1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مجموعہِ کلام از مزمل شیخ بسمل

'آپ کی شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از مزمل شیخ بسمل, ‏3 اگست 2012۔

  1. مزمل شیخ بسمل
    آف لائن

    مزمل شیخ بسمل ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2012
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ملک کا جھنڈا:
    نظم
    (مزمل شیخ بسمل)

    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
    کہ میں نے ہجر کی ہر شام کس مشکل سے کاٹی ہے
    اندھیرے میں مصلّے پر دعائیں مانگنا میرا
    وہ سارے دن
    وہ سب راتیں
    تمھاری آرزو کرنا
    مرے آنسو کا میرے ”گال“ ہی پر خشک ہو جانا
    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
    کہ میرا جنوری کی سرد اور تاریک راتوں میں
    یوں کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے کچھ سوچتے رہنا
    کبھی سوچوں میں گم یک دم کوئی آنسو نکل آنا
    مری بیچارگی کو تم کبھی آکر کے دیکھو تو
    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
    کہ جب اپریل آتا ہے
    تمھاری یاد لاتا ہے
    کبھی موسم نہیں بھی ہو
    مگر برسات ہوتی ہے
    کبھی یادوں میں تم آکر مجھے بے حد ستاتے ہو
    کبھی دن ختم ہوجانے پے بھی یادیں نہیں جاتیں
    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
    کہ میں کس حال میں ہوں اب
    یہ ویرانی ہے کیوں دل پر
    مری آنکھوں کے حلقے ہر کسی پر کیوں نمایاں ہیں
    مرے چہرے پے لکھی ہر کہانی دکھ بھری کیوں ہے
    مری سانسوں سے آہوں کی یہ آوازیں کیوں آتی ہیں
    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟
    کہ اب بھی ساری تصویروں میں کتنے پر کشش ہو تم
    تمھاری ہر ادا اوروں سے کتنی مختلف سی ہے
    مگر مجھ سے بچھڑ کر تم بھی کچھ مرجھا گئے ہو اب
    تمھارے بن یہاں میں بھی بہت غمگین رہتا ہوں
    بہت شکوے ہیں اس دل میں مگر خاموش رہتا ہوں
    تمھیں کیا کیا بتاؤں میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
    بھلا کیا کیا سنوگے تم؟
    تمھیں اب کیا بتاؤں میں؟​
     
  2. فیصل سادات
    آف لائن

    فیصل سادات ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2006
    پیغامات:
    1,721
    موصول پسندیدگیاں:
    165
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجموعہِ کلام از مزمل شیخ بسمل

    ماشاءاللہ۔
    بہت خوبصورت نظم ہے بسمل صاحب۔
     
  3. مزمل شیخ بسمل
    آف لائن

    مزمل شیخ بسمل ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2012
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجموعہِ کلام از مزمل شیخ بسمل

    (غزل)
    (مزمل شیخ بسمل)

    یہی ہے بسؔمل مرا عقیدہ کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں
    وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

    ہے منتخب یہ ازل سے رشتہ کہ یار مجھ میں ، میں یار میں ہوں
    نہ اس نے سوچا نہ میں نے سمجھا کہ یار مجھ میں ، میں یار میں ہوں

    ہوا ہے وہ امتزاج پیدا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں
    ہے دونوں قالب میں روح تنہا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

    تمام عالم کی جستجو ہے ہوۓ ہیں دو ایک جان کیسے
    یونہی ہے حیران چشمِ بینا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

    وہ مجھ میں کھویا میں اس میں کھویا جہان میں لا ولد ہیں گویا
    کرشمہ الفت نے یہ دکھایا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں

    وہ میری پتلی میں ہے سراپا میں اس کی پتلی میں ہوں سراپا
    خود اپنی آنکھوں میں آج دیکھا کہ یار مجھ میں، میں یار میں ہوں
     
  4. مزمل شیخ بسمل
    آف لائن

    مزمل شیخ بسمل ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2012
    پیغامات:
    18
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: مجموعہِ کلام از مزمل شیخ بسمل

    غزل
    (مزمل شیخ بسمل)

    ہنس کے اتنے پھول وہ برسا گئے
    میرے آنسو اپنی قیمت پا گئے

    دل میں وہ اک آگ سی بھڑکا گئے
    ہے وظیفہ اب یہی وہ آ گئے

    اپنے غم دیکر مجھے وہ کیا گئے
    میرے مہماں اور مجھ کو کھا گئے

    کم سنی میں مجھ کو ان سے دکھ نہ تھا
    پھٹ پڑے ، ہو کر جواں اترا گئے

    ان سے چٹم چوٹ کچھ مہنگی نہ تھی
    دوستی کرکے تو ہم اکتا گئے

    کیا طریقہ گفتگو کا تھا وہاں
    ہو کے ہم با ہوش دھوکا کھاگئے

    کوئی تو دیکھے مری بیچارگی
    ظلم وہ اس جاں پے کتنے ڈھا گئے

    مجھ کو ہر شے میں وہی آئے نظر
    کائناتِ زندگی پر چھا گئے

    مر کے بسمؔل کو ملی کامل حیات
    قبر پے ٹسوے بہانے آگئے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں