1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قصہ مختصر والٹن ایئر پورٹ

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    قصہ مختصر والٹن ایئر پورٹ

    والٹن ایئر پورٹ کے قیام کا ڈول 1918ء میں ڈالا گیا تھا۔ تب پنجاب کے وزیربلدیات گوکل چند نارنگ کے توسط سے ہوابازوں کے ایک گروپ نے لاہور میں فضائی پٹی تعمیر کرنے کی درخواست دی تھی۔صرف دوسالوں میں ہی درخواست کا نتیجہ نکلا اور ہوابازوں کے اِس گروپ کو کوٹ لکھپت کے قریب 158 ایکڑزمین الاٹ کردی گئی۔ فضائی پٹی کی تعمیر مکمل ہوئی اور پھر اِس پر پروازوں کا آغاز بھی ہوگیا۔ جلد ہی ڈاک کی ترسیل، پائلٹس کی تربیت اور تفریحی پروازوں کے سلسلے کا بھی آغاز کردیا گیا۔ اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ آگے چل کر یہ چھوٹا سا ایئرپورٹ خطے کی ہوابازی کی تاریخ کا اہم مرکز بنے گا، پھر ایسا ہی ہوا۔ 1932ء میں ناردرن انڈین فلائنگ کلب کوباقاعدہ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا جس کے بعد یہاں ہوابازی کے شعبے میں حیرت انگیز تیزی سے ترقی ہوئی۔ 1935ء میں فضائی پٹی کو والٹن ایئرپورٹ کا نام دے دیا گیا۔ پہلی ہندوستانی خاتون پائلٹ سرلا ٹھاکرال نے بھی اپنی پہلی پرواز اِسی ایئرپورٹ سے بھری تھی۔ کافی عرصہ پہلے ہمیں اِس ایئرپورٹ کے آرکائیو میں موجود کچھ تصاویر دیکھنے کا موقع ملا تو اِ ن میں سرلا کی تصویر بہت نمایاں تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ تصویر اُن کی پہلی پرواز کے فوراً بعد اُتاری گئی تھی۔ کچھ ایسی تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں جن میں پرانے لاہور کی جھلکیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اب تو وہ لاہور خواب وخیال ہی بن کر رہ گیا ہے۔ جس طرف دیکھیں بس بے ہنگم ٹریفک اور کنکریٹ کا جنگل دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو والٹن سے اُڑان بھرنے والی تمام سویلین پروازوں کو معطل کرکے ایئرپورٹ کو صرف عسکری کارروائیوں کیلئے مخصوص کردیا گیا۔
    لاہور کے حسین نقش کا دوسرا باب تقسیم ہند کے بعد شروع ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد جب قائد اعظم پاکستان پہنچے تو اُن کا طیارہ اِسی ایئرپورٹ پر اُترا تھا۔ اِس تاریخی موقع کی تصاویر بھی ایئرپورٹ کے آرکائیو میں محفوظ تھیں جن میں قائد اعظم اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ دکھائی دیے۔ ہندوستان سے لٹے پٹے قافلے لاہور پہنچنا شروع ہوئے تو والٹن ایئرپورٹ نے اُ ن کے لیے بھی اپنے بازو کھول دیے۔عارضی پناہ گزین کیمپ ختم ہوا تو ایئرپورٹ پھر سے آپریشنل ہوگیا جس میں بنیادی کردار اورینٹ ایئرویز کا رہا۔ اِس ایئرلائن کا قیام تقسیم ہند سے تقریباً ایک سال قبل کلکتہ میں عمل میں آچکا تھا۔ پاکستان قائم ہوا تو اورینٹ ایئرویز نے اپنا آپریشن لاہور منتقل کرلیا۔ 1949ء میں یہاں سے پہلی پاکستانی حج پرواز سعودی عرب گئی۔ غالباً 1955میں ایک سرکاری حکمنامے کے تحت اورینٹ ایئرویز کو قومی ایئرلائن میں ضم کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں قومی ایئرلائن وجود میں آگئی۔ قومی ایئرلائن میں بڑے طیارے شامل ہوئے تو والٹن ایئرپورٹ چھوٹا پڑنے لگا،اِسی باعث 1962ء میں کینٹ میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد تمام فلائٹ آپریشن وہاں منتقل کردیا گیا اور والٹن ایئرپورٹ جنرل ایوی ایشن کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ اِس ایئرپورٹ کو بھارت کے ساتھ ہونے والی دونوں بڑی جنگوں کے دوران اہم کردار ادا کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ افواجِ پاکستان نے اِس ہوائی اڈے کو متعدد آپریشنز کے لیے استعمال کیا۔ گاہے گاہے اِس ایئرپورٹ کو فصلوں پر سپرے کرنے یا پھر دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا جس کے بعد یہ زیادہ تر تربیتی مقاصد کے لیے ہی مخصوص ہوکر رہ گیا۔ یہاں قائم فلائنگ کلبوں سے ہزاروں پائلٹس تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ نئے منصوبے کے آغاز سے پہلے تک یہ سلسلہ جاری تھا‘ جو یقینا اب تھم جائے گا۔یہ تھی لاہور کے والٹن ایئرپورٹ کی مختصر سی کہانی جو اس سفر کے دوران سکڑتا سکڑتا اپنا بہت سا رقبہ کھو چکا ہے۔ خدشہ تھا کہ رہا سہا ایئرپورٹ بہت جلد اپنے اردگرد موجود رہائشی منصوبوں کی زد میں آجائے گا لیکن اِس کے بجائے یہ اب کاروباری شہر بنے گا۔ گویا کان اِدھر سے نہیں تو اُدھر سے پکڑ لیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ شہر کے بیچوں بیچ واقع اتنا قیمتی قطعہ اراضی زیادہ دیر تک کیونکر حریص نگاہوں سے اوجھل رہ سکتا تھا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں