1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لڑکیاں جو لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں

'گوشہء خواتین' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏29 مارچ 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    لڑکیاں جو لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں

    افغانستان میں سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے والدین چاہتے ہیں کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو، اس خواہش یا ترجیح کی وجہ سے بعض ایک قدیم روایت ’بچہ پوش‘ اپناتے ہیں جس میں لڑکی کا بھیس بدل کر اسے لڑکے کا روپ دیا جاتا ہے۔
    افغان پارلیمان کی سابق رکن عزیتہ رفعت جب اپنی بیٹوں کو سکول کے لیے تیار کر رہیں تھیں تو ایک بیٹی کا لباس بلکل مختلف تھا۔

    تینوں بیٹوں کا یونیفام سفید تھا اور سر پر سکاف تھا لیکن چوتھی بیٹی نے سوٹ اور ٹائی لگا رکھی تھی اور گھر سے نکلنے کے بعد اس کا نام مہرنؤش کی بجائے مہران تھا۔
    عزیتہ رفعت کے ہاں اولادِ نرینہ نہیں ہے تو اس کمی کو پورا کرنے اور لوگوں کی طعنوں سے بچنے کے لیے انہوں نے ایک انتہا پسندانہ فیصلہ کیا اور ایسا کرنا بہت آسان تھا، صرف چھوٹے بال اور لڑکوں جیسا لباس۔
    افغانستان میں لڑکیوں کو لڑکوں کا بھیس دینے کا باقاعدہ نام ہے اور اس کو ’بچہ پوش‘ کہا جاتا ہے۔
    افغانستان میں آپ اگر پیسے والے ہیں اور معاشرے میں عزت ہے تو اس صورت میں لوگ آپ کو ایک مختلف انداز سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق بیٹے کے صورت میں ہی آپ کی زندگی مکمل ہوتی ہے۔
    لوگوں کے طعنے
    "جو کوئی بھی ہمارے گھر آئے تو وہ کہے گا کہ ہمیں بہت افسوس کہ آپ کا بیٹا نہیں ہے، تو اس صورت میں ہم نے سوچا کہ بیٹی کو لڑکے کا بھیس دینا ایک اچھا خیال ہے اور اس میں ہماری بیٹی کی رضامندی بھی شامل تھی"
    عزت اللہ رفعت
    مسز رفعت کے خاوند عزت اللہ رفعت کے خیال میں بیٹا عزت اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
    ’جو کوئی بھی ہمارے گھر آئے تو وہ کہے گا کہ ہمیں بہت افسوس کہ آپ کا بیٹا نہیں ہے، تو اس صورت میں ہم نے سوچا کہ بیٹی کو لڑکے کا بھیس دینا ایک اچھا خیال ہے اور اس میں ہماری بیٹی کی رضامندی بھی شامل تھی۔‘
    افغانستان میں عزیتہ رفعت وہ واحد ماں نہیں ہیں جنہوں نے اپنی بیٹی کا بھیس بدلا ہے۔
    افغانستان کے بازاروں میں آپ کو بہت سی لڑکیاں لڑکوں کے بھیس میں نظر آئیں گی۔
    بہت سارے خاندان اس لیے اپنی بیٹیوں کا حلیہ تبدیل کرتے ہیں تاکہ وہ باہر سڑکوں پر آسانی سے کام کر سکیں، جس سے ان کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔
    لڑکے کے بھیس میں زندگی گزارنے والی ایک لڑکی ایلہ کا کہنا ہے کہ’ اگر میرے والدین میری زبردستی شادی کرے گے تو میں افغان خواتین کے دکھ کا ازالہ کروں گی اور اپنے خاوند سے بہت بری طرح مار پیٹ کروں گی۔

    افغانستان میں بہت ساری لڑکیاں لڑکوں کا لباس پہنچ کی سڑکوں پر محنت مزدوری کرتی نظر آتی ہیں
    کچھ لڑکیاں جو اپنے آپ کو لڑکے کے طور پر متعارف کراتی ہیں، وہ پانی، چونگم جیسی اشیا فروخت کرتی ہیں۔ یہ لڑکیاں اپنی عمر سے کافی بڑی نظر آتی ہیں اور ان میں سے کسی نے بھی لڑکے کے بھیس میں کام کرنے کے تجربے کے بارے میں نہیں بتایا۔
    جن لڑکیوں کی لڑکے کی طرح پرورش کی جاتی ہے وہ ساری زندگی اس بھیس میں نہیں گزار سکتی ہیں۔
    جب یہ ستراں ، اٹھارں سال کی عمر کو پہنچتی ہیں تو دوبارہ لڑکیوں کی زندگی شروع کرتی ہیں لیکن یہ سب کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے۔
    ایلہ افغانستان کے شہر مزار شریف کی رہائشی ہیں۔ وہ بیس سال تک لڑکے کے بھیس میں رہیں اور صرف دو سال پہلے دوبارہ اپنے اصل روپ میں اس وقت آئیں جب انھیں یونیورسٹی جانا تھا۔
    تاہم وہ خود کو ایک مکمل خاتون نہیں سمجھتی ہیں اور ان کی عادات بھی لڑکیوں جیسی نہیں اور وہ شادی بھی نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
    آزادی حاصل تھی
    "جب میں چھوٹی تھی تو اس وقت میرے والدین نے میرا بھیس بدل دیا کیونکہ میرا کوئی بھائی نہیں تھا، کچھ عرصہ پہلے تک میں لڑکے کے طور پر باہر جا سکتی تھی، لڑکوں کے ساتھ کھیل سکتی تھی اور مجھے بہت آزادی حاصل تھی"
    ایلہ
    ’جب میں چھوٹی تھی تو اس وقت میرے والدین نے میرا بھیس بدل دیا کیونکہ میرا کوئی بھائی نہیں تھا، کچھ عرصہ پہلے تک میں لڑکے کے طور پر باہر جا سکتی تھی، لڑکوں کے ساتھ کھیل سکتی تھی اور مجھے بہت آزادی حاصل تھی۔‘
    وہ چارو ناچار اپنے اصل روپ میں آئیں اور ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سماجی روایات کی بنا پر ایسا کیا۔
    ’اگر میرے والدین مجھے شادی پر مجبور کریں گے تو میں افغان خواتین کے دکھوں کا بدلہ لوں گی اور اپنے شوہر کو خوب ماروں گی تاکہ وہ مجھے ہر روز عدالت لے کر جائے۔‘
    مزار شریف کی مشہور نیلی مسجد کے سربراہ عتیق اللہ انصاری کے مطابق وہ خاندان جن کے ہاں بیٹا نہیں ہوتا تو وہ خوش قسمتی کے طور پر اپنی بیٹی کے بھیس کو بدل دیتے ہیں تاکہ اللہ انھیں بیٹا عطا کرے۔
    ان کا کہنا تھا کہ جن ماؤں کے ہاں بیٹا پیدا نہیں ہوتا تو وہ مزارِ حضرت علی پر آتی ہیں اور بیٹے کے لیے دعا کرتی ہیں۔
    عتیق اللہ انصاری کا کہنا تھا کہ اسلام کے مطابق وہ لڑکی جو لڑکے جیسی زندگی گزارتی ہے اور جب ایک خاص عمر تک پہنچتی ہے تو اسے اپنا سر لازمی طور پر ڈھانپنا پڑتا ہے۔
    افغانستان میں اس طرح کی کہانیاں عام ہیں اور ہر ایک کے ہمسایے یا خاندان میں کسی نہ کسی نے یہ طریقہ اپنایا ہو گا۔
    شمالی صوبے بلخ میں حقوق خواتین کے محکمۂ میں کام کرنے والی فریبہ ماجد کو بھی لڑکے کا بھیس دیا گیا تھا اور ان کو واحد کا نام دیا گیا۔
    ’میں اپنے خاندان میں تیسری بیٹی تھی اور جب میں پیدا ہوئی تو میرے والدین نے مجھے لڑکے کا بھیس دینے کا فیصلہ کیا۔‘
    ’میں اپنے والد کے ساتھ ان کی دکان پر کام کیا کرتی تھی اور یہاں تک سامان لانے کے لیے کابل تک جایا کرتی تھی۔‘
    ان کا کہنا ہے کہ زندگی کے اس تجربے سے اعتماد حاصل ہوا اور اسی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں۔
    یہاں یہ بات کوئی حیرانگی کا باعث نہیں ہو گی کہ عزیتہ رفعت خود بھی لڑکے کے بھیس میں زندگی گزار چکی ہیں۔
    ان کا کہنا تھا کہ’ میں آپ کو ایک راز بتاتی ہوں، جب میں چھوٹی تھی تو اس وقت میں لڑکے کے بھیس میں زندگی گزارتی تھی اور اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتی تھی۔
    ’مجھے مرد اور عورت دونوں کی دنیا کا تجربہ حاصل ہوا اور اس کی وجہ سے مجھے اپنا کیرئر بنانے میں بہت مدد ملی۔‘
    صدیوں پرانی روایت
    "افغانستان میں یہ روایت صدیوں پرانی ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس وقت شروع ہوئی ہو جب افغانی بیرونی حملہ آوروں سے جنگ کر رہے تھے اور اس وقت ضرورت کے تحت خواتین کو لڑکوں کا بھیس دیا گیا ہو"
    داوذ دروش
    ماہر عمرانیات داود راوش کے مطابق افغانستان میں یہ روایت صدیوں پرانی ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس وقت شروع ہوئی ہو جب افغانی بیرونی حملہ آوروں سے جنگ کر رہے تھے اور اس وقت ضرورت کے تحت خواتین کو لڑکوں کا بھیس دیا گیا ہو۔
    بلخ میں حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ قاضی محمد سمی نے اس روایت کو انسانی حقوق کی خلاف وزری قرار دیا ہے۔
    ’ہم کسی کی بھی وقتی طور پر جنس تبدیل نہیں کر سکتے ہیں، آپ کسی لڑکی کو کم عرصے کے لیے لڑکے کی شناخت نہیں دے سکتے۔‘
    اس روایت کے کئی لڑکیوں پر بدترین اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان کے خیال میں نہ صرف ان کے لڑکپن کی حقیقی یادیں نہیں رہیں بلکہ ان کی شناخت بھی بدل دی گئی۔
    دوسری طرف کئی لڑکیوں کے لیے ایک اچھا تجربہ تھا کیونکہ اس میں ان کو آزادی حاصل تھی جو ایک لڑکی ہوتے ہوئے میسر نہ ہوتی۔
    لیکن بہت ساروں کے لیے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح آزادی اور عزت حاصل ہو گی؟
     
  2. محمد فیصل
    آف لائن

    محمد فیصل ممبر

    شمولیت:
    ‏29 مارچ 2012
    پیغامات:
    1,811
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکیاں جو لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں

    نہیں۔میرے بھائی
    افغانستان ایک قدامت پسند معاشرہ ہے۔یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔بس امریکی فوجی جانے کی دیر ہے اور پھر اس کے درندہ دوبارہ سرگرم ہو جائیں گیں۔اور خاص طور سے عورتوں کو تو یہ کچھ جنس ہی نہیں سمجھتے
    پھر بھی دیکھتے ہیں آگے کیا ہو تا ہے​
     
  3. بےلگام
    Online

    بےلگام مہمان

    جواب: لڑکیاں جو لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں

    اتنا لمبا کون پڑرے بھایی اب میں چلا سونے باےےے
     
  4. ساروان
    آف لائن

    ساروان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 مارچ 2012
    پیغامات:
    50
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکیاں جو لڑکوں کی طرح زندگی گزارتی ہیں

    یہ جس نے بھی لکھا ہے سراسر جھوٹ لکھا ہے۔افغانستان میں ایسا کچھ
    نہیں ہوا اور نا آج ہو رہا ہے جو اوپر بیان کیا ہے۔
    انگریز آئے ضرور لیکن انکی ثقافت نہیں بدلی اب بھی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں