1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسیلمۂ کذاب

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏21 مئی 2013۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    تاریخ میں سب سے زیادہ جھوٹا اور بدنام ’’نبی‘‘ مسیلمہ تھا۔ کذاب جس کے نام کا جزو ِلاینفک بنا اور وہ ’’مسیلمہ کذاب‘‘ مشہور ہوا۔ یہ دروغ گو بنو حنیفہ کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ شخص نبیؐ کی نبوت کا مُنکر نہیں تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اسے حضورؐ کے ساتھ شریک نبوت‘‘ بنایا گیا ہے۔ اس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپؐ کو لکھا تھا، اس کے الفاظ یہ ہیں:۔ ’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف۔ آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوکہ میں آپؐ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔‘‘ قرونِ اولیٰ کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بنو حنیفہ کے حق میں اس فتنہ کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب مسیلمہ کا یہ بہتان تھا کہ ’’محمد رسول عربی نے اسے اپنی رسالت میں شریک کرلیا ہے۔‘‘ بعض لوگوں نے حضور اکرمؐ کا نام سن کر مسیلمہ کی کذاب بیانی کو حقیقت سمجھ لیا اور دھوکے میں آگئے۔ مسیلمہ کا سب سے زیادہ طرفدار ’’نہار‘‘ تھا جس کا شمار بنو حنیفہ کے شرفا میں ہوتا تھا۔ اس شخص نے حضور خاتم المرسلینؐ کے درسِ تبلیغ سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی تھی۔ حضورؐ نے اسے فرمایا کہ ’’تم اپنے وطن یمامہ جاکر جھوٹی تبلیغ کرو۔‘‘ یہ بدبخت مدینہ طیبہ سے واپس آکر مسیلمہ سے مل گیا۔ اور علی الاعلان یہ شہادت دی کہ ’’میں نے خود حضورؐ سے سنا ہے کہ مسیلمہ میرا شریک ہے۔‘‘ نہار اصل میں مسیلمہ کا دلال تھا اور اس کی جھوٹی نبوت کا حصہ دار بھی… مگر بنو حنیفہ کے لوگ حقیقت سے ناواقف تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ مسیلمہ کے بہکاوے میں آگئے۔ اس وقت حضور سرکار الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے جا چکے تھے۔ اس لیے حضرت صدیق اکبرؓ نے مسیلمہ کی سرکوبی کا حکم فرمایا۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی جھوٹی نبوت کا کاروبار برقرار رکھنے کے لیے مقابلے کی خوب تیاری کی اور عکرمہؓ بن ابی جہل کی قیادت میں آنے والے لشکر کا بڑی مکاری اور عیاری سے مقابلہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دوسری بار شرجیل بن حسنہ کی امارت میں کچھ اور فوج بھیجی تاکہ عکرمہؓ بن ابی جہل کو کمک مل سکے، مگر مسلمانوں کے مقدر میں ابھی کامیابی نہ تھی۔ مسیلمہ کذاب کے لشکر میں چالیس ہزار جنگ آزمودہ سپاہی تھے۔ ان کے سامنے صحابہ کرامؓ کے چھوٹے موٹے لشکر کا بے سروسمانی کے عالم میں مقابلہ کرنا خاصا مشکل تھا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اس صورت حال کا علم ہوا، تو آپ نے ایک بڑا لشکر خالدؓ بن ولید کی کمان میں مسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کیلئے روانہ کیا اس فوج میں حضرت صدیق اکبرؓ کے لختِ جگر عبدالرحمن ؓ بن ابی بکرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے فرزند عبداللہؓ بن عمرؓ کے برادر زیدؓ بن الخطاب بھی شامل تھے۔ مسلیمہ کذاب کو خالد بن ولیدؓ کی آمد کی اطلاع ملی۔ تو اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ عقرباً کے محاذ پر آگے پہنچ کر اسلامی جرنیلوں کے اس لشکر جرار کو روک لیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ عقربا کے میدان میں نبوت صادقہ اور نبوت کافریہ کے پیروکاروں کا مقابلہ ہوا۔ مرتدین سے اب تک جس قدر معرکے پیش آئے تھے، ان میں مسیلمہ کذاب کا یہ معرکہ سب میں سخت اور قوت اور شوکت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ جھوٹے نبی کی چالیس ہزار فوج کے مقابلے پر منہاج صداقت پر فائز خاتم الانبیاء کے شیدائیوں کی تعداد صرف دس ہزار تھی۔ میدان جنگ میں مسیلمہ کی طرف سے نہار پہلا شخص تھا جو تلوار لہراتا ہوا نکلا حضرت زید ؓبن الخطاب ؓنے ایک ہی وار سے اس کا سر قلم کردیا۔ پھر مسیلمہ کی نبوت کا دوسرا حصہ دار سردار محکم بن طفیل، حضرت عبدالرحمنؓ بن ابی بکرؓ کے مقابلے پر آیا اور ان کے ایک ہی تیر قضا سے تڑپ کر رہ گیا۔ مرتدین یہ منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اور شمعِ رسالت کے پردانوں کے سامنے ٹھہر نہ سکے، اور الٹے پائوں بھاگ کھڑے ہوئے۔ خالدؓ بن ولید کی فوج انہیں مارتے ہوئے حدیقہ تک لے گئی۔ یہ مقام چار دیواری سے محصور تھا، جسے یہ مرتد ’’حدیقۃ الرحمن‘‘ کہتے تھے۔ مسیلمہ نے اپنی جھوٹ نبوت کا خیمہ اسی باغ میں لگارکھا تھا۔ اس نے جب فوج کو اس طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو اپنی بنائی ہوئی جنت کا دروازہ کھول دیا۔ اور جب اس کی بچی کھچی فوج اس میں داخل ہوگئی تو مسیلمہ نے اس کا دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ بپھرے ہوئے فرزندانِ توحید یہاں پہنچ کر رُک گئے۔ ان کی تلواریں مرتدین کے خون میں نہانے کو بے قرار تھیں۔ حضرت براءؓبن مالک صحابہؓ سے مخاطب ہوئے:۔ ’’ساتھیوں، مجھے اٹھا کر صدیقہ میں پھینک دو‘‘ مسلمانوں نے کہا ’’ہم ایسا ہرگز نہ کریں گے‘‘ براءؓ بن مالک کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ انہوں نے پھر دہائی دی ’’ میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ مجھ کو اندر پھینک دو، وگرنہ میری موت واقع ہوجائے گی۔‘‘ یہ کیفیت دیکھ کر انہیں اٹھا کر دیوار تک پہنچا دیا گیا۔ براءؓ بن مالک اندر کودے تھوڑی دیر تک تنہا دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے اور پھر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلتے ہی خالدؓ بن ولید کا لشکر اندر آگیا اور اس نے ’’جھوٹے نبی‘‘ کی فوج کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ مسیلمہ کی مدد کو کوئی خدائی فوج آئی اور نہ ہی وحی۔ وہ خود بھی اس لڑائی میں مارا گیا اور اس کے شہر کے لوگوں نے باری باری اس کی لاش پر تھوکا۔ مسیلمہ کذاب کو واصل جہنم کرنے کی سعادت حضرت وحشیؓ کو نصیب ہوئی۔ جن کے نیزے کا نشانہ خطا نہ گیا۔ مسیلمہ تڑپ کر گرا۔ عبداللہؓ بن زید نے اس موقع پر آگے بڑھ کر تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ عبداللہ ؓ بن زید کا اس بارے میں ایک شعر ہے یسائلنی الناس عن قتلہ فقلت ضربت و ہذاطعن ’’لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ مسیلمہ کو کس نے مارا تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں نے تلوار ماری اور وحشی نے نیزہ مارا۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہ وحشیؓ وہی تھے، جنہوں نے جنگ اُحد میں حضرت حمزہؓ کو اپنے نیزے سے شہید کیا تھا۔ آپ کہا کرتے تھے: ’’اگر میں نے زمانہ جاہلیت میں اس نیزے سے ایک بہترین انسان (حضرت حمزہؓ) کو مارا ہے، تو زمانہ اسلام میں اسی نیزے سے ایک بدترین انسان اور مدعی نبوت (مسیلمہ کذاب) کو قتل کیا ہے۔‘‘ مسیلمہ کذاب کے ساتھ جنگ میں چھ سو ساٹھ مسلمان شہید ہوئے۔ اور ابن خلدون کے اندازے کے مطابق مسیلمہ کذاب کے سترہ ہزار آدمی مارے گئے۔ بقول طبری ’’بنو حنیفہ‘‘ کے سات ہزار افراد عقربا میں اور سات ہزار حدیقہ میں مارے گئے۔ اور حدیقۃ الرحمن، ’’حدیقۃ الموت‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جرم کی بناء پر ان سے جنگ کی تھی وہ ’’بغاوت کا جرم‘‘ نہ تھا بلکہ جرم یہ تھا کہ ایک شخص نے محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا ۔
    (’’ایم۔ایس۔ناز کے مقالہ خصوصی سے انتخاب)
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1509 حدیث مرفوع مکررات 11 متفق علیہ 9
    سعید بن محمد جرمی، یعقوب بن ابراہیم ان کے والد، صالح، ابن عبیدہ بن نشیط، عبداللہ، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ مسیلمہ کذاب مدینہ آیا ہے اور دختر حارث کے مکان میں ٹھہرا ہے اس کے نکاح میں ام عبداللہ بن عامر، حارث بن کریز کی لڑکی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثابت بن قیس بن شماس جنہیں خطیب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ہے تھا ساتھ لئے ہوئے مسیلمہ کے پاس پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک ٹہنی تھی آپ نے رک کر اس سے گفتگو کی تو مسیلمہ نے کہا اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو آپ ہمارے اور حکومت کے درمیان حائل نہ ہوں پھر اسے اپنے بعد ہمارے لئے کردیجئے تو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ ٹہنی بھی مانگے گا تو میں تجھے نہ دوں گا اور میں تو تجھے ویسے ہی دیکھ رہا ہوں جیسے میں نے خواب میں دیکھا ہے اور یہ ثابت بن قیس ہیں میری طرف سے تجھے جواب دیں گے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ خواب کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے ہیں میں گھبرا گیا اور وہ مجھے برے معلوم ہوئے تو مجھے حکم ہوا تو میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے میں نے اس کی تعبیر دو کذابوں سے کی جو نکلیں گے عبیداللہ نے کہا کہ ایک ان میں سے عنسی تھا جسے فیروز نے یمن میں قتل کردیا تھا اور دوسرا مسیلمہ کذاب تھا۔
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. "ابوبکر"
    آف لائن

    "ابوبکر" ممبر

    شمولیت:
    ‏19 نومبر 2011
    پیغامات:
    178
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جھوٹے مدعیان نبوت کی سرکوبی : دور صدیقی ؓکا عظیم کارنامہ
    فتح مکہ 8 ھ کے بعد مختلف قبائل نے کثرت سے اپنے وفود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجے اور بڑی تیزی سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ،چنانچہ اسی وجہ سے 9 ھ کو سنۃ الوفود کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کے دور حیات کے آخری حصے میں دو بدباطن افراد مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے عقیدۂ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا ۔ اسی دوران آپ ﷺ پر مرض الموت طاری ہوا ۔ اسی بیماری کے اثنا میں آپ ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں میں کنگن ہیں ۔ آپ ﷺ کو اس سے نفرت سی محسوس ہوئی ، آپ ﷺ نے ان پر پھونک ماری جس سے وہ دونوں اُڑ گئے ،اس کی تعبیر آپ ﷺنے یہ بتائی کہ ان کنگنوں سے یہ دونوں جھوٹے مدعیان نبوت ( مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی ) مراد ہیں اور دونوں عنقریب میرے ہی جانثاروں کے ہاتھوں انجام بد تک پہنچیں گے ( بعد میں یہ پیشن گوئی اسی طرح حرف بہ حرف صادق ہو ئی) ۔​
    ” اسود عنسی “ یمن کا باشندہ تھا ۔ شعبدہ بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔ اس کا لقب ذوالحمار ( گدھے والا ) بھی بتایا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس ایک سدھایاہوا گدھا تھا، یہ جب اس کو کہتا کہ خدا کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ کرتا، بیٹھنے کو کہتا تو وہ بیٹھ جاتا ، کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑا ہوجا تا ۔ اس شعبدے بازی کی وجہ سے وہ لوگوں کو بے وقوف بناتا تھا کہ دیکھو ! ایک بے زبان جانوربھی میری تابعداری کرتا ہے ۔ اسی شعبدہ بازی کی وجہ سے لوگ اس سے متاثر ہوئے اور اس کو بہت جلد کامیابی حاصل ہوئی ۔ چند دن میں اس نے ہر طرف آتشِ فسادمشتعل کردیا ۔ اس کی موت حضور ﷺ کی حیات میں ہی ہوئی اور اس کو نبی ﷺ کے ایک جانثار صحابی حضرت فیروز رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ۔​
    دوسرا مدعئی نبوت مسیلمہ کذاب تھا ۔ اسود عنسی کی کامیابی وپذیرائی دےکھ کر اس کو بھی جرأت ہوئی اور نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہا : ” مجھے محمد (ﷺ )نے شریکِ رسالت کرلیا ہے ۔ اس کی خود ساختہ نبوت کافتنہ کافی عرصہ تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا ۔ جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہوچکی تھی ۔ 10 ہجری کے آخر میں اس نے ایک خط آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ،جس کے الفاظ کچھ یوں تھے : ” مسیلمہ رسول ( نعوذباللہ ) کی طرف سے محمد رسول (ﷺ) کی طرف ،میں رسالت میں تمہارا شریک کیا گیا ہوں ۔آدھی زمین ہماری ہے اور آدھی قریش کی ، مگر قریش ایسی قوم ہے جو ظلم کرتی ہے “۔ جس کا جواب آپ ﷺ نے ان الفاظ میں دیا ” شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ محمد رسول اللہ (ﷺ)کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام ۔ بعد حمد سلا م ہو اس پر جو راہ راست کی پیروی کرے ۔ پھر یہ تحقیق ہے کہ ساری زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے بخش دےتا ہے اور عاقبت پرہیزگاروں کے حصے میں ہے “۔​
    آنحضرت ﷺ کی حیات میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا ،مگر آپ ﷺ کے وفات پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے اپنے پر پوری طرح کھول دیئے ۔ لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کےلئے دین اسلام میں بہت سی ایسی تبدیلیاں کیں جو لوگوں کی نفسانی خواہشات کے عین مطابق تھیں تاکہ عوام کی اکثریت اس کی خانہ ساز نبوت پر ایمان لے آئے ۔ چنانچہ اس نے شراب حلال کردی ،زنا کو مباح کردیا ، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنے کو حرام کردیا ، ماہ رمضان کے روزے ختم کردیئے ،تمام سنتیں ،نوافل وغیرہ ختم کردیں ، صرف فرض نماز باقی رکھی ۔​
    مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھ کردوسرے مزید بد باطن لوگوں کوبھی دعویٰ نبوت کی جرات ہوئی جس میں طلیحہ اسدی بھی تھا ۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فراست ایمانی سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگا لیا تھا ۔ چنانچہ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا ۔ طلیحہ اسدی کے ساتھ قبیلۂ طئے کا بڑا مجمع بھی تھا ، اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جو قبیلہ طئے ہی سے تعلق رکھتے تھے ،کو اول اپنے قبیلے کی طرف روانہ کیا کہ ان کو سمجھا کر تباہی سے بچائیں ۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں انہوں نے جھوٹے نبی کی حمایت ترک کرکے خلیفۂ اسلام کی اطاعت قبول کی ۔ اس طرح یہ مہم بغیر خون ریزی کے طے ہوگئی ۔ اسی طرح حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے قبیلۂ جدیلہ نے بھی اطاعت قبول کرلی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب طلیحہ اسدی کی سرکوبی کےلئے لشکر لے کر آگے بڑھے تو ان کے ساتھ قبیلۂ طئے کے ایک ہزار سوار بھی نصرت اسلام کےلئے کمر بستہ تھے ۔ طلیحہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں شکست کھائی اور ایک طرف بھاگ گیا ،وہاں پہنچ کر دوبارہ اسلام لایا ۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کےلئے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیئے تھے ، اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابو جہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کےلئے یمامہ کی طرف روانہ کیا اور ان کی مدد کےلئے حضرت شرحبیل رضی اللہ عنہ بن حسنہ کو کچھ فوج کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ کردیا تھا اور عکرمہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جب تک دوسرا لشکر آپ تک نہ پہنچے حملہ نہ کرنا ،شرحبیل رضی اللہ عنہ کی آمد سے پہلے ہی حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو شکست ہوئی اور پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوجب ان کی شکست کی خبر ملی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ( جوکہ بنی طئے کی مہم سے فارغ ہوچکے تھے ) مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراءہونے کا حکم دیا پور ایک لشکر ان کےلئے ترتیب دیا جس میں مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ ( فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بھائی ) اور انصار پر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا ۔ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13 ہزار نفوس پر مشتمل تھا ۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقر با نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا ۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، جن میں ثابت بن قیس ،حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں ۔​
    مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا ۔ آخر کار اپنے خاص دستے کو لے کر میدان میں کود پڑا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے ، جو اب مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا ۔ قریب ہی ایک انصاری صحابی کھڑے تھے ، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا ۔ اس سے مسلمانوں کا جذبہ اور بلند ہوگیا اور انہوں نے پورے زور سے دوسرا حملہ کیا یہاں تک کہ مسیلمہ کے چالیس ہزار کے لشکر جرار میں سے تقریباً 21 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتاردئے گئے ۔​
    منکر کے لئے نارِ جہنم ہے مناسب
    جو آپﷺ سے جلتا ہے وہ جل جائے تو اچھا

    مسلمانوں میں سے صرف 660 آدمی شہید ہوئے ۔مسیلمہ کذاب کی موت کے بعد اس کا قبیلہ بنی حنیفہ صدق دل سے دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ ) جھوٹے مدعےان نبوت کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی ۔​
    آج کے دور میں جبکہ حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششیں عروج پر ہیں ۔ اسی جذبہءصدیقی رضی اللہ عنہ کی ضرورت ہے ۔ اگر مسلمانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والی ایمانی غیرت باقی ہوتی تو نہ کسی کو ایسا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی ملکہ برطانیہ کو دور حاضر کے شیطان اعظم (سلمان رشدی)کو سر کا خطاب دینے کی ہمت ہوتی ۔اور نہ ہی مختلف عیسائی اور یہودی لابیوں کو ذرائع ابلاغ پر حضور اکرم ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع اور نشر کرنے کی جرأت ہوتی ۔ اگر آج یہ سب کچھ ہورہا ہے اور حضور اکرم ﷺ ،صحابہ کرام وازواج مطہرات رضی اللہ عنہم وعنہن کی عزت وناموس محفوظ نہیں تو مجرم ہم بھی ہیں ۔ یہ ہماری غیر ضروری مصلحت کوشی اور نام نہاد معاملہ فہمی ہے ،جس نے کفار کو اس قدر دلیر کردیا ہے ۔ آج دنیا بھر کا کفر ہمیں للکار رہا ہے​
    کاش !ہم اپنی ایمانی قوت وجرأت سے کفار کو بتاسکیں کہ ہم میں آج بھی صدیقی روح اور اسلاف کی جرأت موجود ہے ، ہم راکھ سہی مگر راکھ دبی چنگاریاں اب بھی باقی ہیں جو حشر برپا کرسکتی ہیں​
    بشکریہ: سہ ماہی مجلہ ندائے حرمین​
    بتلادو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے
    دین پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
    بےشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ نبوت میں کوئی شریک
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے اور نبوت کا دعوی کرنے والا ہر شخص جھوٹا و لعنتی ہے
    لعنتہ اللہ علی الکذبین
     
    احتشام محمود صدیقی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں