1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قہقہے

'قہقہے، ہنسی اور مسکراہٹیں' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏1 نومبر 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    قہقہے
    زبیر وحید


    طنزومزاح اور جگت بازی کو اکثر سنجیدہ لوگ بڑی سطحی شے گردانتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ کسی پر بلاوجہ پھبتی کس کر ہنسنا اس شخص کی تذلیل کے مترادف ہے۔ لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے، ضروری نہیں کہ دوسروں پر پھبتی اور جگت بازی سے ہی ہنسی آتی ہو۔ اس کے لیے کچھ محرکات اور بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہنسی بڑی انمول شے ہے اور اگر لوگ لمبی اور صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ قہقہے لگایا کریں اور خود کو خوش و خرم رکھیں۔ دو ہزار سال قبل ارسطو نے کہا تھا ’’قہقہہ ایک جسمانی ورزش ہے اور صحت کے لیے قیمتی شے ہے۔‘‘ قہقہہ طویل عمری کا ایک راز ہے۔ اس سے ذہنی دبائو اور جذباتی تنائو میں کمی آتی ہے۔

    ڈاکٹر جان کیلوگ، بیٹل کریک میں ایک شفاخانہ چلا رہے تھے۔ ان کے شفاخانہ میں بڑے مشہور اور امیر مریضوں کا علاج ہوتا تھا۔ وہ مریض وہاں مناسب خوراک اور ورزشیں کرتے تھے لیکن ان تمام ورزشوں اور غذائوں کے مقابلہ میں ان مریضوں کو اس شفاخانہ میں ہنسنے کے اوقات کار میں ہنسنے سے بہت زیادہ فائدہ ہوتا تھا۔ شفاخانہ مریضوں کو علاجی غسل سے زیادہ قہقہے لگانے سے بحالی صحت اور ترنگ کا احساس ہوتا تھا۔ قہقہوں کا دور شفاخانہ کے جمنیزیم ہال میں کرایا جاتا تھا۔ جمنیزیم ہال میں لوگ قہقہوں سے اپنی پریشانی اور ذہنی دبائو کو رفع کرتے تھے۔ بالکل اسی تکنیک پر ایک اور مشہور ڈاکٹر نے اپنے طالب علموں کو مشورہ دیا کہ وہ بھی قہقہوں سے اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کو دور کیا کریں۔

    نفسیات اور فلسفہ کے بہت سے ماہرین افلاطون، ارسطو، کانٹ، برجسن، فراٹڈ اور کوئسلر نے قہقہے کی نفسیات پر بہت سے مقالے لکھے ہیں۔ یہ تمام لوگ قہقہے کی اس خوبی پر متفق ہیں کہ قہقہہ یک دم تمام پریشانیوں اور ذہنی دبائو کو دور کر دیتا ہے اور بندہ پُرسکون اور اس کے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ آرٹ کی ایک صنف کامیڈی کے ماہر اپنے انداز اور بول چال سے دبائو اور پریشان کن ماحول پیدا کرکے اچانک ایسی حرکت کرتے ہیں کہ سب کی بے ساختہ ہنسی نکل جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی آپ نے کبھی سینما گھروں میں فلم دیکھتے ہوئے محسوس کیا ہوگا کہ ایک انتہائی خطرناک سین کے دوران جب کہ حاضرین سخت پریشانی اور الجھن کا شکار ہوتے ہیں، ایک بلی پردہ سکرین پر نمودار ہوتی ہے اور آرام سے اس خطرناک جگہ یا ماحول کا سکوت اور اس سے پیدا شدہ تنائو ختم کر دیتی ہے۔ اس پر حاضرین محفل کا بعض دفعہ قہقہہ بھی نکل جاتا ہے۔

    ذہنی دبائو سے نجات کے بعد ہمیشہ خوشی کا معطر و لطیف احساس ہوتا ہے۔ خواہ تنائو کی وجہ بھوک، جنسی رویہ، ناراضی یا پریشانی ہو۔ عام طور پر کچھ بامعنی سرگرمیوں میں حصہ لینے مثال کے طور پر کھانا کھانے، مباشرت کرنے، لڑنے یا دوڑ لگانے سے ہمیں سکون ملتا ہے۔ جب ہم اپنے تنائو اور دبائو کے اظہار کے ان طریقوں کو رد کرتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ صرف اور صرف قہقہہ اور ہنسی ہے۔ ۱۸۶۳ء کے شروع میں ایک انگریز فلاسفر نے کہا تھا ’’کہ جب جذباتی طاقت کسی ایک سمت میں خارج نہیں ہوتی تو پھر یہ شاید کسی وقت قہقہے کی صورت میں نکلتی ہے۔‘‘ ایسی صورت میں قہقہے لگانے سے طاقت صرف ہوتی ہے۔ انہی حالات میں آرتھرکوئسلر نصیحت کرتا ہے ’’کہ قہقہہ حیاتیاتی بہائو کو فرو کرکے تسکین دیتا ہے۔‘‘ یہ کسی کو قتل کرنے اور جنسی رویہ کے اظہار سے مانع رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    قہقہے غرور، ناراضی، پریشانی سے نجات دیتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے، ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک جگہ اور علاقہ میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد دیتے ہیں۔ غدودی نظام ہمیشہ سے ہمارے ساتھ چلا آرہا ہے۔ لیکن یہ نظام آج کے شدید دور کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ اس طرح ایڈرینالین اپنی موزوں مقدار سے تھوڑا سا زیادہ بننے کا رجحان موجود ہوتا ہے اور ہم یا تو اپنے جذبات کو دبا دیتے ہیں اور اپنی تخریبی توانائیوں کو اپنے ہی اندر کی طرف موڑ دیتے ہیں اور اگر ہم اپنے ان احساسات کو دباتے نہیں ہیں تو دوسروں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کے متبادل کے طور پر ہم ہنس کھیل سکتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے ضبط شدہ غصہ، پریشانی، تشویش اور خواہشات نفسانی کے نکاس سے اپنے آپ کو ہلکا اور پرسکون محسوس کر سکتے ہیں۔

    مصنوعی مسکن دوائیں کسی بھی الجھن یا ذہنی دبائو کو وقتی طور پر بھلا تو دیتی ہیں لیکن اندرونی طور پر مسئلہ جوں کا توں موجود ہوتا ہے جس کے محرک کے طور پر ایسے مسائل کا شکار افراد دوسروں کو حدف تنقید بناتے ہیں اور خوامخواہ اور بے جا اعتراضات کرتے ہیں۔ اس صورت حال سے بچنے کا بہترین طریقہ دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور قہقہوں کا تبادلہ ہے۔ ہنسنے، قہقہے لگانے سے ضبط شدہ ناراضی، الجھن اور جنسی بھوک سے پیداشدہ ردعمل دور ہو سکتا ہے۔

    فراٹڈ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ قہقہے ہمارے زبردست حیوانی محرک کے درمیان مستقل کشمکش اور ہمارے ضمیر کی عائدکردہ طاقتور بندشوں (انا اور فوق الانا) سے پھوٹتے ہیں جو ہمارے ضمیر نے ہم پر معاشرتی دبائو کے باعث عائد کی ہوتی ہیں۔ ہم بے جگری اور بڑے فخر سے مہذب مخلوق ہونے کا نقاب اوڑھے رکھتے ہیں لیکن ہربار اور ہمیشہ یہ نقاب سرک جاتا ہے اور ہم اپنا سکون و اطمینان اور عظمت و توقیر کھو دیتے ہیں۔ کوئی کھڑکی کا شیشہ صاف کر رہا ہو اور اچانک اس کی پینٹ اترجائے تو ہم بڑے منکسرانہ انداز سے ہنستے ہیں۔ لیکن جب عدالت میں داخل ہوتا ہوا جج ٹھوکر لگنے سے گر جائے یا جب معاشرے کے کسی انتہائی مہذب فرد کا دوران گفتگو غیرارادی طور پر ڈکار نکل جائے تو ہم ظریفانہ انداز سے ہنستے ہیں اور ہم زوردار قہقہے لگانے شروع کر دیتے ہیں۔

    ایسی صورتوں میں چند لمحوں کے لیے ہمارے مہذب اور اخلاق یافتہ ہونے کا نقاب چند لمحوں کے لیے سرک جاتا ہے اور ہم یہ تصنع چھوڑ دیتے ہیں کہ ہم ایک مثالی شہری ہیں۔ ہم نمونے کے شہری ہیں اور اپنی جبلی حیوانی حقیقی خوبیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس قسم کے قہقہے اس وقت نکلتے ہیں، جب ہمارے اندر جمع شدہ حیوانی قوتوں کو ہمارے ضمیر کی کھڑی کردہ رکاوٹوں سے فرار کا موقع ملتا ہے۔ یہ چیزیں ہماری زندگیوں کو انتہائی سنجیدہ ہونے سے روکتی ہیں اور ہماری اپنی سماجی حیثیت کے ذریعہ ہمیں انتہائی افسردہ ہونے سے بچاتی ہیں۔ قہقہے ہماری ذہنی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ مجھے کبھی کسی ایسے شخص نے مدد کے لیے نہیں پکارا جس میں مضحکہ خیزی کی حس موجود ہو اور نہ ہی میں نے کسی ایسے شخص کا علاج کیا ہے جو خود پر ہنستا ہو۔ غالباً ہنسنا اور قہقہے لگانا اخلاقی طور پر تسلیم شدہ مہذب طریقہ ہے جس سے ہمیں جمع شدہ حیوانی قوتوں کے اظہار کا موقعہ ملتا ہے۔

    قہقہہ ذہنی دبائو کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اچھے حالات میں ہم خوشی سے ہنستے ہیں اور بُرے وقت میں محض ضرورت کے پیشِ نظر ہنستے ہیں۔ چنانچہ قومی مشکلات کے دنوں میں عوام کو قومی مسائل کے ساتھ ساتھ مزاحیہ پروگرام بھی دکھائے جانے چاہئیں۔ قحط کے دنوں میں بھوک کے مسائل کے پرچار سے زیادہ ہنسی اور مذاق کی فضا برقرار رکھنا چاہیے جبکہ ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ۱۹۱۴ء ۱۹۱۹ء کی جنگ میں برطانیہ کی اگلے مورچوں کی فوجوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں موت کے خوف سے نجات اسی پہلو سے دلائی گئی تھی تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ رونے اور چلانے سے نہ تو مرنے والے واپس آتے ہیں اور نہ ہی حالات میں سدھار آتا ہے۔ ایک فرانسیسی فلسفی کا خیال ہے کہ ’’بُرے اور خراب حالات میں قہقہے ٹانک کا کام دیتے ہیں اور یہ دل کے دورے کے خطرات کو دور کرتے ہیں۔‘‘

    قہقہوں کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتے ہیں۔
    کچھ امور ایسے ہیں جن سے بہت زیادہ اچھے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ہنسنے سے آنکھوں میں چمک، چہرے کی جلد میں نرمی اور ہمارے اعصابی اور غدودی نظام میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ ہنسنے سے ہاضمہ تیز ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ہنسی اور مسکراہٹ سپاٹ چہروں کو بھی پُرکشش بنا دیتی ہے۔ جرمن ماہر بشریات نے مووی کیمرے کے ذریعہ انسانی رویوں پر بڑی تفصیل سے کام کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’انسانی رویوں پر ہنسنے اور قہقہوں کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس نے مثال کے ذریعہ بتایا کہ ایک فلم کے دوران ایک چینی عورت کو دس منٹ تک مسلسل غصہ کی حالت میں دیکھتے ہوئے کوئی پُرکشش اثر پیدا نہ ہوا لیکن جونہی اس کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ نے جنم لیا تو وہ اچھی لگنا شروع ہوگئی۔

    ماہربشریات کا کہنا ہے کہ قہقہہ، ہنسی اور مسکراہٹ کا احساس ذہنی تنائو اور قوت برداشت کو بڑھانے میں مدد دیتا ہے اور یہ کسی ٹانک سے کم نہیں ہے۔ قہقہے زندگی بچاتے اور اسے نکھارتے ہیں۔ اس میں رنگینیاں پیدا کرتے ہیں اور جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ دنیا شاید اس قدر کرب ناک جگہ نہیں ہے، اگر ہم اس میں ہنسی اور خوشیاں بکھیرتے رہیں خود بھی ہنسیں اور دوسروں کو بھی ہنساتے رہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم ناجائز اور فضول رسومات کی تقلید میں یہ سب کچھ بھولتے جا رہے ہیں۔

    ہمارا مذہب اسلام ہمیں دوسروں کی تضحیک کی صورت میں ہنسنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہمارے نبیؐ بھی مسکرانے کو ہی احسن طریقہ سمجھتے تھے۔ بلکہ دنیا کے تمام مذاہب اخلاقی اعتبار سے تمسخر کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ ایسے ہنسنے اور قہقہے لگانے سے ضمیر کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔
    ٭٭٭٭٭٭٭
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں