1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسلمانوں کے زوال کے اسباب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ذوالقرنین کاش, ‏19 مئی 2008۔

  1. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    مسلمانوں کے زوال کے اسباب ( ایک تجزیہ )

    تمہید
    گذشتہ کئی مہینوں سے اسلام اور عصرِ حاضر کے حوالے سے کئی مباحث کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مختلف موضوعات ہیں ۔ جہاں بحث در بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ میں نے اس دھاگے پر کوشش کی ہے کہ ان تمام موضوعات پر بحث کا احاطہ کرسکوں ۔ جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں ۔ مختلف موضاعات ، خدشات اور اعتراضات کو میں نے اپنے تجزیئے کی شکل میں اس دھاگے میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عملی طور پر یہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنقیدی تقابلہ ہے کہ گذشتہ چار ، پانچ سو سال میں ہم اور مغرب نے کیسے ، کیا اور کہاں تک سفر کیا ۔ یہاں میرے اس تجزیئے سے کسی کامتفق ہونا مقصود نہیں ہے ۔ میں نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ میں یہ واضع کروں‌کہ گذشتہ پانچ سو سالوں سے ہم کس نقطے پر جامد ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میری کوشش تھی کہ یہ تجزیہ میں ایک ہی نشت میں تحریر کروں مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں لگ رہا ۔ لہذا اس موضوع پر یہ پہلا حصہ ملاحظہ فرمائیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں ۔


    مسلمانوں کی تاریخ میں ایک دور ایسا گذرا ہے ۔ جب دنیا کی سیاسی ، اخلاقی ، سماجی اور تہذیبی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی ۔ لیکن پھر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ یہ سب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ عروج زوال سے آشنا ہوا ۔ اور قیادت مسلمانوں کے گھر سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی ۔ اس دوران ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں ۔ بلکہ انہوں نے اس مسئلہ پر سوچا ، غور کیا اور اس صورتحال کو بدلنے کی بہت سی کوششیں‌ بھی کیں ۔ مگر بدقسمتی سے یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں‌ ہوسکیں ۔ مسلمانوں‌کے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں‌ آسکی ۔ اور آج بھی دنیا کے حالات پر ہم اگر ایک نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمی ، سیاسی ، فکری ہر اعتبار سے پست مقام ہمارے حصے میں آتا ہے ۔
    یہ صورتِ حال کیوں ہے ۔ ؟ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ ؟ یا اس کا تعلق خارجی عوامل اور خارجی طبقات سے ہے ۔ ؟

    اس صورتحال کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے ۔ جب ہم اپنا موازانہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے کرتے ہیں ۔ اور اس زوال میں‌ جو عوامل کارفرما ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کے لیئے ظاہر ہے ہمیں انہی اقوام میں‌ جانا پڑتا ہے ، جو گذشتہ پانچ سو سالوں میں ترقی کی انتہائی درجے پر پہنچیں ۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان عوامل کا جائزہ لینے مغرب میں ہی کیوں جاتے ہیں ۔ مگر کیا کریں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا میں جو نئی قوتیں ابھریں اور جو نئی تبدیلیاں آئیں ۔ وہ انہی لوگوں ، اسی خطے اور اسی دور میں آئیں ہیں ۔

    اگر آپ غور کریں تو ایک بات سامنے یہ آتی ہے کہ یورپ کا نشاۃ ثانیہ اور پھر اس کے بعد یورپ کی Industrial Growth ، سانئس اور ٹیکنالوجی یہ سب چیزیں چار ، پانچ سو سال کی ایک طول تاریخ میں پہ در پہ آئیں ۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کا معاشی نظام بدلا ہے ۔ اور انہی کی بنیاد پر ان کے Superstructure بھی بنے ۔ ان کے ہاں علم و دانش کی جو چیزیں تھیں ۔ ان میں بھی تبدیلیوں نے جگہ بنائی ۔ نئے فلسفے ، نئے شعور ، نئے علم ، سیاست کی نئی بساط ، جہموریت کے ولولے ، یہ تمام چیزیں گذشتہ چار ، پانچ سو سال کی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہی چار ، پانچ سو سال ، ہمارے پیچھے جانے کے ہیں ۔ کیونکہ جو معروضی کیفیت اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہی تھی ، معاشرے کے اندر جو رشتے بدل رہے تھے ، جو نئی تبدیلیاں آرہیں تھیں ۔ ان سب سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا تھا ۔ اب چونکہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا ہم اپنے ماضی میں‌ لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ایسی چیزوں‌کو تلاش کرتے ہیں ۔ جو کبھی ہمارے ماضی کا حصہ تھیں ۔ اور جو اس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتیں ۔ جب تک آپ معروضی کیفیت کا تجزیہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ان کیفیات کا تجزیہ کرنے کے بعد ان ابھرتی ہوئی قوتوں کے ابھار کی بنیادوں کو تلاش نہیں کرتے ۔ اور وہ بنیادیں ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنا لوجی اور علم ۔ اگر ہم ان کے ساتھ رشتہ جوڑ نہیں سکتے تو پھر بیشک آپ اپنے ماضی میں جو چاہیں ، جاکر کرتے رہیں ۔جب مسلمانوں‌کا ابھار ہوا تھا تو اس قسم کی یہ تمام چیزیں اس وقت موجود تھیں ۔ مگر ہم ان کو لیکر ان خطوط پر نہیں سوچ سکے ۔ جو مغرب نے اپنے اس ابھار کے دور میں حاصل کرلیں ۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کی ترقی کے لیئے درکار ہوتیں ہیں ۔

    ( جاری ہے )
     
  2. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    مسلمانوں نے کئی صدیوں سے اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطے پر منجمد کیا ہوا ہے ۔ اور وہ نقطہ یہ ہے کہ ہمارے تمام مسئلوں کا حل ہمارے مذہب میں ہے ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سو سال قبل علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے " ۔ اسے ایک بحث کہہ لیں یا مفروضہ ، جس کی وجہ سے مکالمہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ 16 ویں صدی میں جو Reformation یورپ میں آئی اس کا تعلق ایک فکری آزادی کیساتھ تھا ۔ اس فکری آزادی کا اظہار نہ صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہوا بلکہ فلسفے اور سوچ کے نئے زایوں کے حوالے سے بھی ہوا ۔ پھر یورپ نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ہم آگے کیسے جا سکتے ہیں ۔اور آگے جانے یا بڑھنے کی جو تدابیر تھیں ان میں سیاست ، اکنامکس اور فلسفہ بھی شامل تھا ۔ مذہب جب ان کے سامنے آیا تو انہوں نے چرچ سے علیحدگی کو ترجیح دی ۔ تاکہ ایک نئی سوچ کے لیئے انہیں مکمل طور پر فکری آزادی میسر آئے ۔ اور یہ سوچ تقریباً ڈیڑھ ، دو سو سال تک غالب رہی کہ اگر ہم چرچ سے منسلک رہے تو کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔

    یہاں مذہب کے حوالے سے فلسطین کا ذکر کرنا بہت مناسب ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے درمیان باہمی تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ ہم اپنی سوچوں کا رخ اپنی معاشی حالت کو سدھارنے کی طرف موڑ ہی نہیں سکتے ۔ الفتح اور حماس کے بنیادی Objects عالمی سامراجیت اور فلسطین کے حوالے سے ایک ہی ہیں ۔ مگر باہمی تضادات اتنے ہیں کہ فلسطین کا ایشو انہی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے ۔ یہ کیفیت عالم ِ اسلام میں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ہمارے اپنے تضادات کے گرد گھوم رہا ہے ۔ اب فلسطین کی بات چلی ہے تو اسی کا ذکر کرتے ہیں ۔ اگرفلسطین کے مسئلہ کو ان تضادات کی تہہ میں جاکر دیکھا جائے تو یہ بات باآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ ان لوگوں نے فلسطین کا مسئلہ کیسے اور کس slogan کے تحت اٹھایا تھا ۔
    یعنی فلسطینوں کو اپنی ایک ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اور یہ تمام فلسطینوں کا مطالبہ تھا ۔ فلسطینی جہدوجہد کا آغاز ایک سیکولر جہدوجہد کا آغاز تھا ۔ یہ ایک Right Of Self Determination کا آغاز تھا ۔ اپنی سرزمین کو ارسرِ نو حاصل کرنے کا آغاز تھا ۔ اس میں لیلیٰ خالد تھیں جو ان کے سرکردہ لیڈروں کی اولین فہرست میں شامل تھیں اور وہ عیسائی تھیں ۔ فلسطین کے لیئے پہلی جنگ جو آزادی کے لیئے لڑی گئی اس میں پہلے جو 9 لوگ شہید ہوئے ۔ ان میں دو عرب یہودی تھے ، تین عیسائی تھے اور باقی چار مسلمان تھے ۔ یعنی وہ عرب فلسطینی جہدوجہد ِ آزادی تھی ۔ اس عرب فلسطینی جہدوجہدِ آزادی میں جو رخنے ڈالے گئے ۔ اس میں ایک بڑا رخنہ تو یہ تھا کہ اس کا ایک Muslim Cheractor دیدیا گیا ۔ یہ صرف فلسطینوں‌کے ساتھ نہیں ہوا ۔ بلکہ جب عرب نیشنلزم کی جہدوجہد شروع ہوئی اور اس میں ناصر ایک لیڈر کے طور پر سامنے آئے تو اس کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیئے Muslim Brotherhood کو زبردست طریقے سے استعمال کیا گیا ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ان سب تحریکوں کو بشمول ان تحریکوں کو بھی جن کا سلسلہ افغانستان میں آکر منتج ہوتا ہے ۔ استعماریوں اور سامراجیوں نے زبردست طریقے سے استعمال کیا اور مکمل طور پر ان کی پشت پناہی کی ۔ اور ان تحریکوں میں اخوان بھی شامل ہے ۔ اور یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جو امریکہ کے ایماء پر پیدا ہوئے اور انہی کے مشن کو آگے لیکر جا رہے تھے ۔ لیکن جب امریکیوں کو ان کی ضرورت نہیں پڑی تو اب انہوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا ہے ۔ ( مگر یہ ایک الگ قصہ ہے ) ۔ لیکن جو یہ کشکمش تھی جس میں‌ لوگ خود کو مبتلا کر رہے تھے ۔ وہ ایک آزاد ریاست کو حاصل کرنے کی تھی ۔ یعنی ایک آزاد مشرقِ وسطیٰ کو بنانے کی جہدوجہد تھی ۔ اس زمین کی Resources پر اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش تھی ۔ اور یہ عربوں کی جہدوجہد تھی ۔ لیکن ہم نے اس کو مسلمانوں کی جہدوجہد بنادیا ۔ یہ تو ہوگیا کہ حماس ایک Militant طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا ۔ لیکن حقیقت یہ رہی کہ وہ ساری جہدوجہد سبوتاژ ہوگئی ۔ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اصل تحریک پس منظر میں چلی گئی ۔ فلسطین کے اس مسئلے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس جہدوجہد میں مذہبی Fector کو شامل کرنا سامراجی ایجنڈا تھا ۔ جس نے اصل میں عرب فلسطین کی جہدوجہدِ آزادی کے عمل کو سبوتاژ کیا ۔ اخوان اور دیگر گروہ بھی سامراجی قوتوں کی تائید سے آگے بڑھی ۔

    ایک عام تاثر یہ ہے کہ مغرب کو اصل خطرہ اسلام سے ہے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسلام سے مغرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنے ہدف ہی کچھ اس طرح بنا لیئے ہیں ۔ سارے فلسفے انہوں نے ہی ایجاد کیئے ۔ Clash of Civilizations انہوں نے ایجاد کیا ۔ مسلمانوں نے تو اسے خود ہی اپنا لیا ہے ۔ اگرچہ ساری کی ساری یہ بات مغرب میں ہی ایجاد ہوئی ہے ۔ اصل میں ہوا کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ Socialist Ententity کے ٹوٹنے سے دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں اس کی وجہ سے استعمار ساری دنیا پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔ مگر ساری دنیا میں استعمار کے قبضے کے جو طریقے ہیں وہ تو سارے ہی سرمایہ داری نظام کے ہیں ۔ کہ وہ اپنی Profit Making Market Economy کو ساری دنیا پر مسلط کریں ۔ چناچہ اب اگر یہ کشمکش ہے تو کس کے درمیان ہے ۔ جس کو وہ لوٹ رہا ہے یا وہ ، جو لوٹ رہے ہیں ۔ ؟ ۔ اس میں صرف مسلمان تو نہیں آتے ۔ اس میں تو وہ سارے لاطینی امریکہ کے لوگ بھی آتے ہیں ۔ جو آج امریکہ کیساتھ جنگ کررہے ہیں ۔ اصل خطرہ تو وہ ہیں ۔ Hugo Chavez سے ان کو خطرہ ہے ۔ مسلم دنیا کے جو بمبار یا خودکش حملہ آور تو ان کی سیکورٹی کےلیئے خطرہ ہیں ۔ یہ ان ملکو ں کے سسٹم کے لیئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرتے ۔ ان کے پاس توکوئی سسٹم ہے ہی نہیں ، کوئی متبادل نہیں ہے ۔ ہم یہ Elementary معاملے جو ہمارے معاشروں میں موجود ہیں ان کا حل تو تلاش نہیں کرسکتے اور چلے ہیں بین الاقوامی قوتوں کیساتھ مقابلہ کرنے ۔ ایک وقت تھا کہ مذہب ایک Consolidated Power تھا ۔ اب مذہب ایک Dividing Power ہے ، ان کے درمیان جو تیسری دنیا کے ممالک کے مذہبی لوگ ہیں ۔ اگر آپ کا تعلق لاطینی امریکہ کی جہد وجہد سے نہیں ہے تو آپ الگ ہیں اور وہ الگ ہیں ۔ وہ اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں اور آپ اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ یہ خود کش حملے وغیرہ Limited Actions ہیں ۔ یہ Mass of Population کو اپنے ساتھ نہیں لیتے ۔ یہ Democratic Struggle نہیں کرتے ۔ یہ اپنے ملکوں کے نظام کو تبدیل نہیں کرتے ۔ تو یہ بین الاقوامی نظام کو تبدیل کیا کریں گے ۔

    ( جاری ہے )
     
  3. ذوالقرنین کاش
    آف لائن

    ذوالقرنین کاش ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اپریل 2008
    پیغامات:
    383
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    مذہب کو ، سوسائٹی میں ایک Dividing Fector کے طور پر سامنے لایا گیا ۔ اگر ہم اسلامی تحریکوں کو دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اعتدال پسندی ، روشن خیالی اور انتہا پسندی کے لحاظ سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے ۔ اس تناظر میں سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا اسلام کے نام پر بیداری کی جو تحریکیں دنیا میں اٹھیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنےکا کام انجام دیا ۔ ؟
    یہ بات واضع ہے کہ بعض تحریکوں نے معاشرے میں اپنے عقائد کے لحاظ سے سماجی اصلاحی کام بھی کیئے مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ اسلام نافذ کرے ۔ چناچہ اس طرح عقیدے کا تعلق طاقت سے منسلک ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ کونسا فقہ سامنے آئے گا ۔ اور اس طرح گروہ بندی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح آج عراق کو دیکھیں ۔ وہاں مسئلہ عقائد کا نہیں ہے ۔ عقائد تو بہت پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ مسئلہ سیاسی طاقت کا ہے ۔ جب آپ اپنی Community کو Mobilized کرتے ہیں تو اسے ایک خاس قسم کی شناخت بھی دیتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہے ۔
    ہمارے مذہب کا آغاز جس دور میں ہوا وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا ۔ اور جب وہ قبائلی معاشرہ آگے بڑھا تو اس کا ٹکراؤ دنیا کی کُھلی تہذیبوں سے ہوا ۔ چناچہ پھر ہر چیز کی شکل ہی بدل گئی ۔ سوچنے کے انداز بھی بدل گئے ۔ جن چار ، پانچ ارکان پر مذہب کی بنیاد تھی جس پر سادہ سی قبائلی سوسائٹی چل رہی تھی ۔ اُس کی بھی وہ شکل نہ رہ سکی ۔ فلسفہ ، علم ، نظریات ، توجیحات ، تشریحات یہ سب بعد کی پیداوار ہے ۔ چناچہ جب آپ کا واسطہ دنیا کی بڑی تہذیبوں سے پڑا تو ہم دوبارہ پیچھے جانے کی طرف لوٹ آئے ۔ اور ان چیزوں کے ساتھ ہماری ریاست اور نظام تو وہی رہے مگر دنیا کی ریاستیں اور نظام ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ وہ سارے فارمولے جو قبائلی معاشرے استعمال کرتے تھے ۔ وہ نہ تو بادشاہوں کے زمانے میں استعمال ہوسکے ۔اور نہ آج کے جدید دور میں جہاں دنیا کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پروڈکشن ہو رہی ہے ۔ دنیا کے نظام کسی اور ہی طریقے سے چلتے ہیں ۔ اس کے جوابات آپ کو دینے پڑتے ہیں ۔ یہ جوابات آپ مذہب میں نہیں دیں گے ۔ یہ آپ اکنامکس میں دیں گے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دیں گے ۔ جو ہم نہیں دیتے یا یوں کہہ لیں کہ جو ہم نہیں دے سکتے ۔
    اگر خیال یہ ہے کہ کسی ریاست کا نظریات اور خیالات کے لحاظ سے ایک Frames Of Reference ہوتا ہے تو پھر یہ درست ہے ۔ مگر جب آپ اس Frames Of Reference سے ایسی چیزیں بناتے ہیں ۔ جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ قائمتہ الذات ہے ۔ یہ بدل نہیں سکتی ۔ اور اس کو آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بھی بدل نہیں سکتے اور یہ حکم ہے اور جو اس سے ہٹے گا وہ قابلِ گردنِ زد ٹہرے گا ۔ تو بات یہاں تک آجاتی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ مغرب کے سیکولر سسٹم میں بھی گذشتہ چار صدیوں میں کئی تبدیلیاں آچکیں ہیں ۔ اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے United Nations Charter بنادیا اور اس میں دائیں بازو، بائیں بازو ، مسلم ، عسیائی ، یہودی ، ہندو ، بدھ مت سبھی نے دستخط کردیئے ۔ اور دیکھیں کہ یہ Charter ہے کیا ۔ ؟ یہ بھی سیکولر ہے ۔
    لہذا مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہونا چاہیئے ۔ موجودہ ریاست کا جو نظام ہے وہ صرف مذہب کے حوالے سے دیکھا نہیں جاسکتا ۔ بلکہ اس کی جو پہچان ہے وہ شہریت ہے ۔ اور اس میں سب برابر کا حق رکھتے ہیں ۔ اسی حوالے سے اسپین کو دیکھیں تو وہ ایک Empire تھا، کوئی اسلامی ریاست نہیں تھی ۔ جس میں یہودی ، مسلم اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے ۔ اسی طرح Ottoman Empire میں بھی یہی کچھ تھا ۔ اور ہمارے ہاں مغل ایمپائر میں یہی کچھ صورتحال تھی ۔ اسی طرح آج پاکستان میں دیکھیں جو کہ مسلم اکثریت کی ریاست ہے ۔ اب آپ ریاست کا مذہب لکھیں یا نہ لکھیں ۔ لیکن جب مسلمان اسمبلیوں میں بیٹھیں گے تو ان کا اپنا ایک Frames Of Reference ہوگا ۔ اسی کے بنیاد پر وہ آئین بناکر اس کو پرکھتے رہیں گے ۔ جوں جوں ان کا تجربہ بڑھتا رہے گا ۔ اسی طرح وہ اپنے خیالات میں بھی تبدیلیاں لاتے رہیں گے ۔ لیکن جب آپ ایک چیز Fixed کردیتے ہیں تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ کس کا اسلام ، کونسا فرقہ ، کونسا مسلک ، اور پھر اس کے بعد آپ آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں