1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مصطفٰی خان شیفتہ باذوق شاعر اور نقاد

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏25 اکتوبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی نے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔ انھی نے الطاف حسین حالی کو مرزا غالب سے متعارف کروایا تھا۔ دہلی میں ایک بہت بڑی لائبریری ان کی ملکیت تھی جسے 1857 میں باغیوں کے لوٹا اور آگ لگا دی تھی۔ انگریزوں نے بغاوت کی شبہ میں سات سال قید سنائی لیکن ہندوستان کے نام ور عالم نواب صدیق حسن خان کی سفارش سے ان کا "جرم” معاف ہو گیا اور پنشن مقرر ہوئی۔

    مصطفٰی خان شیفتہ کی غزلوں کی فہرست

    ا
    آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا
    دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
    پنجۂ خور نے کیا چاک گریباں میرا
    پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا
    نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا
    آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
    کیا خوب پند گو بھی ہے محتاج پند کا
    یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا
    کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا
    ناچار ہوں کہ حکم نہیں کشفِ راز کا
    کہ کچھ حظ اٹھے سیرِ مہتاب کا
    گیرا مگر نہیں ہے نفس عندلیب کا
    ہے گلہ اپنے حالِ ابتر کا
    مجھ پر گلہ رہا ستمِ روزگار کا
    سمجھے جو گرمیِ ہنگامہ جلانا دل کا
    ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
    انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا
    ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا
    شمع ساں مجبورِ خوئے آتشیں تو کب نہ تھا
    ہر کہیں کس دن نہ تھا میں، ہر کہیں تو کب نہ تھا
    ارمان عدو کا بھی نکل جائے تو اچھا
    صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
    گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا
    وہ حسن کہ خورشید کے عہدے سے بر آیا
    بارے مرنا تو مرے کام آیا
    وہ تو آئے نہیں میں آپ میں کیوں کر آیا
    کچھ تمہارا بھی کرم یاد آیا
    دشمن کو اور دوست نے دشمن بنا دیا
    فتنۂ حشر کو رفتار نے سونے نہ دیا
    جو پوچھے مہربانی کیا، وفا کیا
    مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا
    تلون سے ہے تم کو مدعا کیا
    مفت میں مشہور میں لوگوں میں عامل ہو گیا
    ب
    ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب
    جیسے بہار میں ہو عنادل کو اضطراب
    نیند ان کو میرے ساتھ نہ آئی تمام شب
    ت
    کیوں کر نہ کروں شوخیِ دلبر کی شکایت
    ث
    نہ ہو بلبلِ زار نالاں عبث
    دل فریبی کی لگاوٹ، یہ تمہاری ہے عبث
    ج
    ہم تابِ آفتاب، فروغِ قمر ہے آج
    ح
    کیا دل میں چبھ گئی نگہِ جاں ستاں کی طرح؟
    خ
    غلط ہے بات کہ کم رزق ہے گدا گستاخ
    د
    اشکِ خوں سے آ گئیں رنگینیاں صحبت کی یاد
    ذ
    تند ہے، تلخ ہے، لیکن ہے مئے ناب لذیذ
    ر
    یہ بات ہے بڑی دلِ عاشق طلب سے دور
    تاب اس جلوے کی لاؤں کیوں کر
    رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
    غش آ گیا مجھے انہیں ہشیار دیکھ کر
    ز
    ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
    ش
    طلسمِ ہوش ربا ہے دکانِ بادہ فروش
    ض
    غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
    ط
    کیسا ہے دیکھ عکسِ ادا کو ادا سے ربط
    ظ
    صنم پرست نہ ہو بندہ ریا واعظ
    ع
    پروانے کو پسند نہیں پر سوائے شمع
    غ
    رہتا ہے ورنہ گھر میں ترے تا سحر چراغ
    ف
    یاں ہوا راز چھپانا موقوف
    ق
    دیوانے ہیں اس زلفِ گرہ گیر کے مشتاق
    ل
    غالباً کچھ تو ہوا ہے مری تسکیں کا خیال
    دیکھ اے مرغِ سحر غل نہ مچانا شبِ وصل
    بگڑی ہے تیرے دور میں ایسی ہوائے گل
    م
    مدت سے اسی طرح نبھی جاتی ہے با ہم
    کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
    دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم
    سخت بے تاب ہیں مزار میں ہم
    واقف ہیں شیوۂ دلِ شورش ادا سے ہم
    چ
    صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
    ک
    ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک
    ں
    تم سے وفا کروں کہ عدو سے وفا کروں
    طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
    کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں
    ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
    فرش ہے مخمل و کمخواب ترے کوچے میں
    کب پارہ پارہ پیرہنِ چارہ جو نہیں
    اے دل یقین جان کہ ہم ہیں تو تو نہیں
    اے دل! خیالِ طرہ تابیدہ مو نہیں
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دیکھوں تو کہاں تک وہ تلطف نہیں کرتا
    آرے سے اگر چیرے تو میں اف نہیں کرتا
    تم دیتے ہو تکلیف، مجھے ہوتی ہے راحت
    سچ جانئے میں اس میں تکلف نہیں کرتا
    سب باتیں انہیں کی ہیں یہ؟ سچ بولیو قاصد!
    کچھ اپنی طرف سے تو تصرف نہیں کرتا؟
    سو خوف کی ہو جائے، مگر رندِ نظر باز
    دل جلوہ گہِ لانشف و شف نہیں کرتا
    شوخی سے کسی طرح سے چین اس کو نہیں ہے
    آتا ہے مگر آ کے توقف نہیں کرتا
    اس شوخِ ستم گر سے پڑا ہے مجھے پالا
    جو قتل کئے پر بھی تاسف نہیں کرتا
    جو کچھ ہے انا میں وہ ٹپکتا ہے انا سے
    کچھ آپ سے میں ذکرِ تصوف نہیں کرتا
    تسکین ہو کیا وعدے سے، معشوق ہے آخر
    ہر چند سنا ہے کہ تخلف نہیں کرتا
    کیا حال تمہارا ہے ہمیں بھی تو بتاؤ
    بے وجہ کوئی شیفتہ اُف اُف نہیں کرتا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اس جنبشِ ابرو کا گلہ ہو نہیں سکتا
    دل گوشت ہے ناخن سے جدا ہو نہیں سکتا
    کچھ تو ہی اثر کر، ترے قربان خموشی!
    نالوں سے تو کچھ کام مرا ہو نہیں سکتا
    گر غیر بھی ہو وقفِ ستم تو ہے مسلم
    کچھ تم سے بجز جور و جفا ہو نہیں سکتا
    کھولے گرہِ دل کو ترا ناخنِ شمشیر
    یہ کام اجل سے بھی روا ہو نہیں سکتا
    سبقت ہو تجھے راہ میں اس کوچے کی مجھ پر
    زنہار یہ اے راہ نما! ہو نہیں سکتا
    میں نے جو کہا ہمدمِ اغیار نہ ہو جے
    تو چیں بہ جبیں ہو کے کہا، ہو نہیں سکتا
    یہ رازِ محبت ہے نہ افسانۂ بلبل
    محرم ہو مری بادِ صبا، ہو نہیں سکتا
    کب طالعِ خفتہ نے دیا خواب میں آنے
    وعدہ بھی کیا وہ کہ وفا ہو نہیں سکتا
    وہ مجھ سے خفا ہے تو اسے یہ بھی ہے زیبا
    پر شیفتہ میں اس سے خفا ہو نہیں سکتا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ
    شیئر کرنے کا شکریہ
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    یہ لڑی اردو ادب میں موو کروا لیں
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ

    ھارون رشید بھائی صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ یہ لڑی اردو ادب میں منتقل کر دیں شکریہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    صبح ہوتے ہی گیا گھر مہِ تاباں میرا
    پنجۂ خور نے کیا چاک گریباں میرا
    گرم گرم اس رخِ نازک پہ نظر کی کس نے
    رشکِ گل ریز ہے کیوں دیدۂ گریاں میرا
    وادیِ نجد کو دلی سے نہ دینا نسبت
    ہے وہ مجنوں کا بیاباں، یہ بیاباں میرا
    دیکھ کر میری طرف ہنس کے کہا یہ دمِ قتل
    آج تو دیکھ لیا آپ نے پیماں میرا
    نہ گھر آیا، نہ جنازے پہ، نہ مرقد پہ کبھی
    حیف صد حیف نہ نکلا کوئی ارماں میرا
    چارہ سازو! کوئی رہتا ہے بجز چاک ہوئے
    آپ سو بار سییں، ہے یہ گریباں میرا
    آس کی زلفوں کا نہ ہو دھیان تو اے شیفتہ پھر
    اس شبِ ہجر میں ہے کون نگہباں میرا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بس کہ آغازِ محبت میں ہوا کام اپنا
    پوچھتے ہیں ملک الموت سے انجام اپنا
    عمر کٹتی ہے تصور میں رخ و کاکل کے
    رات دن اور ہے، اے گردشِ ایام اپنا
    واں یہ قدغن کہ نہ آوازِ فغاں بھی پہنچے
    یاں یہ شورش کہ گزارا ہو لبِ بام اپنا
    ان سے نازک کو کہاں گرمیِ صحبت کی تاب
    بس کلیجا نہ پکا اے طمعِ خام اپنا
    تپشِ دل کے سبب سے ہے مجھے خواہشِ مرگ
    کون ہے جس کو نہ منظور ہو آرام اپنا
    بادہ نوشی سے ہماری، جو لہو خشک ہوا
    خونِ اغیار سے لبریز ہے کیا جام اپنا
    لطف سمجھوں تو بجا، جور بھی سمجھوں تو درست
    تم نے بھیجا ہے مرے پاس جو ہم نام اپنا
    ذکرِ عشاق سے آتی ہے جو غیرت اس کو
    آپ عاشق ہے مگر وہ بتِ خود کام اپنا
    تاب بوسے کی کسے شیفتہ وہ دیں بھی اگر
    کر چکی کام یہاں لذتِ دشنام اپنا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نہ اس زمانے میں چرچا ہے دانش و دیں کا
    نہ شوقِ شعرِ تر و بذلہ ہائے رنگیں کا
    شمیمِ زلف یہی ہے تو وحشتِ دل نے
    کب انتظار کیا موسمِ ریاحیں کا
    بناتِ نعش نے کس واسطے بٹھا رکھیں
    نہیں ستارہ گہر خاندانِ پرویں کا
    ازل کو دیکھتے ہی ہم سخن کو سمجھے تھے
    کہ مشتری نہیں اس گوہرِ نو آئیں کا
    نما نما ہے نہایت خلافِ شیوۂ عشق
    غلط ہے شوق ہمیں گریہ ہائے رنگیں کا
    وہ طرفہ حال کہ جس سے جماد رقص کرے
    نہ رنگ بھی متغیر ہو اہلِ تمکیں کا
    ہزار مرتبہ فرہاد جانِ شیریں دے
    وہی ہے حقِ نمک عشوہ ہائے شیریں کا
    عجیب حال میں ہے شیفتہ معاف کرو
    جو کچھ قصور بھی ہو اس غلامِ دیریں کا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    یہ فیضِ عام شیوہ کہاں تھا نسیم کا
    آخر غلام ہوں میں تمہارا قدیم کا
    پیمانِ ترکِ جاہ لیا پیرِ دیر نے
    پیمانہ دے کے بادۂ عنبر شمیم کا
    کیا ڈھونڈتی ہے قوم، کہ آنکھوں میں قوم کی
    خلدِ بریں ہے طبقۂ اسفل جحیم کا
    اس شوخِ کج ادا سے نہ آئی موافقت
    کیونکر گلہ نہ ہو مجھے طبعِ سلیم کا
    شکوے یہ اب جو ہوتے ہیں باہم، نئے نہیں
    انداز ہم میں، اُن میں یہی ہے قدیم کا
    اس وقت ہم گنے گئے احبابِ خاص میں
    آیا جو تذکرہ کبھی لطفِ عمیم کا
    بدمستیاں کبھی، کبھی مستوری و عفاف
    دستور ہے طبیعتِ نا مستقیم کا
    اُس رشکِ گُل کو بسترِ گل سے ہے احتراز
    ممنون ہوں عدو کے مزاجِ سقیم کا
    اے جانِ بے قرار ذرا صبر چاہیے
    بے شک ادھر بھی آئے گا جھونکا نسیم کا
    جس کی سرشت صاف نہ ہو آدمی نہیں
    نیرنگ و عشوہ کام ہے دیوِ رجیم کا
    اب جستجو ہے ان کو ہماری تو کیا حصول
    باقی نہیں اثر بھی عظامِ رمیم کا
    عاشق بھی ہم ہوئے تو عجب شخص کے ہوئے
    جو ایک دم میں خون کرے سو ندیم کا
    ہم نے کئے قواعدِ وحشت جو منضبط
    اہلِ جنوں میں ہم کو لقب ہے حکیم کا
    ہے کارنامہ جب سے بیاض اپنی شیفتہ
    تقویمِ سالِ رفتہ ہے دیواں کلیم کا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کیا فائدہ نصیحتِ نا سود مند کا
    کیا خوب پند گو بھی ہے محتاج پند کا
    جب میں نہیں پسند تو پھر اور آ چکے
    عاشق ہوں اس کی خاطرِ مشکل پسند کا
    اے بادِ صبح تا بہ کجا اہتزازِ گل
    گوشہ الٹ دے یار کے منہ سے پرند کا
    اُس ماہ وش کو غیرِ سیہ رو سے کام کیا
    ہے فیض اپنے اخترِ بختِ نژند کا
    اس کوچے میں ہے عزتِ خسرو گدا سے کم
    کیوں ناز مستمند سہے ارجمند کا
    نالہ تو نارسا نہیں کیوں کر گلہ کروں
    میں شکوہ سنج ہوں ترے کاخِ بلند کا
    دیوان کو ہمارے، بتوں کی نگاہ میں
    اے شیفتہ وہ رتبہ ہے جو بید و ژند کا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خواہاں ہوں بوئے باغِ تنزہ شمیم کا
    یا رب ادھر بھی بھیج دے جھونکا نسیم کا
    تیرے گدا کو سلطنتِ جم سے کیا، کہ ذوق
    ہے کاسۂ شکستہ میں جامِ دو نیم کا
    نیرنگِ جلوہ، بارقۂ ہوش سوز ہے
    کیا امتیاز رنگ سے کیجے شمیم کا
    تیری نسیم لطف سے گل کو شگفتگی
    وابستہ تیرے حکم پہ چلنا نسیم کا
    واجب کی حکمت آئے گی ممکن کی عقل میں؟
    کتنا دماغ ہے خلل آگیں حکیم کا
    دقت سے پہلے عجز سلامت کی راہ ہے
    کیسا سپاس دار ہوں عقلِ سلیم کا
    میری فنا ہے مشعلۂ محفلِ بقا
    پروانہ ہوں میں پرتوِ شمعِ قدیم کا
    گر تیرے شوق میں ہیں یہی بے قراریاں
    لے لوں گا بوسہ پایۂ عرشِ عظیم کا
    طاعت اگر نہیں تو نہ ہو یاس کس لئے
    وابستۂ سبب ہے کرم کب کریم کا
    جس وقت تیرے لطف کے دریا کو جوش آئے
    فوارۂ جناں ہو زبانہ جحیم کا
    اے شیفتہ عذابِ جہنم سے کیا مجھے
    میں اُمتی ہوں نار و جناں کے قسیم کا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جب سے عطا ہوا ہمیں خلعت حیات کا
    کچھ اور رنگ ڈھنگ ہوا کائنات کا
    شیشہ اتار، شکوے کو بالائے طاق رکھ
    کیا اعتبار زندگیِ بے ثبات کا
    لڑتے ہو جب رقیب سے کرتے ہو مجھ سے صلح
    مشتاق یاں نہیں کوئی اس التفات کا
    گر تیرے تشنہ کام کو دے خضر مرتے دم
    پانی ہو خشک چشمۂ آبِ حیات کا
    یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
    ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا
    کہتے ہیں جان، جانتے ہیں بے وفا مجھے
    کیا اعتبار ہے انہیں دشمن کی بات کا
    واعظ جنوں زدوں سے نہیں باز پرسِ حشر
    بس آپ فکر کیجئے اپنی نجات کا
    جوشِ سرشکِ خوں کے سبب سے دمِ رقم
    نامہ نہیں رہا یہ ورق ہے برات کا
    اے مرگ آ ، کہ میری بھی رہ جائے آبرو
    رکھا ہے اس نے سوگ عدو کی وفات کا
    ایسے کے آگے شیفتہ کیا چل سکے جہاں
    احسان ایک عمر رہے، ایک رات کا
    مصطفٰی خان شیفتہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں