یہ سردیوں کی ایک شدید سرد شام تھی ، انگیٹھی میںکوئلے جل رھے تھے ۔ آج شام تمام پوتے پوتیاں دادا کو گھیرے بیٹھے تھے اور ان کی باتیں مزے لےلے کے سن رھے تھے۔ دادا عصر کے وقت شہر ان کے گھر پہنچا تھا ۔ آمنہ نے دادا کی اطلاع ملتے ہی انگیٹھی اور کوئلوں کا انتظام کر لیا تھا ۔ دادا کو کوئلوں کی انگیٹھی اچھی لگتی تھی ورنہ کہاں ڈیفنس کی آدھے ایکڑ میں پھیلی کوٹی اور کہاں کوئلوں والی انگیٹھی، نجانے کیوں پوتے پوتیاں دادا کے دیوانے تھے دادا کی آمد کا مطلب ان کے گھر عید تھا۔ دادا کو دیکھ کر ان کے چہرے خوشی سے انگیٹھی میں دہکتے کوئلوں کی طرح چمک اٹھتے تھے۔ داداتھا بھی کمال کا بندہ ۔ اس نے وقت کی شاخ سےا س نے بہت سے لمحے توڑ کر اپنے پاس محفوظ رکھ چھوڑے تھے جو آج کے انسان کے لئے صرف ایک سراب تھے داد نور محمد اگرچہ بارہ جماعتیں پاس تھا مگر پی ایچ ڈی کرنے والے اس سے مدد لینےآتے تھے نور محمد مڈل سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا جسے ریٹائر ہوئے بیس سال کا عرصہ گزر چکا تھا باقی کل
دادا آپ ہمارے پاس شہر کیوں نہیں رہتے؟ کیا چچا کا زیادہ حق بنتا ھے جو آپ ان کے پاس رہتے گاؤں میں رہتے ھیں، بڑی پوتی آمنہ جو ڈاکٹر بن چکی تھی، نے سوال کیا۔نور محمد مسکرایا بیٹا جب بٹوارے میں میں ہندوستان سے آیاتھا توہماری زمینوں میں میری ہی عمر کا ایک برگد کا درخت تھا میری اس درخت سے رفاقت 60 سال پرانی ھے نجانے کیوں لگتا ھے میں اس کے بغیر اور وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتا ، ویسے بھی مجھے خالص چیزوں کی عادت پڑ گئی ھے اور یہاں شہر کی تو ہوا بھی خالص نہیں ھے
دادا اگر آپ کو اسم اعظم مل جائے تو آپ کیا کریں گے اقصی جو ایم بی بی ایس کے آخری سال میں تھی ، نے سوال کیا ، اقصی بیٹا میںحق کی تلاش میں برسوں دوسروں کے پیچھے دوڑتا رہا مگر مجھے تھکن اور تنہائی کے سوا کچھ نہیں ملا ، تھک کر میں نے اپنا تعاقب شروع کر دیا تو پتا چلا کہ میرے اندر تو پوری کائنات آباد تھی جس کے قوانین باہر کی دنیا سے نرالے تھے ۔ اس کائنات میں رہ کر مجھے پتہ چلا جیت اس کی ہوتی ھے جو ہار جائے۔اس نگری میں دولت صرف ظرف اور عشق کی ہوتی ھے ۔ اس کائنات کا مالک اہنے ہر مکیں کو محبت اور رحمت کا تحفہ عطا کرتا ھے ہیمیشہ اپنے رب سے لاحاصل محبتوں کا ظرف مانگو۔ بہت سال پہلے ایک شخص میرے پاس آیا تھا مجھے کہنے لگا میرے پاس اسم اعظم ھے میں تمہیں دینا چاہتا ہوں ۔ میں نے کہا کیا آپ یہ چاہتے ھیں کہ مجھے اپنے رب سے کچھ نہ مانگنا پڑے ۔ نہیں بھائی نہیں ، میںتو چاہتا ہوں ہر مصیبت میں صرف اسی کو پکاروں ، دعا کے توسط سے اس ذات سے سچا تعلق پیدا کروں ، اسی کے در کا سوالی رہوں ، اسی کی ذات کا محتاج رہوں مجھے بندگی کی نعمت سے محروم نہ کرو
دادا آپ کی زندگی میں کوئی regret ھے فیضان جو ایم اے جرنلزم کرنے کے بعد ایک اخبار میں کا کر رہا تھا ، نے سوال کیا نور محمد نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا ، ہاں بیٹا میری زندگی میں صرف ایک دکھ ھے ، تیرے باپ نے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ھے مجھے پتا ھے اس کی بہت ساری ناجائز دولت سوئیزرلینڈ کے بنکوں میںجمع ھے ، میں نے اسے ایک دن سمجھایاتھا کہ بیٹا جب پاکستان بنا تھا تو ہمارے پاس دفتروں میں بیٹھنے کے لئے فرنیچر تک نہیں تھا ہم گھروں سے چارپائیاں کے کر آتے تھے ۔ کامن پن کی جگہ ہم کانٹے استعمال کرتے تھے ۔ لوگ کہتے تھے اس ملک کو مجبورا بھارت کے ساتھ دوبارہ الحاق کرنا پڑے گا میں اس وقت بھی یہی کہا کہ پاکستان قیامت تک رہنے کے لئے بنا ھے ۔ یہ پودا ایک ایسے محقق نے لگایا ھے جو صدیوں میںایک پیدا ہوتا ھے ، میں نے کہا بیٹا تم انڈیا سے پاکستان تو آگئے ہو اگر اس ملک کو بھی کھا جاؤ گے تو پھرکہاں جاؤ گے ۔ مگر بیٹا تیرے باپ پے میری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ میں نے اسے کہا تھا پتر جاوید یہ ملک قلندر دیس ھے۔ قلندر دیس کے ساتھ برائی کرنے والا کبھی سکھ نہیں پاتا ، پتر قلندر سے تو شہنشاہ مانگنے آتے ھیں پتر اس کی بددعا سے بچ۔
دادا آپ کی قلندر والی بات سے مجھے یاد آیا آج دوپہر کو بابا کے ساتھ مارکیٹ گیا تھا تو ایک بچے نے بابا کی جیب کاٹ لی۔ پھر کیا ہوا ؟ ذیشان ، آمنہ نے بے تاب ہو کے پوچھا۔ ہونا کیا تھا بابا نے اسے پکڑ لیا اور تھانے لے گئے ، ایس ایچ او نے اس لڑکے کی خوب پٹائی کی ۔ ایس ایچ او نے اس لڑکے سے کئی اور دوسری وارداتوں کا اعتراف بھی کروا لیا ۔ پھر ایس ایچ او نے اس لڑکے سے پوچھا ، بتا قلندر کے مزار سے بھی تو ہی لوگوں کی جیبیں خالی کرتا ھے ۔ وہ لڑکا رونے لگ گیا ، وہ پہلی دفعہ رویا تھا ۔ حالانکہ وہ اتنی زیادہ مار کھا چکا تھا مگر رویا بالکل نہیں تھا ۔ اس نے کہا ، تھانیدار صاحب مجھے پیدا کرنے والے کی قسم ھے ، میں نے کبھی زندگی میں قلندر کے مزار سے کبھی کسی کی جیب نہیںکاٹی ۔ میں برا ضرور ہوں مگر تھانیدار جی اتنا بھی برا نہیں کہ قلندر کے میلے میں جیب کاٹوں۔ پھر دادا ، بابا کو جانے کیا ہوا ، کہنے لگے، ایس ایچ او صاحب اس لڑکے کو چھوڑ دیں ، اس نے میری جیب نہیںکاٹی، تھانیدار نے بہت کہا ، سر آپ نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ھے ، یہ مان بھی گیا ھے پھر آپ اس کو کیوں چھڑانا چاھتے ھیں۔ بابا کہنے لگے ایس ایچ او صاحب جو میں کہتا ہوں وہ کرو اور پھر بابا نےاس بچے کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور راستے میں چھوڑ دیا ۔ مجھے گھر اتار کر نہ جانے کہاں چلے گئے۔ ذیشان کی بات ابھی ختم ہی ہوئی تھی کہ بابا ہاتھ میں بریف کیس پکڑے اندر داخل ہوئے ۔ جھک کر دادا کو سلام کیا اور بولے مجھے معاف کردو ایک بچے نے میری آنکھیںکھول دی ھیں جو قلندر کے میلے میں جیب تراشی نہیں کرتا اور ہم جیسے پڑھے لکھے لوگ اس قلندر دیس کی جیبیں کاٹنے پہ لگے ہوئے ھیں۔ ابو میں سوئیزرلینڈ جا رہا ہوں تاکہ اس ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر اس قلندر سید کے قدموں میںڈال سکوں ، شاید اس طرح میں اس قلندر دیس کی بددعا سے بچ سکوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ہم کہتے ہیں "وش فل تھنکنگ"۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن زمینی حقائق جو کہانی سناتے ہیں وہ کچھ اور ہیں۔۔۔۔لیکن ایسا ہو تو پھر کیا ہی بات ہے۔