1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قربانی ۔۔۔۔۔۔ مولانا امیر محمد اکرم اعوان

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    قربانی ۔۔۔۔۔۔ مولانا امیر محمد اکرم اعوان

    وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا۔جان کو، مال کو،قوت کو،زبان کو، علم کو، جو کچھ اللہ نے دیا ہے وہ اللہ کے دین کو بچانے کیلئے اللہ کے دین کو زندہ رکھنے کیلئے،اللہ کے دین کی خدمت کیلئے نچھاور کردو۔ جب روبرو ہو گئے تو تمہارا تعلق دوستی کی حد میں داخل ہو گیا۔ ولی اللہ !ولی کا مطلب ہی دوست ہوتا ہے،ولایت دوستی ہے۔ جب اللہ سے تمہارا تعلق دوستی کا ہو گیا تو پھر دوستی میں کچھ بچا کے رکھنا دوستی نہیں ہوتی۔
    آپ ﷺ فرماتے ہیں’’ یقیناً میں تقسیم کررہا ہوں،لٹا رہا ہوں،اللہ دے رہا ہے اور میں بانٹ رہا ہوں۔‘‘لینا تو وہیں سے ہے لیکن جب بات دوستی میں داخل ہو گئی تو دوستی کے اصول مختلف ہوتے ہیں دوستی لینے سے نہیں دینے سے بنتی ہے۔ یہ سوچ کہ اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، دوستی نہیں ہے۔ اس پر میں کیا قربان کرتا ہوں ، دوستی یہ ہے۔بعض لوگوں نے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کی نیلامی سے قبل بازاروں میں اعلان کیا گیا تو بڑھیا سوت کات کر بیچا کرتی تھی، وہ بھی چل پڑی۔ کسی نے راستے میں پوچھا،کہاں جاتی ہو؟ اس نے کہا: سنا ہے ایک بہت خوبصورت غلام آیاہے، لوگ خریدنے کیلئے بولیاں لگائیں گے تو میں بھی بولی لگائوں گی۔ اس نے پوچھا ،تیرے پاس کیا ہے؟ یہ سوت کی اٹی ہے۔ اس اٹی سے بولی لگائوگی؟ میرے پاس سرمایہ تو کچھ نہیں لیکن جو کچھ ہے وہ یوسف پہ لٹانا چاہتی ہوں۔یوسف کے خریداروں میں شمار ہوجائوں گی،طلب گاروں میں شامل ہوجائوں گی۔

    اللہ سے ہر چیز مانگو، اس نے دینی ہے لیکن تم اس کے لیے کیا دے رہے ہو؟ صرف لینا ہی دوستی نہیں ہوتی،دوستی کی بنیاد تو دینے پہ ہوتی ہے۔ تم کیا قربانی دے سکتے ہو اگر تمہیں اللہ سے ولایت نصیب ہے و قاتلوا فی سبیل اللہ تو پھر اٹھو، لڑو اور اس کی راہ میں جانیں دو، مال دو ، بیٹے شہید کرائو،بیٹوں کی لاشیں اٹھائو،پتہ چلے کہ تمہاری دوستی ہے اور تم دوستی نچھاور کر رہے ہو۔حضرت خنساء ؓ ایک صحابیہ تھیں اور شاعرہ بھی تھیں۔ انھوں نے قبول اسلام سے پہلے اپنے بھائی کی موت پر مرثیہ کہا تھا۔ یذکر طلوع شمسی صخرا۔ صخر ان کے بھائی کا نام تھا۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو ساری دنیا کو مختلف امور میں لگا دیتا ہے، کوئی کاروبار پہ نکلتا ہے، کوئی کاشت کاری پہ ، کوئی لین دین پہ، کوئی دکان پہ، کوئی ملازمت پہ لیکن مجھے ہر طلوع ہونے والا سورج بھائی کی یاد دلا دیتا ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو بھائی کو یاد کرتی ہوں۔واذکرہ بکل غروب شمسہ اور ہرسورج کے ڈوبنے تک میں بھائی کی یاد میں گم رہتی ہوں۔قادسیہ کی جنگ میں شریک تھیں اور 4نوجوان بیٹے ہمراہ تھے۔یکے بعد دیگرے چاروں شہید ہوگئے تو انہیں خیمے میں اطلاع ملی۔ 4 جوان بیٹوں کی نعشیں خیمے میں لائی گئیں۔وہ خیمے سے نکل کر کھڑی ہوگئیں اور کہنے لگیں: تو کتنا بے نیاز،تو نے میرے 4 بیٹے قبول کر لیے،تو کتنا کریم ہے، میں تو کچھ بھی نہ تھی، میں تیرا کیسے شکر ادا کروں ۔ تیرے سامنے قیامت کو میں 4 شہیدوں کی ماں بن کر کھڑی ہو ں گی،تونے مجھ پر کتنا احسان کیا۔

    دوستی کا دعویٰ ہے تو میدان میں نکلو۔تمہارے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں، نہ وجودتمہارا،نہ مال تمہارا،نہ جان تمہاری لیکن چھپا چھپا کے پھرتے ہو؛ اللہ سے دوستی کا دم بھرتے ہوتو پھر دوستی کیلئے کیا نچھاور کرتے ہو؟ـمیدان میں آئو اور یہ قتال محض قتال نہیں کہ لوگوںکومارنا ہے،نہیں الذین یقاتلونکم ان لوگوں سے مقابلہ کروجواللہ کو ماننے والوں کو قتل کرتے ہیں،جب کفار تم سے جنگ کرتے ہیں تو تم بھی جواباً ان سے جنگ کرو۔اللہ کی راہ میں جان مال اور اپنی تمام قوت لگا دو۔ ولا تعتدوا سبحان اللہ!اسلام کیا خوب صورت مذہب ہے جو تمہارے ساتھ زیادتی کرتا ہے، مقابلہ کرو لیکن تم زیادتی نہ کرو۔جو مسلمانوں کو قتل کرتا ہے،مقابلے میں نکلو،جہاد کرو ،قتل ہو جائو لیکن زیادتی نہ کرو۔

    مشرکین مکہ جنگوں میں ایسا کرتے تھے کہ کسی کے خلاف بہت غصہ ہوتا اور وہ کہیں ان کے ہاتھوں مارا جاتا تو اس کا مثلہ بناتے۔ مثلہ یہ ہوتا تھا کہ ناک،زبان،کان اعضاء کاٹ کر ایک ہار بناتے اور اسے میت کے گلے میں ڈال دیتے ۔یہ ان کا بڑا انتقام تھا۔غزوہ بدر میں حضرت حمزہ ؓ نے دادِ شجاعت دی تھی اور نامور قریش قتل کیے تھے۔ غزوہ احد میں خود شہید ہوگئے تو مشرکین مکہ کی خواتین نے انکا مثلہ کیا ۔ جب مشرکین کو شکست ہوئی اور حضور نبی کریم ﷺ تشریف لے گئے تو محبوب چچا کا یہ حال دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’اللہ کی قسم میں80 کافروں کا یہ حال کروں گا۔میں کافروں کے80 سرداروں کا مثلہ کرائوں گا ۔‘‘ اس پرفوراً وحی آگئی ۔پھر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’میںایک کا بھی نہیں کروںگا۔‘‘پھرآپ ﷺ نے قسم کاکفارہ دیا۔

    ہمیں تو پائی پائی سے پیارہے،اس کیلئے دھوکے دیتے ہیں،دوسروں سے جھوٹ بولتے ہیں،خیانت کرتے ہیں،کہتے ہیںاللہ نظرنہیں آتا،اللہ سے بات نہیں ہوتی ،نماز میں لطف نہیں آتا۔کہاں سے آئے گا!لوٹو نہیں،لٹا کے دیکھو۔لینے پہ ہی نہ رہو،کچھ دے کر بھی دیکھو،کچھ لٹا کر بھی دیکھو۔ ہاں، اللہ کی راہ میں لڑ و لیکن ان سے جو تم سے لڑتے ہیں۔خواہ مخواہ لوگوں کے پیچھے تلوار سونت کرنہیں پھرنا اور لڑائی میں بھی دھیان رہے زیادتی نہ ہونے پائے۔جیسے وہ لڑ رہے ہیں اسی طرح تم بھی لڑو لیکن ظلم اور زیادتی گوارا نہیں ہوگی۔

    اہل مغرب کا قانون ہے محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اسلام اس طرح کا مذہب نہیں ہے کہ کہیں بندے کی باگ ڈھیلی چھوڑ دے ۔ سب جائز کہیں لیکن سب جائز نہیں ہے، محبت میں نہ جنگ میں، ہر طرف حدود ہیں ۔محبت میں بھی جنگ میں بھی۔آپ حدود سے باہر نہیں جاسکتے۔ آپ کے ساتھ تو اللہ موجود ہے۔ آپ کے دل میں تو محمد رسول اللہ ﷺ بستے ہیں، آپ زیادتی کیسے کر سکتے ہیں! زیادتی کافر سے بھی نہ کرو جو تمہارے مقابلے میں میدان جنگ میں لڑ رہا ہے۔ کیوں نہ کرو؟ان اللہ لا یحب المعتدین۔ کہ اللہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔ تمہیں اللہ کی محبت چاہیے،تم اس کی محبت کے طالب ہو۔ تم زیادتی نہیں کرسکتے۔ اسلام پہ الزام آتا ہے کہ یہ تلوار سے پھیلایا گیا ہے۔ یہ کیسے تلوار سے پھیلایا گیا ہے جو جنگ میں بھی ایک حد کا لحاظ رکھتا ہے اور زیادتی نہیں کرتا۔جہاد تو ایک ضابطے کا پابند ہے، کسی پر ظلم اور زیادتی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں