1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لیڈر

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏18 اپریل 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    اپنے جیسا لیڈر بالحق عنایت عادل
    میدان سیاست بہت عجیب و غریب اور ظالم چیز ہے اسی کی خاطر بہت سارے لوگ اپنا نظریہ دین اور ملک تک چھوڑ جاتے ہیں اور یہ صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں سیاست کا شعبہ ایسا ہی ہے۔ لیکن اپنے ملک جو الحمد اللہ اسلامی فلاحی عوامی اور جمہوری بھی ہے یہاں پر سیاست کا انداز ہی نرالا ہے -گذشتہ پانچ سال جمہوریت کے پھل کھانے والے(حکومتی اور غیر حکومتی) لیڈروں کو آخر کار اگلے انتخابات کیلئے بے وقوف عوام کو مزید بے وقوف بنانے کا خیال آہی گیا ہے ۔سیاسی شعبدہ بازوں نے نت نئے ڈرامہ بازیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے کچھ پرانے بازیگرنت نئے ڈراموںاور فنکاروں کیساتھ زور آزمائی کررہے ہیں جبکہ کچھ ایسے لوگ جو کبھی دوسروں کے جلسوں میں کرائے پر لوگ لاکر اپنا حصہ وصول کرتے تھے وہ بھی ماشا اللہ یہاں پر الیکشن کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔میدان سیاست کے پرانے کھلاڑی خود تو کیمرے کے پیچھے ہیں لیکن انہوں نے شہریوں کو بے وقوف بنانے کیلئے گامے فیدے کو آگے لاکر کھڑا کردیا ہے جو اپنے نمک حلال کرتے ہوئے شہر کے مختلف دیواروں پر اپنے آقائوں کی شان میں نعرے بھی لکھ رہے ہیں اور بعض نے بینرز بنالئے ہیں جن میں اپنے لیڈروں کی شان میں وہ وہ قصیدے لکھوا ڈالے ہیں کہ جن کو پڑھ کر یقیناََ یہ لیڈر بھی اپنے ان چمچوں پر ہنستے ہونگے۔ دیواروں کو کالا کرتے یہ سفید جھوٹ تو بہرحال شہر کے کونے کونے پر دیکھے جا سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مختلف گلی محلوں ، بیٹھکوں چوکوں میں برادریاں کھینچنے(بلکہ خریدنے ) کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں مخصوص برادریوں کے عام لوگ تو بس ٹھپہ لگانے کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان پروگراموں سے سب سے زیادہ فائدہ گامے اور فیدے جیسے لوگوں کا ہے جن کے نام آج کل بینرز پر غلام اور فرید لکھے جارہے ہیںاور انہیں اپنی ہی برادری کو کوڑیوں کے مول بیچنے اور اسے بے وقوف بنانے کے بدلے میں بہت کچھ مل رہا ہے۔گزشتہ پانچ سال میں ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام تو کجا،اس کی آب و ہوا سے بھی گھن کھاتے یہ سیاسی شعبدہ باز اب عوام کے دکھ میں گھلے چلے جا رہے ہیں۔اب ٹرانسفارمروں کی بیماریاں بھی ان کو دکھائی دے رہی ہیں۔ اب نالیوں ، گلیوں سڑکوں کی ابتری بھی انہیں نظر آنی شروع ہو چکی ہے۔ اب گیس کے کنکشن بھی انچ در انچ بچھائے جا رہے ہیں۔ اب نکاسی آب کے منصوبے کا خیال بھی قریباََ سب کو آ رہا ہے۔ اب ہریالی کو ترستی ڈیرہ اسماعیل خان کی بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے کی حکمت عملیاں بھی ان کی زبانوں پر مچلنا شروع ہو چکی ہیں۔ اب شہر میں پارکوں کی کمی بھی ان کی نیندیں اڑا رہی ہے۔ اب ڈیرے کا امن بھی ان کے منشور کا حصہ بن چکا ہے اور اب وزیرستان کے جرگے بھی ان کے فرائض میں شام ہو گئے ہیں۔ کہیں سرائیکیوں کو اپنے حقوق یاد دلائے جا رہے ہیں تو کہیں پشتو بولنے والوں کو اس شہر کی شہریت کا احسا س دلا یا جا رہا ہے، کوئی اردو بولنے والوں کو اپنی اکثریت کے ادراک پر اکسا رہا ہے تو کوئی دیہاتیوں سے شہری ماحول فراہم کرنے کے وہ وعدے کر رہا ہے کہ جس سے خود ڈیرہ اسماعیل خان کا شہری علاقہ صدیوں سے محروم ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی حضور۔۔ نوکریوں کا جھانسہ جو کہ ان دنوں میں سب سے اہم ہتھیار ہوا کرتا ہے، اسے بھی تیز تر کیا جا چکا ہے ، الیکشن کمیشن لاکھ پابندی لگائے، وعدے تو کئے جا سکتے ہیں۔اتنے با رعب سیاستدان کا وعدہ بھی تو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایسی قد آور شخصیات کا تو دیدار ہی چیتھڑوں میں لپٹے خالی پیٹ (اور خالی دماغ) لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا، اور اگر ایسی ہستی صرف اتنا ہی کہہ دے کہ '' جا بچہ، تیرا کام ہو جائے گا'' تو اس کے بعد یاترا کرنے والے ان سیاسی معتقدین کیلئے کسی دوسرے عامل کا نام لینا خود اپنی ہستی کو جلانے کا مترادف سمجھا جاتا ہے۔مندراں کلاں سے تعلق رکھنے والے ایک دوست سے ملاقات ہوئی، کہنے لگے عنایت بھائی آپ کچھ ایسا مضمون لکھیں کہ جس میں عوام کو یہ شعور دیا جا سکے کہ وہ ''اپنے جیسا'' لیڈر چنیں۔ میں نے جواباََ ہنس کر کہا کہ عوام یا تو ''اپنے جیسی '' ہو گی اور یا پھر لیڈر۔۔۔کہنے لگے وہ کیسے؟ تو عرض کیا کہ ہم غلامی کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ ہم نے ہر اس زمینی خدا کے آگے سر جھکایا ہے کہ جو اپنے ساتھ چند مچھ ڈنڈے پھراتا ہو۔ انسانوں اور گھوڑوں سے کھچتی رتھ سے لے کر لینڈ کروزر پجیرو تک ہم نے ہمیشہ جاہ و جلال کی پوجا کی ہے۔جب ''اپنے جیسوں'' کے پاس نہ رتھ ہو گی اور نہ ہی مچھ ڈنڈے، تو آس پاس کے ''اپنے جیسوں'' کا (غلامانہ) دماغ خراب ہوا ہے جو وہ ایسے بھک منگوں کو اپنا لیڈر مان لیں جو خود بے نظیر انکم سپورٹوں، وطن کارڈوں، خپل روزگاروں، سستے تندوروں، اور سیاسی امدادوں اور سفارشی پرچیوں کے لئے لائن میں لگے رہتے ہوں؟۔۔ اس دوست نے کل بات کرنے کا کہتے ہوئے اجازت طلب کر لی۔میرا جواب انہیں برا لگا یا شاید ''اپنے جیسوں'' کی حقیقت جان لی، اسکا نہ میں نے پوچھا اور نہ ہی ان صاحب نے کوئی اشارہ دیا۔ خیرکچھ دن گزرے تو انہی صاحب کا فون آگیا۔۔ کہنے لگے عنایت بھائی، آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔پچھلے پانچ سال سے جو لوگ اب کی بار اپنے ووٹ پھاڑنے کی حد تک جذباتی ہو رہے تھے، اب انہی لوگوں کو میں نے سیاسی لوگوں کی گاڑیوں کے آگے بھنگڑے ڈالتے دیکھا ہے۔انکے ہاتھ چومتے پایا ہے۔ اور انکی تعریف میں شرک و بدعت امڈتی دیکھی ہے۔ میں نے قہقہہ لگا کر تلخی کو رد کرنے کی کوشش کی تو تلخ وہ ہو گئے، کہنے لگے میں آپ کے سامنے اپنی قوم کی بے غیرتی کی بپتا سنا رہا ہوں اور آپ ہنس رہے ہیں؟ میںنے معذرت کے ساتھ جواب دیا کہ جو بات میں آپ کے تجربے سے پہلے ہی آپ کو بتا چکا تھا اس پر آپ تو جذباتی ہو سکتے ہو ، میں نہیں۔کافی دن ہو گئے ہیں ان کادوبارہ فون نہیں آیا۔ معلوم نہیں ابھی تک جذبات میں جل رہے ہیں یا '' اپنے جیسا '' لیڈر بننے کی مشق میں غرق ہیں۔۔دونوں ہی صورتوں میں مقدر ایک جیسا ہی ہے۔ جل جل کر بھی مرنا ہے اور غرق ہو کر بھی ''اپنے جیسا'' ہی رہنا ہے۔ اور اپنے جیسوں کو زندہ کہنا، زندگی کے ساتھ مذاق ہی ہے، بھونڈا مذاق۔
     
    ھارون رشید اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب لکھا بھائی عنایت عادل صاحب۔ تلخ نوائی کا حق ادا کیا ہے۔
    واقعی سچ یہی ہے کہ خرابی ہمارے شعور کی ہے۔ ہمیں بےشعور رکھا گیا
    اور اس پر ظالم استعمار کی سازش یہ ہے کہ بےشعور عوام کو ہمیشہ "باشعور " کہہ کر مزید بےوقوف بنایا جاتا ہے۔
    ہمیں بطور عوام درحقیقت نہ حقیقی جمہوریت کا مطلب پتہ ہے، نہ جمہوری رویوں کا اور نہ ہی جمہوریت کے معاشرے پر اثرات کا۔
    ہمیں 5 سال بعد ایک دن کے لیے "ووٹ" کا حق دے کر لولی پاپ دیا جاتا ہے کہ یہی جمہوریت ہے۔
    ووٹ لے چکنے کے بعد اشرافیہ، کرپٹ مافیا ، لٹیروں ، وڈیروں، رسہ گیروں کی طرف سے ایک خاموش پیغام آتا ہے۔
    اے پاکستانی عوام !!!
    تم نے ووٹ ڈال دیا ۔ اب ظلم کی چکی میں پسنے کے لیے 5 سال کے لیے دفع ہوجاؤ ۔ ہم جانیں، اسمبلیاں جانیں، ملکی خزانہ جانے اور ہماری عیاشیاں جانیں۔
    ہاں تمھیں بھی حق ہے۔
    تمھیں حق ہے خود سوزی کا
    تمھیں حق ہے خود کشی کا
    تمھیں حق ہے اپنے بچوں کو بیچنے کا
    تمھیں حق ہے اپنے گردے اور خون بیچنے کا
    تمھیں حق ہے مرنے کا۔
    تم عوام مرتے پھرو۔۔ مر جاؤ گے تو کوئی غم نہیں
    تمھاری آئندہ نسلیں ۔۔۔ غلام ہوں گی ۔۔ ہماری آئندہ نسلوں کی
    یہی جمہوریت ہے۔ اے پاکستانی عوام !!!

    جب تک پاکستانی عوام اپنے حقوق کا شعور حاصل کرکے ظلم کے اس نظام اور اسکے محافظوں کے خلاف اٹھ کھڑی نہیں ہوتی ۔ عوام کے حقوق کی عصمت دری جاری رہے گی ۔
     
  3. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    نوازش! ہم لکھاری تو نہیں۔۔۔مگر جو اضطراب دل میں ہے، قلم کے راستے کاغز پر انڈیلتے رہتے ہیں۔۔۔ بقول شاعر۔۔۔ کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں