1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسافر

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از فاروق درویش, ‏11 جنوری 2012۔

  1. فاروق درویش
    آف لائن

    فاروق درویش ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جنوری 2012
    پیغامات:
    24
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    ملک کا جھنڈا:
    مسافر

    لٹے قافلوں کے مسافر گزیدہ
    گھنے جنگلوں کے سفر میں دمیدہ
    کسی زرد پتے کی صورت خزاں کی
    ہواؤں کے گرداب و طوفاں میں بکھرے
    دکھوں کی برستی ہوئی شبنموں میں
    زمینوں پہ بے جاں پڑے ہیں کبیدہ
    جزیرہ نما منزلوں کے یہ راہی
    فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ
    خمیدہ پریشاں ، شجر سے بریدہ
    زمستاں کی سفاک قاتل فضا میں
    کوئی سرد سینوں میں مشعل جلا دو
    جو شب بھرجلے گرم رکھے جنوں بھی
    نکالو کہیں سے وہ سورج تپیدہ
    مری زندگی کے جو ظلمت کدوں کو
    نئی روشنی کے شراروں سے بھر دے
    ندیدہ زمانے کے ان مقتلوں پر
    بدن سربریدہ ، دہن با دریدہ
    گذرتے ہویے خوابدیدوں سے پوچھوں
    کہ درویش کیسے لکھے ظلمتوں میں
    زمانے کے شاہوں کا روشن قصیدہ
    لٹے قافلوں کے مسافر ہیں سارے
    فغاں نا رسیدہ ، بیاں آبدیدہ

    فاروق درویش
     
  2. فیصل سادات
    آف لائن

    فیصل سادات ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,721
    موصول پسندیدگیاں:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسافر

    عمدہ کلام ہے درویش صاحب۔
    :a180::mashallah:
     
  3. اوجھڑ پینڈے
    آف لائن

    اوجھڑ پینڈے ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2012
    پیغامات:
    30
    موصول پسندیدگیاں:
    10
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مسافر

    غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،
    اب کیا گلہ کریں کہ مُقدر میں کُچھ نہ تھا
    ہم غوطہ زن ہُوئے تو سمندر میں کُچھ نہ تھا

    دیوانہ کرگئ تیری تصویر کی کشش
    چوماجو پاس جاکے تو پیکر میں کُچھ نہ تھا

    اپنے لہو کی آگ ہمیں چاٹتی رہی
    اپنے بدن کا زہرتھا ساغر میں کُچھ نہ تھا

    سب رنگ تیری تشنگیءِ شوق سے دُھل گئے
    سب روشنی کے عکس تھے منظر میں کُچھ نہ تھا

    یارو وہ صاف ستھرا تراشا ہوا بدن
    فنکار کا خیال تھا پتھر میں کُچھ نہ تھا

    دھرتی ہلی تو شہر زمیں بوس ہوگئے
    دیکھا جو آنکھ کھول کر پل بھر میں کچھ نہ تھا

    وہ رُت جگے وہ جشن جو بستی کی جان تھے
    یُوں سو گئے کہ جیسے کسی گھر میں کُچھ نہ تھا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں