1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خوش - داغ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مبارز, ‏27 اپریل 2010۔

  1. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    غزل
    (داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

    مری موت خواب میں دیکھ کر ہوئے خوب اپنی نظر سے خوش
    اُنہیں عید کی سی خوشی ہوئی، رہے شام تک وہ سحر سے خوش

    کبھی شاد درہم داغ سے کبھی آبلوں کے گُہر سے خوش
    یہ بڑی خوشی کا مقام ہے غمِ ہجر یار ہے گہر سے خوش

    اُنہیں بزم غیر میں تھا گماں کہ یہ سادہ لوح بہل گیا
    مجھے خوف عزت و آبرو کہ رہا فقط اسی ڈر سے خوش

    کہوں وصف بادہء ناب کیا نہیں زاہد ایسی کوئی دوا
    جو دماغ اس کے اثر سے تر تو مزاج اس کے اثر سے خوش

    آگر آبلہ ہے بھرا ہوا تو ہر ایک داغ جلا ہوا
    جنہیں ہم نے سینے میں دی جگہ ، نہ وہ دل سے خوش نہ جگر سے خوش

    وہی دوست ہیں وہی آشنا، وہی آسماں ہے وہی زمیں
    عجب اتفاق زمانہ ہے کہ بشر نہیں ہے بشر سے خوش

    مجھے چشم تر سے نہیں گلہ، مرے دل کا داغ مٹا دیا
    کہ لیا ہے نورِ بصر اگر تو کیا ہے لخت جگر سے خوش

    کبھی حالِ اہل عدم سُنا تو اُنہیں یہ وہم سما گیا
    کسی بے نشاں کا تو ذکر کیا، نہ رہے وہ اپنی کمر سے خوش

    نہ ہو درد و آہ و غم و الم کبھی تنگ اپنے مقام سے
    یہ ہو سر سے خوش وہ زبان سے خوش، یہ ہو دل سے خوش وہ جگر سے خوش

    یہ خوشا نصیب کہ یار نے مری موت غیر سے سُن تو لی
    یہ اگر چہ جھوٹ اُڑائی تھی ، وہ ہوا تو ایسی خبر سے خوش

    وہ گلی ہو اور نطارہ ہو ، یہ نظر ہو اور اشارہ ہو
    کبھی شاد جلوہء بام سے کبھی سیر روزن در سے خوش

    مجھے تجھ سے شکوہ ہے اے فلک، کبھی تونے میری خوشی نہ کی
    کوئی یہ بھی کام میں کام ہے، جو کبھی ہو اہل ہنر سے خوش

    دل و دیں لیا جو رقیب سے تو مبارک آپ کو یہ خوشی
    مجھے فائدہ مجھے نفع کیا کہ جو ہوں پرائے ضرر سے خوش

    وہ توحور یانِ بہشت ہیں کہ ہر ایک فقیر سے شاد ہوں
    یہ بتانِ ہند ہیں زاہد و ، یہ حریص ہوتے ہیں زر سے خوش

    یہ سُناجو حضرت ِ داغ نے کہ حضور کعبے کو جائیں گے
    یہی ذکر ہے یہی فکر ہے، شب و روز عزم ِ سفر سےخوش
     

اس صفحے کو مشتہر کریں