ہے۔ پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا تاہم پولیس ترجمان نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ مسلح شخص نے پولیس کے ایک ہیلی کوپٹر پر بھی اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ہیلی کوپٹر کا فیول ٹینک پھٹ گیا، جس کے بعد ہیلی کوپٹر کو لینڈ کرنا پڑا۔ تاہم کسی پولیس اہلکار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ تشدد کے اس واقعے کے بعد ورجینیا کے اس دیہی علاقے میں کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ پولیس نے مزید بتایا کہ ورجینیا کے علاقے Appomottox میں اس دہشت گردانہ کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں کوئی بچہ شامل نہیں تھا۔
    http://www.dw-world.de/dw/article/0,,5148349,00.html
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    ذرائع کے مطابق امریکی ریاست ورجینیا کے ایک کالج میں جنونی شخص کی فائرنگ سی ہلاک ہونے والوں کی تعداد33ہوگئی ہے ۔ واقعے کے بعد حملہ آور نے خود کو بھی گولی مار لی۔

    کالج دو روز کیلئے بند کر دیا گیا ہے جبکہ امریکی صدر بش نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اسے قوم کیلئے دھچکا قراردیا ہے۔ ورجینیا ٹیک پولیس چیف کے مطابق فائرنگ کا پہلا واقعہ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے کے قریب بلیک برگ کے علاقے میں واقع یونیورسٹی کے رہائشی ہال کے چوتھے فلور پر پیش آیا۔

    جہاں ایک شخص مارا گیا جبکہ تین گھنٹے بعد انجینئرنگ بلاک میں واقع کلاس روم نمبر 205 اور 206 میں فائرنگ کی گئی، جس سے 30 افراد ہلاک اور28 زخمی ہوگئے۔ حملہ آور نے بعد میں خود کو بھی گولی مار کر خودکشی کرلی۔

    واقعہ کے بعد یونیورسٹی کپمپس میں افرا تفری پھیل گئی اورطلباء نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا کر جانیں بچائیں۔ پولیس کے مطابق فائرنگ کی وجہ تاحال معلوم نہیں کی جاسکی۔

    یونیورسٹی ذرائع کے مطابق ایک مشتبہ ملزم کو حراست میں لیا گیا تھاجسے بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ واقعہ میں زخمی ہونے والے 28 افراد چار مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں جن میں چار کی حالت تشویشناک ہے۔

    واقعہ کے بعد امریکی صدر بش نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسے قوم کیلئے سخت دھچکا قرار دیا۔ انہوں نے ہلاک اور زخمیوں کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے مقامی انتظامیہ کی بھرپور مدد کی جائے گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
    http://www.geourdu.com/newsDetail.php?uID=9403
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    جاہل پاکستان میں بھی ہیں اور احمق اور جنونی امریکا میں بھی
    آپ ان کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے
    کیا صرف پاسکتانی ہی بنیاد پرست ہیں اور اور پادری چرچوں میں گل کھلاتے ہیں کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور جو یہ آپ کے جنونی کررہے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے اب اس بارے میں جناب کا کیا خیال ہے
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    چنگاری ڈاٹ کم،10.03.2008۔۔۔۔۔۔۔۔ فلسطین میں غزہ کی پٹی میں رہنے والے لوگوں کو آج اپنی چالیس سالہ تاریخ میں بدترین بحران کا سامنا ہے۔ عالمی ایجنسیوں ایمنسٹی انٹرنیشنل، اگسفیم، اور سیودی چلڈرن انٹرنیشنل نے اس کا تمام الزام اسرائیل پر لگا یا ہے اور کہا ہے کہ اس بحران سے بچا جا سکتا تھا جو اسرائیل نے مسلط کیا ہے اور یہ آج جو غزہ میں قتل وغارت اور تباہی کی گئی ہے یہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین کو اجتماعی سزا کا حصہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر جو موجودہ خون ریز جارحیت کی ہے اس میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیںاور بے شمار معصوم بچے بھی مارے گئے بے گناہ غریب اور تنگ دست لوگوں کے گھروں اور انفرسٹکچرکو زبردست تباہ وبرباد کیا گیا ہے۔ ویسے توآج اسلامی دہشت گردی کا بڑا چرچا ہے لیکن فلسطین پر صہونی ریاست کی اناسٹھ سالہ مسلسل انسانیت سوز دہشت گردی کے خلاف کوئی نہیں بولتا بلکہ اسے جمہوریت اور انسانی حقوق کا مڈل ایسٹ میں علم بردار کہا جاتا ہے ۔ غزہ کی آبادی گیارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے جس کے اسی فیصد لوگ اقوام متحدہ اور بیرونی امداد پر زندہ ہیںاور پیچھلے ایک سال سے تو یہاں کی آبادی اپنی خوراک یا غذا کے لیے بھی اقوام متحدہ کی مکمل محتاج ہوگئی ہے کیونکہ ایک سال سے غزہ کا اسرائیل نے جو محاصرہ کر رکھا ہے اس نے یہاں کی عوام کی زندگی کو موت سے بدتر کردیا ہے ایک لا کھ دس ہزار ورکرز جو ایک سال قبل ملازم پیشہ تھا ان میں سے آج پچہتر ہزار مکمل بے روزگار ہوچکے ہیں اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو یہ بقیہ پنتیس لاکھ بھی جلد بے روزگاری اور غربت کی بھٹی میں بھسم ہوجائیں گئے۔ یہاں ایک مربہ میٹر میں چھ افراد مفلسی میں جانوروں جیسی زندگی گزرنے پر مجبور ہیںاب تک ایک اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو اسرائیل نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ اسرائیل کا حالیہ حملہ دو ہزار کے بعد بھیانک ترین تھا جس میں اس نے ٹینک اور جنگی جہازوںکا بھر پور استعمال کیا۔ اسرائیل کی یہ ھولناک وحشت فلسطین کی بنیاد پرست تنظیم حماس کا غزہ پر قبضے کے بعد تیز ہوگئی اور سابقہ فلسطین کے وزیر اعظم حماس کے اسماعیل ہانیہ غزہ میں سامراج کی دم چھلا الفتح سے ایک خونی لڑائی کے بعد اپنے ہی علاقے کو فتح کرکے یہاں بیٹھ گئے اور اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیزیاں شروع کردیں اسرائیل کے علاقے ایشکلان اور سیدارت پر تیس راکٹ داغ دیے جو غزہ سے دس کلو میٹر دور ہے اور پھر اسرائیل نے اس کے خلاف ایشکلان کا ورننگ سسٹم پہلی بار ستعمال کیا اور ساٹھ راکٹ غزہ پر پھنکے اسرائیل کے وزیر دفاع ولانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ حماس جتنے راکٹ پھنکے گئی ہم اس سے دوگناہ زیادہ پھنکے گئے اور اپنی پوری طاقت سے اس کا مقابلہ کریں گئے جس پر اسماعیل ہنہ نے کہا ہے کہ فلسطین کو جلد از جلد اپنی فوج تیار کرنی چاہیے تاکہ اسرائیل کا مقابلہ کیا جاسکے۔ یہ ایک بے وقوفی اور جعلی پراپیگنڈہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اسرائیل ایک عالمی بڑی فوجی طاقت ہے جس کا مقابلہ کمزور اور امدادی فلسطین کھبی بھی اسلحہ اور بارود کی بنیاد پر نہیں کرسکتا ایسی نعرہ بازی اسرائیل کے عوام کو فلسطینی عوام کے خلاف کرنے اور اسرائیلی ریاست کو جارحانہ بنانے کی اشتعال انگزی ہے ۔ اور اب اسرائیل کے سکول میں بچوں کو مارنا بھی اسکی تسلسل ہے جو مسائل کا حل نہیں بلکہ انکو مزید الجھنا اور پیچیدہ کرنا ہے۔ ایک سال قبل جب فلسطین کے انتخابات میں حماس نے اکثریت حاصل کی اور اس کے رہنما ہنہ وزیر اعظم بنے تو دنیا میں جمہوریت اور آزدی کے دیو اسرائیل سمیت امریکہ اور یورپ پریشان ہوگئے اور ان اپنے ہی الیکشن اور ان کے نتائج کو مانے سے انکار کردیا اور کہا کہ حماس ایک دہشت گرد اسلامی جماعت ہے جو مڈل ایسٹ کے امن کو برباد کردے گئی اور اسرائیل کے ساتھ کھبی امن معاہدہ نہ ہو سکے گا اس بنیاد پر اقوام متحدہ اور یورپ جو فلسطینی حکومت کو ہر سال اربوں کی امداد دیتا تھا بند کر دی گئی اور یہ امدا اپنے پیٹھو الفتح کے محمود عباس کو جو اپوزیشن میں تھے انکو دی جانے لگی جس سے حماس کی حکومت ناکارہ اور بے بس ہوکر رہ گئی جس سے موجود سماجی بحرانوں میں تیزی آنے لگی اور فلسطین شدید انتشار کاشکار ہونے لگا اور حماس کی حمائت متزلزل ہوگئی جس بنا پر غزہ میں حماس نے الفتح سے جنگ شروع کردی اور اس پر اپنا قبضہ جما لیاحماس کی کوئی نظریاتی اور سماجی بنیاد نہیں ہے اب تک اس کے آگے آنے کی وجہ بھی اسرائیل اور مغرب کی مالی امداد ہی ہے اس نے اپنی ویلفر حماس کے نام پر اسرائیل اور مغرب سے خوب پیسے کمائے اور ان میں سے رفاہی کاموں پر بھی خرچ کیے اس نے اپنے ہسپتال سکوں گھر اور سڑکیں تعمیر کرائیں اور الفتح کی طرح تمام سامراجی امداد قیادت نے خود ہڑپ نہیں کی۔ یاسر عرفات کی بیوی آج دنیا کی امیرترین عورتوں میں شامل ہے جس کا تمام میک اپ فرانس سے آتا ہے اور اسی طرح اب محمود عباس کا نام بھی دنیا کے ارب پتیوں میں آتا ہے اور حماس کے بڑے بڑے اثاثے بھی عوام کے نام پر اسرائیل امریکہ اور یورپ سے بٹوری گی امداد کے ہی مرہون منت ہیں۔ لیکن عوام بے چاری کو صرف بھوک ننگ افلاس خون ریزی اور تباہی ہی ملی ہے اسرائیل کی طرف سے بھی اور اپنی قیادتوں کی طرف سے بھی جو اپنی اپنی مفادات پرستیوںکی آگ میں عوام کو جھونک رہے ہیںالفتح کی تمام سیاست حماس کے خلاف اور حماس کے اسرائیل کے خلاف ہیں اور یہ ایک دوسرے سے ہی دست وگربیاں ہیں اور عوامی مفادات پس پشت ڈالے ہوئے فلسطینی عوام کے اتحاد کی طاقت کو تباہ کرکے انکی تحریک کو کمزور کرر ہے ہیں ۔ ایک طرف اگر سامراج کا ایجنٹ محمود عباس ہے تو دوسری طرف بنیاد پرستی کا اسماعیل ہنہ ہے جو ایک ہی نظام کا مختلف انداز میں دفاع کررہے ہیںجو نجی ملکیت منڈی کی معشیت اور سرمایہ کے غلبے کا نظام ہے جو دولت مندوںکی آمرنہ حاکمیت اور محنت کشو ںکی بے بسی اور محکومی کا نام ہے اور یہی آج فلسطین ، عراق، پاکستان، انڈیا، افریقہ اور پوری دنیاکی تباہی بن چکا ہے جس سے نجات حاصل کیے بغیر امن آزادی استحکام اور عوامی خوشحالی ممکن نہیں۔ فلسطین کی ایک لمبی اور خون آمیز جدوجہد آج تک اسی لیے کسی نتیجے پر نہیں پہنچی کہ اس میں ہمیشہ طبقاتی مفادات کو دبا کرسطحی اور ذاتی مالی مفادات کی سیاست چمکائی گئی جس نے فلسطین کے مسئلہ کو ہر روز پہلے سے زیادہ خونی اور درد ناک بنا دیاجس سے یہ فلسطین کی جرات مند نڈر عوامی تحریک پسا ہوئی اور سامراجی مفادات مضبوط ہوئے اس لیے ضروری ہے کہ طبقاتی جدوجہد کا آغاز کیا جائے جیسے ناگزید طور پر تمام مڈل ایسٹ کے مزدوروں اور عوام سے منسلک کیا جائے اور اس میں اسرائیل کے محنت کشو ںکو بھی شامل کیا جائے جو صرف اور صرف طبقاتی مارکسی بنیادوں پر ممکن ہے مشرق وسطی کا کوئی امن اور استحکام عوامی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ایک خواب ہی رہے گا ہم مشرق وسطی کے سوشلسٹ رضا کارانہ فیڈریشن کے حمامی ہیں جو ہر مسئلہ کا مستقل حل ہے اور فلسطین کی عوام کو سامراجی جبر اور اسرائیلی حکمرانوں سے آزادی دلانے میں اسرائیلی عوام کا خاص کردار ہے جس کو فراموش کئے بغیر اس موجودہ خون آشام رات کا خاتمہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اسرائیلی عوام بھی اپنے حکمرانوں سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں جنہوں نے انکی زندگی اجیران بنا دی ہے بے روزگاری مہنگائی اور گرتا معیار زندگی جو حکمرانوں کی لوٹ ہے اور اس کو یہ فلسطین کے مسئلہ پر قائم کیے ہوئے ہیں اور حماس کو یہ بنیاد بناتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل میں مزدوروں کی طبقاتی تحریک جاری ہے جس کو فلسطین کی طبقاتی تحریک مضبوط کرئے گئی اور طاقت دے گئی ۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب اور مڈل ایسٹ کے حکمران تو آج امریکن غلامی میں بے رحمی کی تما م حددو کو کراس کر چکے ہیں اور آج فلسطین اور عراق کے لوگوں کے خون پر یہ مگرمجھ کے آنسو بھی نہیں بہاتے یہ بھی آج مڈل ایسٹ کے خون اور تباہی میں اسرائیل اور امریکہ کے ظلم میں ان سے زیادہ شریک ہیں کیونکہ انہی کی ایما پر ان سامراجیوں کو فلسطین اور عراق پر جارجیت کرنے کا موقع ملااور جرات ہوئی ہے اور انہوں نے آج بھی خون کا بازار گرم کیا ہوا ہے آئیںان سب ظالم حکمرانوں کے خلاف مڈل ایسٹ کی عوام کے طبقاتی ہمہ گیر اتحاد اور جدوجہد کی طرف جو فتح کے لیے لازمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معظم کاظمی
    http://www.chingaree.com/newdetail.php?id=274
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    ابنا کی رپورٹ کے مطابق طبی کارکنوں اور دیگر عینی شاہدین نے کہا ہے کہ ایک عورت اور ایک بچہ کل صبح اقوام متحدہ کے سکول پر اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے ہیں جو کہ شمالی غزہ میں واقع ہے اور اس سکول میں عام شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی.
    فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے ترجمان «کرسٹوفر گونز» نے کہا ہے کہ اس واقعے سے ایک بار پھر اس المیئے کا اظہار ہورہا ہے کہ غزہ میں کوئی بھی محفوظ مقام موجود نہیں ہے اور حتی اقوام متحدہ کی تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں. انہوں نے کہا کہ بھاگنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
    اسی طرح کے ایک انتہائی خونریز حملے میں ایک بار 43 افراد ایک ساتھ موت کی گھاٹ اتار دیئے گئے جب چھ جنوری کو جبالیا کے شمالی شہر میں اسرائیلی ٹینک نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک سکول کو گولے کا نشانہ بنایا.
    اسرائیلی افواج نے غزہ کو زمین، فضا اور سمندر سے اپنے شدید حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور یہودی ریاست نے کہا ہے کہ اب یہ ریاست اپنے مقاصد کے حصول کے بالکل قریب پہنچ گئی ہے اور اس کی «نہایت طاقتور جنگی کابینہ!» یک طرفہ جنگ بندی کی تجویز کی منظوری کی تیاری کررہی ہے!!.
    کئی ہفتوں سے جاری گھمسان کی جنگ کے باوجود – جس میں 1200 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے – حماس نے اسرائیلی افواج کے غزہ سے انخلاء اور تمام گذرگاہوں کے کھلنے تک جنگ جاری رکھنے پر تاکید کی ہے.
    اسرائیلی کے جنگی بحری جہازوں اور ٹینکوں نے غزہ شہر کے ارد گرد مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور وہیں سے شہر کے گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور دوسری طرف سے بیت لاہیا میں اقوام متحدہ کا سکول اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں آگ میں جل رہا ہے۔
    انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل فاسفورس بموں کا بے تحاشا استتعمال کررہا ہے. یہ بم میدان جنگ کے اوپر وسیع دھوئیں کی دبیز تہہ جمانے کے لئے تیار کئے گئے ہیں جو اس وقت البتہ شہری علاقوں میں ااستعمال ہورہے ہیں. اس رپورٹ میں اسرائیل نے دعوی کیا ہے کہ وہ اس جنگ میں قانونی ہتھیار استعمال کررہا ہے مگر عالمی ایجنسیوں اور غزہ میں سرگرم عمل یورپی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اسرائیل انجانے ہتھیار استعمال کررہا ہے اور فاسفورس بم بھی نہایت خطرناک ہیں جو گنجان آباد علاقوں کے اوپر چھوتے چھوتے تکروں میں بت کر پھٹتے ہیں اور اس کا دھواں ہر جاندار کو – کیمیاوی ہتھیاروں کی مانند – جلادیتا ہے. انہوں نے غزه میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت کے بارے میں عالمی سطح پر تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے.
    ابنا کے مطابق غیر جانبدار ذرائع نے کہا ہے غزہ کے نہتے مسلمان اس وقت نہ صرف مہلک اور ممنوعہ صہیونی ہتھیاروں کی آزمایش کا نشانہ بن رہے ہیں بلکہ یہاں امریکی ہتھیاروں کی بھی آزمائش ہورہی ہے.
    امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع خبروں کے مطابق، غزہ کی پٹی پر فوجی جارحیت کے دوران اسرائیل نے کئی قسم کے مہلک ہتھیار ٹیسٹ کرلیے ہیں ان میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو امریکہ نے گذشتہ چند برسوں میں اسرائیل کو وافر مقدار میں فراہم کیے ہیں- نیز یہ کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی کی وجہ ہی سے اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر بھرپور جارحیت کا فیصلہ کیا-
    انٹر پریس سروس نیوز ایجنسی نے مڈل ایسٹ رپورٹ واشنگٹن کے ایڈیٹر موعن ربانی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ امریکہ و اسرائیل کے درمیان بھرپور فوجی تعاون اور اسرائیل کی جانب سے جنگیں شروع کرنے کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ صہیونی ریاست حقیقی زمینی و فضائی جنگ میں نئے ہتھیار ٹیسٹ کرنے میں کامیاب رہی اور اس سے امریکہ کو بالواسطہ فائدہ پہنچ رہا ہے-
    ربانی نے مزید کہا کہ ان ہتھیاروں سے کم مؤثر ہتھیار عربوں کو انتہائی مہنگے فروخت کیے جاتے ہیں جو امریکی اسلحہ ساز اداروں کے اہم گاہک ہیں اور اسی کی بدولت اسرائیل کو بھاری امداد دی جاتی ہے-
    بش انتظامیہ نے اسرائیل کو سیکورٹی انتظامات کے لیے اکیس بلین ڈالر کی رقم گذشتہ آٹھ برسوں میں فراہم کی- ان میں سے نو ملین ڈالر بطور گرانٹ دیے گئے- سال 2008ء میں اسرائیل نے 75 ایف 35 جیٹ فائیٹرز نو فوجی ٹرانسپورٹ طیاروں اور چار بحری کشتیوں کے لیے امریکہ سے بائیس بلین ڈالر کے معاہدے کیے-
    ریپبلکن رکن کانگرس ڈینس کچ انچ نے گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر کارروائی کے دوران امریکی اسلحے کے استعمال سے اسلحہ برآمد کنٹرول کے قانون کی خلاف ورزی کا امکان ہے-
    اے ایف پی کے مطابق غزہ کی ایمرجنسی سروسز کے سربراہ ڈاکٹر معاویہ حسنین نے کہا ہے کہ اب تک 1205 فلسطینی شہید ہوئے ہیں جن میں 410 بچے، 108 خواتین، 113 معمر افراد، 14 پیرامیڈکس، اور 4 صحافی شامل ہیں جبکہ 5300 افراد ان حملوں میں زخمی ہوئے ہیں.
    دریں اثناء تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق غزہ میں عمارتوں کے ملبے سے بچوں سمیت مزید 95 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے اپنے ہی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں آج بھی حملے کئے جن میں ایک فلسطینی شہید ہوگیا ۔
    حماس نے بھی اسرائیل پر پانچ سے چھ راکٹ فائر کئے جو سدیروت کے علاقے میں گرے ، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔
    ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نے سیکیورٹی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ غزہ میں جنگ بندی حتمی نہیں ہے ۔ اسرائیل لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال کا جائزہ لے رہا ہے ۔راکٹ حملے جاری رہے تو اسرائیلی فوج بھی کارروائی کرے گی ۔
    فلسطین کے صدر محمود عباس (جن کی صدارت کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اب غیرقانونی صدر ہی کہلائیں تو مناسب ہوگا) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کافی نہیں ہے ۔ اسے اپنی فوج غزہ سے نکالنے اور تمام بارڈر کراسنگز کھولنی ہوں گی ۔
    تین ہفتوں تک اسرائیل کے بری ، بحری اور فضائی حملوں میں1300 کے قریب فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار سے زائد ہے۔ صہیونی ذرائع کے مطابق حماس کے جوابی حملوں میں دس اسرائیلی فوجی اورتین اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے ۔اسرائیلی حملوں میں اٹھارہ اسکولوں اور یونیورسٹیز کی عمارتوں سمیت بیس ہزار سے زیادہ رہائشی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور چار ہزار سے زیادہ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں جبکہ شہری انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
    ادھر فلسطینی مجاہد تنظیموں نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کرکے فوجوں کے انخلا کے لیے اسرائیل کو ایک ہفتے کی مہلت دی ہے۔
    اسرائیل اس جنگ میں شکست سے دوچار ہوا جبکہ نہ صرف صہیونی حکام بلکہ عرب حکمرانوں خاص طور پر مصر اور سعودی عرب کے سربراہوں کو اسرائیلی فتح اور حماس کی شکست کی توقع تهی، ان حکمرانوں نے تین ہفتوں کی اس جنگ کی دوران نہایت شرمناک کارکردگی دکھائی اور حتی که ایک معمولی سی کانفرنس کے انعقاد کا بھی اہتمام نہ کیا اور جب قطر میں اجلاس ہوا تو اس کا بھی حسنی مبارک اور خادم الحرمین کہلوانے پر بضد سعودی بادشاہ نے بائیکاٹ کیا مگر اب جبکہ اسرائیل نے تقریباً شکست کا اعتراف کرہی لیا اور نہ صہیونیوں کو فتح نصیب ہوئی اور نہ ہی عرب حکمرانوں کو صہیونی سرغنوں کے لئے مبارکباد کے پیغامات بھیجنے کا موقع ملا.
    اس دوران جنوبی امریکه کے چھوٹے سے لاطینی ملک بولیویا کے صدر مورالس اور وینزوئلا کے صدر ہوگو چاوز نے صہیونی سفارتخانوں کے عملوں کو ملک بدر کرکے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات توڑنے کا باضابطہ اعلان کیا اور اسی بنا پر کویتی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے طنزیہ انداز میں تجویز دی کہ «عرب لیگ کا ہیڈ آفس قاہرہ سے کاراکاس منتقل ہوجانا چاہئے»!
    بہرحال اب اونٹ ایک کروٹ بیٹھ ہی گیا ہے تو مصری صدر نے شرم الشیخ میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا ہے جس میں عرب حکمرانوں سمیت یورپی ممالک کے بعض سربراه بھی شرکت کررہے ہیں.
    بتایا گیا ہے کہ یہ اجلاس غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے منعقد کیا گیا ہے.
    http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=132897
     
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    اور جو یہ ناجائزامریکی بچہ اسرائیل کررہا ہے اس بارے میں کیا خیال ہے
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    مجھے امید ہے کہ فواد صاحب سمیت ہر انسانی حقوق کا علمبدار اسرائیل کی بھرپور مذمت کرے گا ۔
    گو کہ آج تک انہیں توفیق نہیں ملی۔






     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    اور یقینا یہ حقائق بھی مخفی نہیں ۔

     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    مگر یہ حقائق ڈالروں کی پٹی میں سے نظر نہیں آتے
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
    مسلہ فلسطين – امريکی موقف


    اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکی حکومت اور امريکی عوام اسرائيل کو اپنا دوست سمجھتے ہيں۔ اس حوالے سے ميں ايک وضاحت کر دوں کہ امريکہ ميں يہودی تنظيميں اور مختلف گروپ نظام کے اندر رہتے ہوۓ امريکی حکومت کے پاليسی ميکرز اور قانون کے ماہرين کو اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہيں اور انہيں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہيں۔ ليکن يہ کسی خفيہ سازشی عمل کا حصہ نہيں ہے۔ يہ آزادی تمام سماجی اور مذہبی تنظيميوں کو يکساں حاصل ہے۔ يہی امريکی جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور يہ کوئ ڈھکی چھپی بات نہيں ہے۔ پاکستانی میڈيا ميں اسی بات کو "یہودی لابی کی سازشيں" جيسے ليبل لگا کر ايک دوسرے انداز ميں پيش کيا جاتا ہے۔ يہ مفروضہ امريکی نظام سے ناواقف لوگوں ميں خاصہ مقبول ہے۔ 300 ملين کی آبادی والے ملک ميں کسی ايک گروہ کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ہر فيصلے پر اثرانداز ہو – سياسی توازن کو برقرار رکھنے کے ليے اس امر کو يقينی بنايا جاتا ہے۔اہم بات يہ ہے کہ جن فورمز کو يہودی تنظيميں استعمال کرتی ہيں وہ عرب کے مسلمانوں سميت سب کو ميسر ہيں۔ يہ وہ نقطہ ہے جس پر بعض عرب ليڈر اور حماس جيسی تنظيميں اپنا رول ادا کرنے ميں ناکام رہی ہيں۔ ليکن ميں آپ کو بتاتا چلوں کہ پچھلے کچھ عرصے سے اس صورت حال ميں تبديلی آ رہی ہے۔ امريکہ ميں بہت سی ایسی مسلم اور عرب تنظيميں منظر عام پر آئ ہيں جو فلسطين کے مسلۓ کے حل کے ليے يہودی تنظيموں کی طرح اپنا رول ادا کر رہی ہيں۔ اور اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گۓ ہيں۔


    امريکی حکومت کی جانب سے اسرائيل کی حمايت کے ضمن ميں تمام سوالات اور آراء پڑھی ہيں۔ امريکی حکومت اس عالمی کوشش کا حصہ ہے جس کی بنياد اسرائيل اور فلسطين کے عوام کی خواہشات کے عين مطابق خطے ميں پائيدار امن کے قيام کا حصول ممکن بنانا ہے۔

    ہم خطے ميں ايک مربوط امن معاہدے کے لیے کوشاں ہيں جس ميں فلسطين کے عوام کی اميدوں کے عين مطابق ايک خودمختار اور آزاد فلسطينی رياست کے قيام کا حصول شامل ہے۔ اس ايشو کے حوالے سے امريکہ پر زيادہ تر تنقید اس غلط سوچ کی بنياد پر کی جاتی ہے کہ امريکہ کو دونوں ميں سے کسی ايک فريق کو منتخب کرنا ہو گا۔ يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ امريکہ اسرائيل کی غيرمشروط حمايت کرتا ہے۔ ہم اسرائيل کے بہت سے اقدامات پر تحفظات رکھتے ہيں۔


    ميں يہ بھی ياد دلا دوں کہ سال 2008 ميں غزہ ميں حملے کے بعد امريکہ نے اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 1860 کی مکمل حمايت کی تھی جس کے تحت مستقل اور پائيدار جنگ بندی اور غزہ سے اسرائيلی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اسی قرارداد ميں غزہ کے مکينوں کے ليے خوراک اور طبی امداد کی فراہمی کو يقينی بنانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    بہت سے تجزيہ نگار لگاتار امريکہ کی جانب سے اسرائيل کو دی جانے والی امداد کا ذکر کرتے ہیں ليکن اسی پيراۓ اور دليل ميں وہ اس حقيقت کو نظرانداز کر ديتے ہيں کہ امريکی حکومت فلسطين کو معاشی اور ترقياتی مد ميں امداد فراہم کرنے والے ممالک ميں سرفہرست ہے۔ سال 1993 سے يو ايس ايڈ کے توسط سے قريب 3 بلين ڈالرز کی امداد مہيا کی جا چکی ہے۔ اس امداد کے ذريعے جن شعبوں ميں ترقياتی منصوبوں کو سپورٹ فراہم کی گئ ہے ان ميں صاف پانی کی فراہمی، انفراسٹکچر، تعليم، صحت اور معاشی ترقی جيسے اہم شعبہ جات شامل ہيں۔

    امريکی حکومت غزہ ميں بنيادی انسانی ضروريات بشمول خوراک، ادويات، صاف پانی اور علاج معالجے کی سہوليات کی فراہمی کو يقينی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ غزہ ميں ان سہوليات کی فراہمی کو اقوام متحدہ کی "ريليف اينڈ ورکس" ايجنسی اور ديگر بين الاقوامی نجی تنظيموں کے ذريعے ممکن بنايا جاتا ہے۔

    ايک آزاد و خود مختار فلسطينی رياست کے ليے بنيادی انفراسٹکچر کی تعمير امريکہ سميت تمام فريقين کی بنيادی ترجيح ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  12. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    واہ
    کیا پالیسی ہے پہلے برباد کرو پھر سود پر قرضہ دو اور اپنی شرائط منواؤ
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    فواد صاحب نے امریکی ترجمانی کرتے ہوئے

    سوال گندم ، جواب چنا ۔۔۔ بلکہ جواب کالا چنا
    دینے کی پالیسی اپنائی ہے۔

    ہمیں مشرق وسطی میں امریکہ و اسرائیلی صہیونی طاقتوں کی ڈگڈگی نہیں سننی ۔

    ہم نے صرف اوپر دی گئی ویڈیوز کلپس کہ جن میں‌اسرائیلی بربریت کا شکار فلسطینی معصوم بچے موت کے گھاٹ اتررہے ہیں ان پر تبصرہ مانگا تھا ۔
     
  14. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟


    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں يہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ميڈيا اور فورمز پر بعض تجزيہ نگار ايسے واقعے کے ليے امريکہ کو کيونکر مورد الزام قرار دے رہے ہيں جس ميں امريکہ کا نہ ہی کوئ عمل دخل ہے اور نہ ہی امريکہ اس واقعے ميں فريق کی حيثيت سے شامل تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اسرائيل کو دوست اور اتحادی قرار ديتا ہے ليکن اس حقيقت کا اطلاق تو دنيا کے کئ مسلم اور غير مسلم ممالک پر بھی ہوتا ہے۔ ليکن اسرائيل بحرصورت ايک خود مختار ملک ہے اور امريکہ کو ہر اس واقعے کے ليے موردالزام اور جواب دہ نہيں قرار ديا جا سکتا جس کے فريقين میں امريکہ کا کوئ دوست يا اتحادی ملک شامل ہو۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    واہ ۔۔۔ امریکی منافقت ، دورنگی اور مسلم و غیر مسلم کے لیے دہرے معیار کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہوگی ۔
    اگر اسرائیلی مظالم پر امریکہ مذمت تک بھی کرنے کی جرات یا تکلف نہیں کرتا ۔ اور فواد صاحب بطور امریکی نمائندے کے اسرائیل بربریت پر ایک مذمتی لفظ بھی کہنے کی بجائے پہلو تہی کرنے کی پالیسی اپناتے ہیں ۔ تو پھر اس لڑی کے پہلے پیغام کو انٹرنیٹ پر پوسٹ کرنے کا تکلف ۔۔۔ سوائے اسلام دشمن پراپیگنڈہ ۔۔۔۔ کے اور کیا ہوسکتا ہے !!!!
    کیونکہ امریکہ تو کسی ایسے اتحادی کے معاملے میں بھی خود کو جوابدہ یا مورد الزام نہیں سمجھتا اور انکے کسی ظالمانہ فعل کو own نہیں‌کرتا تو پھر اس لڑی کے پہلے پیغام میں دیے گئے دہشتگردوں کی دہشت گردانہ کاروائی کو پیش کرکے کونسا ثواب کمایا جارہا ہے۔۔ یا پھر کہیں‌ایسا تو نہیں‌امریکہ دہشتگردی کی کاروائی پر تبصرے کرکے دراصل رائمنڈ ڈیوس، سی آئی اے، بلیک واٹر اور دہشت گرد تنظیموں کے ہر کاروائی کو own کررہا ہے۔
     
  16. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    عراق اور افغانستان میں کیا تکلیف ہوئی تھی جو بھاک کر آئے ہیں اور پاکستان نے آپ کا کیا پاؤں کچل دیا ہے جو اتنی تکلیف ہورہی ہے
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: معصوم بچوں سے نفرت کيوں؟

    فواد صاحب امریکہ کے ترجمان ہیں ۔ اور انکی طویل خاموشی نے انسانی حقوق کے جھوٹے علمبردار کا یہ پول کھول دیا کہ انکے ہاں انسانی اقدار کے دہرے پیمانے ہیں جو کہ غیر مسلموں کے لیے اور اور مسلمانوں کے لیے اور ہیں۔
    جبھی تو موصوف کو اپنے آقا سے فلسطینی بچوں پر اسرائیلی جبر و تشدد کی مذمت کرنے کی اجازت تک نہیں ملی ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں