1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

لمحہءِ فکریہ بقلم زنیرہ عقیل

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏6 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    ہماری اردو کے خوبصورت فورم پر میرے ایک فقرے کہ " کاش میں کوئی اچھا کالم لکھنے کے قابل ہوجاؤں " کے جواب میں ایک بہت ہی اچھے دوست نے مشورہ دیا تھا کہ:

    "جلد ایسی تحریر لکھنے کے قابل ہوجائیں گی
    بس یکسوئی اور لگن کا دامن مت چھوڑیے گا
    ہمیں انتظار رہے گا زنیرہ بقلم خود کا"

    سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ ایک چھوٹی سی تحریر سے ابتدا کر لوں . یہ سوچتے سوچتے میں ہوسٹل میں اپنے روم کی کھڑکی میں کھڑی اپنے پیارے وطن پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو لہراتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور جب کبھی اس خوبصورت چاند ستارے والے پرچم پر نظر پڑتی ہے تو دل میں اپنے وطن سے فرطِ محبت سے ایک جذبہ بیدار ہو تا ہے اس پرچم کو سلام کرنے اسے چُھو کر اسے چھومنے کو دل کرتا ہے یہاں تک کہ ایک لفظ کاش دل میں بیدار ہوتا ہے کہ کاش میرا جسد خاکی بھی اسی میں لپٹا ہوا لحد میں اترے۔


    پھر میرا دھیان اپنے وطن کے باسیوں اپنے وطن کے سپوتو ں اپنے وطن کے ولیوں اور ان لوگوں کی طر ف بٹ گیا جو سچے پکے مسلمان ہیں اور اسلام اور پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں . مجھے ان کے محبت انکے جذبے انکے اسلام سے لگاؤ کو دیکھ کر خوش ہوجانا چاہیے لیکن اگلے ہی لمحے میری آنکھیں نم ہوئی . یہ نمی میرے اندر کے اس احساس اس جذبے کی بدولت تھی جسے سوچ کر روح تذبذب کا شکار نظر آتی ہے. اس فکر کی نمی ہے یہ جو اندر ہی اندر آگ بن کر احساسات کو جھلسا رہی ہے . دل میں تلاطم بپا ہے فقط اس احساس سے کہ جس وطن کے باسی لاکھوں کی تعدا د میں بڑے بڑے اجتماعات میں حصہ لیتے ہیں. جو لاکھوں کی تعداد میں تبلیغ ِ دین کی خاطر لمبے لمبے سفر چل کر ملکوں ملکوں شہروں شہروں گلیوں کوچوں اور چوراہوں پر دین کی سر بلندی اور اللہ کے احکامات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرکے پورے کرنے کا درس دیتے ہیں. جو لاکھوں کی تعداد میں بیت اللہ شریف حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں. جو وہاں گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگتے ہیں. جو لاکھوں کی تعداد میں میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر شہر شہر جلوسوں کی شکل میں نظر آتے ہیں. جو کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں. جو لاکھوں کی تعداد میں محافل ِ میلاد اور دروس قرآن کا اہتمام کرتے ہیں. جو عاشورہ کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں غمِ حسین رضی اللہ عنہ میں عزاداری کرتے نظر آتے ہیں. جو لاکھوں کی تعداد میں عید اور جمع کے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں. جن کی تسبیحات لاکھوں میں اور درود و سلام کی تعداد کروڑوں اربوں میں ہو.. ایسے مملکت جس نام ہی اسلامی جہمہوریہ پاکستان ہو . ایسے وطن سے محبت کرنے والے کروڑوں لوگ عبادات و ریاضت میں مصروف ِعمل رہنے کے باوجود ہمارا وطن ایمانداری میں 160 ویں نمبر پر ہے.

    عبادات و ریاضت کی بنیادی روح ایمانداری ہے اگر ہمارے وطن میں اتنے سارے نیک اعمال ہونے کے باوجود اتنی عبادات ور یاضتوں کے با وجود ہم ایماندار ممالک میں اتنے پیچھے رہ گئے ہیں تو ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم دھوکہ کس کو دے رہے ہیں وطن کو ، اپنے آپ کو یا اللہ کو.

    "بقلم زنیرہ عقیل "
     
    Last edited: ‏7 مارچ 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھی کوشش اور عمدہ تحریر ہے
    خیالات بھی ٹھیک ٹھاک ہیں
    اپنے دین اور مذہب سے محبت ہونا ایک فطری عمل ہے اور آپ نے اس کو خوبصورت الفاظ میں ڈھالا ہے ۔ لیکن مذید اچھے الفاظ کا چناؤ کیا جاسکتا تھا
    اس سے پہلے کہ ہمارے دلعزیز ساتھی آئیں اور اس پر کوئی تنقیدی نوٹس لکھیں ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں " جسد خاکی " مذکر اور " روح " مونث ہے
    ویسے تو آپ پٹھان ہو اس لیے ایسی چھوٹی موٹی غلطیاں ہونا کوئی بڑی بات نہیں مگر پھر بھی خیال رکھا کریں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور ایک بار پھر ہمیں بہت خوشی ہوئی
    جزاک اللہ
     
    زنیرہ عقیل اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوبصورت انداز میں خیالات کو سپردِ قلم کیا ہے۔ آخری سطور تو ضمیر کوجھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔
    بہت سی داد قبول فرمائیں۔
     
    رئیس کوثر اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ ۔۔۔ آپ سب کا ساتھ چاہیے اسی طرح رہنمائی کرتے رہیے اللہ جذائے خیر دے آمین
    غلطیاں سدھارنے کے لیے تو آئے ہیں بہت بہت شکریہ
    پٹھان والی بات درست ہے آپ کی ہاہاہاہاہا
     
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ آپ کے کمنٹس میرے لیے باعث افتخار ہیں
    مجھ جیسی طالبہ کی سوچ آپ کو پسند آنا میرے لیے یقین سے بالا تر ہے بہت بہت شکریہ
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    داد و توصیف کے بعد عرض ہے کہ یہ موضوع اتنا اہم ہے کہ امت مسلمہ کا ہر درد مند فرد اس پر اپنے اپنے حسبِ استطاعت غور و فکر کرتا ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بلاشبہ اس وقت ہم تاریخِ اسلام کے شدید اور ہمہ جہتی زوال کا شکارہیں۔ کفرو طاغوت ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبوں کی تکمیل پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے امت مسلمہ کا جسد خون سے تر بہ تر ہے۔ خونِ مسلم کا پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ "دہشت گردی" کا لیبل بھی مسلمانوں ہی کے ماتھے پر لگا دیا گیا ہے۔
    انفرادی و علاقائی سطح پر مسلمان بالعموم باطل و شر کی حمایت میں بولنے والے یا پھر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دینے والے بن گئے ہیں۔ ظلم و ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اور حق کی حمایت میں نکلنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے انہیں بھی پاگل و دیوانہ سمجھ کر انکی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کم و بیش پوری امت مسلمہ کو اپنے اپنے ملکوں میں "نڈر، باکردار، صالح اور دین دار قیادت" چننے کا شعور تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہی بھروپیے بن کرکم و بیش تمام مسلمان ملکوں پر حکومتیں کرتے اور دشمنانِ اسلام کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اس المناک صورتحال کی وجوہات پر میرے جیسے خود ساختہ فلاسفر اپنی سوچ کے مطابق بےشمار موشگافیاں کرسکتے ہیں اور کرتے بھی رہتے ہیں۔
    لیکن آئیے ہم اپنے آقا و مولا سید المرسلین :drood: کی بارگاہ سے ہی اس سوال کا جواب طلب کرتے ہیں۔ مفہوما ایک حدیث پاک عرض ہے۔
    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم علیہ الصلواۃ و السلام نے فرمایا
    " ایک دور آئے گا جب گمراہ و کافر قومیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے.
    صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا اس وقت ہم مسلمان تعداد میں کم ہونگے (کہ اس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوگی ) آپ:drood:نے فرمایا نہیں تم (مسلمان) تعداد میں کثرت سے ہو گے لیکن تم سمندر کی جھاگ کی طرح ہوگے۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ:drood:پھر اس کا سبب کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا : اللہ پاک تمھارے دشمن کے دلوں سے تمھارا رعب و دبدبہ نکال دے گا۔اور تم "وھن" کی بیماری میں مبتلا ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا "وھن" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "دنیا سے محبت اور موت سے نفرت" (ابوداؤد۔ کتاب الملاحم۔ حدیث نمبر4297)


    اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زوال کی بنیادی وجہ خالص اندرونی اور داخلی ہے "حبِ جاہ، حبِ مال اور موت سے کراہت اور خوف" نے ہم سے وہ ساری صفات چھین لی جو دشمن کے دلوں میں ہماری مرعوبیت پیدا کرنے کا سبب تھیں۔
    یہی وجہ ہے کہ آج ہم انفرادی سطح پر بھی اپنے ذاتی دو ٹکے کے مفاد کو اپنے معاشرتی و اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ انتخابات میں اصول و نظریہ، حب الوطنی، کردار، صلاحیت اور شرافت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات دیکھ کر ووٹ و تائید کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مفاد پرست، کرپٹ، دنیا پرست ، نااہل اور "وطن فروش" حکمران ہم پر مسلط ہوتے ہیں جو ہماری عزت، غیرت،اور بقا کا سودا کردیتے ہیں۔
    نتیجتا دشمن ایک ایک کرکے ہمیں ختم کرتا چلا جارہا ہے۔ ہم اپنے اپنے گروہی، مسلکی، علاقائی، لسانی و ذات برادری کو ایک قوم، ایک امت ہونے پر ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائی پر ظلم ہوتا دیکھ کر سوچتے ہیں "وہ تومیرے مسلک کا نہیں ، وہ میری برادری سے نہیں، وہ میرے صوبے سے نہیں، وہ میری پارٹی کا نہیں" ظلم کا نشانہ بنتا ہے، مرتا ہے تو مرجائے۔ مجھے کیا؟

    اور اس پر بدعملی کی انتہا دیکھیے کہ باقاعدہ ایسی جماعتیں، ایسے مبلغ، ایسے داعیانِ اسلام معاشرے میں عام ہیں جو "ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے کو ہی "عبادت" بیان فرماتے ہیں" کوئی قفلِ مدینہ لگوا دیتا ہے تو کوئی بھیانک سے بھیانک دہشتگردی اور معاشی لوٹ مار کرنے والوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں بولتا بلکہ الٹا انکے درباروں میں جا کر سرعام و درپردہ انہی ظالموں، لٹیروں، دہشتگردوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ چند سال پہلے ہی ایک بہت بڑی اسلامی جماعت کے سربراہ نے ٹی وی پر فرمایا کہ دہشت گرد (طالبان و القاعدہ) کے خلاف لڑنے والے پاکستان آرمی کے فوجی "شہید" نہیں کیوںکہ دونوں طرف کلمہ گو اور مجاہد ہیں" (استغفراللہ)۔

    مغربی معاشرے کے سبھی حکمرانوں کا جائزہ لے لیں۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور اپنی اپنی فیلڈ میں پروفیشنل ہوتے ہیں۔ وہ سیاست بطور پروفیشن نہیں اپناتے ۔ وہ عوامی حمایت سے اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق4-5 یا 7-8سال بطور حکمران ملک کی خدمت کرتے ہیں اس کے بعد خاموشی سے اپنے سابقہ پیشہ ورانہ زندگی میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔
    جرمنی کے سابق چانسلر "گیرہارڈ شروڈر" کو دوسری بار عوامی مینڈیٹ سے 49فیصد ووٹ ملے یعنی کسی بھی دو چار سیٹیوں والی چھوٹی پارٹی سے اتحاد کرکے دوبارہ جرمنی جیسے ملک کا حکمران بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا عوام نے چونکہ مجھے قطعی اکثریت نہیں دی اس لیے میں خود کو حکمرانی کے اہل نہیں سمجھتا۔ صحافیوں نے پوچھا اب کیا کریں گے؟ کہا "میں پیشہ ور وکیل ہوں۔ کچھ عرصہ ریسٹ کرنے کے بعد دوبارہ سے وکالت جوائن کرلوں گا" ۔۔۔
    آسٹریا کے سابق حکمران وکٹر کلیما بھی بزنس ایڈمنسٹریشن کے پروفیشن سے سیاست میں آئے۔ 4-5 سال حکومت کے بعد وہ مشہور جرمن آٹو میکینگ کمپینی فوکس واگن WVکے مینجنگ ڈائریکٹر بن کر اپنی پروفیشنل لائف میں واپس چلا گیا۔
    اسی طرح فرانس کا ایک سابق حکمران اکنامک کا پروفیسر تھا ۔ حکومت کرنے کے بعد وہ دوبارہ اپنی پروفیسرشپ میں واپس چلا گیا۔
    امریکہ و کینڈا اور برطانیہ کے حکمران آتے جاتے تو آپ سب بھی جانتے ہیں۔
    آپ نے کبھی سنا کہ فلاں حکمران ۔ حکومت کے بعد اپوزیشن میں جا کر بیٹھ گیا اور اگلی حکومت کی ٹانگیں کھینچ کر حکومت گرانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے؟ یا اپنے بچوں کو اپوزیشن لیڈر بنوا کر انکے ذریعے ملک کو لوٹ مار کے لیے تیار کررہا ہے ؟ 99 فیصد مغربی ملکوں میں ایسا کبھی نہیں دیکھیں گے۔
    جبکہ مسلمان ملکوں کا جائزہ لے لیں۔ حبِ دنیا، حبِ جاہ و اقتدار اور آخرت فراموشی اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔
    سیاست میں ہماری برداشت، رواداری اور جمہوریت پسندی ناپید ہے۔ بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اول تو اپنے مخالف کو اقتدار میں دیکھ نہیں سکتے۔ اگر خود اقتدار میں آجائیں تو پھر ہر حکمران چاہتا ہے کہ اب یہ ملک میری ذاتی جاگیر بن جائے۔ میں ، میرے بچے، میری نسلیں اس ملک کے آقا و الہ بن جائیں اور اس ملک کی عوام ہمیشہ میری غلام بن جائے۔ صرف پاکستان نہیں، عرب ممالک میں ایشیا میں ہرجگہ سوائے دو چار استثناء کے ساتھ یہی عالم ہے۔ جس بھی حکمران کا خاتمہ ہوتا ہے وہ پھانسی کے پھندے یا تشریف پہ گولی سے ہوتا ہے یا پھر ملک بدری سے۔
    یہ دنیا پرستی، جاہ پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟

    ضرورت ہمیں اپنی اپنی اصلاح کرنے کی ہے۔ محض عبادات، رسوماتِ ارکانِ اسلام سے ہی نہیں بلکہ اپنے ضمیر، اپنے قلب اور اپنی روحانی دنیا کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دل میں جب دنیوی محبت کی بجائے اللہ رب العزت اور اسکے محبوب کریم :drood: اور دین اسلام کی محبت اور آخرت کی طلب ہو۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دینی و ملی شعور بھی نصیب ہو کہ ہم اہلِ باطل اور اہلِ شر کی بجائے اہلِ حق، اہلِ تقوی، اور اہلِ ایمان لوگوں کو اپنی حکمرانی کے لیے منتخب کریں انکی حمایت کریں انکا ساتھ دیں تاکہ رفتہ رفتہ امتِ مسلمہ کو درمند، دیندار، غیرت مند اور اتحاد و یگانگت کی فضا دینے والی قیادتیں نصیب ہوں اور امت کی کشتی اس بحران سے بخیر و خوبی نکل سکے۔
    اللہ پاک مجھ سمیت ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آمین
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں