1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

معجزہء معراج اور طئے مکانی و زمانی کا فلسفہ

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏14 جولائی 2009۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    معجزۂ معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طئ مکانی و زمانی


    تاجدارِ کائنات سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزۂ معراج اپنے اندر نوعِ اِنسانی کے لئے رہتی دُنیا تک کے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے۔ وقت کے ایک نہایت قلیل لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر اور اُسی قلیل ساعت میں کرۂ ارضی کی طرف واپسی عقلِ اِنسانی سے ماوراء ایک ایسا راز ہے جسے کسی دَور کی سائنس اِفشاء نہ کر سکی۔ معجزہ نام ہی اُس فعل کا ہے جو عقلی کسوٹی سے پرکھا نہ جا سکے۔ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت کی ایک قلیل جزئی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں موجود تمام انبیاء کی اَرواح نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ بالا کی طرف روانہ ہوئے اور مکان و لامکاں کی حدود کے اُس پار سدرۃُ المنتہیٰ سے بھی آگے ربِ ذوالجلال کی رحمتِ بے پایاں سے اُس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔

    اربوں نوری سال سے زیادہ وسیع مادّی کائنات کی آخری حدود سے بھی پرے اِس محیر العقول رفتار کا سفر اور سکانِ ارضی کی طرف واپسی، یہ سب کچھ وقت کے محض ایک لمحے میں ہو گیا۔ وقت کا ایک لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یوں پھیلا کہ اُس میں یہ طویل عرصۂ دراز گم ہو گیا اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ اللہ ربُ العزت کی قدرت کا ایک نظارہ تھا اور تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایسا جامع معجزہ تھا جسے عقلی و سائنسی بنیادوں پر پرکھنا اور سمجھنا قیامت تک ممکن نہیں کیونکہ فزکس کے تمام قوانین اِسی طبیعی کائنات کی حدود سے متعلق ہیں۔ جب اللہ ربّ العزت کا کوئی فعل طبیعی کائنات کے عام ضابطوں سے ہٹ کر ظاہر ہوتا ہے تو اُسے ہماری دانش سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

    معجزۂ معراج طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔ اس کا صدور نظریۂ اِضافیت میں ملنے والے وقت کے ٹھہراؤ کی ممکنہ صورت کے برعکس ہوا۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق روشنی کے قریب قریب رفتار سے بھاگنے والے مادّی جسم پر وقت کرۂ ارضی پر معمول کی زندگی کی نسبت اِنتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی دو جڑواں بھائیوں والی مثال میں روشنی کی نصف رفتار سے محوِ سفر خلاباز پر زمینی دس سال دُگنی رفتار سے گزرے جس کی وجہ سے خلاباز کی عمر میں صرف پانچ سال کا اِضافہ ہوا جبکہ اُس کا زمینی بھائی اپنی دس سال عمر گزار چکا تھا، گویا وہ خلاباز بھائی سے پانچ سال بڑا ہو چکا تھا۔

    نظریۂ اِضافیت اور مکان-زمان کے نئے نظریات کے مطابق ہم نے دیکھا کہ روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرنے پر وقت زیادہ تیزی سے گزر جاتا ہے اور ایسا سفر کرنے والا مادّی جسم وقت کی دَوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ معراج کے دوران تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقت کو پچھاڑ دیا۔ عام روشنی سے ہزاروں گنا تیز رفتار سے سفر کرنے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقت کی رَو میں پیچھے رہ جانے کی بجائے آگے نکل گئے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے کہ عام سائنسی و عقلی قوانین کے برخلاف نہ صرف روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لی بلکہ صحیح سلامت سفر کے بعد وقت کے اُسی لمحے میں واپس بھی تشریف لے آئے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار تھا جس کی بدولت آپ سے یہ معجزہ صادِر ہوا، چنانچہ اللہ تعالی نے اِس فعل کی نسبت بھی اپنی ہی طرف کی اور فرمایا :

    سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً. ۔ (بني اسرائيل، 17 : 1)
    وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو لے گئی۔

    سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔

    مکان - زمان (space-time) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ طئ زمانی و مکانی کے ضمن میں آنے والی اَمثلہ کا تعلق بھی اِضافیتِ زماں ہی سے ہے۔ تاہم یہاں ہم ان کے علاوہ کچھ اور آیاتِ مبارکہ کا ذِکر بھی کریں گے جن میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ وقت اور اُس کے گزرنے کی رفتار کی حیثیت محض ہمارے اِدراک تک محدود ہے۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔

    اِس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ شبِ معراج صاحبِ لولاک فخرِموجودات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمان و مکاں (Time & Space) کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قَابَ قَوْسَيْن پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دِیدار کا شرف اِس طرح اَرزانی فرمایا کہ ایک طرف خدا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سمیع و بصیر تھا تو دوسری طرف حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خدا کا سمیع و بصیر تھا، اور دونوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ تھا۔

    بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِه
    کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِه
    حَسُنَتْ جَمِيْعُ خِصَالِه
    صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ آلِه ​

    شبِ معراج تاجدارِ کائنات رسولِ کون و مکاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا کیا مقامات عطا ہوئے! اُنہیں عظمت و رِفعت کی کن بلندیوں سے ہمکنار کیا گیا! اِرتقائے نسلِ اِنسانی کو تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں پر دستک دینے کی کس طرح ترغیب دی گئی! اُس شب کتنی مسافتیں طے ہوئیں اور کتنے زمانے بیت گئے! اِس کا حال اللہ ربّ العزّت اور اُس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سِوا کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔ ہم غلامانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو بس اِتنا جانتے ہیں کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر پوری خدائی کی طنابیں کھینچ لی گئیں۔ چرخِ نیلوفری دَم بخود تھا کہ یہ کون مہمانِ مکرم لامکاں کی سیر کو نکلا ہے۔ ستارے حیرت کی تصویر بنے رہگزرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گرد کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا رہے تھے۔ وقت کی نبضیں ایک جگہ تھمی کی تھمی رہ گئیں اور کائنات بے حس و حرکت اور ساکت اپنے رُوحِ رواں کے اِنتظار میں ایک نقطے پر ٹھہری رہی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂ نبوت میں عقلِ اِنسانی نے کرۂ ارضی پر محیط فضا کے غلاف کو عبور کرتے ہوئے چاند پر پہنچ کر معجزۂ معراجِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِمکان کی نشاندہی تو کر دی لیکن اُس منزل تک پہنچنا معجزہ ہے اور سیارگانِ فلکی تک پہنچنا اُس منزل کی تائید اور سفرِمعراج کی توثیق ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق ہے اور یہ تائید و توثیق فقط نشاندہی کی حد تک ہے کیونکہ اگر عقلِ اِنسانی بھی منزلِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جائے تو پھر نبوت کا معجزہ ہی باقی نہ رہے۔ اِس لئے اِنسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جتنی بھی ترقی کر لے آسمان کی حدود کو پھلانگ کر اور مکاں کی حدوں کو چھوڑ کر کبھی وہ لامکاں کی بلندیوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ سفرِمعراج کے نقوشِ پا کو چومنا تو اُس کا مقدّر بن سکتا ہے لیکن منزلِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی روزِ قیامت تک اُس کے لئے ممکن نہ ہو سکے گی۔ علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

    تو معنی ’’وَالنَّجْم‘‘ نہ سمجھا تو عجب کیا
    ہے تیرا مدّ و جزر ابھی چاند کا محتاج ​


    شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب ۔ اسلام اور سائنس سے اقتباس ۔
     
  2. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    السلام علیکم برادر صاحب
    جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی قلمی کرامات میں سے رجب المرجب کے آخری عشرے کی مناسبت سے خوبصورت تحریر ہے۔
    اللہ تعالی آپکو اجر و برکت دے۔ آمین
     
  3. فیصل شیخ
    آف لائن

    فیصل شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اپریل 2007
    پیغامات:
    159
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جزاک اللہ بہت ہی شاندار تحریر ہے محترم ڈاکٹر صاحب کی
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    بہت ہی ایمان افروز تحریر ہے۔ یہ ماہ رجب المرجب اپنی 27ویں رات "شبِ معراج" کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔
    برادر بھائی ۔ ہم غافلوں کو اس عظیم الشان اور اہم موقع کی یاد دلانے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر؁ِ معراج کے مختلف گوشوں پر ایمان افروز تحریریں ارسال فرمانے پر بہت شکریہ ۔
    اللہ کریم آپکو جزائے خیر دے۔ آمین
     
  5. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جزاک اللہ جناب
     
  6. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    السلام علیکم
    وسیم بھائی ۔ نور بہن، فیصل بھائی اور نعیم بھائی
    سب کی پسندیدگی کا شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں