1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قلب کی رنجوری - میری پرانی تحریر

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏25 فروری 2015۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    قلب کی رنجوری

    موجودہ دور مادی لحاظ سے یقینا بے پناہ ترقیوں کا حامل ہے۔ لیکن غیر اخلاقی رویوں اور تہذیبی گراوٹ نے حضرت انسان کو ایسے مقام پہ پہنچا دیا ہے جس پر تاریخ انسانیت کو ناصرف افسوس ہے بلکہ پچھلے تمام ادوار ، آج کے شہ زوروں کی خونچکاں دست اندازیوں کے باعث شرمندگی سے انگشت بدنداں ہیں۔ اور ایسے ذلت آمیز، حیران کن اور پرخوف ماحول نے جہاں عام آدمی کے لئے معاشی بدحالی، معاشرتی بے راہ روی اور اقتصادی بحران پیدا کئے ہیں وہاں صاحب علم و بصیرت کو بھی شدید صدمات سے گزرنا پڑرہا ہے اور نتیجتا وہ تمام خطیب جو کبھی سینکڑوں کو دعوت اسلام (امن و آتشی کا سبق) دیتے تھے آج قوت گویائی سے محروم دکھائی دینے لگے اور صاحب قلم جو اپنی پرتاثیر تحریروں سے قوم و امہ کی تقدیر تبدیل کردینے کی صلاحیت رکھتے تھے آج اپنے فرض سے غافل ہونے لگے ہیں۔

    اس ناگہانی تبدیلی کا باعث ناعاقبت اندیشی و وقتی مفاہمت پر مبنی سیاسی فیصلے، الہامی رشد و ہدایت سے انحراف، اخلاقی قدروں کی پامالی اور دلوں میں زنگ لگنا ہیں۔ ان تمام برائیوں میں مادہ پرستی نے ایسا عروج حاصل کرلیا ہے کہ شرم و حیاء سے متعلق پردہ داری میں کی جانے والی دھیمی گفتگو کو دلکش تصاویر و اشتہارات کے ذریعے اس انداز میں پیش کیا جانے لگا ہے جس نے صدیوں سے قائم اخلاقی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر دیں ہیں۔

    آج کل جس قدر جمع و خرچ کیا جاتا ہے وہ صرف نمائش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس تمسخر کی چھوٹی سی مثال سیگریٹ کا جذبات انگیز اشتہار ہے جو ہر شخص کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اس اشتہار کے آخر میں بے رنگ تحذیر (سیگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے) پیش کردی جاتی ہے جس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے پاتا۔


    یہ تضاد اور بگاڑ اس قدر تیزی اختیار کرگیا ہے کہ جس نے عالمی اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وہ ایوان (ادارے) جہاں احیائے انسانی اور بقائے زندگی کیلئے امن کوششوں کو دوام حاصل ہونا چاہیے وہاں عیاری کے پردے میں ایسے عوامل اور جواز اختراع کئے جاتے ہیں کہ عمدا قتل کو جائز قرار دے کر بزور طاقت اپنے ہم نواوں کی تائید حاصل کرکے کھلے عام انسانی تہذیب کے چیتھڑے اڑا دیئے جاتے ہیں۔

    کیا بہادری اسی کا نام ہے کہ ایک فریق تو بکتر بند گاڑیوں، آشیانہ شکن بھاری مشینری اور لڑاکا ہوائی بلاوں سے لیس ہو کر بلا تکلف حملہ آور ہوتا رہے اور دوسرے فریق کے ہاتھوں میں صرف چند کنکریاں ہی ہوں؟ صد حیف کے منصف پھر بھی فرد جرم کنکری بردار معصوم ننھی سی جان ہی کے خلاف قائم کرے۔

    آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ہم بحیثیت کلی اور انفرادی صرف جسمانی (بدنی) صحت اور ارضی و فضائی آلودگی سے بچاو کیلئے سرگرداں و کوشاں ہیں۔ جبکہ ہمارا دل کینہ پروری، بغض و عناد، احساس امتیاز، زعم برتری اور نجانے کتنی آلودگیوں سے پراگندہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قرب و جوار میں خواہ کس قدر تسلسل سے ناانصافیاں اور زیادتیاں رچائی جائیں، ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔

    اللہ سبحانہ تعالی نے اپنی مقدس کتاب قرآن حکیم (جو انگنت پی ایچ ڈی کی ڈگریوں پر ہاوی ہے) کو ہر مسلمان مرد و زن کو صرف کلمہ توحید کے اقرار کرنے پر انعام فرمائی؛ جس میں بارہا دل کی مختلف کیفیات اور کج رویوں کا ذکر فرمایا ہے اور اصلاح قلب کا درس دیا ہے۔ مگر جدید سائینس کے علمبرداروں اور ان کی سحر انگیز ترقی سے متاثر ہونے والوں کی نظر میں قلب (دل) صرف دوران خون کو سرگرداں رکھنے والا ایک عضو (پمپ) کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جبکہ انسانی دل ایسا گہوارہ ہے جہاں امن و آتشی اور مہرو وفا کے چشمے پھوٹتے ہیں۔

    یہ سچ ہے کہ انسانی ذہن علم و دانست کی بناء پر نئی نئی اختراع کرتا ہے مگر ہر تحقیق و تخلیق کیلئے دماغ کو جب تک دل کی طرف سے تائید و حمایت حاصل نہ ہو، کوئی ایجاد اور فن پارہ منظر عام پر نہیں آسکتا۔ درحقیقت دماغ کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے، اسے متحرک کرنے اور تقویت جہد کیلئے دل کی بھر پور حمایت حاصل ہونا بہت ضروری ہے۔

    ارادے ہمیشہ دل میں جنم لیتے ہیں اور عقل اسے ترتیب دیتی ہے جبکہ عمل اظہار کا روپ دیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ قلب کو آلائشوں، آلودگیوں اور نفرتوں سے پاک رکھا جائے تاکہ ہم محبت، اخوت، بھائی چارہ اور ہمدردی کے ماحول کو فروغ دیکر اس جہاں کو جنت نظیر بنا سکیں۔

    ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دلوں کی تطہیر کریں کیونکہ یہی وہ منبع ہے جو کبھی کینہ و عناد کی آماجگاہ بن جاتا ہے جہاں نفرتوں اور دشمنی کے زہر آلودہ انتقامی جذبات پنپتے ہیں۔ بصورت دیگر یہی دل اگر پاکیزہ، درد آشنا و درد شناس ہو اور احساس کی دولت سے مالامال ہو تو نرم خوئی، شیریں گفتاری، جذبہ خیر سگالی، بھائی چارہ، اخوت و محبت، ایثار اور عزت و احترام جیسی خوبصورت اقدار یہاں گھر کرلیتی ہیں جو انسان کو ناصرف ہر دل عزیز بنا دیتی ہیں بلکہ انسانیت کی معراج (خیر و سلامتی کا پیامبر، مہرو وفاء اور عزت و احترام کا پاسبان و مبلغ ) پر پہنچا دیتی ہیں۔

    تطہیر قلب انسان کو اللہ سبحانہ و تعالی کا مطیع و فرمانبردار بندہ بنا دیتی ہے اور انبیاء علیہم السلام، صحابہ کرام، تابعین و تباع تابعین کی محبت کا قلب میں ایسا دیا روشن کردیتی ہے کہ جب بھی اللہ سبحانہ و تعالی کا کلام پڑھا جارہا ہو اور اللہ سبحانہ و تعالی کی کبریائی بیان ہورہی ہو تو دل اطاعت خداوندی میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی عظمت، بڑائی اور احکام کی تعمیل میں کوتاہی کے خوف سے باربار رنجیدہ ہوتا رہتا ہے اور چشم تر دل کی کیفیت کی غماز بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب بھی انبیائے کرام، اہل بیت، صحابہ کرام، تابعین، تباع تابعین اور اللہ سبحانہ وتعالی کے دیگر نیک بندوں کا ذکر خیر چھیڑا جائے تو بھی مومن کا دل ان کی عظمت کے اعزاز اور اپنی بے مائیگی کے اعتراف میں رنجیدہ ہوجاتا ہے اور چشم تر پھر اس کے راز کو فاش کردیتی ہے اور

    وہ آنسو جو اللہ سبحانہ و تعالی کے خوف میں امڈ آئیں اور مومن کے چہرے کی زینت بن جائیں تو ایسے گراں مایہ موتیوں کی قدر و قیمت خداوند عظیم کے دربار اقدس میں شہید کے لہو کے برابر ہے اور حشر میں سایہ کی ضمانت ہے اور انبیائے کرام رضی اللہ علیہ السلام کے بعد سب سے اعلی رتبہ اللہ سبحانہ و تعالی کی راہ میں شہید ہونے والوں کا ہے جو سدا جیتے ہیں۔

    جس دل میں آلودگی و کثافت نہ ہو وہ لطیف احساسات کا آئینہ دار بن جاتا ہے جس میں انسانیت کی خدمت کے سوتے جاگ اٹھتے ہیں کہ:-

    دل بینا بھی کر خدا سے طلب
    آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں

    (اقبال)

    ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ (خصوصا مسلم امہ) وہ شعار اختیار کریں جو اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی مقدس کتاب کے ذریعے ہمیں عطائ فرمائے ہیں اور رحمتہ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عملا اپنی سیرت طیبہ کے ذریعہ ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔

    کم گوئی، خوش گفتاری، احترام انسانیت، درس و تدریس سے رغبت اور اعلی و معیاری مطالعہ و سماعت، انسانی قلب کو ایسا نرم خو بنا دیتی ہے جو بہترین کردار کے لئے اولین خواصہ ہے، کہ:-


    دل مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ
    (اقبال)


    خلوص کار و متمنی دعاء: عبدالقیوم خان غوری
    تاریخ: 20 رمضان المبارک 1423 ہجری
    مقام: جدہ، سعودی عرب
     
    Last edited: ‏25 فروری 2015
    ھارون رشید، عمر خیام، سید شہزاد ناصر اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    بے شک انسان خسارے میں جا رہا ہے۔
    مادیت پرستی کے پیچھےپڑ کے ہم خود کو بھولتے جا رہے ہیں۔ اور ہمارے قلوب آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔
    بہت سے حساس موضوعات کو خوبصورت پیرائے میں موضوع گفتگو بنایا غوری جی
    خوبصورت اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریر۔
    جزاک اللہ
    اللہ کریم آپ کو شاد آباد رکھے۔
    آمین
     
    ھارون رشید، غوری اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب
    معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کو آپ نے بہت درمندی سے الفاظ کا جامہ پہنایا
    سلامت رہیں
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ۔۔۔۔ کیا کہنے جناب
     
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ جی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں