1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماہ کامل (ربیع الاول )

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏4 جنوری 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    :titli:ماہ کامل (ربیع الاول ):titli:


    ماہ ربیع الاول جس کو ماہ کامل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس ماہ عظیم میں حضور سرور کون و مکاں، رحمۃ اللعالمین شفیع المذنبین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا فانی میں تشریف لائے۔ ولادت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے :

    لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ.

    (التوبه، 9 : 128)

    ’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

    ربیع کے معنی ’’بہار‘‘ کے ہیں اور الاول کے معنی ’’پہلا‘‘ ہے۔ عربی قاعدے کے مطابق ربیع الاول مرکب اضافی ہے جس کا معنی ’’پہلے کی بہار‘‘ ہے اور ماہ ربیع الاول کا معنی پہلے کی بہار کا مہینہ ہے۔

    ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح اقدس حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل اللہ کی بارگاہ میں نور تھی وہ نور اقدس اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول تھا اور فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسبیح کے ساتھ تسبیح کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو وہ نور اقدس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صلب میں رکھا۔ (الشفاء، ج 1، ص 87)

    اس میں کیا شک ہے کہ اس کائنات کو عدم سے وجود میں لانے سے پہلے کائنات کو جس بہار سے آشنا کیا گیا وہ بہار اول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور نبوت تھا لیکن اس نور نبوت کے ظہور کے لئے جس مہینے کا انتخاب عمل میں آیا وہ مہینہ ربیع الاول ہے۔ یہ حدیث مبارکہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کائنات کی سب سے پہلی بہار ماہ ربیع الاول میں آئی اور اس میں بھی خداوند کریم کی حکمت پوشیدہ ہے۔ ورنہ سن ہجری کے بارہ مہینوں میں جن چار مہینوں کو حرمت عطا کی گئی وہ مہینے ذی القعد، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب ہیں۔ ربیع الاول ان میں شامل نہیں ہے۔ جس مہینے کو ’’سید الشہور‘‘ یعنی مہینوں کا سردار کہا گیا ہے۔ وہ رمضان کا مہینہ ہے ربیع الاول نہیں۔ جن مہینوں کو بعض خصوصیات کی وجہ سے محترم اور مبارک سمجھا جاتا تھا وہ شعبان اور شوال ہیں۔ ربیع الاول ان میں شامل نہیں تو پھر عقل سوچتی ہے کہ کیا وجہ ہے اس کائنات کی وہ عظیم ترین ہستی جسے مقصود کائنات قرار دیا گیا ہے، جس کو مطلوب کائنات کہا گیا ہے، جس کے لئے آسمانوں کو بلندیاں اور زمین کو وسعتیں ملیں، جس کے لئے مر مر کو شوخیاں اور نسیم کو لطافتیں، ندیوں کو بہاؤ، شاخوں کو جھکاؤ ملا، ستاروں کو تابانی، سورج کو درخشانی، چاند کو لمعانیت، رات کو تاریکی اور دن کو اجالا ملا، جس کے لئے سبزے کو لہک، بجلی کو چمک، پرندوں کو چہک اور جگنو کو جگمگاہٹ ملی، دریاؤں کو تلاطم اور سمندروں کو تموج ملا، آدم علیہ السلام کو انابت اور حضرت نوح علیہ السلام کو جوش تبلیغ عطا ہوا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خوش الحانی اور حضرت زکریا علیہ السلام کو ذوق عبادت ملا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جذبہ تسلیم و رضا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو حسن و جمال بخشا گیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو صبر و رضا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کو پاک دامنی عطا کی گئی۔ جس کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جوش جہاد اور حضرت ہارون علیہ السلام کو امانت کی سعادت ملی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بت شکنی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جذبہ ایثار بخشا گیا۔ غرضیکہ جس کے دم سے انبیاء کو نبوتیں اور مرسلین کو رسالتیں دی گئیں۔ جس کی خاطر دنیا کو گل زار اور بہشت کو بہاریں عطا کی گئیں۔ اس قدر عظیم المرتبت اولولعزم اور مقدس و پاکیزہ ہستی کی ولادت کے لئے ربیع الاول جیسے ایک ایسے مہینے کا انتخاب عمل میں لایا گیا جس کا شمار نہ حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے اور نہ اس مہینے کو دوسرے مہینوں میں کوئی امتیازی مقام تھا۔ حالانکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام کائنات میں سے افضل ترین انسان ہیں۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ کیا پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے قبیلہ بنی کنانہ کو منتخب کیا، پھر قبیلہ بنی کنانہ میں سے قریش کو فضیلت دی، پھر قریش میں سے بنی ہاشم اور اس میں سے مجھ کو پسند کیا۔ (سنن ترمذی، ج 5، ص 243)

    جب ہم عشق و محبت کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر دیکھتے ہیں تو وجدان پکار پکار کر کہتا ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت محرم، رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ کے مہینوں میں ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں میں دو چند اضافہ ہوجاتا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے لئے رمضان المبارک کا انتخاب کیا جاتا تو عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار چاندلگ جاتے۔ لیکن وجدان کی گہرائیوں سے اٹھنے والی اس صدائے دل نواز کے جواب میں ہاتف غیبی کی مسحور کن آواز گونج اٹھی ہے کہ تمہیں کیا معلوم خدائے بزرگ و برتر نے اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے لئے حرمت والے مہینوں اور رمضان جیسے عظیم الشان مہینے کی بجائے ربیع الاول کا انتخاب کس حکمت کے پیش نظر کیا ہے۔ آؤ ذرا اس حکمت کو بھی دیکھو، اگر اس نبی اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت محرم میں ہوتی تو چونکہ حرمت والا مہینہ ہے تو لوگ اس سے گمان کرتے کہ حرمت والے مہینے میں پیدائش کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت دوبالا ہوگئی ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت رجب، ذوالقعدہ، ذی الحجہ میں ہوتی تو دنیا شاید یہی رائے قائم کرتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظمتیں اس لئے ملیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں والے مہینوں میں پیدا ہوئے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے لئے رمضان کو منتخب کرلیا جاتا تو لوگ یہی سمجھتے کہ رمضان کا مہینہ چونکہ تمام مہینوں کا سردار ہے اس لئے اس مہینے میں پیدا ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں کے سردار بن گئے۔ گویا حرمت و عظمت والے مہینوں سے نسبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کو پہچانا جاتا، خداوند کریم نے تمام حرمت والے مہینوں کو چھوڑ کر ماہ مبارک ربیع الاول کا انتخاب اس حکمت کے پیش نظر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہونے والی چیزوں کو بھی عظمت مل جائے۔ محرم، رجب، ذوالقعدہ، ذی الحجہ کو تو پہلے عظمت حاصل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس ماہ مبارک میں پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی نسبت سے ربیع کا مہینہ بھی باعظمت بن گیا۔ اس حکمت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے لئے جمعۃ المبارک کی بجائے پیر کے دن کا انتخاب کیا تاکہ پیر کا دن بھی باعظمت بن جائے۔ آج اگر ربیع الاول اور پیر کو امتیازی شان حاصل ہے تو وہ نسبت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبب سے ہے تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ ہمارے نبی قدرت کا وہ عظیم شاہکار ہیں کہ جس مہینے کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی وہ مہینہ ممتاز ہوگیا جس شہر کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی وہ شہر اعلیٰ بن گیا۔ جس قبیلے کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی وہ قبیلہ باعظمت ہوگیا جس زمانے کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی وہ زمانہ ممتاز ہوگیا۔ یہاں تک کہ خاکِ عرب کے جن ذرات کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے ہوئی وہ ذرے آفتاب ہوگئے۔

    قدم بوسی کی دولت مل گئی تھی چند ذروں کو
    ابھی تک چمکتے ہیں ستاروں کی جبیں بن کر

    جس طرح شب تاریک کی ظلمت سید عالم کی آمد کا مژدہ اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے اس طرح طغیان و عصیاں کی فراوانی اور فواحش و عصیاں کی کثرت دریائے رحمت الہٰی کے جوش میں آنے اور کسی ایسے نفس قدسی کے دنیا میں جلوہ گر ہونے کی بشارت دیتی ہے جو ایک اشارہ چشم و ابرو سے عظیم الشان سلطنتوں کے تختے الٹ دیتا ہے جس کی زبان حقیقت ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ کفرو طاغوت کی رگ گردن کے لئے تیرو نشتر کا حکم رکھتا ہے اور جو چشم زدن میں کار گاہ حیات کا نقشہ بدل دیتا ہے۔ خاکدان گیتی کا ہر گوشہ اور ہر چپہ ان چشمہ ہائے ہدایت کے نور سے سیر ہوا تا آنکہ 571ء میں جب ابنائے آدم تذلل و تسفل کی انتہائی گہرائیوں میں گرچکے تھے جب ان بندوں کی گردنیں اصنام و اوثان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے وقف ہوگئی تھیں جب حریت نفس اور آزادی ضمیر کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ جب اللہ کے بندے فسق و فجور میں مبتلا تھے اور خدا کے احکام سے غافل ہوگئے تھے۔ جب انسانیت کبریٰ پر بہیمیت و نفسانیت پورے طور پر غالب آگئی تھی اور جب اس خطہ ارض پر جہالت و ضلالت کی تاریکی پورے طور سے مسلط ہوچکی تھی۔ تب دنیا کا سب سے بڑا ہادی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب سے برگزیدہ انسان مبعوث ہوا۔

    ہوئی ان کی آمد آمد تو برائے خیر مقدم
    کہیں کھل گئے گلستان کہیں ہوگیا چراغاں

    جس کی جبین تابناک سے نور حقیقت کی شعاعیں نکل رہی تھیں جس کے جاہ و جلال کو دیکھ کر قیصر و کسریٰ کے تخت لرز گئے۔ جس کے فیضان نے ظلمت زدہ اراضی کو بُقعہ نور بنادیا۔ جس کے قدم رکھتے ہی استعمار کی زنجیریں کٹ گئیں۔ تمیز رنگ و نسل مٹ گئی۔ انسانیت کا کھویا ہوا وقار قائم ہوگیا۔ معبودان باطلہ کا خاتمہ ہوگیا اور جس نے چار سوئے گیتی میں یہ اعلان کردیا کہ شاہی و خسروی وجہ افتخار و امتیاز نہیں بلکہ خدا کے نزدیک اسی کا رتبہ ہے جو تقویٰ میں سب سے افضل ہو۔

    عام اس سے کہ وہ افریقہ کے کسی تپتے صحرا کا حبشی ہو یا یورپ کے برفانی خطہ کا سفید فام انسان یہود اسے دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ ابراہیم علیہ السلام و موسیٰ علیہ السلام کی دعائیں مقبول ہوکر اس کی شکل میں جلوہ گر ہوئیں۔ نصاریٰ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت مجسم ہوکر سالکان مسالک شرک و ضلالت کو سرمنزل ہدایت و سعادت کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے جلوہ گر ہوگئی۔ اہل دنیا جو صراط مستقیم کو چھوڑ کر پریشان ہورہے تھے۔ اس کی طرف دوڑے، بندوں کو وہ عہد یاد آگیا جو انہوں نے معبود حقیقی سے باندھا تھا اور دنیا کے درو بام اس نور ممثل کی روشنی سے جگمگا اٹھے۔

    بارہ ربیع الاول کا دن اس فصل مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا میں آنے کا دن ہے جس کی شان رحمۃ اللعالمین نے سپیدو سیاہ امور اصغر و اکبر کو اپنی آغوش میں پناہ دی، جس کے نور ہدایت سے دنیا کا ہر چھوٹا اور بڑا رہتی دنیا تک فیضیاب ہوتا رہے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاران کی چوٹی پر کھڑے ہوکر ایک پیغام دیا جن روحوں نے اس پیغام پر لبیک کہا انہیں خلافت الہیٰہ عطا ہوئی۔ قیصر و کسریٰ کے تاج ان کے قدموں پر نثار ہوئے اور جب تک آفتاب مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا رہے گا دنیا اس درّ یتیم کے اس اعجاز کو نہ بھولے گی۔


    تحریر محمد عرفان صدیقی
    دختران اسلام،اپریل 2008
     
  2. گل
    آف لائن

    گل ممبر

    شمولیت:
    ‏9 دسمبر 2006
    پیغامات:
    74
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    جواب: ماہ کامل (ربیع الاول )

    جزاک اللہ
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ماہ کامل (ربیع الاول )

    اللہ کریم آپ کے علم میں وسعت اور نیکیوں میں برکت عطا فرمائیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں