ایک ترحی غزل آپ کی بصارتوں کی نظر ،۔ ۔ ۔ محبتوں سے دلوں کو یوں بھر کے دیکھتے ہیں دیارِ عشق میں اب ہم بھی ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے گہرا سمندر ہے تیرا دل جاناں سو تیرے دل میں کسی دن اتر کے دیکھتے ہیں سنوارتی ہے محبت ہی خال و خد سارے تمہارے پیار میں ہم بھی سنور کے دیکھتے ہیں سنا ہے ملتا ہے جیون نیا محبت میں سو اس کی راہ میں ہم آج مر کے دیکھتے ہیں اترتے ہیں تیری آنکھوں میں کیوں یہ لوگ صنم یہ بھید کیا ہے چلو ہم اتر کے دیکھتے ہیں بچھڑ کے ہوتا ہے احساس جو محبت کا تو آج ہم بھی تجہی سے بچھڑ کے دیکھتے ہیں سنا ہے بات بڑھانے سے بات بنتی ہے ،یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں، کنول یہ آنکھ جو بوجھل ہے تیری خوابوں سے کوئی تعبیر ہی ہم اب اس میں بھر کے دیکھتے ہیں
سنوارتی ہے محبت ہی خال و خد سارے تمہارے پیار میں ہم بھی سنور کے دیکھتے ہیں بہت خوب۔۔۔۔بہت خوب نظر کرتی ہو آپ۔۔۔۔زبردست
بہت خوب کنول جی ۔ آپ کی یہ غزل بھی بہت اچھی ہے۔ ماشاءاللہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اسی وزن اور قافیے پر فراز یا امجد کی بھی ایک غزل ہے۔ ہے نا ؟
ارے ن ع ی م یعنی نعیم جی (اب صحیح لکھا نا؟۔ ۔ ۔ ۔ ) میں نے لکھا تو ہے شروع میں کہ یہ ترحی غزل ہے اور سنا ہے بات بڑھانے سے بات بنتی ہے ،یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں، اس شعر میں گرہ بھی لگائی ہے اسی لئے تو ڈارک اور کومہ میں ہے۔ آپ اپنی عینک کہاں بھول جاتے ہیں، لگا کے دیکھا کیجئے نا ،۔ ۔ ۔ :176:
اجی آپ کو دیکھ کر ۔۔ میرا مطلب ہے آپکی غزل کو دیکھ کر۔۔ کس کمبخت کو عینک یاد رہتی ہے :bigblink: ویسے وضاحت کے لیے شکریہ
[/quote:2ql7dm6y] ابھی نعیم بھائی اتنے بھی بوڑھے نہیں ھوئے، جو آپ انہیں ابھی سے چشمہ ڈھونڈنے کو کہہ رھی ھیں،!!!!![/quote ہائے اللٌہ پھر کتنے بوڑھے ہوئے ہیں ،۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کنول جی ۔ کاش یہی سوال آپ نکاح کی مبارکبادیاں لینے سے کچھ عرصہ قبل کر لیتی :164:[/quote:2u0hc596] کیوں جی ۔۔۔۔
بڑے دنوں سے غزل یہ سجی ہوئی تھی یہاں،،، تو سوچا آج، اِسے ہم بھی پڑھ کے دیکھتے ہیں نعیم بھائی کو عینک کی کیا ضرورت ہے؟،،، وہ دور بین کے ساتھ چھت پہ چڑھ کے دیکھتے ہیں اوہ، معاف کیجئگا کنول جی، ہم صرف آپ کی شاعری کی داد دینے آئے تھے۔ ماشاءاللہ فراز کی زمین پر اچھے پھول اگائے ہیں آپ نے :101: