1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معراج النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏20 اگست 2006۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    معراج النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسل

    معراج النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم

    احادیث اور کتب فضائل میں آتا ہے کہ ابھی حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو ابھی چند مہینے رہتے تھے کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ صحابہ سے منقول ہے کہ ان کے انتقال کے موقع پر فرشتوں نے اللہ رب العزت کے حضور عرض کیا کہ باری تعالیٰ تیرے محبوب کی ولادت سے پہلے ان کے والد کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا تیرا محبوب یتیم ہوگا چونکہ جب نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور آپ کے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشت مبارک سے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوا تو وہ رات جمعرات تھی اس رات آسمانوں اور جنت کو نور سے سجا دیا گیا۔ غلمانوں، حوروں اور فرشتوں کو مبارکبادیں دی گئیں اور یہ آواز دی گئی کہ مبار ک ہو آج وہ نور اقدس جس کی خاطر کائنات تخلیق کی گئی تھی وہ نور اپنی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوگیا ہے۔ اب وہاں جسمانی وجود کی تشکیل ہوگی اور نبی آخرالزماں دنیا میں تشریف لائیں گے۔ تمام ملائکہ حورو غلمان، آسمانی اور جنتی مخلوق کو حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تولد سے کم و بیش آٹھ نو ماہ قبل اس نور کے منتقل ہونے کی خبر ہوگئی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اس وقت پھر ملائکہ نے سوال کیا کہ باری تعالیٰ یہ محبوب جس کی خاطر تو نے ساری کائنات بنائی ہے جس کے نور منتقل ہونے پر مبارکبادیں دی گئیں، جنتیں سجائی گئیں کیا تیرا محبوب یتیم ہوکر پیدا ہوگا؟ اللہ پاک نے جواب میں فرمایا میرا محبوب بے سہارا نہیں ہوگا اس کا سہارا میں خود ہونگا اور میں خود اس کی پرورش کی نگہبانی کرنے والا ہونگا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی تو والد کا انتقال ہوچکا تھا پھر آپ کے بعد حضرت عبدالمطلب نے ابتدائی پرورش فرمائی، تھوڑی عمر میں والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا، والدہ کے بعد دادا کا وصال ہوگیا پھر آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے نگہبانی کی ذمہ داری لی اور وہ آپ کی جوانی اور اعلان نبوت کے بعد تک حیات رہے اس دوران بڑے بڑے مشکل دن، مشکل لمحے اور مشکل واقعات و حالات آئے۔ جب آپ کی شادی ہوگئی تو گھریلو معاملات میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ معاون ہوگئیں اور باہر کے معاملات میں حضرت ابوطالب آپ کے معاون ہوگئے۔ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ نے اپنا مال و دولت، سرمایہ، کاروبار، تجارت سارا کچھ آپ پر اور اسلام کے فروغ پر خرچ کر دیا۔ حضور علیہ السلام ان سے مشورہ بھی طلب فرماتے تھے، رائے بھی لیتے تھے جب آپ کی عمر مبارک 48 برس کو پہنچی اور بعثت کو ابھی سات برس ہوئے تھے کہ مخالفت و عداوت شدت اختیار کر گئی اس سال آپ کو اور آپ کے پورے خاندان کو ایک گھاٹی جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہے نظر بند کردیا گیا، ناقہ بندی کردی گئی، کھانا پینا اور خوراک سب کچھ ختم کر دیا۔ خاندان نبوت کا سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا اور تین سال تک آپ کا پورا خاندان اور آپ خود اس ظاہری انتہائی تکلیف سے دوچار رہے۔ تین سال تک اس قید کی گھاٹی میں گزارے۔ اس کے بعد جب آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی عمر مبارک پچاس برس کی تھی اسی سال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوگیا اور اسی سال حضرت ابوطالب کا بھی وصال ہوگیا۔ تین سال کی قید و بند اور صعوبتیں، بے پناہ مخالفت، بے پناہ مزاحمت، بے پناہ عداوت، بڑی سازشیں، بڑی رکاوٹیں، ظاہری رشتوں کے ناطے میں جو لوگ معاون تھے وہ دنیا سے رخصت ہوگئے یہ آپ کے لئے غموں سے بھرا ہوا سال تھا۔ اس لئے اس سال کو عام الحزن کہتے ہیں یعنی غم والا سال۔ وہ اللہ رب العزت نے فرمایا تھا کہ میرا محبوب بے سہارا نہیں اس کا سہارا میں ہوں۔ حضور علیہ السلام پر جب یہ غم والا سال آیا تو نہ والدہ ماجدہ نہ والد گرامی، نہ دادا، نہ چچا اور نہ زوجہ محترمہ تھیں جو صحابہ کرام ایمان لاچکے تھے وہ بھی مصائب اور آلام کی زد میں تھے۔

    جب غم و اندوہ کا یہ سال آیا اس وقت اللہ رب العزت نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا اور حکم دیا۔ اے جبرائیل براق لے جاؤ اور دولہے کی طرح سجا کر میرے محبوب کو لے آؤ تاکہ میں مقام قاب قوسین پر تخلیہ میں آمنے سامنے بٹھا کر اپنا دیدار عطا کروں تاکہ وہ مجھے دیکھے تو سارے غم بھول جائے۔

    جب غم اندوہ پریشانیاں انتہا تک پہنچتی ہیں پھر انسان کو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی غموں کو بانٹنے والا ہو کوئی دکھوں کا بوجھ اتارنے والا ہو کوئی ایسا ہو جس سے دلوں کے دکھ بیان کئے جائیں کچھ سنے اور کچھ سنائے اور بوجھ اتر جائے، کوئی جتنا ہی پیارا ہو اس قدر اس سے مل کر غم دور ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ تھا کہ باہر کفار پتھر مارتے تھے، تنگ کرتے تھے، برا بھلا کہتے، ظلم کرتے، مصیبتوں کے پہاڑ ڈھاتے اور حضور علیہ السلام جب اس حالت میں گھر تشریف لاتے تو آگے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ محبت بھرے کلمات عرض کرتیں۔ کبھی چچا کے کلمات کان میں پڑتے کہ ساری دنیا بھی میری دشمن ہو جائے اس کے باوجود میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ خاص خاص وقتوں میں یہ کلمات کام آتے تھے۔ جب یہ سارے دنیا سے اٹھ گئے نہ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہ رہیں جو کہ غموں کو بانٹتی۔ نہ چچا ابوطالب رہے کہ غموں کو بانٹتے اور معاشرتی مقاطع کی وجہ سے حالات بہت ہی عجیب ہوگئے۔ جبکہ اللہ پاک نے فرمایا تھا کہ اپنے محبوب کا سہارا میں خود ہوں۔ غم و اندوہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا اے محبوب اب کوئی ایسا نہیں جسے تو اپنے غم سنائے۔ اب تمہیں ہم اپنے پاس بلاتے ہیں۔ پھر درمیان سے سارے پردے ہٹا دیں گے اور قاب قوسین پر تجھے بٹھائیں گے۔ تو ہمیں دیکھتا ہوگا اور ہم تجھے دیکھتے ہونگے۔ تو ہمیں سنتا ہوگا اورہم تمہیں سنتے ہونگے۔ اس طرح وہ سارے غم غلط ہو جائیں گے بلکہ وہ ایسی ملاقات ہوگی کہ محبوب جب تک تو اس دنیا میں رہے گا اس ملاقات کی یاد کبھی بھولے گی نہیں اور آئندہ آنے والے دنوں کے جو غم و دکھ ہونگے وہ یاد انہیں بھی بھلاتی رہے گی۔ حضور علیہ السلام حضرت ام ہانی یا صحن کعبہ میں یا اور مختلف مقامات کا ذکر آیا ہے تشریف فرما تھے۔ حضرت جبرائیل امین سفید رنگ کا براق لیکر حاضر ہوئے وہ نورانی جانور حضور علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ السلام کو مبارک قدموں کی طرف سے بلایا آقا دو جہاں صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ مبارک کھلی تو پوچھا جبرائیل کیسے آئے ہو عرض کیا اللہ نے یاد فرمایا ہے اور آپ کو لیجانے کے لئے سواری بھیجی ہے۔ آپ دوستوں کو ملنے جاتے ہیں دعوت بھی دیتے ہیں اللہ پاک اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اپنی قدرت سے حضور علیہ السلام کو اپنے پاس بلا لیتا۔ مگر چونکہ غم دور کرنے تھے۔ اس دنیا سے بلانا تھا تو دنیا کی ایک روش ہے کہ بڑی عزت اور اکرام کے لئے سواری بھیج کر بلایا جاتا ہے۔ اللہ پاک نے عالم نور کی سب سے بلند ترین سواری بھیجی تاکہ پتہ چلے کہ محبوب کو بلایا ہے۔ یوں بھی فرماسکتے تھے محبوب آجا آج کی رات چند لمحوں کیلئے ہمیں مل جا، فرما سکتے تھے۔

    محبوب کو سواری پر لیجانے پر قادر ہے وہ بغیر سواری کے بھی لیجانے پر قادر ہے اور بغیر جبرائیل کے بھی قادر ہے جیسے سواری بھیجنے میں مہمان کی ایک عزت ہوتی ہے اسی طرح سواری کے ساتھ ایک شخص بھیجنے میں بھی عزت ہوتی ہے۔ جبرائیل امین علیہ السلام سے بہتر اللہ کی آسمانی مخلوق میں کوئی نہ تھا۔ بہترین فرد کو منتخب کرکے حضور کی بارگاہ میں بھیجا۔ حضور علیہ السلام تیار ہوکر سواری پر بیٹھے اور سب سے پہلے بیت المقدس گئے یہاں ایک جگہ تھی جہاں انبیاء علیھم السلام اپنی سواریوں کو باندھا کرتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سواری یہاں باندھی گئی اور وہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دو رکعت نفل ادا فرمائی۔

    جب بیت المقدس میں سب انبیاء کی ارواح کو حکم ہوا کہ تم سب صف بہ صف میرے محبوب کا استقبال کرو حضور علیہ السلام نے جماعت کرائی انبیاء علیھم السلام نے حضور کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔

    بیت المقدس سے جب سفر شروع ہونے لگا تو دنیا کی خوراک اور غذائیں بند ہوگئیں جنت کی نورانی غذائیں شروع ہوگئیں۔ اس دنیا میں جنتی خوراک کا کھانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا پیکر بشریت اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی جنتی اور نورانی احوال کا مالک تھا۔ چاہتے تو دنیا کی خوراک کھاتے اس سے نورانیت کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اور چاہتے تو اسی دنیا میں عالم نورانیت کی خوراک کھاتے بشریت مانع نہیں ہوتی تھی۔ بشریت نور سے اعلیٰ تھی اور نورانیت نور سے بھی اعلیٰ تھی۔ آپ نے اس میں سے دودھ کو منتخب فرمایا اور پی لیا، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا سفر شروع ہوگیا پہلے آسمانِ دنیا پر پہنچے جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسی لئے تو ساتھ بھیجا تھا کہ کسی جگہ بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو دروازے کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ میرے محبوب کو آو از نہ دینی پڑے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے آواز آئی کون؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ پہلے آسمان پر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے حضور علیہ السلام کا استقبال کیا، دعائیں دیں، پہلے آسمان کی سیر کرکے آگے پہنچے۔ دوسرے آسمان پر تشریف لے گئے وہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ بن زکریا علیھا السلام استقبال کرنے کے لئے موجود تھے، دوسرے آسمان کی سیر کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو تیسرے آسمان پر پہنچایا گیا تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی پھر حضور علیہ السلام آگے تشریف لے گئے چوتھا آسمان کا دروازہ کھلا یہاں حضرت ادریس علیہ السلام استقبال کے لئے موجود تھے پھر پانچویں آسمان پر سیدنا حضرت ہارون علیہ السلام استقبال کے لئے موجود تھے پھر چھٹے آسمان پر حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام استقبال کیلئے موجود تھے۔

    ساتویں آسمان پر حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام استقبال کیلئے موجود تھے، پہلے آسمان پر آسمانی دنیا میں داخل ہورہے تھے اس لئے وہاں حضرت آدم علیہ السلام تشریف فرما ہیں ساتواں آسمان آسمانِ دنیا سے خروج تھا وہاں حضور علیہ السلام کے جد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام موجود تھے۔ ساتویں آسمان سے بھی آگے گزرے اور سدرۃ المنتہیٰ اور عرش معلی پر پہنچے۔ سارے آسمانی اور بالائی آسمان کے فرشتے جمع ہوگئے فرشتوں نے عرض کیا مولا تیرا محبوب آ رہا ہے کوئی ایسی سبیل کر کہ ہم سارے تیرے محبوب کا جلوہ کرلیں اللہ پاک نے فرمایا سدرۃ المنتہیٰ پر آجاؤ تو ملائکہ جمع ہوگئے حضور علیہ السلام گزرے حکم ہوا سارے ملائکہ کو کہ میرے محبوب کا جلوہ کرلو سدرۃ المنتہیٰ سے گزرتے ہوئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ سدرۃ المنتہیٰ تک حضرت جبرائیل امین نے ساتھ دیا اس کے بعد عرض کیا حضور آگے میں نہیں جاسکتا آگے جو عالم ہے وہاں اللہ کی ذات کے خاص جلوے ہیں اور میرے نور میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے نور کے پرتو کو برداشت کرسکوں اب حضور تنہا اس کے بعد آگے تشریف لے گئے۔ جب حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مکان و لامکان پر پہنچے تو خود اللہ رب العزت نے استقبال کیا۔

    ثم دنی فتدلی و کان قاب قوسین او ادنی۔ پھر فرمایا
    قف یا محمد ان ربک یصلی۔

    اب محبوب رک جا تیرا رب تجھ پر صلواۃ پڑھ کر تیرا استقبال کرتا ہے اپنی شان کے لائق، پھر اللہ پاک نے حضور کا استقبال کیا۔ اپنی بارگاہ میں بٹھایا قاب قوسین پر حضور کو فائز کیا قاب قوسین پر فائز کے بعد دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا۔ او ادنی پھر اس سے بھی قریب تر کرلیا اتنا قریب کر دیا کہ فاصلوں کا کوئی تصور نہ رہا اور نہ قربتوں کا کوئی تصور رہا اس طرح سارے پردے اٹھا لئے، حضور علیہ السلام کی آنکھوں میں مازاغ البصر کا کجلا ڈالا گیا اور بینائی دی گئی ماطغی اور قاب قوسین کے مقام پر بٹھا دیا گیا، پھر پردے اٹھا دیئے گئے فرمایا انہ ھو السمیع البصیر اب تیرے کانوں کو وہ سماعت دے دی جس سماعت کا تصور دنیا والے تو کیا ملائکہ بھی نہیں کرسکتے۔ تیری آنکھوں کو وہ نور بصارت دے دی گئی کہ دنیا والوں کی آنکھیں تو درکنار جبرائیل کی بصارت بھی جس کا تصور نہیں کرسکتی۔ آج محبوب تیرے کان خاص کان ہیں تیری آنکھیں خاص آنکھیں ہیں اپنے خاص کانوں سے او ادنی کی منزل پر بیٹھ کر میری باتیں سن اور اپنی خاص آنکھوں سے میرے حسن کا جلوہ کر مجھے دیکھ اور مجھے سن میں تجھے دیکھتا ہوں اور تمہیں سنتا ہوں نہ ہم دو کے سوا ہمیں کوئی سنے اور نہ کوئی دیکھے اور پھر بتا کیا اب بھی کوئی غم رہ گئے۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

    ’’فاوحی الی عبدہ مآ اوحی‘‘ پھر اس نے وحی کی، القاء کیا اپنے محبوب کے دل میں جو چاہی۔ اب وہاں جو باتیں ہوئیں وہ نہ اس وقت بتائی گئیں اور نہ بعد میں بتائی گئیں اور نہ آج تک کسی کو معلوم ہے ہر کوئی اندازے لگاتا پھرتا ہے۔ اس میں تھوڑی تھوڑی باتیں ہماری سکت کے مطابق ہماری طاقت اور ہمت کے مطابق جو افشاء کر دیں وہ دنیا والوں کو معلوم ہوگئیں جو افشاء نہیں کیں اس کی کوئی خبر نہیں پھر حضور علیہ السلام کو اللہ نے لامکاں سے گزارا اپنی صفات کے مختلف پردوں میں سے گزارا جس جس پر اس کی روشنی آئی اس کا رنگ چڑھتا گیا حتی کہ اس مقام سے پلٹے تو اللہ کی صفات میں رنگے جا چکے تھے اللہ کے رنگ میں رنگے جا چکے تھے۔

    اللہ کے رنگ میں ظاہر بھی رنگا جا چکا تھا اور باطن بھی رنگا جا چکا تھا۔ پورے رنگے گئے تھے واپسی پر نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا مولا اب میں واپس جارہا ہوں مگر یہ جو لذت اور مزہ اس دیدار کا دیا ہے۔ وہاں ہر دن اس ملاقات کی یاد ستائے گی۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اے محبوب! یہ معراج تو ہم نے دی ہے اب اس معراج کا تحفہ تجھے دیتے ہیں اور وہ تحفہ نماز ہے اسے لیجا جب ہماری اس ملاقات کی یاد ستائے اللہ اکبر کہہ کر نماز میں داخل ہونا محبوب ہر نماز تیری شب معراج بن جائے گی۔ الصلوۃ معراج المومنین لوگ صرف تیری ذات کے لئے نہیں بلکہ اس سے تیری امت کو بھی کچھ حصہ عطا کرتے ہیں عرض کیا مولا میں تو اپنی ہر دعا میں امت کو بھی شریک کیا کرتا ہوں جب امت اس معراج کا تذکرہ سنے گی تو انہیں بھی کچھ لذت آئے گی وہ بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ فرمایا اس نماز کو تیری امت کے لئے بھی معراج بنا دیتے ہیں۔ پچاس نمازیں دے کر روانہ کردیا جب چھٹے آسمان پر پہنچے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ نے کیا تحفہ دیا آپ نے فرمایا پچاس نمازیں اللہ نے میری امت کو عطا کیں ہیں انہوں نے عرض کیا حضور آپ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑ سکے گی۔ میری درخواست یہ ہے آپ جو عرض کریں گے مانا جائے گا کچھ تخفیف کرا کے جائیں۔ حضور علیہ السلام کا دھیان اس نعمت پر تھا موسیٰ علیہ السلام کا دھیان ہماری حالت پر تھا۔ حضور علیہ السلام اللہ کی درگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا باری تعالیٰ امت شاید یہ بوجھ اٹھا نہ سکے کچھ تخفیف فرما دیں اللہ نے پانچ کم کر دیں پھر واپس آئے پھر عرض کیا حضور اور تخفیف کروائیں بار بار جاتے رہے حتی کہ 45 نماز معاف ہوگئیں پانچ رہ گئیں حضور علیہ السلام واپس تشریف لائے تو اللہ پاک نے آواز دی یہ پانچ نماز فرض بنا کے بھیجتا ہوں مگر ثواب پچاس نمازوں کا ہی دیتا رہوں گا۔ دوسرا محبوب یہ تحفہ بھی امت کے لئے لیجا کہ آپ کی امت کے لوگ نیکی کا ارادہ کریں گے اس ارادے پر بھی ثواب لکھ دوں گا اور جب نیکی کرلیں گے تو ایک کے بدلے میں دس لکھوں گا جب کوئی برائی اور گناہ کا ارادہ کریں گے تو کوئی گناہ نہیں لکھوں گا گناہ کرلیں گے تو صرف ایک لکھوں گا توبہ کرلیں گے تو وہ بھی مٹادوں گا حضور تشریف لے آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہ بھی کچھ زیادہ ہی لگتی ہیں ایک چکر اور لگا لیں فرمایا اب مجھے حیا آتی ہے، مولا تو اب بھی انکار نہیں فرمائے گا مگر مجھے حیا آتی ہے حضور علیہ السلام واپس تشریف لائے تحفہ لاکر ہمیں عطا کردیا جب رخصت ہوئے تھے تو اس وقت غسل فرمایا تھا وہاں خدا جانے کتنی صدیاں بیت گئی ہیں کتنے سال ہمارے حساب سے بیت گئے ہونگے۔ یہاں اور وہاں کا حساب تو بڑا مختلف ہے خدا جانے کتنی مدتیں بیت گئیں ہونگیں مگر واپس آئے جس پانی سے غسل کرکے تشریف لے گئے تھے اس کا پانی ابھی بہہ رہا ہے بستر کی تپش موجود تھی اتنا جلد تشریف لے آئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ:

    حضور علیہ السلام تو خدا جانے وہاں کتنی مدتیں گزار کے آئے مگر اس دنیا میں پلٹنے میں اتنی جلدی محسوس ہوئی یوں لگا جیسے حضور علیہ السلام تشریف ہی نہیں لے گئے۔ نماز کو ہمارے لئے معراج بنادیا حدیث پاک میں آتا ہے جب کبھی اس ملاقات کی یاد آتی جب بے چین اور روح اضطراب ہوتی اور اس ملاقات کی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو فرماتے۔ بلال رضی اللہ عنہ آج ہماری روح میں تھوڑی بے چینی ہے ذرا ہمارے دل کو سکون دے دے تو وہ اذان کہتے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہتے حضور علیہ السلام ہم سے گفتگو کررہے ہوتے مگر اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی اذان کے الفاظ آقا کے کان میں پڑتے تو او ادنی کے لمحے یاد آجاتے۔ اذان کی آواز سنتے ہی شب معراج کی تنہائیاں یاد آتیں اس طرح حالت ہوجاتی کہ حضور ہمیں پہچاننا بھی چھوڑ دیتے۔

    دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذت آشنائی

    ارے دوست کو دوست یاد آ جائے ساری دنیا کی شناسائی بھول جاتی ہے اور انسان محبوب کو تکتا رہ جاتا ہے اورجب خلوت شب معراج مقام او ادنی کے بے نقاب جلوؤں کی یاد آتی ہوگی پھر اللہ اکبر کی مٹھاس آقا کے کانوں میں پڑتی ہوگی اس وقت تو دل دہل جاتے ہونگے اور حسن الہٰی آگے سے بے نقاب ہوتا ہوگا پھر حضور کی نگاہیں کسی کو کیوں پہچانتیں پھر نماز پڑتے ہر ایک کو بھول جاتے ضرورت اس امر کی ہے کہ معراج کے تذکرے سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے لائے ہوئے اس تحفہ کی قدر دانی کریں اور آپ اگر مکہ مکرمہ جائیں تو آب زم زم لاتے ہیں کھجوریں لاتے ہیں تحائف لاتے ہیں کوئی لاکر آپ کو دے تو کیا آپ اس کو پھینک دیں گے۔ ہر گز نہیں جس طرح ہمیں مدینہ بہت محترم ہے اسی طرح حضور کا مدینہ او ادنی ہے حضور کا مدینہ قاب قوسین ہے آقا جب وہاں گئے تو ہمارے لئے بھی تحفہ لائے اور وہ تحفہ نماز کا تھا اور تحفہ بھی ایسا دیا کہ اگر ہم پڑیں تو تھوڑی تھوڑی لذت اسی لمحے مل جائے مگر ہم نے قدر نہیں کی کتنی بے پرواہی کی کتنی بے ادبی کی تو آج کی رات یہ عہد کرنا چاہئے کہ حضور کا لایا ہوا تحفہ نماز ہے ہم اس کی قدر دانی کریں اس کو سینے سے لگائیں اور ہر نماز میں وہی کیفیت وہی لذت حاصل کریں۔ اللہ پاک ہم پر کرم فرمائے رحم فرمائے اپنا خصوصی لطف وکرم فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جزاک اللہ پیا جی
     
  3. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    سبحان اللہ!

    بہت خوب پیا جی! آپ کے پاس تو اِسلامی تعلیمات کا خزانہ معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ سب ہم تک پہنچا کر بڑے ثواب کا کام کر رہے ہیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)
     
  4. نوید
    آف لائن

    نوید ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مئی 2006
    پیغامات:
    969
    موصول پسندیدگیاں:
    44
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ


    بہت عمدہ ۔۔۔۔۔۔ اچھا معلوماتی مضمون شئیر کیا ہے آپ نے


    جزاک اللہ خیرا۔۔
     
  5. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اللہ آپ کو جزا دے آپ کی محنت و کاوش کو قبول فرمائے
     
  6. لاڈلا
    آف لائن

    لاڈلا ممبر

    شمولیت:
    ‏5 نومبر 2006
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    خوبصورت

    میرے تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو جو علم عطا کیا ہے اس میں سے کچھ حصہ ہمیں بھی مل جائے تو میری زندگی سنور جائے۔
     
  7. گجر
    آف لائن

    گجر ممبر

    شمولیت:
    ‏22 فروری 2007
    پیغامات:
    115
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ماشاءاللہ
    مصطفٰی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
    شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
     

اس صفحے کو مشتہر کریں