السلام علیکم اس نئی لڑی میں مختصر نظمیں ہم سب ملکر شیئر کرینگے تو ابتدا میں فاخرہ بتول کی ایک نظم سے کرتا ہوں ----------- یہی اب کام کرنا ہے ستاروں سے کہو اب رات بھر ہم ان سے باتیں کر نہیں سکتے کہ ہم اب تھک گئے جاناں! ہمیں جی بھر کے سونا ہے کسی کا راستہ تکنے کا یارا بھی نہیں ہم کو مسافر آگیا تو ٹھیک ہے لیکن، نہیں آتا تو نہ آئے ان آنکھوں میں ذرا بھی روشنی باقی نہیں شاید وگرنہ تیرگی ہم کو یوں گھیرے میں نہیں لیتی مگر یہ سب، ازل سے لکھ دیا تھا لکھنے والے نے ستاروں سے کہو، بہتر ہے ہم کو بھول ہی جائیں ہمیں آرام کرنا ہے ضروری کام کرنا ہے
اداسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!! اداسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے پچھلے پہر آکر ہماری نیم خوابیدہ سی پلکوں پر ستاروں کی طرح سے جھملاتی ہے اگر پوروں سے چھو لینے کی خواہش جاگ جائے تو اداسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دل جلاتی ہے اداسی ـــــــــــ بھیگ جاتی ہے
وضاحتمیں نے اُس کے بدلے لہجے کی وضاحت پوچھی، کچھ دیر خاموش رہا۔۔۔۔ پھر مسکرا کے بولا۔۔۔۔ "پاگل۔۔۔ جب لہجے بدل جائیں تو وضاحتیں کیسی۔۔؟؟؟؟"
مــیں وہ دلــہن ہــوں جــس کو پــہلی رات کــوئی گــھونگھٹ اٹھا کے یــہ کــہہ دے مــیرا ســب کــچھ تــیرا ہے دل کے ســوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروین شاکر
ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﻔﺲ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺟﻮ ﺗﻢ ﭘﮧ ﻧﺜﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﮈﺭﺍ ﮈﺭﺍ ﺳﺎ ﺟﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﺷﻮﺥ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﻝ ﺗﮭﯽ تیرا ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﺎ ﺫﺭﺍ ﯾﺎﺩ ﮐﺮ
تمہیں معلوم ہے جاناں! کہ تم بھی ایک قاتل ہو میرے اندر کا ایک ہنستا ہوا انسان تم نے مار ڈالا ہے۔۔۔!!!
کبھی گنگناؤ تو اس طرح مرے زخم پھر سے گلاب ھوں کبھی مسکراؤ تو اس طرح مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے سبھی رابطے سبھی ضابطے کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
سمجھوتہ لوٹنے والا لوٹ آیا ہے ۔ سارے شکوے بھول چکے ہیں ۔ ہم دونوں پھر پہلے والے میت ہوے ہیں ۔ لیکن اب وہ میرے دکھ پہ افسردہ ہو ۔ یا میری خوشیوں پہ خوش ہو ۔ تو جانے کیوں لگتا ہے ۔ میں اسکا سوتیلا دکھ ھوں ۔ میں اسکا سوتیلا پیار ۔
کہو ، وہ دَشت کیسا تھا ؟ جِدھر سب کچھ لُٹا آئے جِدھر آنکھیں گنوا آئے کہا ، سیلاب جیسا تھا، بہت چاہا کہ بچ نکلیں مگر سب کچھ بہا آئے کہو ، وہ ہجر کیسا تھا ؟ کبھی چھُو کر اسے دیکھا تو تُم نے کیا بھلا پایا کہا ، بس آگ جیسا تھا ، اسے چھُو کر تو اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے کہو ، وہ وصل کیسا تھا ؟ تمہیں جب چھُو لیا اُس نے تو کیا احساس جاگا تھا ؟ کہا ، اِک راستے جیسا ،جدھر سے بس گزرنا تھا ، مکاں لیکن بنا آئے کہو ، وہ چاند کیسا تھا ؟ فلک سے جو اُتر آیا ! تمھاری آنکھ میں بسنے کہا ، وہ خواب جیسا تھا ، نہیں تعبیر تھی اسکی ، اسے اِک شب سُلا آئے کہو ، وہ عشق کیسا تھا ؟ بِنا سوچے بِنا سمجھے ، بِنا پرکھے کیا تُم نے کہا ، تتلی کے رنگ جیسا ، بہت کچا انوکھا سا ، جبھی اس کو بھُلا آئے کہو ، وہ نام کیسا تھا ؟ جِسے صحراؤں اور چنچل ، ہواؤں پر لکھا تُم نے کہا ، بس موسموں جیسا ، نا جانے کس طرح کس پل کسی رو میں مِٹا آئے
میرے ضبط کی خاموشی کو توڑ کر اسے اک لہجہ عطا کر جو اظہار کرے یا میرے مفقود الوجود درد کو جسم کی حدوں میں قید کر دےعبد المطلب مقید
سنو تم سے میری بات ہوی تھی تم نے مجھ کو سمجھایا تھا اپنی ذات سے باہر نکلو گھر کو لوٹو گھر کو دیکھو اور بھی لوگ تمھارے دم سے زندہ ہیں تم میں اپنی ساری خوشیاں دیکھ رہے یہں سوچ لیا یے دیکھ لیا یے لوٹ آیاہوں لیکن میرے اندر کوئی ٹوٹ گیا ہے
ایک پشیمانی سی رہتی ھےالجھن اور گرانی بھی آؤ پھر سے لڑ کر دیکھیں شاید اس سے بہتر کوئی اور سبب مل جائے ھمکو پھر سے الگ ھو جانے کا
بہت تاخیر سے لیکن کھلا یہ بھید خود پر بھیکہ میں اب تک محبت جان کر جس جذبہِ دیرینہ کو اپنے لہو سے سینچتی آئی وہ جس کی ساعت صد ِ مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی فقط اک شائبہ ہی تھا محبت کا یونہی عادت تھی ہر رستے پہ اس کے ساتھ چلنے کی وگرنہ ترکِ خواہش پر یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا ذرا سی آنکھ نم ہوتی
تنہائی کرتی ہے جب یادوں کے تذکرے کچھ لفظ سسکیوں میں دم توڑ جاتے ہیں تجھے بھول جانے کی صدا مسکرانے کی قسم چھوڑ دیتے ہیں کچھ زخم پرانے نئ چال چل کر ہمیں مار جاتے ہیں تجھے یاد کرتے ہیں دل ضبط کے دھاگوں سے آذاد کرتے ہیں ہرحوصلےکی جنگ ہم ھار جاتے ہیں
بھول جاؤ کہ اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے؟ یہی نا! دو چار ملاقاتیں ادھورے شکوے ادھوری باتیں اور کچھہ اداس شامیں چند ٹوٹی ہوئی امنگیں فون کی بے ربط کالیں اور کیا ہے اپنے ماضی میں؟ بھول جاؤ
اونچے قد کے بونے لوگ ۔۔۔!! لب پر میٹھے میٹھے بول دل میں کینہ، بغض ، ریا نیت میں ازلوں سے کوٹ لفظوں کا بیوپار کریں مطلب ہو تو پیار کریں جھوٹے دعوے یاری کے شعبدے ہیں مکاری کے وقت پڑے تو کھلتے ہیں اُونچے قد کے بونے لوگ ۔۔!!