1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏9 جنوری 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    دن تیزی سے گزرتے جارھے تھے اور سارے کا سارا دھیان بالکل پڑھائی کی طرف تھا، بس کبھی کبھی مصوری کا شوق کسی نہ کسی کی تصویر بنانے پر مجبور کردیتا اور جسکی رھنمائی بھی یہ دونوں بہنیں بھی کرتی تھیں، اور اب ھم تینوں نے زیادہ تر وقت پڑھائی کی طرف لگانا شروع کردیا اور میں اور باجی ھی اس وقت میٹرک کا ھی امتحان دے رھے تھے اسکول بھی ایک ھی تھا اور زادیہ نویں کلاس میں تھی، یہ خود اب مجھے تعجب ھورھا ھے جب میں ساتویں میں تھا تو بڑی مجھ سے ایک سال آگے تھی اور چھوٹی ایک سال پیچھے تھی، لیکن تعجب کی یہ بات ھے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان باجی اور میں ایک ساتھ دے رھے تھے، صرف زادیہ ھی ایک سال پیچھے تھی کچھ ھوسکتا ھے کہ یادداشت میں فرق ھوگیا ھو ، یا باجی ھی ایک کسی کلاس میں رہ گئی ھوں یا ایک سال ویسے ھی ضائع ھوگیا ھو،

    1965 کا زمانہ میٹرک کے امتحانات کے دن، میری 15 سال کی عمر ھوگی، ھم تینوں نے بہت محنت کی اور میں نے تو بالکل شرارتوں کی طرف سے بالکل ھاتھ ھی کھینچ لیا اور سنجیدگی اختیار کرلی، جبھی کوئی اور ایسا واقعہ بھی یاد نہیں آرھا تھا جس کے سنانے سے کوئی دلچسپی ھو اور کہانی آگے بڑھے، بس وہ اتنی جلدی سالانہ امتحانات کے دن بھی آگئے اور واقعی جو محنت کی تھی اس سے امید بھی تھی کہ اچھے نمبر آئیں گے مگر یہ بورڈ کے امتحانات تھے، کچھ ڈر بھی لگ رھا تھا -

    امتحانات سے فارغ ھونے کے بعد ھمارے اسکول میں ایک میٹرک کے طلباء کے رخصت ھونے کی الوداعی پارٹی نویں جماعت کے لڑکوں نے دی جو ھمیشہ سے دستور رھا ھے، اور سب دوستوں کو اس اسکول سے جدا ھونے کا بہت دکھ ھورھا تھا، لیکن دوسری طرف کالج میں جانے کی خوشی بھی ھو رھی تھی -

    آخر وہ دن بھی آگیا جس کا بےچینی سے انتطار تھا، میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ جو اخبار لئے اپنے اپنے رول نمبر کی تلاش کررھے تھے، سب تو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھوگئے تھے لیکن میرا رول نمبر نظر ھی نہیں آرھا تھا تھرڈ ڈویژن کے کالم میں بھی دیکھا کچھ نظر نہیں آیا میرے دوست بھی پریشان اور میرا تو دماغ خراب ھو گیا کہا کہ یہ تو ھوھی نہیں سکتا اگر سیکنڈ ڈویژن نہ سھی مگر تھرڈ ڈویژن میں تو پاس ھونا ھی چاھئے تھا-

    اسی پریشانی میں، میں تو گھر بھی نہیں گیا اور اپنی قسمت کو کوستا ھوا اسی چوراھے کے پارک میں جاکر بیٹھ گیا جو میرا شروع سے اچھے اور برے وقت کا ساتھی رھا ھے!!!!!!!!!!!!!‌

    میں پھر ایک نئی پریشانی کا شکار ھوگیا تھا، کہ اس دفعہ اتنی محنت کرنے کے باوجود ایسا کیسے ھوگیا، مجھے ویسے پکا یقین تھا کہ کہیں کوئی غلطی ضرور ھے، میں اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ دیکھا میرا ایک اور دوست سڑک کے دوسری طرف سے مجھے آوازیں دے رھا تھا، میں فوراً اٹھا اور جلدی سے سڑک عبور کرکے اسکے پاس پہنچا، اس نے کہا کہ تم نے اپنا رزلٹ دیکھا میں نے کہا کہ ھاں یار میں تو فیل ھوگیا، کس نے کہا کہ تم فیل ھوگئے دیکھو میرا اور تمھارا دونوں کے رول نمبر ساتھ ساتھ سیکنڈ ڈویژن کے کالم میں چھپے ھوئے ھیں، مبارک ھو، میری تو خوشی کا ٹھکانہ ھی نہ رھا، میں فوراً بھاگتا ھوا گھر پہنچا وھاں پر تمام محلہ ھی اکھٹا ھوا تھا اور سب ھمارے گھر والوں کو مبارکباد دے رھے تھے!!!!!!

    میں فوراً مٹھائی لینے بازار بھاگا مگر پہلے ان دوستوں کے پاس دوسرے محلے میں بھاگا اور انہیں پکڑ کر پوچھا کہ تم نے میرا رزلٹ کیسے دیکھا کہ مجھے تو پریشان ھی کردیا، انہوں نے پھر وھی اخبار میں دوبارہ چیک کیا تو دیکھا کہ سیکنڈ ڈویژن کے بقایا نتائج دوسرے صفحے پر تھے، شکر ھے ایک بہت بڑا ایک اور دھچکا لگتے لگتے رہ گیا!!!!!!!

    میرا تو خوشی کے مارے برا حال تھا، ملکہ باجی بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ھوگئی تھیں اور زادیہ تو اب شاید میٹرک میں پہلے ھی پہنچ چکی تھی، ھم سب خوشیوں سے لبریز اچھلتے کودتے پورے محلے میں یہ خوشخبری سناتے پھر رھے تھے!!!!!!!!!!!!!!!!!

    ادھر ھمارے سیکنڈری اسکول میں میٹرک کا دور ختم ھوا اور ادھر جنگ کے آثار شروع ھوگئے، والد صاحب کا بھی ملٹری سے بلاوا آگیا، وہ بھی کمپنی سے مختصر چھٹی لے کر چلے گئے، سب نے انہیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا، بہرحال جنگ ختم ھوئی اور ساتھ ھی والد صاحب بھی واپس آگئے اور پھر سے جنگ کے پعد زندگی معمول پر آگئی،

    سیاست اور ملکی معشیت پر کیا اثر پڑا اس کا اس وقت تو اندازہ تو نہیں تھا اور نہ ھی عام لوگوں میں کوئی اتنی سیاست کی سمجھ بوجھ تھی، لیکن عام تاثر یہی تھا کہ 1965 کے بعد ملکی حالات میں کافی تبدیلیاں آئیں، مہنگائی کا دور آہستہ آہستۃ پروان چڑھتا چلا گیا، مگر اس کے تناسب سے آمدنی میں اضافہ نہیں ھوا، جس کی وجہ سے ملک میں کرپشن، رشوت اور بلیک میلنگ کا دور بھی چھوٹے پیمانے سے بڑھ کر بڑے پیمانے میں داخل ھوگیا 1971 کے جنگ کے بعد تو برائیوں کی جڑیں اور بھی مضبوط ھوگئیں، اور اب تک اس طرح جاری ھے، مگر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ!!!!!!!!!

    کسی چیز پر کوئی کنٹرول نہیں رھا، لوگوں کا صبر ختم ھوگیا، حرص اور ھوس، تعصبیت، حسد اور لالچ لوگوں کی نس نس میں گھستی چلی گئی، لاقانونیت بڑھتی چلی گئی، اور نشہ کا زھر شراب، چرس اور دوسرے خطرناک جان لیوا منشیات کا کاروبار سرعام ھونے لگا، اور اب ھر گلی کوچے میں کہیں نہ کہیں یہ زھر پھیلانے کے اڈے بڑے بڑے اثر رسوق کی پشت پناھی اور سرپرستی میں چل رھے ھیں، ان تمام وجوھات کی بناء پر ھماری تین نسلیں اس کا بری طرح شکار ھوئی ھیں، اب ھم خود اس بات سے اندازہ لگا سکتے ھیں کیا کبھی ھماری نوجوان نسلوں کو اس طرح کے حالات میں اپنے پیروں پر کھڑا ھوکر اپنے ملک کا نام روشن کرنے کا موقع ملے گا -

    اب بھی ھمارے پاس موقعہ ھے اب ھم اپنی آنے والی چوتھی نسل کو اس سے بالکل بچا سکتے ھیں، یہ ھماری ھی اولاد ھیں ھمارے ھی جگر کا ٹکڑا ھیں، اب بھی ھمیں اپنے چند روپوں کی لالچ میں آکر انکے مستقبل کو برباد کرنے پر تلے ھوئے ھیں، آج آپ صرف یہ سوچ لیں کہ ھم جس لڑکے اور لڑکی کو غلط راستے پر ڈال رھے ھیں، ھوسکتا ھے کہ کل کو آپ کے بیٹے یا بیٹی کو بھی کوئی اسی طرح غلط ماحول سے آشنا کراسکتا ھے،

    اور ھم جو اتنی بڑی بڑی معاشرے کی برائیوں کو روکنے کیلئیے تقریریں کرتے ھیں اور بڑے بڑے اجتمعات میں جاتے ھیں، لمبے لمبے مباحثوں میں نیک کاموں کیلئے شریک ھوتے ھیں،
    کیا ھم یہ کوششیں اپنی گلی اور محلے میں ان خرافات اور برائیوں کو روکنے کیلئے کوئی مل جل کر قدم اٹھا نہیں سکتے،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    کیا ھم یہ کوشش اپنے گھر سے شروع نہیں کرسکتے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    ایک واقعہ چند محلے کے معزز حضرات نماز پڑھنے جارھے تھے، اور انہوں نے اپنی گلی میں ھی ایک بچے کو ایک غنڈے سے نہ جانے کس بات پر بری طرح مار کھاتے ھوئے دیکھا اور وہ معزز حضرات بغیر کسی مداخلت کئے ھوئے آگے اپنے آپ کو بچاتے ھوئے مسجد کی طرف بڑھ گئے اور کسی کے پوچھنے پر یہی کہا کہ نماز کو دیر ھورھی ھے اور پھر ھم شریف لوگ ھیں، پولیس کچہری کے چکر میں نہیں پڑتے، محلہ کا بچہ اور محلہ کا ھی غنڈہ، کیا کسی مضلوم کی کی کسی ظالم کے پنجے سے جان چھڑانا ایک جہاد نہیں ھے، اس کا مطلب ھے کہ آپ کو اللٌہ کے آحکامات سے زیادہ آپکے محلے کے اس اکیلے غنڈے سے ڈر لگتا ھے -

    کسی نہ کسی محلے اور اسکی گلی میں پان کی دکان ھو یا کوئی چھوٹی سی نکڑ پر دکان ھو کہیں نہ کہیں یہ نشے کی زھر کا سامان کسی نہ کسی شکل میں بکتا ھے اور ھم تمام جو معزز لوگ کہلاتے ھیں، ان کو اس بارے میں پتہ بھی ھے اور ایک کونے میں پولیس کی موبائیل بھی کھڑی ھے، اور ان دکانوں سے کیا؟؟ آپ کے بچے گھروں میں چوریاں کرکے اپنے نشے کی عادت کو پورا نہیں کرتے ھیں،؟؟ اگر گھر میں چوری نہ کرسکیں تو یہی آپکے بچے مجبور ھوکر اسی دکان پر لوگوں کی جیبوں پر ھاتھ صاف کرتے ھیں اور نقدی کے علاوہ موبائیل سیل بھی سب کی نظروں کے سامنے سے اڑا لے جاتے ھیں، یہاں پر وہ جہاد کا فلسفہ کہاں چھپ جاتا ھے، ھر برائی کو ختم کرنا بھی ایک جہاد ھے، مگر ھم سب ملکر سڑکوں پر گھیراؤ اور جلاؤ کرنے تو نکل آتے ھیں، مگر کبھی اکھٹا ھو کر ان برائیوں کو روکنے کیلئے سامنے نہیں آتے، ارے بھائی یہ بھی تو جہاد ھے، چار پانچ آدمی اپنے ھی محلے میں چھوٹی سی برائی کو ختم کرنے کیلئے ایک بدمعاش کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ھیں اسلام کو بچانے کی، !!!!!!!!

    آج کل ھم جیسے لوگ 1965 کے بعد ھی سے اپنے ملک کو چھوڑ کر باھر کا رخ کرنے لگے، پہلے کبھی پاسپورٹ بنانا بہت مشکل تھا، لیکن آنے والی حکومتوں نے پاسپورٹ کا اجراء کچھ آسان کردیا ایجنٹوں کا دھندہ سرعام ایک اور نشہ کی طرح پھیلتا گیا کئ معصوم شریف لوگ ان ایجنٹوں کے چکر میں آکر لاکھوں روپیہ اپنے گھر کے زیورات مکانات اور جو بھی چھوٹی موٹی جائیداد تھی وہ بھی بیچ کر ان کی جیبیں بھریں اور جائز ناجائز طور سے دوسرے ملکوں میں کمانے کی غرض سے داخل ھوئے اور اب تک اسکی سزا بھگت رھیں ھیں، اور پھر بھی کوئی اثر نہیں ھوتا، اب بھی چلے آرھے ھیں اور یہاں بیٹھ کر پچھتا بھی رھے ھیں،!!!!!

    معاف کیجئے گا کچھ جذباتی ھوگیا ھوں، نہ ھم اپنے لئے کچھ کرسکے اور نہ ھی اپنے ملک کا کچھ نام کے آگے کوئی اسٹار لگا سکے، بچوں کی فکر میں کہ وہ وھاں کوئی غلط صحبت یا کسی بری لت میں نہ پڑ جائی اور بیویوں کی جدائی بھی برداشت نہ کرتے ھوئے کافی روپیہ مزید خرچ کرکے سب کو یہاں بلوا بھی لیا، اب یہ صورتحال یہ ھے نہ اپنے گھر کے رھے اور نہ گھاٹ کے رھے، نہ کوئی پیسہ بچا سکے جس نے بھی کچھ بھیجنے کی کوشش کی یا ضرورت کے تحت بھیجا بھی تو وہاں کسی اور محسن کے قبضے میں چلا گیا یا کسی کے ساتھ کاروبار میں لگا کر بندہ برباد ھو گیا اور اگر خود گیا تو گھر پر پہنچنے سے پہلے ھی لٹ گیا ورنہ گھر پر ھی ڈاکہ پڑنے کی اخبار میں سرخی لگی ،

    اب جب بھی اپنے ملک جاتے ھیں، تو بالکل ایک مہمانوں کیطرح سلوک ھوتا ھے اپنائیت کے بجائے ایک اجنبئیت محسوس ھوتی ھے، اور ڈرتے رھتے ھیں کہ کسی کو اپنے گھر میں ھی پتہ نہ چل جائے کہ ھم لوگ باھر سے آئیں ھیں اور وہاں کے لوگ بھی اب ھم سے اتنا ڈرتے ھیں کہ رات کو ھم کہیں رک نہ جائیں کیونکہ اگر کسی مخبر کو پتہ چل گیا تو کہیں ایسا نہ ھو کہ ڈاکہ بھی پڑے اور اخبار میں تصویروں کے ساتھ لوگوں کا مجمع بھی گھر پر تعزیت کیلئے لگا رھے!!!!!!!!!!!!!!!!!

    ھم جیسے کئی ایسے بھی ھیں کہ بڑے ھونے کے ناتے تمام گھر والوں کی ذمہ داریاں اپنا فرض سمجھ کر نبھاتے رھے، جب سب بہن بھائی بڑے ھوگئے اور اپنی اپنی تعلیم پوری کرکے، اپنے اپنے روزگار اور گھروں کے ھوگئے، ملنا تو چھوڑیں، سلام دعاء سے بھی گئے، اور جو کچھ والدیں کا بچا کھچا اثاثہ تھا، خریدوفروخت کرکے یہ کہہ کر ھضم کر گئے کہ آپ کو کیا کرنا ھے آپ تو باھر ھیں آپ کے پاس تو کافی مال ھوگا،

    اب ھماری باری آئی ھے کہ اب ھمیں کسی سہارے یا مدد کی ضرورت ھے، تو سب نے اپنے اپنے منہ موڑ لئے، مگر اب بھی ایسے خدا ترس لوگ موجود ھیں، جو واقعی ھم لوگوں کی حالت کو جانتے ھیں وہ اب بھی ھماری ھر لحاظ سے دل کھول کر مدد کرتے ھیں، جبکہ وہ اپنے ملک میں ھیں، اور اب ھمیں اپنے حال پر شرمندگی ھوتی ھے کہ ھم یہاں پر ھوکر بھی اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے کچھ نہیں کرسکے، کئی بچوں کی تعلیم ھی ادھوری رہ گئی، اور جب چھٹی جاتے ھیں اور واپسی پر پھر ایک اور سال بھر کا قرضہ چڑھا کر آجاتے ھیں اور پھر سال بعد جب پہلا قرضہ ختم ھوجاتا ھے تو پھر سے چھٹی جانے کی تیاری کرتے ھیں،

    اسی گردش میں اپنی ساری عمر تمام ھوگئی، لیکں پھر بھی اللٌہ کا شکر ھے کہ بات اب تک بنی ھوئی ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!

    بس کبھی کبھی دل اداس ھوتا ھے تو دل کی ساری بھڑاس نکال لیتا ھوں، ورنہ ھم لوگ کیا کرسکتے ھیں، ھم نے تو خود اپنے پیروں تلے گڑھے کھود رکھے ھیں، ھم نے اپنے بچوں کا مستقبل خود اپنے ھاتھوں سے ھی تباہ کردیا ھے، یہلی نسل کو تو سوچنے کا موقعہ ھی نہ ملا، دوسری نسل کو برے معاشرے نے ھاتھوں ھاتھ لے لیا جب تیسری نسل سامنے آئی تو وسائل کی کمی کا شکار ھوگئی، جس کا ذمہ دار وہ ھمیں ٹہراتی ھے!!!!!!!!

    اب ھم اپنا کیا بتائیں کہ ھم نے بھی ڈر کے مارے اپنے ملک کو اس وقت چھوڑا جس وقت ملک کو ھماری سخت ضرورت تھی، ھمارے ملک کے اچھے اچھے ٹیلنٹڈ ھنر مند لوگوں نے اپنی اپنی ساری ایمانداری اور محنت اپنے ملک میں انجام دینے کے بجائے دوسرے ملکوں میں جاکر ان کو فائدہ پہنچایا اور ساتھ اپنے پورے خاندان در خاندان کو بھی ساتھ لے گئے، ھماری سونا جیسی اگلتی زمینوں کو تقسیم کرکے، کچھ بیچ کر ایسے لوگون کے ھاتھ فروقت کر آئے جنہوں نے اس پر ہل کے بجائے بلڈوزر پھرواکر کالونیاں اور بلند و بالا اسٹینڈرڈ کی سوسائٹیاں بنانے اور جوکچھ بچی تھیں وہ ان معصوم کسانوں سے انہیں کی زمینوں پر ہل جتوا کر انکے پرکھوں کا قرضہ اب تک وصول کررھے ھیں،

    پھر بھی ھمارے کے کچھ محنت کش کسان سارا سال محنت کرتے ھیں لیکن ان کی یہاں پھر بھی فاقے ھی فاقے ھیں، ان کی محنت کا اصل سرمایہ تو بڑی بڑی تجوریوں میں بند ھے، بڑے بڑے ذخیرہ اندوزوں کے محلات میں ائرکنڈیشنڈ گوداموں میں بند ھے جو مصنوعی قلت پیدا کرکے مال کو آہستہ آہستہ اپنے گوداموں سے نکال کر بلیک میں بیچتے ھیں یا اسمگل کردیتے ھیں اور صارفین کے ھاتھوں تک پہنچتے پہنچتے ان کی قیمتیں دس، بیس گنا بڑھ جاتی ھیں،

    ھمارے ملک میں کھیتوں کے کھیت، اور پھلوں اور سبزیوں کے باغوں کے باغ جن پر کسانوں نے دن رات محنت کرکے فصلوں کو سبزیوں اور پھلوں کو تیار کرتے ھیں وہ صرف چند ھی لمحات میں اور تھوڑی سی رقم کی عوض وہ زبردستی نیلام ھوجاتے ھیں، کسان اپنی مرضی سے اپنے ھی ھاتھوں سے اُگایا ھوا مال اپنے ھاتھوں سے مارکیٹ میں نہیں بیچ سکتا اور نہ ھی تھوک مارکیٹ میں مال لے کر داخل ھوسکتا ھے-

    کبھی ھمارے سیاست دانوں نے ان حالات کی ظرف بھی غور فرمایا ھے کہ جس ملک کی معیشیت ھی مکمل طور پر زراعت پر منحصر ھے، وہ کس طرح بے چینی کا شکار ھے ھم اگر اپنے وطن سے ذرا سا بھی مخلص ھوں تو اپوزیشن میں بھی رہ کر اپنے وطن کے تمام مسائل کو بہت اچھی طرح حل کیا جاسکتا ھے، مگر افسوس اس بات کا ھے ھر چاھے کسی بھی اسمبلی کا ممبر ھو یا حکومت کا نمایندہ ھو اپوزیشن میں ھو یا اقتدار میں ھو، جو بھی الیکشن میں جیت کر اپنی اس سیٹ پر بیٹھ کر پورے ملک کے عوام کی ترجمانی کرتا ھے، سب سے پہلے تو وہ یہ سوچتا ھے کہ جتنا مال روپیہ پیسہ الیکشن میں لگایا ھے اسے کم سے کم ڈبل تو کرلیا جائے پھر ملک کے بارے میں سوچیں گے، اسی دوران حکومت ھی ختم ھوجاتی ھے یا اسمبلی ھی ٹوٹ جاتی ھے، ایک بھوکے کا پیٹ بھرتا ھی نہیں تو دوسرا اپنا پیٹ خالی لئے کھڑا ھوتا ھے،

    اس سیاست داں سے زیادہ مالدار اور بڑا سورس تو کسی بھی گورنمنٹ کے محکمہ کا چپراسی ھوتا ھے، جو آپکا کام اگر کسی منسٹر سے نہ ھو تو یہ چپراسی کچھ رقم کے بدلے آپکا کام منٹوں میں کراسکتا ھے،

    کبھی ھم نے ھمارے پیغمبروں کے دور حکومت کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت گوارا کی ھے کبھی ایک مسلمان ھونے کے ناتے اس اس دور کے حکمران اور رعایاء سے رشتہ کے تعلقات کو پہچاننے کی کوشش بھی کی ھے،؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اگر ھم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ھیں، تو ھم کہیں پر بھی، کسی جگہ بھی، کسی مقام پر بھی ھوں، اپنے اپنے فرائض ایمانداری اور نیک نیتی سے انجام دیں تو ھم ھی نہیں بلکہ ھمارے ملک کی ترقی میں بھی حصہ لے سکتے ھیں،!!!!!!!!!!!!!!

    بچوں کی پڑھائی تو ویسے ھی برباد کردی، کچھ نے تو اپنے بچوں کو ، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ میں بھی بھیجا وہ تو وہاں جاکر وہیں کے ھوکر رہ گئے، واپس آنے کی ذحمت گوارا ھی نہیں کی، کچھ نے تو وہیں شادی کرکے اپنا ڈیرا مکمل طور سے ڈال لیا، کچھ گوری میموں نے تو بھتہ بھی وصول کرنا شروع کردیا، کئی نے تو بے چارے والدیں کو بلا کر وہیں بیگم کے نیچے ھی نوکرانیوں جیسا سلوک شروع کردیا، اب آپ سچ پوچھیں تو وہاں کا ماڈرن معاشرہ آپکے بچوں کو ڈانٹنے کا بھی حق نہیں دیتا، کبھی کبھی تو والدین اپنے ھی بچوں کی زیادتیوں کی وجہ سے ھی عدالت میں کھڑے اپنی سزا اور جرمانے کے منتظر ھوتے ھیں،

    آج جب بھی والدین کسی نہ کسی طرح زبردستی اپنے بچوں کو پاکستان لے کر آتے ھیں تو آپ کو کیا جواب ملتا ھے، سنئے!!!

    ممٌا پاپا !!!! اپ ھم کو کدھر کو لایا ادھر کیا ھے بالکل کچرا ھی کچرا ھے، “بیک ورڈ“ لوگ ادھر کو رھتا، یہ ٹھیک نہیں ھے وہ ٹھیک نہیں ھے گرمی بہت ھے، ائر کنڈیشنڈ نہیں ھے ادھر بوڑھا بوڑھا لوگ ھمارا مذاق اُڑاتا ھے، ابھی ھم کل ھی واپس جانے کو مانگتا ھے، وہاں ھمارا دوست “جمٌی یا کمٌی“ ھمارا انتظار کرتا ھوئے گا، اور ھمارا پاسپورٹ واپس کرو ورنہ!!!!!!!!

    یہ تو ھے یورپ اور امریکہ میں رھنے والوں کی پوزیشن جن کے بچے انکے اپنے ھی قابو میں نہیں ھیں تو وہ پاکستانی کلچر کو کیسے اپنائیں گے، یہاں شادیاں کرکے اپنے گھر کیسے بسائیں گے، لوگ کوشش تو بہت کرتے ھیں کہ یہاں سے کسی نہ کسی لڑکے یا لڑکے کو خرید کر وہاں لے جائیں اور اپنے بچوں کی طرح انکی زندگی کو بھی ایک عذاب میں ڈال دیں کبھی آپ میں سے کسی نے بھی اپنی بیٹی کی خبر لی بھی ھے جسے بڑی دھوم دھام سے بیاہ تو دیا لیکن وہ وہاں کیسے جی رھی ھے اگر پتہ بھی چل جائے تو کیا کرسکتے ھیں، اگر لڑکے کو وہاں وداع کیا ھے تو اسے تو بالکل بھول ھی جائیں تو بہتر ھی ھے،

    اور ھم جیسے والدیں جو برسوں سے یہاں مڈل ایسٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ پڑے ھوئے ھیں ان کی کیا زندگی ھے، پاکستاں چھٹی جاتے ھیں تو بچوں کو وہاں کی کوئی چیز اچھی نہیں لگتی کوئی علاقہ اچھا نہیں لگتا، وہ بھی ائرکنڈیشنڈ کی بات کرتے ھیں، کیونکہ گرمیوں میں ھی چھٹیاں ملتی ھیں، یہاں ائرکنڈیشنڈ کی وجہ سے ھی بہت سی بیماریوں میں مبتلا ھوچکے ھیں، دھوپ میں کچھ دیر بھی کھڑے ھونے کی عادت نہیں ھے، ورزش کا یہاں کوئی رواج ھی نہیں ھے، انٹرنٹ کے عادی بن چکے ھیں اب تو ھر بچے کے پاس اس کا اپنا موبائیل، باپ کے پاس گاڑی ھو نہ ھو بیٹوں کے پاس گاڑیاں بھی ھیں اور شکر ھے کہ سعودیہ میں تو عورتوں کو گاڑی چلانے اور بغیر عبایہ کے باھر نکلنے پر پابندی ھے، ورنہ یھاں بھی عورتیں گاڑی دوڑاتی نظر آتیں،

    نہ ھم یہاں کے رھے نہ اپنے ملک کے رھے، بس یہاں ایک خوش قسمتی سے عمرہ اور حج کرنے کی سہولت اور روضہ مبارک:saw: کی زیارت تو ممکن ھے جس سے اب تک بہت سے لوگوں کا ایمان اب تک تازہ ضرور ھے، اور کچھ نہیں تو کم از کم زیادہ تر لوگ پانچوں وقت کی نمازیں تو ادا کرتے ھیں،!!!!!!!!!!!

    چلئے پھر وہیں سے اپنی یادوں کو سمیٹتا شروع کرتا ھوں، جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا،!!!!!!

    ادھر ھمارا سیکنڈری اسکول میں میٹرک کا دور ختم ھوا اور ادھر جنگ کے آثار شروع ھوگئے، والد صاحب کا بھی بلاوا آگیا، وہ بھی کمپنی سے مختصر چھٹی لے کر چلے گئے، سب نے انہیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا، بہرحال جنگ ختم ھوئی اور ساتھ ھی والد صاحب بھی واپس آگئے اور پھر سے جنگ کے پعد زندگی معمول پر آگئی،

    آج جب میٹرک سے فارغ ھوئے تو ایسا لگا کہ کھلی فضا میں سانس لے رھے ھوں، اس وقت تو میٹرک کرنا ایک بہت بڑی خوش نصیبی سمجھی جاتی تھی، میٹرک پاس کرنے والا تو ایسا مشہور ھوجاتا تھا کہ دور دور سے لوگ اسے مبارکباد دینے چلے آتے تھے، اور آج کل کوئی ماسٹر بھی کرلیتا ھے تو کوئی پوچھتا ھی نہیں!!!!!!

    اب کالج میں داخلے کے لئے لوگوں سے مشورے شروع ھوگئے والد صاحب بضد تھے کہ میں کامرس اور اکاونٹس کو لے کر آگے چلوں اور میرا خیال آرٹ، مصوری، اور اردو ادب سے تھا، جس کے لئے میں آرٹس کونسل آف پاکستان میں داخلہ لینا چاھتا تھا، تاکہ اپنے شوق کو پروان چڑھاؤں، لیکن والد صاحب نے میری ایک نہ سنی بلکہ فوراً ھی اسلامیہ کامرس کالج میں صبح کی شفٹ میں داخل کرادیا -

    مجبوری تھی ورنہ تو میرا بالکل بھی دل نہیں چاھتا تھا کہ کامرس گروپ لوں، خیر کیا کرتا اباجی کے آرڈر تھے، ماننا پڑا اور چل دئیے دوسرے دن سے اسلامیہ کالج، والد صاحب کو یہ کالج کا نام اچھا لگا، جبکہ اور بھی اچھے اچھے کالج تھے، ویسے اس کالج کی بلڈنگ بہت خوبصورت اور بہت بڑی تھی، اس کالج میں کامرس کے علاؤہ سائنس اور آرٹس گروپ بھی تھے، اور ان کے رخ اور گیٹ بھی الگ الگ تھے، ساتھ ھی مزارِ قائدآعظم چند قدم کے فاصلے پر تھا، اور کالج کے میں گیٹ کے سامنے روڈ پر ایک چوراھے کے بیچ دنیا کا بہت بڑا گول گلوب بنا ھوا تھا، جب چاھو اس کے گرد گھوم کر بغیر ٹکٹ دنیا کی سیر کرلو اور اس سے اسلامیہ کالج کا نظارہ بھی بہت ھی خوبصورت لگتا تھا، ھمارے کالج کے سامنے ایک انجیرنگ کالج بھی تھا جس کا نام شاید داؤد انجینئر کالج تھا،

    پہلے دن میں کچھ زیادہ ھی اسکول کی طرح کتابیں اور کاپیاں کا بوجھ لاد کر لے آیا جبکہ دوسرے لڑکے صرف ایک ھی پلاسٹک کی فائیل لے کر آئے تھے، مجھے یہ دیکھ کر تعجب بھی ھوا، بہرحال پہلا دن تھا تعارفاتی پروگرام میں ھی سارا دن گزر گیا، ھاف ٹائم میں بھی بس اکیلا ھی گھومتا رھا، کینٹین گیا ایک شوقیہ طور پر چائے منگوائی، مگر کوئی دوست نہ بنا پایا، اور کوئی بھی میرے اسکول سے یہاں داخلہ لینے نہیں آیا، بس مختصر سی علیک سلیک ھوئی اور کوئی خاص لفٹ نہیں ملی، کلاس میں کرسی سے ھی ایک جڑی ھوئی صرف فائیل رکھنے کی ایک چوڑی سی جگہ بنی ھوئی تھی، اور اسکول کی طرح کوئی ڈیسک وغیرہ نہیں تھی،

    دوسرے دن سے باقائدہ طور سے کلاسس شروع ھوگئی تھیں،ایک اور چیز نے پھر مجھے تعجب میں ڈال دیا کہ اسکول میں ھر پیریڈ کے بعد تو ٹیچرز، کلاس روم میں آتے تھے، لیکں یہاں اسٹوڈنٹس کو لیکچرار کے کمرے میں جانا پڑتا تھا، ھر ایک کے پاس ھر کلاس کا ٹائم ٹیبل بھی تھا، یہ بھی میرے لئے ایک نئی چیز تھی، اس کے علاؤہ لڑکیاں بھی ساتھ ھی پڑھتی تھیں مجھے اس بات کی حیرانگی بھی ھوئی کہ پرائمری اسکول میں بھی لڑکیوں کا ساتھ تھا اور پھر کالج میں بھی لڑکیوں کا ساتھ دیکھا لیکن سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کو ایک ساتھ پڑھتے نہیں دیکھا، ھوسکتا ھے کہ اس میں بھی کوئی منطق شامل ھو، ھمیں کیا، ھمیں تو پڑھائی سے ھی غرض رکھنا تھا -

    مجھے تو اور بھی زیادہ خوشی ھوئی کہ صرف ایک ھی فائیل لے کر جانا پڑتا تھا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ کوئی حاضری بھی نہیں لگتی تھی اسکے علاؤہ بغیر یونیفارم کے، میرا مطلب ھے کہ کوئی بھی ڈریس پہن کر اسکول جاسکتے تھے ، ھر کسی کو دیکھا نئے نئے اسٹائیل کے کپڑے، ہیرو کے اسٹائیل کے بال سیٹ کئے ھوئے، دھوپ کا بلیک چشمہ لگائے جیمز بونڈ کی طرح چلتے ھوئے کالج میں داخل ھوتے تھے، اور لڑکیاں تو ان سے دو ہاتھ آگے تھیں، ان لڑکوں کو زیادہ تر لڑکیوں کے گروپ کے ساتھ یا تو کالج کے کینٹین میں یا کالج کے درمیان کے پارک میں گھومتے پھرتے یا پھر کامن روم میں شور مچاتے ھوئے کیرم بورڈ یا ٹیبل ٹینس کھیلتے ھوئے دیکھا تھا، کبھی کبھی لڑکیوں کے ساتھ بھی کھیلتے ھوئے پایا اور قائد کے مزار پر بھی حاضری دیتے ھوئے دیکھا، وہاں کالج سے زیادہ رش ھوتا تھا، شاید سب قائد کی پیروی کرنے وہاں ان کا اثر لینے جاتے ھونگے -

    میں اپنے آپ کو ان سب کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا محسوس کر رھا تھا، کیونکہ ایک تو میرے کپڑے اور خاص طور سے میرے بالوں کا اسٹائیل کو تو والد صاحب اپنے فوجی کٹ کے حساب سے ھی رکھواتے تھے، اسکول کی حد تک تو صحیح تھا لیکن کالج میں مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رھا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ مجھے کچھ وہاں پر لفٹ نہیں مل رھی تھی، گھر پر آکر اباجی کے بجائے اماں سے کہا کہ میں یہ کپڑے پہن کر کالج نہیں جاونگا، مجھے بازار سے اچھے ٹیلر کے پاس سے کپڑے سلوا کر دیں اور ساتھ ایک اچھا سا باٹا ایک کا جوتا، ایک نہیں کم سے کم چار جوڑے تو ھوں، (کیونکہ کالج میں تو ھر روز لڑکے نئے نئے جوڑے ھی پہن کر آتے دیکھتا تھا) اور یہ میرے بال اباجی سے کہیں کہ سولجر کٹ نہ کٹائیں، مجھے اس طرح ان کپڑوں میں کالج جاتے ھوئے شرم بھی آتی ھے، اور اگر اسکا بندوبست نہ ھوا تو میں کل سے کالج نہیں جاونگا، یہ الٹی میٹم اماں کو تو سنا دیا، اور ڈر ڈر کر ابا حضور کا انتطار کرنے لگا -

    شام کو جب اباجی دفتر سے گھر پہنچے تو ھماری اماں نے میری یہ شکایت والد صاحب کے حضور رکھ دی، ارے باپ رے والد صاحب بہت گرم ھوئے، انکا فوجی مزاج، کبھی زندگی میں تو کالج گئے نہیں، اور بس انگریزوں کے زمانے میں انہوں نے شاید میٹرک پاس کیا ھوگا، انہیں کیا پتہ کہ کالج میں کیسے پڑھا جاتا ھے، کس طرح رھا جاتا ھے میں بستر پر فوجی کمبل اوڑھے اپنے آپ سے ھی بکتا جارھا تھا،

    ایک اور زور کی آواز سنائی دی کہ میرے پاس کوئی قارون کا خزانہ نہیں کہ اس لاٹ صاحب کو یہ نوابی چیزیں خرید کر دوں،!!!!! مارے گئے کچھ ایسے ھی کچھ مکالمات سے انہوں نے آغاز لیا اور اختتام اس جملے سے کیا کہ،!!!! اس نواب صاحب کو کہہ دو کہ اگر کالج میں پڑھنا ھے تو اسی حالت میں جانا ھوگا ورنہ کوئی ضرورت نہیں ھے کالج جانے کی، اس کو میں کسی مکینک کے ساتھ ھی لگادونگا، جہاں کپڑے بھی کالے، منہ بھی کالا!!!


    اور میں نے دل میں روتے ھوئے کہا کہ وہاں میکینک کے پاس تو منہ دھونے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی، کیا پتہ لگے گا کہ منہ دھویا بھی ھے یا نہیں، پانی کی بھی بچت ھوجائے گی!!!!!!!!!!!!

    کچھ دیر بعد خودبخود ھی والد صاحب کا غصہ ٹھنڈا ھوگیا، مجھے کہا کہ، کل کسی طرح گزارلو اور شام کو میرے دفتر آجانا وہاں سے سیدھا بازار چلیں گے اور جو تمھیں پسند ھوں خرید لینا، یہ کہہ کر وہ باھر کہیں چلے گئے اور میرا خوشی کے مارے ٹھکانا ھی نہ رھا، اب کل تک وقت گزارنا بہت مشکل تھا، شام کو ملکہ باجی کو بتایا اور وہ بھی بہت خوش ھوئیں، ان کے بس میں نہیں تھا ورنہ وہ بھی مجھے ایک سے ایک اچھے جوڑے بناکر دیتی، انہوں نے کالج میں تو داخلہ نہیں لیا لیکن پرائیویٹ امتحان دینے کا ارادہ ضرور تھا، وہ بھی مجھے بہت چاھتی تھیں اور ھمیشہ مجھے اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دلاتی رھتیں، اور وہ مجھے ھمیشہ والدیں کا حکم ماننے پر بہت نصیحتیں کرتی رھیں -

    دوسرے دن میں تیار ھو کر کالج پہنچا لیکن بالکل دل نہیں لگا، کیونکہ وہاں کے لڑکوں کے ساتھ میرا کچھ دل نہیں مان رھا تھا بہت تیز اور طرار تھے اور لگتا تھا کہ زیادہ تر امیر خاندان کے بگڑے ھوئے نواب تھے، کچھ اچھے بھی لڑکے تھے، خیر اب مجبوری تھی کہ اسی کالج میں پڑھنا تھا، دوپہر کو کالج سے واپسی ھوئی اور کھا پی کر فارغ ھوا اور پھر والد صاحب کے دفتر جانے کی تیاری کی اور کچھ اپنی شکل ضرورت کے مظابق ٹھیک ٹھاک کرلی اور دو بسیں بدل کر تقریباً ایک گھنٹہ میں وہاں پہنچا، اب تو میرا قد پہلے سے کافی لمبا ھوگیا تھا مگر دبلا پتلا تھا،!!!!!!

    والد کے آفس کافی عرصہ کے بعد گیا تھا، وہاں پر والد کے تمام دوست مجھے اچھی طرح جانتے بھی تھے، مگر وہاں اب ان کے نئے باس تھے، وہ بھی بہت اچھے اور ملنسار طبعیت کے مالک تھے، لیکن کمپنی کے بہت پرانے افسران میں سے تھے والد صاحب میرے پہنچتے ھی مجھے ان کے پاس لے گئے اور انہوں نے مجھے بہت مبارکباد دی اور اچھا پڑھنے کیلئے مجھے کافی ساری معمول کے مطابق نصیحتیں بھی کیں، جس کا کہ میں پہلے ھی سے سننے کا عادی تھا جہاں بھی جاو خیر خیریت کے بعد یہی نصیحتیں ملتی تھیں، شاید لگتا تھا کہ اباجی نے ان سے ھی کوئی ایڈوانس میرے لئے لیا ھوگا -

    اباجی کا آفس ساڑے چار بجے ھی بند ھوجاتا تھا، چھٹی ھوتے ھی کمپنی کی گاڑی میں بیٹھے اور مین صدر بازار کے نزدیک اتر گئے ان کے ساتھ ان کے ایک دوست بھی اتر گئے، حالانکہ وہ دفتر کے نزدیک ھی رھتے تھے لیکن وہ والد صاحب کی مدد کیلئے ساتھ آئے تھے اور میرے لئے انہوں نے ریڈی میڈ تین پینٹ قمیض کے جوڑے اور ایک باٹا کے جوتے کا جوڑا بھی دلوایا انہیں کافی تجربہ تھا اسلئے ابا جی انہیں ساتھ لے آئے تھے،!!!!

    مجھ سے اپنی خوشی چھپائے چھپ نہیں رھی تھے، زندگی میں پہلی مرتبہ اتنے اچھے اور مہنگے کپڑے دیکھنے کو ملے تھے، والد صاحب کو ان کے دوست نے زبردستی یہ ایک اچھی ریڈی میڈ دکان سے یہ کپڑے دلوائے تھے ورنہ اگر والد صاحب کی پسند ھوتی تو شاید ایسے نہ ھوتے ان کا بھی کیا قصور وہ بھی اپنا ھر کام بجٹ میں ھی رہ کر کرتے تھے لیکن شاید یہ پہلی مرتبہ وہ بجٹ سے باھر آگئے، کچھ پریشان بھی تھے، شاید کچھ پیسے کم پڑنے کی وجہ سے انہیں اپنے دوست سے کچھ قرض بھی لینا پڑا اور شاید یہ انکا پہلا موقع تھا-

    گھر آکر تو بس مت پوچھئے کہ کیا حال ھوا، دوسرے بہن بھائیوں کو تو بہت مشکل سے والد صاحب نے سمجھایا کیونکہ وہ بھی نئے کپڑوں کے لئے ضد کررھے تھے، اور پھر رات کو تمام کپڑے گھر کی کوئلے کی استری سے تمام کپڑوں کو استری کئے اور جوتے تو ویسے ھی نئے تھے پھر بھی خوب کپڑے اور برش سے چمکا لئے تھے، اور میں ویسے بھی کپڑے استری کرنے میں اور جوتے چمکانے میں ماسٹر تھا گھر کے سب بہن بھائیوں کے کپڑے بھی میں خود ھی استری کرتا تھا، کیونکہ کوئلے کی استری کو گرم کرنا اور استری کرنا انکے بس کا روگ نہیں تھا-

    صبح صبح کچھ جلدی اٹھ گیا اور دوسر بچوں کے ساتھ میں بھی تیار ھو گیا، ائینہ میں اپنی شکل دیکھی تو بالکل اپنے آپ کو بدلا ھوا پایا، اور میں نے آہستہ آہستہ پہلے سے ھی بال بڑھانے شروع کردئیے تھے، جس کیلئے والد صاحب کئی دفعہ بال کٹوانے کو کہہ چکے تھے، مگر میں ھمیشہ چکر ھی دے دیتا، کل ھی کالج سے واپسی پر نائی کی دکان پر جاکر صرف استرے سے سایڈ کی قلمیں ھی بنوا کر بال سیٹ کروا لئے تھے، اور والد صاحب کے سامنے خوب بالوں میں پانی اور تھوڑا سا تیل لگا کر بالوں کو چپکا کر گیا تھا تاکہ وہ کہیں ڈانٹیں نہ، لیکن شکر ھے ان کی نظر میرے بالوں پر گئی نہیں اس لئے انہوں نے کچھ محسوس ھی نہیں کیا،!!!!!

    بہرحال جب نیا جوڑا پہنا اس پر نئے چمکتے ھوئے بوٹ چڑھا کر خود کو آئینے کے سامنے دیکھ کر اتراتا ھی رھا، اوپر سے ایک خوبصورت سا گھر کا بنا ھوا نیا سویٹر بھی چڑھا لیا، کیونکہ سردی کا موسم تھا، کالج کی فائیل پکڑی اور جیسے ھی باھر نکلا تو مجھے بہت شرم سی کچھ جھجک سی محسوس ھوئی، جیسے ھی باھر سب کو سلام کرتا ھوا نکلا تو گھر کے بعد فوراً اپنی ملکہ باجی کے پاس گیا وہ خود بھی مجھے دیکھ کر حیران ھوگئیں اور فوراً ماتھے پر پیار کیا اور میری نظر اتاری اور کہا کہ آج تو واقعی لاٹ صاحب لگ رھے ھو، انکی چھوٹی بہن زادیہ، امی اور نانی جان بھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ھوئیں،

    میں جب اس محلے سے نکل رھا تھا تو ھر کوئی مجھے ایک عجیب ھی طریقے سے دیکھنے لگا، جیسے میں کوئی عجوبہ ھوں اور میں بھی شرماتا ھوا نکل رھا تھا اور بار بار اپننی قمیض اور پینٹ کو راستے میں ٹھیک کرتا جارھا تھا اس کے علاوہ کالج پہنچنے سے پہلے کئی دفعہ اپنے جوتوں کو بس میں ھی، کچھ نہ ملا تو دوسروں کے ھی کپڑوں سے ھی کھڑے کھڑے صاف کرلئے تھے، اور صبح صبح رش میں کسی کو کیا پتہ چلتا، مگر اب جب سوچتا ھوں تو بہت افسوس ھوتا ھے کے کالج کے زمانے میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے!!!!!!!!!!

    اس وقت کو تو چھوڑیں اب بھی بہت سے ایسے لوگ ھیں جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت ھی نہیں کرسکتے، اور اخراجات صرف کالج کی فیس تک ھی محدود نہیں ھوتی آپ کے بچے کے اسٹینڈرڈ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ھے کہ کہیں آپکا بچہ کالج میں اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ کے لحاظ سے اپنے آپ کو احساس محرومی یا کمتری کا شکار تو نہیں سمجھ رھا ھے، ھمیں معلوم ھے کہ والد صاحب نے ھم بہن بھائیوں کو بہت کم وسائل میں بھی کتنی محنت اور تکلیفوں سے پڑھایا، ھمارے اسٹینڈرڈ کا بھی خیال رکھا اور کتنے قرض میں ڈوبتے چلے گئے، لیکن ھر ایک کی بس کی بات نہیں ھے، ھمارے ملک کی تعلیمی پالیسی بالکل غریبوں کے حق میں نہیں ھے، اور ناخواندی کا ھمارے ملک میں کیا تناسب ھے یہ سب کو پتہ ھے، کسی بھی غریب کا بچہ میٹرک سے زیادہ تعلیم حاصل ھی نہیں کرسکتا اور ھماری ھر حکومت یہی کہتی ھے کہ ھمیں اپنے مستقبل کے معماروں کے لئے ایک نئی تعلیمی پالیسی مرتب کررھے ھیں جس سے ھر عام شخص بھی فائدہ اٹھا سکے گا -

    ھمیں آج تک یہ نہیں پتہ چل سکا کہ وہ عام شخص کون ھے اور سرکاری تعلیمی پالیسی کونسی ھے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ ھمارے تعلیمی محکمہ سے تعلق رکھنے والے خود معیاری تعلیم کے تعلیم یافتہ نہیں ھیں تو وہ کیا تعلیمی پالیسی بنائیں گے، یہ تو سب جانتے ھیں کہ وہاں پر کیا کیا بدعنوانیاں ھوتی ھیں، خود وہاں کے برسوں سے کرسیوں سے چمٹے ھوئے ذمہ دار اہلکار ھمارے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے والے معمار، کیا کبھی آپ نے ان کو اپنی سیٹوں پر بیٹھے کوئی کام کرتے ھوئے دیکھا ھے، کیا کبھی کسی بھی علاقے کے تعلیمی معیار کا انہوں نے سروے بھی کیا ھے، ان سے صرف سروے، اور پلاننگ کا اصل مظلب ھی پوچھ لیں تو انہیں واقعی معلوم نہیں ھوگا اس کے علاؤہ پالیسی کیسے مرتب کی جاتی ھے، شاید ھی کسی کو پتہ ھو،


    ھاں یہ بات ضرور ھے کہ یہی تعلیمی محکمے کا ھی نہیں ھر کسی سرکاری محکمے میں زیادہ تر ملازمیں تنخواہ تو سرکار سے لیتے ھیں، مگر نوکری کسی اور کی کرتے ھی!!!!

    ھمارے یہاں اسی طرح کے تعلیمی خرچے صرف اعلیٰ افسران ھی برداشت کرسکتے ھیں، جن کے بچوں کے لئے گاڑی سرکار کی، تعلیمی خرچ بھی سرکار کے، لانے لے جانے کیلئے نوکر سرکار کے، گھر کے سارے کام سرکاری کھاتے میں، اور یا جو اوپر سے اتنا پیدا کرلیتے ھیں کہ اگر وہ چاھیں تو پورے محلے کے سارے بچوں کے تعلیمی اخراجات آسانی سے پورے کرسکتے ھیں، اچھے اور معیاری اسکولوں میں اوٌل تو داخلہ نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ھے تو ایک اچھے خاصے چندے کا مطالبہ ھوتا ھے جو ھر ایک کے بس کی بات نہیں ھے، کئی لوگ پھر مجبوری میں ناجائز ذرائع اور وسائل کو استعمال میں لاتے ھیں،

    کاش کہ ایسے مخلص لوگ ھماری حکومت یا اپوزیشں میں آئیں، جو خلوص نیٌت سے ملک اور عّوام کی خدمت کرسکیں، کوئی ایسی پالیسی بنا سکیں جو صرف اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں ھو نہ کے انکے خود کے مفاد میں، جو وعدے کریں ان پر عمل بھی کرین، سب سے پہلے کرپٹشن کو ختم کریں ان کی جڑوں کو بالکل مٹا دیں، اور یہ سب ھم جانتے ھیں کہ کہاں کہاں بدعنوانیاں ھورھی ھیں -

    کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ان عوام کی خدمات کے سرکاری اداروں کے محنت کش غریب ملازمین کو اتنی مراعات دیں کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو پرسکون طریقے سے چلاسکیں، اور وہ اپنی زندگی کی مشکلات کے حل کےلئے ناجائز ذرائع اور وسائل کا شکار نہ بنیں!!!!

    میں جب اس محلے سے نکل رھا تھا تو ھر کوئی مجھے ایک عجیب ھی طریقے سے دیکھنے لگا، جیسے میں کوئی عجوبہ ھوں اور میں بھی شرماتا ھوا نکل رھا تھا اور بار بار اپننی قمیض اور پینٹ کو راستے میں ٹھیک کرتا جارھا تھا اس کے علاوہ کالج پہنچنے سے پہلے کئی دفعہ اپنے جوتوں کو بس میں ھی، کچھ نہ ملا تو دوسروں کے ھی کپڑوں سے ھی کھڑے کھڑے صاف کرلئے تھے، اور صبح صبح رش میں کسی کو کیا پتہ چلتا، مگر اب جب سوچتا ھوں تو بہت افسوس ھوتا ھے کے کالج کے زمانے میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے!!!!!!!!!!

    آج کچھ کالج کے لڑکون کے ساتھ میں کچھ تو میچ کر رھا تھا، میں بہت خوش تھا، مگر جوتا بہت تنگ کرنے لگا، شام تک کلاسوں میں گھومتے گھومتے جوتے نے کاٹنا شروع کردیا، تھوڑی سی لنگڑاہٹ پیروں میں آگئی اور ساری اسمارٹنس دھری کی دھری رہ گئی، اسی طرح لنگڑاتے ھوئے گھر پہنچے، جوتے اتارے پیروں میں چھالے پڑچکے تھےَ، خیر مرھم وغیرہ لگاکر چارپائی پر پیر پھیلا کر بیٹھ گئے، جیسے مایوں کی رسم میں دولھا بیٹھا ھو،

    ھم غریبوں کو تو کوئی خوشی بھی راس نہیں آتی، اب کل کیسے کالج جائیں، دوسرے دن آرام کیا ایک دن تک جوتوں کو کچھ نرم کرنے کیلئے کچھ قوت آزمائی کی اور تیسرے دن روئی وغیرہ جوتے میں پھنسا کر پیروں کو اس میں ڈال کر خراماں خراماں ایک اور نئے جوڑے کو پہن کر کچھ اتراتے اٹھلاتے گھر سے باھر کالج کیلئے نکلے، اس سے پہلے چمڑے کے جوتے نہیں پہنے تھے ھمیشہ کینویس کے جوتے جنہیں پی ٹی شو کہتے ھیں، اسی کی شروع عادت رھی، خیر کیا کرتے، چال میں تو فرق آنا ھی تھا -

    وہ کیا کہتے ھیں کہ کوا چلا ھنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا !!!!!!

    دو تین دن کے استعمال کے بعد جوتے بھی اپنے ساتھ کچھ مانوس سے ھوگئے، چال بھی کچھ ٹھکانے آگئی، بس ایک مشکل تھی کہ گھر سے بس اسٹاپ تک پہنچتے پہنچتے جوتوں پر اتنی دھول گرد جم جاتی کہ مجبوراً بس سے اترنے سے پہلے ھی بس میں ھی دوسروں کے کپڑوں سے جوتوں کی صفائی کرلیتا، اگر بس میں رش نہ ھو تو، ورنہ پھر ایک چار آنے جیب خرچ میں سے بچاکر کالج پہنچنے سے پہلے ھی اپنے جوتے پالش کرالیتا، اور بڑے احتیاط سے قدم بڑھاتا ھوا کالج میں داخل ھوتا، کہتے ھیں کہ کپڑے کیسے ھی کیوں نہ پہنے ھوں، لیکن انسان کی شخصیت لباس سے زیادہ جوتوں کی چمک سے کچھ زیادہ ھی نکھر آتی ھے -

    واقعی نئے نئے لباس چمکتے ھوئے جوتوں نے کمال تو دکھایا، کچھ لڑکے تو نزدیک آگئے اور ھر کلاس میں ساتھ ھی بیٹھنے لگے، اب ھماری بھی کچھ گردن اکڑ گئی، اور ایک اپنے بالوں کے اسٹائیل کے ساتھ ساتھ باتوں کا اسٹائیل بھی کچھ بدل گیا، کچھ فلموں کا اثر تھا اور کچھ نئے دور کے دوستوں کی سنگت نے اپنا کمال کر دکھایا، شروع شروع میں تو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کینٹین میں جاکر تو اپنے پاس سے چار آنے کی اسپشل چائے کا آرڈر ایسے کرتا تھا جیسے واقعی کوئی بگڑا ھوا نواب ھوں، اور کبھی کبھی ایک آنہ چائے لانے والے لڑکے کو بخشش بھی دے دیتا تھا، اگر جوتے پالش نہ کرائے ھوتے تب،!!!!!!

    وہاں ایک بات ضرور تھی کہ لڑکے اپنا اپنا ھی خرچا کرتے تھے، کبھی کبھی کوئی موڈ ھو تو چائے پلا دیتا تھا مگر وہ اسکے ڈبل ھی وصول کرکے چھوڑتا تھا، ایک بات تو بعد میں پتہ چلی کہ لڑکوں کے ٹھاٹ باٹ زیادہ تر لنڈابازار کے خریدے ھوئے کپڑوں سے ھوتی تھی، مگر والد صاحب کو پسند نہیں تھا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ سادہ اور سستے ھوں مگر اپنے ھوں، لیکن ایک دو دفعہ میں نے چپکے سے والدہ سے کچھ پیسے لے کر ایک دوست کے ساتھ لنڈابازار جاکر سردیوں کے لئے ایک سوٹ کا بھی بندوبست کرلیا تھا جو اس دکان والے نے دوسرے دن کچھ اپنے سائز کے مطابق فٹ کرکے دیا تھا جو اسی قیمت میں شامل تھا، اور ایک اور براؤن کلر کا جوتا بھی سیکنڈ ھینڈ خرید لیا تھا، گھر میں ایک سویٹر تو تھا ھی، ایک اور خوبصورت س پٹیوں والا وہایٹ اور براؤن رنگ کا سویٹر اور ساتھ دو تین قمیضیں بھی وہیں لائٹ ھاؤس کے پاس لنڈابازار سے خرید لیں وہ دوست ان چیزوں میں ماسٹر تھا اور اس نے مجھ سے سختی سے منع کیا تھا کہ یہ راز کسی کو بھی نہیں ‌بتانا جبکہ سب لڑکے وہیں سے ھی کپڑے وغیرہ خریدتے تھے-

    اب تو اس سوٹ نے کمال ھی کر دکھایا، بالکل لگتا ھی نہیں تھا کہ لنڈا بازار کا ھے، اب تو میں سوٹ بوٹ میں گھر سے نکلا کرتا اور اب تو کچھ عادت سی بھی ھو گئی تھی، بے چارے محلے کے لڑکوں کے ساتھ آہستہ آہستہ دوستی بھی ختم ھوتی جارھی تھی، اب زیادہ تر میں باھر ھی وقت گزارتا تھا، شام تک ھی گھر کا رخ کرتا اور بہانہ ٹیوشن کا کرلیتا تھا یا کسی پارٹی کا کہہ کر گھر سے اجازت لے لیتا تھا، مگر اسی دوست کے علاؤہ کسی کو بھی اپنے گھر کا ایڈریس پتہ نہیں تھا، ورنہ ساری پول پٹی کھل جاتی -

    اور زیادہ تر رات کو کھانا کھا کر ھماری باجی کے ھاں ریڈیو کے پروگرام سننے چلے جاتا، میرے ساتھ میرے بہن بھائی بھی ھوتے کبھی کبھی میرے والدیں بھی ساتھ رھتے اور ان سے گپ شپ کرکے ریڈیو کے کچھ اھم ڈرامے وغیرہ سنتے، والدیں الگ گپ شپ میں مصروف اور ھم لوگ الگ انکے صحن میں ھی کھیلتے یا باتیں کرکے ٹائم پاس کرتے اور ہفتہ والے دن کافی رات گئے تک وھیں رھتے کیونکہ اب ان دونوں بہنوں پر باھر کھیلنے پر پابندی لگ چکی تھی، شاید وہ کچھ عمر کے ساتھ قد میں بھی بڑی ھورھی تھیں، غرض کہ دونوں فیملیاں آپس میں بہت اچھے تعلقات رکھے ھوئے تھیں اسکے علاوہ ھمارے ساتھ کبھی کبھی دوسری فیملیز بھی شریک ھوجاتیں اور ساتھ ھی ھر ویک اینڈ پر باھر گھومنے کا پروگرام بھی بن جاتا، بہت ھی اچھے دن گزر رھے تھے،

    ایک بات بتانا تو بھول ھی گیا اباجی نے بڑی مشکل سے ایک ھاتھ کی سیکنڈ ھینڈ گھڑی 35 روپے کی خرید کر بھی دی تھی، جسے ھر روز چابی بھی دینی پڑتی تھی، اس سے ھماری شان میں ایک اور اضافہ ھوگیا تھا، اب تو ایک سوٹ بوٹ اور اوپر سے گھڑی آستیں سے بار بار جھٹکا دے کر باھر نکالنا اور بالوں کے لئے ایک اسپشل کنگھی بھی خرید لی تھی، جیسے ھی کوئی موقع دیکھتا بالوں میں گھما لیتا، ویسے تھا میں دبلا پتلا لیکن سوٹ پہن کر میں کچھ بھرا بھرا سالگتا تھا، مگر ایک ھی سوٹ آخر کب تک ھماری شان بڑھائے رکھتا ایک اور صرف کوٹ بھی اسی مارکیٹ سے سستا ھی خرید لیا اور مختلف پتلوں کے ساتھ چڑھا لیتا ایک تین چارٹائیاں بھی ساتھ پہلے سے ھی خرید لیں تھیں اور بدل بدل کر میچنگ کے ساتھ چلا رھا تھا-

    کیا بات تھی چھوٹے سیٌد صاحب کی، مجھے اکثر باھر اباجی کے دوست چھوٹے سیٌد صاحب ھی کہہ کر بلاتے تھے، اور اباجی بھی میرے روز کا کالج بڑے اھتمام سے جانا اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر بہت خوش ھوتے تھے، اور گھر میں بھی ان کو دکھانے کیلئے کتابیں ھاتھ میں لے کر کچھ دیر والد صاحب کو مظمئین بھی کرلیتا، لیکن اب ایک اور عادت پڑ چکی تھی روز ایک آنے کرایہ پر کوئی نہ کوئی “ابن صفی“ کی جاسوسی ناول کی آفریدی یا عمران کی سیریز کی کتاب لے آتا اور رات کو بستر میں سوتے وقت اپنے کالج کی کسی بھی کتاب کے بیچ میں رکھ کر بستر کے کنارے ایک جھولتی ھوئی ٹیبل پر ایک لالٹین کی روشنی میں پڑھتا تھا -

    ابا جی پھر ایک دفعہ میرے اپنے ھی بنائے ھوئے دھوکے کے چکر میں آکر بہت خوش تھے، کالج تو باقاعدہ جاتا لیکن بمشکل کوئی کلاس اٹینڈ کرتا بس ھر مہینے فیس ضرور بھرتا تھا اور ھر روز دوسرے دوستوں کے ساتھ یا تو کینٹین میں چائے پی رھا ھوتا یا کبھی کیرم بورڈ کھیلنے میں مشغول رہتا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا کالج میں بالکل آزادی تھی، حاضری ھوتی ھی نہیں تھی، اور مجھے ان لیکچرار سے بہت سخت نفرت تھی، صرف اردو کے ٹیچر کے علاؤہ، کیونکہ باقی سارے انگلش کے علاوہ کچھ منہ سے بولتے ھی نہیں تھے جو اپنے بالکل پلے پڑتی ھی نہیں تھی، اور وہ لوگ سوال بہت کرتے تھے اور وہ بھی انگلش میں، اور ھمیشہ میں ھی نشانہ بنتا تھا اور جواب کیا آتا جب سوال ھی نہیں سمجھ سکتا تھا -

    یہ انگلش میری بہت بڑی کمزوری تھی اور شروع شروع میں تو اسی طرح جو بھی لیکچرار مجھ سے ایگلش میں سوال کرتا دوسرے دن سے اس کا پیریڈ میں جانا ھی چھوڑ دیتا تھا، صرف اردو اور اکنامکس اینڈ کمرشل جغرافیہ کے پیریڈ ھی اٹینڈ کرتا، کیونکہ ان مضمون کو وہ کم از کم اردو میں تو پڑھاتے تھے، یا ھوسکتا ھے کہ وہ بھی میری طرح انگلش سے دور ھی بھاگتے ھوں،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    1967 کے بہار کے موسم میں سال داخل ھورھا تھا، سردیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی آخری ھچکیاں لے رھی تھی اور میں اپنی زندگی کے 17 سترویں بہار کے موسم میں ایک خوبصورت موڑ میں داخل ھو رھا تھا، مجھے وہ دن اپنی زندگی کا کبھی نہیں بھولتا، جب شام کا وقت اور آسمان پر بادلوں کی گھٹایں، گھرے ھوئے کسی ظوفانی بارش کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس دن میں نے پہلی بار کسی کی آنکھوں میں میرے اپنے لئے ایک عجیب سی بسنت کی ایک خوبصورت کہکشاں کے رنگ کے ساتھ چمکتی ھوئی شرماتی سی جھلک دیکھی، جو میں خود نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ھے جو مجھے ایک حسیں خواب کی طرح ایک عجیب سے نشے میں ڈبوئے جارھی تھی، میں خود بخود اسکے نزدیک پہنچا اسے دیکھا، چند لمحے وہ آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں جنہیں میں کبھی بھُلا نہیں سکتا تھا، یا یہ میری نظروں کا دھوکا تھا،!!!!!!!!!!!

    اچانک اسے کسی نے آواز دی اور وہ دوڑتی ھوئی واپس اسی آواز کے ساتھ گم ھوگئی اور میں حیران پریشاں گم سم سا اس دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رھا اور شام کا وقت ھلکی ھلکی خنکی سی کچھ بارش کی بوندا باندی شروع ھوچکی تھی، پانی کے قظرے میرے بالوں سے اترتے ھوئے میرے چہرے پر ٹپ ٹپ گر رھے تھے اور میں خاموش تھا، یہ کوئی خواب یا کوئی افسانوی ماحول نہیں تھا یہ واقعی زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ محسوس ھورھا تھا جسکے بارے میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا‌!!!!!!

    وہ دیوار آج بھی اسی جگہ موجود ھے، اور جب بھی میں اسی دیوار کے نزدیک اسی جگہ پر جاتا ھوں تو مجھے وھی حسیں منظر ایک وھی بھینی بھینی بسنت کی خوشبو کے ساتھ وھی پیارا سا خوبصورت حسین معصوم سا چہرہ یاد آجاتا ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    1967 کے بہار کے موسم میں سال داخل ھورھا تھا، سردیاں بھی آہستہ آہستہ اپنی آخری ھچکیاں لے رھی تھی اور میں اپنی زندگی کے 17 سترویں بہار کے موسم میں ایک خوبصورت موڑ میں داخل ھو رھا تھا، مجھے وہ دن اپنی زندگی کا کبھی نہیں بھولتا، جب شام کا وقت اور آسمان پر بادلوں کی گھٹایں، گھرے ھوئے کسی ظوفانی بارش کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس دن میں نے پہلی بار کسی کی آنکھوں میں میرے اپنے لئے ایک عجیب سی بسنت کی ایک خوبصورت کہکشاں کے رنگ کے ساتھ چمکتی ھوئی شرماتی سی جھلک دیکھی، جو میں خود نہیں سمجھ سکا کہ یہ کیا چیز ھے جو مجھے ایک حسیں خواب کی طرح ایک عجیب سے نشے میں ڈبوئے جارھی تھی، میں خود بخود اسکے نزدیک پہنچا اسے دیکھا، چند لمحے وہ آنکھیں میری آنکھوں کے سامنے تھیں جنہیں میں کبھی بھُلا نہیں سکتا تھا، یا یہ میری نظروں کا دھوکا تھا،!!!!!!!!!!!

    اچانک اسے کسی نے آواز دی اور وہ دوڑتی ھوئی واپس اسی آواز کے ساتھ گم ھوگئی اور میں حیران پریشاں گم سم سا اس دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا رھا اور شام کا وقت ھلکی ھلکی خنکی سی کچھ بارش کی بوندا باندی شروع ھوچکی تھی، پانی کے قظرے میرے بالوں سے اترتے ھوئے میرے چہرے پر ٹپ ٹپ گر رھے تھے اور میں خاموش تھا، یہ کوئی خواب یا کوئی افسانوی ماحول نہیں تھا یہ واقعی زندگی میں پہلی بار مجھے کچھ محسوس ھورھا تھا جسکے بارے میں میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا‌!!!!!!

    وہ دیوار آج بھی اسی جگہ موجود ھے، اور جب بھی میں اسی دیوار کے نزدیک اسی جگہ پر جاتا ھوں تو مجھے وھی حسیں منظر ایک وھی بھینی بھینی بسنت کی خوشبو کے ساتھ وھی پیارا سا خوبصورت حسین معصوم سا چہرہ یاد آجاتا ھے،!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    بارش تیز ھوچکی تھی، مجھ سمیت تمام گھر والے کمروں میں بند کھڑکی سے باھر طوفانی بارش کا منظر دیکھ رھے تھے، بادلوں کی گرجنے کی آوازیں بھی اس دفعہ کچھ زیادہ ھی دل کو دھلارھی تھیں، والدہ حسب معمول باورچی خانے میں مصروف تھیں اور والد صاحب بھی شاید بارش کی وجہ سے مسجد نہ جاسکے اور گھر پر ھی مغرب کی نماز پڑھ رھے تھے، میں بھی ایک کنارے روز کی طرح کتاب اٹھائے پڑھ تو نہیں رہا تھا بلکہ یونہی ٹہل رھا تھا کہ بارش کم ھو تو باھر بھاگوں، ویسے بھی میں بہت بےچین تھا کچھ اپنے آپ کو یقین دلانے کیلئے، لیکن ایسی مجبوری تھی کہ والد صاحب گھر سے بالکل نکل ھی نہیں رھے تھے، اور ان کی وجہ سے میں بھی گھر میں قید تھا، ورنہ اگر اباجی گھر پر نہیں ھوتے تو میں تو ویسے بھی بارش ھو طوفان ھو گھر پر ٹکتا ھی نہیں تھا -

    آج کی رات مجھ پر کچھ زیادہ ھی بھاری تھی، نہ والد صاحب کہیں ھل رھے تھے اور نہ ھی بارش بند ھورھی تھی، کراچی کا موسم بھی محبوب کے مزاج کی ظرح ھی تھا، کبھی اچانک بے موسم کی طرح بارش ھوجاتی اور کبھی اتنی گرمی کے مت پوچھیں، کبھی ٹھنڈ تو کبھی سردیوں کے موسم میں گرمی اور کبھی گرمیوں میں بھی شام کو موسم ٹھنڈا ھوجاتا تھا، والد صاحب کو بھی بارش کے دنوں میں بھی چین نہیں آتا تھا ذرا سی کہیں سے چھت ٹپکتی تو وہ فوراً ھی چھت پر چڑھ جاتے اور کوئی نہ کوئی چھت کی مرمت میں لگ جاتے تھے اور ھماری ڈیوٹی جہاں جہاں سے چھت ٹپک رھی ھوتی تھی، وھاں پر کوئی ڈرم یا بالٹی لگا کر رکھنے کی ذمہ داری اور ساتھ بارش کے پانی کو باھرخالی کرنے کی بھی ھوتی تھی، بارش کے دوران تو ھماری مت ھی ماری جاتی تھی، گھر کے اندر جمع ھوا پانی کو باھر نکالتے نکالتے کمر بھی دوھری ھوجاتی تھی، لیکں والد صاحب اوپر چھت سے ھی ھماری نگرانی بھی کرتے کہ ھم بہن بھائی کہیں باھر نہ نکل جائیں، خود تو بھیگتے رھتے مگر ھمارے لئے پابندی تھی -

    آج تو میں کچھ زیادہ ھی بے چین تھا کہ ذرا سا بھی مجھے موقعہ ملے اور میں باھر بھاگوں، شاید عشاء کے وقت کچھ بارش کا زور ٹوٹا تو کچھ امید نظر آئی، والد صاحب جیسے ھی نماز کےلئے باھر نکلے ادھر میں فورآً منہ ھاتھ دھو کر کچھ اچھے کپڑے پہنے اور آئینہ کی طرف لالٹین کی مدھم ھی روشنی میں رات کو پہلی بار شاید بالوں میں کنگھی کی اور کچھ “تبت ٹالکم پاوڈر“ وغیرہ چھڑکا اور اوپر چہرے پر “تبت سنو کریم لگائی، اس وقت زیادہ تر ھم غریبوں کے پاس یہی چہرہ چمکانے کیلئے تبت کی مصنوعات جو کہ سستی چیزیں ھوتیں تھیں، استعمال کے لئے گھر پر اماں چھپا کر رکھتیں تھیں اور مجھے تو خاص کر ان کی یہ جگہیں چھپی نہیں رھتی تھیں،

    باھر نکلنے سے پہلے پھر ایک دو بار پھر اپنا چہرہ آئینہ میں دیکھا، کریم لگانے کے باوجود بھی کچھ اپنے چہرے کا رنگ اتنا صاف نہیں ھوسکا تھا، لیکن اتنا برا بھی نہیں لگ رھا تھا، یعنی گزارا تھا، یہ تو روز صبح کالج جانے سے پہلے اس طرح جوتے چمکانے کے ساتھ ساتھ کچھ چہرے کو بھی ان تبت کے پاوڈر اور کریم سے چمکاھی لیتا تھا، مگر رات کو پہلی مرتبہ وہ بھی مدھم روشنی میں چہرے کو کچھ چمکاتے وقت کچھ عجیب سا لگ رھا تھا -

    چپکے سے میں اس دن اکیلا ھی باھر نکلا، جب کہ سب بہن بھائیوں کو اکثر ساتھ لے کر ریڈیو سے رات کے ڈرامے اور مزاحیے خاکوں کے پروگرام سننے کے لئے ملکہ باجی کے گھر ضرور جاتا تھا اور کبھی کبھی والدیں بھی وہاں آجاتے تھے اور اچھی خاصی ایک رونق رھتی تھی اور میرا دل بھی وہیں بہت لگتا تھا، مگر آج یہ اچانک اکیلے اکیلے چمک دمک کر جانے کی کہاں تیاری کرلی، میں ‌خود اپنے آپ سے پوچھ رھا تھا -

    جیسے ھی باھر نکلا تو دیکھا باقی بہن بھائی بھی میرے سے پہلے ھی تیار باھر کھڑے نظر آئے، میں نے غصہ سے ان سب کو دیکھا اور کہا کہ بارش ھورھی ھے باہر مت نکلو، ایک نے ڈرتے ھوئے جواب دیا کہ بھائی جان بارش تو رک گئی ھے اور آپ بھی تو جارھے ھیں میں نے فوراً کہا کہ میں وہاں نہیں جارھا ھوں، ادھر سے ھماری اماں باورچی خانے سے ھی چیخیں ارے جاتے جاتے ان سب کو ملکہ باجی کے گھر چھوڑتا ھوا چلا جا، میں بھی کام ختم کرکے تمھارے ابا کے ساتھ وہیں آتی ھوں، مجھے خیال آیا کہ آج تو واقعی کوئی خاص ھی ڈرامہ نشر ھونے کا دن تھا یہ تو بڑی مشکل ھوگئی، اب کیا کیا جائے !!!!!!!!!!!!!!

    اب پوری ٹیم کو مجبوراً لے کر نکلنا پڑا،،!!! ارے بھیا آج یہ چمک چمکا کر کہاں نکلے،!!!! ایک بہن نے مجھے ٹوکتے ھوئے کہا اور میں نے فوراً ڈانٹ دیا اور غصہ سے کہا،!!!! تم سے مطلب،!!!! اور یہ کہتے ھوئے انہیں باجی کے گھر باھر دروازے پر چھوڑا اور ان ھی کے عین گھر کے دروازے کا سامنے وھی ملٹری کی دیوار سے ٹک کر کھڑا ھوکر کچھ خیالات میں گم کچھ سوچنے لگا، جہاں کچھ دیر پہلے ھی بارش کے دوران شاید چند ان لمحات میں ایک کسی خوبصورت شریک سفر کی آنکھوں میں ایک میرے سہانے خواب کی ایک جھلک دیکھی تھی !!!!!!!!!

    میں تو وھاں کھڑا انتظار ھی کرتا رھا، کہ شاید ایک اور جھلک کا کوئی معجزہ ھی ھوجائے لیکن وہ تو نہیں بلکہ والد صاحب وارد ھوگئے، پیچھے سے ھاتھ رکھ کر ھاتہوں سے اشارہ کیا کہ کدھر کھوئے ھوئے ھو، اور یہ کہتے ھوئے چلے گئے، جب کافی انتظار کے بعد کچھ اِدھر اُدھر سے آگے پیچھے ھر طرف نظر دوڑائی کہیں بھی وہی چہرہ نظر نہیں آیا، مگر میں اسے گھر جاکر ڈسٹرب کرنا نہیں چاھتا تھا، اور یہ بھی ھوسکتا تھا کہ جو میں اپنے دل میں سوچ رھا تھا وہ خیال بالکل غلط ھو، مگر میرا دل دوسری طرف سے یہ بھی کہتا تھا کہ اس کی نظریں کچھ نہ کچھ تو کہہ رھی تھیں اور میری اندر ایک ھلچل سی مچی ھوئی تھی، اور اتنی ھمت بھی نہیں تھی کہ اس سے جاکر کچھ پوچھ سکوں -

    لیکن کچھ ھمت کی اور ان کے گھر میں چلا ھی گیا، وھاں پر ریڈیو پر ڈرامے کا آخری حصہ نشر ھورھا تھا، اور کسی نے بھی میری طرف دھیان نہیں دیا، سب بہت انہماک سے ڈرامہ سننے میں مشغول تھے، بہں بھائی بھی موجود تھے اور والدہ نہیں تھیں، وہ شاید خالہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھیں اور خالو بھی آنکھ میں ایک طرف جھوٹی دوربین لگائے لالٹین کی روشنی میں شاید ایک ھاتھ کی گھڑی کھولے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگے ھوئے تھے، میں ایک کونے میں بیٹھا کسی اور سوچ میں گم تھا،

    باجی نے کہا کہ کہاں تھے، اتنا اچھا ڈرامہ تھا، اور تم نے سارا ڈرامہ نکال دیا، میں نے آہستہ سے جواب دیا کہ ادھر میرے ساتھ ھی ڈرامہ ھوگیا تو کیا ڈرامہ سنتا، انہوں نے سنا نہیں اور میں دور سے ھی زادیہ کی ظرف ٹکٹی لگائے دیکھ رھا تھا کہ کوئی اشارا تو مل جائے مگر کوئی ایسے حالات یا کوئی اسکی طرف سے ایسی بات نظر نہیں آئی، بلکہ مجھے دیکھتی ھی بولی آج کیا بات ھے لگتا ھے کچھ تمھارا دماغ کام نہیں کررھا ھے، فوراً میرے پاس آئی اور کہنے لگی شاید وہ بالکل مجھے دیکھ کر سنجیدگی سے بولی کیوں کیا طبعیت خراب ھے، میں نے جواب دیا کہ نہیں !!! مگر تم یہ بتاؤ کہ تم باھر سخت بارش میں کیا کررھی تھی، اس نے جواب دیا کہ واقعی آج تمھارا دماغ چل گیا ھے، میں تو شام سے باھر نکلی ھی نہیں، مگر یہ تو پتاؤ کہ آج یہ چمک چمکا کر کہاں سے آرھے ھو یا جارھے ھو، آج تم نے ڈرامہ بھی پورا نہیں دیکھا -

    میں اسے کیا بتاتا، وہ تو کوئی بھی بات سنجیدگی سے لے ھی نہیں رھی تھی، بلکہ مذاق پہ مذاق کئے جارھی تھی اور سب میرا ھی مذاق اڑا رھے تھے، ارر ملکہ باجی بھی کسی اور کام میں مصروف تھیں، آج کوئی بھی میری سننے کو تیار بھی نہیں تھا، جب کسی سے کوئی لفٹ نہیں ملی تو سیدھا خالو کے پاس ھی پہنچ گیا اور انھیں گھڑی بناتے ھوئے دیکھنے لگا وہ مجھے دیکھے بغیر ھی بولے!!!! کیا بات ھے بیٹا !!!!! آج لگتا ھے کہ کوئی بھی تمہیں لفٹ نہیں کرارھا، کیا کسی سے کچھ جھگڑا ھوا ھے، میں نے کہا نہیں تو !!!! بس آج میرے دل کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رھا ھے، اکثر میں ان کے ساتھ بھی کافی فری ھوکر باتیں کرتا تھا اور واقعی جب باجی یا زادیہ سے کسی بھی بات پر جھگڑا ھوجاتا تو بس میں خالو کے پاس پہنچ جاتا وہ نہیں ھوتے تو انکی نانی کے پاس جاکر خوب دونوں کی شکایتیں لگاتا اور یہ بچپن سے ھی ایسا چلا آرھا تھا اور اب ھم سب بڑے بھی ھوگئے تھے لیکن حرکتیں وھی بچپن کی تھیں اور خالہ تو دونوں طرف سے ھی بولتی تھیں غرض کہ وہ پوری فیملی مجھے دل وجان سے چاھتی تھی اور میں بھی ان سب کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا -

    اگر کالج سے آنے میں یا کہیں اور سے بھی اگر مجھے آنے میں دیر ھوجاتی تو یہ دونوں دروازے پر اپنی نانی یا امی کے ساتھ میرا بےچینی سے انتظار کرتی ھوئی ملتیں، اور باجی تو میرا لحاظ کئے بغیر کان سے پکڑ کر اندر لے جاتیں اور سب کے سامنے مجھے بہت ڈانٹتیں اور اس وعدہ پر کہ آئندہ ایسا نہیں ھوگا مجھے چھوڑ دیتی اور اس وقت یہ ضرور کہتیں !!!!! کہ جاؤ گھر کپڑے بدل کر آؤ آج تمھاری پسند کی ایک چیز بنائی ھے، اگر میں غصہ میں نہیں بھی آتا تو یہ دونوں میرے گھر پر ھی کھانا وغیرہ لے کر پہنچ جاتیں، خیر کہ ھماری یہ دونوں فیملیز کے آپس میں بہت اچھے اور گہرے تعلقات تھے، اور میں تو خاص کر زیادہ تر وقت ان کے ھی گھر میں گزارتا تھا،

    اب مجھے ایک اور بے چینی کھائے جارھی تھی اور جانے کیوں میرا دل یہ کہتا تھا کہ زادیہ بھی وھی میرے بارے میں تاثرات رکھتی ھے جو میرے دل میں ھے، دوسرے دن کالج بھی بے دلی سے گیا اور فوراً بغیر کسی پیریڈ میں گئے واپس گھر کی طرف پلٹا اور گھر میں آکر کپڑے وغیرہ تبدیل کرکے سیدھا ان کے گھر پہنچا باجی گھر پر ھی تھیں اور زادیہ اسکول گئی ھوئی تھی اس کا بھی یہ سال میٹرک کا ھی تھا، باجی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھے خاموشی سے یہ کہا کہ تمھارے اباجی نے کل ھمارے گھر میں ایک بات کہی تھی!!! میں فوراً گھبرا گیا کہ اب یہ کونسی مصیبت آگئی تھی اور باجی کے چہرے پر بھی بہت ھی سنجیدگی کے آثار تھے !!!!!

    وہ کہنے لگیں کہ تم اپنی اس بات پر اپنی بالکل دل سے رائے دینا اور کوئی زبردست کی بات نہیں ھے، اگر تمھیں کوئی اعتراض نہ ھو تو کہوں !!!!! میں تو اور ھی پریشانی کا شکار ھوگیا، دماغ پہلے کہیں اور بھٹک رھا تھا اور باجی بھی ایک نئے مسئلے کے ساتھ مجھ سے پہیلیوں میں بات کرھی تھی، میں نے کہا!!!!! ارے کیا بات ھے کیوں مجھے پریشان کررھی ھو فوراً بولو !!!!! مگر وہ بار بار مجھے سسپنس میں ڈال دیتی تھیں اور بالکل سنجیدگی سے بات کررھی تھیں، اور میں تو بس ایک عجیب سی حالت سے دوچار تھا، اور دل میں یہی سوچ رھا تھا کہ کوئی بڑی ھی مصیبت کا شکار ھونے والا ھوں -

    آخر کو انہوں نے بھی ایک لمبا سکوت توڑا اور اس وعدہ پر کہ یہ بات میں کسی سے نہ کہوں اور خاص طور سے زادیہ سے بھی نہیں، پھر یہ مجھے کہنے لگی کہ !!!!!!!!!!!!!!

    کل تمھارے اباجی نے ھماری امی ابا سے مذاقاً یا سنجیدگی سے یہ کہا کہ میں آپکی چھوٹی بیٹی زادیہ کو اپنی بہو ضرور بناوں گا، میں بالکل ہکابکا ھی رہ گیا، ساتھ ھی مجھ سے پوچھا کہ!!! تمھارا کیا خیال ھے
    میں نے کہا کہ باجی میں کیا کہہ سکتا ھوں، ابھی میں تو یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ھوں، لیکن میں آپکی کسی بھی بات کو ٹال نہیں سکتا، جو بھی آپ کا مشورہ ھوگا میں اس پر عمل کرونگا، مگر کیا زادیہ اس کے لئے راضی بھی ھوگی یا نہیں !!!!!! باجی نے کچھ بھی جواب نہیں دیا !!!!!!!!

    میرے تو دل میں بہت خوشی کے لڈو پھوٹ رھے تھے، اور جیسے ھی میں انکے گھر سے باھر نکلا تو وہ اسکول سے واپس آرھی تھی اور مجھے دروازے پر ٹکرائی، ارے آج تم کالج نہیں گئے !!!!! اس نے ذرا غصہ سے پوچھا !!!!ھم دونوں کی عمر میں کوئی خاص فرق نہیں تھا شاید وہ مجھ سے ایک یا دو سال چھوٹی ھوگی اور ھم دونوں زیادہ تر بچپن سے لڑتے ھی رھتے تھے، دل تو چاھا کہ کچھ بولوں موقعہ بھی تھا لیکن ھمت ھی نہیں ھوئی، اسکے غصہ کو دیکھتے ھوئے !!!! اور فوراً چیختی ھوئی اپنے گھر میں داخل ھوئی کہ!!!!!!!!!!

    دیکھ باجی آج پھر اس نے کالج کی چھٹی کی ھے یہ کہتے ھوئے اندر چلی گی اور میں نے دل میں یہ سوچا رہ گیا کہ آخر یہ لڑکی کب سنجیدہ ھوگی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    اب گھر کے روزمرٌہ کے کام کاج کی فکر تو تھی ھی نہیں، کیونکہ اب سب چیزوں کی ذمہ داری بس اب چھوٹے بہن بھائی پر آگئی تھی، اور کچھ میری اب کالج کی مصروفیات زیادہ بڑھ گئی تھی، اور کچھ بڑے ھونے کے ناتے اب چھوٹے اس قابل ھوگئے تھے کہ وہ گھر کے کاموں میں ھاتھ بٹا سکیں، بس کبھی کبھی زیادہ راشن لانے اور ماھانہ سودے سلف کیلئے والد صاحب اپنے ساتھ مدد کےلئے تھوک کے بازار ضرور لے جاتے، گھر کے علاؤہ محلے کے لوگوں کا سامان بھی فی سبیل اللٌہ لے کر آتے تھے اور تھوک کے حساب سے ھی تقسیم کرتے تھے، مگر اب نہ جانے مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا تھا، ایک تو کالج کا اسٹوڈنٹ دوسرے ذرا سوٹ بوٹ پہن کر کچھ ایسی عادت سی ھوگئی تھی کہ اس طرح کمر پر راشن کا اٹھانا اور گدھا گاڑی پر سامان لاد کر، پھر اس کے اُوپر بیٹھ کر سرعام سڑک پر سرپٹ دوڑے چلے آنا، ایسا لگتا تھا کہ میں بھی ان گدھوں کے ساتھ ساتھ، تمام پبلک اور سڑک کے بیچوں بیچ دوڑتا چلا جارھا ھوں،

    مجھے اب بہت شرم آتی تھی، پیدل سفر گوارا تھا لیکن گدھا گاڑی پر مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، مجھے یہ بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں کالج کے دوست مجھے دیکھ نہ لیں، اور جب بھی کوئی بس گدھا گاڑی کا برابر سے گزرتی میں فوراً ھی گردن جھکا لیتا، کہ میرا چہرہ کوئی دیکھ نہ سکے، راشن شاپ سے جو سودا لانا ھوتا تھا وہ میں ایک کرایہ کی ایک سائیکل لے کر چار پانچ چکر لگا کر سودا گھر پہنچا دیتا تھا اور ایک گھنٹے میں سارا سامان جس میں زیادہ تر چینی، شکر، چاول، اور آٹا وغیرہ شامل ھوتے تھے، اور اسی طرح میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لی تھی، اور ھفتہ میں ایک دفعہ کرایہ کی سائیکل کسی نہ کسی بہانے سے لے کر خوب گھماتا تھا اور بچوں کو اس پر سیر بھی کراتا تھا -

    اب اپنے آپ کو کچھ زیادہ ھی سنوارنے میں لگا رھتا تھا بالوں کے نئے نئے اسٹائیل بنانا، آٹھ آنے میں اس وقت بہتریں بال کٹتے تھے لیکن اگر والد صاحب کے ساتھ جاؤں تو وہ تو بالکل چھوٹے چھوٹے اور پیچھے اور سایڈ سے مشین سے سولجر کٹ بنوادیتے تھے لیکن میں نے جب سے کالج جانا شروع کیا تو اباجی کے ساتھ بال کٹوانا بھی جانا بند کردیا، وہ تو وہاں پر بھی تھوک کے بھاؤ ایک روپے کے چار کے حساب سے، اپنے سمیت سارے چھوٹے بھائیوں کے بال کٹوالیتے تھے اور ساتھ بال کاٹنے والے سےاسی دوران پوری دنیا کی باتیں بھی کرلیتے تھے، ویسے بھی جہاں جاتے وہ شروع ھوجاتے تھے یہاں تک کہ وہ گدھا گاڑی والے کے ساتھ بھی اپنی راستہ میں ھی رشتہ داری بنا لیتے تھے اور گھر پہنچنے پر اسے چائے پانی تو کم از کم پلا کر ھی چھوڑتے تھے، کبھی کبھی کھانے کا اگر وقت ھوتا تو اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھاتے تھے -

    اب تو میں اپنے اندر ھی ایک بڑے ھونے کی وجہ سے ھمیشہ ایک ھیرو کی تصوراتی دنیا میں کھویا رہتا تھا اور اس محلے میں ایک میں ھی تھا جو کالج جارھا تھا اس کی وجہ سے بھی کچھ لوگ میری قدر بھی کرتے تھے، جیسے ایک مثال ھے کہ “اندھوں میں کانا راجہ“ اور چھوٹے تو مجھ سے اب مرعوب بھی رھنے لگے تھے، کچھ فلموں کا بھی اثر تھا، اپنے آپ کو اسی فلمون کے ھیرو کے اسٹائیل میں رکھتا تھا، ھر مہینے ایک نئے فیشن کا جوڑا ضرور ابا یا امی سے رو دھو کر ضرور بنوالیتا تھا چاھے وہ لنڈابازار کا پرانا ھی کیوں نہ سلا ھوا ھو، اب تو میں بھی کافی فیشن کا ماسٹر ھوگیا تھا، سیلیکشن ایک سے ایک، پتہ ھی نہیں چلتا تھا کہ یہ پرانا مال ھے، ایک آدھ بلیک چشمہ بھی جیمز بانڈ کی طرح آنکھوں پر چڑھا لیتا تھا، اور ھمیشہ باھر جانے سے پہلے اکیلے میں آینے آپ کو آئینے کے سامنے رکھ کر کافی دیر تک بناتا اور سنوارتا رھتا تھا،

    اور ایک چھوٹی کنگھی ضرور اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ضرور رکھتا تھا جہاں موقعہ ملتا کسی سائیکل والے کے شیشے میں یا کسی بھی مکان کے کھڑکی کے شیشے میں دیکھ کر بالوں کو دوبارہ سنوار لیتا اور کبھی کبھی کسی کی کھڑکی کے شیشے میں کنگھی کرتے کرتے پیچھے سے صاحب مکان سے مار بھی کھا لیتا تھا، اگر وہ مجھے جانتا نہ ھو تب، کیونکہ پیچھے سے تو پتہ ھی نہیں چلتا تھا کہ کون ھے بعض اوقات تو لگتا تھا کہ اندر جھانک رھا ھوں، بس ایک خراب عادت سی پڑ گئی تھی اور کیونکہ بالوں کو تو ھمیشہ سیٹ کر کے رکھنا پڑتا تھا، کہ نہ جانے کب، کہاں، کسی سے ملاقات ھوجائے، مگر کسی بھی لڑکی کو دیکھتے ھی اپنی تو ویسے ھی سٹی گم ھو جاتی تھی-

    گھر میں اب تو رات کو سونے سے پہلے فلموں کے ڈائیلاگ ضرور یاد کرنے کی کوشش کرتا جسکا کہ سب بہں بھائی میرا مزاق بھی اڑاتے، لیکن میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا سوائے اباجی کے، مگر اباجی کا یہ فیصلہ کہ وہ زادیہ کو اپنی بہو بنائیں گے، یہ انہوں نے گھر پر اپنا کبھی کوئی بھی اس قسم کا اظہار نہیں کیا تھا کئی دفعہ اماں سے پوچھنے کی کوشش بھی کی لیکن ھمت جواب دے گئی، ویسے وہ ھمیشہ ان دونوں بہنوں کی تعریف ضرور کرتے تھے وہ دونوں واقعی بہت خوبصورت اور ساتھ ھی خوب سیرت بھی تھیں، میں تو بس ایک دبلا پتلا سا اور بس کیا کہوں کہ گزارا ھی تھا، مجھے ان کے ساتھ اپنے آپ کو اس مناسبت سے رشتہ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ان کے رکھ رکھاؤ اور رھن سہن لباس کی نوعیت اور ان کا سیلکشن کا وہ خود بھی اور انکے والد بھی بہت خیال رکھتے تھے اور انکی آمدنی بھی اچھی خاص لگتی تھی، اسکے علاؤہ وہ ان کے والد ان دونوں کا بہت ھی ان کی ھر خواھش کا احترام کرتے تھے، اور سات ساتھ میری بھی کئی خواھشیں ان کے کہنے پر پورا کرتے تھے، اور ویسے بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح بہت زیادہ پیار بھی کرتے تھے -

    مگر جیسے جیسے دن گذرتے جارھے تھے، میرے دل میں زادیہ کیلئے ایک کونے میں محبت تیزی سے پروان چڑھتی جارھی تھی، روز سوچتا تھا کہ آج اس سے کچھ نہ کچھ کہہ کر ھی رھونگا، لیکن جیسے ھی آمنا سامنا ھوتا سارے ڈائیلاگ ھی بھول جاتا اس کے سامنے نہ جانے کیوں ھمت ھی نہیں پڑتی تھی، ھالانکہ ھم دونوں ایک دوسرے سے بہت زبردست بحث کرتے تھے اور خوب باتیں کرتے تھے کبھی کبھی میں موضوع کو فلموں کی طرف بھی موڑ لیتا تھا اور کسی بھی فلم کی کہانی بھی سنانا شروع کردیتا تھا، تمام فلموں کے ھیرو کے ڈائیلاگ بھی رومانی انداز میں بہت بہترین طریقے سے ادائیگی بھی کرتا اور مجھے اکثر وہ فلم اسٹار کمال سے ملا دیتے، اور یہ بھی کہتے کہ اگر تم تھوڑے سے موٹے ھوجاؤ تو کسی بھی فلمی اداکار سے کم نہیں ھوگے -

    کیونکہ میں ڈائیلاگ ڈیلیوری میں شروع سے ھی ماسٹر تھا لیکن جب اصل زندگی میں جب کسی کے سامنے بولنے کا موقعہ ھاتھ آیا تو زبان ھی گنگ ھوگئی، نہ جانے کیوں !!!!!!!!!!!

    وقت تیزی سے گزرتا جارھا تھا اور ایک ایک دن مجھ پر بھاری تھا اور مجھے اپنے آپ سے شرم آتی تھی کہ صرف ایک دو لفظ صرف کنفرم کرنے کیلئے اپنی زبان کھول نہیں سکتا تھا، ایک دفعہ تو ھمت کر ھی لی بہت اچھی طرح کچھ ڈائیلاگ یاد کرکے ان کے گھر پہنچ گیا اور ویسے بھی اس گھر کے ایک میں ممبر کی حیثیت سے ھی، زیادہ تر وہیں رہتا تھا، سب سے بہت زیادہ فری تھا خوب مذاق بھی کرتے تھے ایک دوسرے سے جھگڑا بھی کرتے تھے، لیکن جو میں اس سے کہنا چاہتا تھا وہ نہیں کہہ سکتا تھا، اس دن تو سوچ ھی لیا اور میں اس کے پاس بیٹھا ھوا اپنی تمام کوششیں کرڈالیں کہ کچھ کہوں مگر چہرہ سرخ ھوگیا پسینے آگئے مگر وہ ڈائیلاگ منہ سے بالکل نہیں نکلے، اس نے بھی مجھ سے بڑے پیار سے پوچھا کہ “میں نے یہ محسوس کیا ھے کہ تم مجھ سے کچھ کہتے کہتے رک جاتے ھو اور آج بھی تمھاری حالت کچھ ایسی ھی لگ رھی ھے“، مجھ میں کچھ ھمت آئی اور!!!!!

    کچھ کہنے کےلئے زبان کھولی ھی تھی کہ اچانک انکی اماں نے آواز دے ڈالی سارے موڈ کا ستیاناس ھوگیا، کچھ انتظار کے بعد پھر وہ بھاگ کر میرے پاس آئی اور پوچھا کہ اب بتاؤ کہ کیا بات ھے، پھر میں نے تھوڑی سی ھمت کی لیکن پھر زبان میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے رھی تھی، پھر دوبارہ اس نے مجھ سے کہا دیکھو میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی اور نہ ھی تمہاری کسی بات کا برا مانوں گی، کہو تو سہی، یہ بھی ھوسکتا تھا کہ وہ میرے کہنے سے پہلے ھی سمجھ چکی تھی لیکن وہ مجھ سے ھی کہلوانا چاہ رھی ھو،!!!

    جب اس نے بہت ضد کی تو میرے دل نے کہا کہدے اور کہتے کہتے زبان کچھ ڈر کے پھسل گئی، اور کچھ منہ سے جملے نکلتے نکلتے کچھ یوں بدل سے گئے،

    “ارے بس کچھ نہیں بس تمھارے بارے میں ایسے ھی سوچ رھا تھا کہ اگر تمھاری شادی ھوجائے گی تو تمھاری مجھے بہت یاد آئیگی“ کچھ تھوڑی سی ھمت اور پکڑی اور کہا کہ “ فرض کرو کہ اگر تمھیں کوئی یہ کہے کہ وہ تم سے شادی کرنا چاھتا ھے تو تمھارا جواب کیا ھوگا“

    یہ کہہ تو دیا لیکن میری جان ھی نکل گئی اور میں اس کے جواب کا انتظار ایسے کررھا تھا جیسے میں نے کوئی پہیلی بوجھی ھو اور دماغ خراب سوال بھی تو ایسے ھی کیا تھا اپنے آپ کو اندر ھی اندر برا بھلا کہہ رھا تھا کہ باھر تو بڑا رومانٹک ھیرو بنتا ھے اور ادھر اسکے سامنے بالکل بھیگی بلی کی طرح ھو جاتا ھے -

    اس نے ھنستے ھوئے بغیر کسی جھجک کے کچھ اس طرح کے ملے جلے الفاظوں میں کہا کہ “دیکھو بدتمیز!!! اوٌل تو میں شادی کرونگی ھی نہیں، جسکی وجہ سے تمھیں مجھے یاد کرنے کی نوبت آئے اور اگر کسی نالائق نے اگر اس قسم کی حرکت بھی کی اور یہ الفاظ کہنے کی ھمت بھی کی تو تم دیکھنا اس کے گال پر اتنے زور سے تھپڑ ماروں گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا اور ساتھ اسکا خاندان بھی ھمیشہ روتا ھی رھے گا“

    “ارے باپ رے“ میں نے دل میں‌ کہا اور فورآً اپنے گال پکڑ لئے اور لگا اپنے گال سہلانے، اور رھی سھی جو ھمت پکڑی تھی وہ بھی کھڈے میں ھی چلی گئی !!!!!!!!!!!!!

    اور وہاں سے بھاگنے کی ھی سوچ رھا تھا کہ اس نے اپنی باجی کو آواز دے ڈالی اور جو رھی سھی کسر باقی رہ گئی تھی وہ بھی پوری ھونے جارھی تھی، !!!!!!!!!!!!!!

    اس وقت یہ کیا !!!!! میں نے اپنے ھی گلے میں بلی کی گھنٹی باندھ لی تھی، جیسے ھی اس نے باجی کو آواز دی، ادھر میں نے اس سے کہا کہ دیکھو تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کسی کو بھی کچھ نہیں کہو گی تو کیوں باجی کو بلا رھی ھو !!!!!!

    اتنے میں باجی پہنچ گئی اور زادیہ کو موقعہ مل گیا کہ مجھے تنگ کرنے کا، وہ اکثر کوئی بھی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے نہیں دیتی تھی، بلکہ میں بھی اس کے معاملے میں کسی سے کم نہیں تھا اور ھم دونوں کو اگر کوئی بھی ایک دوسرے کے خلاف کچھ کہنے کا موقعہ مل جائے تو بس سمجھ لیجئے ایک قیامت آجاتی تھی، دونوں بہت لڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں پاتے تھے،!!!!!

    باجی جیسے ھی پہنچیں، زادیہ نے کچھ کہنے کو منہ کھولا، اور میں نے کچھ اپنی مسکین سی صورت بنا کر دیکھا، اس نے اس وقت زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی بات کو پلٹ دیا اور دوسری طرف اس نے اسکا کوئی اور کچھ کہہ کر رخ موڑ لیا، ورنہ تو مجھے بہت باجی کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی، لاکھ لاکھ شکر ھے کہ بال بال بچ گئے !!!!!!!!

    آج کل کا تو پتہ نہیں لیکن اس وقت کوئی کتنا ھی کیوں نہ بہادر ھو سخت جان کیوں نہ ھو اور چاھے کتنا ھی بڑا اداکار یا ڈبیٹر ھی کیوں نہ ھو اس میدان میں وہ ھار ھی جاتا تھا، کبھی بھی کسی لڑکی سے خلوصِ دل سے اظہار محبت کردینا، میں سمجھتا ھوں کہ بڑے بڑے سورما حضرات کی بھی جان نکل جاتی ھوگی یہ کوئی اتنا آسان نہیں ھے، یہ واقعی ایک بہت بڑا مشکل مرحلہ ھے !!!!!!! چاھے کوئی بھی اس کو مانے یا نہ مانے ‌؟؟ لیکن شرط یہی ھے کہ خلوص دل سے اعتراف اور نیک نیتی سے اظہار ھو جب !!!!!!!!

    اس کے بعد تو کچھ دنوں کے لئے میں ‌نے خاموشی اختیار کرلی، مگر اسے تو مجھے بلیک میل کرنے کا موقعہ ھی مل گیا، مجھے ھر وقت ڈراتی بھی رھتی تھی، میں اس وقت واقعی کچھ ڈرپوک بھی تھا اور اس معاملے میں تو کچھ زیادہ ھی، مگر ایک دن تو میں نے یہ بالکل طے ھی کرلیا کہ آج کے بعد خامخواہ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے، کیونکہ اس دن کوئی شاید اسی قسم کی فلم دیکھ کر آیا تھا اور اس کے ھیرو کی طرح میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ چاھے کچھ بھی ھو جائے اس دفعہ اس لڑکی سے اقرار کرا کے ھی رھوں گا،!!!!!

    دوسرے دن یہ لڑکیوں کے ساتھ ھمارے گھر کے صحن میں کھیل رھی تھی اور اس کے ھاتھ میں ایک گیند تھی، اسکو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایک مجھے ایک شرارت سوجھی اسکے ھاتھ سے گیند چھین کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا اور وہ میرے پیچھے گیند واپس لینے کے چکر میں، اور باقی لڑکیاں بھی اسکو ایک کھیل کی ظرح تفریح لینے لگی، اور ان کا تو کھیل ختم ھوگیا اور ھم دونوں کا کھیل شروع، وہ بھاگتے بھگتے تھک گئی اور دیوار کے ساتھ ھانپتے ھوئے بیٹھ کر اپنا سر گھٹنوں پر رکھ کر زور زور سے اپنی سانسوں کو سمیٹنے لگی،!!!!!

    اور جیسے ھی وہ کچھ اپنے آپ کی سانسوں کو درست کر پائی، ویسے ھی پھر وہ تیزی سے اٹھ کر میرے پیچھے بھاگی لیکں میں بھی ایک شاطر تھا، میں نے بھی فوراً گیند کو جیب میں ڈال کر،ایک چھلانگ لگائی کھڑکی کو پکڑ، دیوار کو پھلاندتا ھوا اپنے گھر کی چھت پر جا پہنچا اور وہ مجھے دیکھتی ھی رہ گئی، اور وہ لڑکی ایسی تھی کہ کبھی ھار نہیں مانتی تھی اور اس میں خودی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ھوا تھا، اور اسکی یہ عادت مجھے بہت پسند بھی تھی اور اسی کی کمزوری سے میں ناجائز تنگ بھی بہت کرتا بھی تھا اور بعد میں اسی کے حق میں دستبردار بھی ھوجاتا تھا، اور وہ بھی اس وقت تک مجھے نہیں چھوڑتی تھی کہ جب تک میں ھار مان نہیں جاتا !!!!!!!

    میں چھت پر اور وہ نیچے، وہ بلکل بضد تھی کہ گیند لے کر ھی جائے گی اور میں نے بھی آج ایک اور موقعہ کو ھاتھ میں جکڑ رکھا تھا، باقی ساری اس کی ساتھی لڑکیاں تو تھک ہار کر چلی گئی، لیکن وہ نیچے ٹس سے مس نہیں ھوئی گرمیوں کے دن تھے، دونوں کا برا حال بھی تھا، اس نے کہا کہ دیکھو مجھے تنگ مت کرو اور تمھیں تو پتہ ھے کہ میں بہت ضدی ھوں، گیند تو میں لے کر ھی جاؤں گی، کوشش تو اس نے بہت کی اوپر چھت پر چڑھنے کی، لیکں کامیابی نہیں ھوئی اُدھر میرا ایک دوست اپنی چھت پر پتنگ اڑا تے آڑاتے ھم دونوں کا تماشا بھی دیکھ رھا تھا، اور وہ بھی میری حمایت میں مجھے خوش کررھا تھا،

    اسی کشمکش میں کافی دیر ھوچکی تھی آخر کو میں نے ھمت کر کے کہا، ھاں ایک شرط پر گیند واپس کروں گا، !!! اس نے پوجھا کہ، وہ کیا!!!!! میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ تم ھاں کہو!!!!!!! اس نے غصہ سے کہا کہ کس بات کیلئے!!!! بس تم ھاں کہو، میرا بھی دماغ خراب کہ میں کس بات کیلئے اس سے ھاں کہلوا رھا ھوں، وہ الفاظ تو منہ سے نکلے ھی نہیں اور اتنے میں کچھ کہنے کی ھمت پکڑتا وہ غصہ میں پیر پٹکتی ھوئی اپنے گھر کی طرف چل دی!!!

    یہ آج پہلی بار ھوا کہ وہ اپنے مقصد کو پائے بغیر اپنی ضد کو پورا کئے بغیر ھی چلی گئی، جس کا مجھے آج تک افسوس ھے!!!!!

    کیونکہ میں ھمیشہ سے اسکی جیت کو اپنی جیت ھی سمجھتا تھا اور اکثر و بیشتر ھم دونوں بہت بحث کرتے تھے اور وہ اپنی بات کو ھمیشہ مجھ سے منوا کر رھتی تھی اور میں آخر ھار جاتا تھا پھر اسکے چہرے پر جو مسکراھٹ آتی تھی وہ میرے لئے ایک کسی نعمت سے کم نہیں ھوتی تھی، بظاھر میں اس سے کتنا ھی کیوں نہ ناراض ھوں لیکن جب میں اسے خوش دیکھتا تھا میرا دل اندر سے جھوم رھا ھوتا تھا، اور پورے محلے میں ھم دونوں کی شرارتیں بہت مشہور تھیں، اور اکثر لڑکے مجھ سے ناراض بھی ھوتے تھے کہ میں اس سے ڈر کر کیوں ھار مان جاتا ھوں، !!!!!!!!!!!!!

    ھاں تو بات ھورھی تھی کہ اس نے زندگی میں پہلی بار ھار مان کر واپس جارھی تھی، جسکا مجھے بہت دکھ ھوا، میں بھی فوراً چھت سے کودا کچھ چوٹ بھی لگی لیکن چوٹ کی پرواہ کئے بغیر اس کے پیچھے بھاگا مگر جب تک وہ اپنے گھر میں داخل ھوچکی تھی، جیسے ھی میں نے ان کے گھر کے مین دروازے کا پردہ آٹھایا تو کیا دیکھتا ھوں سامنے وہ اپنی باجی کے کان میں کچھ کہہ رھی تھی اور باجی کا تو غصہ سے چہرہ سرخ ھورھا تھا، نہ جانے اس نے باجی کو کیا کہہ دیا تھا میرے تو جیسے پیروں میں دم ھی نہیں رھا، اس سے پہلے کے میں کچھ کہتا باجی نے فوراً میرے کانوں کو پکڑ لیا اور لگی مروڑنے اور میں اوئی ھائے کرنے لگا، نہ جانے ان کو میرے کان اتنی جلدی اور فوراً کیسے قابو میں آجاتے تھے، کہ میں کسی طرح بھی جان چھڑا نہیں سکتا تھا، آج بھی جب باجی کی یاد آتی ھے تو میں اپنے کان ضرور سہلانے لگتا ھوں، !!!!!!!!

    وہ میرے کان مروڑتی جارھی تھیں اور ساتھ پوچھتی بھی جارھی تھیں کہ مجھے بھی تو بتاؤ تم نے زادیہ سے کیا کہا، !!!! میں نے بھی نیچے تکلیف میں جھکتے ھوئے کہا کہ کچھ بھی تو نہیں کہا، بس یہ گیند چھپائی ھوئی تھی لو یہ واپس لے لو!!!!!!!! مجھے نہیں چاھئے اس نے اپنے آپ کو مظلوم بناتے ھوئے کہا اور کہتے ھوئے اندر کمرے میں چلی گئی اور مجھے معلوم تھا کہ وہ بہت خوش ھوگی، کیونکہ مجھے سزا جو مل گئی، لیکن میں یہ سوچ سوچ کر پریشان تھا کہ اس نے کیا کہا تھا، میں نے بہت کوشش کی کہ باجی سے پوچھوں لیکن انہوں ‌نے ٹال دیا اور سنجیدہ سی ھوگئیں، بس یہی کہا کہ تم گھما پھرا کر بات نہیں کیا کرو جو بھی ھو صاف صاف کہہ دیا کرو، اس ظرح کوئی بھی بات کا غلط مظلب لے سکتا ھے،

    میں سوچتا ھی رہ گیا کہ میں نے کونسی غلط بات کہدی، صرف اتنا ھی کہا تھا کہ “ ایک شرط پر گیند واپس کرونگا اگر تم ھاں کہو گی“ اور کس بات کےلئے ھاں کہو گی وہ تو میں کہہ ھی نہیں سکا، کئی دنوں تک ھم تینوں میں سنجیدگی ھی رھی، میں بھی کافی پریشان سا ھی تھا، مگر پھر آھستہ آھستہ حالت معمول پر آگئے، میں نے معافی بھی مانگی، پھر سے وھی رونقیں بحال ھوگئیں اور ھم تینوں پہلے سے بھی زیادہ ایک جان ھوگئے، مگر میں نے توبہ کرلی کہ اب کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کہوں گا جس سے اسے کسی بات کا صدمہ پہنچے، میں بھی تو اتنا بےوقوف اور ڈرپوک تھا کہ میرے منہ سے کوئی ایسے سلجھے ھوئے ھوئے الفاظ نہیں نکل سکتے تھے جس سے کہ وہ مجھ سے مرعوب ھوجائے، جبکہ میں فلموں کے رومانٹک ڈائیلاگ ایسے زبانی اور بالکل ھیرو کی طرح جذباتی انداز میں بولتا تھا کہ سب حیران ھوتے تھے اور وہ بھی ان دونوں کے سامنے لیکن ایسے ھی ڈائیلاگ اپنے دل سے اسے اکیلے میں کہتے ھوئے موت آتی تھی،!!!!!!!

    بعد میں ایسی کوئی ھمت تو نہیں پڑی لیکن میں خوش تھا کہ وہ مجھ پر پہلے سے زیادہ بہت مہربان تھی اور بعض اوقات میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ میرے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتی تھی جبکہ باجی مجھے میرے گھر سے یا باھر کہیں سے بھی زبردستی پکڑکر لاتی پھر ھم تینوں مل کر کھانا کھاتے، اور ھمیشہ اپنی امی سے وہ میرے پسند کے کھانا پکواتیں، اب تو ناشتہ بھی ان کے گھر پر ھونے لگا تھا اگر مجھے کالج جانے کو دیر ھوجائے تو وہ دونوں دروازے پر آجاتیں اور دونوں کے ھاتھ میں الگ الگ ایک ایک ناشتہ کا پراٹھے میں انڈا سے لپٹا ھوا نوالا ھوتا اور دونوں بضد ھوتے کہ پہلے میرے ھاتھ کا نوالا کھاؤ،

    کئی دفعہ تو میں دونوں کی ضد کے آگے پریشان بھی ھوجاتا کہ ایک کہتی کہ مجھے دیکھو تو دوسری کہتی کہ نہیں میں بڑی ھوں صرف تم مجھے دیکھو گے، جب کچھ تکرار زیادہ ھوجاتی تو فوراً نانی بول پڑتیں تھیں کہ ارے تم کہیں کسی کو نہیں دیکھو گے بس مجھے دیکھو نانی بیچ میں آجاتیں تھیں، وہ بھی ھم تینوں کو اس طرح ھنستے کھیلتے، ایک دوسرے پر جاں چھڑکتے، دیکھ کر بہت خوش ھوتیں تھیں اور ساتھ انکے والدیں بھی مجھے بہت چاھتے تھے، نانی جان اور ان کی امی تو مجھے ھمیشہ میرے ماتھے پر پیار کرتی رھتی تھیں اور نظر بھی اتارتی تھیں، اور انکے ابا کبھی کبھی ایسا بھی کہتے کہ،!!!! اتنا بھی پیار نہ کرو کہ اگر یہ نہ ملے تو تم لوگ برداشت نہ کرسکو کیونکہ آخر کو یہ ھماری اولاد تو نہیں ھے، کہیں ان کے والدین کبھی اعتراض نہ کر بیٹھیں،!!!! اور پھر سب کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور میں ھی کہتا کہ چاھے کچھ بھی ھوجائے میں آپلوگوں کو کبھی نہیں چھوڑوں گا،

    اب تو میں اپنے گھر میں سونے ھی جاتا تھا وہ بھی رات گئے تک ان کے ساتھ ھی رھتا، کالج جانا اور واپس آکر اپنے گھر میں کپڑے بدل کر ان کے پاس پہنچ جانا اور بس بہن بھائی کے ذریئے امی کے بلاؤے پر گھر جانا اور جو بھی کام ھوا اسے پورا کرکے سیدھا پھر ان کے گھر پر پہنچ جاتا اور ھمارے گھر پر بھی کوئی اب تک امی ابا کی ظرفسے کوئی ناراضگی کا کوئی ایسا اظہار تو نہیں ھوا تھا لیکن ھماری امی کبھی کبھی یہ کہتی ضرور تھیں کہ کبھی اپنے گھر میں بھی ٹک جایا کرو، لیکن میں ان کی بات کو ھمیشہ نظر انداز کردیتا تھا، جو میرے لئے کچھ دنوں بعد میں بہتر ثابت نہیں ھوا،

    اس کے علاؤہ گھومنے پھرنے اور انکے ساتھ فلمیں بھی دیکھنے جانے لگا اور انکی ھر باھر کی تقریبات اور دعوتوں میں بھی میں ان کے ساتھ ھی رھتا تھا، غرض کہ نہ ان کو میرے بغیر چین اور نہ ھی مجھے، میں کہیں بھی ھوتا تو وہ دونوں مجھے ڈھونڈ نکالتیں ایک دفعہ میں ان کے گھر جانے ھی والا تھا کہ زادیہ مجھے ڈھونڈتی ھوئی میرے گھر پہنچ گئی، وھاں میں ایک پڑوسی کی لڑکی کے ساتھ باتیں کررھا تھا کہ پیچھے سے یہ زادیہ پہنچ گئی اور کچھ کہے سنے بغیر ھی غصہ میں واپس پلٹ گئی،

    اب ایک اور مجھے مشکل سامنے نظر آرھی تھی، میں تو گھبرا گیا کہ اب کوئی ایک اور نئی مصیبت کا سامنا ھونے والا ھے، کیونکہ جس لڑکی سے میں بات کررھا تھا، اس سے زادیہ بہت ھی زیادہ چڑتی تھی اور ھمیشہ مجھے اس سے دور رھنے کےلئے بھی کہتی تھی!!!!!!!!!!!!

    ایسا میرے ساتھ ھی کیوں ھوتا ھے،؟؟ جیسے ھی جتنا حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ھوں‌، کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ھو جاتا ھے، خیر اب آنے والے طوفان کا تو مقابلہ کرنا ھی ھوگا،!!!!! سوچو سیدصاحب ورنہ تو موسم حد درجہ خراب ھونے کے امکان ھیں، لڑکیوں کی تو ایک مشکل یہ ھے کہ ذرا ذرا سی بات پر بغیر کچھ سمجھے ھوئے شک کرنے لگتی ھیں، ارے بھئی کسی کو صفائی کا تو موقع دو، مگر کسی کی بھی نہیں سنتی ھیں اور ان کی عدالت بھی ایک طرفہ ٹریفک کی طرح ھی ھوتی ھے!!!!

    اب کر بھی کیا سکتے تھے ایک نیا مورچہ سامنے آرھا تھا، چلو اس کو بھی سنبھالتے ھیں، ان کی عدالت میں یعنی ان کے گھر ڈرتے ڈرتے پہنچے، موڈ کچھ ٹھیک نہیں لگ رھا تھا، یا مجھ پر ھی فطری طور پر ھی کچھ نفسیاتی سا اثر ھو گیا تھا، پہنچتے ھی کچھ بات چیت تو نہیں ھوئی میں بھی جاکر سب سے معمول کے مطابق سلام کیا اور ویسے بھی روزانہ آگر نانی جاگ رھی ھوتی تو ان کو جھک کر آداب کرتا اور وہ مجھے دعائیں دیتی ھوئی ماتھے پر پیار کرتیں اور اپنے ھاتھوں سے بلائیں لیتیں، نانی اور خالہ دونوں ھمیشہ مجھے اسی طرح دعائیں دیتیں اور پیار کرتی تھیں اور پھر ان کی دعاؤں سے فارغ ھو کر باجی کی عدالت میں حاضری اور روزمرہ کی رپورٹ انکی خدمت میں پیش کرتا اور پھر چھوٹی کی طرف دیکھنا کہ اس کا کیسا موڈ ھے،

    چھوٹی کا موڈ تو ھمیشہ موقع کی شاید تلاش میں ھوتا ھے اور اب تو جناب انہوں نے مجھے اس لڑکی سے بات کرتے دیکھ لیا تھا جسے وہ پسند ھی نہیں کرتی تھی، خیر ھمیں کیا، شکر ھے کہ کسی سے شکایت نہیں کی تھی، ورنہ تو کچھ سنبھالنا مشکل ھوجاتا، ترکیب تو سوچ کر ھی آیا تھا، لیکن ضرورت نہیں پڑی مگر کسی اور طرف اسکا اٹیک ھو ھی گیا !!!!!!!

    آج نانی کچھ مجھ سے بہت زیادہ خوش تھیں اور وہ اپنے پیارے انداز میں میری بہت زیادہ تعریف کررھی تھیں، کہ میں بہت فرمانبردار، مودب اور بہت خدمت گزار ھوں اسکے علاوہ کہ جس لڑکی سے بھی اسکی شادی ھوگی وہ بڑی خوش قسمت ھوگی وغیرہ وغیرہ، وہ ھمیشہ ھی میرے لئے ایسے ھی پیارے خطابات سے نوازتی تھیں مگر آج کچھ ضرورت سے زیادہ ھی میری تعریف ھورھی تھی، اوپر والا میرے حال پر کرم کرے، جب مجھ پر کچھ زیادہ ھی مہربانیاں برسنے لگتی ھیں تو مجھے لگتا ھے کہ آج کچھ گڑبڑ ھونے والی ھے،

    نانی تعریف کرتیں تو خالہ اس میں مزید اور اضافہ کرکے تعریفوں کے پُل باندھ دیتی تھیں اور باجی مجھے دیکھتی ھوئی خوشی سے مسکراتی اور مجھے معنی خیز نظروں سے بھی دیکھتی جاتیں، اور آج کل تو میری دلہن کے بارے میں اس موضوع پر ایک مزید بحث کا اضافہ ھوگیا تھا اور جیسے ھی نانی یس موضوع کو چھیڑتیں اور میری ھونے والی دلہن کی خوش قسمتی پر ناز کرتیں تو فوراً چھوٹی کہتی کہ !!!!! کوئی نہیں نانی اس لڑکی کی تو قسمت ھی پھوٹ جائے گی، اپنی شکل دیکھی ھے کبھی آئینے میں ؟؟؟؟؟؟

    اور آج تو اسکا ویسے ھی میرے خلاف موڈ تھا، مگر نانی تو آج میری تعریف کے قصیدے پر قصیدے بیان کررھی تھیں، ھمارے والد صاحب بھی ان کو اپنی والدہ کا درجہ دیتے تھے اور شاید پہلے بھی نانی کو کہا بھی تھا کہ یہ چھوٹی کو تو میں اپنی بہو بناؤں گا، اور نانی کو بھی دیکھو اس کا ذکر آج ھی کرنا تھا، جیسے ھی نانی نے زادیہ کو مخاطب کرتے ھوئے میری طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ ان کے ابا تمھیں تو اپنے گھر کی بہو بنانا چاھتے ھیں، تمھارا کیا خیال ھے، یہ سنتے ھی چھوٹی بھڑک اٹھی !!!! کیا میں فالتو ھوں اور کبھی اپنی شکل آئینے میں دیکھی ھے، نانی تم نہیں سمجھتی یہ نہ جانے کن کن لڑکیوں کے چکر میں رھتا ھے، اور پتہ نہیں کس کس کو بے وقوف بناتا رھتا ھے !!!!!!اور نہ جانے کیا کیا کہتی رھی، میں نے بھی جواباً تنک کے کہا کہ!!!!! شکر ھے مالک کا جو بھی مجھے دیکھتی ھے فدا ھوجاتی ھے، ایک سے ایک پڑی ھے،!!!!! میرے یہ لفظ سنتے ھی اس نے کہا کہ!!!!! تو تم یہاں کیوں آتے ھو، جاؤ وھیں اپنی لاڈلیوں کے پاس !!!!! بس یہ کہا اور دوسرے کمرے میں یا باورچی خانہ میں اپنی اماں کے پاس جاکر میرے خلاف کھسر پھسر کرنے لگی،

    ایک تو وہ ویسے ھی میری وجہ سے غصہ میں تھی اور اُوپر سے میں نے بھی خوامخواہ اس سے بےکار پنگا لے لیا، اب کیا کروں باجی کو پکڑلیا باجی نے کہا کہ،!!!! میں کیا کروں یہ تم دونوں کا معاملہ ھے میں کچھ نہیں کرسکتی،!!!!
    میں نے اچکتے ھوئے کہا کہ!!!!!! ارے باجی میں نے کچھ نہیں کیا کسی لڑکی سے تو میں کسی بھی طرح اور کسی بھی ظریقے سے جو وہ سمجھ رھی ھے کبھی اس طرح بات ھی نہیں کرتا، کچھ اسے سمجھاؤ !!!!!! باجی نے مسکراتے ھوئے کہا کہ !!!مگر تم نے بھی تو مذاقآً یا حقیقت میں غلط جواب دیا ھے، اب بھگتو !!!!!!

    اس کے بعد کچھ دن مجھے لگے حالات کو قابو میں لینے کیلئے اور شکر ھے کہ پھر سے گاڑی لائن پر دوبارہ چل پڑی اور شادی اور دلہن کا موضوع تو اب بالکل ختم کردیا تھا، جب سب راضی ھیں تو کیا غم ھے، بس میں چاھتا تھا کہ وہ کسی ظرح سے اقرار کرلے، مجھ سے اس طرح اس سے اس بات کا اقرار کرنا تو ایسے تھا جیسے لوھے کے چنے چبانا، سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ھم دونوں کبھی سنجیدہ ھی نہیں ھوئے اور ھمیشہ ھر موضوع پر خوامخواہ کی بحث اور لڑنا جھگڑنا ایک معمول تھا اور دونوں ھی ایک دوسرے سے لڑنے کے بہانے بھی ڈھونڈتے اور ایک دوسرے کے بغیر رہ بھی نہیں سکتے تھے !!!!!

    میں نے اب یہ سوچ ھی لیا تھا کہ میں اب اس سے کبھی بھی نہیں لڑونگا اور ایسی بات سے ھمیشہ پرہیز کرونگا جس سے اسے کوئی پریشانی یا صدمہ پہنچے اور اپنی پوری کوشش کرونگا کہ اسکی ساری ھمدردیاں حاصل کرنے کی، اور اب تو حالات معمول پر تھے پھر سے ھم تینوں خوش تھے اور میں بھی اس سے کسی بات پر بحث ھی نہین کررھا تھا اور اس کی ھاں میں ھاں ملا رھا تھا، مگر وہ پریشان ھوگئی اور باجی سے کہا کہ اس سے پوچھو مجھ سے اب تک کیوں ناراض ھے، لے بھیا!!! ایک اور مشکل، میں نے کہا کہ میں کب ناراض ھوں تو اس نے جواب دیا کہ !!!!! تو پھر مجھ سے اب بحث بھی نہیں کرتے ھو اور میری ھر غلط بات پر بھی لڑتے نہیں ھو !!!!!! میں نے پھر غصہ سے کہا کہ !!!!!!تم سے تو پیار سے بات کرو تو مشکل اور لڑو تو بھی مشکل !!!!! اور اسی طرح پھر دونوں میں تکرار اور بحث چل پڑی اور بہت مشکل سے باجی کی مداخلت پر معاملہ ٹھنڈا پڑا !!!!!!

    کل تو وہ یہ کہہ رھی تھی کہ!!!! اسے سمجھادو باجی مجھ سے الجھا نہ کرے اور یوں خامخواہ الٹی سیدھی باتیں نہ کیا کریں، ورنہ ورنہ!!!!!! اور آج تو اپنے ھاتھ سے بنایا ھوا گاجر کا حلوہ کھلا رھی تھی جیسے کہ کل کوئی بات ھی نہیں ھوئی، میں بھی خوش بس پھر میں بھی چپ، مگر کیا کریں یہ تو ھم دونوں کے ساتھ ساتھ تھا اور اسکے بغیر بھی گزارا نہیں تھا اور مجھے اسکا یہ موڈ بھی اچھا لگتا تھا اور اپنے آپ کو اسکے سامنے ھرانا اور بھی زیادہ اچھا لگتا تھا، اسکے جیتنے پر اسکے چہرے کی خوشی اور خفا ھونے کی صورت میں اسکا لال سرخ چہرہ، مجھے اسکے دونوں روپ بہت اچھے لگتے تھے !!!!!!

    ایک دن جب کالج کے لئے نکلا اور حسب معمول ان کے گھر گیا تو اسے سخت بخار چڑھا ھوا تھا اور سب اسکی تیمارداری میں لگے ھوئے تھے، اور مجھ سے بھی دیکھا نہیں گیا اور میں کالج کے بجائے سیدھا اپنے والد صاحب کی کمپنی کے ڈاکٹر کے پاس گیا اور اسکی حالت بتا کر اسی کے نام سے دوائی لی اور فوراً جلدی جلدی اسکے پاس پہنچا وہ سخت بخار میں تھی اور باجی اور خالہ دونوں اسکے سر پر ٹھنڈی پٹیاں کررھی تھی، مجھے دیکھتے ھی ھانپتے ھوئے کہا کہ !!!!! دیکھو بدتمیز کو کہ جب اس کی طبعیت خراب ھوتی ھے تو میں اسکے بستر کے پاس سے ھٹتی نہیں ھوں اور یہ حضرت صبح سے غائب اور میری کوئی فکر نہیں ھے کہ میری یہاں کیا حالت ھے!!!!!! میں نے دل میں کہا کہ دیکھو اس کو بخار میں بھی چین نہیں ھے !!!!!!!!!!

    اس سے پہلے کہ وہ مزید اور کچھ کہتی، میں نے فوراً دوائی کا لفافہ اس کی طرف بڑھا دیا اور کہا کہ!!!! میں تو تمھاری دوائی لینے گیا ھوا تھا !!!!! میرے یہ کہتے ھی دیکھا کہ اسکی آنکھوں میں فوراً آنسو چھلک آئے اور اس نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا، باجی کے بھی ساتھ ھی آنسو نکل پڑے اور خالہ اور نانی نے مجھے باری باری گلے لگایا اور ماتھے پر پیار کیا اور بہت دعائیں دیں !!!!!!!!

    آور اس دن میرا دل بھی اندر سے بہت خوش تھا کہ آج زندگی میں شاید پہلی بار زادیہ کو میری کسی حرکت سے اسکی آنکھوں میں جذبات میں ڈوبے ھوئے آنسو امڈ آئے تھے!!!!!!!!!!!!!!!

    آج تو میں بہت ھی زیادہ خوش تھا، یہ خوشی بھی کیسی خوشی تھی کہ کوئی بیمار تھا اور میں خوشی سے ناچ رھا تھا!!!!!!!!!

    دوائی کا تو پتہ نہیں کہ اس نے پی تھی یا نہیں لیکن میں نے وھی دوائی کی بوتل کافی عرصہ تک سامنے والے ظاق میں رکھی دیکھی، میں بھی روز دیکھتا تھا لیکن میں نے اس دوائی کے بارے میں اس سے کبھی نہیں پوچھا اور نہ ھی اس نے کوئی اس دوائی کے بارے میں بتایا کہ یہ دوائی اب تک کیوں رکھی ھے، اتنا سب کچھ ھوگیا اور یہ بھی دل کو یقین ھوگیا کہ وہ مجھے بہت دل و جان سے چاھتی ھے، لیکن جو میں اس کے منہ سے سننا چاھتا تھا، لاکھ کوشش کرلی مگر نہ میں کچھ کہہ سکا اور نہ اس نے کوئی اپنی زبان کھولی، کئی دفعہ ایسا ماحول بھی پیدا کیا کہ کچھ بول سکوں اور اس نے بھی چاھا کہ میں کچھ اپنے منہ سے کہوں لیکن افسوس کہ اس وقت ھی میری زبان گنگ ھوجاتی تھی، صرف اس ڈر سے کہ کہیں پھر وہ برا نہ مان جائے اور کہیں میں اسے کھو نہ دوں!!!!!!
     
  3. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    السلام علیکم

    سید انکل ابھی تھوڑا سا پڑھا ہے بہت اچھا لکھا ہے سارا پڑھ کر بتاؤں گا :a180:
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    بہت شکریہ حسن جی،!!!!! اگر آپ میری "یادوں کی پٹاری" کے سابقہ ورژن کو ایک تسلسل کے ساتھ پڑھیں اور ایک ھی نشست میں پڑھیں، تو آپکی طبعیت باغ باغ ھوجائے گی،!!!!

    یہ تو میں ادھر ادھر سے جہاں سے بھی مجھے اپنی تحریروں کے ٹکڑے مل جاتے ھیں اسے کاپی پیسٹ کرکے چپکا دیتا ھوں،!!!!

    کاش کہ انتظامیہ کو میرے حال پر رحم آجائے اور پہلے کی طرح میری سابقہ 'یادوں کی پٹاری' کی اپنی پرانی جگہ پر بحال کردیں،!!!!!
     
  5. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    انشاءاللہ جلدی ہو جائے گا
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    میں نے تو اپنی زندگی کی تمام اچھی بری یاداشتوں کو بہت محنت سے اپنی ھی زبان میں تحریر کرکے "ھماری پیاری اردو" کے نام وقف کردی تھیں، یہی میری لائبریری ھے یہی میرا خزانہ بھی ھے،!!!!

    خوش رھو،!!!!
     
  7. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    جناب عبدالرحمن سید صاحب اداب عرض ہے غرض حال کچھ یوں ہے کہ بندہ کافی عرصہ بعد اآپ کو دوبارہ تکلیف دینے پر معذرت چاہتا ہے . 1965 کے حالات بیان کرتے وقت اگر اآپ اس وقت کے پاکستان کے حالات بالخصوص جنگی حالات بھی وضاحت و صراحت سے بیان کر دیتے تو دل پژ مردہ پر باغ و بہار گزرتا امید ہے اآپ اگر اس میں ترمیم نہ بھی کر سکے تو الگ کالم یا مضمون کی صورت میں ضرور مدون فرمائیں گے اور مجھے معنون کریں گے تاکہ میرے لئے مشعل راہ اور مشعل ذات رہے
    از
    احقر العباد
    ایم اے رضا
     
  8. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    سید انکل جی ادھر بھی نظر دوڑائیں
     
  9. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جواب: لڑکپن سے جوانی کی طرف میرا پہلا قدم،!!!!

    بہت خوب سید بھایی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں