1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماں خوش تو بچے بھی خوش ۔۔۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان

Discussion in 'اردو ادب' started by intelligent086, Aug 19, 2020.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    ماں خوش تو بچے بھی خوش ۔۔۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سید فیصل عثمان
    Maa Khush.jpg
    جب میں چھوٹا سا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں سکو ل بند تھے ۔ میں اور میرا بڑا بھائی گھر میں ٹہل رہے تھے۔ کھیل کود میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں۔ بوریت ستائے جارہی تھی۔ تب میں اپنی ماں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ' 'ماما ،بہت بور ہو رہا ہوں، کیا کروں‘‘۔کچھ مائیں بچوں کی یہ بات سن کر ٹالنے کی بڑی غلطی کرتی ہیں۔کچھ بچوں کی مائیں ان سے بھی زیادہ بوریت کا شکار ہوتی ہیں۔ ایسی مائوں کے بچے بوریت کے عادی ہو جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مائوں کے خوش رہنے اور گھر کے کام کرنے سے بچوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ احساس ذمہ داری جنم لیتی ہے اور گھر میں رہنے والوں کے ساتھ مثبت رشتے استوار ہوتے ہیں ،یہی ہی زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔ لیکن نہیں، میری ماں ایسی نہ تھی اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا، '' بہت اچھا کیا، میرے پاس آ گئے، میرے پیچھے آئو۔ تب وہ اپنی جگہ سے فوراً اٹھیں ، میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا، اسے ہلکے سے دبایا ،اور پھر ہم دونوں گھر کے کا م کاج میں لگ گئے۔
    اس وقت میں نے اپنی ماں کے ساتھ گھر کی صفائی کی، اس بھاگ دوڑ میں انہوں نے مجھ سے ٹوائلٹ بھی صاف کروا لیا،ننھے سے بچے سے کیا کام لے لیا،اب سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں ۔ اس دن بارش کا موسم تھا ،صحن میں کافی پانی جمع ہو گیا تھا،ماں نے مجھے دوسرے کپڑے دیئے اور بازو سے کھینچتے ہوئے صحن میں لے گئیں، میں بھی خوشی خوشی ان کے ساتھ ہو لیا۔ ہم دونوں نے مل کر پانی صاف کیا ۔ مجھے اس کام میں بہت مزہ آیا۔ اور میرا وہ وقت بہت اچھا گزرا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ بوریت کی صورت میں مجھے کوئی نہ کوئی کام کرلینا چاہیے۔ انسان بور اسی وقت ہوتا ہے جب اس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو۔
    آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی ماں کی وہ ایک ایک بات ذہن میں گھومتی پھرتی سنتی اور ذہن میں گونجتی دکھائی دیتی ہے۔ و ہ کہتی تھیں کہ '' آپ کوئی بھی کام کر کے اپنی بوریت کو دور کر سکتے ہیں‘‘ ۔ مجھے اپنی کامیابی کے پیچھے ماں ہی ماں دکھائی دیتی ہیں، اگر آپ بھی کوئی کام شروع کرنے والے ہیں تو یاد رکھیے کوئی کام ایسا نہیں جسے بہت سارے لوگ کر رہے ہوں ،بہت سے ایسے کام ہیں جسے بہت سارے لوگ نہیں کر رہے ہوتے ،آپ وہی کام کیجئے۔
    جب میں چھوٹا تھا تب میں سوچتا تھا کہ یہ چیزیں کیسے کام کرتی ہیں۔ ٹوسٹر میں ٹوسٹ کیسے گرم ہوتا ہے جب میں 4سال کا ہوا تو میرے ابو باتھ روم میں تھے ،وہ اس وقت سنک کو جوڑ رہے تھے ،اس میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ ٹھیک کرنے کے بعد وہ اپنا ٹول باکس وہیں بھول گئے۔ تب مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی، میں نے ابو کا ٹول باکس اٹھایا اور واش روم میں گھس گیا۔ سنک کو دوبارہ کھولا اور اسے اپنے باپ کی طرح دوبارہ جوڑ دیا ۔ سائنسدان کہتے ہیں چیزوں کو الگ کرنا اور پھر انہیں دوبارہ جوڑنا، یہ بچو ں کی سائنسی سوچ کی علامت ہے اور انہیں یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ اس کام میں ناکامی ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی سے مسئلے حل کرنے کا سبق ملتا ہے۔جب میں نے مڑ کر دیکھا تو میری ماں اور ابو چپکے چپکے دیکھ رہے تھے ، میں ذرا سا ڈرسا گیا کہ وہ کہیں مجھ پر پاگلوں کی طرح نہ چلائیں ،تب وہ میری طرف بڑھے ، ابو قہقہہ لگا کر بولے '' بہت اچھا کیا ،ایسے فیصلے تم مزید بھی کرتے رہنا۔تمہیں اپنے آپ سے بھی کوئی نہ کوئی کام کرتے رہنا چاہیے‘‘۔یہ کہہ کر انہوں نے مجھے گلے سے لگا لیا۔اس سے مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ،ایسی خود اعتمادی میں نے اپنے اندر پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی۔اس سے میں نے پہل کرنا سیکھا، مجھے یہ سمجھ آئی کہ کامیابی کا راستہ کسی کام کے آغاز کر نے سے شروع ہوتا ہے ، میرے باپ نے بھی بہت حوصلہ افزائی کی، مجھ پرتنقید نہ کرنے سے مجھ میں مسئلوں کو سلجھانے کی صلاحیت اور تجربہ کرنے کی ہمت پیداہوئی ، یہ دونوں چیزیں ایک اچھے انجینئر اور اچھے سرمایہ کار کی بنیادی ضرورت ہیں۔ جب میں ذرا بڑا ہوا،یہ سوچنے لگا کہ میرے ابو کس طرح زندگی گزارتے ہیں ،تو میں نے اپنی ماں کو اپنے ساتھ کھڑا پایا ، انہوں نے مجھے ایک اچھا پروفیشنل بننا سکھایا ،جیسا کہ میں آج ہوں۔ اور یہی وہ بہترین صلاحیتیں ہیں جو ایک ماں اپنے بچے کو سکھا سکتی ہے۔
     

Share This Page