1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قُربانی کے اہم مسائل

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از زبیراحمد, ‏10 اپریل 2012۔

  1. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    قُربانی کرنے کی فضیلت ؟ :::::
    قُربانی کرنے کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی ، جو احادیث اِس بارے میں روایت کی گئی ہیں ، ضعیف یعنی کمزور یا اُس سے بھی کم تر درجے میں آتی ہیں ،
    ::::: قُربانی کی شرعی حیثیت :::::
    ::::: مسئلہ (1) ::::: قُربانی کرنا ، سُنّت ہے یا فرض ؟ :::::
    جواب ::::: اِس میں عُلماء کی رائے مختلف رہی ہے ، جمہور عُلماء ، اور اِمام مالک ، اِمام الشافعی ، کا کہنا ہے کہ قُربانی کرنا سُنّت ہے فرض نہیں ، اور اِمام ربعیہ، اِمام الاوزاعی ، اِمام ابو حنیفہ ، اِمام النخعي ، اور اِمام اللیث کا کہنا ہے کہ جِس کے پاس مالی گُنجائش ہو اُس کے لیے قُربانی کرنا فرض ہے ، اور یہ دوسری بات زیادہ درست ہے ،
    ::::: دلیل (١) ::::: مِخنف بن سلیم رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ ( یا اَیُّہَا الناس اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہلِ بَیتٍ فِی کُلِّ عَامٍ اُضحِیَّۃً ) ( اے لوگو گھر کے ہر فرد پر ہر سال ایک قُربانی فرض ہے ) سنن ابن ماجہ ٢٧٨٨ / اول کتاب الضحایا / باب١ ، صحیح سنن ابی داؤد ٢٤٨٧ ، صحیح سنن ابن ماجہ ٢٥٣٣ ،
    ::::: دلیل (٢) ::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مَن وَجَدَ سَعَۃً فلم یُضَحِّ فَلاَ یَقرَبَنَّ مُصَلاَّنَا ) ( جس کے پاس قُربانی کرنے کی گُنجائش ہو اور وہ قُربانی نہ کرے تو وہ ہمارے مُصلے کے پاس بھی نہ آئے ) المستدرک الحاکم / حدیث ٧٥٦٥، ٧٥٦٦ /کتاب الاضاحی، مُسند احمد / حدیث ٨٢٥٦، حدیث حسن ، تخریج احادیث مشکلۃ الفقر /ص ٦٧/حدیث ١٠٢، حدیث حسن ،صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث١٠٨٧،
    ::::: مسئلہ (٢) ::::: ایک شخص اور اُس کے گھر والوں ( بیوی بچے والدین بہن بھائی جو اُس کے گھر میں ہوں ، اُس کی کفالت میں ہوں ) کی طرف سے ایک بکری کافی ہے :::::
    ::::: دلیل ::::: ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہُ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ لوگ کیسے قُربانی کیا کرتے تھے تو فرمایا ( کان الرَّجُلُ فی عَہدِ النَّبِی صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ یُضَحِّی بِالشَّاۃِ عَنہ ُ وَعَن اَہلِ بَیتِہِ فَیَاکُلُونَ وَیُطعِمُونَ ثُمَّ تَبَاہَی النَّاسُ فَصَارَ کما تَرَی ) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قُربان کیا کرتا تھا اور( اُس میں سے )وہ خود بھی کھاتے تھے اور (دوسروں کو بھی) کِھلاتے تھے، اُس کے بعدلوگ دِکھاوے اور فخر میں مُبتلا ہو گئے اور وہ ہونے لگا جو تُم دیکھ رہے ہو ) سنن ابن ماجہ / حدیث٣١٤٧/کتاب الاضاحی /باب١٠ ،حدیث صحیح ، الاِرواءُ الغلیل / حدیث ١١٤٢،
    دِکھاوے اور فخر کے لیے اب مسلم معاشرے میں کیا کیا ہوتا ہے اِس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ معاشرہ کا ہر فرد اپنے بارے میں تو خوب اچھی طرح جانتا ہی ہے اور دوسروں کے بارے میں بھی کافی حد تک اندازہ کر ہی سکتا ہے کہ ایسے موقعوں پر کون ، کیا ، کیوں کرتا ہے ؟ اور دِلوں کے حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے ،
    ::::: مسئلہ (٣) ::::: کون کون سے جانور قُربان کرنا جائز ہیں ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: تمام اِقسام کے بکرے ، اُونٹ ، اور گائے ، اِن تین کے عِلاوہ کوئی اور جانور قُربانی کے طور پر ذبح نہیں کیا جائے گا ،
    ::::: دلیل ::::: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلنَا مَنسَکاً لِیَذکُرُوا اسمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیمَۃِ الاَنعَامِ فَاِلَہُکُم اِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ اَسلِمُوا وَبَشِّرِ المُخبِتِینَ ::: اور ہم نے ہر اُمت کے لیے قُربانی کرنے کے طریقے (وقت و جگہ وغیرہ) بنا رکھے ہیں تا کہ وہ اُن چوپایے جانورجو اللہ نے اُنہیں دیے ہیں ، اُن جانوروںپر اللہ کا نام لیں(یعنی اللہ کا نام لے کر اُنہیں قُربان کریں ) پس جان رکھو کہ تُم سب کا (سچا حقیقی) معبود ایک (اللہ) ہی ہے لہذا اپنے آپ کواُس کی تابع فرمانی میں دے دو اور(اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سُنا دیجیے) سورت الحج /آیت ٣٤
    مسئلہ (٤) ::::: کون کون سے جانور قُربان کرنا جائز نہیں ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: عُبید بن فیروز رحمہُ اللہ نے البراء بن عازب رضی اللہ عنہُ سے کہا ''' مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قُربانی کے جانوروں میں سے کیا نا پسند فرماتے تھے اور کِس قِسم کے جانور کو قُربان کرنے سے منع فرماتے تھے ؟ ''' تو البراء بن عازب رضی اللہ عنہُ اپنے ہاتھ سے اِشارہ کرتے ہوئے کہا میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح اپنے ہاتھ سے اِشارہ فرماتے ہوئے کہا ( اَربَعٌ لَا تُجزِءُ فی الاَضَاحِیِّ العَورَاء ُ البَیِّنُ عَوَرُہَا وَالمَرِیضَۃُ البَیِّنُ مَرَضُہَا وَالعَرجَاء ُ البَیِّنُ ظَلعُہَا وَالکَسِیرَۃُ التی لَا تُنقِیٍ) قال فَاِنِّی اَکرَہُ اَن یَکُونَ نَقصٌ فی الاُذُنِ قال فما کَرِہتَ مُنہ ُ فَدَعہُ ولا تُحَرِّمہُ علی اَحَدٍ) ( قُربانی میں چار قِسم کے جانور(مذکر یا مؤنث) قُبُول نہیں ہوتے (١) جِس کی آنکھ میں خرابی نظر آتی ہو ( کانا جانور) (٢) جِس کی بیماری صاف نظر آ جائے (٣) لنگڑا جانور جِس کا لنگڑا پن نظر آتا ہو (٤) اورایسا کمزور جانور جِس کی ہڈیوں میں گُودا خشک ہو گیا ہو ) عُبید بن فیروز رحمہُ اللہ نے کہا ''' مجھے یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ قُربانی والے جانور کے کان میں کوئی نُقص ہو ''' تو البراء بن عازب رضی اللہ عنہُ نے کہا ''' قُربانی کے جانور وں میں سے جو تُمہیں پسند نہ آئے اپسے چھوڑ دو لیکن (اپنی پسند نا پسند کی بُنیاد پر ) اُسے کِسی پر حرام نہ کرو ''' ۔ سنن ابن ماجہ /حدیث٣١٤٤ /کتاب الاُضاحی /باب ٨ ، سنن ابی داؤد /حدیث٢٨٠٢ /کتاب الضحایا /باب ٦ ، صحیح ابن خزیمہ / حدیث / کتاب الاضحیۃ /باب ٢١ ، اور دیگر کتابوں میں بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے ، اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ، صحیح سنن ابن ماجہ ٢٥٥٤،
    ::::: ایک اہم فائدہ ::::: البراء بن عازب کا اُسی طرح اِشارہ کر کے بتانا اور ساتھ یہ بھی کہنا کہ ''''' میرا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے ''' صحابہ رضی اللہ عنہم کی امانت اوراحتیاط کی مثالوں میں سے ایک ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو آگے بیان فرماتے ہوئے وہ اشاروں اور حرکات کو بھی بیان فرماتے اور اگر کوئی فرق ہوتا تو وہ بھی واضح کرتے، اللہ اُن لوگوں کو ہدایت دے جو صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض و عناد رکھتے ہیں ، اور جب تک اللہ کی مشیت میں اُن کے لیے ہدایت نہیں، اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کو اُن کے شر سے محفوظ رکھے فرمائے۔
    جِس جانور کا کان کٹا ، یا سوراخ والا ، یا ٹوٹا ہوا ہو ، یا سینگ ٹوٹا ہو ، یا دُم کٹی ہو ، اُس سے ممانعت کی کوئی صحیح حدیث مّیسر نہیں ، عُلماء کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں ،بہتر یہی ہے کہ قُربانی کے لیے جانور اختیار کرتے ہوئے اِس بات کی احتیاط کرنی چاہیے کہ جانور میں کوئی عیب یعنی نُقص نہ ہو ، اور اِس احتیاط کا حُکم حدیث میں ملتا ہے ، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ (اَمَرَنَا رسول اللَّہِ صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ اَن نَستَشرِفَ العَینَ وَالاُذُنَینِ) ( ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حُکم دِیا کہ ہم (قُربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کا بغور معائینہ کریں) سنن ابن ماجہ /حدیث ٤١٤٣/کتاب الاضاحی /باب٨، صحیح سُنن ابن ماجہ / حدیث ٢٥٤٤
    ::::: مسئلہ (٥) ::::: کتنی عُمر تک کا جانور ذبح کرنا چاہیئے ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: احادیث میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا جانور اِختیار کرتے جو ''' مُسِنُّنٌ(مُذکر)، مُسِنَّۃٌ (مؤنث)''' ہوتا ، یعنی ،ہر وہ جانور جِس کے دانت تبدیل ہو چکے ہوں ، اور کہا گیا جِس کے سامنے والے دو مضبوط دانت نکل آئے ہوں (نیل الاوطار)
    اور اگر ایسا جانور مُیسر نہ ہو ، تو اُس کی جگہ ''' جذعٌ(مذکر)، جذعۃٌ (مؤنث) ''' قُربان کیا جا سکتا ہے ، جذعٌ کتنی عُمر کا ہوتا ہے اِس بارے میں مُختلف باتیں ملتی ہیں ، جیسا کہ ، جِس کی کم ازکم عُمر دو سال ہو چکی ہو ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تین سال ہو چکی ہو اور چھوتھے سال کا آغازہو ( مشارق الانوار فی صحاح الآثار )،
    جِس کی عمر ایک سال ہو جائے ، اور کہا گیا ، چھ ماہ ، اور کہا گیا ، سات ماہ ، اور کہا گیا آٹھ ماہ ،
    خلاصہ کلام یہ کہ ''' جذعٌ ''' وہ جانور جِس کی کم از کم عُمر چھ ماہ ہو ، اور زیادہ سے زیادہ تین سوا تین سال ۔
    لہذا ایسا جانورقُربان نہیں کرنا چاہیئے جو''' مُسِنُّنٌ ''' نہ ہو ، اگر ایسا جانور مُیسر نہ ہو تو پھر ::::: جذعٌ ::::: میں سے قُربانی دی جا سکتی ہے ،
    ::::: دلیل ::::: عاصم ابن کلیب اپنے والد کُلیب سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دوفعہ وہ لوگ سفر میں تھے اور عید الاضحیٰ کا دِن آ گیا ، اور (مُسِنّن جانور کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ ) ہمیں دو یا تین جذع کے بدلے میں ایک مُسِنَّہ خریدنا پڑتا ، تو ہم میں سے قبیلہ مُزینہ کے ایک آدمی (مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہُ ) نے کہا '''ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے اور یہی دِن آ گیا اور (اِسی طرح ) ایک ایک شخص کو دو دو یا تین تین جذع دے کر ایک مُسِنّن لینا پڑتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اِنَّ الجَذَعَ یُوفِی مِمَّا یُوفِی منہ الثَّنِی)( (قُربانی میں )جذع بھی وہ کام کر دے گا جو کام ثنی ( سامنے کے دو مضبوط دانتوں والا جانور) کرتا ہے) المستدرک الحاکم / حدیث ٧٥٣٨،٧٥٣٩/کتاب الاضاحی، سنن النسائی / حدیث ٤٣٩٥/کتاب الضحایا /باب١٣، سنن ابو داؤد /حدیث ٤٥٩٩ /اول کتاب الضحایا/باب٥، اور اِمام الحاکم نے کہا حدیث صحیح ہے اور اِمام الالبانی نے بھی اُن کی تائید کی ۔
    ٭٭٭ یہاں خاص طور پر خیال دینے اور یاد رکھنے کی بات یہ کہ''' مُسِنُّنٌ '''کی جگہ '''جذعٌ ''' قُربان کرنے کی اجازت مالی تنگی ، اور مہنگائی کے سبب سے دی گئی اور مہنگائی والے معاملے کا ایک اور حل بھی دِیا گیا ہے ، جِس کا بیان اِن شاء اللہ ابھی کروں گا ،
    مسئلہ (٦) ::::: قُربانی کے لیے سب سے بہترین جانور کون سا ہے؟ :::::
    ::::: جواب :::::: قُربانی کے لیے سب سے بہترین جانور مینڈھا ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر جانوروں میں سے مینڈھے اختیار کیئے اور قُربان فرمائے ،
    ::::: دلیل (١) ::::: انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ (وَذَبَحَ رَسولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ بِالمَدِینَۃکَبشَینِ اَملَحَینِ ::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں (عید الاضحی والے دِن ) دو املح مینڈھے ذبح فرمائے ) صحیح البخاری / حدیث١٤٧٦ /کتاب الحج/باب ٢٦،
    اور صحیح مُسلم / حدیث ١٦٧٩/کتاب القسامہ والمحاربین والقصاص و الدیات / باب٩، میں حج کے موقع پر مِنیٰ میں اِسی طرح دو املح مینڈھے قُربان کرنے کا ذِکر ہے ،
    ::::: دلیل (٢) ::::: انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ (کان یُضَحِّی بِکَبشَینِ اَملَحَینِ اَقرَنَینِ )( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو املح اور سینگوں والے مینڈھے قُربان کیا کرتے تھے) صحیح البخاری / حدیث٢٢٤٤ /کتاب الاضاحی/باب ١٣، صحیح مُسلم /حدیث ١٩٦٦/کتاب الاضاحی /باب٣،
    پس واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قُربانی کے لیے املح اور سینگوں والے مینڈھے پسند فرماتے تھے ، اور یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند سے بہتر اور افضل کوئی پسند نہیں ہو سکتی ۔
    ::::: املح مینڈھے ::::: سے مُراد وہ مینڈھا ہے جو سُفید و سیاہ رنگ کا ہو ، اور اِس طرح کہ پاؤں اور آنکھوں کے آس پاس اور پیٹ کے نچلے حصے میں سیاہی ہو اور باقی ساری جلد کی رنگت سُفید ہو ، جِسے عام طور پر ''' کاجلی ''' کہا جاتا ہے ۔
    ::::: مسئلہ ( ٧ ) قُربانی کے جانور کو بہترین طور پر پال کر خوب موٹا بنانا چایئے :::::
    ::::: دلیل ::::: ابی اُمامہ بن سھل رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے ( کُنَا نُسَمِّنُ الاُضحِیَّۃَ بِالمَدِینَۃِ وکان المُسلِمُونَ یُسَمِّنُونَ)) ہم لوگ مدینہ (المنورہ) میں اپنے قُربانی کے جانورں کو خوب موٹا کیا کرتے تھے اور (سب) مُسلمان (اپنے قُربانی کے جانوروں کو ) خوب موٹا کیا کرتے تھے) صحیح البُخاری /کتاب الاضاحی/باب ٧۔
    ::::: مسئلہ ( 8 ) قُربانی کا گوشت کِس طرح تقسیم کیا جانا چایئے ؟ :::::
    ::::: دلیل ::::: سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے (قُربانی کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں) فرمایا (کُلُوا وَاَطعِمُوا وَادَّخِرُوا ) ( کھاؤ اور کِھلاؤ اور محفوظ کر لو) صحیح البخاری / حدیث ٥٢٤٩ /کتاب الاضاحی /باب ١٦ ،
    اور صحیح مُسلم میں اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا)( پس کھاؤ اور محفوظ کرو اور صدقہ کرو ) حدیث١٩٧١ /کتاب الاضاحی /باب ٥۔
    اِن احادیث کی شرح میں مختلف اقوال نظرآتے ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ قُربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ، ایک حصہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے ، ایک حصہ غریبوں مسکینوں میں صدقہ کرنے کے لیے ، اور ایک حصہ رشتہ داروں اور دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیئے ، کیونکہ اِس طرح اللہ کی راہ میں تقسیم زیادہ ہوگا ، اور اِن شاء اللہ ثواب بھی زیادہ ہوگا ،
    اور کچھ نے کہا ، کہ ، ایک حصہ کھائے اور محفوظ کرے اور ایک حصہ صدقہ کرے ،
    اور یہ بھی کہا گیا کہ تمام گوشت کو صدقہ کرے یا کھائے اورمحفوظ کرے کوئی حرج نہیں، اور یہ قول سب سے زیادہ کمزور ہے ، تفصیلات کے لیے ، شرح النووی علی صحیح مُسلم، نیل الاوطار /کتاب المناسک/ابواب الضحایا و الھدایا /باب ١٨
    اور میں وہی کہتا ہو جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کیونکہ وہ حق اور سچ ہے اور سب سے بہتر بات ہے کہ ( خیر الھُدیٰ ھُدیٰ مُحمدٍ صَلَی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسلَم ::::: سب سے بہترین اور خیر والی راہنمائی وہ ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ) اور اُوپر ذِکر کی گئی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے کھانے اور محفوظ کرنے ، اور صدقہ کرنے کا حُکم تو فرمایا ہے لیکن حصے اور مقدار مقرر نہیں فرمائی ، پس قُربانی کرنے والا جتنا چاہے صدقہ کرے اور جتنا چاہے کھائے اور محفوظ کرے ، یہ معاملات اُس کے تقوے اور اللہ سے محبت پر چھوڑے گئے ہیں ، و اللہ اعلم ۔
    ::::: مسئلہ (9) ایک بڑے جانور کی قُربانی میں کتنے شخص شریک ہو سکتے ہیں ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: ایک بڑے جانور کی قُربانی میں سات شخص شریک ہو سکتے ہیں،
    ::::: دلیل :::::: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے (نَحَرنَا مع رسول اللَّہِ صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ عَامَ الحُدَیبِیَۃ البَدَنَۃَ عن سَبعَۃٍ وَالبَقَرَۃَعن سَبعَۃ ) ( ہم نے صلح حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایک اونٹ اور ایک ایک گائے سات سات آدمیوں کی طرف سے قُربان کی ) صحیح مُسلم /حدیث١٣١٨ /کتاب الحج/باب ٦٢،
    یہ حدیث گو کہ حج کی قُربانی کے متعلق ہے ، لیکن عُلماء نے اِس پر قیاس کر کے بغیر حج والی قُربانی کے بارے میں بھی یہ کہا کہ اُونٹ اور گائے میں سات لوگ حصہ دار بن سکتے ہیں اور اُن کا ایک گھر یا خاندان کا فرد ہونا بھی ضروری نہیں۔
    مسئلہ (10) قُربانی کِس وقت کی جانی چاہیئے ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: قُربانی کرنے کا وقت نمازِ عید کے بعد ہے ، پہلے نہیں ، اگر کِسی نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا تو وہ قُربانی شُمار نہیں ہوگا ،
    ::::: دلیل (١) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مَن کَانَ ذَبَحَ قَبلَ الصَّلَاۃِ فَلیُعِد)( جِس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہو وہ دوبارہ (دوسرا جانور) ذبح کرے ) صحیح البُخاری /حدیث٥٢٢٩ / کتاب الاضاحی /باب ٤، صحیح مُسلم /حدیث١٩٦٢ /کتاب الاضاحی / باب اول ،
    ::::: دلیل (٢) ::::: جُندب ابن جُنادہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے عید الاضحی کے دِن دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑہی اور خُطبہ فرمایا اور اُس میں فرمایا (مَن ذَبَحَ قبل اَن یُصَلِّیَ فَلیَذبَح مَکَانَہَا اُخرَی وَمَن لم یَذبَح فَلیَذبَح بِاسمِ اللَّہِ ) ( جس نے (عید کی) نماز پڑھنے سے پہلے (قُربانی کا جانور) ذبح کر دیا وہ اُس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے اب تک ذبح نہیں کیا وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے) صحیح البُخاری / حدیث ٦٩٦٥/کتاب التوحید /باب ١٤،
    ::::: دلیل (٣) ::::: البراء بن عازب رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ عید الاضحی کے دِن، عید کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( مَن صَلَّی صَلَاتَنَا وَنَسَکَ نُسُکَنَا فَقَد اَصَابَ النُّسُکَ وَمَن نَسَکَ قَبلَ الصَّلَاۃِ فَانَّہ ُ قَبلَ الصَّلَاۃِ ولا نُسُکَ لہ ُ )( جِس نے ہماری (عید کی یہ) نماز پڑہی اور (پھر)ہماری(طرح) قُربانی کی تو اُس کی قُربانی ٹھیک ہے اور جِس نے نماز سے پہلے قُربانی کی ، اُس کی قُربانی نہیں ہے) تو البراء کے ماموں ابو بُردہ بن نِیار رضی اللہ عنہما نے عرض کیا ''' اے اللہ کے رسول میں نے تو اپنی بکری نماز سے پہلے قُربان کر دی تھی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ آج کا دِن کھانے پینے کا دِن ہے اور مجھے یہ اچھا لگا تھا کہ میرے گھر میں ہونے والی قُربانیوں میں سب سے پہلے میری بکری قُربان ہو ، لہذا میں نے اُسے ذبح کر دِیا ، اور نماز کی طرف آنے سے پہلے کھا بھی لیا ''' تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( شَاتُکَ شَاۃُ لَحمٍ )( تُمہاری بکری گوشت ہی ہے ( قُربانی نہیں)) ابو بُردہ رضی اللہ عنہُ نے عرض کیا ''' اے اللہ کے رسول ہمارے پاس ایک جذعہ اونٹنی ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ پسند ہے (یعنی جِس کا گوشت دو بکریوں سے زیادہ ہے ) کیا وہ میری قُربانی (کے طور پر ) قابل قُبُول ہو گی ؟''' تو رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا (نعم ، وَلَن تَجزِیَ عن اَحَدٍ بَعدَکَ) ( جی ہاں ، لیکن تُمہارے بعد کِسی بھی اور کے لیے ہر گِز ایسا کرنا قابل قُبُول نہیں ہو گا ) صحیح البُخاری / حدیث٩١٢ /کتاب العیدین /باب ٥،
    یہ حدیث اِس بات کی بھی ایک اور دلیل ہے کہ ''' مُسنن ''' میسر نہ ہونے کی صورت میں ''' جذع ''' قُربان کیا جا سکتا ہے ، اور یہ کہ بلا عُذر چھوٹا جانور قُربان نہیں کیا جانا چاہیے ۔
    ::::: مسئلہ (11) قُربانی کا جانور کِس طرح ذبح کیا جانا چاہیئے ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: (١) جانور کو کروٹ کے بل لِٹا کر قبلہ رُخ کیا جائے ''' بسم اللہ ''' کہا جائے ،''' اللہ اکبر ''' کہا جائے اور کہا جائے ''' اے اللہ اِسے میری طرف سے (اور جِس کو اجر و ثواب میں شامل کروانے کی نیت ہو اُس کا ذِکر کیا جائے ) قُبول فرما''' ، اور(٢) ذبح کرتے ہوئے اِس بات بھی کا خیال رکھا جانا چاہیئے کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو
    ::::: دلیل (١) ::::: انس ابن مالک رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے (ضَحَّی النبی صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ بِکَبشَینِ اَملَحَینِ اَقرَنَینِ ذَبَحَہُمَا بیدہ وَسَمَّی وَکَبَّرَ وَوَضَعَ رِجلَہُ علی صِفَاحِہِمَا) ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سینگوں والے سفید و سیاہ مینڈھے اپنے ہاتھ(مُبارک) سے قُربان کیے ، ( اور اِس طرح کہ ) اپنا پاؤں(مُبارک) اُن کی گردنوں کے ایک طرف رکھا اور اللہ کا نام لیا (بِسم اللہ کہا )اور تکبیر(اللہ اکبر) کہی) صحیح مُسلم / حدیث ١٩٦٦/کتاب الاضاحی/باب٣ ،
    ::::: دلیل (٢) ::::: اِیمان والوں کی والدہ ماجدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و ارضاھا سے روایت ہے (اَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہ ُ عَلِیہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِکَبشٍ اَقرَنَ یَطَاُ فی سَوَادٍ وَیَبرُکُ فی سَوَادٍ وَیَنظُرُ فی سَوَادٍ فاتی بِہِ لیضحی بِہِ فقال لہا یا عَائِشَۃُ ہَلُمِّی المُدیَۃَ ثُمَّ قال اشحَذِیہَا بِحَجَرٍ ، فَفَعَلَت ، ثُمَّ اَخَذَہَا وَاَخَذَ الکَبشَ فَاَضجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قال بِاسمِ اللَّہِ اللہم تَقَبَّل من مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِن اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ ضَحَّی بِہِ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُربانی کرنے کے لیے سینگ دار مینڈھا جِس کے پاؤں کے سیاہی (کالا رنگ )ہو اور پیٹ کے نیچے سیاہی ہو اور آنکھوں کے پاس سیاہی ہو ، لانے کا حُکم دِیا اور مجھ سے فرمایا ، عائشہ چُھری لاؤ اور اُسے پتھر پر رگڑ کر تیز کرو ،(تا کہ چُھری کُند ہونے کی وجہ سے جانور کو زیادہ تکلیف نہ ہو) میں نے حُکم کی تعمیل کی ، پھر ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی اور مینڈھے کو کروٹ کے بل لِٹا کر ذبح کِیا اور فرمایا ''' بِاسم اللہ ، اے اللہ (یہ قُربانی) محمد ، محمد کے گھر والوں اور محمد کی اُمت کی طرف سے قُبُول فرما ) حدیث ١٩٦٧،سابقہ حوالہ،
    ::::: دلیل (1) ::::: شداد بن اوس رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باتیں حفظ کی ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا ( اِنَّ اللَّہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ علی کل شَیْء ٍ فاِذا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ واِذا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْیُحِدَّ اَحدکم شَفْرَتَہُ فَلْیُرِحْ ذَبِیحَتَہُ)(یقینا اللہ تعالیٰ نے تُم لوگوں پر مہربانی کرنا فرض کر دِیا ہے ، لہذا جب تُم قتل کرو تو قتل کیے جانے والے پر مہربانی کرتے ہوئے قتل کرو ، اور جب تُم لوگ ذبح کرو تو ذبح کیے جانے والے پر مہربانی کرتے ہوئے ذبح کرو ، اور (وہ اِس طرح کہ )ذبح کرنے والا اپنی چُھری (چاقو وغیرہ) تیز کر لے تا کہ ذبح ہونے والے (جانور) کے لیے آسانی رہے) صحیح مُسلم / حدیث ١٩٥٥/کتاب الصید و الذبائح و مایؤکل من الحیوان /باب ١١،
    اللہ تعالیٰ کی بے شُمار رحمتیں اور برکتیں ہوں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ، اور میرا سب کچھ قُربان ہو اُن صلی اللہ علیہ وسلم پر ، اُن صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے الزام لگانے والے بد بختوں کو یقینا یہ نظر نہیں آتا کہ جو روؤف و رحیم قتل و ذبح کرنے میں جانوروں تک پر احسان کرنے کی تعلیم دے وہ ظالم اور تلوار کے زور پر اطاعت کروانا والا کیسے ؟؟؟
    ::::: مسئلہ (12) اپنی قُربانی کا جانور خود ذبح کرنے ، یا کِسی اور سے ذبح کروانے کا کیا حُکم ہے ؟ :::::
    ::::: جواب ::::: بہتر اور افضل یہ ہی ہے کہ اپنی طرف سے قُربانی خود کی جائے یعنی اپنی قُربانی کا جانور خود ہی ذبح کیا جائے ، کیوں کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے تقریباً ہمیشہ ایسا ہی کِیا ہے ، جیسا کہ ابھی ذِکر کی گئی احادیث میں ہے ، اور مزید بھی بہت سی صحیح احادیث ملتی ہیں ، لیکن اگر کوئی اپنی قُربانی کا جانور کِسی اور سے ذبح کروائے تو کوئی ممانعت نہیں،
    ::::: دلیل ::::: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا سارا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں (ثُمَّ انصَرَفَ اِلی المَنحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّینَ بیدہ ثُمَّ اَعطَی عَلِیًّا فَنَحَرَ ما غَبَرَ )( پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم قُربانی والی جگہ (مِنیٰ) کی طرف تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ (مُبارک) سے ٦٣ (63 ) جانور ذبح کیے اور پھر (ذبح کرنے والا ہتھیار) علی (رضی اللہ عنہُ) کو دے دیا اور باقی جانور علی رضی اللہ عنہُ نے ذبح کیے) صحیح مُسلم/حدیث ١٢١٦ /کتاب الحج /باب١٩،
    ہمارے رواں موضوع کی دلیل کے عِلاوہ اِس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دِی گئی مستقبل کی خبروں میں گِنا جاتا ہے ، سو میں سے ٦٣ جانور خود ذبح کرنے کے بعد باقی جانور علی رضی اللہ عنہُ کے حوالے کر دیے تو سب صحابہ رضی اللہ عنہم یہ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٦٣ سال کی عُمر میں دُنیا سے رخصت ہو جائیں گے ۔
    الحمد للہ یہاں تک قُربانی سے متعلقہ اہم اور بُنیادی مسائل کا بیان مکمل ہوا ، آگے اِن شاء اللہ تعالیٰ قُربانی کرنے والے اور کروانے والے کے متعلق کچھ مسائل واضح کیے جائیں گے ۔
    قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل :::::
    قُربانی کے مسائل کے بعد یہاں قُربانی کرنے اور کروانے والوں کے بارے میں چند اہم مسائل کا ذِکر کرتا ہوں ،
    ::::: ( ١ ) جِس شخص نے قُربانی کرنے کا اِرادہ کیا ہو ، قُربانی کرنے سے پہلے اُس شخص کا بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال کاٹنا یا اُکھیڑنا ، یا ناخن کاٹنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی خِلاف ورزی ہے ، اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( اِذَا دَخَلتِ العَشرُ وَ اَرادَ اَحَدُکُم اَن یُضَحِّیَ ، فَلا یَمَسَّ مِن شَعرِہِ وَ مِن بَشَرِہِ شَیئًا ::: جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور تُم میں کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور جِسم کو مت چھوئے ))) صحیح مُسلم /حدیث ١٩٧٧ /کتاب الاضاحی /باب ٧،
    بالوں اور جِسم کو مت چھوئے کا کیا مطلب ہے ، اِسی حدیث کی دوسری دو روایات جو اِس کے بعد ہی اِمام مُسلم نے نقل کی ہیں ، اِن دو روایات میں اِس حُکم کی تفصیل ملتی ہے ، یہ بھی اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ایک روایت کے الفاظ ہیں ((( اِذا دخل العَشرُ وَعِندَہُ اُضحِیَّۃٌ یُرِیدُ اَن یُضَحِّیَ فلا یَاخُذَنَّ شَعرًا ولا یَقلِمَنَّ ظُفُرًا ::: جب دس دِن ( یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آ جائیں اور کِسی کے پاس قُربانی کے لئیے جانور ہو اور وہ اُسے قُربان کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں میں سے بالکل کُچھ نہ لے ( یعنی کوئی بال نہ کاٹے ) اور ہر گِز اپنے ناخُن نہ کاٹے )))
    اور دوسری کے ((( اِذا رَاَیتُم ہِلَالَ ذِی الحِجَّۃِ وَاَرَادَ اَحدُکُم اَن یُضَحِّیَ فَلیُمسِک عن شَعرِہِ وَاَظفَارِہِ ::: جب تُم لوگ ذی الحج کا چاند دیکھ لو اور تُم میں سے کوئی قُربانی کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخُنوں سے باز رہے )))
    اِن تمام احکام کی موجودگی میں قُربانی کرنے والے کِسی بھی شخص کے لئیے اِس بات کی کوئی گُنجائش نہیں رہتی کہ وہ قُربانی کرنے سے پہلے بغیر ضرورت کے اپنے جِسم سے کوئی بال لے یا ناخُن کاٹے ، ہاں کِسی ضرورت کی صُورت میں ایسا کیا جا سکتا ہے ، ماہِ ذی الحج کے مضامین کے سلسلے کے پہلے مضمون میں ، میں نے دِین کے بُنیادی احکام میں سے جِس حُکم کی تفصیل بیان کی تھی یہ اجازت بھی اُسی قاعدے اور قانون کی بُنیاد پر ہے ، تفصیل کے لئیے اُس مضمون کو ملاحظہ فرمائیے ۔
    اِس معاملے میں اور قُربانی کرنے کروانے والوں کے بارے میں چند باتیں ، فتوے عام طور پر سنائی دیتے ہیں ، اور کچھ ایسے کام کیے جاتے ہیں، جِن کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ، آئیے ذرا مختصراً اُن کا مطالعہ کرتے چلیں ،
    ::::: ( ١) اگر کوئی شخص بوجہ ضرورت یا بھول یا غلطی سے بلکہ جان بوجھ کر بھی اپنے جِسم کا کوئی بال کاٹ یا اکھیڑ لے یا ناخن کاٹ لے تو اُس پر فدیہ یا جُرمانہ ہونے کا فتویٰ بلا دلیل ہے، اِیسے فتوے کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ اللہ کی کتاب میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنّت میں ، جی ہاں اگر کِسی سے ایسا ہو گیا یا اُس نے کر لیا تو وہ توبہ کرے اور زیادہ سے زیادہ استغفار کرے اور اپنے معمول سے بڑھ کر نیکیاں کرے ۔ کیونکہ ((( فَاِنَّ الحَسَنَاتِ یُذھَبنَ السِّیاتِ ::: بے شک نیکیاں بُرائیوں کو دُور کر دیتی ہیں))) سورت ھود / آیت 115 ، یعنی اُن کے کفارے کا سبب بن کر یا نامہ اعمال میں زیادہ ہو جانے کی وجہ سے بُرائیوں پر غالب آ جاتی ہیں،
    ::::: ( ٢) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص حج کے مہینے کے دوسرے تیسرے یاپہلے دس دِنوں میں سے کِسی بھی دِن قُربانی کا اِرادہ کرتا ہے ، اور اِس ارادے سے پہلے وہ اپنے بال یا ناخن کاٹ چُکا ہوتا ہے ، تو اُسے یہ کہا یا سمجھایا جاتا ہے کہ اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے کیونکہ تُم نے چاند نکلنے کے بعد بال یا ناخن کاٹ لیئے ہیں لہذا اب تُم قُربانی نہیں کر سکتے ، یہ بھی اُوپر درج کئی گئی احادیث کے خِلاف ہے ، کیونکہ قُربانی کا ارادہ کرنے والا شخص اِس حُکم کا پابند اُس کے ارادے کے بعد ہو گا پہلے نہیں ۔
    ::::: ( ٣) کُچھ لوگ اپنی قُربانی کرنے کے لئیے کِسی کو اپنا وکیل بنا دیتے ہیں یا وصیت کر دیتے ہیں ، اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ اب بال یا ناخن نہ کاٹنے کے حُکم کی پابندی وہ کرے گا ہم نہیں ، اور بڑے آرام سے بال ناخن اور داڑھی وغیرہ کاٹتے یا تراشتے ہیں ، اور ایسا کرنا بالکل غلط ہے کیونکہ بال یا ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا حُکم اُس کے لئیے جو قُربانی کر رہا ہے نہ کہ اُس کے لئیے جو اُس کی طرف سے جانور ذبح کر رہا یا اُس کا گوشت وغیرہ تقسیم کر رہا ہے ، یہ حیلہ ہے ، جیسا کہ بنی اسرائیل مچھلیاں پکڑنے کے لئیے کیا کرتے تھے ۔
    ::::: ( ٤) کِسی خاندان کا بڑا جب قُربانی کا ارادہ کرے تو باقی گھر والوں کو بال یا ناخن کاٹنے یا تراشنے سے روک دینا ، یہ خیال کرتے ہوئے کہ گھر والے ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بھی قُربانی میں شامل ہیں ، یا یہ سوچ کر کہ یہ لوگ بھی قُربانی کے کاموں میں شامل ہوں گے لہذا یہ بھی اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹیں گے ، یہ بھی ایسا فتویٰ ہے جِس کے لئیے دین میں کوئی دلیل نہیں ۔
    ::::: ( ٥) قُربانی کے جانور کو کِسی میت کے ایصالِ ثواب کے لئیے خاص کرنا ۔
    ::::: ( ٦) قُربانی کرتے ہوئے جانور کی پیٹھ پر یا جِسم کے کِسی حصے پر ہاتھ رکھ کر یا اِس کے بغیر ہی کہنا کہ یہ قُربانی فُلان کے نام کی ہے ، اے اللہ اِس کا ثواب فُلان کو پہنچا دے ، اور بسا اوقات تو چھری چلانے والا صِرف اِس بات کا ہی اعلان کرتا ہے اور جانور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی بجائے غیر اللہ کے نام پر کاٹ دِیا جاتا ہے ، اگر بھول سے ایسا ہو تو اِنشاءَ اللہ کوئی حرج نہیں ، لیکن یہ بات آ سانی سے مانی جانی والی نہیں کہ ذبح سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی نیت کا اعلان کرنا یا کروانا تو یاد رہتا ہے مگر اللہ کا نام لینا یاد نہیں رہتا ۔ ثواب اور اجر پُہنچانا اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے ، اور وہ کِسی کے حُکم یا ارادے کا پابند نہیں ، سُبحانہُ و تعالیٰ ، اِس موضوع پر میری ایک کتاب بعنوان ''' اِیصال ثواب اور اُس کی حقیقت''' چَھپ چکی ہے ، اللہ کی عطاء کردہ توفیق سے اُس میں اِس موضوع پر کافی تحقیق موجود ہے۔
    ::::: ( ٧) حرام مال میں سے قُربانی کرنا ، اللہ تعالیٰ حرام مال سے دی گئی چیز کو قبول نہیں کرتا ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ((( اِنَّ اللَّہَ طیِّبٌ لا یُقبلُ اِلَّا طیِّباً ::: اللہ پاک ہے اور پاکیزہ کے علاوہ قبول نہیں کرتا ))) صحیح مُسلم /حدیث ، ١٠١٥ /کتاب الزکاۃ /باب ١٩۔
    ::::: ( ٨ ) قُربانی کرنے کی مالی استطاعت ہونے کے باوجود بھی قُربانی نہ کرنا ۔
    ::::: ( ٩) پیسے بچانے کی خاطر یا نام کرنے کے لئیے کہ فُلان نے بھی قُربانی کی ہے جیسا تیسا جانور بھی ملے ، لے کر قُربان کر دینا ۔
    ::::: ( ١٠ ) سارا گوشت بانٹ دینا ، یا سارا ہی اپنے لئیے رکھ لینا ، یا صِرف اپنے خاص لوگوں میں بانٹنا خاص طور پر ایسے لوگوں میں جِنہوں نے خود بھی قُربانی کی ہوتی ہے اور غریبوں کا خیال نہ رکھنا ۔
    ::::: ( ١١ ) جانور قُربان کرنے کی بجائے اُسکی قیمت ادا کرنا ۔
    ::::: ( ١٢ ) عید کی نماز سے پہلے قُربانی کرنا ۔
    ::::: ( ١٣ ) بغیر کِسی شرعی عُذر کے اپنا جانور کِسی اور سے ذبح کروانا ۔
    ::::: ( ١٤ ) قُربانی کرنے والے کا(ذبح کرنے والے کا نہیں )عید کی نماز پڑہنے سے پہلے کھانا پینا ۔
    ::::: ( ۱۵ ) عید ملتے ہوئے جو الفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم ادا کیا کرتے تھے اُن کو چھوڑ کر ایسے الفاظ ادا کرنا جِن کا نہ سُنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں کوئی ثبوت ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی سُنّت میں نہ أئمہ کے أقوال و أفعال میں ۔
    ::::: ( ۱6) اِس دِن کو یا اِن دِنوں میں کِسی اور دِن کو ( یا اِن کے علاوہ سال کے کِسی بھی دِن کو ) قبرستان یا کِسی خاص قبر کی زیارت کے خاص کرنا ۔
    :::: ( ۱۷ ) عید ملنے کے نام پر حلال و حرام کی تمیز ختم کر کے ، محرم نا محرم کا فرق مٹا کر ، شرم و حیا کو رُخصت کر کے ، غیرت و حمیت کا جنازہ نکال کر ، عید ملن أجتماع کرنا ، ایسی ملن پارٹیاں جِن میں سب بھائی ، بہہنیں ، دیور ، بھابھبیاں ، انکل ، آنٹیاں اور کزنز موجود ہوتے ہیں اور کِسی شرعی حد کا خیال اور لحاظ کیے بغیر ہوتے ہیں ، اور کہتے ہیں ''' پردہ تو نظروں کا ہوتا ہے ''' گویا اِن کی نظریں پاک ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کی نظریں پاک نہ تھیں ، کُچھ اِن سے بھی زیادہ مضبوط دلیل رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سُنائی دیتے ہیں کہ ''' دِل صاف ہونے چا ہِیں ''' گویا اِن کے دِل تو صاف ہیں اور جِن پر سب سے پہلے پردہ کا حُکم نازل ہوا تھا اُن کے دِل صاف نہ تھے ، اِنِّا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ راجِعُونَ ، و اللَّہُ المُستعَانُ ۔
    قارئینِ محترم مندرجہ بالا غلطیاں بہت میں سے چند ہیں صرف اِن کا ذِکر اِس لیے کیا گیا ہے یہ بہت عام نظر آتی ہیں ، اِن کو سمجھ کر اِن کی اصلاح کیجیے اگر کِسی کو اِن باتوں کے بارے میں کوئی مزید وضاحت درکار ہو تو بِلا تردد طلب فرمائیے ، مُجھے کِسی بھی مُسلمان کی راہنمائی کر کے بہت خوشی ہوتی ہے ، اور بہت کُچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ، اور یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاءَ کردہ توفیق سے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمارے نیک أعمال قبول فرمائے اور ہمارے گُناہ معاف فرمائے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں