1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مسئلہ بیانیے کا۔۔۔۔ خاور گھمن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏14 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مسئلہ بیانیے کا۔۔۔۔ خاور گھمن

    متحدہ ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتوار کے دن اسلام آباد میں اہم بیٹھک ہوئی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اجلاس کی صدارت کی۔ تحریک کے پلیٹ فارم پر آئندہ ہونے والے جلسوں کے پروگرام کیساتھ ساتھ واقفان ِحال کے مطابق اہم معاملہ جو زیر بحث آیا وہ تھا بیانیے کا
    اس موومنٹ کا متفقہ بیانیہ کیا ہونا چاہیے جس کو آگے لیکر چلنا ہے۔ ویسے تو26 پوائنٹس پر مشتمل اس تحریک کے اغراض ومقاصد بڑے واضح ہیں جو شروع میں طے کر دئیے گئے تھے لیکن جس انداز سے(ن )لیگ کے قائد نواز شریف اعلیٰ اداروں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور اس پر بلاول بھٹو زرداری کا رد عمل کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، بیٹھک میں موجود زیادہ تر لیڈران کا خیال تھا کہ ہمیں براہ راست نام لے کر جلسوں میں اس طرح کی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے آئندہ ہونے والے جلسوں سے ہی پتہ چلے گا خاص طور پر نواز شریف کے حوالے سے کہ آیا وہ اپنا لائحہ عمل جاری رکھتے ہیں یا اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔

    علاوہ ازیں ملک میں بیانیے کی جنگ اپنے عروج پر پہنچچکی ہے ، ایک طرف(ن) لیگ کا مقتدرہ مخالف اور ووٹ کو عزت دو والا بیانیہ اور دوسری طرف تحریک انصاف کا کرپشن کیخلاف جنگ کا بیانیہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنمابلاول بھٹو زرداری اپنے نانا اور والدہ کے سیاسی مشن کو پارٹی کا بیانیہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں اور گلگت بلتستان میں بھرپور جلسے کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کاپی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ملک میں حقیقی جمہوریت کو بحال کرنے کا بیانیہ ہے، جماعت اسلامی جو کہ ماضی میں انتہائی فعال سیاسی قوت تھی وہ بھی سیاسی میدان میں تن تنہا موجود ہے اور اس کا بیانیہ باقی اپوزیشن جماعتوں کے متضاد ہے ۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کہتے ہیں ، اپوزیشن کا مسئلہ صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے جبکہ ہم عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت چاہتے ہیں۔

    نواز شریف کے بیانات کولیکر دیگر لیگی رہنمائوں کو بھی شہ ملی اور انہوں نے ہر حد پا ر کر دی۔پاکستان نے بھارت کوبالاکوٹ حملے کا جس طرح جواب دیا وہ جنگی تاریخ کا روشن باب ہے کہ کس طرح پاک فوج نے اپنے سے 7 گنا بڑی فوج کو شکست دی۔ اس تاریخی کامیابی کے بعد بھی ایاز صادق کہتے ہیں، بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو دبائو اور بھارتی حملے کے ڈر سے چھوڑا گیا۔ اس کے بعد کہا، ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر بھارتی میڈیا استعمال کر رہا ہے اور اب کہہ رہے ہیں وہ ا پنے بیان پر پوری طرح قائم ہیں۔

    ملک میں بحث یہی چل رہی ہے کہ کیا (ن)لیگ اس بیانیے کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے؟ حکومت مخالف تحریک تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اعلیٰ اداروں کی قیادت کیساتھ قومی سلامتی کے نازک معاملات کو سیاست کا موضوع بنانا کب تک چل سکتا ہے ؟ اعلیٰ اداروں کو ایاز صادق کے بیان پر رد عمل دینا پڑا اور ترجمان پاک فوج نے ایاز صادق کے بیان کو یکسر رد کر دیا۔ اس بیان کو لیکر (ن) لیگ کے بعض باخبر افراد سے بات ہوئی تو ان کاکہناتھاکہ اگر پارٹی قیادت ایاز صادق کے بیان پر نظر ثانی نہیں کرتی اور اس روش کو مزید آگے بڑھاتی ہے تو جماعت پر ہر طرح کا اندرونی اور بیرونی دبائو بڑھے گا۔ ایک لیگی رہنماکے مطابق’’ لوگ پہلے ہی نواز شریف کے بیانات پر بہت پریشان ہیں اور اب ایاز صادق والا قضیہ سامنے آ گیا ، ہم نے ریاستی اداروں کے ساتھ کھلم کھلا محاذ آرائی شروع کردی ہے۔ دبے الفاظ میں بیانات یا پھر بعض ریٹائرڈ افراد کی حد تک بحث ومباحثہ تو ٹھیک تھا لیکن اب جو کھیل شروع ہو گیا ہے اس کاانجام کیا ہو گا اس بارے ہم سب سخت پریشان ہیں ؟‘‘

    (ن )لیگ کے ایک اور رہنما کاکہنا تھاکہ موجودہ حالات میں ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کچھ بتایا نہیں جا رہا کہ پارٹی قیادت چاہتی کیاہے ؟ کوئی آئینی یا قانونی آپشن ہمارے سامنے نہیں رکھا جا رہا ، مقتدرہ کیخلاف حدودوقیود سے بالا تر ہوکر جس طرح کی بات کی جا رہی ہے اس کا انجام فی الوقت تو ہمیں صرف اور صرف مایوسی ہی نظر آرہا ہے۔

    اسلام آباد میں موجود چند واقفانِ حال کے مطابق نواز شریف کا اعلیٰ قومی اداروں کیخلاف لائحہ عمل سمجھ سے بالاتر ہے،خاص طور پر جب آپ لندن میں بیٹھ کر اس طر ح کا بیانیہ بنانے کی کوشش کریں ۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں (ن) لیگ کا بیانیہ زیادہ دن چل نہیں سکے گا اور اگر اس کو جاری رکھا گیا تو اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گااور یہ شاید (ن ) لیگ کے مستقبل کیلئے مثبت نتائج کا باعث نہ ہو۔ آنے والے دنوں میں ملکی سیاست مزید تنائو کا شکار ہوگی۔ قومی سطح پر شاید کوئی بڑی تبدیلی نہ آئے لیکن جہاں تک (ن) لیگ کا تعلق ہے پارٹی میں ضرور کچھ نہ کچھ ٹوٹ پھوٹ دیکھنے کو ملے گی۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں