1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

محسن نقوی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏18 دسمبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے
    کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے
    اب کے بستی نظر آتی نہیں اُجڑی گلیاں
    آؤ ڈھونڈیں کہیں درویش دعاؤں والے
    سنگزاروں میں مرے ساتھ چلے آئے تھے
    کتنے سادہ تھے وہ بلّور سے پاؤں والے
    ہم نے ذرّوں سے تراشے تری خاطر سورج
    اب زمیں پر بھی اتر زرد خلاؤں والے
    کیا چراغاں تھا محبت کا کہ بجھتا ہی نہ تھا
    کیسے موسم تھے وہ پُر شور ہواؤں والے
    تُو کہاں تھا مرے خالق کہ مرے کام آتا
    مجھ پہ ہنستے رہے پتھر کے خداؤں والے
    ہونٹ سی کر بھی کہاں بات بنی ہے محسنؔ
    خامشی کے سبھی تیور ہیں صداؤں والے

    محسنؔ نقوی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: محسن نقوی

    بہت خوب زیرک جی، شاد رہیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: محسن نقوی

    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
  4. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: محسن نقوی

    میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!!!!

    میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
    میری تخلیق میرے فکر کی پہچان بھی ہے
    میرے حرفوں ، میرے لفظوں میں ہے چہرہ میرا
    میرا فن اب میرا مذہب ، میرا ایمان بھی ہے
    میر و غالب نہ سہی ، پھر بھی غنیمت جانو
    میرے یاروں کے سِرہانے میرا دیوان بھی ہے
    مجھ سے پوچھو کہ شکستِ دل و جاں سے پہلے
    میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیا کیا
    سایۂ دار و شبِ غم کی سخاوت سے الگ
    میں نے سوچی قد و گیسو کی علامت کیا کیا
    میرے ٹوٹے ہوئے خوابوں کے خرابوں سے پرے
    میرے بکھرے ہوئے جذبے تھے سلامت کیا کیا
    طنزِ اغیار سے احباب کے اخلاص تلک
    میں نے ہر نعمتِ عظمیٰ کا لبادہ پہنا
    دستِ قاتل کی کشش آپ گواہی دے گی
    میں نے ہر زخم قبا سے بھی زیادہ پہنا
    میری آنکھوں میں خراشیں تھیں دھنک کی لیکن
    میری تصویر نے ملبوس تو سادہ پہنا
    ضربتِ سنگِ ملامت میرے سینے پہ سجی
    تمغۂ جرّات و اعزازِ حکومت کی طرح
    کھُل کے برسی میری سوچوں پہ عداوت کی گھٹا
    آسمانوں سے اُترتی ہوئی دولت کی طرح
    قریہ قریہ ہوئی رسوا میرے فن کی چاہت
    کونے کونے میں بکھرتی ہوئی شہرت کی طرح
    میرے آنگن میں حوادث کی سواری اُتری
    میرا دل وجہِ عذابِ در و دیوار ہوا
    عشق میں عزّتِ سعادت بھلا کر اکثر
    میر صاحب کی طرح میں بھی گناہ گار ہوا
    اپنی اُجڑی ہوئی آنکھوں سے شعاعیں لے کر
    میں نے بجھتی ہوئی سوچوں کو جوانی دی ہے
    اپنی غزلوں کے سُخن تاب ستارے چُن کر
    سنگریزوں کو بھی آشفتہ بیانی دی ہے
    حسنِ خاکِ رہِ یاراں سے محبت کر کے
    میں نے ہر موڑ کو اِک تازہ کہانی دی ہے
    مجھ سے روٹھے ہیں میرے اپنے قبیلے والے
    میرے سینے میں ہر اِک تیرِ ستم ٹوٹا ہے
    کربِ نا قدریِ یاراں کے بھنور میں گھِر کر
    بارہا دل کی طرح شوق کا دم ٹوٹا ہے
    میں کہ اس شہر کا سیماب صفت شاعر ہوں
    میں نے اس شہر کی چاہت سے شرف پایا ہے
    میرے اعدا کا غضب ابرِ کرم ہے مجھ کو
    میرے احباب کی نفرت میرا سرمایہ ہے
    مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
    جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
    میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
    وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
    میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
    میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی!!!!
     
    پاکیزہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: محسن نقوی

    آؤ وعدہ کریں

    آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
    دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم
    زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
    اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
    فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی
    اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
    اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو
    یوں سنبھالیں گے ، مثلِ چراغِ حرم
    جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
    بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
    پہرہ داروں کی صورت چھپائے رک ہے
    جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
    آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم -- پھر ارادہ کریں
    جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں
    جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں
    جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں
    جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں
    جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں
    جتنے گل رنگ مہتاب گہنا گئے -- جتنے معصوم رخسار
    مرجھا گئے
    جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں
    سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں
    بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم
    مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم
    دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم
    زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئے
    اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل
    صرف آرائشِ پیرہن کے لئے ، مسکرائیں گے رنج و غم
    دہر میں
    اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئے
    طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے
    فن کے لئے
    آؤ وعدہ کریں
    سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئے
    جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے
    دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم
    آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم
    آؤ وعدہ کریں
     
    پاکیزہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: محسن نقوی

    غزل

    طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
    حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی

    اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
    ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی

    حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
    جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی

    حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
    آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی

    سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
    آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی

    وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
    اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی

    محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
    حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی
     
    پاکیزہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ﻣﺮﺣﻠﮯ ﺷﻮﻕ ﮐﮯ ﺩُﺷﻮﺍﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
    ﺳﺎﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﮦ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﻭﮦ ﺟﻮ ﺳﭻ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
    ﻭﮦ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮔُﻨﮩﮕﺎﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﺻﺮﻑ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﻮ
    ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻟﯽ ﺑﮍﮮ ﺧﻮﺩ ﺩﺍﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﻭﮦ ﺟﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺭﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ
    ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﮑﺎﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﺮﻥ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺭُﻻ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
    ﻭﮦ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻋﺰﺍ ﺩﺍﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﺟﻦ کی ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺪﺍ ﭘﯿﺎﺱ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﭼﻤﮑﯿﮟ
    ﺩﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻭﮨﯽ ﻓﻨﮑﺎﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    ﺷﺮﻡ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩُﺷﻤﻦ ﮐِﺴﮯ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﻣﺤﺴﻦ
    ﺩُﺷﻤﻨﯽ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﮨُﻮﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

    محسن نقوی
     
    پاکیزہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں چاہنے والوں کو مخاطب نہیں کرتا
    اور ترکِ تعلق کی وضاحت نہیں کرتا

    میں اپنی جفاؤں پہ کبھی نادم نہیں ہوتا
    اور اپنی وفاؤں کی تجارت نہیں کرتا

    خوشبو کسی تشہیر کی محتاج نہیں ہوتی
    سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا

    احساس کی سولی پہ لٹک جاتا ہوں اکثر
    میں جبرِ مسلسل کی شکایت نہیں کرتا

    میں عظمتِ انسان کا قائل توہوں محسن
    لیکن کبھی بندوں کی عبادت نہیں کرتا

     
    پاکیزہ اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
    تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے

    ہم ایسے خاک نشین کب لبھا سکیں گے اسے
    وہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہے

    جو ہو سکے تو یہی رات اوڑھ لے تن پر
    بجھا چراغ اندھیرے میں ٹٹولتا ہے

    اسی سے مانگ لو خیرات اسکے خوابوں کی
    وہ جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند گھولتا ہے

    سنا ہے زلزلہ آتا ہے عرش پر محسن
    کہ بے گناہ لہو جب سناں پہ بولتا ہے
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    پاکیزہ بہن ۔ خوبصورت انتخاب ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں