ایک سچا واقعہ ایک بوڑھے سکھ کی اپنی زبانی ملاحظہ ہو: "1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے وقت دہلی میں ہم نے مسلمانوں کو قتل عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دستور ہم نے یہ بنایا کہ دس دس مسلح آدمیوں کا جتھہ بنا کر نکل جاتے۔ جو بھی مسلمان نظر آتا اسے مار ڈالتے۔ بیس پچیس دن تک یونہی ہوتا رہا لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے شکار ملنا کم ہوتا گیا۔ اکثر جتھے خالی لوٹنے لگے۔ ایک دن ہم لوگ واپس آرہے تھے کہ ایک تھڑے پر ایک مسلمان بیٹھا ملا۔ دبلا پتلا ایک کمزور سا انسان تھا۔ کالا رنگ، چھوٹی چھوٹی داڑھی، ایک میلا سا تہمد باندھے اور کھدر کی قمیص پہنے ہوئے تھا۔ ہم نے کہا: "چلو نیچے اترو۔" بولا: "کیوں؟" ہم نے کہا: "تمھیں قتل کریں گے۔" پوچھنے لگا: "میرا قصور کیا ہے؟" جواب میں ایک سکھ نے کہا: "تو مسلمان ہے یا نہیں؟" کہنے لگا: "بلکل! خدا کے فضل سے مسلمان ہوں۔" ہم نے کہا: "بس اسی لیے تجھ کو قتل کریں گے۔" اس نے جواب دیا: "اچھا یہ بات ہے تو اس سے اچھی موت اور کیا ہوگی۔" یہ کہہ کر وہ نیچے اتر آیا۔ ہم کو مذاق کی سوجھی۔ ایک نے کہا: "جان بچانا چاہتے ہو تو بچ سکتی ہے؟" اس نے پوچھا: "کس طرح؟" میں نے کہا: "سکھ ہو جاؤ تو چھوڑ دیں گے۔" یہ سن کر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ گرج کر بولا: "کافر کے بچو میں مسلمان ہوں۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔" ایک سکھ کرپان کا وار کرنے کے لیے آگے بڑھا تو وہ مسلمان بجلی کی طرح اچھلا اور ایک ہی جست میں خالصہ جی سے کرپان چھین کر دو گز پیچھے جا کھڑا ہوا اور کہنے لگا: "لواب آؤ۔ دیکھوں مجھے کون سکھ بناتا ہے۔" ہم سب اس پر ٹوٹ پڑے پر وہ کرپان چلاتے چلاتے ہمارے تین آدمی گھائل کر چکا تھا۔ آخر ہم نے نیزہ استعمال کیا جو اس کے سینے کے پار ہو گیا۔ وہ بے دم ہو کر زمین پرگر پڑا۔ ایک سردار جی نے گالی دے کر کہا: "دیکھا مزہ؟" جواب دیا: "ہاں دیکھا، اسی مزے کے لیے تو جان دی ہے۔"