1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسلمان حکمرانوں کی ناکامی کے اسباب

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏5 جنوری 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مسلمان حکمرانوں کی ناکامی کے اسب

    اکثر ہم لوگ اپنے حکمرانوں کی غیردوستی، بددیانتی حتی کہ غداری کا تذکرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص صدام حسین کی پھانسی کے بعد تو یہ موضوع پہلے سے زیادہ زیر بحث ہے۔ ایک لڑی پر اسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے اپنی ناقص رائے پیش کی ۔ جو ذیل میں اس سنجیدہ چوپال پر بھی عرض کر رہا ہوں۔ بلاشبہ باقی احباب کو بھی اپنی رائے دینے کا پورا پورا اختیار ہے۔ آئیے اور اپنے روشن مستقبل کی خاطر کچھ مثبت گفتگو کریں۔
    امت مسلمہ کے حکمرانوں کی ناکامی میں میرے خیال میں 2 بنیادی وجوہات ہیں۔۔۔

    نمبر 1۔۔۔ ایمان کی کمی
    ہمارے مسلمان حکمرانوں کے اندر ایمان کی ازحد کمی ہوتی ہے۔ انکا ایمان اللہ تعالی کی ذات کے علی کُلّ شئ قدیر ہونے پر نہیں ہوتا بلکہ سمجھتے ہیں کہ انکے اقتدار کی طوالت کا انحصار امریکہ کی خوشنودی پر ہے۔ اور اسی چکر میں وہ اسکی غلامی کا دم بھرتے جاتے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے جاتے ہیں اور امریکہ کی خوشنودی میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

    نمبر 2۔۔۔۔ ہوسِ جاہ و حشمت
    ہمارے حکمرانوں کے اندر جاہ پرستی انتہا درجے کی ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر جو حکومت میں آجاتا ہے پھر اسکے بعد وہ سیدھا قبر میں ہی جاتا ہے۔ اسکے علاوہ کوئی اور جگہ اسے پسند نہیں آتی۔ آپ عربوں سے لے کر پاکستان تک ایک ایک ملک کو دیکھ لیں۔ میرا خیال ہے شاید ایک دو ملکوں کے استثناء کے ساتھ ہر ملک میں خاندانی سیاست ، ملوکیت، شہنشاہیت، جاگیرداریت، سرماداریت یا آمریت کا دور دورہ نظر آئے۔ حتی کہ مسلمان دنیا کا مرکز سعودی عرب بھی بدقسمتی سے خاندانی شہنشاہیت کا شکار نظر آتا ہے ۔ جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ دنیا کا کوئی اور جمہوری نظام۔
    تو جب حکمرانوں کے اندر جاہ پرستی آتی ہے تو وہ اقتدار میں رہنے کے لیے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر جائز نا جائز کر گذرتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلامی دنیا روز بروز ذلت و پستی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔
    اور اسلام دشمن طاقتیں اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان حکمرانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

    غیر مسلموں کی چند مثالیں۔

    اسکے برعکس غیر اسلامی ملکوں میں حکومت کو کم و بیش ایک خدمت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ سرکاری خدمت کے طور پر۔ بلاشبہ ہر کوئی دولت کمانا چاہتا ہے اور تھوڑی بہت ڈنڈی وہ بھی مارتے ہوں گے۔ لیکن قانون کی پابندی ضرور کی جاتی ہے۔

    کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا کے عظیم طاقت امریکہ کا دوبار منتخب شدہ صدر بل کلنٹن جب وہائٹ ہاؤس سے نکلا تو واشنگٹن میں ایک فلیٹ تلاش کرتا نظر آرہا تھا۔ اس نے کبھی اسکے بعد سیاسی جوڑتوڑ میں براہِ راست حصہ نہیں لیا۔ نہ ہی بش حکومت کو ناکام کرنے کے لیے جلسے جلوس نکالے۔
    جرمنی کا چانسلر گیرہارڈ شروڈر موجودہ لیڈی چانسلر انجیلا مارکل سے صرف ایک ووٹ سے ہارا۔ اگر چاہتا تو جوڑ توڑ کر کے کسی چھوٹی پارٹی کو ساتھ ملا کر ایک دو ووٹ کا اضافے سے وہ دوبارہ چانسلر بن سکتا تھا۔ لیکن اس نے سیاست سے ریٹائرمنٹ لی اور جب صحافیوں نے پوچھا کہ آئندہ کیا ارادے ہیں تو بولا “ میں قانون دان ہوں، فی الحال تو آرام کروں گا۔ بعد میں اگر دل چاہا تو قانون کی پریکٹس شروع کر دوں گا“
    آسٹریا کا سابق وزیراعظم وکٹرکلیما 5 سال حکومت کرنے کے بعد جب اگلے الیکشن میں نسبتاً کم اکثریت ملی حالانکہ کسی جماعت سے اتحاد کر کے وہ پھر بھی وزیراعظم بن سکتا تھا۔ لیکن اس نے سیاست ہی چھوڑ دی ۔ مشہور زمانہ آٹو کمپنی VolksWagonمیں جاب کی درخواست دی ۔ اور انکی یوگنڈا برانچ کا ڈائریکٹر بن کر آجکل یوگنڈا میں جاب کر رہا ہے۔
    انگلینڈ کے سابق وزرائے اعظم جان میجر، مارگریٹ تھیچر وغیرہ کے بارے میں کبھی سنا کہ وہ پھر سیاست میں جوڑ توڑ کر کے ٹونی بلیئر یا کسی اور کو فیل کرنے کے چکر میں ہیں ؟؟؟ نہیں ۔ کبھی اخباروں میں انکانام بھی شاید سننے میں نہ آئے۔

    اور ایک ہمارے مسلمان (چند ایک نیک لوگوں کے استثناء کے ساتھ) اُلو کے پٹھے حکمران ہیں کہ عمر گذر گئی۔ لوٹ مار کرتے۔ اتنی دولت لوٹ کی 7 نسلیں بھی آئندہ کھاتی رہیں تو کم نہ ہو۔ لیکن کرسی کے لیے آج بھی کتوں کی طرح امریکہ میں دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔

    ہماری ذمہ داریاں

    اس سارے گھن چکر میں ہم عام مسلمان بھی کسی طور بری الذمہ نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہم بھی اس جرم میں اگر زیادہ نہیں تو 50 فیصد ذمہ دار ضرور ہیں۔ ہم ایسے خودغرض اور مفاد پرست حکمرانوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔ انہی کے جلسوں میں بھی جاتے ہیں اور انہی کو ووٹ بھی دے آتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ کہیں ہم بھی دوغلے پن کا شکار تو نہیں ہیں ؟
    کیا کل قیامت کے دن ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی پر گرفت صرف حکمرانوں کی ہوگی یا ہر ووٹ ڈالنے والا اور ہر نعرہ لگانے والا بھی اس دائرے میں آئے گا؟
    ذرا اکیلے بیٹھ کر سوچیے کہ کل قیامت کے دن باقی سارے معاملات ایک طرف اور اللہ تعالی نے صرف یہی پوچھ لیا کہ۔۔۔
    “ دنیا میں تمہارے پاس انتخاب کا حق تھا، ووٹ کا اختیار تھا۔ ایک شیطانی طاقتوں کا نمائندہ تھا۔ اور اسکے مقابلے میں فلاں نیک آدمی میرا نام بلند کرنے لیے، میرے محبوب مصطفی:saw: کا نظام بپا کرنے کے لیے ووٹ مانگ رہا تھا۔ تم نے اپنے ووٹ کی طاقت سے کسے مضبوط کیا تھا؟ شیطانی قوتوں کے نمائندے کو یا میری راہ کی طرف بلانے والے کو ؟؟“

    کیا ہمارے پاس اس دن کوئی جواب ہو گا؟ اگر ہوگا تو کیا ؟ اور اسکا کیا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑے گا ؟؟

    ملت اسلامیہ کا مقدر بدلنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا۔ ‌‌جس دن ہم بحثیت قوم خود کو بدلنے پر تیار ہو گئے۔ سمجھیں اسی دن سے ہم بحالیء عظمت کی راہ پر چل پڑے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں