1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ناصر نعمان, ‏2 نومبر 2012۔

  1. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    بسم اللہ الرحمن الرحیم​
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
    شیطان نے انسانیت کو گمراہ کرنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کے لئے وسوسے ڈالے۔۔۔تو کہیں لوگوں کو برائیوں میں مبتلا کیا ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو دنیا کی رنگینیوں میں گم کر کے عیش و عشرت میں مبتلا کیا ۔۔۔۔تو کہیں آخرت کو بھلانے میں مدد دی ۔۔۔ ۔ لیکن ان سب واروں سے زیادہ کار گر وار جو شیطان کا تھا۔۔۔ وہ لوگوں کو شرک و کفر میں مبتلا کرنا تھا ۔۔۔جو بالآخر ایسی منزل ہوتی ہے جس کے بعد شیطان کو لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کی یا برائیوں میں مبتلا کرنے پر محنت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔بلکہ ایسے لوگوں کے تمام اچھے اعمال شرک کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں ۔
    لیکن شیطان کے لئے لوگوں کو ایسی منزل تک پہنچانااتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔یعنی شیطان لوگوں کے دلوں میں نیکیوں سے روکنے پر وسوسہ تو ڈال سکتا ہے ۔۔۔۔ یا برائیوںمیں موجود نفسانی لذتوں کی وجہ سے برائیوں کی طرف رہبری کرنا تو آسان ہے ۔۔۔۔لیکن ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو معبود سمجھنے کا اعتقاد بنانا اتنا آسان نہیں ۔۔۔۔اور نہ ہی یہ عمل وسوسہ سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔بلکہ اس کام کے لئے شیطان کو برسوں محنت کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔تب جاکر شیطان کو صرف اتنی کامیابی ملتی ہے کہ وہ لوگوں کی ایمان کی بنیادوں میں دڑاریں ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔بس یہی شیطان کی کامیابی لوگوں کو صراط مستقیم سے دور لے جانے کا سبب بن جاتی ہے ۔
    کتب تفاسیر میں آتا ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلے گمراہی کی ابتداءبت پرستی سے شروع ہوئی ۔۔۔۔اور اس بت پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہونے والی قوم ،قوم نوح تھی ۔۔۔۔سورہ نوح (آیت 23) میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں مشرکین کے معبود ”دو۔۔سواع۔۔یغوث۔۔یعوق ۔۔نسر“ کا تذکرہ آیا ہے ۔۔۔ ۔ جن کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    وھی اسماءرجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام ،فلما ھلکوا ،اوحی الشیطان الی قومھم :ان انصبو ا الی مجالسھم التی کانوا یجلسون فیھا انصابا،وسموھا باسمائھم ،ففعلوا،فلم تعبد ،حتی اذا ھلک اولئک ،ونسخ العلم عبدت الخ(بخاری کتاب التفسیر ، سورہ نوح ،ح:492)
    یعنی یہ سب بت دراصل قوم نوح علیہ السلام کے صالح بزرگ اولیاءاللہ لوگ تھے ،ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانے کے لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان بزرگ کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یاد قائم کریں ،چناچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دئیے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا،جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو ا س جگہ کی پرستش نہیں ہوئی ،لیکن ان( نشانات اور یادگار قائم کرنے والے) لوگوں کے مرجانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد (جو لوگ آئے بوجہ جہالت کے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی) پوجا پاٹ شروع کردی۔
    او رابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
    عند ابی جعفر: قال :ثم ذکروا رجلا مسلما،وکان مجببا فی قومہ ،فلما مات ،اعتفکو احول قبرہ فی ارض بابل ،وجزعوا علیہ ،فلما رای ابلیس جزعھم علیہ ،تشبہ فی صورة انسان ،ثم قال : انی اری جزعکم علی ھذا الرجل ،فھل لکم ان اصورلکم مثلہ ،فیکون فی نادیکم فتذکرو نہ ؟ قالوا:نعم ،فصور لھم مثلہ ،قال :ووضعوہ فی نادیھم ،وجعلوا یذکرونہ ،فلما رای مابھم من ذکرہ قال :ھل لکم ان اجعل فی منزل کل رجل منکم تمثالا مثلہ ،فیکون لہ فی بیتہ فتذکرونہ ؟ قالوا:نعم ،قال فمثل لکل اھل بیت تمثالا مثلہ ،فاقبلوا فجلعوا یذکرونہ بہ ،قال :وادرک ابناﺅھم فجعلوا یرون مایصنعون بہ ،قال :وتناسلوا ،ودرس امر ذکرھم ایاہ ،حتی اتخذہ الھا یعبدونہ من دون اللہ اولاد اولادھم ،فکان اول ماعبد من دون اللہ :الصنم الذی سموہ :ودا۔ الاصنام التی اتخذوھا اضلوا بھا خلقا کثیرا،فانہ استمرت عبادتھا فی القرون الی زماننا ھذا ،فی العرب و العجم الخ (تفسیر ابن ابی حاتم)
    ابو جعفر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے ،وہ مر گیا۔یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بے چین اور مصیبت زدہ ہو گئے ، ابلیس نے یہ صورت دیکھ کر انسانی صورت میں آکر ان سے کہاکہ اس بزرگ کی یادگار کیوں نہیں قائم کر لیتے ؟جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو۔سب نے اس کی رائے کو پسند کیا۔ابلیس نے ان بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر لوگ اسے یاد کر تے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے جب وہ سب اس میں مشغول ہو گئے ،تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے ،اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنادوں تم انہیں اپنے گھروں میں رکھ لو ،وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا۔اب تک یہ بت اور یہ تصویریں صرف یاد کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جاکر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی۔ اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادوں کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہوگئے ،ان کا نام ”ود “ تھا یہی وہ پہلا بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی ،انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا ،اس وقت سے لے کر اب تک عرب و عجم میںاللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور مخلوق خدا بہک گئی۔
    محترم قارئین کرام !
    یہاں سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ ان بت پرستوں کے معبود خیالی نہیںتھے ۔۔۔۔بلکہ کسی وقت کے ولی اللہ تھے ۔۔۔۔اور دوسری اہم بات غور کرنے والی یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ لوگوں نے ایک ہی مرحلہ میں غیر اللہ کو اپنا معبود مان لیا تھا ۔۔۔۔۔بلکہ پہلے مرحلہ میں شیطان نے لوگوں کی ایمان کی عمارت میں دراڑ ڈ النے کے لئے نیک بندوں کی تصاویر یا بت بنانے کی ترغیب دی یا اُن کو تصاویر بناناسکھایا۔۔۔۔تاکہ لوگ جو ان نیک بندوں سے عقیدت رکھتے تھے وہ اُن کو اپنے نظروں کے سامنے رکھ سکیں ۔
    اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں بھی آنے والی نسلوں نے ان تصویروں یا بتوں کو اپنا معبود نہ سمجھا ۔۔۔۔بلکہ اُنہوں نے ان تصویروں یا بتوں سے اپنے باپ دادا کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے اور ہی رنگ دینا شروع کردیا ۔ ۔۔۔وہ ان نیک بندوں کے متعلق گمان کرنے لگے کہ یہ سنتے بھی ہیں ،دیکھتے بھی ہیں ، لوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان لوگوں کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔لہذا ان بزرگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ان بتوں کو قبلہ نما بنالیا۔
    چناچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    وقالوا:ھولاءیسمعون ویبصرون ویشفعون لعبادلھم ،ویدبرون امورھم ،وینصرونھم ،فنحتوا علی اسمائھم احجارا، وجعلوھا قبلة عند توجھم الی ھولاءالخ (حجة اللہ البالغہ)
    یعنی (مشرکین )کہتے ہیں کہ یہ لوگ (نیک بندے) سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اورلوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں ،پس انہوں نے ان بزرگوں کے ناموں پر پتھر تراشے تاکہ وہ ان اصنام کو قبلہ بنائیں ،جبکہ وہ ان بزرگوں کی طرف متوجہ ہوں ۔
    لہذا یہی رنگ تیسرے مرحلہ میں جاکرکب عقیدت سے عبادت کا روپ دھار گیا۔۔۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔۔اور نہ ہی انہیں یہ احساس ہوا کہ اُن کی ایمان کی عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں ۔۔۔۔اورنہ ہی یہ لوگ سمجھ سکے کہ جن نیک بندوں سے محض عقیدت رکھنے کی وجہ سے ان کے باپ دادوں نے ان نیک بندوں کی تصویریں یا بت بنائے تھے انہی بتوں کو یہ لوگ بعینہ معبود مان چکے ہیں ۔
    شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    فخلف من بعد ھم خلف فلم یفطنو للفرق بین الاصنام ،وبین من ھی علی صورتہ ،فظنوھا معبودات باعیانھا الخ(حجة اللہ البالغہ)
    یعنی پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو فرق نہیں سمجھ سکے مورتیوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کی شکل پر یہ مورتیاں ہیں ،پس ان لوگوں نے ان مورتیوں ہی کو بعینہ معبود سمجھ لیا۔ “
    یوں اس قوم کے باپ دادوں نے اپنا سفرنیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرنے کے سبب جو تصاویرا وربت بنا کر شروع کیا ۔۔۔۔وہ بت پرستی کی گمراہی کی صورت میں اپنے انجام تک پہنچا۔ ۔۔۔اور ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی قوم بتوں کومعبود بنا کر اُن کی عبادت کرنا شروع ہوگئی۔
    میرے بھائیوں ،بہنوں اور بزرگوں!
    کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لئے طرح طرح کے لوازمات درکار ہوتے ہیں جیسے سیمنٹ ،بجری،لوہا،دروازے ،کھڑکیاں،رنگ و روغن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ لیکن جب اسی عمارت کی تباہی مقصود ہو تو یقینا نہ توایسے لوازمات درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسی لمبی چوڑی محنت درکار ہوتی ہے جو کہ عمارت کی تعمیر کے وقت ہوتی ہے ۔۔۔۔بلکہ عمارت کی تباہی کسی بنیاد میںصرف دراڑ پڑنے سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔ ۔جس کے بعد عمارت کے سارے لوازمات جو کہ علیحدہ علیحدہ بڑی محنت سے جمع کرکے تیار کئے گئے تھے وہ عمارت کے بنیادی ستون کے گرجانے سے ایک ساتھ ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
    آج جب کچھ لوگوں کو نیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرتے دیکھ کر چندغلط عقائدکی نشادہی کے لئے بت پرستوں کی گمراہی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے توعموما یہ لوگ اپنے اور مشرکین کے درمیان عقائد کا فرق بیان کرتے ہوئے بت پرستوں کی عمارت کے ملبہ کا ڈھیر دکھادیتے ہیں ۔۔۔۔یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ مشرکین اپنے بتوں کو معبود سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت کرتے ہیں ۔۔۔جبکہ مسلمان نہ تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود سمجھتا ہے اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
    یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی مسلمان نہ تو غیر اللہ کو معبود سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
    لیکن سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا مشرکین کے (گمراہی سے قبل والے)باپ دادا اُس وقت تصور میں بھی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کی عبادت کرنے کا یا انہیں معبود بنانے کا سوچ سکتے تھے ؟؟
    یقینا جواب یہی ہوگا کہ کوئی بھی ایمان والا اللہ کے سوا کسی غیر کو نہ تو معبود بنانے کا سوچ سکتا ہے اور نہ غیر کی عبادت کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔
    لیکن دوسری جانب مشرکین کا”بتوں کو معبود سمجھنا اور اُن کی عبادت کرنا“ ہم سب کے سامنے ایک اٹل حقیقت کے طرح موجود ہے ۔
    تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان کی روشنیوں اور شرک کے اندھیروں کے درمیان ایک راہ ایسی موجود ہے جس پر چل کرایک ایمان والی قوم گمراہی کے اندھیروں میں گم ہوسکتی ہے ۔
    تو پھر آج ہم مسلمان مشرکین کی ایمان کی عمارت کے ملبہ کو دیکھ کر یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ عمارت کی تباہی اور بربادی اسی ملبہ کے ڈھیر کو کہتے ہیں ۔۔۔۔جبکہ ہماری ایمان کی عمارت تو بہت حسین اور مضبوط نظر آتی ہے ۔۔۔۔اورہمارے عقائد میں اور مشرکین کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔اس لئے ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ؟؟؟
    بلکہ ہمیں تو فکر یہ کرنی چاہیے کہ وہ کون سے راستے ہیں کہ جن پر چل کر مضبوط عمارتیں بھی ملبہ کا ڈھیربن جاتی ہیں؟؟؟
    اور جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں گے تب ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں گے کہ فلاں قوم کی گمراہی فلاں ہے اور ہم فلاں گمراہی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔بلکہ ہم ہرآن یہ خیال رکھیں گے کہ وہ کون سا قدم ہے جس کو اٹھانے کے بعد صراط مستقیم کھونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ؟؟؟

    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
     
  2. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۔۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔​
    مشرکین کی گمراہی کا یہ پہلو تو بالکل واضح ہے کہ مشرکین کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ نیک بندوں سے عقیدت و محبت میں چند غلط فہمیوں میں مبتلا ہوجانا تھا ۔
    تو اب یہ غور کرنا باقی رہ جاتاہے کہ آخر یہ غلط فہمیاں کیسے پروان چڑھیں ؟؟؟
    جو آگے جا کے لوگوں کی گمراہی کا سبب بن گئیں؟؟؟
    مشرکین کی گمراہی کا دوسرا اور اہم پہلو نیک بندوں کے ہاتھوں خوارق عادات امور کا صدور ہوتے دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلا ہوجانا تھا۔
    یعنی جب اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ہاتھوں پر ایسے خوارق عادات امور صادر ہوتے دیکھے جوعام حالات میں کسی بھی انسان کے بس سے باہر ہیں اور ایسے امور صرف خدا کے ساتھ ہی خاص ہوتے ہیں تو انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان نیک بندوں کی عبادت سے راضی ہو کر انہیں الوہیت(خدائی) کی خلعت سے نواز دیا ہے کہ اب یہ نیک بندے جب چاہیں ،جو چاہیں اور جیسے چاہیں خوارق عادات افعال کا صدور کرسکتے ہیں۔۔۔پس لوگوں کا یہی گمان ان کی گمراہی کی ایک بڑی وجہ بن جاتا ہے ۔
    چناچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ”شرک کی حقیقت“ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    حقیقة الشرک ان یعتقد انسان فی بعض المعظمین من الناس ان الاٰ ثار العجیطة الصادرة منہ انما صدرت لکونہ متصفا بصفة من صفات الکمال مملم یعھد فی جنس الانسان بل یختص بالواجب جل مجدہ لا یوجد فی غیرہ الاان یخلع ھو خلعة الالوھیة علیٰ غیرہ او یفنی غیرہ فی ذاتہ ویبقیٰ بذاتہ او نحو ذٰالک مما یظنہ ھذا المعتقد من انواع الخرافات الخ (حجة اللہ البالغہ ج 1 ص 61)
    یعنی شرک کی حقیقت یہ ہے کہ انسان انسانوں کی کسی بڑی ہستی میں عجیب و غریب کرامات دیکھے ،اور یہ اعتقاد کرلے کہ یہ آثار جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں اور کسی دوسرے میں ہرگز نہیں پائے جاسکتے یہ بزرگ ہستی چونکہ صفات کمال سے موصوف ہے اور اس میں یہ آثار اس لئے پائے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو الوہیت کی خلعت سے نوازا ہے یا اس بزرگ نے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور اپنی ذات بالکل مٹا دی ہے اب اس سے جو کچھ صادر ہوتا ہے گویا خدا تعالیٰ کررہا ہے ،اور اس قسم کے کئی اور خرافات اس متعقد کے ذہن میں آتے ہیں ۔
    میرے مسلمان بھائیوں ،بہنوں اور بزرگو!
    "نیک بندوں کے ہاتھوں پرخوارق عادات امور کا ظہورہونا" بہت اہم اور قیمتی نکتہ ہے جس کو سمجھنے کے لئے ”خوارق عادات امور کے صدور “ کے حوالے سے چند اہم ترین نکات سمجھنا از حد ضروری ہیں ۔۔۔جس کے بعد آپ باآسانی سمجھ سکیں گے کہ مشرکین کی گمراہی کی اصل وجہ کہاں پوشیدہ ہے ؟؟؟
    ”معجزہ“ عام طور پر ایسے خارق عادت امر کو کہا جاتا ہے کہ جو کسی بھی مخلوق کے بس سے باہر ہویا مخلوق ایسے افعال کے صدور سے عاجز ہو ۔۔۔ لفظ ”معجزہ“ عجز سے مشتق ہے جو قدرت کی ضد ہے۔۔۔۔ اور ”معجزہ“ کے اندر فعلِ عجز(یعنی ایسا فعل پیدا کرنا کہ جس کو کرنے سے ساری مخلوق عاجز ہو)پیدا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔
    چناچہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    ”المعجزة من العجز الذی ھو ضد القدرة وفی التحقیق المعجز فاعل فی غیرہ وھو اللہ سبحانہ “(مرقاة ہامش مشکوة ج 2 ص 530)
    یعنی معجزہ عجز سے (مشتق ) ہے جو قدرت کی ضد ہے اور تحقیقی بات صرف یہ ہے کہ معجزہ وہ ہے جو غیر کے اندر عجز کا فعل پیدا کرے اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے“
    ابن حجرعسقلانی رحمتہ اللہ علیہ (المتوفی 852ھ) فرماتے ہیں:
    ”وسمیت المعجزة معجزة لعجز من یقع عندھم ذلک عن معارضتھاالخ (فتح الباری ج 6 ص 424)
    اور معجزہ کو اس لئے معجزہ کہا جاتا ہے کہ جن کے پاس وہ پیش کیا جاتا ہے وہ اس کے معارضہ سے عاجز آجائے “
    حافظ کمال الدین ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں
    ”انھا لما کانت مما یعجز عنہ الخلق لم تکن الا فعلا للہ سبحانہ “(المسائرہ ج 2 ص 89 مع المسامرہ)
    یعنی معجزہ جب ایسی چیز ہے کہ اُس کے صادر کرنے سے مخلوق عاجز ہے تو معجزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہوگا ۔
    لہذا جب یہ واضح ہوجاتا ہے معجزہ ایسا فعل ہے جس کے معارضہ سے ساری مخلوق عاجز آجائے تو نقل سے تو واضح ہے ہی کہ پھر یہ فعل اللہ تعالی کا ہوگا لیکن دوسری طرف عقلی طور پربھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ جس فعل سے ساری مخلوق کی عاجزی ظاہر ہو تو پھر وہ فعل سوائے خالق کے اور کسی کا نہ ہوگا۔
    لہذا جب ایسا کوئی امر جس کے ظہور سے مخلوق کی عاجزی ظاہر ہو ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ امر کسی مکرم ہستی کے ہاتھ پر صادر ہوتا نظر آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مکرم ہستی کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہوکر خوارق عادات امور پر اختیار و قدرت دے دی ہے۔۔۔۔۔۔ گویامکرم ہستی کو خدائی اختیارات مل گئے ہیں یا”الوہیت کی خلعت کی عطاء“ہوگئی ہے۔۔۔۔جبکہ مخلوق کے ہاتھوں پر ایسے خارق عادت امر کے ظہور کی حقیقت اتنی تھی کہ جب ایسا کوئی خارق عادت امر کسی اللہ تعالیٰ کے نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا تھا تووہ اللہ رب العزت کی طرف سے مدعی نبوت کے دعوی کی تصدیق کے طور نبی کے ہاتھوں پرصادر ہوتا تھا کہ یہ نبی اپنے دعوی میں سچا ہے۔
    چناچہ امام عبد الوھاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ الشیخ ابو طاہر رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
    ”اعلم ان البر ھان القاطع علی ثبوت نبوة الانبیاءھو المعجزات وھی فعل یخلقہ اللہ خارقا للعادة علی ید مدعی النبوة معتر فا بدعواہ وذلک الفعل یقوم قول اللہ عزوجل لہ انت رسولی تصدیقا لما ادعاہ الخ (الیواقیت والجواھر ج1 ص158)
    جاننا چاہیے کہ انبیاءکرام کی نبوت کے ثبوت پر واضح ترین دلیل صرف معجزات ہیں اور معجزہ وہ فعل ہے جس کو خرق عادت کے طور پر اللہ تعالیٰ مدعی نبوت کے ہاتھ پر اس کے دعوئے نبوت کا اعتراف کرتے ہوئے صادرفرمائے اور یہ فعل اللہ تعالیٰ کے اس قول کے قائم مقام ہے کہ تو اپنے دعوی رسالت میں بالکل صادق ہے “
    اور علامہ قاضی عیاض بن موسیٰ بن عیاض المالکی رحمہ اللہ (المتوفی 544ھ) لکھتے ہیں :
    ”اعلم ان معنی تسمیة ماجاءت بہ الانبیاءمعجزة ھو ان الخلق عجزوا عنہ فبعجز ھم عنہ ھو فعل اللہ تعالیٰ دل علیٰ صدق نبیییہ (الیٰ ان قال)کاحیاءالموتیٰ و قلب العصا حیة واخراج ناقة من صخرة وکلام شجرة ونبع الماءمن بین الاصابع وانشقاق القمر ممالا یمکن ان یفعلہ احد الااللہ فیکون ذلک علیٰ ید النبی من فعل اللہ تعالیٰ و تحدیہ علیہ السلام من یکذبہ ان یاتی بمثلہ تعجیز لہ “(شفاءص 122)
    ”جاننا چاہیے کہ جو (خرق عادت ) چیز انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے ہاتھ پر صادر ہوتی ہے اس کو اس لئے معجزہ کہتے ہیں کہ مخلوق اس کے ظاہر کرنے سے عاجز ہوتی ہے اور جب مخلوق اس سے عاجز ہوتی ہے تومعلوم ہوا کہ معجزہ خالص خدا تعالیٰ کا فعل ہی ہوگا جو نبی کی صداقت کی واضح دلیل ہے (پھر آگے فرمایا)جیسے مردوں کا زندہ کرنا اور لاٹھی کو سانپ بنا دینا اور پتھر سے اوٹنی کا نکالنا اور درختوں کا کلام کرنا اور انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا اور چاند کا پھٹ جانا (وغیرہ) یہ ایسی چیزیں ہیں کہ اللہ کے بغیر کسی اور سے ان کا ہونا ممکن ہی نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے اور نبی علیہ السلام نے مکذبین کو چیلنج کرکے ان کو اس فعل سے صادر کرنے سے عاجز کردیا ۔
    یعنی نبی کے ہاتھ پر معجزہ کا صدور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کو ”معجزہ “ پر اختیار و قدرت عطاءکرنے کی یا ”الوہیت کی خلعت “ عطاءکرنے کی دلیل نہیں بلکہ معجزات تو انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے دعوی نبوت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصدیق کے لئے ہوتے تھے ۔ ۔۔۔۔اور جب ایسے خوارق عادات امور کسی غیر نبی یعنی ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتے ہیں تو ان کو کرامت کہا جاتا ہے جو اللہ رب العزت کی طرف سے اس ولی کی تکریم کے طور پرولی کے ہاتھ پر صادر ہوتی ہے۔
    معزز قارئین کرام !
    ان صریح حوالاجات کے بعد خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایسا خارق عادت امر جس کو صاد ر کرنے سے تمام کی تمام مخلوق عاجز ہو ”معجزہ“ ہے۔۔۔جیسے مردوں کا زندہ کرنا اور لاٹھی کو سانپ بنا دینا اور پتھر سے اوٹنی کا نکالنا اور درختوں کا کلام کرنا اور انگلیوں سے پانی کا ابل پڑنا اور چاند کا پھٹ جانا (وغیرہ)۔۔۔۔یقینا یہ ایسے امور ہیں کہ جس سے ساری مخلوق عاجز ہے ۔۔۔۔لہذا ایسے تمام معجزات خالص اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں جو مدعی نبوت کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے دعوی نبوت کی تصدیق کے لئے صادر ہوتے ہیں ۔
    یعنی جب ”معجزات “درحقیقت ایسے خوارق عادات امور ہیں جس سے تمام مخلوق عاجز ہو یعنی مخلوق کے دائرہ اختیار و قدرت سے باہر ہیں ۔۔۔۔تو واضح ہوجاتا ہے کہ معجزہ خالص اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کا فعل جب کسی نبی کے ہاتھ پر صادر ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نبی کو اللہ تعالیٰ کے فعل کا اختیار و قدرت مل گیا ۔۔۔۔بلکہ خدا کے فعل کا نبی کے ہاتھ پر صادر ہونااللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی تصدیق کے لئے ہے کہ یہ نبی اپنے دعوی نبوت میں سچا ہے ۔۔۔۔اور اس نبی کے ہاتھ پر صادر ہونے والا یہ خدائی فعل( یعنی معجزہ) اس بات کی دلیل ہے کہ اس نبی کو رب کی طرف سے تائید حاصل ہے ۔ لیکن افسوس پچھلی قوموںنے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے معجزات اور اولیاءکرام کی کرامات کی حقیقت سمجھنے کے بجائے اُن کے ہاتھوں معجزات اور کرامات کے ظہور ہوتے دیکھ کر یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مکرم ہستیوں کو ”خلعت الوہیت “ عطاءکردی ہے ۔۔۔۔لہذا اب ان ہستیوں کو خوارق عادات امور پر پوری طرح اختیار و قدرت حاصل ہے ۔۔۔۔ اب یہ جو چاہیں جب چاہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔۔لہذا پھر یہ لوگ گمراہی کے راستے پر چلتے اتنی دور نکلتے جاتے ہیں کہ پھر ایسی ہستیوں کو ہی معبود سمجھ کر اُن کی عبادات کرنے لگتے ہیں تاکہ کسی طرح یہ ہستیاں اُن سے راضی ہوکر اُن کے بگڑے کام بنادیں ۔۔۔۔یا آخرت میں اُن کے سفارشی بن جائیں ۔۔۔۔یا یہ ہستیاں ان کو رب کے قریب کردیں وغیرہ وغیرہ
    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ​
     
  3. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب

    ..............
     
  4. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۔۔۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔​
    پھر یہ سلسلہ یہی نہیں ختم ہو ا ۔۔۔۔بلکہ ایسے ہی مکرم ہستیوں سے عقیدت میں غلو کرنے کے سبب اور خوارق عادات امورپرمخلوق کا اختیار و قدرت رکھنے کا گمان رکھنے کے سبب ایک اوربڑی قوم گمراہ ہوئی وہ نصرانی تھے۔
    آپ حضرات نے نصرانیوں کے متعلق یہ تو علم میں ہوگا کہ نصرانیوں کے کسی گروہ کی گمراہی ”تثلیث“ ہے تو کسی گروہ کی گمراہی ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا سمجھنا “ہے تو کسی گروہ کی گمراہی ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بذات خود خدا سمجھنا “ہے ۔
    لیکن اکثر وبیشتر لوگ اس چیز سے ناواقف ہوتے ہیں کہ نصرانیوں کی ان گمراہیوں کی اسباب کیا تھے ؟؟
    کیا نصرانی ابتداءسے ہی مختلف گمراہیوں کا شکار ہوگئے تھے ؟؟؟
    یقینا ایسا ہر گز نہیں ۔۔۔کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دور نبوت میں جو لوگ گمراہ ہوئے وہ یہود تھے ۔۔۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور بی بی مریم پر تہمتیں لگائیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازشیں کیں ۔
    جبکہ بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا اعترا ف کیا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور وہ نصاریٰ کہلائے ۔
    تو جب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی وقت میں نصرانی بھی ایمان والے تھے ۔۔۔۔ اور اس کے بعد یہ بھی واضح ہے کہ یہی قوم آگے چل کر گمراہی کی ان منزلوں (تثلیث ،خدا کا بیٹا یا خداماننے )تک بھی پہنچی۔
    تو پھر ساتھ میں یہ بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں بھی ایمان کی روشنیوں اور گمراہی کے اندھیروں کے درمیان ایک راہ ایسی تھی جس پر چل کر نصرانی گمراہی کی انتہائی منزلوں تک پہنچے۔(سوائے اُن کے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی)
    معزز قارئین کرام !
    اللہ رب العزت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے محیر العقول معجزات عطاءفرمائے جنہیں دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
    حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا سلسلہ اُس وقت ہی شروع ہوجاتا ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی نہ ہوئی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بن باپ کے پیدائش ہونا ۔۔۔اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گہوارے میں کلام کرنا اور بی بی مریم کی پاکدامنی کی شہادت دینا ۔۔۔۔پھر اس کے بعد باذن اللہ مردے زندہ کرنا ،مٹی کا پرندہ بنانا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھونک مار کر جان ڈالنا،اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھو ں کی بینائی،اللہ کے حکم سے کوڑھیوں کو شفاءاور اللہ کے حکم سے غیب کی باتیں بتانا اور پھر آخری وقت میں اللہ رب العزت کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوایک سازش سے بچا کر آسمان پر اٹھالینااور پھر قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہونا۔
    غرض یہ کہ مسیح علیہ السلام کی ابتداءسے لے کر آخر تک پوری زندگی ایسے محیر العقول واقعات سے بھری نظر آتی ہے کہ جس کی عالم میں نظیر نہیں ملتی ۔۔۔۔انسانی عقل حیران و پریشان ہوجائے ۔
    اورانہی معجزات کو سمجھنے کی غلط فہمی نصرانیوں کی گمراہی کا ایک بڑا سبب بنی ۔
    جیسا کہ ہم اوپرمشرکین کی گمراہی واضح کرآئے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں مشرکین نے نیک بندوں سے عقیدت میں غلو کیا اور نیک بندوں سے عقیدت و احترام میں اُن کی تصویریں اور بت بنا کر اپنے گھروں میں لائے۔۔۔۔اور دوسرے مرحلہ میں ان بتوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ان بتوں کو قبلہ نما بنا لیا۔۔۔ تیسری طرف نیک بندوں کے ہاتھوں خوارق عادات افعال کا صدور ہوتے دیکھ کر ”الوہیت کی عطاء“ کا گمان کربیٹھے ۔۔۔۔اور پھر ایک مرحلہ پر آنے والی نسلوں نے ان نیک بندوں کی تصویروں یا بتوں کوہر طرح سے بااختیار سمجھ کر انہیں عبادت کے لائق سمجھ لیا تاکہ ان بتوں کی عبادت کرکے ان کو راضی کیا جائے اور پھر یہ معبود ان کے دنیا و آخرت کے تمام مسائل حل کردیں۔
    اور یہی نصرانیوں کے ساتھ بھی ہواکہ پہلے مرحلہ میں تونصاریٰ نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عقیدت میں غلو کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کے احترام میں یہ خیال کرتے ہوئے ”خدا کا بیٹا “ کہا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بندہ کہیں گے تو اس طرح دیگر عام لوگوں سے برابری لازم آئے گی ۔۔۔لہذا یہ خلاف ادب ہوگا ۔۔۔۔اس لئے اس فرق کو دور کرنے کے لئے نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا۔
    چناچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    والنصاری :ذھبوا الی ان للمسیح علیہ السلام قُربا من اللہ ،وعلوا علی الخلق ،فلا ینبغی ان یسمی عبدا ،فیسوی بغیرہ ،لان حذا سوءادب معہ ،واھمال لقربہ من اللہ ،ثم مال بعضھم عند التعبیر عن تلک الخصوصیة الی تسمیتہ ابن اللہ ،نظر الیٰ ان الاب یرحم الابن ،ویربیہ علی عینیہ ،وھو فوق البعید ،فحزا الاسم اولی بہ (حجة اللہ البالغہ)
    یعنی (بعض)نصاریٰ اس طرف گئے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا سے قرب حاصل ہے ،اور تمام مخلوقات سے ان کا رتبہ بلند ہے اس لئے ان کو بندہ کہنا مناسب نہیں ،ایسا کہنے سے ان کو دوسروں بندوں کے برابر کرنا لازم آئے گا،اس لئے یہ (برابرکرنا) ان کی شان میں بے ادبی ہے اور ان کے تقرب الٰہی کے لحاظ کوترک کرنا ہے ،پھر بعض لوگ اس خصوصیت کی تعبیر کے وقت ان کو اللہ کا بیٹا کہنے کی طرف مائل ہوئے اس بات پر نظر کرتے ہوئے کہ باپ بیٹے پر مہربانی کرتا ہے اور اپنی نگاہوں کے سامنے اس کی پرورش کرتا ہے اور اس کا درجہ غلاموں سے بلند ہوتا ہے پس یہ نام ان کے لئے موزوں ہے ۔
    یعنی ان نصاری کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا حقیقی معنوں میں نہیں تھا ۔۔۔۔بلکہ دیگر مخلوقات سے امتیاز رکھنے کے سبب تھا ۔۔۔۔لیکن اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ آنے والی نسلیں ”حقیقی “اعتبار سے خدا کا بیٹا سمجھ لیں گی۔
    جبکہ دوسری طرف نصرانیوں کاوہ گروہ تھاجوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھتے ہوئے اس عقیدہ تک جاپہنچاکہ خدا حضرت عیسی علیہ السلام میں حلول کر گیا ہے ۔۔۔۔اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایسے افعال کا صدور ہواجو کسی انسان کے بس سے باہر ہیں ۔۔۔۔لہذا اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور آپ کی عبادت اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے ۔
    شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
    وبعضھم الی تسمیتہ باللہ ،نظر الیٰ ان الواجب حل فیہ ،وصار داخلہ ،ولھذا یصدر منہ آثار لم تعھد من البشر ،مثل احیاءالاموات وخلق الطیر ،فکلام اللہ ،وعبادتہ ھی عبادة اللہ “ (حجة اللہ البالغہ)
    اور بعض عیسائی آپ کا ”خدا“ نام رکھنے کی طرف مائل ہوئے اس بات کی طرف نظر کرتے ہوئے کہ واجب تعالیٰ نے آپ میں حلول کیا ہے اور واجب تعالیٰ آپ کے اندر ہوگئے ہیں اور اسی وجہ سے آپ سے ایسے آثار صادر ہوئے جو کسی بشر سے پہچانے نہیں گئے ،جیسے مردوں کو زندہ کرنا ،اور پرندوں کو پیدا کرنا پس آپ کا کلام ،اللہ کا کلام ہے اور آپ کی عبادت اللہ ہی کی عبادت ہے ۔
    یعنی دیکھا جائے تو نصرانی اس مقام تک بھی مکمل گمراہی کی دلدل میں نہیں اترے تھے ۔۔۔۔یعنی نہ تو پہلا گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو”حقیقی بیٹا“ ماننے کا قائل تھا اور نہ دوسرا گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ”حقیقی خدا“مانتا تھا ۔۔۔۔لیکن دونوں گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو بھولتے ہوئے مسیح علیہ السلام کے مقام و مرتبہ میں غلو کرنے کے سبب صراط مستقیم ضرور کھوتے جارہے تھے ۔۔۔۔۔اور اسی غلونے اگلی نسلوں میں جاکرنصرانیوں کو مکمل گمراہی کی دلدل میں اتار دیا۔
    چناچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ آگے لکھتے ہیں :
    فخلف من بعدھم خلف لم یفطنوا لوجہ التسمیة ،وکادوا یجعلون البنوة حقیقیة او یزعمون انہ الواجب من جمیع الوجوہ ،ولذلک رد اللہ تعالیٰ علھیم تارة بانہ لاصاحبة لہ ،وتارة بانہ ”بدیع السمٰوٰت والارض ،انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون “(حجة اللہ البالغہ)
    پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے وجہ تسمیہ نہیں سمجھی اور بیٹا ہونے کو حقیقی بیٹا سمجھ لیا یا وہ آپ کو من کل الوجوہ واجب سمجھ لیا اور اسی بنا ءپر اللہ تعالیٰ نے کبھی تو ان کی ترید اس طرح کی کہ اللہ تعالیٰ کی بیوی نہیں اور کبھی اس طرح کی کہ :وہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کو کہتے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے “
    یعنی نصرانیوں کی نئی آنے والی نسلوں نے اپنے پچھلے لوگوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا (جو در حقیقت صرف تکریم کے لئے تھا) کہنے کی حقیقت سمجھنے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ کی پیدائش کے معجزہ کو اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت کا نشانی سمجھنے کے بجائے یہ گمان کر بیٹھے کہ کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش ہوئی ۔۔۔۔۔اور عادتا ایسا ہونا محال ہے ۔۔۔۔۔ لہذا نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حقیقی اعتبار سے بیٹا سمجھ لیا (معاذ اللہ)۔۔۔۔ جس کی تردید قرآن پاک میں یوں ہوئی:
    بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ البقرۃ 117
    ترجمہ: آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جب کوئی چیز کرنا چاہتا ہے تو صرف یہی کہہ دیتا ہے کہ ہو جا سو وہ ہو جاتی ہے

    اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :فرمایا:
    إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الخ یس 82
    ترجمہ : اس کی تو یہ شان ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اتنا ہی فرما دیتا ہے کہ ہو سو وہ ہو جاتی ہے

    اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
    إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ الخ اٰل عمران 59
    ترجمہ: بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا
    ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    يقول جل وعلا: { إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ } في قدرة الله؛ حيث خلقه من غير أب { كَمَثَلِ ءَادَمَ } حيث خلقه من غير أب ولا أم، بل { خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ } فالذي خلق آدم من غير أب وأم، قادر على أن يخلق عيسى بطريق الأولى والأحرى، وإن جاز ادعاء البنوة في عيسى لكونه مخلوقاً من غير أب، فجواز ذلك في آدم بالطريق الأولى الخ (تفسیر ابن کثیر)
    یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرمارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو صرف باپ نہ تھا اور میں نے انہیں پیدا کردیا توکون سی حیرانی کی بات ہے ؟میں نے تو حضرت آدم علیہ السلام کو ان سے پہلے پیدا کیا تھا ،ان کا بھی باپ نہیں تھا بلکہ ماں بھی نہیں تھی ، مٹی کا پتلا بنایا اور کہہ دیا آدم ہوجا اسی وقت ہوگیا پھر میرے لئے صرف ماں سے پیدا کرنا کون سا مشکل ہوسکتا ہےجبکہ بغیر ماں باپ کے بھی میں نے پیدا کردیا ،پس اگر صرف باپ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بیٹا کہلانے کے مستحق ہوسکتے ہیں تو حضرت آدم علیہ السلام بطریق اولیٰ اس کا استحقاق رکھتے ہیں اور انہیں تم خود نہیں مانتے؟؟؟
    لیکن افسوس نصرانی کچھ سوچنے سمجھنے پر تیار نہ تھے ۔۔۔۔ لہذا نصرانیوں کے پچھلے لوگوں نے جو سفر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عقیدت میں غلو کرکے شروع کیا ۔۔۔۔ وہ سفر بعد کی آنے والی نسلوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تثلیث کی صورت میں انجام کو پہنچایا۔
    ویسے تو نصرانیوں کی گمراہی کی تفصیل کافی لمبی ہے ،،،،،،لیکن ہم نے یہاں نصرانیوں کی گمراہی کا بنیادی نکتہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ نصرانیوں کی گمراہی کا بڑا سبب ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ میں غلو کرنا تھا ،،،، تو دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے محیر العقول معجزات کو سمجھنے کی غلط فہمی کے سبب نصرانیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو "الوہیت"کی دلیل قرار دے دیا ،،،،،یعنی نصرانیوں نے یہ گمان کرلیا تھاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذاتی افعال تھے ،،،،،اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے افعال پر اختیار و قدرت حاصل تھی ،،،،،گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدائی اختیارات حاصل تھے ،
    چناچہ ابن کثیر رحمہ اللہ (اٰل عمران 59 کی تفسیر میں) لکھتے ہیں:
    وکذلک قول النصرانیة،فہم یحتحجون فی قولھم : ھو اللہ ،بانہ کان یحیی الموتی ویبری ء،الاکمہ والابرص والاسقام ،ویخبر بالغیوب ،ویخلق من الطین کھیئة الطیر فینفخ فیہ فیکون طیرا ،وذلک کلہ بامر اللہ الخ (تفسیر ابن کثیر
    یعنی تقریبا نصاریٰ کا یہی کہنا ہے مسیح اللہ ہونے کی دلیل ان کے پاس یہ تھی کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اندھوں اور کوڑھیوں کو اور بیماروں کو شفا دیتا تھا غیب کی خبریں دیتا تھا اور مٹی کی چڑیا بنا کر پھونک مار کر اڑادیا کرتا تھا اور جواب اس کا یہ ہے کہ یہ ساری باتیں اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرزد ہوتیں تھیں،
    یعنی قرآن پاک میں نصرانیوں کے اس گمان کی تردید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے ساتھ "باذن اللہ "کہہ کر کی گئی کہ یہ معجزات نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فعل تھے اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسے افعال پر اختیار و قدرت حاصل تھی بلکہ یہ معجزات تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھے،
    لیکن افسوس نصرانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ میں اعتدال رکھنے اور معجزات کی حقیقت سمجھنے کے بجائے ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام و مرتبہ میں غلو کیا اور دوسری طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو خدائی اختیارات عطاءہونے کی دلیل سمجھ کر گمراہی کے اندھیروں میں گم ہوگئے ،،،،سوائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔
    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
     
  5. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی کے اسباب

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ۔۔۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔​
    نصرانی اورمشرکین دونوں کی گمراہی میں یہ مماثلت واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف دونوں گروہوں کی گمراہی کی ابتدا مکرم ہستیوں سے ”عقیدت میں غلو“ کرنے کے سبب ہوئی ۔۔۔۔۔اور دوسری طرف مخلوق کے ہاتھوں معجزات و کرامات کا صدور دیکھتے ہوئے الوہیت کی عطاء کا گمان کربیٹھے ۔۔۔۔اور دونوں ہی گروہوں نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دو تین مرحلوں سے گذرتے ہوئے گمراہی کی منازل طے کیں۔
    ہم یہ نہیں کہتے کہ ان دونوں قوموں کے گمراہی کے اسباب محض یہی چند نکات تھے ۔۔۔۔۔ممکن ہے کہ ان دونوں گروہوں کی گمراہی کی وجوہات اور بھی رہی ہوں گی۔۔۔۔لیکن اگر توجہ سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی قوم کا ”اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں غیر کو شریک“کرنے کا سب سے بڑا سبب مکرم ہستیوں کے مقام و مرتبہ میں ”غلو“ کرنا ہے ۔
    کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں غیر کو شریک کرنے کا راستہ ہی یہ نکلتا ہے کہ کسی مکرم ہستی کے مقام و مرتبہ کو اپنے قیاس سے بڑھایا جائے۔
    اوریقینا کسی بھی ایمان والی قوم کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ غیر اللہ کے مقام و مرتبہ کو یک لخت ہی اتنا بڑھادے جو مخلوق کو خالق کے برابر پہنچا دے ۔
    اور نہ ہی کسی بھی ایمان والی قوم کے لئے براہ راست غیر اللہ کو معبود سمجھنے کا یا غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور ممکن ہوسکتا ہے۔
    بلکہ مکرم ہستیوں کے مقام و مرتبہ میں‌ ایسا اضافہ رفتہ رفتہ اور تھوڑا تھوڑا کرکے کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ جس سے ایمان والے کواپنی غلطی کا احساس بھی نہیں ہوتااور وہ صراط مستقیم سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
    اس کی واضح ترین مثال مشرکین اور نصاریٰ کی ہے کہ جو کبھی کسی زمانے میں ایمان و ہدایت کے نور سے منور تھے ۔۔۔لیکن دونوں قوموں نے اپنے اپنے زمانے کی مکرم ہستیوں سے عقیدت میں غلو کیا ۔۔۔۔اور اُن مکرم ہستیوں کا مقام و مرتبہ اپنے خود ساختہ قیاس سے بڑھاتے گئے ۔۔۔۔جس سے بالآخر کب عقیدت عبادت کا روپ دھار گئی انہیں احساس تک نہ ہوا ۔
    آج ہمارے درمیان کچھ لوگوں کا سمجھنا ہے کہ شرک و کفر کی جنگ اب ختم ہوچکی ہے اور اس امت میں شرک واقع نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ اب ہمارے عقائد خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہیں لیکن وہ شرک کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔ ان لوگوں کے اس گمان کی وجہ یہ حدیث پاک ہے:
    رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ”وانی لست اخشی علیکم ان تشرکوا بعدی ولکنی اخشی علیکم الدنیا ان تنافسوھا فیھا“(صحیح بخاری،کتا ب :المغازی ،باب: غزوہ احد ،ح:3463 )
    ” میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لئے حرص کر نے لگو گے“
    اس حدیث پاک سے کچھ لوگوں کا سمجھنا ہے کہ اس حدیث پاک میں اس امت کو بالکل سے شرک میں نہ مبتلا ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے ؟؟؟؟
    جبکہ اس حدیث پاک سے ان حضرات کا یہ سمجھنا درست نہیں۔۔۔۔کیوں کہ اس حدیث پاک میں دنیوی معاملات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی وعید بےان کی گئی ہے ۔۔۔۔یہ کسی اندیشے کو اجاگر کرنے کامﺅثر اسلوب ہے۔۔۔جو ایک اور حدیث پاک میں یوں ملتا ہے :
    حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    ”فواللہ ما الفقر اخشی علیکم ولکنی اخشی علیکم ان تبسط الدنیاعلیکم کما بسطت علی من کان قبلکم فتنافسو ھا کما تنافسوھا وتھلککم کما اھلکتھم الخ(صحیح بخاری)(صحیح مسلم ج 3 ح :2928)
    ”اللہ کی قسم مجھے تمہارے متعلق فقر کا خوف نہیں مگر ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جس طرح تم سے پہلے والوں پر کی تھی ،پھر تم اس کی تگ و دو میں لگ جاﺅ جس طرح وہ لگ گئے تھے ،اور یہ تمہیں برباد کردے جیسے اس نے انہیں بردبار کیا“
    اب اس حدیث پاک میں ” فقر کا خوف نہیں“ کا مفہوم یہ تو نہ لیا جائے گا کہ پوری امت میں کوئی بھی فقر میں مبتلا نہیں ہوگا؟؟؟
    بلکہ اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں ”فقر“ سے زیادہ ”اس امت پر دنیا کشادہ ہونے کی وجہ سے دنیاداری میں مبتلا “ ہونے کے اندیشے کو اجاگر فرمایا ہے ۔
    اسی طرح اوپر والی حدیث میں جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ”مجھے اپنے بعد تمہارے شرک میں مبتلا ہونے کا اتنا خوف نہیں جتنا اس بات کا خوف ہے کہ تم دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں سر گرم ہو جاﺅ گے“
    آسانی کے لئے یوں سمجھ لیں کہ اس امت میں مجموعی اعتبار سے شرک واقع نہیں ہو گا جیسے پچھلی امتوں میں واقع ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس حدیث پاک سے اس امت میں بالکل شرک نہ واقع ہونا سمجھنا درست نہیں ۔
    کیوں کہ ایک اور حدیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
    لا تقوم الساعة حتی تلحق قبائل من امتی بالمشرکین ،وحتی یعبدو االاوثان ،وانہ سیکون فی امتی ثلاثون کذابون کلھم یزعم انہ نبی ،وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی “(ابو داﺅد،کتاب الفتن:ح:4252)(ابن ماجہ)(مسند احمد:5۔278۔284)(مسند طیالسی:991۔133) (جامع ترمذی،کتاب الفتن ، ح : 2150)
    ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے بعض قبیلے مشرکین سے مل جائیں گے یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبیلے بتوں کی پوجا کریں گے اور میری امت میں تیس کذابین رونما ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے ۔جبکہ میں خاتم النبین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے “
    لہذا اس حدیث پاک سے ایک تو یہ غلط فہمی دور ہوتی ہے کہ اس امت میں بالکل شرک واقع نہیں ہوگا۔۔۔۔اور دوسری یہ غلط فہمی بھی دور ہوجاتی ہے کہ مراد انفرادی طور پر شرک میں مبتلا ہونا بھی نہیں بلکہ ”بعض قبیلے بتوں کی پوجا کریں گے “سے مراد فرقے یا قوم بھی مراد ہوسکتی ہے۔
    اسی طرح احادیث پاک میں اشارہ ملتا ہے کہ یہ امت یہود و نصاریٰ کی پیروی بھی کرے گی ۔
    جیسے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا شبرا وذراعا بذراع ،حتی لو دخلو جحر ضب تبعتموھم “قلنا یا رسول اللہ الیھود و النصاری قال ”فمن “ (صحیح بخاری ،کتاب : الاعتصام ح : 6804)
    یعنی تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میںاتباع کرو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہود ونصاریٰ مراد ہیں َ؟ فرمایا پھر اور کون؟
    اور دوسری روایت میں ہے:
    عن عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”وتفترق امتی علی ثلاث وسبعین ملت کلھم فی النار الا ملت واحدہ۔ قال: ومن ھی یا رسول اللّٰہ؟ قال:ما انا علیہ واصحابی (الترمذی ح:2711)
    ”بروایت عبداللہ بن عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور میری یہ امت تہتر ملتوں میں بٹے گے۔ سب دوزخی ہوں گی سوائے ایک۔ سوال کیا: وہ ایک کونسی اے اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا جو اس امر پر ہوگی جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں“
    لہذاجبکہ ایک طرف ہم یہ جانتے ہیں کہ ”حق و باطل “ کی جنگ جو ازل سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے بلکہ قیامت تک جاری رہے گی ۔
    اور دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس امت کے بعض گروہ یا بعض فرقے شرک میں مبتلا ہوسکتے ہیں
    اور تیسری طرف اس امت کو یہود و نصاریٰ کی پیروی کرنے کی اور یہود و نصاری کی طرح بہترناری فرقوں میں بٹ جانے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے ۔
    تو پھرہمیں اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا رہنا چاہیے کہ اس امت کو شرک میں نہ مبتلا ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہے لہذا اب ہمارے عقائد خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوجائیں لیکن ہمارے عقائد شرک کی حدود میں داخل نہیں ہوسکتے ؟؟؟
    اور نہ ہم یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ ہمارے اور مشرکین کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔ لہذا ہمیں کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں
    کیوں کہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ ایمان کی روشنیوں اور گمراہی کے اندھیروں میں جو زمین و آسمان کا فرق ہے وہ راتوں رات ختم نہیں ہوتا
    جیسے مشرکین و نصاریٰ کی گمراہی بھی راتوں رات وجود میں نہیں آئی ۔۔۔۔ لہذا بجائے ہم اپنے عقائد اور مشرکین و نصاریٰ کے عقائد کے درمیان زمین و آسمان کے فرق پر مطمئن ہونے کے بجائے اُن راہوں کی فکر کریں جن پرچل کر یہ فرق ختم ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
    آج کے کچھ حضرات مکرم ہستیوں سے عقیدت میں غلو بھی کرتے ہیں اور مکرم ہستیوں کے معجزات و کرامات کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے ان مکرم ہستیوں کے مقام و مرتبہ کے باعث انہیں معجزات و کرامات پر اختیار وقدرت عطاء کردیا ہے
    اب یہ مکرم ہستیاں جیسے چاہیں اور جب چاہیں اپنے (عطائی) اختیارات سے لوگوں کی مدد کرسکتیں ہیں ؟؟؟
    یعنی جیسے یہ مکرم ہستیاں ہر جگہ پہنچ سکتیں ہیں (یعنی حاضر ناظر ہوتی ہیں)
    ہرجگہ سے فریاد سن سکتی ہیں (یعنی غیب جانتی ہیں )
    اور ہر طرح کی مدد پر اختیار و قدرت رکھتی ہیں (یعنی مختار کل ہوتیں ہیں)
    قطع نظر اس بحث کے کہ یہ لوگ مکرم ہستیوں کے لئے کس حد تک ایسے اختیارات کے قائل ہیں۔۔۔یا ان کے پاس اپنے ایسے عقائد کے کیا دلائل ہیں ۔۔۔۔سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ صفات (یعنی حاضر ناظر،غیب کا جاننا،مختار کل ہونا )ایسی ہیں جو معجزات و کرامات سے تعلق رکھتیں ہیں ۔
    اور یقینا اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام یا اولیاءکرام رحمھم اللہ کے ہاتھوں پر معجزانہ طور پر یا کرامتا ایسے افعال کا صدور ہوا ہے جو ان صفات میں سے تعلق رکھتے ہیں۔
    لیکن اصل قابل غور و فکر نکتہ یہ ہے کہ کیا کسی نبی کا معجزہ یا کسی ولی کی کرامت کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرنا یا یہ قیاس کرنا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں نبی یا ولی کومطلق ”معجزات “ یا” کرامات “پر اختیار و قدرت عطاءکردیا ہے ؟؟؟
    اب فلاں نبی یا ولی اس” عطاء“کے بعد ہر طرح سے بااختیار ہوگئے ہیں؟؟؟
    اب یہ جو چاہیں جیسے چاہیں کرسکتے ہیں ؟؟؟
    یعنی جب چاہیں جہاں چاہیں دنیا کے کسی مقام پر حاضر ناظر ہوتے ہیں ؟؟؟
    یا انہیں غیب کا ایسا علم عطاء ہوگیا ہے کہ جب چاہیں جو چاہیں جان سکتے ہیں؟؟؟
    اور ایسی مکرم ہستیوں کو ہر طرح کا اختیار و قدرت عطاءکردی گئی ہے اور اب یہ ہستیاں مختار کل ہیں وغیرہ وغیرہ ؟؟؟

    ایسی صفات کا مخلوق کے لئے عقیدہ رکھنا ۔۔۔ سوائے اس کہ اور کیا ہے کہ مکرم ہستیوں کو الوہیت کی خلعت عطاء ہوگئی ہے؟؟؟
    اب یہ مکرم ہستیاں جو چاہے جیسے چاہے اپنے اختیارات سے مافوق الاسباب افعال کا صدور کرسکتیں ہیں ؟؟؟
    لہذ ان کو پکارنا بھی درست (کیوں کہ یہ ہستیاں ہرجگہ سے ہرکسی کی فریاد سن سکتی ہیں) ۔۔۔اور ان سے مدد مانگنا بھی جائز(کیوں کہ یہ ہستیاں مختار کل ہیں لہذا معجزانہ یا کرامتاکسی کی بھی کہیں بھی مدد کے لئے حاضر ہوسکتی ہیں اور ہرطرح کی مددہروقت کرسکتی ہیں) ؟؟؟
    حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ غیر عادیہ طورپر مخلوق کا کسی کی پکار کا سننا یاغیر عادیہ افعال کا صدور”معجزہ یا کرامت“ کے زمرہ میں آتے ہیں۔
    اور ہم اوپر پچھلی سطور میں واضح کرآئے ہیں کہ ”معجزہ “ خالص اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے ۔ ۔۔۔اورجب معجزہ کا صدور نبی کے ہاتھ پر ہو تو یہ معجزہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کے دعوی نبوت پر تصدیق کے طور پر ہوتا ہے کہ یہ نبی اپنے دعوی نبوت میں سچا ہے ۔۔۔۔اور جب کرامت جو کسی ولی کے ہاتھ پر صادر ہوتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس ولی کی تکریم کے لئے ہوتی ہے ۔۔۔۔اور ساتھ ہی علماءدین نے واضح تصریح فرمائی ہے کہ معجزہ و کرامت پر مخلوق کا اختیار و قدرت نہیں ہوتا۔
    رئیس متکلمین قاضی ابو بکر ابن الطیب الباقلانی رحمہ اللہ (المتوفی 403ھ) لکھتے ہیں :
    فصل فی حقیقة المعجزة معنی قولنا ان القراٰن معجز علیٰ اصولنا انہ لایقدر العباد علیہ وقد ثبت ان المعجز الدال علیٰ صدق النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم لایصح دخولہ تحت قدرة العباد وانما ینفرد اللہ تعالیٰ بالقدرة علیہ ولا یجوزان یعجز العباد عما تستحیل قدرتھم علیہ (الیٰ ان قال) وکذلک معجزات سائر الانبیاءعلیٰ ھذا اھ اعجاز القرآن (برہامش التقان ج 2 ص 186)
    یعنی فصل معجزہ کی حقیقت میں ۔ہمارے اس قول کا مطلب کہ قرآن معجز ہے ہمارے اصول پر یہ ہے کہ بندے اس پر قادر نہیں ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ معجزہ جو صدق نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر دلالت کرتا ہے اس کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ بندوں کی قدرت کے تحت داخل ہے بلکہ معجز کی قدرت صرف اللہ تعالیٰ ہی منفر دہے ،بھلا یہ کیسے جائز اور صحیح ہے جو یہ کہا جائے کہ بندے اس چیز سے عاجز ہوگئے جس پر ان کا قادر ہونا ہی محال ہے (پھر آگے فرمایا ) اور یہی حال ہے تمام انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلا م کے معجزات کا (کہ وہ بھی داخل تحت قدرة العباد نہیں ہیں )
    حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
    معجزہ فعل نبی نیست بلکہ فعل خدائے تعالیٰ است کہ بردست دے اظہار نموہ بخلاف افعال دیگر کہ کسب ایں از بندہ است و خلق از خداتعالیٰ و در معجزہ کسب نیز از بندہ نیست “ (مدارج النبوة ج 2 ص 114)
    ”معجزہ نبی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے جس کو نبی کے ہاتھ پر وہ ظاہر کرتا ہے بخلاف دیگر افعال کے کہ ان میں کسب بندہ کی طرف سے ہوتا ہے مگر معجزہ میں کسب بھی بندہ کی طرف سے نہیں ہوتا“
    نیز شیخ صاحب ہی ارقام ہیں :
    چہ معجزہ و کرامت فعل خدا است کہ ظاہر مے گرد دبردست بندہ بجہت تصدیق و تکریم وے نہ فعل بندہ است کہ صادر مے گرددبقصد و اختیار او مثل سائر افعال۔(ترجمہ فتوح الغیب ص 27)
    یعنی کیوں کہ معجزہ اور کرامت خدا تعالیٰ کا فعل ہے جو بندہ کے ہاتھ پر اُس کی تصدیق و تکریم کی غرض سے صادر ہوتا ہے معجزہ اور کرامت بندہ کا فعل نہیں ہے جو اس کے قصد و اختیار سے صادر ہو جیسے اس کے دوسرے افعال اختیاریہ ہیں جو اس کے قصد و ارادے سے صادر ہوتے ہیں ۔
    یعنی ان صریح عبارتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ معجزہ و کرامت پر مخلوق کوایسا اختیار و قدرت حاصل نہیں جیسا کہ دیگر افعال اختیاریہ پر اختیار و قدرت ہوتی ہے یعنی جیسے چاہا جب چاہا اپنے افعال کا صدور کرلیا ۔
    اور عقلی طور پر بھی یہ بات با آسانی سمجھ جاسکتی ہے کہ جب معجزہ وہ ہی فعل ہوتا ہے جس سے ساری مخلوق عاجز آجائے ۔۔۔۔تو پھر ساری مخلوق کی کسی فعل پر عاجزی دلیل ہے اس بات کی کہ وہ فعل سوائے خالق کے اور کسی کا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔تو پھر خالق کے فعل پر مخلوق کا اختیار و قدرت کیسے ممکن ہوسکتا ہے ؟؟؟
    لہذا جب کوئی مخلوق کے ہاتھوں پر کوئی معجزہ یا کرامت صادر ہوتے دیکھ کر اپنے قیاس سے یہ گمان کرتا ہے کہ فلاں نبی یا ولی کو معجزہ یا کرامت پرہر طرح سے اختیار و قدرت حاصل ہوگئی ہے ۔۔۔۔تو کیا ایسا گمان رکھنامخلوق کے لئے خدائی اختیارات عطاءہونے کا عقیدہ نہیں بن جائے گا؟؟؟
    یعنی مخلوق کو خدائی افعال پر اختیار و قدرت حاصل ہوگئی ؟؟؟( یہی کچھ مشرکین و نصاریٰ نے بھی گمان کیا جس کے باعث وہ گمراہ ہوئے)

    یہاں ایک اہم نکتہ ذہن نشین فرمالیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے برگذیدہ بندوں کو بعض معجزات و کرامات ایسی بھی عطاءفرمائی ہیں جوبظاہر اُن کے اختیار وقدرت کے تحت داخل تھے ۔۔۔۔جیسے اللہ رب العزت نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ہوا تابع فرمادی ۔۔۔۔۔یا جیسے بعض اولیاءکرام کی کرامات ایسی مشہور ہیں جیسے پانی پر چلنا وغیرہ ۔۔۔توایسے معجزات و کرامات اس بحث سے خارج ہیں ۔۔۔کیوں کہ یہ خاص معجزات و کرامات میں سے ہیں جن کے متعلق بھی علماءکرام نے تصریحات فرمائی ہیں کہ ایسے معجزات و کرامات میں بھی جو نفس حرکت (یعنی ہوا میں اڑنے یا پانی پر چلنے کی حرکت) ہے وہ معجزہ ہے جو داخل قدرة العباد نہیں(یہ ایک طویل دقیق علمی بحث ہے اس لئے ہم نے اپنے موضوع کی مناسبت سے مختصرا وضاحت پیش کی)۔۔۔۔ جبکہ ہمارا پیش کردہ نکتہ یہاں صرف اتنا ہے کہ ”معجزات و کرامات “ پر مخلوق کو ایسا اختیار و قدرت حاصل نہیں کہ کسی بھی طرح کا معجزہ و کرامت ۔۔۔جب چاہا۔۔۔ جوچاہا ۔۔۔۔جیسے چاہا۔۔۔۔ ظاہر فرمادیا ۔
    یہاں ایک نکتہ یہ بھی پیش نظر رکھیے کہ عموما ایسے عقائد رکھنے والے مسلمان بھائی کہتے ہیں کہ مشرکین و نصاری ٰ اپنے معبودوں کے لئے ذاتی اختیارات کا عقیدہ رکھتے تھے جو دراصل گمراہی ہے ۔۔۔۔جبکہ ہم لوگ نیک بندوں کے متعلق ”ذاتی “اختیارات کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ ”عطائی“ کا عقیدہ رکھتے ہیں ؟؟؟
    حالانکہ اوپر حوالاجات میں یہ چیز باآسانی دیکھی جاسکتی ہے کہ مشرکین و نصاری بھی اپنے معبودوں کے متعلق ”عطاء“ کا ہی عقیدہ رکھتے تھے :
    حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
    ”ان اللہ ھو السید وھو المدبر لکنہ قد یخلع علیٰ بعض عبیدہ لباس الشرف والتالہ ویجعلہ متصرفا فی بعض الامور الخالصة ویقبل شفاعتہ فی عبادہ بمنزلة ملک الملوک یبعث علیٰ کل قطرویقلدہ تدبیرتلک المملکة فیما عداامور العظام الخ (حجةاللہ البالغہ ص 61)
    ”یعنی(مشرکین کہتے تھے کہ) آقا تو خدا تعالیٰ ہی ہے اور وہی مدبر بھی ہے لیکن وہ کبھی اپنے بعض بندوں کو بزرگی اور الوہیت کا لباس پہنادیتا ہے اور ان کو بعض کاموں میں تصرف کرنے کا حق دے دیتا ہے اور ان کی اپنے بندوں کے حق میں شفاعت قبول کرلیتا ہے جیسے شہنشاہ بڑے کاموں کے علاوہ خاص خاص صوبوں میں اپنے نائب مقرر کرتا ہے اور ان خاص صوبوں کے کچھ اختیارات ان کے سپرد کردیتا ہے“
    یعنی مشرکین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ ان نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ نے اختیارات عطاءفرمائے ہیں ۔
    اور دوسری طرف انجیل میں بھی ہے کہ :
    ”میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا “(انجیل متی ،باب 11 ،آیت 27)
    ”یسوع نے پاس آکر اُن سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اورزمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے“(انجیل متی ،باب 28 ،آیت 19)
    یعنی نصرانیوں کا بھی یہی موقف سامنے آتا ہے کہ وہ بھی ”عطائی“ کے قائل ہیں ۔
    لیکن کیوں کہ مشرکین و نصاری مکرم ہستیوں کو” عطاء“ کئے جانے والے چند معجزات و کرامات کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرلیتے تھے کہ ان مکرم ہستیوں کومافوق الاسباب امور پر اختیارات و قدرت مل گئی ہے ۔۔۔۔لہذابزرگان دین نے ”خوارق عادات امور پر اختیارات و قدرت رکھنے“ کے عقیدے کو ”الوہیت کی خلعت عطاء“ سے تعبیر فرمایا ۔
    یہی چیز نہ سمجھنے کے سبب مشرکین و نصاریٰ گمراہ ہوئے ،،،،،یعنی ان لوگوں نے مکرم ہستیوں کے ہاتھوں ایسے خوارق عادات امور صادر ہوتے دیکھ کر یہ گمان کرلیا کہ یہ افعال اُ ن کے ذاتی افعال ہیں ،،،، اور اللہ تعالیٰ نے ان مکرم ہستیوں کی عبادت ریاضت سے راضی ہوکر ان ہستیوں کو خوارق عادات افعال پر اختیار و قدرت عطاء کردی ہے ،،،،، اور اب یہ مکرم ہستیاں جب چاہیں جیسے چاہیں ایسے افعال کا صدور کرسکتی ہیں ،،،، لہذا ان کو دور نزدیک سے حاضر غائب پکارنا بھی جائز ،،،،کیوں کہ یہ ہستیاں خوارق عادات طور پر ہر طرح سے ،ہر وقت اور ہرجگہ سے ان کی پکار سن سکتی ہیں ، اور ہر وقت ہر لمحہ ان کے حال سے باخبر ہیں ،،،،، اسی طرح ان ہستیوں سے ہر طرح کی مدد مانگنا بھی درست ہے ،،،،،کیوں کہ یہ ہستیاں ہر طرح کی مافوق الاسباب مدد اختیار و قدرت رکھتی ہیں۔
    اور اس ے علاوہ مشرکین و نصاریٰ کے کون سے عقائد ہیں کہ جن کا قرآن کریم میں متعدد مقامات پر واضح رد کیا گیا ہے؟؟؟
    کہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کے ساتھ "باذن اللہ"کہہ کر نصرانیوں کے گمان کی تردید کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات اُن کے قدرت اور اختیار میں نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں مخلوق کو نفع نقصان کا مالک نہ بتا کر تردید کی گئی۔۔۔۔۔۔۔ تو کہیں مخلوق کو بے اختیار کہہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ کہیں پکارنے سے منع کرکے ۔۔۔۔۔۔ حتی کہ یہاں تک فرمادیا :
    قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ الفتح 11
    ترجمہ :کہہ دو کہ اگر خدا تم (لوگوں) کو نقصان پہنچانا چاہے یا تمہیں فائدہ پہنچانے کا ارادہ فرمائے تو کون ہے جو اس کے سامنے تمہارے لئے کسی بات کا کچھ اختیار رکھے
    قرآن کریم میں یہ مضامین اتنی بار دہرائے گئے ہیں کہ جس کے بعد وہ ہی نہ سمجھے تو نہ سمجھے جو سمجھنا نہ چاہے ،،،،،ورنہ تو سمجھنے والے کے لئے یہ مضامین بہت آسان ہیں۔
    اللہ تعالیٰ سمجھنے کی تو فیق عطاء فرمائے۔آمین
    ۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
     
  6. ناصر نعمان
    آف لائن

    ناصر نعمان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2011
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں