1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا اسد اللہ خان غالب ۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    مرزا اسد اللہ خان غالب ۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

    ’’گورنرہاؤس‘‘ میں پرورش سے جیل خانوں تک کا اذیت ناک سفر

    شہرہ آفاق مصنف اور مزاح نگار سیموئل لینگورنے کلیمنس کو امریکی ادب کا ’’فادر‘‘ (یعنی ابو جی) بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی ایک تحریر ’’کیسی بلندی کیسی پستی‘‘ کے گرد گھومتی ہے۔انہوں نے یہ اٹل حقیقت نہایت خوبصورتی سے انشائیے میں سمو دی ہے ۔دنیا اس مزاح نگار کو مارک ٹوئن کے نام سے زیادہ جانتی ہے۔

    ۔27دسمبر قریب آ گئی ہے، اردو ادب و شاعری کی مایہ ناز شخصیت مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب (27 دسمبر1797ء تا 15فروری 1869ء ) کو یاد کرنا تو بنتا ہے۔ مرز غالب نے آگرہ کے ’’کالا محل‘‘ میں آنکھ کھولی، ان دنوں یہ شہر ’’ اکبر آباد‘‘ کہلاتا تھا۔11برس کی عمرمیں پہلا شعر کہنے والے غالب کی ادبی خدمات کی بدولت ’’دبیر الملک ‘‘ اور ’’نجم الدولہ‘‘ کے خطابات بھی عطا ہوئے۔
    مرزا صاحب کی ز ندگی عروج وزوال کی ایسی ہی آنکھیں نم کر دینے والی کہانی ہے۔ گورنر ہائوس میں پرورش پانے والے اس عالم گیر شہرت یافتہ شاعر نے جیل کی ہوا بھی کھائی اور انگریز افسروں کے بے رحمانہ سوالات کا بھی زندہ دلی سے سامنا کیا۔ آگرہ میں اپنے صوبہ دار (گورنرکے ہم منصب)انکل کے عالی شان بنگلے میں پرورش پانے کے بعد دسمبر کے ایک سر د دن اسی ملک کے مرکزی دارالحکومت دلی کی سڑک پر اپنے ذہنی معذور بھائی کو برٹش پولیس کی گولی کھانے کے بعد سڑک پر تڑپتے دیکھا۔جو مدد ،مدد پکاررتا رہا لیکن ایک اور گولی کھاتے ہی اس کا جسم سردہو گیا۔اس شاعر نے وہ وقت بھی دیکھا جب تاج برطانیہ نے ان پر غداری کا مقدمہ بنا یا اور ہر حق سے محروم کرتے ہوئے مفلسی کی دلدل میں دھکیل دیا ، ہر ستم وہ شان سے سہہ گئے ، یہ انہی کا خاصا ہے۔

    مغل خاندان سے تعلق رکھنے والے غالب کے دادا ،احمد شاہ کے دور حکومت (1748ء تا 1754ء )میں موجودہ ازبکستان کے شہر ثمر قند سے آگرہ پہنچے تھے ۔سلجوک حکومت کی قربتوں نے انہیں ’’زوال سلجوک‘‘ کے بعد اپنے وطن کو خیر آباد کہنے پر مجبورکیا۔ بااثرسیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے داداجان نے لاہور، دلی اور بلند شہر(اتر پردیش کا علاقہ ) میں کئی مناصب پر کام کرنے کے بعد آگرہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ مرزا عبداللہ بیگ اور ان کے بھائی مرزا نصراللہ بیگ بھی ان میں شامل ہیں۔

    مرزا عبداللہ بیگ نے کشمیری خاندان کی ایک بیٹی عزت النساء بیگم کو اپنا جیون ساتھی چننے کے بعد اپنے سسر کے مکان میں رہائش رکھی۔ جنگی حکمت عملی کے ماہر عبداللہ بیگ، نواب آف لکھنؤ کی سلطنت میں اہم امور کی انجام دہی کے بعد حیدر آباد (دکن ) منتقل ہو گئے، جہاں نظام آف حیدر آباد نے انہیں اہم عسکری منصب عطا کر دیا۔1803ء میں ’’جنگ الواڑ ‘‘ میں عبداللہ بیگ فوج کے ایک حصے کی کمان کر رہے تھے۔ ان عہدوں کو ’’کمانڈر‘‘ کہا جاتا ہے ۔ دورانِ جنگ شہادت پانے کے بعد انہیں راج گڑھ کے قبرستان میں دو گز زمین مل گئی۔ باپ کی شہادت کے وقت مرزا غالب چھ برس کے تھے۔موت کیا چیز ہے، کس بلا کا نام ہے، یہ شاعر ناواقف تھا۔

    اب پرورش کی ذمہ داری چچا جان نصراللہ بیگ نے سنبھال لی، نصراللہ بیگ ان دنوں آگرہ کے صوبے دار (گورنر کے برابر) تھے۔بدقسمتی غالب کے ارد گرد منڈلا رہی تھی۔1806 ء میں نصراللہ بیگ بھی (ایک رائے کے مطابق ) ہاتھی سے گرنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ دکھوں نے ایک بار پھر ان کا گھر دیکھ لیا ۔

    وہ 13برس کے تھے کہ خاندان کے بزرگوں نے نواب آف فیروز پور جھرکہ کے بھائی کی بیٹی سے رشتہ ازدواج میں ’جکڑنا‘ مناسب جانا۔ مرزا غالب کی منزل دلی تھی،جہاں عالم گیر شہرت ان کی منتظر تھی۔اسی برس وہ شیزو فرینیا میں مبتلا اپنے بھائی مرزا یوسف کے دلی پہنچے۔ ان کے ہاں سات بچوں نے جنم لیا،بدقسمتی سے ایک بھی زندہ نہ رہ سکا ،شاید برٹش راج کی غلامی سے بچانا مقصود تھا۔اکثر نوجوانوں کی طرح ان کے نزدیک بھی شادی کسی قید سے کم نہیں تھی ۔انہوں نے پوری داستان کو ایک شعر میں سمو دیا ہے ،زمانے کی بے رخی اور انگریز کے ستم اس ایک شعر میں پڑھے جا سکتے ہیں۔فرماتے ہیں،

    قیدحیات و بندغم، اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

    انہوں نے اسد اور غالب دو تخلص فرمائے۔ ان کی شاعری تصوف اور محبت کے گرد گھومتی ہے، بیتے دنوں کے رنج و الم بھی اہم موضوعات ہیں۔ 19برس کی عمر میں ان کا بہترین کام سامنے آ چکا تھا، اپنی شاعری کے بارے میں خود ہی کہتے ہیں ’’ جس شاعر کی غزل بالا خانے (دربار) میں گائی جائے اسے کون مات کر سکتا ہے‘‘

    ان کی فلسفیانہ شاعری کو سمجھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔انہوں نے اردو اور فارسی زبانوں کو ذریعہ اظہار بنایا لیکن فارسی کلام اردو کلام سے تقریباََ پانچ گنا وسیع ہے۔ انہیں دونوں زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔فارسی ان کے آبائو اجداد کی زبان تھی اور اردو کے مرکز دلی کو انہوں نے اپنا ’’گھر‘‘ بنایا۔ وہ اگرچہ دلی میں مکان خرید سکتے تھے ، کہیں اور بھی جا سکتے تھے لیکن انہیں دلی سے اور دلی کو ان سے انس ہو گیا تھا۔ وہ وہیں کے ہو رہے اورکرائے کے مکان میں رہے ۔ جب ایک مکان سے جی بھر جاتا تو دوسرے میں منتقل ہو جاتے، لیکن دلی کی قاسم گلی سے دور نہیں گئے۔ گلی قاسم خان سے خاص انس تھا ، وہ اسی گلی میں گھر لیتے رہے۔کئی کتب میں اسی نسبت سے ’’غالب کی دلی‘‘ جیسے الفاظ بھی پڑھنے کو ملتے ہیں یعنی وہ شہر جہاں غالب رہتا ہے! آخری مکان مسجد کے سائے میں لیا، یہیں سے اللہ کو پیارے ہوئے۔اسی مکان پر کیا خوب شعر کہا،

    مسجد کے زیر سایہ اک گھر بنا لیا ہے
    ایک بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے

    غالب کے نزدیک زمانے میں کوئی کسی کا نہیں ،سب کو اپنی اپنی پڑی ہے،وہ زندگی کے بڑے مقصد کو پانے کی بجائے چھوٹی چھوٹی الجھنوں میں الجھے ہوئے ہیں، غالب فرماتے ہیں،

    بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
    ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

    ۔1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے انہیں ’’دبیر الملک ‘‘ کے خطاب سے نوازا۔شہنشاہ نے اسی کے ساتھ’’ نجم الدولہ ‘‘کا لقب بھی شامل کر دیا۔ ادب دوست شہنشاہ نے غالب کو ’’مرزا نوشہ‘‘ کے لقب سے بھی نوازا۔مرزا غالب، 1954ء میں شہنشاہ ظفر کو شاعری کے اسرا رو رموز سکھانے پر بھی مامور رہے۔وہ ان کے سب سے بڑے بھائیے بھی ’’شاعر استاد‘‘ مقرر ہوئے ۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے ’’غالب کے خطوط‘‘ میں ملکی تاریخ کی جھلک کو دیکھتے ہوئے انہیں ’’شاہی مئورخ ‘‘ کے منصب پر بھی فائز کر دیا تھا۔’’خاندان تیمور‘‘ کی تاریخ قلم بند کرنے پر انہیں ’’ہائوس آف تیمور‘‘ کی جانب سے 50 روپے ا لگ ملتے تھے۔

    ایک روز بہادر شاہ ظفر نے غالب سے استفسار کیا :’’ مرزا کتنے روزے رکھے؟‘‘

    غالب مسکرائے اور کچھ یوں گویا ہوئے: ’’ بس حضور ایک نہیں رکھا‘‘۔

    بہادر شاہ ظفر سے ان کی قربتیں برٹش راج کے سینے میں کانٹے کی مانند کھٹکتی رہیں۔اسی لئے بھائی یوسف کی جان گئی اور یہی وجہ تھی کہ غالب تمام عمر اپنے حق سے محروم رہے۔برٹش راج نے انہیں ان کی مکمل پنشن تک سے محروم رکھا ۔ اس قد آور شاعر کو1827ء تک 62روپے 8آنے پنشن ملتی رہی،حالانکہ انڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد عالمی کی تحقیق کے مطابق ’’ احمد بخش سے 25ہزار روپے مہینہ لینے کا معاہدہ کرتے وقت نصراللہ کے خاندان اور بچوں کو دس ہزار روپے پنش دینے کا معاملہ بھی طے کیا گیا تھا۔اس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نصراللہ خان بیگ کے اہل خانہ اور قریبی رشتے داروں کو دس ہزار وپے ماہانہ پنش دینے کی پابند تھی‘‘ جس سے برٹش حکومت وقت آنے پر منحرف ہو گئی۔شاعر نے جائز پنشن کے لئے کلکتہ کا سفر فرمایا ، ایک درخواست گورنر جنرل کے حوالے کی جو رد کر دی گئی۔اس غرض سے وہ دو برس دلی سے دور رہے، کچھ عرصہ دیگر شہروں میں بھی گزرا۔20فروری 1868ء کو درخواست مسترد ہونے پر انہوں نے لکھا ’’ کس سے محرومئی قسمت کی شکایت کیجئے ، ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں گے سو وہ بھی نہ ہو سکا‘‘۔

    اپنے سامنے شیخ صہبائی کی شاعری کے لئے توصیفی کلمات کہنے پر حضرت غالب ازراہ مذاق یوں گویا ہوئے ۔’’ کہتے ہیں کہ صہبائی شاعر ہیں! بھلا و ہ کیسے شاعر ہوئے، صہبائی نے نشہ کیا نہ کبھی محبوب کی جوتیاں کھائیں ،اور جیل بھی نہ گئے!‘‘گرفتاری کے حوالے سے فرماتے ہیں،

    اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب
    ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

    غالب کے خطوط سرمایہ ادب ہیں، وہ خود فرماتے ہیں ، ’’سو کوس سے بزبان قلم باتیں کیا کرو اورہجر میں وصال کے مزے لیا کرو‘‘ ۔دکھی شاعر سے دوسروں کے غم دیکھے نہیں جاتے تھے ۔لکھتے ہیں ، ’’میں چاہتا ہوں کہ ایسی باتیں لکھوں کہ جو پڑھے خوش ہو جائے‘‘۔ان کے خطوط میں الگ ہی چاشنی اور اپنا ہی مزہ ہے۔ حالات اور غم اب بھی پہلے جیسے ہیں ، چنداں تبدیلی نہیں ہوئی، اسی لئے لگتا ہے کہ جیسے غالب ہمارے درمیان میں ہی کہیں چھپے ہوئے ہیں اور حالات حاضرہ کو اپنی نظر سے ہمیں بتا رہے ہیں۔بعض ناقدین کے نزدیک ان کے خطوط شاعری سے بڑا ادبی سرمایہ ہیں۔بلکہ ان کے خطوط نے ہی غالب کو غالب بنایا۔رالف رسل کی جانب سے کیا گیا انگریزی ترجمہ ’’ آکسفرڈ غالب‘‘ کو پڑھائے بغیر متعدد عالمی اداروں کی تعلیم مکمل نہیں ہوتی۔

    غالب کی فارسی ڈائری ’’داستان بو‘‘ جنگ آزادی کے دوران چاندنی چوک سے راج گھاٹ تک پھیلی ہوئی لاشوں کی کہانی ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے بھائی کو ہی نہیں کھویا، آزادی پر متعدد دوست بھی قربان ہوئے۔ ان المیوں کو خندہ یشانی کے ساتھ قبول کرنے کے بعد وہ خود بھی مسکراتے رہے اور دوسروں کو بھی خوشیاں بانٹتے رہے ۔

    5اکتوبر 1857ء کو جنگ آزادی کو کئی ہفتے گزر چکے تھے۔ برٹش فوج جنگ آزادی میں غالب فیملی کو بھی شریک کار سمجھتی تھی۔ بہادر شاہ ظفر سے دیرینہ مراسم اس کا سبب بنے۔ وہ کافی حد تک صحیح تھے۔ انگریزوں کو سرسید کی جانب سے ابوالفضل کی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ پر 1855ء میں غالب کے ’’پیش لفظ ‘‘سے بھی اختلاف ہو گیا تھا۔سرسید نے جان توڑ محنت کے بعد غالب سے رجوع کیا، پیش لفظ لکھوانے کی تمنا تھی۔ غلامی کے مخالف غالب کا’’پیش لفظ ‘‘پڑھتے ہی انگریزوں اور سر سید ،د ونوں کی سٹی گم ہو گئی۔ ایک طویل نظم میں فرمایا کہ ’’سر سید نے مردہ گھوڑے پر بے جا تحقیق میں وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا‘‘۔ ​
     
  2. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:

    جنگ آزادی کی حمایت کرنے پر غالب کو گرفتار کرکے انگریز عدالتی افسرکے روبرو پیش کیا گیا۔ دو سوالوں کے جواب میں انہوں نے معاشرے کی پوری تصویر عیاں کر دی۔

    کرنل ’سوالی‘ ہوئے ، ’’کیا تم مسلمان ہو؟‘‘

    غالب : ’’جی آدھامسلمان ہوں‘‘

    کرنل: تمہارا مطلب کیاہے؟‘‘

    غالب : ’’نشہ کرتا ہوں، حرام نہیں کھاتا‘‘ ۔ غالب نے ان دو علامتوں کے ذریعے کرنل پر واضح کر دیا کہ آج کم ہی لوگ پورے مسلمان ہیں وہ کوئی نہ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جس کی اسلام میں اجازت نہیں۔

    پرسیوال سپیئر لکھتے ہیں ،’’غالب کی دلی کا امن تہ و بالا ہو چکا تھا،ہر جانب انارکی اور بدامنی تھی، نوجوان تحریک میں پیش پیش تھے ۔ دہلی میں قیام امن کیلئے پولیس ناکافی تھی ۔بندوق بردار دستوں کی تعیناتی نے خرابی کے سوا کوئی کام نہیں کیا۔ انفنٹری کی ایک بٹالین اور دیگر افواج نے دلی او رگرد و نواح میں قیام امن کی خاطرلوگوں کو پتھر توڑنے سے روکنے کی کوشش کی، پولیس بھی ان کے ساتھ تھی۔فوج نے تمام اہم مراکز ، حتیٰ کہ سرائے خانوں پر بھی قبضہ کر لیا،لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ تھی۔جمنا سے دلی کو پانی مہیا کرنے والی نہر ’علی مردان‘ کو بحال کر دیا گیا تھا (اس کی بندش سے شہر میں پانی کی کمی ہو گئی تھی)۔ اچانک فوج نے گولی چلا دی، غالب کے بھائی مرزا یوسف موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ یہ موت نہ ہوتی تو امن قا ئم رہ سکتا تھا۔ سرد موسم میں لاش گرتے ہی غم زدہ پورا شہر سڑکوں پر امڈ آیا، ہر جانب لاشیں ہی لاشیں تھیں ۔ 1858میں خصوصی کمیشن بنا دیا گیا ، کمیشن نے کل 372 افراد (مسلمانوں) کو سزائے موت سنائی۔ پانچ چھ افراد کو روزانہ ہی پھانسیاں دی جا رہی تھیں‘‘۔

    تین سو سالہ قدیم ’’غالب کی حویلی‘‘ کو عالمی سیاحتی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ مغل طرز ِتعمیر کے مطابق دیواریں سرخ اینٹوں پر مشتمل ہیں۔ داخلی دروازہ اور چھجہ نیم گول اینٹوں سے بنایا گیا ہے،اسی چھجے پر بیٹھ کر وہ قطب مینار کا نظارہ کیا کرتے تھے۔جس کی بالائی منزل سے ایک برٹش افسر کی بیٹی فروٹ کھانے کے بعد چھلکے سڑک پر پھینک دیا کرتی تھی۔اندرونی حصے میں ان کے زیر استعمال اشیاء کا ایک چھوٹا سا عجائب گھر قائم ہے۔یہیں سانپ کی مانند بل کھاتی ہوئی پائپ کے ساتھ بنا ہوا حقہ بھی نمائش کے لئے رکھا گیا ہے۔ دلی کے چاندنی چوک کے نظارے میں یہ بھی ساتھی ہوا کرتا تھا ۔ زندگی بھر اپنے حق کو ترسنے والا غالب اب انڈین حکومت کی آمدنی کا ذریعہ بناہوا ہے۔

    ان کی آخری آرام گاہ نظام الدین بستی میں قائم ہے، یہ ان کا خاندانی قبرستان ہے۔ نواب آف لوہارو غالب کی اہلیہ سمیت کئی رشتے داریہیں آرام کر رہے ہیں۔

    ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
    نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

    نمونہ کلام

    گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
    بحر گر بحر ہ ہوتاتو بیاباں ہوتا

    تنگی دل کا گلہ کیا، یہ وہ کافر دل ہے
    کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

    ۔۔۔

    عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
    درد کا حد سے گزرنا ہر دوا ہو جانا

    تجھ سے قسمت میں مری، صورت قفل ابجد
    تھا لکھابات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

    اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
    اس قدر دشمن ارباب وفا ہو جانا

    دل سے مٹناتری انگشت حنائی کاخیال
    ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

    ہے مجھے ابر بہاری کا برس کر کھلنا
    روتے روتے غم فرقت میں فنا ہو جانا

    بخشے ہے جلوہ گل ، ذوق تماشا غالب
    چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

    ۔۔۔

    رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

    پھر ایک روزمرنا ہے حضرت سلامت

    ۔۔

    حسن غمزے کی کشا کش سے چھپا میرے بعد
    ہائے، آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد

    شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
    شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

    آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
    کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

    ۔۔۔۔

    کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر
    جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

    آتش پرست کہتے اہل جہاں مجھے
    سرگرم نالہ ہائے شرر دیکھ کر

    آتا ہے میرے قتل کو پرجوش ، رشک ہے
    مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

    ان آبلوں کے پانوکے گھبرا گیا تھا میں
    جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر

    سر پھوڑنا وہ غالب شوریدہ حال کا
    یاد آ گیا مجھے تری دیوار دیکھ کر


     

اس صفحے کو مشتہر کریں