1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مختار مائی پر فخر کریں یا شرم؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از ع س ق, ‏25 جون 2006۔

  1. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    مسعود عالم
    بی بی سی اردو، لندن

    ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بہادری ہے یا ملک کی بدنامی؟

    برطانیہ اور ویلز میں ہر روز ایک سو سڑسٹھ خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں۔


    [​IMG]

    آسٹریلیا کی صرف ایک ریاست، نیو ساؤتھ ویلز میں ایک سال کے اندر گیارہ ہزار جنسی زیادتی کے کیس درج کیے گئے جن میں سے تریسٹھ اجتماعی زیادتی سے متعلق تھے اور تین سو بیس میں زیادتی کا نشانہ بننے والے کم عمر بچے تھے۔

    سویڈن کی نوے لاکھ نفوس پر مشتمل چھوٹی سی آبادی میں ایک سال میں دو ہزار ایک سو جنسی زیادتی کے کیس درج ہوئے جبکہ رپورٹ نہ ہونے والے جنسی جرائم کی تعداد دس گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔

    اور امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایک سال میں ملک بھر میں نوے ہزار عورتوں نے ریپ کے کیس درج کروائے اور ان میں سے بارہ فیصد بچیاں تھیں۔

    اس سب کے باوجود ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھنے والے یہ تمام ممالک انسانی حقوق کی پاسداری، خصوصاً عورتوں کے تحفظ کے حوالے سے کیوں جانے جاتے ہیں؟ عورتوں کے خلاف اتنے سنگین جرائم، اور انکے شرمناک اعداد و شمار کے حوالے سے کیوں نہیں؟

    اس کے مقابلے میں چودہ کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان میں ایک سال کے دوران صرف پانچ سو بہتر جنسی زیادتی کے کیس درج ہوئے، اور اس کے باوجود پاکستان کا امیج، ملک کے اندر اور باہر، ایک جاہلانہ اور فرسودہ معاشرے کا کیوں ہے، جس میں عورتوں، بچوں اور معاشرے کے دوسرے کمزور افراد کا استحصال نہ صرف عام ہے بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے قانون کی سرپرستی بھی حاصل ہے؟

    اس کا تعلق اس رویے سے ہے جو کوئی معاشرہ زیادتی کا نشانہ بننے والوں، اور ان پر ظلم کرنے والوں سے روا رکھتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایسے مظلوموں کی دادرسی کی جاتی ہے اور مجرموں کو سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں ایسے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے مظلوموں کو دھونس یا لالچ سے خاموش کروایا جاتا ہے، جس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

    میروالہ کی مختار مائی جنسی زیادتی کی شکار ان بہت ہی کم عورتوں میں سے ہے جو معاشرتی زنجیروں کو توڑ کر انصاف طلب کرتی ہیں۔ لیکن اب اس کا سامنا پوری سرکاری مشینری سے ہے جو اس کی زبان بندی پر کمر بستہ نظر آ رہی ہے۔

    اس کو کئی روز سے حبس بیجا میں رکھا جا رہا ہے، اسے کسی سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں اور اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ امریکہ میں مقیم ایشیائی لوگوں کی ایک تنظیم کی دعوت پر امریکہ جانے کا منصوبہ ترک کر دے۔ سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ’اٹھائے جانے‘ کے بعد مختار مائی نے وزیر اعظم کی قریبی مشیر کے ساتھ بیٹھ کر اسلام آباد کی ایک میڈیا کانفرنس میں امریکہ نہ جانے کا اعلان کر دیا تو بھی اسے گھر جانے کی اجازت نہیں ملی جب تک امریکی سفارت خانے سے اس کا پاسپورٹ واپس نہیں ملا۔

    ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والی اسی حکومت نے چند ماہ پہلے سوئی، بلوچستان کی ڈاکٹر شازیہ خالد کو خاموشی سے ملک سے باہر بھجوا دیا کیونکہ وہ بھی اپنے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتی پر انصاف مانگ رہی تھی۔ مظلوموں یا مبینہ مظلوموں کو خاموش کرنے کی اس پالیسی سے پاکستانی معاشرے میں اس رویے کو مزید تقویت مل رہی ہے جس کے تحت زیادہ تر مظلوم عورتیں انصاف کی بجائے موت یا گمنامی مانگتی ہیں۔

    ان حالات میں جنسی جرائم کے سرکاری اعداد و شمار کی بجائے پاکستان میں حقوق انسانی کی تنظیم ایچ آر سی پی کی رپورٹ زیادہ قابل بھروسہ نظر آتی ہے جس کے مطابق ہر گھنٹے ملک میں کہیں ایک عورت جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے اور ہر چار روز میں کوئی بدقسمت اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے، لیکن ان کی ایک نہایت قلیل تعداد شکایت کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔

    شاید این جی اوز کے یہ اندازے مبالغے پر مبنی ہوں، لیکن ہر قیمت پر روشن خیال اور اعتدال پسند دکھائی دینے کی کوشش میں مصروف اس حکومت کے محرکات پر بھی یقین نہیں کیا جا سکتا جوگندگی کو ڈھونڈنے اور اسے ختم کرنے کی بجائے اس کو چھپا کر یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ اس غلاظت کا کوئی وجود ہی نہیں۔

    لیکن مسلسل گندگی پر پردہ ڈالنے سے اس کی بدبو ختم نہیں ہوتی۔ حکومت مختار مائی کو امریکہ جانے سے تو روک سکتی ہے لیکن اس دھیمی آواز والی ان پڑھ عورت کا احتجاج پہلے ہی وہاں پہنچ چکا ہے۔ روزنامہ نیو یارک ٹائمز کے چودہ جون کے ایڈیشن میں کالم نگار نکولس کرسٹوف نے مختار بی بی پر لگائی گئی سرکاری پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

    ’اب سمجھ میں آتا ہے کہ جنرل مشرف اسامہ بن لادن کو کیوں نہیں پکڑ سکے! اس لیے کہ ان کی حکومت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک عورت کو ڈرانے دھمکانے، بند کرنے، اور اسے اغوا کرنے سے ہی فرصت نہیں ملی۔ اور اس عورت کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہوئی زیادتی پر احتجاج کرتی ہے اور امریکہ جانے کا ارادہ رکھتی ہے‘۔
     
  2. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    یا پھر سیاستدانوں کو بہلانے سے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں