1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قصیدہ

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏5 ستمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں۔

    اردو ادب میں قصیدہ فارسی سے داخل ہوئے۔ اردو میں میرزا رفیع سودا اور ابراہیم ذوق جیسے شعرا نے قصیدے کی صنف کو اعلی مقام تک پہنچایا۔ قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔


    تشبیب
    قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔ اس میں شاعر عشق و عاشقی کی باتیں، شباب جوانی کے قصے اور فضا کی رنگینی کا حال بیان کرتا ہے۔

    گریز
    تشبیب کے بعد قصیدے میں گریز کی منزل آتی ہے گریز کی یہ خوبی قرار دی گئی ہے کہ تشبیب کے بعد ممدوح کا ذکر نہایت ہی فطری اور موزوں طریقے سے کیا جائے یعنی بیان میں ایک فطری مناسبت، تسلسل اور ربط قائم رہے۔

    مدح
    قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے۔ اور اسی پر قصیدے کی بنیا د ہوتی ہے۔ عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھر پور ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھائو تو میں تمہاری مدح کروں۔“ مگر فارسی اور اردو میں مدح کا معیار خیال آفرینی اور مبالغہ ہوتا ہے۔ یہاں ممدوح کی ذات میں مثالی خصوصیات فرض کرکے بیان کی جاتی ہیں۔ قصیدوں میں مدح کا حصہ اکثر تکرار مضامین کی وجہ سے بے لطف ہو جاتا ہے۔

    دعائیہ
    قصیدے کا آخری حصہ دُعائیہ ہوتا ہے اس میں ممدوح کو بلند اقبال اور درازی عمر کی دعا دی جاتی ہے۔ بعض اوقات شاعر اپنی اچھی یا بری حالت ظاہر کرتا ہے۔ دعا کے ذریعے قصیدہ گو اپنا صلا بھی طلب کرتا ہے۔ دعا قصیدے میں نازک مقام ہے اور قصیدے کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر دعا پر ہی ہوتا ہے اور قصیدے کے مقطع میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے۔
     
    د پیخورگل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں