1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قیام امن میں اولیاء‌کا کردار

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏9 جنوری 2011۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام’’سلم‘‘سے مشتق ہے،اسلام کا معنی اطاعت وفرمانبرداری اختیارکرکے امن وسلامتی میں آجانا اور دوسروں کو امن وسلامتی دیناہے ،یہ سب معنی لفظ اسلام کے اندرپنہاں ہیں،اللہ تعالی نے ہمارے دین کے لئے کوئی اور لفظ نہیں‘ ’’اسلام‘‘ کا انتخاب فرمایا ارشاد الہی ہے:

    إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ -

    ترجمہ: بے شک اللہ تعالی کے پاس دین حق‘ اسلام ہی ہے۔ (سورة آل عمران :19)

    اور سورۃ المائدۃ میں ہے:

    وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى -

    ترجمہ:کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر ہرگز نہ اکسائے کہ تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھوڑدو ، عدل کرو، عدل تقوی سے بہت قریب ہے۔(سورۃ المائدۃ:8)

    یہ دین سلامتی اور امن و شانتی کا دین ہے اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم رسول رحمت ہیں‘آپ کی تعلیم امن، صلح، رواداری، انسانیت اور شرافت کی تعلیم ہے-

    ان حقائق کا اظہار حضرت ضياء ملت مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی دامت برکاتہم العالیہ نائب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ وبانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹرنے 11/اپریل بروز اتوار مسجد ابوالحسنات رحمۃ اللہ علیہ پھول باغ میں ہفتہ واری لکچر کے موقع پر فرمایا۔

    سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضرت ضياء ملت دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایاکہ امت میں صف اول کے صالحین صحابہ کرام ہیں ،کوئی ولی درجہ صحابیت کو نہیں پہنچ سکتے ،صحابہ کرام نے امن وسلامتی کو فروغ دینے میں جو کوششیں کی ہیں ، وہ امت مسلمہ کے لئے نمونہ ہیں-

    حمص میں حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سپہ سالارتھے، مسلمانوں کی صورتحال کچھ ایسی ہوگئی کہ اُنہیں وہاں سے اپنی فوج دوسرے مقام پر لے جانے کی ضرورت پیش آئی ،اس وجہ سے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حمص کے عیسائی اور یہودی باشندوں سے فرمایاکہ آپ لوگوں سے جزیہ کی رقم اس کام کے عوض لی گئی تھی کہ اسلامی فوج آپ کے جان ومال کی حفاظت کرے گی ،اب چونکہ ضروری اسباب کی بنا فوج یہاں سے کوچ کررہی ہے لہذاآپ کو جزیہ کی رقوم واپس کی جاتی ہیں چنانچہ اس زمانہ کے اعتبار سے لاکھوں کی رقومات عیسائیوں اور یہودیوں کو واپس کردی گئیں ،وہ لوگ مسلمانوں کو واپس جاتادیکھ کر بے اختیار روتے ہوئے کہنے لگے ! اللہ تمہیں واپس لائے ،اگررومی ہوتے تو ہمیں پھوٹی کوڑی بھی واپس نہ کرتے اور یہودی خود قلعہ بند کرکے پہرہ ڈال کر بیٹھ گئے کہ قیصر کی فوج آئے گی تو ہم خود اس کا مقابلہ کریں گے۔
    حضرت ضياء ملت دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایااسی طرح حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کی خلافت کے دورمیں بعض غیرمسلموں نے کہاکہ پندرہ سال قبل مسلمانوں نے جب سمرقند‘عراق پر چڑھائی کی تھی تو ہمیں پیشگی اطلاع نہیں دی ،غیرمسلموں کی جانب سے اس مقدمہ کی شنوائی کے لئے حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خصوصی قاضی مقررکیا اور اس کی تحقیق کاحکم دیا ‘تحقیق کے بعدپتہ چلاکہ واقعۃً غلطی ہوئی ،مسلمانوں نے پیشگی اطلاع کے بغیرچڑھائی کی تھی جبکہ اہل عراق غفلت میں تھے،چنانچہ حضرت عمربن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ نے حکم فرمایا کہ اموال غنیمت وجائیدادیں جوکچھ عراق سے حاصل کیا گیااُنہیں واپس کردیں ،عراق کا علاقہ اُن کے حوالہ کرکےوہاں سے نکل جائیں ۔اس حکم کے صادر ہونے کے ساتھ ہی غیرمسلم کہنے لگے ہم نے ایسے ہی مقدمہ دائر کیا تھا،مسلمان تو بے مثال عدل وانصاف اور صداقت پسندی کے پیکرہیں ،اور کہا کہ آپ لوگ یہاں سے نہ جائیں ،ہم اسی طرح آپ کے زیرسایہ امن وسلامتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ،پھر دھیرے دھیرے سمرقندکے تمام باشندگان مشرف بہ اسلام ہوگئے ،سمرقند میں کوئی غیرمسلم باقی نہیں رہا۔
    دوران خطاب حضرت فقیہ ملت دامت برکاتہم العالیہ نے اولیاء کرام کے متعلق فرمایاکہ اولیاء کرام ،قرآن کریم وحدیث شریف کی تعلیمات پر نہ صرف عمل کرنے والے ہیں بلکہ ان کی عالی خدمات ومبارک توجہات کی وجہ سے لوگ تعلیمات اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں‘ ان کی ہمنشینی اختیار کرنے اور ان کے واقعات سننے سے نیک عمل کرنے کا سلیقہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے اور عروج پاتاہے۔

    ایک دن ایک سخت دل غیر مسلم خنجربغل میں چھپاکر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو شہید کرنے کے ناپاک ارادہ سے آیااور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فراست ایمانی اور باطنی نگاہ سے اس کا ارادہ معلوم کرلیا اور اس سے فرمایاکہ خنجر کیوں نہیں چلاتے؟ میری گردن حاضر ہے! یہ سنتے ہی اس کے جسم میں لرزہ طاری ہوگیا‘ خنجرنکال کر ایک طرف پھینک دیا اور حضرت غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گرگیا۔ اس کے بعد اس نے توبہ کی اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

    حضرت نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کے زمانہ میں ایک غیرمسلم خاتون جمناکے نزدیک کنویں سے پانی لینے لگی ،حضرت نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ نے اپنے مرید کو وجہ دریافت کرنے کے لئے بھیجاکہ جمناکا پیٹھاپانی چھوڑکرکنویں کا کھاراپانی کیوں لے رہی ہو؟غیرمسلم خاتون نےکہا؛ ہمارے پاس کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ،جمناکا میٹھاپانی غذاء جلدہضم کرتاہے ،میں کھاراپانی اس لئے لے رہی ہوں کہ غذاجلد ہضم نہ ہواور کھانے کی ضرورت کم پیش آئے ،حضرت نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ نے فرمایا؛ اللہ تعالی محشرمیں پوچھے کہ نظام الدین!تمہارے علاقہ میں ایک گھرانہ تھاجن کے پاس فاقہ کشی تھی ،تم نے اس کاخیال کیوں نہیں کیا؟تو میں کیا جواب دوں گا ،اس خاتون سے کہوکہ ہرماہ ہماری خانقاہ آکرماہانہ خرچ لے جایاکرے ۔

    حضرت ضياء ملت دامت برکاتہم العالیہ نے مزید فرمایاکہ حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمة اللہ علیہ کی خلوت گاہ میں ایک شخص گیا اور چھری سے آپ پر حملہ کیا یہاں تک کہ آپ کی انگلیوں سے خون بہہ کرخلوت گاہ سے باہر آنے لگا،مریدین دیکھ کر خلوت گاہ میں داخل ہوئے مریدین کوبھی کچھ زخم آئے بالاٰخر اس شخص کو قابومیں کرلیاگیا،سپاہیوں نے اُسے گرفتارکرلیا،حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایااُ س نے مجھے تکلیف دی ،میں اپنی جانب سے اُسے معاف کرتاہوں ،امید ہیکہ میرے مریدین بھی معاف کردیں گے،مریدین کہنے لگے ہم نے بھی اُسے معاف کیا ۔حکومت کے عہدہ داروں سے فرمایاکہ میں نے اور میری مریدین نے اپنا حق چھوڑدیا،اُس پر کوئی شرعی سزا عائد نہیں ہوتی ،لہذا اُسے رہاکیا جائے ،عہدہ داروں نے اسکو رہاکرنے کا حکم دیا ، حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی رحمة اللہ علیہ نے عوام کے دلوں میں اُس کے خلاف غصہ کے جذبات پائے توحکومت سے مطالبہ کیا کہ اُ س کے لئے خطرہ ہے ،لہذا اُسے پچاس سپاہیوں کے ساتھ اُ س کے گھر پہنچایاجائے۔

    اولیاء کرام نے فروغ امن کے لئے کیسی پیش قدمی وجانفشانی کی کہ جانی دشمن کو نہ صرف درگزرکیا بلکہ اُس کے لئے حکومت سے رہائی کی سفارش کی ،اور جب اس کے لئے خطرہ محسوس کیا تو اُس قاتلانہ حملہ کرنے والے کےلئے تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔اختتام پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ اولیاء کرام کے ملفوظات ومکتوبات کا بنظر غائر اور گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو ایسی ہزاروں مثالیں مل جائیں گی کہ انہوں نے عام انسانوں ،مسکینوں ، فقیروں ، دردمندوں کے دکھ کوبانٹاہے، رضائے الہی خوشنودیٔ خداوندی کے حصول کی خاطر ان کی خدمت کی ہے‘ ان نفوس قدسیہ نے ہر طرف امن کو فروغ دینے کی کامیاب سعی فرمائی، اور آج بھی اولیاء کرام کی بارگاہیں وہاں کے پروگرامس اور سرگرمیاں امن وسلامتی سے عبارت ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں