1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ماں باپ کے بارے میں قرآن و حدیث کیا فرماتا ہے

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏1 ستمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں

    سُوۡرَةُ بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء
    وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا‌ ؕ اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا‏ ﴿۲۳﴾ وَاخۡفِضۡ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارۡحَمۡهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِىۡ صَغِيۡرًا ؕ‏ ﴿۲۴﴾

    اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا ﴿۲۳﴾ اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما ﴿۲۴﴾

    قَضٰی بمعنی حکم دیا، لازم قرار دیا اور واجب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے ساتھ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو ملایا ہے جس سے اس کا مقام اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے ہی اپنے شکر کے ساتھ والدین کا شکر بھی متصل بیان کیا۔

    {أَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَطإِلَیَّ الْمَصِیْرُ o} [لقمان:۱۴]
    ’’کہ میرا بھی اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کرو، میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ ‘‘

    اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی وجہ سے اس کا شکریہ ادا کرنا اور والدین کا تربیت کی وجہ سے شکریہ ادا کرنا۔

    سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

    "جس نے پانچوں نمازیں ادا کیں اس نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نمازوں کے بعد اپنے والدین کے لیے دعا کی اس نے والدین کا شکریہ ادا کیا۔"


    عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہما قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:
    أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ: (( أَلصَّلَاۃُ عَلیٰ وَقْتِھَا۔)) قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ۔))


    حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:
    ’’کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر کون سا عمل؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ ‘‘


    علماء فرماتے ہیں:
    اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم پکڑا جائے اور اس کے بعد اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ حقدار والدین ہیں۔
    ان کے ساتھ نیکی اور احسان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان انہیں ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے کیونکہ یہ بالاتفاق کبیرہ گناہ ہے


    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    (( إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ أَنْ یَّلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ۔ )) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَیْفَ یَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ: (( یَسُبُّ الرَّجُلُ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہَ، وَیَسُبُّ أُمَّہٗ فَیَسُبُّ أُمَّہٗ۔ ))
    خرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یسب الرجل والدیہ، رقم: ۵۹۷۳۔


    ’’کہ کبیرہ گناہ میں سے بڑا گناہ اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ سوال ہوا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آدمی کیسے اپنے والدین کو گالی دیتا ہے؟ جواب ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ (بدلہ) میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو (بدلہ) میں وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ ‘‘

    ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:

    قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم :
    أُجَاھِدُ؟ قَالَ: (( لَکَ أَبَوَانِ؟ )) قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: (( فَفِیْھِمَا فَجَاھِدْ۔ ))
    أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: لا یجاھد إلا بإذن الأبوین، رقم: ۵۹۷۲۔

    ’’ کیا میں جہاد کے لیے نکلوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے جواب دیا: ہاں جی! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں جہاد کر۔ (یعنی ان کی خدمت کر) ‘‘

    ایک آدمی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
    اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا والد چاہتا ہے کہ میرا مال ختم کردے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ:
    (( أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ۔ ))
    صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۸۵۵۔

    ’’ تو اور تیرا مال، تیرے والد کا ہی ہے۔ ‘‘

    اولاد اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ نرم اور احترام والی اور ہر عیب سے صاف اور پاک بات کرے۔

    چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
    (( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ۔ )) قِیْلَ: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ ))
    أخرجہ مسلم في کتاب البر، باب: رغم من ادرک ابویہ او احدھما عند الکبر، فلم یدخل الجنۃ، رقم: ۶۵۱۱۔

    ’’ اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو۔ سوال ہوا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا۔ ‘‘
     

اس صفحے کو مشتہر کریں