<center> ميں سوئي جو اِک شب تو ديکھا يہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اِضطراب يہ ديکھا کہ ميں جا رہي ہوں کہيں اندھيرا ہے اور راہ ملتي نہيں لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھي تو ديکھا قطار ايک لڑکوں کي تھي زمرد سي پوشاک پہنے ہوئے ديئے سب کے ہاتھوں ميں جلتے ہوئے وہ چپ چاپ تھے آگے پيچھے رواں خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں اِسي سوچ ميں تھي کہ ميرا پسر مجھے اس جماعت ميں آيا نظر وہ پيچھے تھا اور تيز چلتا نہ تھا ديا اُس کے ہاتھوں ميں جلتا نہ تھا کہا ميں نے پہچان کر، ميري جاں! مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں! جدائي ميں رہتي ہوں ميں بے قرار پروتي ہوں ہر روز اشکوں کے ہار نہ پروا ہماري ذرا تم نے کي گئے چھوڑ، اچھي وفا تم نے کي جو بچے نے ديکھا مرا پيچ و تاب ديا اُس نے منہ پھير کر يوں جواب رُلاتي ہے تجھ کو جدائي مري نہيں اِس ميں کچھ بھي بھلائي مري يہ کہہ کر وہ کچھ دير تک چپ رہا ديا پھر دکھا کر يہ کہنے لگا سمجھتي ہے تو ہو گيا کيا اِسے؟ ترے آنسوئوں نے بجھايا اِسے </center>