1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قصیدۂ معراجیہ ،

'نعتِ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم' میں موضوعات آغاز کردہ از شہباز حسین رضوی, ‏20 مئی 2014۔

  1. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    SAHB E MERAJ QASEEDA MEHRAJ.jpg
    "وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
    نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے"


    کہیں مبارک کہیں سلامت ، کہیں مسرّت کے غلغلے تھے
    صلوٰۃ کے گیت نعت کی گت ، ثنا کے باجے بَجارہے تھے
    وَرَفَعنَا کی بجا کے نوبت ، مَلک سلامی اُتارتے تھے
    "وہ سرورِ کِشورِ رِسالت ، جو عرش پر جلوہ گَر ہو ئے تھے
    نئے نِرالے طَرَب کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لیے تھے"


    "بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
    مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے


    . مُبارک اے باغباں مبارک ، خُدا کرے جاوداں مُبارک
    بہارِ گل کا سماں مبارک ، عنادلِ نغمہ خواں مبارک
    زمین سے تاآسماں مبارک، یہاں مبارک وہاں مبارک
    "بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
    مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے

    "وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھیں شادی مچی تھیں دُھومیں
    اُدھر سے انوار ہنستے آتے ، اِدھر سے نَفحات اُٹھ رہے تھے

    کہیں فرشتوں کی انجمن میں ، مُبارکی گارہی تھیں حوریں
    کہیں وہ نور اور وہ ضِیائیں ، جہاں فرشتے بچھائیں آنکھیں
    دِکھارہی تھیں نِرالی شانیں ، اُس ایک نوشہ کی دو براتیں
    "وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھیں شادی مچی تھیں دُھومیں
    اُدھر سے انوار ہنستے آتے ، اِدھر سے نَفحات اُٹھ رہے تھے


    "یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی ، کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
    وہ رات کیا جگمگا رہی تھی ، جگہ جگہ نصب آئنے تھے

    کچھ ایسی اُس شب میں تھی تجلّی ، کہ جابجا نورکی جھلک تھی
    وہ ہر جگہ عالَمِ صفائی ، ہوئی تھی عالَم کی شیشہ بندی
    ضِیاے ماہِ عرب جو چمکی ،تو روشنی دُور دُور پھیلی
    "یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی ، کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
    وہ رات کیا جگمگا رہی تھی ، جگہ جگہ نصب آئنے تھے

    "نئی دُلھن کی پھَبَن میں کعبہ ، نِکھر کے سنورا سنور کے نِکھرا
    حَجَر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناو کے تھے


    تجلّیوں کا وہ رُخ پہ سہرا ، بدن میں وہ نور کا شہانا
    سجا سجایا بنا بنایا ، خُدا کے گھر میں وہ شاہ آیا
    نظر سے گذرا عجب تماشا ، کہ رنگ پایا یہاں نرالا
    "نئی دُلھن کی پھَبَن میں کعبہ ، نِکھر کے سنورا سنور کے نِکھرا
    حَجَر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناو کے تھے

    "نَظَر میں دُولھا کے پیارے جلوے ، حیا سے محراب سر جُھکائے
    سیاہ پردے کے منھ پر آنچل تجلّیِ ذاتِ بَحت سے تھے

    . دلھن پہ یہ شوق کے تقاضے ، کہ چل کے نوشاہ کے قدم لے
    مگر لحاظ و ادب نے بڑھ کے ، وہ ولولے دل کے دل میں روکے
    لِقا کی حسرت میں آنکھ کھولے ، چُھپائے گُھونگٹ میں منھ اَدا سے
    "نَظَر میں دُولھا کے پیارے جلوے ، حیا سے محراب سر جُھکائے
    سیاہ پردے کے منھ پر آنچل تجلّیِ ذاتِ بَحت سے تھے"
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ العظیم
    اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ وبارک وسلم

    اللہ پاک اعلی حضرت رح کے درجات انکے حسبِ شان بلند فرمائے۔ جن کے کلام کو پڑھ کر آج بھی دل میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں۔
     
    شہباز حسین رضوی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جناب
     
    شہباز حسین رضوی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    "خوشی کے بادل اُمَنڈ کے آئے ، دِلوں کے طاوس رنگ لائے
    وہ نغمۂ نعت کا سماں تھا ، حَرَم کو خود وجد آرہے تھے

    خدا نے داغِ الم مٹائے ، بہارِ شادی کے دن دکھائے
    نسیمِ عشرت نے گُل کِھلائے ، طرب کی خوشبو سے دل بسائے
    چمن مسرت کے لہلہائے ، عنادلِ شوق چہچہائے
    "خَوشی کے بادل اُمَنڈ کے آئے ، دِلوں کے طاوس رنگ لائے
    وہ نغمۂ نعت کا سماں تھا ، حَرَم کو خود وجد آرہے تھے


    "یہ جُھوما مِیزابِ زَر کا جُھومر ، کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
    پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر ، حطیم کی گود میں بھرے تھے

    . حرم کا وہ حُسن اور زیور ، وہ نعت شایانِ شانِ سرور
    وہ حالتِ وجد بام و در پر ، کہ جُھومتا تھا مزے میں سب گھر
    وہ عالَمِ کیف تھا سَراسَر ، کہ ہوش سے سب ہو ئے تھے باہر
    "یہ جُھوما مِیزابِ زَر کا جُھومر ، کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
    پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر ، حطیم کی گود میں بھرے تھے

    "دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے ، نسیم گُستاخ آنچلوں سے
    غلافِ مُشکیں جو اُڑ رہا تھا غَزال نافے بسارہے تھے"

    . بہارِ جنّت سے گُندھ کے آئے ، دُلھن کی خاطر وہ ہار و گجرے
    کہ جن کی مستی فزا مہک نے ، اُڑا دیے تھے دماغ سب کے
    دکھائے خود رفتگی نے جلوے ،سَرور آئے نئے نرالے
    "دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے ، نسیم گُستاخ آنچلوں سے
    غلافِ مُشکیں جو اُڑ رہا تھا غَزال نافے بسارہے تھے"

    "پہاڑیوں کا وہ حُسنِ تزئیں ، وہ اُونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں
    صبا سے سبزہ میں لہریں آتیں ، دُوپٹے دھانی چُنے ہو ئے تھے"

    "نہا کے نہروں نے وہ چمکتا ، لباس آبِ رواں کا پہنا
    کہ موجیں چَھڑیاں تھیں دھار لَچکا ، حَبابِ تاباں کے تھَل ٹَکے تھے"

    . چمکتے تاروں کا عکسِ زیبا ، ہوا کچھ اس طرح زینت افزا
    لگادیا جابجا سِتارا ، کہیں رُوپہلا کہیں سنہرا
    کناروں پر جو اُگا تھا سبزہ ، وہ سبز مخمل کا حاشیہ تھا
    "نہا کے نہروں نے وہ چمکتا ، لباس آبِ رواں کا پہنا
    کہ موجیں چَھڑیاں تھیں دھار لَچکا ، حَبابِ تاباں کے تھَل ٹَکے تھے"

    "پُرانا پر داغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
    ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے"


    . تجلّی نورِ حق کا جلوا ، رچا ہوا تھا یہاں سراپا
    چمک سے پُرنور گوشہ گوشہ ، بنا تھا خورشید ذرّہ ذرّہ
    بساط تھی ماہ تاب کی کیا ، جو بزمِ عالم میں بار پاتا
    "پُرانا پر داغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
    ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے"

    "غبار بن کر نثار جائیں ، کہاں اب اُس رہ گذر کو پائیں
    ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بِچھے تھے

    . کہاں سے اے دل نصیب لاؤں ، جو تجھ کو وہ بارگہ دِکھائیں
    فراق میں پھر نہ تنگ آئیں ، نہ جوشِ وحشت میں خاک اُڑائیں
    کثافتِ رنج و غم چھٹائیں ، کدورتیں سب تری مٹائیں
    "غبار بن کر نثار جائیں ، کہاں اب اُس رہ گذر کو پائیں
    ہمارے دل حُوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بِچھے تھے

    "خُدا ہی دے صبر جانِ پُر غم ، دِکھاؤں کیوں کر تُجھے وہ عالَم
    جب اُن کو جھُرمٹ میں لے کے قُدسی جِناں کا دُولھا بنا رہے تھے

    . نہ اب نظر میں وہ جانِ عالم ، نہ قدسیوں کی وہ بزمِ اعظم
    نہ وہ طلب کے پیامِ پیہم ، نہ وہ تقاضاے وصل ہردم
    مٹیں گے کیوں کر ترے غم و ہم ، کہ اب کہاں وہ بہارِ خرّم
    "خُدا ہی دے صبر جانِ پُر غم ، دِکھاؤں کیوں کر تُجھے وہ عالَم
    جب اُن کو جھُرمٹ میں لے کے قُدسی جِناں کا دُولھا بنا رہے تھے

    "اُتار کر اُن کے رُخ کا صدقہ ،یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
    کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

    . درِ کرم کا بڑے غنی کا ، وہاں کی بخشش کا پوچھنا کیا
    ہر ایک نور و ضیا کا منگتا ، انھیں کے گھر کا پَلا بڑھا تھا
    لیے ہوئے ایک ایک کاسہ ، وہ شیَٔ للہ کا شور و غوغا
    "اُتار کر اُن کے رُخ کا صدقہ ،یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
    کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے

    "وہی تو اب تک چھلک رہا ہے ، وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
    نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

    . وہ بحرِ فیض آج تک رہا ہے ، اُسی سے عالم چمک رہا ہے
    اُسی سے گلشن لہک رہا ہے ، اُسی کا طوطی چہک رہا ہے
    فلک جو ایسا دمک رہا ہے ، اُسی چمک سے جھلک رہا ہے
    "وہی تو اب تک چھلک رہا ہے ، وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
    نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے

    "بچا جو تلوؤں کا اُن کے دھووَن ، بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
    جِنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن ، وہ پھول گلزارِ نُور کے تھے

    . وہی ضیائیں ہیں پر تو افگن ، وہی تجلی ہے شمعِ مسکن
    اُسی سے ہے مہر و ماہ روشن ، اُسی سے حوروں کے چمکے جوبن
    وہ آبِ نور و ضیا کا مخزن ، یہ لے گئے بھر کے جیب ودامن
    "بچا جو تلوؤں کا اُن کے دھووَن ، بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
    جِنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن ، وہ پھول گلزارِ نُور کے تھے"

    "خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
    وہاں کی پوشاک زیب تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے"

    . مٹی تھی ساری سیاہ بختی ، چمک اٹھی مشتری فلک کی
    مچی تھیں دھومیں رچی تھی شادی ، کہ اچھی ساعت ہے آنے والی
    گذر چکا دورِ بُرجِ ساقی ،ہوا ہے عزمِ فضاے نوری
    "خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
    وہاں کی پوشاک زیب تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے"

    "تجلّیِ حق کا سہرا سر پر ، صلاۃ و تسلیم کی نچھاور
    دو رویہ قُدسی پَرے جماکر ، کھڑے سلامی کے واسطے تھے

    . بنے کچھ ایسا وہ بن سنور کر ، کہ بارک اللہ شانِ اکبر
    جلوس کے واسطے مقرر ، کیا گیا قدسیوں کا لشکر
    شہانہ تھا زیبِ جسمِ انور ، کہ نور پر نور تھا سراسر
    "تجلّیِ حق کا سہرا سر پر ، صلاۃ و تسلیم کی نچھاور
    دو رویہ قُدسی پَرے جماکر ، کھڑے سلامی کے واسطے تھے

    "جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن ، لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
    مگر کریں کیا نصیب میں تو ، یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے

    . دِکھا ہی دیتے یہ دل کی الجھن ، بہ شکلِ سنبل بہ طرزِ احسن
    سُنا ہی لیتے بہ رنگِ سوسن ، زبانِ حالِ زبوں سےشیون
    رسائی ہوتی نہ تا بہ دامن ، تو یوں ہی ہوتا نصیب روشن
    "جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن ، لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
    مگر کریں کیا نصیب میں تو ، یہ نامُرادی کے دن لکھے تھے"

    "ابھی نہ آئے تھے پُشتِ زیں تک ، کہ سر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
    صدا شفاعت نے دی مُبارک ، گناہ مستانہ جھُومتے تھے"

    . چمک چمک عنصروں کی چُومک ، دمک دمک ہر مکان ہر چک
    قدم نہ در سے ہوا تھا منفک ، کہ بولی شی حت صدرک
    جلوس پہنچا نہ قُربِ مسلک ، کہ گونجا کڑکا رفعت ذکرک
    "ابھی نہ آئے تھے پُشتِ زیں تک ، کہ سر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
    صدا شفاعت نے دی مُبارک ، گناہ مستانہ جھُومتے تھے"

    "عجب نہ تھا رخش کا چمکنا ، غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
    شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں ، تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    . نقاب کا چہرے سے سرکنا ، تجلیِ نورِ حق جھلکنا
    وہ چشمِ حور و ملک جھپکنا ، نگاہ بھر کر بھی تک نہ سکنا
    وہ رُوے پُرنور کا چمکنا ، وہ آتشِ شوق کا بھڑکنا
    "عجب نہ تھا رخش کا چمکنا ، غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا
    شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں ، تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے

    "ہُجومِ امید ہے گھٹاؤ ، مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
    اَدَب کی باگیں لیے بڑھاؤ ، ملائکہ میں یہ غُلغُلے تھے

    . فرشتوں کو حکم تھا کہ جاؤ ، یہ بھیڑ چھانٹو پَرے جماو
    مگر کسی کا نہ جی دُکھاؤ ، مراد مندوں کو یہ سناؤ
    جو منھ سے مانگو ابھی وہ پاؤ ، تم اب سرِ رہ گذر نہ آو
    "ہُجومِ امید ہے گھٹاؤ ، مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
    اَدَب کی باگیں لیے بڑھاؤ ، ملائکہ میں یہ غُلغُلے تھے

    "اُٹھی جو گردِ رہِ مُنوّر ، وہ نُور برسا کہ راستے بھر
    گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل ، امنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے

    . ہوا جو خورشید جلوہ گستر ، تو اُس نے چمکائے ماہ و اختر
    چڑھا لیا آسماں نے سر پر ، نہ ہوسکا خاکِ پا کے ہم سر
    یہ تاب یہ ضَو وہ پائے کیوں کر ، کہ ہے وہ ذرّہ یہ مہرِ انور
    "اُٹھی جو گردِ رہِ مُنوّر ، وہ نُور برسا کہ راستے بھر
    گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل ، امنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے

    "ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی ، قمر وہ خاک اُن کی رہِگذر کی
    اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے"

    . چمکتی قسمت نصیب ہوتی ، نہ رہتی تقدیر کی سیاہی
    مگر یہ گردش کے دن تھے باقی ، کہ چال سوجھی نہ بات سمجھی
    اگر نہ کرتا طلب میں سُستی ، عجیب اکسیر ہاتھ آئی
    "ستم کیا کیسی مَت کٹی تھی ، قمر وہ خاک اُن کی رہِگذر کی
    اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے"

    "بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے ، وہ گُل کِھلائے کہ سار ے رستے
    مہکتے گلبُن لہکتے گلشن ، ہرے بھرے لہلہارہے تھے

    . بہارِ عالم میں پھول پھولے ، ہزاروں لاکھوں طرح طرح کے
    مگر کہاں سے یہ بات پاتے ، نہ ایسے رنگیں نہ ایسے پیارے
    جہاں کے گلشن کے کیا ہیں تختے ، جناں کے گل زار کے بھی بُوٹے
    "بُراق کے نقشِ سُم کے صدقے ، وہ گُل کِھلائے کہ سار ے رستے
    مہکتے گلبُن لہکتے گلشن ، ہرے بھرے لہلہارہے تھے"

    "نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ ، عیاں ہوں معنیِ اوّل آخر
    کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر ، جو سلطنت آگے کر گئے تھے

     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    . پرانے قبلے میں اپنے صادر ، ہوئے جو وہ شہسوارِ نادر
    وہاں اِنھیٖں مقتدا کی خاطر ، کھڑے تھے سب اولین اکابر
    یہ رمز پاتی نہ عقلِ قاصر ، ہُوا یہ نکتہ اِسی سے ظاہر
    "نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِرّ ، عیاں ہوں معنیِ اوّل آخر
    کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر ، جو سلطنت آگے کر گئے تھے

    "یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا ، نکھار ہر شَے کا ہورہا تھا
    نجوم و افلاک جام و مینا ، اُجالتے تھے کھنگالتے تھے"

    کہیں یہ رضواں کا مشغلہ تھا ، جناں کی چیزیں سنوارتا تھا
    وہ صاف شفّاف کردیا تھا ، کہ سارا ساماں نیا بنا تھا
    "یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا ، نکھار ہر شَے کا ہورہا تھا
    نجوم و افلاک جام و مینا ، اُجالتے تھے کھنگالتے تھے"

    "نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور ، جلالِ رُخسار گرمیوں پر
    فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی ، تپکتے انجُم کے آبلے تھے

    . وہ گرمِ حُسنِ حبیبِ داور ، کہ سرد ہو جس سے مہرِ محشر
    تو پھر کہاں تابِ ماہِ اختر ، کہ چمکیں پیشِ رخِ منور
    کمال پر تھا جمالِ سرور ، عیاں تھی شانِ جمیلِ اکبر
    "نقاب اُلٹے وہ مہرِ انور ، جلالِ رُخسار گرمیوں پر
    فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی ، تپکتے انجُم کے آبلے تھے

    "یہ جوششِ نور کا اثر تھا ، کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
    صفاے رہ سے پھسل پھسل کر ، ستارے قدموں پہ لَوٹتے تھے

    . وہ عالمِ نور سر بسر تھا ، یہاں وہاں تھا اِدھر اُدھر تھا
    نہ منزلوں تک وہاں قمر تھا ، نہ تابشِ مہر کا گذر تھا
    فقط وہی چاند جلوہ گر تھا ، وہی یَمِ نور جوش پر تھا
    "یہ جوششِ نور کا اثر تھا ، کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
    صفاے رہ سے پھسل پھسل کر ، ستارے قدموں پہ لَوٹتے تھے

    "بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت ، کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت
    فلک کے ٹِیلوں کی کیا حقیقت ، یہ عرش و کرسی دو بُلبُلے تھے

    . بڑھے جو آگے کو اور حضرت ، تو بڑھ گیا اشتیاقِ قربت
    چلی کچھ ایسی ہواے الفت ، بھڑک گئی آتشِ محبت
    ہوا جو گرمی پہ شوقِ الفت ، برس گیا گھر کے ابرِ رحمت
    "بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت ، کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت
    فلک کے ٹِیلوں کی کیا حقیقت ، یہ عرش و کرسی دو بُلبُلے تھے

    "وہ ظلِ رحمت وہ رُخ کے جلوے ، کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
    سنہری زر بفت اُودی اطلس یہ تھان سب دُھوپ چھاوں کے تھے

    . خدا کے پیارے نبی ہمارے ، کیا ہے بے مثل جن کو حق نے
    وہ حُسن یکتا دکھاتے جاتے ، کہ جس پہ دونوں جہان صدقے
    جمے تھے وحدت کے رنگ ایسے ، کہ تھے بہم روز و شب کے نقشے
    "وہ ظلِ رحمت وہ رُخ کے جلوے ، کہ تارے چُھپتے نہ کِھلنے پاتے
    سنہری زر بفت اُودی اطلس یہ تھان سب دُھوپ چھاوں کے تھے

    "چلا وہ سروچماں خراماں ، نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں
    پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گُذر چُکے تھے

    جدھر سے نکلا وہ جانِ جاناں ، قدم قدم پر کِھلے گلستاں
    بڑھی تھی یہ جوششِ بہاراں ، بنے تھے اَفلاک رشکِ بُستاں
    عروج پر تھا ابھی وہ ذی شاں ، کہاں یہ گلشن تھے اس کے شایاں
    "چلا وہ سروچماں خراماں ، نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں
    پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گُذر چُکے تھے"

    "جَھلک سی اک قُدسیوں پر آئی ، ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
    سُواری دُولھا کی دور پہنچی ، برات میں ہوش ہی گئے تھے

    . خوشی میں تھے منتظر فدائی ، کہ شکل تقدیر نے دکھائی
    سرِ گذر گاہ صف جمائی ، مگر نہ امیدِ دل بر آئی
    نہ پاس تک ہوسکی رسائی ، نہ آنکھ تابِ نظارہ لائی
    "جَھلک سی اک قُدسیوں پر آئی ، ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
    سُواری دُولھا کی دور پہنچی ، برات میں ہوش ہی گئے تھے"

    "تھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازو ، چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
    رِکاب چُھوٹی اُمید ٹُوٹی ، نِگاہِ حسرت کے ولولے تھے

    . چلے جو ہم رکاب خوش خو ، رکاب تھامے بہ طرزِ نیکو
    بہت چلے کی بہت تگ و پُو ، نہ چل سکا پھر بھی ان کا قابو
    مجالِ جنبش نہ تھی سرِ مو ، رواں تھے آنکھوں سے غم کے آنسو
    "تھکے تھے رُوحُ الاَمِیں کے بازو ، چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
    رِکاب چُھوٹی اُمید ٹُوٹی ، نِگاہِ حسرت کے ولولے تھے"

    "روِش کی گرمی کو جس نے سوچا ، دِماغ سے اک بَھبُوکا پُھوٹا
    خِرد کے جنگل میں پھُول چمکا ،دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے

    . کسی نے اب تک اِسے نہ جانا ، کہ اُن کا جانا تھا کیسا جانا
    نہ عقلِ کامل نے اِس کو سمجھا، نہ وہم ظنّ و گماں میں گذرا
    رسائی عقل و وہم ہو کیا ، کہ فکر کی تاب کون لاتا
    "روِش کی گرمی کو جس نے سوچا ، دِماغ سے اک بَھبُوکا پُھوٹا
    خِرد کے جنگل میں پھُول چمکا ،دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے

    "جِلو میں جو مُرغِ عقل اُڑے تھے ، عجب بُرے حالوں گِرتے پڑتے
    وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر ، چَڑھا تھا دَم تَیوَر آگئے تھے

    . مجال کس کی جو کوئی سوچے ، دماغ کس کا جو کوئی سمجھے
    اُڑے تھے فہم و خرد کے طوطے ، حواس کے پڑ گئے تھے لالے
    ہوئے تھے عاجز جب اونچے اونچے ، تو ہوں رسا اور ہوش کس کے
    "جِلو میں جو مُرغِ عقل اُڑے تھے ، عجب بُرے حالوں گِرتے پڑتے
    وہ سدرہ ہی پر رہے تھے تھک کر ، چَڑھا تھا دَم تَیوَر آگئے تھے

    "قوی تھے مُرغانِ وَہم کے پر ، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
    اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر ، کہ خُونِ اندیشہ تُھوکتے تھے

    . سمجھ میں آئے یہ بھید کیوں کر ، کہ ہے قیاسِ خرد سے باہر
    نہ کھائے کیوں مرغِ عقل چکّر ، کہ ہے یہاں عقلِ کل بھی ششدر
    جو تھے اولی الاجنحہ موقر ، وہ پہلے ہی گر چکے تھے تھک کر
    "قوی تھے مُرغانِ وَہم کے پر ، اُڑے تو اُڑنے کو اور دَم بھر
    اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر ، کہ خُونِ اندیشہ تُھوکتے تھے"

    "سُنا یہ اِتنے میں عرشِ حق نے ، کہ لے مبارک ہو تاج والے
    وہی قدم خیر سے پھر آئے ، جو پہلے تاجِ شرَف تِرے تھے

    . ملائکہ ایک دوسرے سے ، نویدِ وصلِ حضور کہتے
    کہ آج ارمان ہوں گے پورے ، گریں گے قدموں پہ سب سے پہلے
    یہاں یہ ہوہی رہے تھے چرچے ، کہ خود بدولت قریب پہنچے
    "سُنا یہ اِتنے میں عرشِ حق نے ، کہ لے مبارک ہو تاج والے
    وہی قدم خیر سے پھر آئے ، جو پہلے تاجِ شرَف تِرے تھے

    "یہ سُن کے بے خُود پُکار اُٹھّا ، نِثار جاؤں کہاں ہیں آقا
    پھر اُن کے تلووں کا پاؤں بوسہ ، یہ میری آنکھوں کے دن پِھرے تھے

    . وہی ہیں جن کی یہ شانِ والا ، سوا خدا کے کوئی نہ سمجھا
    انھیں کی نعلین کا ہے صدقا ، جو تو نے عزو وقار پایا
    پھر آج تیرا نصیب چمکا ، کہ وہ ہوئے تجھ پہ جلوہ فرما
    "یہ سُن کے بے خُود پُکار اُٹھّا ، نِثار جاؤں کہاں ہیں آقا
    پھر اُن کے تلووں کا پاؤں بوسہ ، یہ میری آنکھوں کے دن پِھرے تھے
    "جُھکا تھا مجُرے کو عرشِ اَعلی' ، گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
    یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا ، وہ گِرد قُربان ہورہے تھے

    . جو اپنی آنکھوں سے دیکھا بھالا ، فراق کے درد و غم کو ٹالا
    چلا کچھ ایسا چلن نرالا ، قدم پہ گر گر کے دل سنبھالا
    مِلا جو دیدارِ شاہِ والا ، تو خوب ارمانِ دل نکالا
    "جُھکا تھا مجُرے کو عرشِ اَعلی' ، گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
    یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا ، وہ گِرد قُربان ہورہے تھے

    "ضِیائیں کچھ عرش پر یہ آئیٖں ، کہ ساری قِندِیلیں جِھلمِلائیٖں
    حُضورِ خُورشید کیا چمکتے ، چَراغ مُنھ اپنا دیکھتے تھے

    . فروغِ حُسنِ خجستہ آئیٖں ، ترقیاں جس نے ایسی پائیٖں
    کہ آنکھیں یک لخت چوندھیائیں ، نگاہیں تابِ نظر نہ لائیٖں
    وہ مشعلیں نور کی جلائیٖں ، تجلیاں طور کی دکھائیٖں
    "ضِیائیں کچھ عرش پر یہ آئیٖں ، کہ ساری قِندِیلیں جِھلمِلائیٖں
    حُضورِ خُورشید کیا چمکتے ، چَراغ مُنھ اپنا دیکھتے تھے"

    "یہی سَماں تھا کہ پیکِ رَحمت ، خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
    تُمہاری خاطِر کُشادہ ہیں جو ، کَلیم پر بند راستے تھے

    . ملائکہ نے جو دیکھی فرصت ، سمجھ کہ اس وقت کو غنیمت
    بڑھائی یوں خوب اپنی عزت ، کہ سب ادا کیں رسومِ خدمت
    کوئی سناتا ثنا و مدحت ، کسی کے لب پر دعاےدولت
    "یہی سَماں تھا کہ پیکِ رَحمت ، خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
    تُمہاری خاطِر کُشادہ ہیں جو ، کَلیم پر بند راستے تھے

    "بڑھ اے محمد قَریں ہو احمد ، قریب آ سَروَرِ مُمَجَّد
    نثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی ، یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

    . یہی ہے وقت حصولِ مقصد ، خدا ہے خود خواستگارِ آمد
    وصال کا شوق ہے جو بے حد ، تو حکم پر حکم ہے مؤکّد
    طلب پہ تاکید کد پَہ ہے کد ، کہ جلد آ اے شہ مویّد
    "بڑھ اے محمد قَریں ہو احمد ، قریب آ سَروَرِ مُمَجَّد
    نثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی ، یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے

    "تَبَارَکَ اللہ شان تیری ، تُجھی کو زیبا ہے بے نِیازی
    کہیں تو وہ جوشِ لَن تَرَانِی ، کہیں تقاضے وِصال کے تھے

    . کبھی ہے مقصود پردہ داری ، کبھی ہے حد کی یہ بے حجابی
    کسی کو حسرت رہی لقا کی ، کسی سے اظہارِ خود نمائی
    نئی ادا ہر جگہ نکالی ، ہیں تیری نیرنگیاں نرالی
    "تَبَارَکَ اللہ شان تیری ، تُجھی کو زیبا ہے بے نِیازی
    کہیں تو وہ جوشِ لَن تَرَانِی ، کہیں تقاضے وِصال کے تھے"

    "خِرد سے کہہ دو کہ سر جھُکا لے ، گُماں سے گُذرے گُذرنے والے
    پڑے ہیں یاں خُود جِہَت کو لالے ، کِسے بتائے کدھر گئے تھے

    . نظر کہیں کچھ نہ دیکھے بھالے ، دہن بھی مُہرِ ادب لگالے
    ذرا طبیعت کو دل سنبھالے ، کہ اب یہاں بے خودی مزا لے
    دماغ ہوش و حواس ٹالے ، قیاس و اوہام کو نکالے
    "خِرد سے کہہ دو کہ سر جھُکا لے ، گُماں سے گُذرے گُذرنے والے
    پڑے ہیں یاں خُود جِہَت کو لالے ، کِسے بتائے کدھر گئے تھے

    "سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا ،نِشانِ کَیف و اِلیٰ کہاں تھا
    نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی، نہ سنگِ منزل نہ مَرحَلے تھے
     
    احتشام محمود صدیقی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    . زمیں کہاں تھی سما کہاں تھا ،بتائیں کیا راستہ کہاں تھا
    وہ رہرو و رہنما کہاں تھا ، کہاں سے آیا کہاں گیا تھا
    وہاں کسی کا پتا کہاں کہا تھا ، سواے حق ماسوا کہاں تھا
    "سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا ،نِشانِ کَیف و اِلیٰ کہاں تھا
    نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی، نہ سنگِ منزل نہ مَرحَلے تھے

    "اُدھر سے پیہم تقاضے آنا ، اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
    جلال و ہیبت کا سامنا تھا ، جمال و رحمت اُبھارتے تھے

    . اُدھر سے شانِ کرم دِکھانا ،اِدھر سرِ بندگی جھکانا
    اُدھر سے پیغامِ لطف پانا ،اِدھر ثنا و صفت سُنانا
    اُدھر سے تعجیل کا بُلانا ، اِدھر لحاظ و ادب سے جانا
    "اُدھر سے پیہم تقاضے آنا ، اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
    جلال و ہیبت کا سامنا تھا ، جمال و رحمت اُبھارتے تھے"

    "بَڑھے تو لیکن جِھجکتے ڈرتے ، حیا سے جھُکتے ادب سے رُکتے
    جو قُرب انھیں کی رَوِش پہ رکھتے ، تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

    . نہ ایسی حالت جو دل کو روئے ، نہ اتنی جرأت کہ پاؤں اُٹّھے
    اگر ٹھہرتے تو کیوں ٹھہرتے ، جو آگے بڑھتے تو کیا ہی بڑھتے
    بڑھائی ہمت جو شوقِ دل نے ، تو شاہِ والاکچھ اور آگے
    "بَڑھے تو لیکن جِھجکتے ڈرتے ، حیا سے جھُکتے ادب سے رُکتے
    جو قُرب انھیں کی رَوِش پہ رکھتے ، تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے

    "پر اُن کا بڑھنا تو نام کو تھا ، حقیقتہً فِعل تھا اُدھر کا
    تنزُّلوں میں ترقی افزا ، دنا تدلّے' کے سلسلے تھے

    . جوحال رفتار کا یہ پایا ، تو اُس طرف سے ہوا اشارا
    یہ جذبِ اُلفت سے کام نکلا ، کہ اُس نے زورِ کشش دکھایا
    کہاں وہ بڑھنا کہاں بڑھانا ، روش میں کیوں کر نہ فرق آتا
    "پر اُن کا بڑھنا تو نام کو تھا ، حقیقتہً فِعل تھا اُدھر کا
    تنزُّلوں میں ترقی افزا ، دنا تدلّے' کے سلسلے تھے

    "ہوا نہ آخر کو ایک بَجرا ، تمَوُّجِ بحرِ ہُو میں اُبھرا
    دنا کی گودی میں اُن کو لے کر ، فنا کے لنگر اُٹھادیے تھے

    . بڑھانا کس کا کہاں کا بڑھنا سب اُس کی قدرت کا تھا تماشا
    بشر کا دنیا سے تھا یہ آنا ، تو کچھ سبب ظاہری بھی ہوتا
    وہاں کسی شَے کی تھی کمی کیا ، جو اُس نے چاہا ہوا مہیّا
    "ہوا نہ آخر کو ایک بَجرا ، تمَوُّجِ بحرِ ہُو میں اُبھرا
    دنا کی گودی میں اُن کو لے کر ، فنا کے لنگر اُٹھادیے تھے

    "کسے ملے گھاٹ کا کنارا ، کدھر سے گُذرا کہاں اُتارا
    بھرا جو مِثلِ نظر طَرارا ،وہ اپنی آنکھوں سے خُود چُھپے تھے"

    . یہاں خرد نے بھی قول ہارا ، حواس بھی کرگئے کنارا
    دماغ و دل نے بہت اُبھارا ، نہ دے سکے یہ ذرا سہارا
    کہاں یہ ہوش و خرد کا یارا ، رسائی تک اپنی چھان مارا
    "کسے ملے گھاٹ کا کنارا ، کدھر سے گُذرا کہاں اُتارا
    بھرا جو مِثلِ نظر طَرارا ،وہ اپنی آنکھوں سے خُود چُھپے تھے"

    "اُٹھے جو قصرِ دنى' کے پردے ، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
    واں تو جاہی نہیں دُوئی کی ، نہ کہہ کے وہ بھی نہ تھے اَرے تھے

    . یہاںنہ کچھ فائدہ نظر دے ، نہ کام اندیشۂ بشر دے
    خدا جو ایمان کا اثر دے ، تو جان و دل کو نثار کردے
    الگ ہی وہم و قیاس دَھر دے ، نہ جاے وحدت دوئی سے بھر دے
    "اُٹھے جو قصرِ دنى' کے پردے ، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
    واں تو جاہی نہیں دُوئی کی ، نہ کہہ کے وہ بھی نہ تھے اَرے تھے

    "وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا ،کہ غُنچۂ و گُل کا فرق اُٹھایا
    گِرہ میں کلیوں کے باغ پُھولے ، گُلوں کے تُکمے لگے ہو ئے تھے

    . وہ رنگ یکتائی نے جمایا ، کہ ماسوا کا نشان اُڑایا
    یگانگی نے اثر دکھایا ، تفاوتِ جز و کُل مٹایا
    بہارِ وحدت نے گُل کھلایا ، کہ فرع کو اصل میں بُلایا
    "وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا ،کہ غُنچۂ و گُل کا فرق اُٹھایا
    گِرہ میں کلیوں کے باغ پُھولے ، گُلوں کے تُکمے لگے ہو ئے تھے

    "محُیط و مرکز میں فرق مشکل ، رہے نہ فاصِل خُطوطِ واصِل
    کمانیں حیرت میں سر جھُکائے ، عجیب چکّر میں دائرے تھے

    جو قربِ قوسین کی تھی منزل ، سمجھ لیں اُس پہ یہ نکتہ عاقل
    کہ قوس دو جب ملے مقابل ، تو بن گیا اِک محیطِ کامل
    ہوئے جو باطل نقاطِ فاضل ، تو بیچ میں کچھ رہا نہ حائل
    "محُیط و مرکز میں فرق مشکل ، رہے نہ فاصِل خُطوطِ واصِل
    کمانیں حیرت میں سر جھُکائے ، عجیب چکّر میں دائرے تھے"

    "حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
    عَجَب گھڑی تھی کہ وصل و فُرقت ، جَنَم کے ِبچھڑے گلے مِلے تھے

    . اُدھر سے ہر دم خطاب ہوتے ، ترقی یہ بار بار کرتے
    ترقیوں میں حجاب کھلتے ، مزے تھے ہر پردے میں نرالے
    وہ دفعتۃً جلوہ کیا دکھاتے ، کہ شوق میں تھے حیا کے نقشے
    "حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردے ، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
    عَجَب گھڑی تھی کہ وصل و فُرقت ، جَنَم کے ِبچھڑے گلے مِلے تھے

    "زبانیں سُوکھی دِکھا کے موجیں ، تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
    بَھنوَر کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا ، کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے

    . چڑھی ہوئی تھیں عطا کی لہریں ، بڑھی ہوئی تھیں کرم کی نہریں
    اشارہ یہ تھا نہائیں دھوئیں ، پئیں پلائیں یہ جتنا چاہیں
    وہاں سے سر تا بہ پا عطائیں ، یہاں ابھی خواہشیں تھیں دل میں
    "زبانیں سُوکھی دِکھا کے موجیں ، تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
    بَھنوَر کو یہ ضُعفِ تِشنگی تھا ، کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے"

    "وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر ، وہی ہے باطِن وہی ہے ظاہِر
    اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے ، اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے

    . وہی ہے سب کا نصیر و ناصر ، وہی ہے سب پر قدیر و قادر
    اُسی سے ہے مبدءِ نوادر ، اُسی پہ ہیں منتہِی اوامر
    وہی ہے ظاہر جہاں مظاہر ، وہی ہے منطورِ سب مَناظِر
    "وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر ، وہی ہے باطِن وہی ہے ظاہِر
    اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے ، اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے"

    . حواس اپنے درست کرلو ، پڑے ہو چکر میں اس سے نکلو
    بنو نہ اَحول سنبھل کے دیکھو ، یہ ہے حقیقت میں ایک یا دو
    مقامِ قوسین کو تو سوچو ، بغور اِس دائرے کو سمجھو
    "کمانِ اِمکاں کے جُھوٹے نُقطو! تُم اوّل آخِر کے پَھیر میں ہو
    مُحیط کی چال سے تو پُوچھو ، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے"

    "اِدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں ، اُدھر سے انعامِ خُسروری میں
    سلام و رحمت کے ہار گُندھ کر ، گُلو*ۓ پُر نور میں پڑے تھے

    . اِدھر سے ہر بار التجائیں ، یہ کد کہ اُمت کو بخشوالیں
    اُدھر سے لطف و کرم کی باتیں ، کہ جتنے چاہو ہم اُتنے بخشیں
    اِدھر سے طاعت کی پیش نذریں ، اُدھر سے بخشش ، کرم ، عطائیں
    "اِدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں ، اُدھر سے انعامِ خُسروری میں
    سلام و رحمت کے ہار گُندھ کر ، گُلو*ۓ پُر نور میں پڑے تھے

    "زبان کو انتظارِ گُفتَن ، تو گوش کو حسرتِ شُنیدَن
    یہاں جوکہنا تھا کہہ لیا تھے ، جو بات سُننی تھی سُن چکے تھے"

    . یہاں ہے مقبول عقلِ پُر فن ، نہ راہِ رفتن نہ روے ماندن
    کہاں ہواے خیالِ روشن ، اُٹھا سکے اُس مکاں کی چلمن
    سُنانے سننے کا جن پہ تھا ظن ، ابھی وہ تھے منتظر ہمہ تن
    "زبان کو انتظارِ گُفتَن ، تو گوش کو حسرتِ شُنیدَن
    یہاں جوکہنا تھا کہہ لیا تھے ، جو بات سُننی تھی سُن چکے تھے"

    "وہ بُرجِ بطحا کا ماہ پارا ، بِہشت کی سیر کو سِدھارا
    چمک پہ تھا خُلد کا سِتارا ، کہ اُس قمَر کے قَدَم گئے تھے

    . وہاں سے پایا جو کچھ اشارا ، اُدھر سے رُخصت ہوا وہ پیارا
    خوشی سے کرتا چلا نظارا ، خدائی کا کارخانہ سارا
    یہ عرض حوروں نے کی خدارا ، دمک دمک کیجے گھر ہمارا
    "وہ بُرجِ بطحا کا ماہ پارا ، بِہشت کی سیر کو سِدھارا
    چمک پہ تھا خُلد کا سِتارا ، کہ اُس قمَر کے قَدَم گئے تھے

    "سُرُورِ مَقدَم کی روشنی تھی ، کہ تابِشوں سے مہِ عَرَب کی
    جِناں کے گُلشن تھے جھاڑ فرشی ، جو پُھول تھے وہ کَنوَل بنے تھے

    . جناں کی تقدیر خوب چمکی ، بڑھی تھی وہ جوششِ تجلی
    کہ مشرقستاں بنی تھی ساری ، چمکتی تھی ایک ایک کیاری
    وہ نور کی چاندنی تھی چھٹکی ، جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی
    "سُرُورِ مَقدَم کی روشنی تھی ، کہ تابِشوں سے مہِ عَرَب کی
    جِناں کے گُلشن تھے جھاڑ فرشی ، جو پُھول تھے وہ کَنوَل بنے تھے

    "طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے ، اَدَب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے
    یہ جوشِ ضِدَّین تھا کہ پودے ، کشاکشِ اَرّہ کے تلے تھے

    . بہار کا حکم تھا دمکیے ، مرادِ شبنم ذرا چمکیے
    نسیم کہتی تھی بس مہکیے، صبا کا ارشاد تھا لہکیے
    یہ شورِ حسرت کہ اب لہکیے ، وہ زورِ حیرت کہ منھ ہی تکیے
    "طَرَب کی نازِش کہ ہاں لچکیے ، اَدَب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے
    یہ جوشِ ضِدَّین تھا کہ پودے ، کشاکشِ اَرّہ کے تلے تھے

    "خُدا کی قُدرت کہ چاند حق کے ، کروروں منزل میں جلوه کرکے
    ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی ، کہ نُور کے تڑکے آلیے تھے

    . مدارجِ قرب سے بھی بڑھ کے ، خدا ہی جانے کہاں وہ پہنچے
    ازل سے اُٹّھے نہ تھے جو پردے ، وہ جلوے حق کے کرم سے دیکھے
    پلک بھی جب تک نہ کوئی مارے ، کہ یہ گئے بھی پلٹ بھی آئے
    "خُدا کی قُدرت کہ چاند حق کے ، کروروں منزل میں جلوه کرکے
    ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی ، کہ نُور کے تڑکے آلیے تھے"

    "نبیِ رحمت شفیعِ اُمّت ، رضاؔ پہ لِلّہ ہو عنایت
    اِسے بھی ان خِلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کہ واں بٹے تھے

    .اثرؔ نے کی جو ثنا و مدحت ، حضور دیکھیں بہ چشمِ رحمت
    صلہ ملے دوجہاں کی دولت ، رہے نہ پھر اس کو کوئی حاجت
    مِلا اُسے جس سے فیضِ خدمت، اُدھر بھی کوئی نگاہِ رافت
    "نبیِ رحمت شفیعِ اُمّت ، رضاؔ پہ لِلّہ ہو عنایت
    اِسے بھی ان خِلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کہ واں بٹے تھے"

    "ثناۓ سرکار ہے وظیفہ ، قبولِ سرکار ہے تمنّا
    نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ، ردی تھی کیا کیسے قافیے تھے"

    . یہاں نہ طاعت نہ زہد و تقویٰ ، یہی وسیلہ ہے مغفرت کا
    کہ ہے ثنا گوئی اپنا شیوہ ، اِسی سبب سے لکھا یہ خمسہ
    مراد ہے نعتِ شاہِ والا، غرض نہیں شاعری سے اصلا
    "ثناۓ سرکار ہے وظیفہ ، قبولِ سرکار ہے تمنّا
    نہ شاعری کی ہوس نہ پروا ، روی تھی کیا کیسے قافیے تھے"
     
    احتشام محمود صدیقی اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
  9. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    WOH RAAT KYA.jpg
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. شہباز حسین رضوی
    آف لائن

    شہباز حسین رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2013
    پیغامات:
    839
    موصول پسندیدگیاں:
    1,321
    ملک کا جھنڈا:
    wahi hai awwal wahi hai akhir.jpg
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں