1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مطالعہ تقلید 13: (اتباع کی قسمیں، سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ، سنت اور حدیث میں فرق)

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از دیوان, ‏27 جولائی 2015۔

  1. دیوان
    آف لائن

    دیوان ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2008
    پیغامات:
    63
    موصول پسندیدگیاں:
    56
    اتباع کی قسمیں
    اللہ کا اتباع
    اتبعوا ما انزل اليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه اولياء (اعراف: 3)
    (لوگو) جو (کتاب) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو
    چلو اسی پر جو اترا تم پر تمہارے رب کی طرف سے اور نہ چلو اس کے سو رفیقوں کے پیچھے تم بہت کم دھیان کرتے ہو۔
    رسول کا اتباع
    قل ان كنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله ويغفر لكم ذنوبكم والله غفور رحيم (آل عمران: 31)
    تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ سے تو میری راہ چلو تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے تمہارے گناہ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
    جماعت کا اتباع
    ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولى ونصله جهنم وساءت مصيرا (النساء: 115)
    اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستے کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس اسی کی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا۔
    یہ آیت اجماع امت پر عمل کرنے کی دلیل ہے۔
    مجتہد کا اتباع
    واتبع سبيل من اناب الي (لقمان: 15)
    راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف
    سنت رسول ﷺ، سنت صحابہؓ
    حضرت عرباضؓ سے ایک روایت ہےجس میں آپ ﷺ کی وصیت ہے کہ میرے بعد بہت سے اختلافات پیدا ہوں گے اس کے بعد ارشاد فرمایا:
    عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ (سنن ابن ماجہ کتاب المقدمات، صحیح)
    تم پر لاز م ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت جو ہدایت یافتہ ہیں ان (یعنی میری اور ان کی سنت) کو اپنی داڑھوں مضبوط پکڑنا۔
    حضرت علیؓ کی ایک روایت ہے:
    جلد النبي صلى الله عليه وسلم اربعين وابو بكر اربعين وعمر ثمانين وكل سنة وهذا احب الي (الحدیث)(صحیح مسلم کتاب الحدود)
    رسول اللہ ﷺ نے (شرابی کو) چالیس (کوڑے) لگوائے اور ابوبکرؓ نے بھی چالیس (کوڑے لگوائے) اور عمرؓ نے اسی (کوڑے لگوائے) اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور مجھے یہ (یعنی اسی کوڑے) زیادہ پسند ہیں۔
    فائدہ:
    حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ دونوں کے فیصلے سنت کا درجہ رکھتے ہیں۔
    حدیث 1
    عن ابي وائل قال جلست مع شيبة على الكرسي في الكعبة فقال لقد جلس هذا المجلس عمر رضي الله عنه فقال لقد هممت ان لا ادع فيها صفراء ولا بيضاء الا قسمته قلت ان صاحبيك لم يفعلا قال هما المرءان اقتدي بهما۔(صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالسنۃ)
    ابووائل نے بیان کیا کہ میں شیبہ کے ساتھ کعبہ میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا تو شیبہ نے فرمایا کہ اسی جگہ بیٹھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ کعبہ کے اندر جتنا سونا چاندی ہے اسے نہ چھوڑوں (جسے زمانہ جاہلیت میں کفار نے جمع کیا تھا) بلکہ سب کو نکال کر (مسلمانوں میں) تقسیم کر دوں۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے ساتھیوں (رسول اللہ ﷺاور ابوبکرؓ) نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں بھی انہیں کی پیروی کر رہا ہوں (اسی لیے میں اس کے ہاتھ نہیں لگاتا)۔
    · سیدنا عمرؓ نے اپنے عمل کی بنیاد رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ کے عمل پر رکھی یعنی ابوبکرؓ کا فیصلہ بھی رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کی طرح نافذ ہوسکتا ہے۔
    سنت اور حدیث میں فرق
    · سنت دائمی عمل کو کہتے ہیں۔ ثبوت سنت کے لئے غیرلازم چیز پر مواظبت (ہمیشگی) ضروری ہے۔ سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج طریق ہے جو خواہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہو یا آپ ﷺ کے صحابہ کرام سے ثابت ہو۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا یہ ارشاد ہے:
    تم پر لازم ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت اور سے دانتوں سے (یعنی مضبوطی سے) تھام لو۔
    · علیکم بسنتی (صحیح البخاری) علیکم بحدیثی نہیں آیا۔
    · صرف فعل سے دوام اور عمل کا سنت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاپ فرمانے کا ذکر ہے۔
    فبال قائما (صحیح البخاری)
    لیکن یہ سنت نہیں۔سنت بیٹھ کر پیشاپ کرنا ہے۔ قبلہ رخ ہوکر رفع حاجت کرنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھنا ثابت لیکن یہ سنت نہیں۔ یا مثلا یہ روایت ہے کہ ابوبکرؓ جماعت کروا رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے اب ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی اقتدا کررہے تھے اور لوگ ابوبکرؓ کی۔ یہ حدیث تو ہے لیکن سنت نہیں۔ سنت وہی ہے کہ ایک جماعت کا ایک ہی امام ہوگا۔ اس لیے کہ امت نے کبھی اس پر عمل نہیں کیا کہ ایک جماعت کے دو امام ہوں۔
    · یا مثلا رسول اللہ ﷺ سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ جوتا پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
    کان یصلی فی نعلیہ (صحیح البخاری)
    جب کہ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ بغیر جوتوں کے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن امت کا عملی تواتر پہلی حدیث کے بجائے دوسری حدیث پر ہے۔ ساری امت کا اتفاق ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا آپ ﷺ کا نادر عمل ہے۔
     
  2. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
    ساجد حنیف نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں