1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قرآن 2000

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از ثناءاللہ, ‏4 جون 2006۔

  1. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محترم دوستو

    آج صبح سے میں بیٹھا http://www.quraan.it.tt کی سائیڈ پر یہ مقالہ پڑھتا رہا۔ سو میں‌نے سوچا کہ اس میں ہماری اردو پیاری اردو کے صارفین کو بھی استفادہ کرنا چاہیے سو آپ کے لیے حاضر خدمت ہے۔
     
  2. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ترتیب

    ترتیب
    1۔ ۔دیباچے
    الف۔ عرضِ مدیر
    ب۔ ابتدائیہ۔۔ ذمہ داروں کی زبانی
    2۔ ۔ حرف آغاز
    3۔ ۔ معیشت کے نام پر بیوقوف بنانے والے
    4۔ ۔ سود کی ماں کون ہے؟
    5۔ ۔ وجوہاتِ جرم، انسانی عقل کی نارسائی
    6۔ ۔ برتری کا معیار
    7۔ ۔ حب الوطنی کا زہر
    8۔ ۔ قانون کی اساس
    9۔ ۔ محرکات جرائم کا حتمی تعین
    10۔ ۔ قانون کے خط وخال
    11۔ ۔ پہلا عامل، برتری یا افضلیت کی طلب
    12۔ ۔ دوسرا عامل، جنسی ضرورت کا غیر فطری تصور
    13۔ ۔ ایڈز، میڈیکل سائنس کی لغزش
    14۔ ۔ وومن لبریشن کی آڑ میں ٹھوکریں
    15۔ ۔ ضابطہ قانون اور طریقہ نفاذ
    16۔ ۔ منظر نامہ
    17۔ ۔ قرآنی آئین “ام الکتاب” اور ٹیکس فری سٹیٹ
    18۔ ۔ عسکری نظم اور عالمی آزادی کیلئے قوت نافذہ
    19۔ ۔ خلافت اور اقتدار اعلٰی کا تعین
    20 ۔ آخری گزارش
    ٭
     
  3. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عرض مدیر

    الف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض مدیر

    شاید یہ جانثار اختر کا شعر ہے۔

    ہم نے انسان کے دکھ درد کا حل ڈھونڈ لیا
    کیا برا ہے گر یہ افواہ اڑا دی جائے

    کچھ اسی قسم کی کیفیت ہم سب احبابِ مجلس ادارت کی بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دکھ درد کا جو انوکھا حل ہمیں کسی گمنام صاحب یا صاحبان فکرودانش سے ملا ہے اسے افواہ قرار دینے کو تیار نہیں ہیں بلکہ فی الواقعہ اسے تمام انسانی درد کا درماں سمجھے ہوئے ہیں کیونکہ یہ حل اس اعتبار سے ناقابل موازنہ ہے کہ یہ نہ تو حکام کی نیک نیتی سے مشروط ہے اور نہ ہی اپنے خلا اور سقم کو وعظ ونصیحت سے بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ حل صرف آئینی اور قانونی نظام پر مبنی ہے۔

    یہ ایک ایسا انوکھا اور فراخ دل قانون ہے جو نہ تو معاشرے میں موجود کسی دوسرے قانون کو منسوخ کرتا ہے اور نہ ہی سوشلزم کی طرح معاشرے کے کسی بھی فرد کو محض اپنے تحت چلنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ وہ اس قانون کو اختیار کرے یا اس کی بجائے پہلے سے مروجہ سسٹم ہی اپنائے رکھے، لیکن اس کے باوجود یہ قانون معاشرے کو مسائل سے یکلخت پاک کر دینے کا ضامن ہے۔ گویا یہ قانون کسی بھی ملک کے آئین کی کتاب میں اسی طرح ہے جیسے کسی ریسٹوران کے منیو میں ایک ایکسٹرا ڈِش.... اور یہ ڈش ہر اُس معاشرے کو تمام مسائل سے آناً فاناً نجات کی گارنٹی دیتی ہے جو اِس کو اپنے شہریوں کیلئے دستیاب کر دے۔ زیر نظر تحریر میں اسی ڈش، اسی قانونی نظام کی تشکیل کے مدارج زیر نظرلائے گئے ہیں۔

    ہرچند اس مقالے کا بنیادی خیال پیش کرنے والوں نے آسمانی کتب بالخصوص قرآن سے ہی اکتساب کیا ہے تاہم اس تحریر کے ابتدائی سولہ ابواب میں جہاں اس نظام کی تشکیل اور ثمرات کا ذکر ہے، آپ کو مذاہب کے حوالے بہت کم ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پیغام کو کسی ایک معاشرے یا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں تک محدود کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ مدنظر پہلو یہ ہے کہ وہ لوگ جو مذہب کی بجائے صرف عقل و منطق کی بنیاد پر اس آفاقی نظام کو سمجھنا چاہیں ان کیلئے بھی اتمام حجت ہو سکے لٰہذا آخری دو چار ابواب کے سوا یہ تجزیہ اکثر وبیشتر کائناتی مشاہدات، انسانی تاریخ اور منطقی نتائج پر ہی استوار کیا گیا ہے، البتہ آخری ابواب میں اس تجزیئے کے قرآنی حوالے پیش کر دیے گئے ہیں۔

    بطور مدیر میری کوشش یہ رہی ہے کہ طرز تحریر کو سادہ اورسلیس رکھوں اسی لیے میں نے علمی تحقیقی موضوعات زیر بحث لاتے ہوئے بھی عام فہم اسلوب اور دور حاضر کی اصطلاحات کو مقدم رکھنا چاہا ہے اور بعض اہم تر نکات کی تکرار بھی کی ہے چنانچہ اس میں خلا اور سقم کا رہ جانا بعید از امکان نہیں۔ اگر آپ کی نگہ بصیرت کے دائرے میں ایسا کوئی معاملہ آئے اور آپ اس پر خاموش رہیں تو آپ مجھ سے بڑے مجرم ہوں گے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اس کام کیلئے مجھ سے زیادہ اہل تھے اور آپ پر انسانیت کا جو قرض عائد ہوتا ہے اس کا بوجھ مجھ سے بھی بھاری تھا جو آپ نے ادا نہیں کیا۔

    دوسری گزارش یہ ہے کہ چونکہ آئندہ صفحات میں کچھ ایسا آپ کی نظر سے گزرے گا جو اردو تو درکنار کسی بھی زبان میں پہلے ذکر نہیں کیا گیا چنانچہ عین ممکن ہے کہ کسی مقام پر کہی جانے والی بات قدرے گنجلک محسوس ہو اور ذہن میں بہت سے سوالات پیدا ہوں۔ ایسی صورت میں بلا توقف اسے پڑھتے چلے جائیے، اگلی چند سطور کے اندر اور آخری ابواب میں انشاءاللہ بات واضح ہو جائے گی اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب مل جائے گا۔

    اس تحریر پر علیحدہ سے دیباچہ لکھنے کی ضرورت تو نہ تھی، اس لیے کہ یہ کوئی فکشن کی کتاب نہیں بلکہ اس کی ہر سطر میں قاری اسی طرح براہ راست مخاطب ہے جس طرح دیباچے میں ہوتا ہے.... لیکن چند گزارشات ضروری تھیں۔

    دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو بھیڑ بکریوں کی مانند ہیں اور انہیں اس فکر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ انہیں جس راستے پر ہانکا جا رہا ہے وہ منزل کی طرف جاتا بھی ہے یا نہیں؟.... اور دوسرے وہ جن کی سوچ گلہ بان جیسی ہوتی ہے۔ یہی لوگ انسانیت کی قیادت جنم دیتے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ مخلص ہیں اور سچے دل سے بے لوث ہو کر انسانیت کی زبوں حالی اور دکھ درد پر درماں کے آرزومند ہوتے ہیں، اس تحریر کے مخاطب وہی ہیں، چنانچہ اے عزیز قاری! اگر آپ ایسے نہیں ہیں اور آپ کو اپنے پیٹ کے علاوہ Rest Of The World سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو یہ تحریر آپ کیلئے بیکار ہے، اسے یہیں چھوڑ دیجیے۔

    یہ تحریر کسی ایک ملک یا معاشرے کے تناظر میں نہیں بلکہ پوری انسانیت کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے لٰہذا استدعا ہے کہ کسی ملک کے آئین کو اس پر مشتعل نہ ہونے دیا جائے۔

    اس تحریر کو حتی المقدور مختصر رکھا گیا ہے کیونکہ ہماری خواہش یہ ہے کہ قارئین اسے ایک ہی نشست میں پڑھیں تاہم اگر آپ کیلئے ایسا ممکن نہ ہو تو براہ کرم اسے کم از کم دو بار پڑھیے کیونکہ اس میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے وہ اس سے پہلے کسی بھی زبان یا کسی بھی علم کے حوالے سے آپ کے زیرنظر نہیں آیا چنانچہ یہ کہنا شاید درست نہیں ہو گا کہ اسے قسطوں ٹکڑوں میں بس ایک ہی دفعہ پڑھ لینے سے اس کے بین السطور کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔

    اس پیغام کو دنیا کے ہر باشعور فرد تک پہنچانا ہمارے حلقہ اہل فکر کا مقصود نظر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام فرد واحد کی استطاعت میں نہیں ہے، اور میری استطاعت میں صرف یہ ہے کہ اس کار عظمت کیلئے آپ سے استدعا اور اس کیلئے اپنی ممنونیت کا پیشگی اظہار کروں چنانچہ سند کی خاطر عرض ہے کہ اس تحریر کو یا اس کے کسی حصے کو شائع کرنے، بیان کرنے یا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرنے کیلئے کسی سے اجازت لینا یا محض اطلاع دینا بھی قطعاً ضروری نہیں، اور یہ کہ جو کوئی اس کا ابلاغ کرے گا اس کیلئے ہم سب احباب ہمہ تن سپاس ہیں بشرطیکہ وہ بھی اس تحریر کے حقوق غیر محفوظ رکھے۔ اس حوالے سے آپ سے التجا یہ ہے کہ اس فائل کو ای میل کے ذریعے بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایئے، کیا عجب آپ کا یہی عمل پورے کرہ ارض کو جنت بنانے کا ذریعہ بن جائے۔ یونی کوڈ فارمیٹ کے علاوہ ان پیج اردو سافٹ ویئر اور اس کی یہ فائل آپ انٹرنیٹ سے بھی ڈاﺅن لوڈ کر سکتے ہیں۔ویب سائٹ کا ایڈریس یہ ہے۔ http://www.quraan.it.tt

    یہیں پر آپ اپنی ابلاغی کوششوں کو دوسروں کیلئے مشعل راہ بنانے کیلئے ان کی تفصیل اور اپنا ایڈریس، اپنی ویب سائٹ کا حوالہ بھی رکھ سکتے ہیں، اس تحریر میں اغلاط کی نشاندہی اور اصلاح کیلئے ای میل بھیج سکتے ہیں۔

    مدیر مسئول
    urduacademy@gmail.com
    مجلس ادارت.... آن لائن اکیڈمی برائے اردوعملی صحافت
    Online Academy of Applied journalism (Urdu)
    انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم اینڈ کمیونی کیشن آرٹس کا ذیلی ادارہ
     
  4. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ابتدائیہ (ذمہ داروں کی زبانی)

    1۔ ب ۔۔۔ابتدائیہ (ذمہ داروں کی زبانی)

    اس جستجو کی ابتدا تب ہوئی جب سلمان رشدی اور دیگر ملعون معترضین کے آج کے جدید دور کے حوالے سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات سامنے آئے اور پھر ان کا خاطر خواہ جواب یعنی عقائد و اخلاقیات سے بلند تر ایک قانونی اور منطقی ایسا مدلل جواب اردو کے تمام تر تاریخی اسلامی علمی تحقیق و تدبر کے انبار میں موجود نہ پایا جو خود معترض اور دیگر غیر مسلم دنیا کو بے اختیار دین کی عظمت کا قائل کر دے، تب ایسا خاطر خواہ جواب ہم چند احباب نے خود ڈھونڈنا چاہا اور پھر بہت سی لرزہ خیز حقیقتوں کی نقاب کشائی ہوئی جن میں پہلی حقیقت یہ تھی کہ دین کے متعدد پہلوﺅں سے غیر مسلم تو درکنار، خود ہم بھی لاعلم رکھے گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات پر مبنی لٹریچر پر پوری اسلامی دنیا میں پابندی بھی عائد ہے۔ اس پابندی کی وجہ مذہبی قیادت کی طرف سے بالعموم یہی پیش کی جاتی رہی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو عام آدمی کے گمراہ ہو جانے کا احتمال ہے۔۔۔ یہ دلیل نہ صرف قرآنی ہدایت یعنی “دعوت علٰی وجہ البصیرت” کے خلاف ہے بلکہ پہلی ہی نظر میں بودی دکھائی دے جاتی ہے کیونکہ اگر محض گمراہی کا اندیشہ ہی مدنظر تھا تو اس مواد کو عقلی جوابات اور منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے میں کونسا امر مانع تھا؟ درحقیقت ہمارے پاس ان اعتراضات کی کماحقہ تردید کیلئے ایسے مشاہداتی سائنسی اور تجزیاتی دلائل موجود ہی نہیں تھے جو دعوت علٰی وجہ البصیرت کی کسوٹی پر پورے اتر سکیں اور اخلاقیات کے سہارے کے بغیر اسلام کو دور جدید کے تناظرمیں دنیا کا بہترین آئینی، اقتصادی اور عائلی نظام ثابت کر سکیں۔ بے بضاعتی اور بے بسی کا یہی احساس اس جستجو کے محرکات میں شامل ہے جس کا ثمر یہ ملا کہ نہ صرف بنی نوع انسان کے جملہ مسائل کا فوری اور یقینی حل بھی سامنے آ گیا بلکہ بڑے بڑے علوم مثلاً اقتصاد و معاشیات، نفسیات، طب (یعنی میڈیکل سائنس) سوشیالوجی اور انتھراپالوجی وغیرہ کے بنیادی خطوط کی اصلاح بھی ہو گئی اور یوں ان قبیح اعتراضات کے مؤثر جوابات بھی ضمنی طور پر خود بخود سامنے آ گئے۔ ذیل میں انہی اعتراضات میں سے چند ایک “نقل کفر کفر نباشد” کے مصداق نقل کیے جا رہے ہیں۔ ان کا تفصیلی جواب آئندہ ابواب میں انشااللہ آپ پر واضح ہو جائے گا۔
     
  5. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔اقتصادیات

    ۔۔۔اقتصادیات

    اسلام کوئی نظام معیشت نہیں دیتا؟

    وضاحت: ۔ معترضین کی نظر میں اسلام سماجی خوشحالی اور طبقاتی مساوات کیلئے کوئی منفرد قانونی نظام پیش کرنے کی بجائے صرف اخلاقیات یعنی خیرات و سخاوت کا سہارا لیتا ہے یا چند پابندیاں عائد کرتا ہے مثلاً سود پر پابندی اور ٹیکسوں کی شرح پر پابندی یعنی زکوٰة کی متعین مقدار، جسے دفاعی اور فلاحی ضروریات کیلئے اقتصادی ماہرین ناکافی سمجھتے ہیں۔ اگر دیگر حکومتی ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس، کسٹم، ایکسائز، آزادانہ درآمد و برآمد پر قدغن، کرنسی کی ڈی ویلیویشن اور دیگر بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کو جائز سمجھ لیا جائے تو یہ اعتراض اور بھی حقیقت کے قریب محسوس ہونے لگتا ہے کہ اسلام میں معاشی نظام کی حد تک کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلامی آئینی نظام اپنی قانونی ترتیب میں ہی مکمل اور بے عیب ہے اور کسی بھی معاشرے کی اقتصادیات کو خارجی سہاروں کے بغیر فوری اور بھرپور توانائی بخش سکتا ہے تو وہ نظام کیا ہے؟ اس کے جواب میں ہماری مذہبی قیادت قانونی نظام میں موجود خلا کو اخلاقیات یعنی سادگی، سخاوت، خیرات،ایثار و قربانی اور بھائی چارہ وغیرہ، ازقسم اخلاقی اقدار سے بھرنے کی کوشش کرتی ہے حالانکہ اگر سوچا جائے تو کونسا معاشرہ ایسا ہے جو ان اقدار کی اجازت نہ دیتا ہو۔ اصل اعتراض یہ ہے کہ اسلام میں اخلاقیات سے قطع نظر وہ “قانونی” خوبی کیا ہے جو کسی دوسرے نظام میں نہیں اور اس دین کی قبولیت کیلئے جواز بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر سود پر پابندی ہے تو پھر نقص سے مبرا اور بہتراور اخلاقیات و سخاوت کے سہارے سے ماورا، وہ متبادل کونسا ہے جو “اور کہیں” نہیں ہے اور جس کے بعد معاشرے میں سود کی ضرورت ہی ختم ہو جاتی ہے؟ .... جن مفکرین کو اسلامی تحقیق کی تاریخ میں اس خلا کا تلخ احساس ہوا انہیں بھی سوائے جبر کے، اور کوئی راستہ دکھائی نہ دیا اور یوں ان میں سے کچھ تو اشتراکیت اور کمیونزم کو ہی ہیئت ترکیبی کے اعتبار سے عین مطابق اسلام سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ نظامِ اشتراکیت جبر و اکراہ پر مبنی ہونے کے باعث “یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا” کامنظر تشکیل نہیں دے سکتا یعنی ایک دوسری قرآنی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا اور یوں یہ مطابق اسلام کہلا ہی نہیں سکتا۔ درست انداز فکر کا تقاضا یہ ہونا چاہیے تھا کہ مروجہ آئینی نظاموں سے اوپر اٹھ کر نگاہ بصیرت دوڑائی جاتی یعنی یہ جستجو کی جاتی کہ وہ کونسا ایسا قرآنی اصول ہے جسے ہم اوجھل کیے بیٹھے ہیں اور جس کی آئینی موجودگی میں ہر مفاد پرستانہ قانون موجود ہونے کے باوجود غیر مؤثر اور بے حیثیت ہو جاتا ہے اور یوں بنیادی حقوق کے سلب کیے جانے کا اور جبر و اکراہ کا کوئی احتمال بھی نہیں رہتا۔
     
  6. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔تعزیرات

    ۔۔۔تعزیرات

    اسلام میں سزائیں ظالمانہ ہیں۔؟

    وضاحت: ۔ اسلام میں قید یا جرمانہ کی بجائے جسمانی سزائیں رکھی گئی ہیں جو نفسیات دانوں کے نزدیک ظلم کے درجے میں آتی ہیں۔ ان کا اعتراض بنیادی طور پر یہ ہے کہ آخر قید اور جرمانہ کی سزاؤں میں کیا خرابی ہے کہ ان کی بجائے جسمانی تعزیرکا تعین کیا گیا ہے؟
     
  7. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔ انسانی حقوق

    ۔۔۔ انسانی حقوق

    کیا اسلام میں انسان کی غلامی Slaveryجائز ہے؟

    وضاحت: ۔ اگر قرآن نے انسان کی غلامی کو جائز قرار دیا تھا تو اب کیوں اسے ناجائز مان لیا گیا ہے ؟ اگر قرآن نے غلامی کو حرام قرار دیا تھا تو ہزار سالہ اسلامی تاریخ میں جو کچھ اس ضمن میں مذکور ہے وہ کیا ہے؟ اگر یہ دلیل درست مان لی جائے کہ معاشرتی ارتقاء نزول قرآن کے ہزار سال بعد اس مقام تک پہنچ چکا تھا کہ تصور غلامی کے حوالے سے قرآنی حرام و حلال میں ترمیم ناگزیر ہو چکی تھی جو مذہبی رہنماؤں نے کر ڈالی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام قرآنی ہدایات کی اطاعت کا نہیں بلکہ تھیوکریسی یعنی مذہبی رہنماؤں کی حاکمیت کا نام ہے۔ مزید یہ بھی کہ کیا اسی معاشرتی ارتقاء کے جواز پر سود، شراب اور دیگر ممنوعات کے ضمن میں بھی مذہبی پیشوائیت ایسی ہی ترمیم کر سکتی ہے؟
     
  8. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔فطری یا غیر فطری ضابطہ حیات

    ۔۔۔فطری یا غیر فطری ضابطہ حیات

    کیا اسلام بڑھتی ہوئی آبادی کے حق میں ہے؟

    وضاحت: ۔فلسفہ تعدد ازواج اور ایک روایت جس میں امت کی زیادتی کو باعث فخر بتایا گیا ہے، کو بنیاد بنا کر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ اس میں زیادہ اولاد کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اگر امت کی زیادتی بہتر ہے تو اسے عقلی طور پر کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟
     
  9. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔سیکولر ازم

    ۔۔۔سیکولر ازم

    کیا اسلام زبردستی اور تلوار کے زور پر نہیں پھیلایا گیا؟

    وضاحت: ۔ سیکولر ازم کے تصور کے مطابق اگر ہر فرد کے لیے اپنے پسندیدہ مذہب کو اختیار کرنے کی آزادی کے ساتھ ایک مکمل معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے تو اسلام کیلئے تلوار کیوں اٹھائی گئی؟ اسلامی فوج محض سیکولرازم کا مطالبہ کیوں نہیں کرتی تھی؟؟ اسی بات کو دیگر اعتراضات میں بھی اس طرح کہا جاتا ہے کہ اسلام میں طریق پرستش کے سوا اور حلال و حرام، محرم نا محرم کی قیود کے سوا، دوسرے مذاہب سے مختلف کیا ہے جس کو نافذ کرنے کیلئے تلوار اٹھائی گئی؟
     
  10. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ۔۔۔ عبادات

    ۔۔۔ عبادات

    یہ اعتراض اور اس سے ملتے جلتے اعتراضات عموماً کمیونسٹ معاشرے کی طرف سے کیے جاتے ہیں اور کسی بھی ایسے مذہب پر ہو سکتے ہیں جس میں پرستش یا پوجا کا تصور موجود ہے، جبکہ اس کی حقیقی تردید و تکذیب صرف دین اسلام کے پاس ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ دین کا یہ انتہائے کمال ہماری نگاہ تحقیق و تدبر سے سو ڈیڑھ سو سال قبل اوجھل کر دیا گیا۔

    کیا خدا (نعوذ باللہ) خوشامد سے اور انسان کے اس کے نام پر اذیت برداشت کرنے سے خوش ہوتا ہے؟

    وضاحت: ۔نماز بظاہر دو نوع کے کلمات کا امتزاج ہے، حمدوثنا یعنی خدا کی تعریف و توصیف اور دعا۔ اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اگر صمد اور بے نیاز ہے تو کیوں انسان کے لبوں سے روزانہ پانچ دفعہ (نعوذ باللہ) اپنی تعریف سننا چاہتا ہے اور اس کے بغیر اس کی دعا قبول نہیں کرتا؟ کیا ہر سال ایک ماہ تک انسان کو اپنے نام پر دن بھر بھوکا پیاسا رکھے بغیر (نعوذ باللہ) خوش نہیں ہوتا؟.... اس کے بعد وہ منہ پھٹ معترض ایسے ایسے نفسیاتی عوارض خدا کے تصور کے ساتھ منسلک کرنے لگتے ہیں جن کو ان کے الفاظ میں بیان کرنے کی ہم جسارت ہی نہیں کر سکتے۔ اس تمام تر مو شگافی کا باعث یہ تصور ہے کہ ہم نے عبادات کو مدح (ثنا) اور طلب (دعا) تک محدود سمجھ لیا ہے۔ یقیناً ان عبادات کا مقصد اتنا محدود نہیں ہو سکتا بلکہ کہیں اعلٰی و ارفع ہونا چاہیے، اور یہی ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔

    یہ جستجو کی ابتدا تھی اور پھر اسی کے نتیجے میں وہ انوکھا اجتماعی نظام ملا جس میں بنی نوع انسان کے تمام مسائل یعنی معاشی، سماجی، طبی، عائلی اور دیگر تمام محرومیوں اور الجھنوں کا خواہ وہ اجتماعی سطح پر ہوں یا انفرادی سطح پر، ہر مسئلے کا ایسا فوری اور حتمی حل موجود ہے جو معمولی عقل کے انسان کو بھی باآسانی سمجھ میں آ سکتا ہے۔

    یہ نظام قرآن سے اخذ کیا گیا ہے مگر یہاں یہ دکھ بھرا اعتراف ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہم تقریباً دو صدیوں سے قرآن کی اردو ترجمانی متعدد مقامات پر غلط کرتے چلے آ رہے ہیں اور چونکہ ذہنوں میں شخصیت پرستی اس حد تک پختہ کر دی گئی ہے کہ ہم اکابرین سے ہونے والی خطا کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں لٰہذا لغزش پر لغزش ہو رہی ہے اور یہی سارے فساد کی جڑ ہے۔

    ہر سمجھدار شخص بخوبی جانتا ہے کہ کسی بھی معاشرتی نظام میں موجود خلا کو محض اخلاقیات اور پند و نصائح سے بھرا نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پند و نصائح کی بھرمار کے باوجود معاشرے سے سدھار ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے معاشرتی نظام کے مینوفیکچررز ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ جہاں بھی قانونی طور پر بے بس ہوتے ہیں، ان کے پاس سزائیں شدید کرنے اور اخلاقی اقدار کا درس دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا حالانکہ آج بنی نوع انسان کی اصل ضرورت اخلاقیات کی تدریس سے زیادہ بے عیب قانونی نظام کی تکمیل اور دستیابی ہے اور نظام کی پہچان یہ ہے کہ اسے اخلاقیات کے سہارے کا محتاج نہیں ہونا چاہیے، مثال کے طور پر یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر اہل ثروت انفرادی صدقات و خیرات کرنا بند کر دیں تو اس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر اسلام کا نظام اجتماعی جسے شریعت کی اصطلاح میں دین کہتے ہیں، اپنے سنہری ادوار میں پورا اترتا رہا ہے اور ہم تاریخ میں لکھا ہوا دیکھتے ہیں کہ اہل ثروت ہاتھ میں خیرات کی رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا۔ یہ سماجی بناوٹ اس دور میں مروجہ قانون کا نفسیاتی ردعمل تھی اور اس میں افراد کی اخلاقی بلندی کا کچھ دخل نہ تھا۔

    اسی کسوٹی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس نظام کے معاشرتی اور معاشی حصہ کو جو اس کتاب کا موضوع بھی ہے۔ ابتدائی ابواب میں مذہبی حوالوں کے ذکر کے بغیر صرف طبی، نفسیاتی، عمرانی اور اقتصادی حوالوں کے ساتھ اور صرف کائناتی حقیقتوں کے تائیدی ثبوت کے ساتھ عقلی طور پر مرتب کیا ہے اور اس ضمن میں اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی میدان کے کسی بھی ماہر کی ذاتی رائے کو حجت نہ بنایا جائے تاکہ دنیا کے کسی بھی فرد کے لیے تعصب کا کوئی بھی احتمال نہ رہے۔

    اس کے بعد کے باب “ضابطہ قانون اور طریق نفاذ” میں قانونی شقوں کو ترتیب دیا گیا ہے۔ اگلے باب “منظر نامہ” میں اس نظام کی قانونی اجازت ملنے کے بعد کا معاشرتی منظر چشم تصور پر اجاگر کیا گیا ہے اور آخری ابواب میں نظام کے اصل ماخذ یعنی شریعت کے حوالہ جات اور نظام مملکت پر مشتمل اس حصہ دین کا ذکر ہے جو آج ہماری آنکھ سے اوجھل ہے۔

    باری تعالٰی کی طرز رہنمائی کا ہر دور میں دستور یہ رہا ہے کہ اس راہنمائی کو انسان کے سامنے انہی کسوٹیوں پر کھرا اتارتے ہیں جو اس دور میں انسان نے بطور دلیل استوار کی ہوئی ہوتی ہیں۔ اسی مناسبت سے پیغمبروں کو معجزے بھی عطا ہوئے ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے دور میں شعبدہ بازی اور نظر بندی وغیرہ جسے جدید سائنس کی اصطلاح میں ہپناٹزم مسمیرزم اور ٹیلی پیتھی کہا جاتا ہے، کا رعب اور دبدبہ مسلمہ تھا اور اسی وجہ سے انہیں اسی نوعیت کے معجزات عطا ہوئے تاکہ معاشرے میں حق کی دلیل بن سکیں۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے دور میں حق و صداقت کے ثبوت کے طور پر حکمت اور علاج معالجہ کی حیثیت کسوٹی کی تھی۔ اسی مناسبت سے انہیں انتہائے حکمت یعنی مسیحائی کا معجزہ عطا ہوا۔ رسالت مآب صلعم کے دور میں شاعری اور علم و ادب معاشرے میں کسوٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ قرآن حکیم کی صورت میں ناقابل موازنہ اور زبان و ادب کی انتہائی اعلٰی خصوصیات کا حامل اسلوب انسان کے سامنے بطور معجزہ لایا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ باری تعالٰی انسان کو حقیقی فلاح کا راستہ دکھانے کے لئے اپنی طرف سے کوئی نئی کسوٹیاں ترتیب نہیں دیتے بلکہ فطری انداز میں انہی کسوٹیوں پر اس راہنمائی کو پرکھواتے ہیں جو انسان نے اپنے دور میں ترتیب دے رکھی ہوتی ہیں۔ یہاں ہم آپ کو ایک انتہائی اہم نکتے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ پہلے انبیاء کو جو معجزے عطا کیے گئے وہ اک خاص دور اور خاص معاشرے تک محدود تھے جبکہ نبی کریم صرف ایک زمانے یا کسی ایک قوم اور معاشرے کے نبی نہیں ہیں بلکہ قیامت تک آنے والے ہر دور اور پوری انسانیت کیلئے نبی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں جو معجزہ عطا ہوا یعنی قرآن حکیم، وہ صرف ادبی خصوصیات تک محدود نہیں ہے بلکہ قیامت تک آنے والا ہر دور جس “کسوٹی” پر بھی اس کی راہنمائی کو پرکھنا چاہے گا وہ اس پر پورا اترے گا۔ اس کی مثالیں ہماری تاریخ میں موجود ہیں۔ نبی کریم صلعم کے دور میں شعر و ادب اور زباندانی کا غلغلہ تھا۔ قرآن اس کسوٹی پر بطور معجزہ پورا اترا اور دلوں کو مسخر کر گیا۔ پھر عقائد کا دور آیا اور ہمارے اکابرین کی مثالیں موجود ہیں جب عقائد کی بنیاد پر ہونے والے اعتراضات کا حتمی جواب اکابر علماء نے دیا جس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، مثلاً ایک واقعہ وہ ہے جس میں عیسائی پادری کے سوالات جو آج ہمیں بچکانہ سے دکھائی دیتے ہیں لیکن کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت ان سوالات نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا، مثلاً “اللہ کا منہ کدھر ہے، اللہ اس وقت کیا کر رہا ہے” وغیرہ اور ایسے کئی سوالات کا منہ توڑ جواب قرآن کی روشنی میں اسی زبان اسی کسوٹی کے مطابق دیا گیا جو اس دور کی ضرورت تھی۔ اس کے بعد روحانیت کا دور آیا اور ہم جانتے ہیں کہ اولیاء اور عارفین کی ایک بہت بڑی جماعت نے معرفت، وجدان اور تصوف اور پھر تبلیغی جماعت از قسم مختلف تعلیمات کی صورت میں سادھ، ویدانت، جوگ، نروان، تپسیا، گیان، بھگتی، شدھی، اہنسا اور دیگر ایسے تمام احمقانہ تصورات کے مقابلے میں دین کو بہترین راہنمائی ثابت کیا جو دوسرے مذاہب راہنمائی کے لیبل میں سامنے لا رہے تھے۔ یہ سب کچھ دراصل اپنے اپنے ادوار میں افراد کی ذہنی استطاعت کے مطابق قرآنی معجزے کا تسلسل ہی تھا۔ اب یہاں وہ اہم ترین مقام جس کی طرف ہم آپ کو لے جانا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ آج کا دور انسان کی شعوری ترقی کا دور ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی غالب اکثریت کی نظر میں حقیقی راہنمائی کو پرکھنے کی آج کی کسوٹی اندھے عقائد و روحانیت، فلسفہ و تصوف یا شعری یا ادبی اسلوب بیان نہیں بلکہ مشاہداتی و سائنسی اعداد و شمار اور نتائج پر مبنی علمی،منطقی اور تجزیاتی دلائل بن چکی ہے اور اگر امت کو دین کی عظمت کے لئے سینہ سپر ہونا ہے تو ذمہ داروں کو اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی احکام کو اسی عقل و منطق اور شاندار ترین معاشرتی نتائج کی کسوٹی پر کھرا عملاً ثابت کر کے دکھانا تھا۔ یہی وہ اہم نکتہ تھا جس سے ہم اب تک بھاگتے رہے ہیں.... اور اب انہی خطوط پر ہونے والی بحمدللہ اردو میں پہلی کامیاب جستجو کا ثمر یہ تحریر ہے جو آئندہ صفحات میں آپ کے زیرنظر آئے گی۔

    آخر میں ایک امر کی وضاحت کر دیں کہ ہماری یہ تحقیق پتھر کی لکیر نہیں ہے اور نہ ہی ہم کوئی مافوق البشر قسم کے لوگ ہیں، ہم سے بھی غلطی، کوتاہی ہو سکتی ہے لٰہذا اس تحریر کو حرف آخر نہ سمجھا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اس نظام کے متن میں مزید اصلاح کی بہت سی گنجائش ہو لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جب تک پکا پکایا کھانا انسان کے سامنے نہ آ جائے انسان اس کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ یقیناً جستجو ہر انسان کا فرض ہے اور یقیناً ہم سے بہتر اور متعلقہ سائنسی اور علمی میدانوں کے وہ مدبرین جنہیں قرآن نے “اولوالالباب” کا لقب دیا ہے اور علماء قرار دیا ہے، اسی موضوع پر بہتر انداز میں گرفت رکھ سکتے ہیں لٰہذا اس تحریر سے مقصود یہ سمجھا جائے کہ یہ بھی ایک طرح سے متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے تاکہ انسان کے لیے فلاح و سکون کا وہ راستہ جو خالق نے ترتیب دیا ہے، دنیا کے ہر انسان کو دستیاب کرنے کیلئے مشاورت کی صورت پیدا ہو سکے۔

    آخر میں یہ دعا کہ باری تعالٰی ہمیں اصلی ہدایت کے راستے اصلی بے عیب قرآنی قانونی نظامِ مملکت و معاشرت کو دنیا میں سب سے پہلے اختیار کرنے کی سعادت نصیب فرمائے کیونکہ اگر ہم اپنی عظیم اسلامی شخصی تاریخ اور ورثے کے تکبر کی غلط فہمی میں بنی اسرائیل کی طرح مبتلا رہے تو کوئی عجب نہیں کہ باری تعالٰی اس مقصد کے لیے کسی بھی دوسری قوم بلکہ یہاں تک کہ خود اہل مغرب کو قبول فرما لے اور یہ امر ہم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا۔
     
  11. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    2۔ حرف آغاز

    2۔ حرف آغاز

    علامہ اقبال مرحوم نے فرمایا تھا

    ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پیرہن اس کا ہے مذہب کا کفن ہے

    ایک عرصہ تک یہ شعر ناقابل فہم رہا۔ واضح نہ ہو سکا کہ علامہ انسان کو کس فعل سے اور کیونکر روکنا چاہتے ہیں؟

    کچھ عرصہ قبل ایک محقق کی تقریر زیرسماعت آئی۔ وہ خدا کے نبی حضرت ابراہیم کے حالات بیان کر رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ حضرت ابراہیم نے قوم کو منطقی دلائل سے قائل کرنے کاطریقہ اپنایا اور لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے، تم اپنے ہاتھوں سے بُت بناتے ہو اور ان کی پوجا شروع کر دیتے ہو؟.... اس کے بعد محقق موصوف اپنے سامعین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ دور حاضر میں اسی مفہوم کو بیان کرنے کیلئے ایک لفظ بدل جائے گا، اب اسے یوں کہیں گے کہ تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے، تم اپنے ووٹوں سے بُت بناتے ہو اور پھر ان کی عبادت کرنے لگتے ہو؟؟

    یوں وطنیت کا حقیقی تصور ذہن میں اجاگر ہونے لگا اور یہ سمجھنا قطعی دشوار نہ رہا کہ وطن وہ بُت ہے جس کی پرستش کے نام پر انسانی آزادی اور حقوق کے حقیقی علمبردار آفاقی قوانین کو معطل کر کے مفاد پرستی کا اور انسانیت کو غلام بنانے کا جواز پیدا کیا جاتا ہے۔

    آج دنیا میں آئین اور قانون کے تحت ہونے والی تمام زیادتیاں، ٹیکس، جارحیتیں، ظلم، بدعنوانیاں، پابندیاں، لوٹ کھسوٹ، طبقاتی امتیاز، آقا غلام اور سسکتے بلکتے بے بس انسانوں کے مناظر جن اختیارات اور قوت و اقتدار کے بل پر تشکیل پاتے ہیں وہ نہ تو فطرت نے انسان کو دئیے ہیں اور نہ ہی کسی آسمانی مذہب میں ان کی گنجائش ہے۔ یہ اختیارات مادر وطن کے نام پر ایستادہ کیے جاتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر وطن وہ بُت ہے جس کے ذریعے خود ساختہ اور مفاد پرستانہ آئین مملکت کی اطاعت کرائی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ لات و منات، عزٰی، ہبل، سومنات اور انقلاب فرانس سے پہلے چرچ کے نام پر حکام اور پادری اپنی رعایا سے زبردستی نذرانے یعنی ٹیکس لیا کرتے تھے۔

    یہاں دو سوال اٹھتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان وطن پرستی کی طرف آخر رجوع کرتا ہی کیوں ہے؟ وہ کونسی بنیادی ضرورت ہے جس کی تکمیل کیلئے اسے ایک اجتماعی تشخص، ایک پہچان ہر قیمت پر درکار ہوتی ہے اور چونکہ موجودہ دور میں اس اجتماعی تشخص کا راستہ صرف وطنیت دستیاب رکھا گیا ہے لٰہذا وہ اسی کو اپنانے پر مجبور ہوتا ہے؟؟ کیوں وہ وطن کی پوجا کو حب الوطنی کا نام دے کر جائز بنانے اور اپنے ضمیر کو تھپتھپانے کی کوشش کرتا ہے، جمہوری الیکشن، آمریت، بادشاہت، اور سوشلزم، غرض مختلف طریقوں سے اس بت مندر، اس وطن کے پجاری متولی متعین کرتا ہے اور پھر ان کے خود غرضانہ قوانین کی طوعاً وکرہاً اطاعت کرتے ہوئے وہ سلوک برداشت کرتا ہے جو بیگار کیمپ میں غلاموں کے ساتھ کیا جاتا ہے حالانکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اس اطاعت میں وہ نہ صرف ظلم سہہ رہا ہے بلکہ خالق کائنات سے کھلم کھلا بغاوت اور سرکشی کا ارتکاب بھی کر رہا ہے، ایسی مثالیں موجود ہیں جیسے اسلامی کہلائے جانے والے کسی ملک کے مالیاتی اور عائلی قوانین میں یہ شق بنیادی حیثیت رکھتی ہو کہ ان قوانین کے مقابلے میں شریعت کے قوانین زیرکار نہیں لائے جائیں گے.... یہ وہی الفاظ ہیں جو فرعون نے کہے تھے لیکن آج ان الفاظ کو بخوبی سمجھنے کے باوجود وہاں کے مسلمانوں کی اکثریت کو اس بت پرستی کے وقت یعنی اس قانون کی اطاعت میں اس مالیاتی ڈھانچے کو اختیار کرتے اور نکاح نامہ پر دستخط کرتے ہوئے ذرہ برابر شرمندگی اور ندامت محسوس نہ ہوتی ہو، آخر کیوں؟؟.... یقیناً انسان کی کوئی فطری مجبوری ہے جس کے ہاتھوں بے بس ہو کر وہ اجتماعی تشخص کا ضرورت مند ہوتا ہے اور جس کا مثبت راستہ نہ ملنے پر اسے وطنیت کو تشخص کا درجہ دینا پڑتا ہے، وہ مجبوری کیا ہے؟؟؟

    دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن کے نام پر یہ تشخص کس نے بنایا اور اس میں اس کی کیا مفاد پرستی پنہاں ہے؟ وہ کون سا اعلٰی اور فطری تشخص ہے جسے رعایا کو اختیار کروانے میں یہ مفادات پورے نہیں ہوتے؟ مزید یہ کہ اس اعلٰی تشخص تک انسانیت کو رسائی حاصل نہ ہو سکے، اس کے لیے کون کون سے داؤ پیچ اور ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں اور انسانی نگہ بصیرت میں کیسے دھول جھونکی جاتی ہے؟

    اور آخر میں یہ کہ اس ظلم، بیگار کیمپ کی اس غلامی سے انسان کے نجات پانے کا راستہ کیا ہے کہ جس کے بعد نہ تو معاشرے میں لاقانونیت، بدعنوانی، بدحالی اور جرائم جنم لیں اور نہ ہی کوئی حکومت مختلف بہانوں سے عوام کو بے وقوف بنا کر، وطن کے نام پر ٹیکس اور تجارتی و صنعتی پابندیاں لگا کر ان سے ان کی محنتوں کا ماحصل چھیننا چاہے؟

    ان سب سوالوں کے جو حقیقت میں ایک ہی سوال کے مختلف پہلو ہیں، جواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں پہلے انسانی مجبوریوں کو سمجھنا پڑے گا اور اس کے لئے انسانی ضرورتوں کا حتمی تعین کرنا پڑے گا کیونکہ اس کے بغیر عوام کو بیوقوف بنانے کا حکومتی طریقہ واردات واضح نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ آج تک انسانی ضرورتوں کے اس حتمی تعین تک ہمارے علم الانسان Anthropology اور نفسیات کی نظر نہیں پہنچ سکی۔
     
  12. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    3۔ معیشت کے نام پر انسان کو بیوق�

    3۔ معیشت کے نام پر انسان کو بیوقوف بنانے والے

    کسی بھی معاشرے میں بد اخلاقی، بدحالی یا جرائم تبھی پھلتے پھولتے ہیں جب اس فساد کی وجہ وعظ و نصیحت یا اخلاقی و مذہبی تلقین و تبلیغ کی کمی نہیں بلکہ ملکی قانون میں سقم اور بگاڑ رکھا گیا ہو۔ اہل اقتدار آئین و قانون کو اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ اسے موم کی ناک کی طرح جب چاہے اپنے حق میں موڑ سکیں اور عدالتیں حکام کے سامنے دست بستہ رہیں۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ رعایا کو بے بس کر کے ان کی محنتوں کا ثمر ان سے چھینا جا ئے اور عام محنت کش آدمی کے پاس صرف اسی قدر چھوڑا جائے جس سے اس کے سانس کی ڈوری چلتی رہے اور وہ مزید محنت کرنے کے قابل رہ سکے۔ ایسے ممالک حقیقت میں بیگار کیمپ ہوتے ہیں اور انہیں عرف عام میں ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک کہا جاتا ہے۔ ان کی سیدھی سادی پہچان یہ ہے کہ عوام کو مفت اور فوری انصاف فراہم نہیں ہوتا۔

    آج انسانیت کو غلام بنانے اور اس کا استحصال کرنے کیلئے جو ہتھیار سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اس کا نام سود ہے۔ یہ سود غیر ملکی قرضوں پر روز افزوں ہو یا انٹرنیشنل بینکوں کی مقروض ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے منافع میں سے ان بینکوں کو ادا کرتی ہوں، بہر صورت اس کا بوجھ عام شہری پر ہی پڑتا ہے۔ عالمی بینک وغیرہ کے قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے لگائے جانے والے نت نئے ٹیکس اور کرنسی کی قدر میں کمی یعنی ڈی ویلیویشن اور افراط زر Inflation تو کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے البتہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے استحصال کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی چھوٹی صنعتوں کو باقاعدہ ملکی پالیسی Law of the Land کے تحت کچلا جاتا ہے تاکہ ملٹی نیشنل کی مہنگی مصنوعات جن کی قیمت بینکوں سے لیے گئے قرض کے سود کے بوجھ کی وجہ سے بڑھائی گئی ہوتی ہے، ان مصنوعات کے مقابلے میں ارزاں اشیاء بازار میں دستیاب ہی نہ ہوں اور شہری انہی مہنگی مصنوعات کو خریدنے پر مجبور ہوں جس سے اس سود کی شکل میں عوام کی محنتوں کا پھل ان بینکاروں کو پہنچتا رہے۔

    اس سارے عمل کے عقب میں وہ سب سے بڑا مفاد پرست شیطانی گروہ جسے مذاہب میں فرعون قارون اور ہامان کا نام دیا گیا ہے، کون ہے اور اس عمل کا جواز کیا بنایا جاتا ہے؟ اس پر گفتگو سے پہلے ہم پر لازم ہے کہ پراپیگنڈے سے متاثرہ اپنے اذہان میں موجود اس تصور کی بیخ کنی کریں جو سود کو جنم دیتا ہے۔
     
  13. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    4۔ سود کی ماں کون ہے؟؟

    4۔ سود کی ماں کون ہے؟؟

    ہمارے تمام نظام ہائے معیشت زر کے تحرک پر استوار ہوتے ہیں اور زر کی تمام تر حرکت اور افادہ کا تعین پہلے ہی کر لینا لازم سمجھا جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ علم معاشیات کی وجہ صدور ہی یہ ہے کہ نفع نقصان کا حتمی تعین کاروبارکے آغاز سے پہلے ہی کیا جا سکے تاکہ نقصان کا احتمال یا خوف نہ رہے۔

    سود یا صحیح تر الفاظ میں “ربا” سرمایہ کاری کے اس تصور کا نام ہے جس میں سرمایہ کار فرد یا ادارہ اپنے منافع کا تعین محنت کے بغیر محض اپنی سرمایہ کاری (Investment) کو بنیاد بنا کر براہ راست کرتا ہے جبکہ اگر کوئی سرمایہ کار کسی کاروبار میں اپنے سرمائے کے حجم سے قطع نظر کرتے ہوئے محض محنت اور کاروبار کیلئے مختص کردہ وقت کی بنیاد پر کسی تناسب سے حصہ دار بن جائے تو اس کاروبار کے منافع میں اس سرمایہ کار کے حصہ کو سود نہیں کہا جائے گا۔ سود یا ربا کی واحد اور آسان ترین پہچان یہ ہے کہ اس نظام کے نتیجے میں دولت مند افراد کی ملکیتی دولت میں محنت کیے بغیر گھر بیٹھے انفرادی طور پر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں دولت پورے معاشرے میں بھرپور انداز میں گردش کرنے کی بجائے چند متمول افراد کے ہاتھوں میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب یہ اضافہ خواہ بینک انٹرسٹ کی صورت میں ہو، سلیپنگ پارٹنرشپ Sleeping Partnership یا زمین و جائداد کے کرائے ٹھیکے یا مزارعت وغیرہ کی شکل میں، جب بھی کسی محنت کے بغیر محض سرمایہ کاری کی بنیاد پرکسی ایک یا چند مخصوص افراد/نجی ادارے کیلئے منافع حاصل کرنے کو جائز قرار دے دیا جائے گا یہ ربا یعنی سود کہلائے گا۔ اس سے یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلامی بینکاری کے نظام میں منافع کی تقسیم اکاﺅنٹ ہولڈرز میں چونکہ ان کے جمع شدہ سرمائے کے حجم کے تناسب سے ہوتی ہے لٰہذا سود کے دائرے میں آئے گی اور محض اسلامی بینکاری کہہ دینے سے غیر سودی نہیں ہو جاتی ، عین اسی طرح جیسے شراب کی بوتل پر انگور کا شربت لکھ دینے سے اس کا نشہ ختم نہیں ہو جاتا۔

    سود سے مبرا شراکت کا تصور سمجھنا بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی کاروبار کے منافع کی تقسیم کے وقت سرمایہ کاری کے عوض منافع کا کوئی حصہ مختص نہ ہو اور تقسیم کا لائحہ صرف محنت صلاحیت، ذمہ داریوں اوراوقات کار کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔ الہامی کتابوں میں اس تصور کو اس طرح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ سرمایہ کار کیلئے صرف اس کا اصل زرہے۔ گویا اگر منافع میں محض سرمایہ کاری کو جواز بنا کر سرمایہ کار کیلئے کچھ فیصد متعین کر لیا جائے تو یہ سود بن جائے گا۔ پبلک سیکٹر یعنی قومی مالیاتی ادارے کی طرف سے کسی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کیلئے چونکہ منافع کی رقم کا چند مخصوص ہاتھوں میں جمع ہو جانے کا امکان نہیں ہوتا بلکہ منافع کی یہ رقم پورے معاشرے کے اجتماعی قومی مفادات کیلئے استعمال ہوتی ہے لٰہذا اس قسم کی سرمایہ کاری کیلئے الہامی کتب میں منافع کی تقسیم کا ایک اور تصور دیا گیا ہے جس کا نام انفال ہے، تاہم اس کی تفصیل ہم آخری ابواب میں زیر نظر لائیں گے۔

    دور حاضر کا سرمایہ کار سودی تصور کی طرف اس لیے لپکتا ہے کہ اسے کاروباری حصہ داری میں یقینی منافع کی اور نقصان سے تحفظ کی گارنٹی نہیں ہوتی، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ سودی تصور کا چلن جب عام ہوتا ہے تو معاشرے میں کس قدر زہریلے اثرات مرتب کرتا ہے، لیکن وہ اس لیے خود کو مجبور قرار دیتا ہے کہ اسے نقصان سے محفوظ رہنے کی گارنٹی صرف سودی چلن میں دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔

    نقصان کا یہی احتمال نظامِ ربا یعنی سود کو معاشرے میں منظم یعنی Systemize کرتا ہے اور پھر میڈیا کے ذریعے سود کو ایک ناگزیر مجبوری قرار دے کر اس کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ عوامی نفسیات سود کی مجبوراً تائید میں ایسی بن جاتی ہے کہ سود کی یہ چھوٹی سی پھنسی عدم مزاحمت کے باعث ساری میکرو اکنامکس پر پھیل جاتی ہے اور پھر پورے ملک کا ناسور بن جاتی ہے حتٰی کہ عالمی مہاجنوں کو قومی سطح پر سود ادا کرنے کیلئے عوام پر ٹیکس لگا کر ان کی محنت کا ثمر ان عوام سے چھیننا بھی برحق سمجھا جانے لگتا ہے۔ اس عمومی نفسیات کا باعث اور سود کو عوامی سطح پر ناگزیر تسلیم کرا لینے کے اس سارے فساد کو جنم اور جواز دینے والی بنیاد یہی “نقصان کا خوف” ہے۔ عوام جب اس خوف کی موجودگی میں نیچے کی سطح پر اس سودی تصورکے قائل ہو جاتے ہیں تو قومی سطح پر غیر ملکی قرضوں کیلئے سود ادا کرنے کے خلاف ان کی مزاحمت خود بخود دم توڑ دیتی ہے اور یوں حکمران طبقہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے سود خور ڈائریکٹرز مفت کے وہ نوالے ہڑپ کرتے رہتے ہیں جو کرنسی کی قیمت کم کر کے افراط زر اور مہنگائی پیدا کرتے ہوئے اور غریب اور بے بس عوام پر ٹیکس لگا کر ان کے منہ سے چھینے گئے ہوتے ہیں ۔آئیے اس بنیاد یعنی “نقصان کے خوف” کا تجزیہ کریں جس کے جواز پر عوام کو اس سودی تصور کے حق میں قائل کرنے کی ابتدا ہوتی ہے۔

    سرمایہ کار خواہ وہ کوئی بینک ہو یا پروپرائیٹر، اپنی سرمایہ کاری سے قبل ہی اپنے منافع کا تعین اس لیے کرنا چاہتا ہے کہ اس کے پاس نقصان سے محفوظ رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی حالانکہ وہ خود بھی جانتا ہے کہ یہ تعین غیر فطری ہے۔ اخراجاتِ پیداوار Cost of Production میں حکومتی پالیسی اور ٹیکسوں وغیرہ کے باعث ناگہانی اضافے کی بے بسی کے علاوہ بہت سے کائناتی عوامل بھی مثلاً موسم، قدرتی آفات و حادثات، بیماری اور صحت یا زندگی اور موت انسان کے پروگرام کو زیروزبر کرتے رہتے ہیں۔ اب قدرتی آفات اور حادثات وغیرہ پر تحفظ کیلئے تو انشورنس کے نام سے سودی نظام نے ایک طریقہ وضع کر رکھا ہے لیکن نقصان اگر پیداواری اخراجات میں اضافہ کے باعث ہو تو اس سے حفاظت کی ضمانت دنیا کے کسی نظام معیشت میں نہیں ہوتی اور نظام معیشت کی یہی نااہلی سود کو ناگزیر بنائے ہوئے ہے، لٰہذا فطری نظام وہی ہو سکتا ہے جس میں اخراجات پیداوار میں بھی نقصان نہ ہونے کی ضمانت موجود ہو چنانچہ نتائج کے پیشگی تعین کی کوئی خاص اہمیت نہ رہ جائے۔

    بادی النظر میں یہ ایک ناممکن سی بات لگتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی سرمایہ کار ایک کارخانہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اگر وہ اپنے منافع کی مقدار، اپنی Feasibility Report ہی تیار نہ کرے تو اس کو کیا معلوم کہ اس کے کاروبار کا کیا حشر ہونے والا ہے؟.... مگر جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ صرف بادئ النظر میں لگتا ہے۔ دراصل یہ رپورٹ بنیادی طور پر پیداواری اخراجات پر استوار ہوتی ہے اور اگر ہم اس رپورٹ کو فطرت کے قریب تر لانا چاہتے ہیں یعنی منافع میں حسب منشا اضافہ کو ممکن بنانا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی ترکیب سے پیداواری اخراجات میں کمی کو لامحدود حد تک ممکن بنا دیں۔ دوسرے الفاظ میں ایک ایسی ترکیب ہونی چاہیے جس سے کوئی پروڈیوسر فرد یا ادارہ اپنی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں جب چاہے اور جتنی چاہے کمی کر سکے۔

    اگر ہم ایک ایسی قانونی ترتیب اختیار کر سکیں جس میں پیداواری لاگت میں کمی کی کوئی حد نہ ہو اور سرمایہ کار کو یہ علم ہو کہ وہ جب چاہے کسی بھی متعین شرح سے کہیں زیادہ افادہ حاصل کر سکتا ہے تو اپنے منافع کو پہلے سے متعین کرنے کی کوشش اس کی نظر میں بے معنی ہو جائے گی اور وہ یقیناً حالات کی مناسبت سے اپنے اخراجات پیداوار میں ردوبدل کے ذریعے حسب منشا زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی پالیسی اپنائے گا۔ یہی قانون فطرت ہے اور یہی وہ حکمت عملی ہے جو بغیر کسی حیل وحجت کے، سود کو نظام معیشت میں ایک ناقابل اطلاق عامل قرار دے کر نکال باہر پھینکے گی.... آیئے اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا ڈھونڈیں اور عاملین پیدائش Production Factors میں سے دیکھیں کہ کونسا عامل سب سے زیادہ غیر مستقل ہے؟

    اس تناظر میں دیکھنے سے صرف ایک ہی عامل یعنی “اجرت” کا عامل ایسا دکھائی دیتا ہے جس پر اٹھنے والے اخراجات کم کرنا انفرادی طور پر پروڈیوسر کے اختیار میں ہوتا ہے ورنہ دیگر عوامل مثلاً خام مال یا ایندھن کے اخراجات تو خارجی اور اجتماعی بنیادوں پر متعین ہوتے ہیں اور ان میں قابل ذکر کمی انفرادی طور پر پروڈیوسر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

    اجرت ایک ایسا عامل ہے جسے اگر غیر محدود حد تک لچکدار کر لیا جائے تو ہم اپنا ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا نظام روزگار ترتیب دینا ہے جس میں اجرت کا پیشگی تعین نہ ہو سکے بلکہ حالات کے مطابق اجرت پر اٹھنے والے اخراجات میں آجر Employer کے حسب منشاء اس طرح کمی بیشی ہو سکے کہ اس کمی سے نہ تو پیداوار کے معیار و مقدار کو کوئی نقصان پہنچے اور نہ ہی اجیروں Employees کی تعداد یا کارکردگی میں کوئی فرق آئے۔

    اس کا ایک طریقہ تو ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ کار اور کارندے نفع نقصان میں کسی بھی طے شدہ تناسب کے ساتھ حصہ دار ہوں.... یہ طریقہ ہر چند کہ عین فطری ہے لیکن ہمہ گیر نہیں ہے اور ہر جگہ اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا، مثال کے طور پر اگر کوئی سرمایہ کار اپنے ٹریڈ سیکرٹ کے طور پر پروڈکشن کی تکنیک یا کاروباری کلائنٹ کا پتہ نشان صیغہ راز میں رکھنا چاہے تو ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس نظام میں ہر اس شخص کو پڑتال کا حق ہوتا ہے جس کا منافع میں حصہ ہے۔

    دوسری قباحت اس میں یہ ہے کہ اس معاہدے میں اختلاف رائے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کارندوں کی حیثیت چونکہ ورکنگ پارٹنرز کی ہوتی ہے لٰہذا وہ قدم قدم پر سرمایہ کار کو ٹوکتے ہیں اور اس کے کاروبار کو اپنی پالیسی کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ اس کا جواز ان کے پاس یہی ہوتا ہے کہ سرمایہ کار کی کمزور پالیسی سے ان کا منافع متاثر ہو گا.... اس اختلاف کے نتیجے میں اول تو ایسا معاہدہ ہو ہی نہیں پاتا اور اگر ہو بھی جائے تو اسے ٹوٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تصور کو کہیں کہیں صرف زرعی یا ایسے تجارتی نظم کاروبار میں تو استعمال کیا جاتا ہے جہاں سرمایہ کار کو کوئی پالیسی وضع نہیں کرنا ہوتی مثلاً دواؤں کی ڈسٹری بیوشن وغیرہ، لیکن صنعتی پیداواری میدان میں اس تصور کی شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔

    اس کا مطلب ہے کہ ہمیں مروجہ تصور اجرت کے علاوہ اجرت کی ہی ایک لچکدار ترتیب بھی فراہم کرنا ہو گی.... گویا ہمیں ایک ایسا نظام دستیاب کرنا ہو گا جس میں اجرت کی مالیت کے پیشگی تعین کا تصور نہ ہو بلکہ آجر کو آزادی ہو کہ وہ جب چاہے اس مالیت میں کمی یا زیادتی کر سکتا ہو، لیکن اس تبدیلی کے باوجود پروڈکٹ کے معیار اور پیداواری تناسب میں فرق نہ آئے یعنی اجیروں کی تعداد یا کارکردگی متاثر نہ ہو۔

    اس مقصد کیلئے ہمیں اجرت کے نفسیاتی پہلو کا جائزہ لینا ہو گا۔

    کوئی بھی انسان خواہ اجرت کی شکل میں یا اپنے کاروباری نفع کے ذریعے، غرض جب روزی کماتا ہے تو اس کا مقصد اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہمیں اجرت میں کمی کے تصور کو فول پروف رکھنا ہے تو ہمیں اس شرط کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ اس کمی کے باوجود اجیر کو ضروریات زندگی کی فراہمی میں رکاوٹ نہ آ سکے۔

    اس کیلئے ہمیں انسانی ضروریات کا فول پروف تعین کرنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ وہ کون کون سی شے ہے جس کے نہ ملنے پر انسان جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی جستجو کی ابتدا ہر قسم کے جرائم کے جائزے سے کرنا ہو گی۔ یہیں سے انسانی بنیادی ضروریات کی اصل پہچان، نوعیت اور شدت ہماری سمجھ میں آئے گی اور پھر حل تک پہنچنا بالکل سامنے کی بات ہو جائے گی۔

    ظاہری طور پر یہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ دکھائی دیتا ہے مگر یقین کیجیے کہ یہ محض چند منٹوں کا احاطہ ہے اور آپ حیران ہوں گے کہ اس قدر آسان اور پیش پا افتادہ معاملہ انسان کی سمجھ میں پہلے کیوں نہ آیا۔
     
  14. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    5۔ وجہ جرم

    5۔ وجہ جرم

    ہرجرم کی محرک فرسٹریشن Frustration ہے۔ ہمیں اس لفظ کا حقیقی اردو مترادف نہیں ملا کیونکہ مایوسی، محرومی، بے چینی، ناکامی، تفکر اور تشویش جیسے الفاظ مفہوم کو مکمل طور پر واضح نہیں کرتے لٰہذا یہاں اور آگے چل کے ہم نے یہی لفظ استعمال کرنے پر خود کو مجبور پایا ہے۔

    فرسٹریشن کے بغیر کوئی جرم نہیں ہو سکتا۔ جس سانحہ، جس واقعہ کے پس منظر میں کوئی فرسٹریشن نہ ہو، اسے جرم نہیں کہتے، حادثہ کہتے ہیں۔ جرم کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس کی محرک انسان کی کوئی نہ کوئی فرسٹریشن ہوتی ہے۔ قانون کی زبان میں اسے وجہ جرم کہتے ہیں۔

    جرم کا ارتکاب اجتماعی طور پر ہوا ہو یعنی جنگ و قتال، تو مو رخین وجہ جرم کی تفصیل اخذ کر کے تاریخ کے صفحات میں مجرم افواج پر فرد جرم عائد کرتے ہیں اور اگر جرم انفرادی سطح پر ہوا ہو تو عدالت اسی فرسٹریشن کو جرم کا محرک تسلیم کرتی ہے.... اور ہم جانتے ہیں کہ وجہ جرم کی موجودگی کے بغیر کوئی قانون کسی کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتا۔

    فرسٹریشن اسی وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب انسان کی کسی فطری ضرورت کی تکمیل ممکن نہ رہے.... یہاں یہ جاننا لازم ہے کہ ضرورت کس چیز کا نام ہے اور “بنیادی ضرورت” اور “محض خواہش” میں فرق کرنے کا پیمانہ کیا ہے؟

    اس پیمانے کا نام “طلب” ہے۔ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ انسان میں کسی شے کی طلب جن عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے وہ یہی دو ہیں، ضرورت یا خواہش.... لیکن ان دونوں عوامل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طلب کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ جب انسان کو کوئی بنیادی ضرورت پوری کرنا ہوتی ہے تو جب تک یہ ضرورت پوری نہ ہو، طلب بڑھتی جاتی ہے، حتٰی کہ فرسٹریشن میں بدل جاتی ہے اور انجام کار انسان کو جرم پر آمادہ کر دیتی ہے جبکہ محض خواہش کے زیر اثر پیدا ہونے والی طلب کا معاملہ مختلف ہے۔ یہ طلب خواہ کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو، ویسی ہی یکساں Constant رہتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ایسا اضافہ نہیں ہوتا جو انسان کو ارتکاب جرم تک پہنچا سکے۔ اس کی آسان مثال پانی اور کوکا کولا کے فرق میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پانی انسان کی ضرورت ہے اور اگر نہ ملے تو طلب بڑھتی جائے گی چنانچہ ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ جب انسان اس طلب کے ہاتھوں مجبور ہو کر قتل جیسے جرم کا بھی ارتکاب کر بیٹھے جبکہ کولا یعنی وہ ذائقہ اور خوشبوئیں (فلیورز اورسوڈے کی گیس) نارمل انسان کی محض خواہش کا درجہ رکھتی ہیں۔ انسان میں ان کی طلب تو موجود ہوتی ہے لیکن اگر یہ اسے برسوں تک بھی دستیاب نہ ہوں تو بھی یہ طلب نہ تو فرسٹریشن کا باعث بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی سنگین جرم پر اسے آمادہ کر سکتی ہے۔

    اس پیمانے کو ملحوظ نظر رکھیں تو دکھائی دے گا کہ انسان فطری طور پر جو ضرورتیں لے کر پیدا ہوا ہے اور جنہیں پورا کرنے کیلئے اسے مروجہ قانونی نظام کے تحت جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور جو اس کیلئے مسئلہ بن سکتی ہیں، ان کی تعداد صرف تین ہے۔

    ۱۔ جسم کیلئے تحفظ Physical Protection

    اس میں وہ چیزیں شامل ہیں جو انسان کو اپنے جسم کے تحفظ کیلئے درکار ہوتی ہیں مثلاً خوراک، لباس رہائش اور علاج۔

    ۲۔ جنسی تعلق Sexual Contact

    یہ ایسی ضرورت ہے جو عورت کیلئے تو بنیادی ضرورت کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ ایک غیر معمولی خواہش کی حیثیت رکھتی ہے تاہم مرد کیلئے یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو عدم تکمیل کی صورت میں فرسٹریشن اور جرم کا محرک بنتی ہے۔ (اس پر تفصیلی گفتگو چندصفحات کے بعد زیر نظر آئے گی۔)

    ۳۔ افضلیت یا برتری (Need of superiority)

    یہ ایسی ضرورت ہے جو انسان اور دیگر مخلوقات کے درمیان فرق اور امتیاز کا درجہ رکھتی ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو پہلی دونوں ضروریات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں سمجھیں کہ انسان کی جسمانی ضرورت تو محض لباس ہے لیکن اس کے ضمن میں ایک قیمتی لباس کا انتخاب وہ برتری کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کرتا ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو انسان کو تعلیم حاصل کرنے پر اکساتی ہے، اسے لباس، غذا، رہائش اور دیگر جسمانی ضروریات پر “زیادہ” رقم خرچ کرنے کیلئے آمادہ کرتی ہے اور یہی وہ ضرورت ہے جسے ہمارے قانون ساز جینیئس نے لازمی بنیادی ضرورت کا درجہ نہ دیا بلکہ محض ایک خواہش سمجھتا رہا چنانچہ اس کے بنائے ہوئے ہر قانونی نظام نے انسان کو اس ضرورت کی تکمیل کیلئے دولت مندی کی نمائش کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ دیا اور پھر انسان کیلئے زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

    انسانی نفسیات کے علم و تحقیق کی تاریخ میں ہمیں جو دو قابل ذکر مکاتب فکر دکھائی دیتے ہیں ان میں سے ایک تو “فرائڈ” ہے جو جنسی طلب کو ہر فساد کی جڑ قرار دیتا ہے اور دوسرا اس کے شاگرد “ایڈلر” کا مکتب فکر ہے۔ اس کی دانست میں معاشرتی ابتلا کا بنیادی عامل ہر انسان کی دوسرے انسانوں پر حاوی ہونے کی خواہش ہے۔ اسے وہ Urge To Dominate کا نام دیتا ہے۔

    یہ دونوں نظریات غلط نہ سہی، لاحاصل بہرحال ہیں، اس لیے کہ نامکمل ہیں۔ دونوں ماہرین کے سامنے جب تصویر فطرت نے اپنے ایک ایک گوشے سے نقاب ہٹایا تو وہ اپنی اپنی جگہ عالم سرخوشی میں اپنے اپنے انکشاف کو پوری تصویر فطرت سمجھ بیٹھے اور انہیں شاید کچھ ویسا ہی محسوس ہونے لگا جیسا ارشمیدس کو “یوریکا، یوریکا” چلاتے وقت محسوس ہو رہا تھا۔ انہوں نے مزید تحقیق اور عمیق نگہی کی کتاب بند کر دی اور باقی عمر اپنے اپنے انکشافات کو مکمل امر واقعہ ثابت کرنے میں صرف کر دی۔ اگر وہ مزید گہرائی میں اترتے تو یہ حقیقت بھی ان پر آشکار ہو جاتی کہ یہ دونوں نظریات ہم پلہ ہیں اور انسانی معاشرے پر یکساں شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے کہ بنیادی انسانی ضروریات کی ذیل میں آتے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ اس نتیجے پر بھی پہنچ جاتا کہ نفسیاتی اعتبار سے بھی جنسی تعلق کی حیثیت مرد اور عورت میں ایک جیسی نہیں ہے اور ایڈلر کی سمجھ میں یہ بھی آ جاتا کہ وہ جسے Urge To Dominate کا نام دے رہا ہے وہ محض Urge ہی نہیں ہے بلکہ انسان کی ایک ایسی بنیادی فطری ضرورت ہے جسے ہر حال میں پوری کرنا اس کی ویسی ہی مجبوری ہے جیسی بھوک پیاس مٹانا۔

    یہ ضرورت انسان کی وہ خصوصیت ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ دوسرے جانوروں میں ہم دو طرح کے رویے دیکھتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے ہم جنسوں میں برابری کی سطح پر مل جل کر رہنا جیسے پرندے چوپائے اور حشرات وغیرہ.... اور دوسرا یہ کہ اپنے گردونواح میں کسی ہم جنس کی موجودگی گوارا نہ کرنا جیسے خونخوار درندے۔ انسان واحد جاندار ہے جسے دوسرے انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے ہر سطح پر اپنی افضلیت اور برتری دوسروں سے تسلیم کروانا ہوتی ہے اور اسی ضرورت کے نتیجے میں دنیا بھر کی ترقیاں، تمام علوم اور فنکاریاں وجود میں آئی ہیں۔

    جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان ترقی کا خواہشمند ہے تو یہ بات مہمل، مبہم یا نامکمل سی محسوس ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان دراصل برتری کا طلبگار ہے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کے ردعمل میں ترقی وجود میں آتی ہے، یعنی اس کوشش کے نتیجے میں وہ ایسے کام کر جاتا ہے جنہیں ہم ترقی کا نام دیتے ہیں۔

    اس ضمن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ایسی ضرورت ہے جسے انسان کو اپنی زندگی کے تینوں پہلوؤں Dimensions میں پوری کرنا ہوتا ہے۔ زندگی کے تین پہلو یہ ہیں۔

    1۔ بحیثیت ایک انسان کے۔

    2۔ بحیثیت اجتماعی (یعنی کسی قوم اور علاقہ سے نسبت رکھتے ہوئے)

    3۔ بحیثیت انفرادی (یعنی اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے، اپنی ذات کے حوالے سے)

    اب ہم ان تینوں پہلوؤں کا باری باری جائزہ لیں گے۔

    1۔ ۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے

    یہ زندگی کا وہ پہلو ہے جس کے مطابق وہ ایک انسان ہونے کے ناتے سے اپنی برتری دیگر مخلوقات پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس مقصد کیلئے شکار،جانوروں کی سرکس اور ایسے دیگر طریقے تخلیق کرتا ہے۔ اسی ضرورت کے لاشعوری اظہار کیلئے وہ کوہ پیمائی کرتا ہے، ٹارزن اور سپر مین جیسے کردار تراشتا ہے اور تصوراتی خلائی مخلوق کے موضوع پر مبنی ناول لکھتا، سٹار وارز جیسی فلمیں بناتا ہے۔ اس ساری تگ و دو کا باعث یہی ہے کہ وہ انسان ہونے کی حیثیت سے خود کو دیگر تمام مخلوق Rest of The Universe سے افضل اور برتر دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے ایسی فلمیں کہانیاں مقبول بھی ہوتی ہیں۔

    غور کیا جائے تو یہاں انسانی ترقی کا معروضی تصور یعنی چارلس ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ برتری کی ضرورت کو انسانی ترقی کی بنیاد قرار دینے کے بعد ہم تاریک ماضی میں انسان کے صرف حلیہ یا ہیئت کا قدرے مختلف ہونا تو تسلیم کر سکتے ہیں لیکن اس کی انسانیت یعنی انسان کی بنیادی الگ جبلت اور ذہنی بناوٹ سے انکار نہیں کر سکتے اور اس اعتبار سے اسے کسی دوسری مخلوق مثلاً بندر یا چمپینزی کی کوئی قسم قطعاً تسلیم نہیں کر سکتے جیسا کہ ڈارون کی تھیوری میں کہا گہا ہے.... مگر چونکہ یہ نظریہ ارتقاء ہمارے موضوع کا حصہ نہیں ہے لٰہذا ہم اس سے قطع نظر کرتے ہیں، صرف اتنا سمجھنا کافی ہے کہ انسان کیلئے افضلیت اور برتری حاصل کرنا ایک لازمی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے اور اس برتری کو ہر غیر انسانی مخلوق پر ثابت کرنااس ضرورت کی پہلی سطح ہے۔

    2۔ اجتماعی برتری

    یہ اس ضرورت کے ضمن میں انسانی زندگی کا دوسرا پہلو ہے۔

    تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں انسان مذہب کی بنیاد پر معاشرے تشکیل دیتا اور پھر انہیں برتر ثابت کرنے کیلئے جنگیں لڑتا رہا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی عیسوی کے دوران نظریہ وطنیت کو معاشرے کی اساس بنانے کیلئے یہ معاشرے توڑے جاتے رہے۔ اس عمل کو ہم انقلابات کا نام دیتے ہیں۔

    ان انقلابات کے ذریعے درحقیقت مذہب کو تشخص کے درجے سے ہٹانا مقصود تھا اور اس کیلئے لازم تھا کہ انسان کو اس کے اجتماعی تشخص کیلئے کوئی دوسرا نظریاتی متبادل فراہم کیا جاتا۔ یہ متبادل جغرافیائی بنیادوں پر استوار قومیت یعنی وطنیت کی صورت میں فراہم کیا گیا۔

    جغرافیائی قومیت کا تصور فروغ دیئے جانے کی وجہ تاریخ کے مطالعہ سے قدرے واضح ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کی تائید اور حمایت حاصل کرنا ہر حکومت کی بنیادی ضرورت تھا تاکہ اس سے فائدہ اٹھا کر وہ حکومت رعایا سے زیادہ سے زیادہ ریونیو Revenue وصول کر سکتی.... اور اسے یہ حمایت تبھی مل سکتی تھی جب وہ خود ہی اپنے عوام کی اجتماعی برتری کی علامت ہوتی۔ معاشرے کے مذہب کے نام پر استوار ہونے سے عوامی حمایت اور اجتماعی برتری کا مرکز و محور بادشاہوں کی بجائے مذہبی پیشوائیت ٹھہرتی تھی چنانچہ ان بادشاہوں کو اس مذہبی پیشوائیت کی تائید حاصل رکھنے کیلئے ریونیو میں سے ایک بڑا حصہ چرچ کو دینا پڑتا تھا۔ یہ ان بادشاہی حکومتوں کا کمزور پہلو تھا جسے انقلاب کے علمبرداروں نے بھانپ لیا اور پھر انقلابی عمل کے ذریعے برتری کی علامت یعنی اجتماعی تشخص مذہب کی بجائے علاقے یعنی ملک کو قرار دے دیا تاکہ حکومت کو رعایا سے اپنے مفاد پرستانہ احکام منوانے کیلئے مذہبی پیشوائیت کی احتیاج ختم ہو جائے اور آئین سازی پر اس حکومت کی مطلق العنانی قائم ہو جائے اور یوں عوامی اطاعت یعنی حسب منشاء ریونیو وصولنے کے ضمن میں مذہبی پیشوائیت حکومت کو بلیک میل نہ کر سکے۔ انقلاب فرانس اسی مقصد کیلئے برپا کیا گیا اور پھر پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر انسان کو یقین آنے لگا کہ وہ جس ملک یا علاقہ سے تعلق رکھتا ہے وہی اس کا قومی تشخص ہے، اس کی اجتماعی برتری کی علامت ہے اور اگر یہ علامت نہ رہی تو اس کی پہچان یعنی افضلیت کی حیثیت صفر ہو جائے گی۔ یہی سوچ پیدا کرنا آج بھی ہر مفاد پرست حکومت کیلئے کامیابی کا پہلا سبق ہے چنانچہ وہ اس سوچ کو حب الوطنی کا نام دیتی ہے اور اس کی مزید تقویت کیلئے تمغوں، انعامات اور اعزازات کا سلسلہ وضع کرتی ہے تاکہ انسانوں کیلئے انفرادی برتری کا لالچ بھی پیدا ہو جائے۔ اگر کسی موقع پر انسان کو یہ یقین ہو کہ ملک ختم ہونے کے باوجود اس کی اجتماعی برتری کی پہچان اور حیثیت متاثر نہیں ہو گی تو وہاں اس کی حب الوطنی ملک ختم ہونے کے راستے میں بھی مزاحم نہیں ہوتی۔ اس کی ایک بہت عمدہ مثال مشرقی اور مغربی جرمنی کا انضمام ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ضرورت ملکی یا مذہبی پہچان یا قوم سے محبت کرنا نہیں ہے بلکہ باقی معاشروں پر اپنے معاشرتی گروہ کو برتر تسلیم کرانا ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اسے ایک لیبل درکار ہوتا ہے جو اجتماعی تشخص کہلاتا ہے۔ یہ تشخص پہلے مذہب کے نام پر وضع ہوتا تھا، اب ملک اور شہریت کے نام پر تشکیل دیا جانے لگا ہے۔

    جب سے جغرافیائی بنیادوں پر قومیت یا دوسرے الفاظ میں وطنیت کے تصور کو فروغ دیا گیا ہے، انسان اپنی اجتماعی برتری کی کوشش جو پہلے مذہب کے نام پر کرتا تھا، اب قوم اور ملک کے نام پر کرنے لگا ہے۔ جدید خلائی دور کی تمام ایجادات اور ترقی اسی کوشش کا شاخسانہ ہے، بیسویں صدی کی تمام جنگیں اسی بنیاد پر ہوئیں، نسلی امتیاز کو بھی اسی بہانے ہوا دی جاتی ہے، آج کی عالمی سیاست میں یہی انسانی ضرورت دکھتی رگ کی حیثیت رکھتی ہے جسے کائیاں سیاستدان زیادہ سے زیادہ چھیڑ کر الیکشن میں ووٹ حاصل کرتے ہیں۔

    ملکوں کے درمیان ہونے والے کھیلوں کے مقابلے اسی ضرورت کی تکمیل کا راستہ ہیں۔ ان مقابلوں میں اس ضرورت کی تکمیل کا پہلو دونوں سطحوں پر ہوتا ہے، دیکھنے والوں کیلئے یہ مقابلے اجتماعی برتری یعنی قومی برتری حاصل کرنے کا راستہ ہیں جبکہ کھلاڑی کیلئے یہ بیک وقت انفرادی اور اجتماعی، دونوں پہلوؤں کی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔

    اجتماعی برتری کا حصول انسان کی وہ ضرورت ہے جس کے مثبت طریقے سے پورا نہ ہونے پر وہ اجتماعی جرائم یعنی جنگیں لڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتا اور یہی وہ ضرورت ہے جس کی تشنگی پیدا کر کے تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں اپنے عوام کو گویا بلیک میل کرتی ہیں اور اسے دفاعی ضرورت کا نام دے کر اس کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرتی ہیں۔

    اب رہا یہ سوال کہ انسان کو اپنی اجتماعی افضلیت کیلئے کوشش کرنے کا وہ فطری راستہ کونسا دستیاب کیا جا سکتا ہے جس سے جنگ و جدل یا رعایا کے استحصال کی کوئی ممکنات پیدا نہیں ہوتیں؟ تو اس کی تفصیلی وضاحت کے لیے اس سارے عمل کے منظر نامے کا مشاہدہ ہم آئندہ صفحات میں کریں گے لیکن اس سے پہلے اس ضرورت کے تیسرے پہلو یعنی “انفرادی سطح پر برتری” کا اجمالی جائزہ لازم ہے۔

    3۔ انفرادی برتری

    اسی ضرورت کی تیسری سطح انفرادی برتری ہے۔ یہ وہ سطح ہے جہاں انسان اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے، ارد گرد کے انسانوں پر اپنی ذات کی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس کا طریقہ اسے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ ممتاز اور نمایاں تسلیم کر لیا جائے۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ایک امتیازی حیثیت حاصل کرنا ہر انسان کی فطری ضرورت ہے۔

    غیرت، انا، عزت نفس، تکبر، گالی، تحقیر و تذلیل اسی ضرورت کے مختلف ردعمل ہیں۔ عہدہ و اختیارات، گلیمر Glamour، عالیشان رہائش گاہ اور سواری، زرق برق ملبوسات، کاسمیٹکس اور دیگر سامان تعیش، نمودونمائش اور جاہ وحشم اسی ضرورت کی سیرابی کے مختلف اظہار ہیں۔ دولت، تعلیم اور فنی مہارت کی جدوجہد یعنی انفرادی ترقی اسی آسودگی کو حاصل کرنے کی کوشش کا نام ہے۔

    نفسیات کے ماہرین اور ہمارے معاشرتی نظاموں کو مرتب کرنے والوں کی فاش غلطی یہی ہے کہ ہرچند وہ انسان کی اس طلب کے منکر تو نہیں ہیں لیکن اسے بنیادی، فطری اور ناگزیر ضرورت کی حیثیت دینے کا انہیں کبھی خیال ہی نہیں آیا اور ان کی یہی بھول مکمل ترین نظام زندگی تک نہ پہنچ سکنے کی اصل وجہ بنی رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک انسانی ضرورتوں کا حتمی تعین ہمارے ماہرین نفسیات نہ کر سکے اور وہ جسمانی تحفظ کی ضرورت کو برتری کی ضرورت کے ساتھ مخلوط کرتے رہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی معمولی رہائش سستا لباس مٹی کے برتن وغیرہ انسان کا مسئلہ نہیں بلکہ اسے مسئلہ بنانے والا عامل یہی برتری حاصل کرنے کی طلب ہے جو انسان کو جسمانی تحفظ کی ضرورت پر زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرنے پر اکساتی ہے اور اسے مسئلہ بنا دیتی ہے۔

    برتری یا افضلیت حاصل کرنے کی یہ انسانی ضرورت وہ بنیاد ہے جس پر اس تحریر میں دیئے گئے مکمل ترین قانونی نظام کو ایستادہ کیا گیا ہے۔
     
  15. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    6۔ معاشروں میں برتری اور عظمت کے

    6۔ معاشروں میں برتری اور عظمت کے معیار

    انسان جب امتیازی حیثیت حاصل کرنے کیلئے جدوجہد شروع کرتا ہے تو یہ یقینی امر ہے کہ وہ اس جدوجہد کا رخ انہی معیاروں کی طرف کرے گا جو معاشرے میں برتری کے ثبوت کے طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ اگر معاشرتی ماحول ایسا ہو جس میں برتری کے ثبوت کے طور پر وہی معیار مسلمہ ہوں جو ہر وقت ہر انسان کے بس میں ہوتے ہیں اور جو کسی سے چھینے یا خریدے نہیں جا سکتے یعنی اخلاقی اقدار، حسن سلوک، شائستگی، ہمدردی، سچائی، دیانتداری، سادگی، عادات و اطوار اور سلیقہ وغیرہ.... تو یقیناً ہر شخص کیلئے ہر وقت انہیں زیادہ سے زیادہ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ لامحدود مقدار میں حاصل کرنے کا راستہ موجود رہتا ہے اور چونکہ یہ چیزیں کسی سے چھینی یا خریدی نہیں جا سکتیں لٰہذا جرائم بھی وقوع پذیر نہیں ہوتے.... لیکن اگر معاشرے میں برتری کی علامت کے طور پر ایسے عوامل کو معیار کا درجہ دے دیا گیا ہو جو ہر وقت ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتے مثلاً دولت مندی اور امارت کا اظہار.... تو یقیناً ان کی بنیاد پر معاشرے میں ممتاز اور نمایاں ہونے کا راستہ ہر وقت ہر کسی کیلئے کھلا ہونا ممکن نہیں ہے چنانچہ اس ماحول میں فرسٹریشن اور پھر جرائم کا فروغ پانا ایک قدرتی امر ہے۔

    انسان برتر ہونے کی کوشش میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کیلئے جنونی ہو جاتا ہے اور اس کیلئے ہر جائز و ناجائز حربہ اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں چوری، ڈاکہ، رشوت، اقرباپروری، ڈرگ مافیا وجود میں آتے ہیں۔ کسی جائز طریقے سے نمایاں نہ ہو سکنے والے پر احساس کمتری کی فرسٹریشن طاری ہوتی ہے۔ سٹیٹس کامپلکس، نئی اور پرانی نسل کا جھگڑا، نمودونمائش اور جہیز جیسی سماجی برائیاں اسی کا نتیجہ ہیں۔ اسی کے ردعمل میں سنگین جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی نے محض شہرت حاصل کرنے کیلئے کئی افراد کو قتل کر ڈالا، کہیں تباہی پھیلا دی، ڈاکہ یا اغوا کا مرتکب ہو گیا، وغیرہ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسے اپنی یہ ضرورت پوری کرنے کا مثبت راستہ نہیں ملا چنانچہ وہ لاشعوری طور پر یہ تسلیم کر چکا تھا کہ وہ افضلیت اور برتری کی جس بلندی تک پہنچنا چاہتا ہے وہ اسے مثبت طریقوں سے حاصل نہیں ہو سکتی۔

    جو فرسٹریٹڈ Frustrated شخص جرم نہیں بھی کرتا وہ زندگی کی کٹھنائیوں سے فرار حاصل کرنے والاEscapist بن جاتا ہے اور خود کو شراب، منشیات وغیرہ میں غرق کر کے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تب وہ معاشرے کا سود مند شہری بننے کے قابل نہیں رہتا۔ وہ نفسیاتی مریض بن سکتا ہے، ذہنی دباؤ یا شراب و منشیات سے پیدا ہونے والی بیماریوں، بلڈپریشر، فالج، السر، ذیابیطس، نروس بریک ڈاؤن، حتٰی کہ کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔ دولت چھن جانے کا صدمہ اچانک پہنچے تو ہارٹ فیل بھی ہو سکتا ہے۔ ان سب عوامل کی وجہ یہی ہے کہ انسان اپنی ملکیتی دولت کو افضلیت کا پیمانہ سمجھتا ہے اور اس میں کمی کے احساس پر یہ سمجھتا ہے کہ اس کیلئے معاشرے میں برتری کا ٹارگٹ حاصل کرنا دشوار تر ہو گیا ہے۔ چونکہ اس ضرورت کو پورا کرنا انسان کی مجبوری ہے لٰہذا وہ اس کیلئے جدوجہد کرتا ہے اور یہ بھی فطری امر ہے کہ اس کیلئے وہ وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو معاشرتی نظام اور ماحول میں دستیاب ہے، اگر وہ راستہ دولت مندی کا اظہار ہے تو وہ یقیناً اسی کے پیچھے بھاگے گا۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دولت بذات خود انسان کیلئے ضرورت کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ انسان انفرادی سطح پر دوسرے انسانوں سے اپنی افضلیت تسلیم کرائے اور اس کا پیمانہ امارت کا اظہار بن چکا ہے۔

    اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاشرے میں نمایاں ہونے کیلئے جو معیار مقرر ہے یعنی دولت مندی کی نمائش، وہی خرابیوں کا سبب ہے۔ اگر معاشرے میں عظمت اور ستائش کا ذریعہ یہ نمائش نہ رہے بلکہ اس کی بجائے اخلاقی اقدار اور نیک نامی بن جائے تو دولت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن وجود میں ہی نہیں آئے گی جو جرائم کو جنم دیتی ہے۔

    اس نکتے سے تو ہمارے دور کا، بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں کا جینیئس بھی بخوبی واقف ہے لیکن اس کے بعد اس کی ہوا نکل جاتی ہے۔ اس کے پاس ایسا معاشرتی نظام ترتیب دینے کا کوئی راستہ نہیں ہے جس کے نتیجے میں برتری کا معیار انسان کی ذاتی خوبیاں قرار پا جائیں اور دولت مندی کی ملکیتی حیثیت تو بے شک قائم رہے لیکن اس کا اظہار اور اس کی نمائش معاشرے میں ایک گھٹیا اور رذیل حرکت تصور ہونے لگے۔ یہاں وہ بے بس ہو جاتا ہے حالانکہ یہ بالکل سیدھا معاملہ ہے، ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ کسی ترکیب سے معاشرے میں دولت مند اور غریب آدمی کا معیار زندگی اس طرح یکساں بنا دیں جس میں کمیونزم کی طرح کسی پر کوئی زبردستی نہ کی جا رہی ہو۔

    یہ کام کس طرح ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے اس منظر نامہ کا جائزہ لینا مناسب ہو گا کہ حکومتیں اس اجتماعی و انفرادی ضرورت کے مثبت راستے بند کر کے عوام کو اپنے مفاد پرستانہ مقاصد کے لیے کیسے استعمال کرتی ہیں؟
     
  16. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    7۔ حب الوطنی کا زہر

    7۔ حب الوطنی کا زہر

    جب کہیں کوئی غیر مخلص مفاد پرست شخص برسر اقتدار آتا ہے تو اس کی ہوس زر اسے عوام سے ان کی محنتوں کا ثمر چھیننے پر اکساتی ہے اور اس کی سوچ کا رخ بالکل ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا بیگار کیمپ کے مالک کا ہوتا ہے۔ تب اسے اپنے مفادات پورے کرنے کی غرض سے عوام پر مختلف ٹیکس اور پابندیاں وغیرہ عائد کرنے کے لیے ایک جواز درکار ہوتا ہے۔ یہ جواز مادر وطن کہلاتا ہے۔ عوام میں جو ذی شعور لوگ اس جوازکو درست ماننے سے انکار کر سکتے ہوں ان کا دماغ ٹھکانے رکھنے کے لیے وہ غنڈے بدمعاشوں کے گروہ ملازم رکھتا ہے۔ ان گروہوں کو مسلح افواج کہا جاتا ہے۔ افواج کا اصل مقصد تشکیل یہی ہے جبکہ دفاعی ضرورت محض ایک ڈھکوسلہ ہے کیونکہ درحقیقت دنیا میں کوئی سے بھی دو ممالک کے درمیان ایسا تنازعہ نہیں ہے جسے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کے بعد بھی حل نہ کیا جا سکے۔

    اس کے باوجود یہ احتمال موجود رہتا ہے کہ عوام کسی مرکز پر متحد ہو کر انقلاب برپا کر سکتے ہیں چنانچہ اس احتمال سے بچاؤ کے لیے خبیث اہل اقتدار دو طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ “لڑاؤ اور حکومت کرو” کی پالیسی وضع کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان باہمی منافرت اور عدم اتفاق کی فضا قائم رکھتے ہیں چنانچہ اس مقصد کے لیے خود پس پردہ رہ کر عوام میں مذہب و مسلک، زبان اور نسل وغیرہ کی بنیاد پر تعصبات کو فروغ دلواتے ہیں.... اور دوسرا ہتھکنڈہ یہ کہ عوام کے ذہنوں کو گمراہ رکھا جائے اور وہ وطن کے بت اور اس کے نام پر بنائے جانے والے مفاد پرستانہ آئین کی بجائے زیادہ آبادی، خشک سالی یا عالمی معیشت، کرنسی کے اتار چڑھاؤ جیسی بے سروپا باتوں کو اپنی بدحالی کا ذمہ دار سمجھتے رہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ خبیث اہل اقتدار گمراہ کن تعلیمی نصاب مرتب کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بھی عوام کے ذہنوں میں وطن پرستی کے وہ نظریات انجکٹ کرتے ہیں جن کے نتیجے میں عوام کی آنکھوں پر پڑا ہوا پردہ مزید موٹا ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف سچے اور مخلص افراد کے لیے ذریعہ ابلاغ تک رسائی مشکل سے مشکل تر کر دیتے ہیں۔

    بیگار کیمپ کی افزائش کا یہ تمام عمل مادر وطن، حب الوطنی اور دیگر ایسے عنوانات کے تحت ہوتا ہے جنہیں میڈیا اور تعلیمی نصابوں کے ذریعے معاشرے میں قابل عزت بنا دیا جاتا ہے۔ اسی چیز کو الہامی مذاہب میں “بُت” قرار دیا گیا ہے۔ وطن پرستی کی تبلیغ میں فعال کردار ادا کرنے والے مختلف افراد کو تمغے اور اعزازت سے نوازنے کا عمل بھی اسی بُت کے استحکام کا راستہ ہے۔ قومی ترانے اور پرچم کے احترام میں خاموش اور باادب کھڑے ہونا اسی بت کی پرستش کا ایک انداز ہے۔ اسی طرح عوام میں اس بُت کی پرستش کو راسخ کرنے کے لیے نصاب تعلیم میں پہلی جماعت سے ہی ذہنوں کو ہموار کرنے کا کام شروع ہو جاتا ہے چنانچہ پختگی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان بچوں کی ذہنیت ایسی بن جاتی ہے کہ انہیں وطن کے نام پر کٹ مرنا نہ تو غیر فطری اور احمقانہ فعل دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اس میں انہیں اپنے خالق سے سرکشی اور بغاوت کی بو محسوس ہوتی ہے۔

    آج پوری دنیا میں ایک ہی مفاد پرست ٹولہ قارون کی صورت اختیار کر چکا ہے اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت درحقیقت اس ٹولے کے ہاتھوں کی خواہی نخواہی کٹھ پتلیاں ہیں۔ یہ ٹولہ وہی لوگ ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، عالمی بنیادی کرنسی یعنی امریکی ڈالر جاری کرنے والے ادارے فیڈرل ریزرو بینک آف امریکہ، کالے دھن کے اکلوتے محافظ سوئس بینکوں اور یورو ڈالر کے سرپرست ادارے کے مالکان اور ڈائریکٹرز ہیں۔ انہوں نے اس طرح کے چارٹر ترتیب دے رکھے ہیں کہ ان کے سوا کوئی دوسرا ان اداروں کا ڈائریکٹر بن ہی نہیں سکتا۔ یہ لوگ جو اسرائیل کے اصلی گاڈ فادر ہیں، ساری دنیا کے سربراہان مملکت کو ایک مخصوص لابی کے ذریعے جس کا نام فری میسن بتایا جاتا ہے، اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں، انہیں معزول کراتے اور برسراقتدار لاتے ہیں اور اگر کسی ملک کا سربراہ ان کی مخالفت اور کھلم کھلا حکم عدولی پر اتر آئے تو اسے ایسی سزا دیتے ہیں جس سے باقی ممالک کے سربراہوں کو آئندہ کبھی ایسی مخالفت کی جرات نہ ہو۔ اس تناظر میں دیکھنے پر صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ امریکی صدور ابراہام لنکن اور کینیڈی، پاکستانی سربراہان بھٹو، جنرل ضیاءالحق مرحوم، سعودی عرب کے شاہ فیصل کی ہلاکت اور سوئیس بینکوں کے مقابلے میں بنائے گئے بینک بی سی سی آئی (بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل) کی تباہی اسی کی روشن مثالیں ہیں۔ ابراہام لنکن کا جرم یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس نے امریکی ڈالر کو پرائیویٹ ادارے فیڈرل ریزرو بینک کی بجائے براہ راست امریکی حکومت کے اختیار میں دینے کا عندیہ دے دیا تھا۔ صدر کینیڈی کی بغاوت زیادہ شدید تھی، بتایا جاتا ہے کہ اس نے ریزرو بینک کے مقابلے میں خود امریکی حکومت کی طرف سے ڈالر جاری کرنے شروع کر دیئے تھے چنانچہ اسے زیادہ بھیانک سزا دی گئی اور اس کے سارے خاندان کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ آخری فرد اس کا بیٹا کینیڈی جونیئر تھا جس نے بچپن میں اپنے مقتول باپ کی میت کو ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ الوداعی سیلوٹ کیمرے میں ریکارڈ کرایا تھا۔ اسے بیسویں صدی کے آخری برس میں مبینہ طور پر ایک ہوائی حادثے کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا تاکہ باقی سربراہوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ قارون کے خلاف ایسی شدید بغاوت کی سزا یہ ہے کہ نہ صرف ان کو بلکہ ان کی نسل کو بھی مٹا دیا جائے گا، چنانچہ ان کے دماغ ٹھکانے رہیں اور وہ “فرعونیت” پر قانع رہیں، “قارونیت” پر قبضہ کرنے کی جسارت نہ کریں۔ بھٹو اور شاہ فیصل کی غیر فطری ہلاکت بھی اسی حوالے سے معنی خیز ہے کہ انہوں نے لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں آئی ایم ایف کے متوازی ایک اسلامی “بینک یعنی قارون” بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کے افغانستان کو پاکستان میں شامل کرنے اور اس کے بعد پاکستان کو اسلام کا اقتصادی قلعہ یعنی “اسلامی قارون” بنانے کا عندیہ اور اس مقصد کیلئے اسرائیل کی مخالفت میں عالم اسلام کو اکسانا ان گاڈ فادرز کیلئے ناقابل برداشت ہوچکا ہو گا۔ روس کی توڑ پھوڑ بظاہر اس لیے بھی ضروری ہو گئی تھی کہ بحیرہ کیسپین کے مشرق میں بھی تیل کا ایک مزید بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہو چکا تھا چنانچہ اس کو ہتھیانے کیلئے انہیں بینک کو سود ادا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو استعمال کرنا تھا اور ان کمپنیوں کی اس سوشلسٹ معاشرے میں گنجائش نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ بی سی سی آئی نے آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر سوئس بینکوں کے مقابلے میں کالے دھن کا ایک پول بننے کی طرف پیشرفت کرنا چاہی تھی۔

    یہ تفصیلات اور دنیا بھر میں بکھری ہوئی ایسی مثالوں کا ذکر بے پناہ طوالت کا متقاضی ہے اور ویسے بھی چونکہ ہمارے موضوع کا براہ راست حصہ نہیں لٰہذا ہم صرف اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے کہ عالمی سطح پر وطن پرستی کا محافظ یہی ٹولہ ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے، نوبل پرائز اور دیگر عالمی اعزازات، سپورٹس مقابلے، قومی سطح کے میلے اور جشن، قومی ہیرو اور ان کے نام پر منائے جانے والے دن پوری انسانیت کی سطح پر اسی مذہبِ وطنیت کو نفسیاتی استحکام دینے کے وہ انتظامات ہیں جن کا پس پردہ مقصد یہی ہے کہ ان علاقوں کو چھوڑ کر جہاں اس ٹولے کے افراد اور ان کی برادری قبیلے کو خود رہنا ہے اور اپنی جان مال کو محفوظ رکھنا ہے، ان علاقوں کو چھوڑ کر باقی دنیا میں ہر ملک کے مقامی حکمرانوں کے ذریعے قانون کے نام پر عوامی مال و متاع کی لوٹ کھسوٹ اس طرح کی جائے کہ اس میں مذہبی قوتیں مزاحم نہ ہو سکیں اور پھر اس لوٹ کے مال سے دونوں پارٹیاں یعنی ملکی مقامی حکمران اور مرکزی عالمی ٹولہ مل کر انجوائے کریں اور اس انجوائے منٹ میں چرچ اور دیگر مذہبی پیشوائیت کو شامل نہ کرنا پڑے۔ اسی مقصد کیلئے قانون سازی کی بنیاد مذہب کی بجائے وطنیت پر رکھی گئی۔ البتہ جن علاقوں میں اس ٹولے کو خود رہنا ہے وہاں یہ لوگ وطنیت کا تصور زندہ رکھنے کے باوجود زیادہ نقص دار قوانین نافذ نہیں ہونے دیتے اور یوں لوٹ کھسوٹ نہیں مچنے دیتے تاکہ تیسری دنیا کا ذی شعور ذہن بھی اصل زہر پکڑ نہ پائے اور یہ سمجھتا رہے کہ اگر وطنیت کا تصور غلط ہوتا تو دنیا کا ہر ملک غریب ملک ہوتا۔

    ان علاقوں میں جہاں کا موسم خوشگوار ہے، وہ ٹولہ خود رہتا ہے اور اپنی جان مال کو محفوظ رکھنے کیلئے صحت مندانہ قوانین نافذ کراتا ہے تاکہ ان کے معاشرے اور گردونواح میں جرائم اور کرپشن نہ پھیلے، ان علاقوں کو ہم ترقی یافتہ ممالک یا فلاحی مملکتیں کہتے ہیں۔

    ذرا گہرائی میں غور کریں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ وطنیت کے اس تصور کی حیثیت ایک ایسے متبادل مذہب کی سی بنا دی گئی ہے جس میں عوام سے اپنی پرستش کرانے یعنی وطن کی محبت کے نام پر ظالمانہ قوانین نافذ کرنے کیلئے فرعون کو مذہبی پیشوائیت کی تائید درکار نہیں ہوتی حالانکہ بنیادی تصور اس مذہب وطنیت کا بھی بالکل وہی ہے جو یہودیت یا ہندو ازم کا ہے۔ وہاں مذہب پر ایک نسل کی اجارہ داری ہے اور اسی بنیاد پر وہ خود کو ایک قوم کہتے رہے ہیں یعنی کسی فرد کی قومیت کا انحصار اس امر پر ہے کہ اس کے والدین کی قومیت کیا ہے۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص جو ان کی نسل سے نہ ہو، ان میں شامل ہونا چاہے تو اس کیلئے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ بالکل یہی بات وطنیت کے تصور کی بنیاد ہے یعنی ہر فرد کی قومیت کا لیبل خواہ وہ اس کے والدین کی قومیت کی بنیاد پر ہو یا اس کی جائے پیدائش کی بنیاد پر، اس کی پیدائش کے وقت سے ہی اس پر ہمیشہ کیلئے لگ جاتا ہے اور پھر وہ اسی کو قبول یا برداشت کرنے پر مجبور ہوتا ہے یعنی اگر اسے برداشت کرنا پڑ رہا ہوتا ہے تو وہ اسے جب چاہے بدل نہیں سکتا اور اپنی مرضی کی قومیت اختیار نہیں کر سکتا لٰہذا اسی پیدائشی قومیت کو اپنے لیے ذہنی طور پر قبولیت کے درجے تک پہنچانے کیلئے وہ ہر سطح پر اپنی سی کر گزرتا ہے اور اس وقت اس کی نظر میں دوسری اقوام کے افراد کیلئے کسی قسم کا جذبہ انس و اپنائیت نہیں رہتا چنانچہ ان افراد کے خلاف جنگوں اوران سے بھی بڑھ کر بہیمانہ اقدامات اٹھاتے وقت اس کا ضمیر مزاحم ہی نہیں ہوتا اور یوں اس کو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی۔

    ماضی قریب کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی منصوبہ بندی کی ابتدا انیسویں صدی کے آخر میں ہوئی تھی اور اسے عالمی صیہونی سازش Zionist Conspiracy(Protocols of the learned Elders of Zion) کا نام دیا گیا تھا۔ اس سازش کا لب لباب یہ بتایا جاتا ہے کہ صیہونیوں کی نظر میں خود ان کے سوا باقی تمام انسانیت جانوروں حیوانوں کی مانند ہے اور وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ حیوان ان کی غلامی کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ صیہون کسی نظریاتی قوم کا نام نہیں بلکہ یہودیوں کی ایک بالائی نسل کا نام ہے اور مروجہ عیسائیت یا اسلام کی طرح ہر انسان جب چاہے اس نسل میں شامل نہیں ہو سکتا۔

    اس سازش کے ذریعے انہوں نے درحقیقت پوری انسانیت سے اپنی نسل کیلئے غلامی کرانے کا طریق کار وضع کیا تھا۔ وہ طریق کار یہ تھا کہ پوری دنیا کے انسانی معاشروں میں دولت کے زور پر آلہ کار پیدا کیے جائیں، پھر ان آلہ کار افراد کو مالی سپورٹ دے کر ان کے علاقوں میں انہیں حکمران بنوایا جائے اور تب ان کے ذریعے اقوام کو مقروض کرنے کے علاوہ معاشروں میں ایسے قوانین نافذ کرائے جائیں جن کے نتیجے میں معاشروں میں ہوس زر فروغ پائے تاکہ اقتدار کا حصول بھی دولت کا محتاج ہو جائے چنانچہ پہلے ارباب اقتدار اور پھر ان کے ذریعے پوری انسانیت ان یہود کی دست نگر ہو جائے۔ (جمہوریت کے حق میں جو عالمی ذرائع ابلاغ پر اس قدر غوغا مچایا جاتا ہے اس کا پس پردہ محرک بھی یہی ہے کہ ایسے معاشروں میں جہاں عوام کو سستا اور فوری انصاف میسر نہ ہو اور جان و مال عزت و آبرو کے تحفظ کی گارنٹی نہ ملے وہاں جمہوری نظام میں چند سال کیلئے اقتدار حاصل کرنے کیلئے بھی کافی دولت درکار ہوتی ہے۔ مارشل لاء اور آمریت کی مخالفت اسی لیے کی جاتی ہے کہ دولت استعمال کیے بغیر اقتدار غیر معینہ مدت تک کیلئے حاصل کر لینے والے حکمرانوں کے عوام سے مخلص ہو جانے کا احتمال زیادہ قوی ہوتا ہے جبکہ جمہوری نظام میں دولت کے زور پر محدود مدت کیلئے برسراقتدار آنے والے حکام کو سب سے پہلے اپنی دولت کو واپس مع نفع حاصل کرنے کی فکر لگی ہوتی ہے۔)

    سازش کا اگلا مرحلہ یہ تھا کہ انہی حکمرانوں کے ذریعے بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی، دفاع اور ترقیات وغیرہ کیلئے ٹیکس کے نام پر رعایا کی محنتوں کا ثمر ان سے اسی طرح حاصل کر لیا جائے جس طرح باربرداری کے جانوروں سے یا بیگار کیمپ کے قیدیوں سے حاصل کیا جاتا ہے یعنی ان سے خوب محنت کرائی جائے لیکن ان کی محنتوں کا ثمر آلہ کار حکمرانوں کے ذریعے ان پر ٹیکس عائد کر کے ان سے چھین لیا جائے اور ان کے پاس صرف اسی قدر رہنے دیا جائے جس سے وہ مزید محنت کرتے رہنے کے قابل ہو سکیں۔

    دوسری طرف ان آلہ کار حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کو تقویت دینے کیلئے ان کے کالے دھن کو محفوظ کرنے کا اجارہ دارانہ انتظام بھی سوئس بینکوں کے نام سے موجود رکھا گیا تاکہ یہ حکمران ان غیر ملکی قرضوں کو جو انہیں ان کے وطن کی ضرورت کے نام پر دیئے جائیں اور ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو ہڑپ کر کے کالے دھن کی صورت میں محفوظ کرنے کیلئے اسی ٹولے کے سوئس بینکوں میں اپنا اکاﺅنٹ کھولیں اور یوں یہود کی اصل رقم بھی ہر پھر کے مع سود واپس انہی کی جیب میں پہنچ جائے۔

    بتایا جاتا ہے کہ یہ سازشی منصوبہ جب تقریباً سو سال قبل طشت از بام ہوا تو پہلی جنگ عظیم کا محرک بنا، پھر ہٹلر بھی یہود کے خلاف اسی کا انتقامی ردعمل بن کر ابھرا اور اس نے یہودی نسل کو دنیا سے ہی ختم کر دینے کا اعلان کیا لیکن یہ بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے کہ اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی انسانیت اس سازش کے طریق واردات کو سمجھ ہی نہ سکی چنانچہ آج یہ سازش پوری طرح فعال ہو چکی ہے اور عالمی بینکاروں پر مشتمل یہ حکمران ٹولہ انہی صف اول کے صیہونیوں (یہودیوں) پر مشتمل ہے جن کے آباؤ اجداد نے اس سازش کا تانا بانا بنا تھا۔

    اس سازش کا ڈھانچہ نظام بینکاری پر استوار ہے۔ اقتصادیات کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ بینکاری کا یہ نظام دنیا بھر میں ایک ہی مقام پر پُول ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری برسوں میں نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے لوٹ کھسوٹ کا جو نیا طریقہ اختیار کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ اس ٹولے کو یعنی بینک کو سود ادا کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کاروباری اجارہ داری ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور مقامی آلہ کار حکمرانوں کے ذریعے قائم اور محفوظ کی جائے گی تاکہ عوام انہی کمپنیوں کی مہنگی مصنوعات استعمال کرنے پر مجبور ہوں اور زیادہ سے زیادہ سود بینکوں کے ذریعے اس ٹولے کو پہنچے، یہ طریقہ بھی گلوبلائزیشن کے نام سے اسی سازش کا ضمیمہ ہے۔

    ٹیکس چونکہ افراد کی محنتوں کا ثمر چھیننے کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کو ظلم قرار دینے کیلئے کسی خاص بصیرت اور عمیق نگہی کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ اس کے نتیجے میں عوامی انقلاب کا احتمال موجود رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس طریقے سے ایک بڑا طبقہ جو عوام سے یہ ٹیکس یا بیگار چھینتا ہے یعنی جس کے افراد بر سر اقتدار لائے جاتے ہیں، وہ طبقہ بہرحال ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جاتا ہے جو خود کوئی محنت نہیں کرتے اور دوسروں کی محنت پر عیاشیاں کرتے ہیں۔ آسمانی کتابوں میں اس طبقے کو “مترفین” کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا ہے اور اردو میں انہیں حکمران طبقے کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اب چونکہ یہ لوگ خود اپنی محنت کی کمائی پر قانع نہیں ہوتے لٰہذا ان کی طرف سے نہ صرف یہ کہ عالمی قارون کو کچھ نہیں ملتا بلکہ الٹا یہ قارون کی جگہ لینے کے خواب بھی دیکھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے قارون کو بھاری خرچ پر ان میں سے ایسے باغی حکمرانوں کی سرکوبی بھی کرنا پڑتی ہے۔ ڈبلیو ٹی او اور گلوبلائزیشن کا تصور اسی احتمال کیلئے قارونی پیش بندی ہے۔ اب بظاہر منصوبہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ ممالک کی بجائے بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سودی قرض دیئے جائیں گے، یہی کمپنیاں مختلف ممالک میں ترقیاتی کاموں کو بھی کمرشل بنیادوں پر انجام دیں گی اور اپنی مہنگی مصنوعات بھی فروخت کریں گی اور سروسز Services بھی فراہم کریں گی۔ اس کے نتیجے میں مترفین کا طبقہ بھی جو اِن مصنوعات کا سب سے بڑا گاہک ہو گا، ان مصنوعات کی قیمت کی شکل میں اپنے حصے کا سود قارون کو ادا کرے گا جبکہ دوسری طرف ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں کسی ایسی کمپنی کو سر اٹھانے نہیں دیا جائے گا جو ان عالمی مہاجنوں کی مقروض نہ ہو چنانچہ دنیا بھر میں پرائیویٹائزیشن کا عمل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اب ممالک کو قرضے دینے کا سلسلہ ختم کرنے کیلئے امیر ممالک (مثلاً جی ایٹ کے ممالک) کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گا جن میں بنیادی مطالبہ یہ ہو گا کہ غریب ممالک کے قرضے معاف کیے جائیں۔ تب ان ممالک کے قرضے معاف بھی کیے جائیں گے جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کیلئے اپنے ملک کی منڈی پیش کر دیں، اب یہ تو قدرتی سی بات ہے کہ ان حالات میں مزید قرضے جاری کرنے کا رسک کوئی امیر ملک بھی نہیں لے گا۔ روس کی توڑ پھوڑ کے بعد اس کی سپر پاور کی حیثیت معدوم کرنے کا مقصد اور پھر عالمی امن کے نام پر ممالک کے باہمی تنازعات ختم کرنے اور موسٹ فیورٹ نیشن Most Favourite Nation کی اصطلاح کو رواج دینے کا محرک بھی یہی ہے کہ دفاع کے نام پر بھی ممالک کو قرضے جاری کرنے کا سلسلہ ختم کیا جا سکے۔ اس کے بعد کسی حکومت کیلئے قارون سے قرض مانگنے کا جواز ختم ہو جائے گا کیونکہ دفاع کی ضرورت ختم کروا دی جائے گی اور ترقیاتی کام مثلاً سڑکوں وغیرہ کی تعمیر حکومت کی بجائے ملٹی نیشنل کمپنیاں کمرشل بنیادوں پر کیا کریں گی یعنی ان سے استفادہ حاصل کرنے والوں سے اس استفادے کی قیمت وصول کیا کریں گی۔ عام آدمی کیلئے جو اقتصادیات کی گہرائیوں میں نہیں اترتا، اس عمل کو سمجھنے کی ایک عمدہ مثال موٹر وے ہے جو پرائیویٹ سیکٹر میں بنائی جاتی ہے اور جہاں ہر پرائیویٹ گاڑی گزرنے کیلئے ٹکٹ کی قیمت ادا کرتی ہے خواہ وہ پرائیویٹ گاڑی کسی وزیر کی ہی کیوں نہ ہو۔ اس قیمت میں بینک کا سود بھی شامل ہوتا ہے۔

    اب قارون کا ہدف یہی ہو سکتا ہے کہ ان ممالک میں جہاں وہ خود رہتا ہے اور جنہیں ہم فلاحی ممالک کہتے ہیں، ان ممالک کے غیر یہودی باشندوں کو بھی غلام بنائے اور اس کیلئے لازم ہے کہ یہودی ساری دنیا سے ہجرت کر کے اپنا ایک الگ ملک بنا لیں تاکہ دیگر معاشروں میں مفاد پرستانہ قوانین نافذ کروا کر باقی انسانیت سے بھی اس کی محنتوں کا پھل چھینا جا سکے۔اس مقصد کیلئے دنیا کا سب سے زرخیز اور پورے سال کے دوران سب سے خوشگوار موسم کا حامل علاقہ یعنی فلسطین اور اس کے وسیع و عریض ملحقہ علاقے اور ممالک کو انہوں نے اپنا بہت بڑا ملک گریٹر اسرائیل Greater Israel بنانے کیلئے منتخب کر لیا ہے چنانچہ اب اس منصوبے کی انتہا یہ محسوس ہوتی ہے کہ جس طرح وطنیت کو مذہب کی حیثیت دے کر ہامان یعنی مذہبی پیشوائیت کو معاشرے میں بے حیثیت کیا گیا ہے اسی طرح اب فرعون کی خود مختاری بھی معدوم کی جائے۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ساری دنیا پر ایک ایسی سپریم پاور یا اتھارٹی مسلط کر دی جائے جو کسی فرعون یعنی کسی ایک ملک کے حاکم کے ماتحت نہ ہو بلکہ اقتصادی بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے براہ راست آئی ایم ایف وغیرہ، غرض ایسے عالمی مالیاتی اداروں کے ماتحت ہو جن کے مالکان وہ خود یعنی گروہِ قارون ہیں،جبکہ دوسری طرف سارے فرعون یعنی سربراہان مملکت اس سپریم پاور کے چارٹر کی رو سے اپنے ملکی مالیاتی امور میں اس اتھارٹی کے بالواسطہ طور پر ماتحت اور آلہ کار ہوں۔ ایک صدی پہلے سامنے لائے گئے صیہونی منصوبے میں اس قوت کے مرکز کیلئے یورپ کا تعین موجود ہے چنانچہ یورپ کی مشترکہ کرنسی اور یورپی یونین کا قیام اسی ہدف کی طرف پہلا قدم کہلا سکتا ہے تاہم یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ منصوبے کے اگلے مراحل مثلاً مشترکہ کرنسی یعنی یوروکو امریکی ڈالر کے مساوی مستحکم کرنا اور پھر عالمی سطح پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی تجارت اور درآمد وبرآمد کے حسب منشا قوانین نافذ کرنے کیلئے ڈبلیو ٹی او وغیرہ کے ذریعے زمین ہموار کرنا،نیل سے فرات تک وسیع تر گریٹر اسرائیل کا قیام اور پھر اس اسرائیل کی مخالف اس کی پڑوسی عرب اقوام کو ایک بہت بڑی جنگ کے ذریعے عیسائی دنیا کے ہاتھوں نیست و نابود کرانا اور پھر دنیا کی سب سے امیر سب سے ترقی یافتہ اور سب سے طاقتور ہتھیاروں کی حامل اس مملکت میں امریکہ سمیت دنیا بھر سے بنی اسرائیل کی آبادکاری کے بعد گریٹر اسرائیل کی سرپرستی میں یورپی یونین جیسے کسی ادارے کو ایک سپریم پاور بنانے کیلئے امریکہ کا شیرازہ بکھیرنا یعنی روس کی طرح امریکہ کے ٹکڑے کرنے کیلئے ڈالر جاری کرنے والے ادارے فیڈرل ریزرو بینک آف امریکہ کا جو خود انہی صیہونیوںکی ملکیت ہے، ڈالر کا تمام محفوظ ذخیرہ مارکیٹ میں پھینک کر دیوالیہ ہونے کا اعلان اور پھر ڈالر کا راتوں رات ردی کاغذ بن جانا، یہ سب مراحل آناً فاناً ممکن نہیں، بلکہ شاید اس کیلئے ایک پوری نسل کا فاصلہ انہیں طے کرنا پڑ سکتا ہے تاہم یہ بات محل نظر ہے کہ گمنام دہشت گردی کے واقعات ایک تواتر کے ساتھ نہ صرف جاری بلکہ روز افزوں بھی ہیں اور جن کے ذمہ دار کچھ ایسے پر اسرار لوگ بتائے جاتے ہیں جنہیں مسلمان قرار دیا جا رہا ہے، چنانچہ اس تمام شوروغل میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی خلیج وسیع تر ہوتی جا رہی ہے جسے نہایت آسانی سے اسرائیل مخالف عربوں اور عیسائیوں کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں منتج کیا جاسکتا ہے اوریوں عالمی سپریم گورنمنٹ کی داغ بیل رکھی جا سکتی ہے۔

    یہ تمام عمل اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب اس کے تحفظ کیلئے یعنی عام آدمی کو غلام بنانے کیلئے قانون سازی کے وقت وطن پرستی کی جڑیں عوام میں گہری ہو چکی ہوں چنانچہ اس بُت کی ممکنہ مخالفت کا سدباب کرنا بھی ان کیلئے ضروری تھا۔ یہ مخالفت صرف مذہبی حلقوں سے ہی ممکن تھی لٰہذا اس کیلئے ایک طرف سیکولرازم کی آڑ ڈھونڈی گئی اور انسان کو یہ باور کرانے کا پراپیگنڈا ہوتا رہا کہ مذہب محض اندھے عقیدےDogma کا نام ہے اور اس کا مادر وطن کی بقاء اور استحکام کے نام پر بننے والے آئین اور قانون سے کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ مذہب ہر شخص کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے۔۔۔۔۔ اور دوسری طرف زر پروردہ مذہبی پیشوائیت پروان چڑھائی گئی جس کا کام یہ تھا کہ فرقہ وارانہ تعصبات پیدا کر کے عوام کو باہم الجھائے رکھے اور انہیں فساد کی اصل جڑ کی جانب متوجہ نہ ہونے دے۔

    سچ تو یہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب میں ان دونوں کرداروں کی یعنی اس عالمی ٹولہ اور اس کے زر پروردہ آلہ کار حکمرانوں کی نشاندہی موجود ہے۔ انہی کے نام بالترتیب قارون اور فرعون بتائے گئے ہیں۔ قارون معاشرے میں ف
     
  17. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    8۔مفاد پرستی کا راستہ مسدود کرنےو

    8۔ مفاد پرستی کا راستہ مسدود کرنے والے قانون کی اساس

    معاشرے میں عزت اور برتر مقام حاصل کرنا انسان کی ضرورت ہے۔ قارون صرف یہ کرتا ہے کہ فرعون کے ذریعے ایسے قوانین نافذ کراتا ہے جن سے یہ ضرورت پوری کرنے کا راستہ صرف دولت رہ جائے۔ عائلی قوانین میں ہر صوابدیدی قدغن، صنعت و تجارت اور آزادانہ درآمد و برآمد پر ہر پابندی، لیبر ایکٹ اور ٹیکس ڈیوٹی لائسنس سرچارج وغیرہ اسی ضمن میں آتے ہیں۔ اب چونکہ اس نے عالمی مالیاتی سسٹم ایسا اجارہ دارانہ بنایا ہوا ہے کہ دولت کا بہاﺅ ازخود اسی کی جانب رہتا ہے اور دولت کے تمام ذخائر خواہ وہ بلیک منی ہو یا ممالک کے قومی ریزرو اثاثے، سب اسی کے پاس ہی اکٹھے ہو سکتے ہیں لٰہذا پوری انسانیت اس کی بالواسطہ طور پر محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی احتیاج کے باعث تیسری دنیا کے ممالک میں عوام اپنی محنتوں کا ثمر اسے پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں ایسے قانون کی آزادی حاصل ہو جائے جس کے نتیجے میں عزت اور برتر سماجی مقام حاصل کرنے کا راستہ دولت نہ رہے اور برتری کا معیار وہ بن جائے جو کسی سے خریدا یا چھینا نہیں جا سکتا اور جس کی کوئی حد نہیں ہوتی یعنی اخلاق و اطوار، رویہ و سلوک اور سادگی اور سچائی وغیرہ.... تو دولت کا بہاؤ قارون کی جانب ہونے کے باوجود کسی کو دولت مندی کی احتیاج بلکہ پروا ہی نہ رہے۔ تب وہ معاشرہ نہ صرف قارون اور فرعون کے چنگل سے نکل جائے گا بلکہ دنوں ہفتوں میں دنیا کے خوشحال ترین معاشرے کا درجہ حاصل کر لے گا۔

    یہ قانون کون سا ہے؟ اس تحریر کا بنیادی موضوع یہی ہے، لیکن اس کی جستجو سے پہلے لازم ہے کہ جرم کے دوسرے محرک یعنی جسمانی تعلق کی ضرورت کو بھی مدنظر رکھا جائے۔

    فرسٹریشن کے پیدا ہونے کی دوسری اور آخری وجہ جنس ہے۔ بہت سے سنگین جرائم جن کی بنیاد دولت نہیں ہوتی، بلاواسطہ یا بالواسطہ جنس سے متعلق ہوتے ہیں۔ بہت سی بیماریاں مثلاً ایڈز، جنس سے وابستہ ہیں۔ منشیات، بلکہ سگمنڈ فرائڈ کی رائے میں تو تمباکو نوشی تک کے پس منظر میں جنس کارفرما ہوتی ہے۔ یہی وہ ضرورت ہے جو معاشرے میں سنگین جرائم کے وقوع پذیر ہونے کا دوسرا بڑا سبب ہے۔

    اب ہمارے لیے راہ فکر بن گئی اور ہمارے سامنے وجوہات جرم کا خاکہ ابھرنا شروع ہو گیا۔ اب ذرا سا کلوز اپ میں جائیں گے تو اس خاکے کے خط وخال اور وہ قانونی سقم صاف دکھائی دے جائیں گے جن کے ذریعے مفاد پرستوں نے معاشرے میں فساد برپا کر رکھا ہے۔
     
  18. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    9۔ محرکات جرائم کا حتم

    9۔ محرکات جرائم کا حتمی تعین

    ہر قسم کے جرائم کے گہرے تجزیئے کے بعد ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی، ہر قسم کے جرائم کے محرکات صرف دو عوامل ہیں، افضلیت کی خواہش اور جنس۔ انسان کی تمام فطری ضروریات میں سے صرف یہی دو ایسی ہیں جو اپنی خاطر خواہ تکمیل نہ مل سکنے کی وجہ سے دیگر ضروریات کی نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ دو ضروریات انسان کیلئے مسئلہ نہ رہیں تو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی غذا، لباس، رہائش وغیرہ کو بھی خود بخود تکمیل کا آسان راستہ میسر آ جائے گا کیونکہ ہر کسی کو اس ضمن میں قیمتی لباس، عالیشان رہائش، پرتعیش سواری وغیرہ حاصل کرنا ذریعہ عزت ہونے کی بجائے باعث تحقیر دکھائی دے رہا ہو گا۔

    ہم نے دنیا بھر میں ہونے والے ہر قسم کے جرائم کے محرکات صرف دو عوامل قرار دیئے ہیں یعنی برتری کی طلب اور جنس۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس سے متفق نہ ہوں اور خوف، انتقام، غیرت اور اشتعال وغیرہ کو بھی جرم کا محرک سمجھتے ہوں۔ یہاں ان سے مزید غور کرنے کی استدعا ہے تاکہ وہ محرک اور جرم کی ابتدا کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔

    دراصل انتقام، خوف اور اشتعال وغیرہ کی نفسیاتی حیثیت جرم کے محرک کی نہیں بلکہ جرم کے تسلسل Continuety کی ہے.... اور جرم کا پھیلاؤ یا اس کے وقوع پذیر ہونے کا درمیانی عمل اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے بلکہ اس وقت جرم کی ابتدا کا نکتہ زیر نظر ہے۔ جب کوئی شخص انتقام، خوف، غیرت یا اشتعال کے زیراثر کوئی جرم کرتا ہے تو وہ دراصل ماضی میں ہونے والے کسی جرم کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ ماضی میں ہونے والے اس پہلے جرم کے محرک کو دیکھیں کہ جس کی وجہ سے انتقام یا غیرت کا جذبہ پیدا ہوا تو وہ یقیناً انہی دو عوامل یعنی برتری کی ضرورت یا جنس میں سے ہی کوئی ہو گا۔

    ہم جانتے ہیں کہ انسان کی ضروریات زندگی کو تکمیل کا راستہ فراہم کرنا معاشرتی قانونی نظام کی ذمہ داری ہے۔ جو نظام اس ذمہ داری کو خاطر خواہ طور پر نبھا نہ سکے وہ یا تو غلط ہوتا ہے یا نامکمل، مکمل ترین نظام کی پہچان یہی ہے کہ اس کی موجودگی میں تمام انسانی ضرورتوں کو تکمیل کے مثبت اور محفوظ راستے دستیاب ہوں یعنی برتری کی ضرورت سمیت دیگر ضروریات زندگی کی خود کو فراہمی کیلئے انسان کو دولت کی احتیاج کے بغیر راستہ دستیاب ہو اور جنسی ضرورت کی آسودگی کیلئے اسے مالی، ذہنی، جذباتی یا نفسیاتی دباؤ کا سامنا نہ ہو اور امراض یعنی انفیکشن اور ایڈز کا کوئی احتمال نہ ہو۔

    دنیا بھر میں مروج کوئی بھی نظام معاشرت ان دو کسوٹیوں پر پورا نہیں اترتا۔

    سوشلزم/کمیونزم میں سب سے بڑی حماقت یہ ہے کہ یہ نظام بنیادی طور پر انسان کی ہر قسم کی فرسٹریشن کو معاش تک محدود کر دیتا ہے اور نفسیاتی، جنسی اور اس کے ضمن میں طبی ضرورت کے بارے میں کوئی قانونی لائحہ عمل طے نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں غربت کے بارے میں بھی جو جابرانہ لائحہ عمل اس میں مرتب ہے وہ بذات خود نفسیاتی پہلو سے انسان کیلئے زہر قاتل ہے کیونکہ وہ غیر منقولہ ذاتی ملکیت کی ہی نفی کر دیتا ہے یا اسے بہت محدود کرتا ہے اور یوں انسان کو لاشعوری طور پر دل و جان سے کی جانے والی پرخلوص اور حتی المقدور زیادہ سے زیادہ محنت سے روک دیتا ہے کیونکہ اس کیلئے ایسی محنت کا کوئی جذبہ محرکہ نہیں ہوتا چنانچہ یہ نظام عوام کی طرف سے ایسی پر خلوص محنت کیلئے محض ان کے جذبہ ایثار و قربانی پر انحصار رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ کسی بھی قانون کا بہت بڑا سقم ہوتا ہے کہ وہ اپنی بقا کیلئے تمام عوام کے اخلاق و ایثار کی بلندیوں پر فائز ہونے اور پھر ان کے فرشتہ سیرت بنے رہنے کا محتاج ہو۔

    مسائل کو غربت تک محدود سمجھ لینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد بہت سے ایسے افراد بھی فرسٹریشن کے شکار دکھائی دے رہے ہیں جن کو دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔

    جمہوریت یا آمریت کے تصورات سرے سے ہی سماجی نظام کا درجہ نہیں رکھتے، یہ تو صرف نظریات ہیں اور ایک زمین کی طرح ہیں جس پر سماجی نظام کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ ان کی مثال کھانے کے برتن کی سی ہے، اصل کھانے کی نہیں۔ اصل کھانے کی مثال وہ معاشرتی قوانین ہیں جو نظام کے اندر کسی نظریئے مثلاً سیکولرازم، تھیوکریسی یا مطلق العنان مقننہ یا بادشاہت وغیرہ کے عنوان سے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ اگر قوانین غیر فطری ہوں، اگر کھانے میں زہر ملا ہوا ہو تو برتن بدل لینے سے یعنی جمہوریت یا آمریت کے نظریات کی جگہ بدل لینے سے معاشرتی ابتری میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

    اس جائزے سے ہم اپنے ٹارگٹ کا تعین کر سکتے ہیں کہ درحقیقت ہمیں معاشرتی نظام کا سقم کہاں ڈھونڈنا ہے۔

    انسانی عقل کی مکمل ترین اور بے عیب نظام معاشرت کو ترتیب نہ دے سکنے کی ایک وجہ یک طرفہ کارروائی ہے۔ جب ہمارا کوئی جینیئس نظام ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے تو مسائل کو صرف اسی نظر سے دیکھتا ہے جس میں وہ خود ماہر ہوتا ہے۔ اقتصادیات کا ماہر نظام ہائے روزگار، مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ اور دولت کی تقسیم کے عمل کو بنیادی خرابی سمجھتا ہے۔ نفسیات اور طب کے ماہرین اپنے بڑوں کی تھیوریوں پر سچے دل سے ایمان لا چکے ہیں اور انہی کے اندر رہتے ہوئے بنیادی خرابی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ سوشیالوجسٹ ابلاغ عامہ یعنی پراپیگنڈے کی ضرورت پر زور دیتا رہتا ہے۔ سائنس دان جدید سائنس اور طب سے عام آدمی کی ناواقفیت اور ترقی کی کمی یا زیادتی کی طرف پھسلتا ہے۔ سیاستدان ریاستی نظریہ انتخابات، طرز حکومت اور الیکشن کے دھاندلی والے ہتھکنڈوں کو تمام تر خرابیوں کی بنیاد قرار دینے لگتا ہے۔ غرض ہر جینیئس صرف اسی میدان میں تمام مسائل کا حل ڈھونڈنا چاہتا ہے جس میں وہ خود ماہر ہوتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال سوشلزم ہے۔ کارل مارکس سے یہی بنیادی غلطی ہوئی کہ اس نے تمام مسائل کا سبب دولت کا استعمال نہیں بلکہ اس کی تقسیم کا عمل سمجھا۔

    معاشرتی نظام کو بے عیب بنانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم بیک وقت سبھی انسانی ضروریات کو مدنظر رکھتے جبکہ ہم ان ضروریات کا تعین ہی نہیں کر سکے چنانچہ ہم نے یہ وطیرہ اپنایا کہ جس میدان کا مسئلہ سر ابھارتا، صرف اسی سے متعلقہ قوانین کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگتے اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیتے۔ ہم یہ حقیقت بھول جاتے کہ تمام انسانی ضروریات ایک دوسری میں گویا پیوست ہیں اور کوئی بھی قانون بناتے وقت ہم زندگی کے دوسرے پہلوؤں سے صرف نظر نہیں کر سکتے تاکہ کسی دوسری بنیاد کو زد نہ پہنچے۔

    آج ہوتا یہ ہے کہ جب کوئی معاشی مسئلہ سر ابھارتا ہے تو ہم اس کا نفسیاتی پہلو سمجھے بغیر معاشی قوانین میں ترمیم یا اضافہ وغیرہ کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی سماجی الجھن نمودار ہوتی ہے۔ اس کے حل کیلئے مزید قوانین بناتے ہیں اور تب امن و امان یا عائلت کا مسئلہ ابھر آتا ہے۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں جرائم، بدعنوانی اور دیگر سماجی برائیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ تب ہم جھنجھلا کر سزائیں شدید اور سخت کرنا شروع کر دیتے ہیں مگر اس سے جرائم کی شرح میں کیا کمی ہوتی، الٹا ہوس زر اور آپا دھاپی زور پکڑنے لگتی ہیں۔ اس ساری خرابی کی وجہ یہ ہے کہ ہم نظام ترتیب دیتے وقت انسان کی تمام ضروریات کو بیک وقت مدنظر نہیں رکھتے۔

    یکے بعد دیگرے قوانین پر قوانین بنانے کے باوجود ہم تاریکی میں رہتے ہیں تو ہمارے پاس سزاؤں کو شدید اور سخت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا اور یہ ہماری عقلی بے بسی کا اعتراف ہے۔ اگر ہم معاشرتی نظام کو مرتب کرتے وقت پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیتے کہ ہر قانون کو ترتیب دیتے ہوئے اس کے تمام ممکنہ Side Effectsکا حل فراہم کیے بغیر اسے معاشرے میں نافذ ہی نہیں کیا جا سکتا تو یقیناً چھوٹے چھوٹے قوانین یکے بعد دیگرے جنم دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور ایک ہی جامع نظام کی تشکیل پر ہماری توجہ مرکوز ہو جاتی۔

    یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماضی میں کبھی ان خطوط پر بھی کوشش ہوئی ہو کہ معاشرتی نظام میں ایک ایسا قانونی باب تخلیق ہو جائے جو انسان کی تمام تشنگی کے ہر پہلو سے سیراب ہونے کا راستہ مہیا کر سکے مگر یہ کوشش بھی ناکام رہی جیسا کہ آج کے حالات سے ظاہر ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ قانون ترتیب دینے والے لوگ انسان کی بنیادی ضروریات اور حقوق کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ یہی سوچ کر اس تحریر میں سب سے پہلے انسانی ضروریات کا نفسیاتی مشاہدہ کیا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں کچھ ایسے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں جو شخصی آزادی، بنیادی حقوق اور انسان کی جنسی ضرورت کے بارے میں جدید علوم کے مروجہ تصورات کو ہی غلط ثابت کر رہے ہیں۔

    اس عمل کے بعد اُس معاشرتی نظام کو ترتیب دیا گیا ہے جس کے بارے میں ہمیں پورا یقین ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی بھی فطری انسانی بنیادی ضرورت کو تکمیل کا مثبت اور محفوظ راستہ بند نہیں مل سکتا۔ اس یقین کا ثبوت وہ تجویز ہے جس پر اس قانون کا ڈھانچہ مرتب ہے، اور وہ تجویز یہ ہے کہ یہ قانون کسی فرد کو بھی صرف اپنے تحت چلنے پر مجبور یا پابند نہیں کرتا بلکہ یہ آئین کی دستاویز میں ایک اضافی باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرد اس قانون سے جزوی یا کلی طور پر متفق نہ ہو یا کسی ایک شعبہ زندگی میں اس قانون کی اپنے لیے Application مناسب نہ سمجھے تو اسے پورا حق اور اختیار ہے کہ وہ کسی دوسرے متبادل نظام کے مطابق اپنی پوری زندگی یا کسی بھی شعبہ زندگی کی ترتیب وضع کر سکتا ہے۔ یوں نہ صرف کسی بھی فرد کیلئے اس قانون سے اختلاف یا اعتراض کی بنیاد بھی ختم ہو رہی ہے بلکہ انسانی حقوق کی اساس کے مطابق ہر فرد کیلئے اپنی زندگی کا انداز ترتیب دینے کیلئے اپنی مرضی کے قانونی باب کو جزوی یا کلی طور پر منتخب کرنے یا اسے چھوڑ دینے کی ہر وقت آزادی بھی میسر رہتی ہے.... اور ظاہر ہے کہ یہ قانونی فراخدلی کی آخری حد ہے۔

    آیئے اب اس قانون کو ترتیب دینے کے عمل کا آغاز کریں۔
     
  19. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    10۔ قانون کے خط وخال

    10۔ قانون کے خط وخال

    جیسا کہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ ایک جامع قانون مرتب کرنے کیلئے انسان کی بنیادی ضرورتوں کی نوعیت کو سمجھنا لازم ہے۔ ہم یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ آج کی جدید تعلیمات کی روشنی میں انسانی حقوق اور جنس وغیرہ کے جو تصورات انسانی ذہن پر ثبت ہوتے ہیں انہیں بنیاد بنا کر ترتیب دیئے گئے معاشرتی نظاموں نے جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہلے انسانی حقوق اور جنس کے ضمن میں اپنے ان خود ساختہ تصورات کا اپنڈکس نکالنا ہو گا جو ہم انسانی ضرورت کی نوعیت کے بارے میں سمجھے بیٹھے ہیں۔ ہمیں جرم کی نہیں بلکہ محرکات کی تفتیش سے ابتدا کرنی ہو گی۔

    ہم دیکھ چکے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے تمام جرائم اور ہر قسم کی سماجی برائیوں کے محرکات صرف دو عوامل ہیں، برتری کی طلب اور جنسی تشنگی۔ کوئی بھی فرسٹریشن خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، انہی دو عوامل میں سے کسی کے ضمن میں آتی ہے۔ یہی دو انسانی ضروریات ایسی ہیں جو تعیش، نمودونمائش، اختیارات اور عہدہ، شہرت یا نفسیاتی یا جنسی بیماریوں اور جرائم کی صورت میں اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں لٰہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر انہی دو عوامل یعنی برتری کی طلب اور جنسی تشنگی کو تکمیل کا مثبت اور محفوظ راستہ مل جائے تو جسمانی تحفظ کی ضرورت خود بخود مسائل کے دائرے سے باہر ہو جائے گی۔

    اب ہم ان دونوں عوامل کا باری باری گہرائی سے جائزہ لیں گے۔
     
  20. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    12۔ پہلا عامل.... برتری یا افضلیت کی

    12۔ پہلا عامل.... برتری یا افضلیت کی طلب

    ہم جان چکے ہیں کہ برتری کی خواہش انسان کی وہ ضرورت ہے جو جسمانی تحفظ کی ضرورت یعنی غذا، لباس، رہائش وغیرہ کی نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہے اور انسان دوسری ضرورت یعنی جسمانی تحفظ کی ضرورت کی تکمیل کیلئے وہی انداز اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے اس کی دیگر انسانوں پر امتیازی حیثیت یا افضلیت ثابت ہوتی ہو۔ غذا، لباس اور دیگر رہن سہن میں پرتعیش اور قیمتی کے انتخاب کی وجہ یہی برتری کی طلب ہے۔

    آج کے تمام معاشروں میں اجتماعی و انفرادی، ہر طرح سے برتری کی پہچان دولت کی ملکیتی مقدار ہے۔ اس کا اجتماعی قومی اظہار سائنسی یا فوجی قوت کے زور پر اور انفرادی اظہار سامان تعیش اور نمودونمائش کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ دولت کا حصول انسان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے اعلٰی اور برتر معاشرہ اسے سمجھا جاتا ہے جہاں فی کس آمدنی کی شرح دوسروں سے زیادہ ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اصل ضرورت اپنی افضلیت اور برتری تسلیم کرانا ہے اور دولت مندی کی حیثیت اس ضرورت کی تکمیل کیلئے اکلوتے دستیاب راستے کی ہے۔ دولت بذات خود کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ بنیادی ضرورت کی تکمیل کیلئے اکلوتے راستے پر اجارہ داری کی وجہ سے ہر کسی کی مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے اور در حقیقت انسان کی الجھن کا باعث اس کی ملکیتی دولت کی کمی نہیں بلکہ معاشرے میں اس دولت کی اجارہ داری ہے لٰہذا ہمارا ٹارگٹ سوشلزم کی طرح ملکیت کے حق کو ختم کرنا نہیں بلکہ دولت کی اس اجارہ داری کو ختم کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے آیئے ہم ان تصورات کے تجزیئے سے ابتدا کریں جو یہ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک معاشرے کی فی کس آمدنی کا تصور ہے۔

    انسان اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے دو طریقوں سے دولت حاصل کرتا ہے، اپنی خدمات کے عوض یا سرمایہ کاری سے منافع حاصل کر کے۔ دونوں صورتوں میں بنیادی مقصد دولت حاصل کرنا نہیں بلکہ برتری کی طلب سمیت تینوں فطری ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ دونوں طریقوں سے یعنی اجرت یا منافع سے حاصل شدہ دولت آمدن کہلاتی ہے اور اس کے مجموعے کا اوسط نکال کر ہم کسی معاشرے کی فی کس آمدنی کا تعین کرتے ہیں۔ ہم اسے برتری کی علامت سمجھنے کے اس حد تک عادی ہو چکے ہیں کہ الیکشن کے وقت انتخابی منشوروں تک میں اس کو مرکزی جگہ دیتے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فی کس آمدنی کے اعدادوشمار کی بنیاد پر الیکشن جیتتے اور ہارتے ہیں حالانکہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فی کس اوسط آمدنی میں کمی یا اضافے سے ضروریات زندگی، انفرادی برتری کی طلب اورطبقاتی درجہ بندی کی فرسٹریشن کے باعث ہونے والے جرائم اور سماجی برائیوں کا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات شاید وضاحت کے بغیر سمجھ میں نہ آئے، اس لیے وضاحت پیش خدمت ہے۔

    جب کوئی فرد دوسروں پریعنی اپنے عزیزواقارب اور شناساﺅں دوستوں وغیرہ پر اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے دولت کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے تو اگر وہ کامیاب ہو جائے اور اس کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے جس کا وہ معاشرے میں دکھاوا کر لے تو یقیناً ایک دفعہ تو اسے تسکین محسوس ہو جائے گی اور اسے ان لوگوں پر اپنی برتری کا احساس ہو جائے گا جو اس کے مدنظر ہیں، مگر یہ سب کچھ بہت تھوڑی دیر کیلئے ہو گا اور کچھ ہی مدت کے بعد وہ لوگ جن پر وہ اپنی برتری ثابت کر چکا ہے، اس کے مد نظر نہیں رہیں گے بلکہ اس کی توجہ کا مرکز وہ لوگ ہو جائیں گے جو کہ اب اس کی انکم بریکٹ میں ہیں یعنی دولت اور گلیمر کے توازن میں اس کے ہم پلہ ہیں۔ اب وہ ان انکم بریکٹ کے افراد پر اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے فرسٹریٹڈ ہونے لگے گا جبکہ دوسری طرف احساس کمتری میں مبتلا وہ لوگ ہوں گے جن پر وہ اپنی افضلیت ثابت کر کے انہیں مزید فرسٹریشن کا شکار بنا چکا ہے۔

    اس مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ فی کس آمدنی میں اضافے سے انسانوں کی مجموعی فرسٹریشن اور سماجی برائیوں یا جرائم کی شرح میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، کمی نہیں ہو سکتی۔

    اگر اس مثال سے پوری طرح وضاحت نہ ہو سکی ہو تو ایک اور مثال سے مزید وضاحت ہو جائے گی۔

    فرض کیجیے کسی غریب معاشرے کے تمام افراد کو فی کس ایک کلو سونا مل جائے تو بتایئے کہ کیا دولت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن ختم ہو جائے گی؟ جہاں تک ہم سمجھتے ہیں، یہ فرسٹریشن ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جائے گی کیونکہ آج کے معاشروں میں برتری کا انحصار زیادہ ملکیتی دولت کی موجودگی یا عدم موجودگی پر نہیں بلکہ دولت مندی کی دوسروں سے بڑھ کر نمائش اور اظہار پر ہے۔ اگر معاشرے کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ جتنی دولت خود اسے ملی ہے اتنی ہی مقدار میں دوسرے افراد کو بھی ملی ہے تو فی کس آمدن بڑھ جانے اور سب کا معیار زندگی قدرے پرتعیش ہو جانے کے باوجود انفرادی برتری کی طلب پوری نہیں ہو گی، فرسٹریشن میں کوئی کمی نہیں ہو گی، دولت مندی میں دوسروں سے بڑھنے کی ہوس برقرار رہے گی اور سماجی برائیاں اور جرائم جنم لیتے رہیں گے۔

    اس جائزے کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ فی کس آمدنی یعنی دولت مندی کے حجم میں اضافہ مسائل کا حل قطعی نہیں ہے جس کیلئے ہم جنونی ہوئے جا رہے ہیں۔ رہی یہ بات کہ دنیا بھر کے سیاستدان فی کس آمدنی میں کمی کو فرسٹریشن کا سبب کیوں کہتے ہیں؟.... تو ظاہر ہے کہ اس کی وجہ ان کی سیاست ہے۔ انہیں ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی منفی سہارے کی ضرورت ہے اگر وہ محض اخلاقیات اور اقدار کو ہی بنیاد بنا کر ووٹ حاصل کرنا چاہیں تو یہ صورت حال ان کے ایسے خودغرضانہ مقاصد کو ہی زندہ نہیں رہنے دیتی جن کی خاطر وہ سیاست کو اپنا کاروبار بنائے ہوتے ہیں۔

    اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ فی کس آمدنی میں اضافے کے باوجود کسی معاشرے کے افراد میں انفرادی برتری کی طلب، فرسٹریشن اور جرائم تو ویسے ہی رہتے ہیں البتہ اجتماعی برتری کو قدرے تسکین پہنچ سکتی ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں جب وہ اضافہ صرف اسی معاشرے میں ہوا ہو۔ اگر دیگر معاشروں میں بھی جو اس کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شریک ہیں، یہی اضافہ ہو جائے تو اس اضافے سے اس اجتماعی ضرورت کو بھی رتی برابر تسکین نہیں ملے گی۔ اس سے یہ سمجھ لینا کچھ دشوار نہیں کہ ہمارے جو مخلص ماہرین معاشیات و سیاسیات بھی دولت مندی اور آمدن کے دائرے سے باہر نکلنا نہیں چاہتے انہیں ابھی تک انسانی ضرورت کی حقیقت کا ادراک نہیں ہے۔

    ہم سمجھ چکے ہیں کہ معاشرے میں افراد کی ملکیتی دولت کی مقدار میں اضافہ یا کمی کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے لٰہذا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس پراپیگنڈے سے اثر کیوں لیتے ہیں اور وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر دولت مندی کا اظہار معاشرے میں افضلیت اور برتری کی پہچان کے طور پر اجارہ داری حاصل کر چکا ہے۔

    جب کوئی شخص اس بنیادی ضرورت یعنی برتری کی طلب کو پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ لا محالہ کسی ایسی چیز کی جستجو کرتا ہے جو اس کے پاس اتنی مقدار میں ہو جائے کہ اتنی مقدار میں ان دوسرے افراد کے پاس نہ ہو جن پر وہ اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے۔ فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ چیز ایسی ہونی چاہیے جو کسی سے چھینی یا خریدی نہ جا سکتی ہو تاکہ اسے حاصل کرنے کی مسابقت میں جرم وقوع پذیر نہ ہو لیکن جدید سائنس اور ترقی نے Luxuries کے نام سے ایسی بہت سی چیزیں فراہم کر دی ہیں کہ دولت مند کو خود کو برتر تسلیم کرانے کیلئے کسی انوکھے سہارے کو تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی اور وہ بڑی آسانی سے اپنا طرز زندگی پرتعیش کر کے کم آمدنی والے لوگوں پر اپنی افضلیت ثابت کرتے ہوئے انہیں فرسٹریشن میں مبتلا کر دیتا ہے کیونکہ دولت ایسی چیز نہیں ہے جسے ہر کسی کیلئے ہر وقت لا محدود مقدار میں اس طرح حاصل کر لینا ممکن ہو کہ اس سے کسی دوسرے فرد کی دولت میں کمی واقع نہ ہونے پائے چنانچہ دولت کے معیار عزت بن جانے سے غریب آدمی کی فرسٹریشن میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لیبر ڈیمانڈ اور ہڑتالوں وغیرہ کی صورت حال اسی کے ردعمل کا ایک منظر ہے۔

    بادی النظر میں اس کا حل یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی معاشرے میں دولت مند اور غریب آدمی کا طرز زندگی کسی قانون کے نتیجے میں ایک جیسا ہو جائے تو تعیش اور دکھاوے کی بنیاد پر، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دولت مندی کی نمائش کی بنیاد پر ابھرنے والی فرسٹریشن ختم ہو جائے گی۔

    یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانی عقل ماؤف ہونے لگتی ہے اور ہمارے جینیئس کو کمیونزم یا اس سے ملتے جلتے کسی نظام کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا جبکہ ہم جانتے ہیں کہ کمیونزم کی بنیاد جبر اور زبردستی پر ہے اور جبر ایک غیر فطری عمل ہے۔

    ہم جانتے ہیں کہ ہمارا مقصد شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو قائم رکھنا ہے اور اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے سٹیٹس کامپلیکس ختم کر دینے والا ایک جامع نظام مرتب کرنا ہے، ایک ایسا نظام جو جبر کی بجائے ترغیبPersuasion کے اصول پر مبنی ہو یعنی اس میں دولت مند کو اپنا معیار زندگی غریب آدمی کے مساوی بنا لینے میں بہت بڑا فائدہ تو دکھائی دے لیکن اس کو بہرحال اس امر پر یوں قانوناً مجبور نہ کیا جا سکے جس طرح کمیونزم میں کیا جاتا ہے۔ ہمیں اس نظام میں برتری کی ضرورت کو تکمیل کا ایسا راستہ فراہم کرنا ہے جو دولت کے امتیاز کے بغیر ہر وقت ہر شخص کے بس اور اختیار میں ہو اور جسے اختیار کرنے، کیے رکھنے اور چھوڑ دینے کی ہر وقت ہر کسی کیلئے آزادی ہو.... اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کمیونزم اس معیار پر ہرگز پورا نہیں اترتا۔ ہمیں ایک ایسا قانون انسانیت کو فراہم کرنا ہے جس کی موجودگی میں مفاد پرستانہ قوانین نافذ ہونے کے باوجود یوں بے حیثیت ہو جائیں جیسے ٹھنڈے میٹھے پاکیزہ مشروب کی وافر موجودگی میں غلیظ اور آلودہ پینے کا پانی بے وقعت ہو جاتا ہے۔ درحقیقت ہمیں ہر شخص کی ان فطری اخلاقی خصوصیات Moral Valuesکو مارکیٹ میں قانونی طور پر مادی قدرو قیمت Commercial Value حاصل کرنے کا راستہ دینا ہے جن میں لا محدود کمی یا اضافہ ہر وقت ہر شخص کے بس میں ہے اور جو کسی دوسرے فرد سے چھینی یا خریدی نہیں جا سکتیں یعنی سچائی، نیک نامی، ہمدردی، خوش اخلاقی، پارسائی، دیانت داری، سادگی وغیرہ۔

    اس مقصد میں پہلی اور آخری رکاوٹ دولت کی اجارہ داری ہے اور اگر ہمیں کسی جامع قانون کو بنانے کا مشن پورا کرنا ہے تو سب سے پہلے ہمیں معاشرے میں دولت کی اس اجارہ داری کی حیثیت اور اس کا فنکشن سمجھنا ہو گا۔

    انسان دولت اس لیے کماتا ہے کہ وہ اپنی فطری ضروریات کو پورا کر سکے۔ ان ضروریات میں رہن سہن، علاج معالجہ اور ان پر اثر انداز ہوتی ہوئی آرزوئے افضلیت یعنی برتری کی طلب شامل ہے۔ اپنی کمائی ہوئی دولت سے وہ ان ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کی کمائی ہوئی دولت ان کی برتری کی طلب کو آخری حد تک اور ہمیشہ کیلئے پورا کر دے۔ اگرچہ فرسٹریشن سے وہ بھی نہیں بچ سکے مگر ان کی فرسٹریشن کی بنیاد دولت کی کمی نہیں ہوتی بلکہ اس کا سبب کچھ اور ہے جس پر جنسی ضرورت کے ضمن میں گفتگو ہو گی۔

    دنیا میں ننانوے فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جن میں دولت کی طلب موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی موجودہ ملکیتی دولت ان کی ضروریات کی تکمیل کیلئے کافی نہیں ہے۔ اس نقطہ نظر پر آپ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ عیاشی کیلئے دولت کی طلب رکھتے ہیں.... تو جواب صرف یہ ہے کہ اس ضمن میں کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے صرف اپنے آپ کو دیکھئے۔ ہو سکتا ہے کہ جس چیز کو آپ دوسرے شخص کی عیاشی قرار دے رہے ہیں وہ نظام فرعونیت کے باعث اس کی ضرورت بن چکی ہو، بالکل اسی طرح کہ جس چیز کو آپ اپنی ضرورت سمجھ رہے ہیں وہ کسی تیسرے شخص کے خیال میں آپ کی عیاشی ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح آپ کے خیال میں کسی عرب یا امریکی ارب پتی کی چمکیلی رولز رائس گاڑی اس کی عیاشی ہے، بالکل اسی طرح ایتھوپیا کے قحط زدہ باشندے کی رائے میں آپ کی بائیسکل آپ کی عیاشی ہے۔

    انسان جب معاشی جدوجہد کرتا ہے تو اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے، پھر اس کے بعد وہ اس دولت کے عوض اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ گویا دولت کی حیثیت انسان کی جدوجہد اور کفالتی تحفظ کے درمیان ایک رابطہ کی سی ہے اور انسان کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں جس کے مطابق وہ اپنی جدوجہد اور کفالت کے درمیان اس رابطے کا محتاج نہ ہو۔

    یہی درمیانی رابطہ وہ چیز ہے جسے ہم دولت کی اجارہ داری کا نام دیتے ہیں اور یہی اجارہ داری وہ الجھن ہے جو ہمیں گوناگوں مسائل میں الجھا رہی ہے۔ اگر ہم دولت کے اس درمیانی رابطے کو انسان کی جدوجہد اور ضروریات کی تکمیل کے درمیان میں سے نکال باہر کریں تو ظاہر ہے کہ دولت کی یہ اجارہ داری بے وقعت، بے وجود ہو جائے گی اور نہ ہی وہ مسائل رہیں گے جو اس اجارہ داری کے نتیجے میں انسانیت کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

    یہ مقصد تبھی پورا ہو سکتا ہے جب ہر انسان کو اپنی جدوجہد کے بدلے میں دولت کی کسی متعینہ مقدار کو درمیان میں لائے بغیر مکمل ضروریات زندگی براہ راست فراہم ہو سکتی ہوں۔ گویا ہمیں ایک ایسا معاشی نظام ترتیب دینا ہو گا کہ اگر کوئی شخص اپنی محنت کے بدلے میں دولت کی کسی متعین مقدار کی بجائے کی بجائے مکمل کفالتی تحفظ حاصل کرنا چاہے تو اسے اس کا قانونی راستہ دستیاب ہو۔

    جب کوئی معاشی نظام ترتیب دیا جاتا ہے تو اس کا محور معاہدہ روزگار ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ معاشرے میں چند افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تو آجر Employer ہوتے ہیں اور نہ ہی اجیر Employee مگرچونکہ ان کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی مجموعی بناوٹ اور ہیئت پر اثر انداز نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں معاشی نظام سے باہر تصور کر لیا جاتا ہے اور یہ سیدھی سی بات ہے کہ جس فرد کا کسی دوسرے فرد کے ساتھ معاشی انحصار یعنی اجرت کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اسے ہم لیبر ایکٹ میں کیا حیثیت دے سکتے ہیں؟ (یہاں یہ ذکر کرنا بہتر ہو گا کہ اس کتاب میں جس لیبر ایکٹ کو ہم مرتب کرنے جا رہے ہیں وہ اس قدر وسیع ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اس کا کوئی نہ کوئی فریق بنتا ہوا نظر آ جائے گا اور اس کی وضاحت جنس پر گفتگو کے دوران سامنے آئے گی۔)

    اب ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا نظام روزگار مرتب کرنا ہے جس کے مطابق آجر کی جانب سے اجیر کو اجرت کی صورت میں کسی مقررہ رقم کی بجائے تمام ضروریات زندگی کی مکمل فراہمی کی اجازت ہو.... اور ظاہر ہے کہ روزگار کا یہ تصور ایک معاہدے کی مانند ہی ہو سکتا ہے لٰہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ لیبر ایکٹ کے مطابق ایسا معاہدہ کرنے کی قانوناً اجازت ہو جس کے مطابق آجر نے اجیر کو اس کی خدمات کے بدلے میں اجرت کی رقم کی بجائے مکمل کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہو۔

    یہ تصور غیر واضح اور نامکمل ہے کیونکہ جب تک کفالتی تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی معیار مقررنہ کر دیا جائے، اس لفظ کا مفہوم واضح نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی افادیت تسلیم کی جا سکتی ہے.... اور کفالتی تحفظ کا معیار مقرر کرنے کیلئے لازم ہے کہ پہلے ہم اجیر کی ضروریات کا تعین کریں۔

    ہم اس نتیجے پر پہلے ہی پہنچ چکے ہیں کہ غذا، لباس اور رہائش ایسی ضروریات نہیں ہیں جو بذات خود بہت زیادہ دولت کی محتاج ہوں۔ ان کو دولت کی محتاج بنانے والی چیز برتری کی طلب ہے۔ اسی کو ہم نے سٹیٹس کا نام دے رکھا ہے اور یہی Status Complex سماجی برائیوں کو پنپنے کا موقع دیتا ہے اور انسان کو اپنے رہن سہن پر زیادہ سے زیادہ دولت خرچ کرنے پر اکساتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کفالتی تحفظ کے معیار کیلئے ہمیں اسی طبقاتی امتیازکو مدنظر رکھنا ہو گا ورنہ یہ تو ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ محض گھٹیا غذا، بدصورت سستا لباس، تھرڈ کلاس علاج معالجہ اور بیکار سی رہائش اپنے ورکرز کیلئے فراہم کر دینا کسی بھی آجر کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

    برتری کی طلب کا جائزہ لیتے ہوئے ہم سمجھ چکے ہیں کہ Status Complex کا باعث ملکیتی دولت کی کم یا زیادہ مقدار نہیں بلکہ اس دولت کا استعمال یعنی آجر اور اجیر کے طرز زندگی میں فرق ہے۔ یہی فرق اجیر کو فرسٹریشن کا شکار بناتا ہے۔ گویا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہم کفالتی تحفظ کا معیار مقرر کرتے وقت آجر کو خواہ کتنا ہی قیمتی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیوں نہ کریں، برتری کی طلب پر پیدا ہونے والی فرسٹریشن اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک آجر اور اجیر کے طرز زندگی میں فرق موجود ہے لٰہذا ہمیں اگر کفالتی تحفظ کے تصور کو فول پروف بنانا ہے تو طرز زندگی کے اس فرق کو مٹانا ہو گا اور یہ فرق ختم کرنے کا بہترین بلکہ واحد طریقہ یہ ہے کہ اجیر کو فراہم کیے جانے والے کفالتی تحفظ کے معیار کیلئے خود آجر کی ذات متعین کر دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آجر اپنے اجیر کو اجرت کے طور پر وہی معیار زندگی یعنی زندگی کی وہی تمام سہولتیں، اسی مقدار میں فراہم کرے جو خود وہ اپنے تصرف میں رکھتا ہے اور اس کفالت کے معیار کا دائرہ زندگی کے ہر پہلو یعنی خوراک، لباس، رہائش، علاج معالجہ، تعلیم، تفریح، تقریبات، غرض ہر پہلو پر محیط ہو۔

    چونکہ ہمارے نظام کا بنیادی تصور شخصی آزادی اور انسانی حقوق پر استوار ہے لٰہذا ہم کسی بھی فرد کو خواہ وہ آجر ہو یا اجیر، اس مجوزہ معاہدے کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں دونوں راستے کھلے رکھنا ہوں گے یعنی ہر دو فریق اگر چاہیں تو اجرت کی مقررہ رقم کی صورت میں ادائیگی کا معاہدہ کریں اور اگر چاہیں تو باہمی رضامندی سے اجرت میں رقم کی بجائے آجر کی طرف سے اجیر کو مساویانہ کفالتی تحفظ کی فراہمی کا معاہدہ کریں۔ اس دوسرے معاہدے میں البتہ یہ پابندی ہو کہ آجر اپنے اجیر کو وہی معیار زندگی فراہم کرے گا جسے وہ خود اختیار کیے ہوئے ہے، تاکہ اجیر کو طبقاتی امتیاز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آجر کو دونوں قانونی تصورات میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے یا کیے رکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اسے معاہدہ روزگار کے کسی بھی تصور کو اختیار کرنے کی ہر وقت آزادی ہے تو بھلا اسے کیا پڑی ہے کہ وہ رقم کی صورت میں اجرت کی ادائیگی کا آسان راستہ چھوڑ کر مساویانہ کفالت کی فراہمی کا کٹھن راستہ اختیار کرے؟ ظاہر ہے کہ اسے اپنے اجیر کی سماجی، نفسیاتی، تعلیمی، تفریحی یا طبی فلاح وبہبود سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ اس تصورِ معاہدہ کو اختیار کر لینے کے بعد اسے اپنی لیبر پر اٹھنے والے اخراجات کو، خود اپنے طرز زندگی کو حسب ضرورت سادہ کرتے ہوئے جب چاہے اور جتنا چاہے کم کرنے کا فارمولا ہاتھ آ جائے گا اور اس کیلئے لیبر ڈیمانڈ، بونس، انشورنس، گریجویٹی، پنشن، ہڑتال وغیرہ کا قضیہ ہی ختم ہو جائے گا اور یوں اخراجات پیداوار کو حسب منشا کم کرنے کی صلاحیت مل جانے کے بعد اس کیلئے کاروباری نقصان کا اندیشہ معدوم ہو جائے گا مگر اس کے باوجود یہ کوئی ایسا بھرپور لالچ نہیں ہے جس کی خاطر وہ دل پر جبر کر کے اپنے ملازم کو فراہم کیے جانے والے کفالتی تحفظ کا معیار خود بھی اختیار کرنے کا فیصلہ کرے۔ وہ یقیناً اجرت میں رقم کی ادائیگی کا نظام ہی اپنے لیے بہتر سمجھے گا اور یوں اجیر کیلئے طبقاتی امتیاز اور فرسٹریشن سے نجات کا ہمارا مقصد بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔

    اگر ہمیں آجر کو اس معاہدے کی قبولیت پر بخوشی آمادہ کرنا ہے تو ہمیں اس کیلئے ایک بہت بڑی ترغیب یا لالچ دریافت کرنا ہو گا ورنہ یہ نظام فیل ہو جائے گا، دولت کی اجارہ داری ختم نہیں ہو گی اور معاشرے میں امیر اور غریب کے طرز زندگی کا وہ فرق نہیں مٹ سکے گا جو دولت مندی کی نمائش کو برتری کی علامت بنا دینے کا واحد سبب ہے۔

    آجر کیلئے ایسی ترغیب ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس ترغیب کا ماخذ ڈھونڈنا ہے، اور یہ ماخذ ظاہر ہے کہ اجیر کی ذات ہی ہو سکتی ہے۔

    اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اجیر کے پاس اپنی خدمات کے علاوہ وہ کونسی ایسی شے ہے جو فطری اور پیدائشی طور پر اس کی ملکیت ہے اور جسے وہ تمام ضروریات زندگی کی مساویانہ فراہمی کے لالچ میں اپنے آجر کو دے سکتا ہے؟

    اس پہلو سے غور کرنے پر ہمارے سامنے ایک ہی چیز ایسی آتی ہے جو ہر شخص کا فطری حق ہے اور اس کی ذاتی ملکیت ہے مگر ہمارے مروجہ معاشی نظاموں کے مطابق وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور وہ چیز، وہ جائداد اس کیلئے بے معنی، بے فیض اور بے قیمت ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ ناقابل انتقال Non-transferable بنا دی گئی ہے ....اور وہ جائداد ہے اجیر کا حق استعفٰی، یعنی جب چاہے نوکری چھوڑنے اور اپنی مرضی سے نیا آجر منتخب کرنے کا حق۔

    اگر اس حق کو قانونی طور پر قابل انتقال یعنی Transferable تسلیم کر لیا جائے تو یقیناً یہ ایسی زبردست ترغیب ہو سکتی ہے جسے حاصل کرنے کی آرزو میں آجر اپنے اجیر کو اپنے برابر کی یعنی مساویانہ کفالت کا تحفظ فراہم کرنے پر بھی بے اختیار آمادہ ہو گا۔ بالفاظ دیگر آجر کیلئے اگر یہ گارنٹی قانوناً ممکن ہو جائے کہ اس کا اجیر کام کا تجربہ حاصل کر لینے اور ایک قیمتی باصلاحیت ورکر بن جانے کے بعد اس کی اجازت کے بغیر جب چاہے محض اپنی مرضی سے اس کی ملازمت چھوڑ کر نہیں جا سکتا تو وہ اس گارنٹی کو ہر صورت میں حاصل کرنا چاہے گا خواہ اس کیلئے اسے کچھ قیمت بھی ادا کیوں نہ کرنا پڑے اور اسے اپنا معیار زندگی بھی اپنے اجیر کے مساوی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ کارکنوں کی اجرت، بونس، لیبر ڈیمانڈ، سوشل سیکورٹی، انشورنس وغیرہ از قسم بکھیڑوں سے نجات کا لالچ تو ایک ضمنی سی بات ہو جائے گی۔

    قانون میں آجر کیلئے یہ ترغیب مہیا کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اجیر کے اس ملکیتی حق کو قابل انتقال قرار دے دیں، یعنی یہ اجیر کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے اپنے آجر کو اپنا یہ فطری حق یعنی حق استعفٰی اپنی مرضی کی قیمت پر منتقل کر سکتا ہے۔

    یہاں ایک اہم سوال اور ابھرتا ہے کہ معاہدہ طے ہونے پر منہ مانگی قیمت پر ہی سہی، اگر اجیر کا حق استعفٰی آجر کو منتقل ہو گیا تو ظاہر ہے کہ اجیر کا اس حق پر اختیار ختم ہو جائے گا، دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حق استعفٰی کی فروخت کے بعد اجیر جب چاہے ملازمت چھوڑ دینے کا مختار نہیں رہے گا۔ اس صورت میں جب وہ ملازمت چھوڑنا چاہے گا تو اس کے پاس کیا راستہ ہو گا؟

    ہم جانتے ہیں کہ انسان کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع آ سکتے ہیں جب اسے اپنے موجودہ ذریعہ معاش کی ضرورت نہ رہے، مثلاً اس کو تحفہ یا ترکہ یا کسی دوسرے ذریعہ سے ایک بڑی رقم مل سکتی ہے، کوئی امیر شریک حیات مل سکتا ہے، اعلٰی تعلیم یا کسی فن میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اس کی خدمات کی مارکیٹ ویلیو بڑھ سکتی ہے اور اسے کسی بہتر آجر کے ہاں ملازمت کا چانس مل سکتا ہے، کسی ادبی، سائنسی، سماجی، فلاحی یا کسی دوسری خصوصی کارکردگی کی وجہ سے اس کا معاشرتی مقام بلند ہو سکتا ہے ....تو ایسی صورت میں جب وہ اپنی موجودہ نوکری کو خیرباد کہنا چاہے اور نہ کہہ سکے تو کیا یہ ظلم نہ ہو گا؟

    اس سوال کا بہترین جواب بھی حق استعفٰی کی قابل انتقال صلاحیت میں موجود ہے اور وہ یہ کہ معاہدے میں اس حق کی منتقلی کے ساتھ ہی اس کی واپسی قیمت کا تعین بھی ہو جانا چاہیے تاکہ اپنے حق استعفٰی کو اپنے آجر کے نا
     
  21. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    12۔ دوسرا عامل، جنسی ضرورت کا غیر

    12۔ دوسرا عامل، جنسی ضرورت کا غیر فطری تصور

    معاشرے میں جرم کا دوسرا بڑا محرک جنس ہے اور یہ بھی کہ ہمارے تمام تر شخصی آزادی کے بنیادی تصورات پر مبنی قوانین کے باوجود جنسی جرائم مثلاً آبرو ریزی، یا جنس سے بالواسطہ تعلق رکھنے والے جرائم مثلاً منشیات، ورغلاہٹ اور اغوا یا غیرت وغیرہ کے نام پر قتل جیسے جرائم کی تعداد میں کوئی کمی نہیں ہو رہی بلکہ قدرے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اس سے صرف اور صرف ایک ہی مطلب نکل سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد یعنی انسانی جنسی ضرورت کا تعین ہی غلط ہے۔ ہم اس غلطی کو سمجھنے کا فارمولا پہلے ہی ترتیب دے چکے ہیں کہ جرم کے پیچھے چھپی ہوئی فرسٹریشن کا محرک دریافت کریں یعنی جنسی ضرورت کی نوعیت اور پوٹنسی کو سمجھیں۔

    ہر قسم کے جنسی جرائم کا جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایسے تمام جرائم میں عورت کی طرف سے پذیرائی تو ہو سکتی ہے، اختیار نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں ہونے والے جنسی جرائم کا اگر عمیق نگہی سے مشاہدہ کیا جائے تو مرد ہی ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔ جہاں کہیں کوئی صحیح الدماغ تندرست عورت کسی ایسے جرم کی مرتکب پائی گئی ہے (یاد رہے کہ Nymphomania ایک نسوانی عارضہ ہے اور اس کے تحت مرتکب ہونے والے جنسی جرائم کا اس ضمن میں اطلاق نہیں ہوتا) اگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس جرم کا محرک جنس نہیں ہو گا بلکہ دولت کا لالچ، افضلیت کی طلب یا کوئی نفسیاتی وجہ مثلاً انتقام، محبت یا تنہائی وغیرہ ہو گا جبکہ مرد کی طرف سے ایسے جرم کا ارتکاب محض جنسی تشنگی کی وجہ سے ہو گا۔ گویا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر مرد ضرورت مند نہ ہو تو کوئی جرم، کوئی سکینڈل وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت کے مقابلے میں مرد جنس کے حوالے سے اس قدر آگے کیوں بڑھ جاتا ہے؟

    ہم دیکھ رہے ہیں کہ عورت دنیا میں تقریباً ہر میدان میں مرد کے برابر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ روزگار، تعلیم، تحقیق اورسائنسی ترقی، غرض تمام تر ذہنی و جسمانی استعمال میں عورت خود کو مردوں سے کم تر رہنے نہیں دے رہی، پھر کیا وجہ ہے کہ جنس کے میدان میں اس کا رویہ مرد سے مختلف ہے؟ وہ مرد کی طرح جنونی کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں مردوں کی طرح تعیش گاہیں، عریاں کلب اور کیبرے قائم نہیں کرتی؟ وہ عورتوں کیلئے مردوں کی جسم فروشی کی پذیرائی کیوں نہیں کرتی؟ حتٰی کہ عورت کا کسی مرد کی جبری آبروریزی کا تو تصور ہی نہایت مضحکہ خیز اور مزاحیہ محسوس ہوتا ہے، آخر اس تمام فرق کی وجہ کیا ہے؟

    دراصل اس کی وجہ ہماری ایک بنیادی غلط فہمی ہے۔ ہم نے خود ہی یہ فرض کر رکھا ہے کہ عورت اور مرد میں جنسی ضرورت کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کی بنیاد پر ہم جو بھی قانون مرتب کرتے ہیں وہ غیر فطری ہونے کی وجہ سے خاطرخواہ نتائج نہیں حاصل کر پاتا اور فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد میں جنسی طلب کی کیفیت مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کا اس میدان میں رویہ بھی مختلف ہے۔ اس تصور کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں انسان میں جنسی طلب کا مقصد سمجھنا ہو گا۔

    ہم جانتے ہیں کہ انسان میں جنسی عمل کا وجود نسل انسانی کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اب اس عمل پیدائش میں چونکہ عورت اور مرد کا جسمانی استعمال مختلف ہے لہذا دونوں کی جسمانی ساخت کو اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے مختلف رکھا گیا ہے۔

    جسمانی ساخت میں اختلاف کی وجہ نسل انسانی کی پیدائش اور نشوونما کی ذمہ داریاں ہیں۔ کوئی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کی فراہمی قدرت نے اس کی ماں اور باپ کے درمیان تقسیم کر رکھی ہے اور دونوں کی ذمہ داریوں کا اس طرح تعین کیا ہے کہ ان کے جسموں کو ان کی اس ڈیوٹی کے مطابق تعمیر کیا ہے (نسل انسانی کی پرورش و پرداخت کے بارے میں تفصیلی گفتگو چند صفحات کے بعد اپنی باری پر ہو گی، ہمیں اس سے پہلے انسان کی جنسی خواہش کی حقیقت سمجھنی ہے۔)

    جنسی تعلق کی طلب پیدا ہونے پر مرد کے جسم میں خون کا ایک خاص دباؤ امڈتا ہے جس سے ہر مرد بخوبی واقف ہے اور اس کی تکنیکی تفصیل ہمارے لیے غیر متعلق ہے لٰہذا ہم اس سے قطع نظر کرتے ہیں۔

    یہ دباؤ یا باہ مرد کو فرسٹریٹڈ Frustrated کر دیتا ہے۔ جب تک وہ اپنی ضرورت پوری نہ کر لے، اس کا ہیجان بڑھتا چلاجاتا ہے جبکہ عورت میں اس معاملہ کی نوعیت یکسر مختلف ہے۔ ہر چند کہ ایک طبی اندازے کے مطابق عورت میں لطف کی مقدار مرد کے مقابلے میں نو سو فیصد زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اسے مرد کی طرح بے چینی پیدا کرنے والے کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہوتا جبکہ مرد کے لیے جنسی لذت کی مقدار اگرچہ عورت کے مقابلے میں بہت کم ہے مگر اس کے لیے تشنگی اور بے چینی کا نشانہ صرف مرد ہی ہوتا ہے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد کے لیے جنسی تعلق کی حیثیت لازمی ضرورت کی ہے جبکہ عورت میں یہ تعلق ایک خواہش کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حیثیت کو بھی ہم پانی اور کولا کی ہی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ مرد کے لیے جنسی تعلق کی حیثیت وہی ہے جو زندگی کے لیے پانی کی ہے یعنی اس کے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا جبکہ عورت کے لیے اس کی حیثیت کولا کی سی ہے جو کہ ہر چند لذت میں پانی سے بڑھ کر ہے مگر فطری بنیادی لازمی ضرورت نہیں کہلایا جا سکتا اور لذت حاصل کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس تجزیئے سے یہ نتائج اخذ ہوتے ہیں۔

    1۔ نارمل عورت میں جنسی لذت سے محرومی زیادہ سے زیادہ صرف حسرت کا باعث ہو سکتی ہے لیکن اسے جرم پر آمادہ نہیں کر سکتی جبکہ مرد کی یہ ضرورت تشنہ رہ جائے تو وہ فرسٹریشن کا شکار ہو جاتا ہے، جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے۔

    2۔ مرد اور عورت کے لیے جسمانی تعلق کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ دونوں افراد ایک دوسرے کی ضرورت پوری نہیں کرتے بلکہ یہ عمل عورت کی طرف سے مرد کے لیے ایک”عطا” کا درجہ رکھتا ہے اور چونکہ اس سے مرد کی ضرورت کی تسکین ہوتی ہے لٰہذا یہ عورت کا حق ہے کہ اس کے بدلے میں وہ مرد سے اس تسکین کا نعم البدل حاصل کرے۔ یوں اس تصور کو ہم کلائنٹ اور کنسلٹنٹ consultant کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مانند بھی سمجھ سکتے ہیں اور ایک دوسری صورت یعنی آجر اور اجیر کے درمیان ایک معاہدہ روزگار کی مانند بھی تصور کر سکتے ہیں جس میں مرد آجر ہے اور عورت یعنی بیوی اس کی اجیر جو اس تعلق کی خدمات کے بدلے اجرت میں مساویانہ کفالتی تحفظ حاصل کرتی ہے۔

    3۔ اگر مرد کی اس ضرورت کو بہ آسانی سیراب ہونے کا مثبت اور محفوظ راستہ عائلی قوانین میں دستیاب ہو اور مرد کے لیے عورت سے یہ تعلق قائم کرنا ایک مسئلہ نہ رہے بلکہ معمولی اور آسان بات ہو جائے یعنی اس کا استحقاق قرار پا جائے تو نہ صرف جنسی جرائم کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ عورت کی خواہش بھی خودبخود سیراب ہوتی رہے گی اور اس کے لیے بھی محرومی کا کوئی احتمال نہ رہے گا۔ (آئندہ صفحات میں یہاں تک جائزہ لیا گیا ہے کہ اس کے بعد منشیات، شراب، حتٰی کہ تمباکو نوشی تک کا استعمال ختم ہوتا چلا جائے گا۔)

    اب رہا یہ سوال کہ قدرت نے عورت اور مرد کے درمیان اس معاملے میں امتیاز کیوں برتا ہے اور مرد کے لیے اس تعلق کو لازمی ضرورت بنا دینے کی قدرت کی سخت پالیسی کی وجہ کیا ہے؟ تو اس بارے میں حقوق نسواں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم اصل حقیقت تک پہنچیں گے مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ مرد کی اس ضرورت کی وسعت کو سمجھ لیں۔

    ہم میں سے اکثر لوگ اس غلط فہمی پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا کے “ہر” مرد کے لیے پوری زندگی میں ایک عورت کافی ہے۔ یہ فلسفہ ایک ایسی احمقانہ غلط فہمی پر مبنی ہے جو الجھنوں سے بھرے ہوئے کئی قوانین بنانے کا باعث بنی ہے۔ ہر مرد کے زندگی بھر کے لیے ایک عورت تک محدود ہونے کا فلسفہ محبت، ذہنی ہم آہنگی اور گھر گر ہستی کے ضمن میں تو درست تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی جنسی ضرورت کی آسودگی کے ضمن میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اسی بات کو مزید گہرائی تک سمجھنے کے لیے جنسیات سے متعلق میڈیکل سائنس کی تینوں شاخوں کے علوم ہمیں جو تفصیل بتاتے ہیں اس کا ما حصل یہ ہے۔

    عورت کی جنسی عمر مرد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وہ بڑھاپا شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی لذت خواہش اور دلچسپی تقریباً ختم کر چکی ہوتی ہے جبکہ مرد کو پچاس ساٹھ برس کی عمر میں بھی اس تعلق کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔

    عورت کے جسمانی نظام میں ایام Menstral Cycles کی صورت میں بہت سے ناغے رکھے گئے ہیں۔

    حاملہ ہونے کے بعد اکثر اوقات ڈاکٹرز اس تعلق پر پابندی عائد کر دیتے ہیں۔ زچگی کے بعد بھی عورت کئی ہفتوں تک اس تعلق کی اہل نہیں ہو پاتی۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی مانع مباشرت نسوانی بیماریاں اسے اکثر اوقات اس تعلق سے دور کر دیتی ہیں اور اگر عورت غریب ہے یا کسی وجہ سے علاج کی خاطر خواہ سہولت حاصل نہیں کر پاتی تو یہ بیماریاں پیچیدہ اور طویل بھی ہو سکتی ہیں۔

    دوسری طرف مرد کے لیے یہ تعلق ایک ایسی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے جو پوری نہ ہو تو اس کے دباؤ سے اس پر فرسٹریشن بلکہ ہیجان بھی طاری ہو سکتا ہے اور اسے جرم پر آمادہ کر سکتا ہے۔

    مرد کے جسمانی نظام میں حمل، زچگی، ایام یا پیچیدہ بیماریوں جیسے کوئی وقفے بھی نہیں ہوتے۔

    ایسی مثالوں سے یہ نتیجہ اخذ کر لینا دشوار نہیں کہ دنیا کے ہر مرد کے لیے پوری زندگی تک بلکہ کسی ایک مدت کے دوران بھی ایک ہی عورت سے اس کی اس ضرورت کا پورا ہوتے رہنا ممکن نہیں ہے، یقیناً بہت سے ایسے مرد ہوتے ہیں جن کو بیوی کی صحت مندی، ذہنی ہم آہنگی اور دیگر بہت سے عوامل کسی مزید راستے کی ضرورت سے بے نیاز کر دیتے ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں متعدد مرد ایسے ہو سکتے ہیں جن کے ازدواجی حالات ان کی اس ضرورت کی تسکین کیلئے خاطر خواہ آسودگی فراہم نہ کر سکتے ہوں اور یوں انہیں فرسٹریشن میں مبتلا کر سکتے ہوں، جرم پر آمادہ کر سکتے ہوں۔

    اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے ہر ایک مرد کا ایک وقت میں ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں تو وہ جس کی ضرورت پوری نہ ہو رہی ہو، وہ ایک عورت کی موجودگی میں دوسری عورتوں سے تعلق کیسے قائم کرے یعنی عورت کے مانع وقفوں کے دوران یا اس کے جنسی عمر پوری کر لینے Sexually Expired ہو جانے کے بعد وہ خود کو فرسٹریشن سے بچانے کے لیے کس قانون کا سہارا لے؟

    دنیا کے مختلف معاشروں میں اس سوال کے جوابات مختلف ہیں۔

    بعض معاشروں میں مرد کو بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت ہے اور بعض میں ایک سے زیادہ شادیوں کی تو اجازت نہیں ہے البتہ شخصی آزادی کے تصور کی بنیاد پر کسی بھی عورت سے اس کی رضامندی کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے کی آزادی ہے۔ آئیے ان دونوں جوابات کا اپنڈکس نکالیں۔

    دراصل یہ دونوں جوابات غلط ہیں۔ شادی کا جو تصور ہمارے معاشروں میں مروج ہے اس کا بنیادی مقصد جنسی ضرورت کی سیرابی ہے ہی نہیں۔ یہ شادی تو ہر مرد دکھ سکھ میں رفاقت، اولاد، محبت یا ذہنی سکون کے لیے کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا ایک گھر، اپنی بیوی، اپنی اولاد یعنی ایسے افراد جو اس کے دکھ سکھ میں، احساسات میں، محبت و رفاقت میں شرکت دار ہوں، وہ جو اس کے نام سے پہچانے جائیں اور جن کی ترقی پر خود وہ سربلند ہو۔ وہ افراد جن کے سامنے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو، جو اس کے درد پر چشم پرآب ہوں اور اس کی خوشی پر کھل اٹھیں۔ وہ افراد جن کے لیے وہ جدوجہد کرے تو اس کے لیے اطمینان قلب کا باعث ہو۔ گویا شادی کا وہ تصور جو ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا مقصد جنسی ضرورت کی تکمیل نہیں بلکہ اس کا تعلق دلی، ذہنی، جمالیاتی اور فکری احساسات سے ہے۔

    ہر سمجھدار شخص جانتا ہے کہ محض جنسی تعلق کی خاطر دوسری شادی کرنے والے سے وہ سب نعمتیں چھن جائیں گی جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔

    ایک سے زیادہ ایسی شادیوں کی جن کی مہذب معاشروں میں اجازت ہے، ان معاشروں میں بھی ان شادیوں کا مقصد جنسی ضرورت کی تسکین قرار نہیں دیا جاتا بلکہ ان نعمتوں میں سے کسی کا حصول قرار دیا جاتا ہے جو اوپر بیان کی گئی ہیں یا پھر کوئی سماجی، اخلاقی، اصلاحی یا فلاحی ضرورت ہوتی ہے۔

    اس تجزیہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شادی کا وہ تصور جو ہمارے معاشروں میں مروج ہے، ہر مرد کی جنسی ضرورت کا حتمی حل ہرگز نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے اس ضرورت کی تسکین کا راستہ قرار دینا ہی غیر فطری اور معاشرے کے لیے مہلک ہے اور اس ضرورت کی تسکین کا کوئی مثبت راستہ یعنی شادی کا کوئی اور وسیع تر تصور ان معاشروں میں دستیاب نہیں ہے۔

    اب نام نہاد آزاد معاشروں میں مروج شخصی آزادی کے تصور پر مبنی اس قانون کا جائزہ لیجئے جس کے مطابق مرد کو عورت کی رضامندی سے، شادی کے بغیر بھی یہ تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے۔ خطرناک طبی پہلو جس میں ایڈز اور وی ڈی انفیکشن کا پہلو شامل ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کا تفصیلی جائزہ تھوڑی دیر بعد لیا جائے گا۔ نفسیاتی پہلو سے بھی یہ اصل مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ رضامندی کا لفظ اپنے اندر دشواریوں کا وسیع مفہوم لیے ہوئے ہے۔ مرد کے لیے کسیٍ عورت کو رضامند کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے دولت استعمال کرتا ہے تو ایک طرف ہوس زر وجود میں آتی ہے تو دوسری طرف جسم فروشی جنم لیتی ہے۔ وہ عورت کو رضامند کرنے کے لیے اسے محبت کا فریب دیتا ہے تو ضمیر اور اخلاقیات کو دفن کر دیتا ہے۔ یوں معاشرے میں منافقت اور دھوکا بازی فروغ پانے لگتی ہیں۔ وہ عورت کو متاثر کر کے اس تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے تو شہرت اور اختیارات کے لیے جنونی ہو جاتا ہے یا جسمانی طور پر اسے متاثر کرنے کے لیے Aphrodesics استعمال کرتا ہے تو ان کے مضر اثرات کا شکار ہوتا ہے۔ عورت کی رضامندی حاصل نہ کر سکنے کی صورت میں جبر اور Rape کا ارتکاب کرتا ہے یا خاطر خواہ دولت میں کمی محسوس کرتے ہوئے ایسے جرائم کرتا ہے جن سے دولت حاصل ہو سکتی ہے، یا پھر ناکامی کے نتیجے میں نفسیاتی، منشیاتی یا طبی مریض بن جاتا ہے۔ چونکہ اسے اپنی ضرورت کو ایک ہی دفعہ پورا کر کے مطمئن نہیں ہو جانا ہوتا بلکہ زندگی بھر اسے بار بار پورا کرتے رہنا ہوتا ہے لٰہذا اسے بہت زیادہ دولت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ عورت کو اس کی رضامندی کے لیے اس کی پسندیدہ قیمت ادا کرتے رہنے کے قابل ہو سکے۔

    درحقیقت مرد کے لیے مسئلہ عورت کی آمادگی کی شرط پوری کرنا ہے اور اس کے بعد بیماریاں یعنی انفیکشن یا ایڈز کا خوف ایک الگ مسئلہ ہے۔

    اب ہمارے لیے معاشرتی نظام کا ایک پوائنٹ بن گیا کہ اگر ہمیں مرد کی ضرورت پوری کرنے والا ایسا آسان راستہ دریافت کرنا ہے جس میں مرد کے لیے طبی حفاظت کے ساتھ آسودگی حاصل کر لینا ممکن ہو تو ہمیں شادی کا ایک ایسا متبادل نظام بھی تشکیل دینا ہو گا جو آجر اور اجیر کے درمیان معاہدہ روزگار کی مانند طے ہو رہا ہو اور اجیر بیویوں کی تعداد ایک سے زیادہ بھی ممکن ہو۔ ان کے ساتھ جسمانی تعلق میں ان کی بار بار رضامندی کی شرط نہ ہو بلکہ شوہر کو اس تعلق کا حق اسی طرح حاصل ہو جس طرح کسی آجر کو اپنے ملازم سے متعینہ خدمات لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس تعلق کے نتیجے میں انفیکشن کا احتمال پیدا نہ ہو سکے اور اس میں بدنامی اور سکینڈل کی ممکنات بھی پیدا نہ ہو سکیں بلکہ معاشرے میں یہ تعلق قانونی طور پر تسلیم شدہ ہو۔

    اس سے پہلے کہ ہم اس قانون کے لیے عورت کی حیثیت سے متعلق دیگر امور پر غور کریں، اس تعلق کے طبی پہلوؤں پر نظر ڈالنا لازم ہے کیونکہ ہم جو نظام ترتیب دینے جا رہے ہیں اس میں ایڈز اور انفیکشن کا کوئی احتمال نہیں ہونا چاہیے۔
     
  22. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    13۔ ۔ ۔ ۔ ایڈز اور میڈیکل سائنس کی

    13۔ ۔ ۔ ۔ ایڈز اور میڈیکل سائنس کی لغزش HIV

    چونکہ اس بیماری کی پوری تفصیل اور مخففات کی تشریح محض وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے لٰہذا بات وہاں سے شروع کی جا رہی ہے جو ہمارا اصل موضوع ہے۔
    اس ضمن میں میڈیکل سائنس نے جو شواہد مرتب کیے ہیں ان میں ایک نکتہ ایسا ہے جو میڈیکل سائنس کی ایک سنگین لغزش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔
    ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضہ ایک وائرس کا مرہون منت ہے۔ اس وائرس کو ایچ آئی وی کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس کی درجہ بندی کی قسم کو آر این اے کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وائرس کے انسانی جسم میں ملٹی پلائی کرنے سے پیدا ہونے والا انفیکشن انسانی جسم میں موجود قدرتی مدافعتی نظام کو “چند” سال میں بے اثر کر دیتا ہے لیکن اس میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس وائرس کی اثر پذیری کی مدت کا کوئی پیمانہ آج تک میڈیکل سائنس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ H I Vکا کوئی مریض تو محض سات سال میں ہی ایڈز سے مر گیا اور کسی مریض کا بارہ سال تک یہ وائرس خون میں رہنے کے باوجود کچھ نہ بگاڑ سکا یعنی اس میں ایڈز کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔
    یہاں دو اہم سوالات اور HIV کے دیگر کسی بھی وائرس سے مختلف ہونے کے بارے میں ذکر ضروری ہے جس سے میڈیکل سائنس کی اس بیماری کے بارے میں ناقص تھیوری کو سمجھنے میں آسانی ہو گی، اس لیے کہ ان دونوں سوالات کا تسلی بخش جواب میڈیکل سائنس میں نہیں ملتا۔
    1۔ انسانی جسم کے لیے ضرر رساں وائرس کی فہرست میں یہ واحد وائرس ہے جو اگر ایک دفعہ بدن میں داخل ہو جائے تو مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتا جبکہ عارضہ پیدا کرنے والے دیگر وائرس انسانی جسم میں طویل عرصہ تک رہ نہیں پاتے،.... کیوں؟ اس کی کوئی توجیہ میڈیکل سائنس میں مسلمہ نہیں ہے۔
    2۔ یہ واحد وائرس ہے جس کے خلاف انسانی بدن میں اس کے ملٹی پلائی ہوتے وقت بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی جبکہ دیگر وائرس میں سے جب بھی کوئی وائرس اپنی نشوونما اور انفیکشن کا عمل شروع کرتا ہے، انسانی جسم اس پر فوراً خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور آبلے، بخار، سوزش، درد، پھپھولے، بلغم وغیرہ، از قسم مختلف علامات ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس فرق کی توجیہ Justification کیا ہے؟۔۔۔۔ کوئی نہیں۔
    اس ضمن میں ہمارے رفقائے کار نے جس تجزیئے کی طرف راہنمائی دی ہے اس کی تفاصیل و جزئیات کا احاطہ تو یہاں ممکن نہیں، البتہ اس کا ماحصل آسان زبان میں پیش خدمت ہے۔
    یہ دونوں حقائق اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سمت نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسی وجہ ضرور ہے جس کی بنیاد پر انسانی جسم اس وائرس کے خلاف مزاحمت نہیں کرتا اور یوں وائرس کو Multiply کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی.... اور وہ وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ انسانی جسم میڈیکل سائنس کے پراپیگنڈے سے دھوکا نہیں کھاتا اور اس بیرونی اور اجنبی قرار دیئے جانے والے وائرس کو اپنے لیے اجنبی ہی نہیں سمجھتا جبکہ میڈیکل سائنس کی تھیوری کے مطابق یہ انسانی جسم کیلئے ایک اجنبی آر این اے ہے، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ یہ وائرس چمپینزی یعنی بندر سے انسان میں منتقل ہوا ہے۔
    چونکہ انسانی جسم کا اپنے دشمن کو پہچان نہ سکنا قانون فطرت کے خلاف ہے لٰہذا وائرس کو اجنبی قرار دینے کی یہ میڈیکل سائنس کی تھیوری ایک قابل یقین تھیوری نہیں ہو سکتی چنانچہ یہ کہنا کہ یہ وائرس کسی دوسری مخلوق سے بنی نوع انسان میں آیا، غیر منطقی بات ہے اور ٹامک ٹوئیاں قرار دی جا سکتی ہے۔ اس صورت میں صرف ایک گوشہ ایسا ملتا ہے جس کے ممکن العمل ہونے کے بارے میں ابھی تک میڈیکل سائنس میں غور ہی نہیں کیا گیا اور وہ گوشہ ہے وائرس کا بیرونی یا اجنبی نہ ہونا بلکہ خود انسان کے اندر ہی وجود حاصل کرنا۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایچ آئی وی کوئی ایسا خارجی وائرس نہیں ہے جو انسانی جسم کیلئے اجنبی ہو اور دیگر وائرس کی طرح باہر سے انسانیت پر حملہ آور ہوا ہو بلکہ یہ انسان کے اندر ہی وجود حاصل کرتا ہے اور اسی پروٹین کا جزو ہے جس سے انسان کے دیگر خلیات نمود حاصل کرتے ہیں۔
    اس نقطہ نظر کو ان شواہد سے مزید تقویت ملتی ہے کہ کئی مریضوں میں میڈیکل ٹسٹ کے دوران HIV پازیٹو نکلا لیکن وہ بارہ چودہ برسوں کے بعد بھی ایڈز کے شکار نہیں ہوئے حالانکہ اس دوران وائرس ان کے خون میں موجود بھی رہا۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ وہ HIV جو ان مریضوں کے خون میں ہے، ان کیلئے مہلک نہیں ہے۔ گویا ہر HIV ہر انسان کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ اسی شخص کیلئے مہلک ہوتا ہے جس سے اس کی پروٹین مماثل ہوتی ہے.... لیکن میڈیکل سائنس نے یہ غیرمنطقی اور بے بنیاد مفروضے قائم کر لیے کہ یہ وائرس جو مہلک نہیں نکلا، یہ وائرس ہی کوئی دوسرا ہے اور یہ ایڈز پیدا ہی نہیں کرتا.... یا یہ کہ ہر شخص میں اس وائرس کی اثر پذیری کی شدت مختلف ہوتی ہے چنانچہ کچھ مریض دس بارہ سال تک بھی اس کے انفیکشن کے شکار نہیں ہوئے، وغیرہ۔
    بچپن میں ایک چٹکلہ سنا کرتے تھے کہ کوئی سائنسدان مینڈک پر تحقیق کر رہا تھا۔ اس نے مینڈک کو میز پر بٹھا کر اس کے عقب میں پٹاخا چھوڑا۔ مینڈک زور سے اچھلا۔ سائنسدان نے اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی اور پھر پٹاخا پھوڑا۔ اس دفعہ مینڈک کم اچھلا۔ سائنسدان نے اس کی دوسری ٹانگ بھی کاٹ دی۔ اس دفعہ پٹاخا پھوڑا تو وہ بالکل نہ اچھلا۔ اس سے سائنسدان نے یہ محققانہ نتیجہ اخذ کیا کہ مینڈک کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو وہ بہرا ہو جاتا ہے۔
    کچھ اسی قسم کی واردات میڈیکل سائنس کے ساتھ بھی ہوئی چنانچہ اب وہ مینڈک کو بہرا تصور کرنے پر مصر ہے اور ان ممکنات پر غور کرنے کیلئے تیار ہی نہیں کہ ہر H.I.Vہر شخص کیلئے مہلک نہیں ہوتا بلکہ صرف انہی کیلئے مہلک ہوتا ہے جن سے مماثل Compatibleہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر دو افراد کے ڈی این اے باہم فیوز ہو جائیں تو ان میں سے ایک کی مثبت دھاری Strand دوسرے کی منفی دھاری کے ساتھ اس طرح مخلوط ہو سکتی ہے کہRNA بنا سکے۔ اب چونکہ یہ دونوں Strands مختلف افراد کے ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ نہیں ہیں اس لیے ان کی پیوستگی عدم توازن کی شکار رہے گی چنانچہ ایسا RNA جو پروٹین جمع کرے گا وہ ان دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے ان دو افراد کےTخلیات پر چپک کر ایڈز کا باعث بنے گی جن کے ڈی این اے باہم فیوز ہوئے تھے۔ اسی غیر متوازن R N A کا نام HIV ہے۔ یہ HIV چونکہ صرف انہی دو افراد کے جسم سے نیم ہم آہنگ ہے لٰہذا صرف ان کے اور ان کی اولاد کیلئے مہلک ہے، باقی انسانوں کیلئے نہیں۔
    یہ ایک ایسی تھیوری ہے جو میڈیکل سائنس میں زیرغور ہی نہیں لائی گئی اور وہاں مینڈک کے بہرا ہونے کی رٹ لگائی جاتی رہی یعنی جان چھڑانے کیلئے یہی کہا جاتا رہا کہ جو وائرس مہلک نہیں نکلا وہ HIV تھا ہی نہیں بلکہ وہ اسی قبیل کا کوئی دوسرا وائرس تھا، یا یہ کہ ہر HIV کے ہر انسان کیلئے مہلک بن جانے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے جس کا کوئی پیمانہ بھی ممکن نہیں ہے، وغیرہ۔
    ہماری تھیوری میں یہ سوال ابھی تشنہ ہے کہ دو مختلف افراد کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے کا موقع کہاں اور کیسے مل سکتا ہے؟
    میڈیکل سائنس HIV کے عمل انتقال کے جن ذرائع کا ذکر کرتی ہے ان میں ایک Multipal Sexual Partners یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ، مختلف اصناف کے افراد کا باہمی فطری جنسی تعلق ہے۔
    یہ انتہائی مبہم بات ہے جو ایک جسم فروش عورت کی زندگی اور دو بیویاں رکھنے والے شوہر کی عائلت کو ایک ہی صف میں کھڑا کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ اس میں لفظ “وقت” کی کوئی حد بندی نہیں ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی پیشہ ور عورت خود کو ہر شب ایک نئے مرد کے سامنے پیش کرتی ہے تو بھی یہ Multipal ہو گا اور اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے اور پھر دوسری شادی کرے تو بھی یہ Multipal ہو گیا۔ گویا میڈیکل سائنس کی اس Defination کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمر بھر میں جب بھی کبھی کسی انسان کا Sexual Partner تبدیل ہوا، یہ عمل ملٹی پل کی تعریف میں آ گیا یعنی اس کے لیے اس انفیکشن کا امکان پیدا ہو گیا، خواہ یہ امکان بہت موہوم سا ہی ہو۔
    یہ تصور اگر درست مان لیا جائے تو پوری انسانیت کے لیے اس بیماری سے بچاؤ تقریباً ناممکن بن جاتا ہے کیونکہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ دنیا کے “ہر ایک” مرد کے لیے غیر فطری ضبط کیے بغیر زندگی بھر ایک ہی عورت تک محدود رہنا ممکن نہیں ہے۔ گویا جب تک ہم مرد اور عورت میں فطری تولیدی عمل کے تناظر میں Multipal کے مفہوم کی درستگی اور اس کے ضمن میں لفظ “وقت” کا تعین نہ کر لیں، نہ تو ہم وائرس کے فیوژن کے عمل کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کو اس مہلک مرض سے حتمی طور پر محفوظ رہنے کا یقینی راستہ فراہم کر سکتے ہیں چنانچہ لازم ہے کہ اس ضمن میں “وقت” کے تصور کی تعریف مرتب کر لی جائے۔
    ہر عورت کو قدرت نے ایام یعنی Menstral Cycles کی صورت میں خود کار صفائی کے بے مثل نظام کا عطیہ دیا ہے۔ جب کسی عورت کا ایک مرد کے ساتھ عمل مجامعت وقوع پذیر ہوتا ہے تو اس مرد کے اثرات عورت کے تولیدی اعضاء میں سرایت کر جاتے ہیں۔ اگر اس عمل کے نتیجے میں عورت کا پاؤں بھاری نہ بھی ہو تو بھی وہ اس مرد سے تب تک Impregnated رہتی ہے جب تک اس کا اگلا دورہ ایام خاطر خواہ طریقے سے مکمل نہ ہو جائے۔
    ایک دو یا زیادہ سے زیادہ تین Cycles کے مکمل ہو جانے کے بعد وہ آئینے کی طرح شفاف ہو جاتی ہے اور اس میں اس مرد کے کوئی اثرات باقی نہیں رہتے جس سے اس کی سابقہ Intramenstal Clean Period کے دوران مجامعت واقع ہوئی تھی یا ہوتی رہی تھی۔ ایام کا یہی نظام عورت کے لیے قدرت کی طرف سے خود کار صفائی کا عطیہ ہے اور اسی تصور پر Multipal کا درست مفہوم استوار ہوتا ہے کہ اگر کسی عورت کی ایک طہر Intramenstal Clean Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ مجامعت وقوع پذیر ہو تو یہ Multipal کے مفہوم پر پورا اترے گا اور اس وائرس کے لیے Culture Media فراہم کرنے کا باعث بنے گا کیونکہ اس صورت میں کہ جب اس عورت کے اندر پہلے سے ہی ایک مردکے اثرات موجودہیں یعنی وہ پہلے ہی ایک مرد سے Impregnated ہے، اگر کسی دوسرے مرد کے اثرات بھی اس میں سرایت کرتے ہیں تو وائرس کے لیے سازگار ماحول جسے میڈیکل کی اصطلاح میں کلچر میڈیا کہا جاتا ہے، دستیاب ہو جاتا ہے۔ چونکہ اس وقت دو مختلف مردوں کے ڈی این اے اس کے رحم میں بیک وقت موجود ہوں گے لٰہذا یہ امر “قرین قیاس” ہے کہ وہ باہم فیوز ہو جائیں اور ان کے Strands کے اختلاط کے ذریعے ایک ایسا آر این اے تشکیل پا جائے جو ان تینوں افراد یعنی دونوں مرد اور کلچر میڈیا فراہم کرنے والی اس عورت کے لیے مہلک HIV کی شکل میں نشوونما حاصل کرنے لگے۔ تب یہ HIV اگرچہ ان کی اولادوں کے لیے بھی مہلک ہو گا تاہم اگر یہ کسی چوتھے فرد کو خون کی Transfusion کے ذریعے منتقل ہو گا تو اس کے لیے غیر مہلک ہو گا، باوجودیکہ اس کے خون میں موجود رہے گا۔
    اب اس لفظ “قرین قیاس” کی تفصیل کا جائزہ بھی لینا مناسب ہو گا یعنی ایسے دو افراد کونسے ہو سکتے ہیں جن کے ڈی این اے اس قدر مماثل ہوں کہ ان کے باہم فیوز ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہوں۔ اس سوال کا جواب ہے “خون کا رشتہ“۔ جب جنسی تعلق قائم کرنے والے افراد کے مابین کوئی ایسا جینیاتی مشابہت کا تعلق ہو جیسا ایک ہی خاندان کے افراد میں ہوتا ہے، تو ان کے ڈی این اے کے باہم فیوز ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی معاشرے میں جنسی تعلق کی استواری پر نگاہ احتساب نہ رہے یعنی زنا عام ہو تو چونکہ افراد کی ولدیت مشکوک ہوتی ہے لٰہذا ایسے معاشرے میں اس امر کے امکانات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں کہ جو افرادجسمانی تعلق قائم کریں وہ ایک ہی جینیاتی فریم کے مالک ہوں، بالفاظ دیگر ان کے درمیان خون کا رشتہ موجود ہو خواہ انہیں اس حقیقت کا علم ہی نہ ہو۔ اس صورت میں ان کے ڈی این اے کے فیوز ہونے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔
    اس نظریے کی صداقت کے لیے یہ مشاہدہ کافی ہے کہ ایڈز سے مرنے والوں کی زیادہ تعداد انہی معاشروں میں ہے جہاں ایک عورت کے ایک وقفہ طہر Intramenstal Period کے دوران دو یا زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق یعنی زنا کی آزادی ہے۔
    Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والے H I V کے غیر مہلک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایڈز کی تاریخ میں ایسے بچوں کی کوئی تعداد مرقوم نہیں ہے جو سات برس کی عمر میں ایڈز سے مر گئے ہوں اور ان کی ماﺅں کو ایڈز نہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں ان بچوں کو ایچ آئی وی موروثی طور پر نہیں بلکہ خون کے ذریعے منتقل ہوا ہو۔ اگر Transfusion کے ذریعے منتقل ہونے والا ایچ آئی وی مہلک ہوتا تو ایسے بچوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی۔
    اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی عورت اس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ ایک طہر کے دوران خود کو ایک ہی مرد تک محدود کرے گی تو خواہ اس کی زندگی میں بیسیوں Sexual Partners بھی کیوں نہ تبدیل ہوں، یہ عمل کسی صورت بھی Multipal کی تعریف میں نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر ہر مرد یہ امر ملحوظ رکھے کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ مجامعت نہ کرے جو اس وقفہ طہر کے دوران پہلے ہی کسی دوسرے مرد سے Impregnated ہو چکی ہو تو خواہ اس مرد کا بیک وقت ایک سے زیادہ عورتوں سے بھی جسمانی تعلق کا سلسلہ استوار ہو، یہ عمل نہ تو آر این اے کو مہلک ایچ آئی وی کی ہیئت اختیار کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے اور نہ ہی Multipal کی تعریف میں آ سکتا ہے۔
    اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مرد اگر صرف انہی عورتوں سے تعلق رکھے جو اس Current Clean Period کے دوران صرف اسی تک محدود رہنے والی ہوں اور ان عورتوں کے درمیان کوئی جینیاتی مشابہت، کوئی خون کا رشتہ نہ ہو تو اس کا یہ عمل نہ تو Multipal کی تعریف میں آ سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی Culture Media ڈیویلپ ہو سکتا ہے چنانچہ کوئی ایچ آئی وی، کوئی انفیکشن وقوع پذیر نہیں ہو سکتا۔
    مردوں کی ہم جنس پرستی (لواطت) بھی اسی ذیل میں آتی ہے کیونکہ اس سے دو مردوں کے ڈی این اے کو باہم فیوز ہونے یعنی ایچ آئی وی بننے کیلئے ایسا کلچر میڈیا دستیاب ہو جاتا ہے جس میں عورت کی کوئی شراکت یا ضرورت نہیں ہوتی۔
    اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمیں اس انسانیت کو جو اس انفیکشن کی ابھی شکار نہیں ہوئی، ایک محفوظ اور یقینی راستہ فراہم کرنا ہے تو ہمیں اس تجزیئے کو قانون کی شکل میں ڈھالنا ہو گا یعنی ایک عورت کے دو مختلف مردوں کے ساتھ اس تعلق کیلئے تین طہر کے درمیانی وقفے کی شرط کو قانون کا درجہ دیا جائے تاکہ نسل انسانی کی پیدائش کا محفوظ عمل معاشرے کی نگرانی اور ضمانت کے ساتھ جاری رہ سکے۔
    ٭
     
  23. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    14۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وومن لبریشن کے نام پر ٹھ

    14۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وومن لبریشن کے نام پر ٹھوکریں

    ہم بخوبی جانتے ہیں کہ قدرت نے انسان میں جنسی خصوصیت اس لیے رکھی ہے کہ نسل انسانی کی پیدائش و پرداخت کا عمل وقوع پذیر ہوتا رہے۔ اس ضمن میں قدرت نے جو ترتیب وضع کی ہے اس کا جائزہ لینے پر ہم دیکھتے ہیں کہ عورت اس عمل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ بچے کو ایک مدت تک نہایت احتیاط سے اپنے پیٹ میں رکھتی ہے، پھر اسے درد کا سامنا کرتے ہوئے جنم دیتی ہے، اس کی نشوونما کی نگرانی اور حفاظت کرتی ہے اور اس کی خاطر اپنے جسمانی آرام و سکون کی پروا نہیں کرتی۔ وہ بچے کو مامتا، محبت اور شعور دیتی ہے تاکہ اس کی شخصیت کی تعمیر شروع ہو سکے۔ اس سارے عمل میں اس بچے کے باپ کا اس کے ساتھ کوئی نمایاں اشتراک نہیں ہوتا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ مرد کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ کیا عورت کے اندر اولاد کا بیج رکھ دینے کے بعد اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی؟؟ کیا یہ ایک احمقانہ تصور نہیں ہو گا؟؟؟
    اس سوال کا درست جواب یہی ہو سکتا ہے کہ جہاں عورت کی ذمہ داری بچے کو ایک طویل اور تکلیف دہ عمل کے بعد جنم دینا یا اس کی نشوونما کی نگرانی کرنا، اسے مامتا، محبت اور شعور دینا ہے وہاں مرد کی ذمہ داری اس عورت اور بچے کو کفالتی تحفظ فراہم کرنا ہے تاکہ عورت کی مکمل اور غیر متفکر توجہ نسل انسانی کی تعمیر اور نگہداشت پر مرکوز ہو سکے۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں مرد کی فطری ضرورت جنسی تعلق ہے وہاں عورت کی فطری ضرورت کفالتی تحفظ کا حصول ہے جس کی تکمیل نہ ہونے پر وہ فرسٹریشن کی شکار ہو سکتی ہے،جرم پر آمادہ ہو سکتی ہے۔
    اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ مرد کیلئے عورت کو کفالتی تحفظ فراہم کرنے کی پابندی نہیں ہے تو مرد کی تخلیق کا مقصد ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ یہی وہ احمقانہ غلط تصور ہے جس کی بنیاد پر آج بہت سے نام نہاد مہذب معاشروں میں وومن لبریشن یعنی آزادی نسواں کے نام سے تحریکیں وجود میں آتی اور زور پکڑتی ہیں۔
    فطرت کا قانون ہے کہ عورت بچے کو جنم دے یا اس کی ابتدائی نشوونما یعنی رضاعت کی ذمہ داری سنبھالے جبکہ مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ عورت کو کفالتی تحفظ فراہم کرے۔ اگر عورت پر بیک وقت دونوں ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جائے یعنی نسل انسانی کی پیدائش یا ابتدائی پرورش اور خود اپنی کفالت اور معاش، تو یہ عمل اس لیے غیر فطری ہو گا کہ انسان کے پاس بیک وقت دو مختلف جگہوں پر ڈیوٹی دینے کی استطاعت نہیں ہے۔ یہ مطالبہ ہی فوق البشریت کے دائرے میں آئے گا۔ عقل اس فلسفے کو تسلیم کر ہی نہیں سکتی کہ مرد کو جس پر نسل انسانی کی پیدائش اور لمحہ لمحہ ابتدائی نشوونما کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اس عورت کی کفالتی ذمہ داری سے ہی مبرا قرار دے دیا جائے جو اس کی نسل کو بڑھانے کیلئے بہت سی جسمانی تکلیف اور آرام و سکون کی قربانی برداشت کر رہی ہے۔
    شادی کا تصور بھی اسی بنیاد پر استوار ہے۔ مہذب معاشروں میں شوہر کی ذمہ داری یہ ہے کہ بیوی سمیت اپنے تمام اہل خانہ یعنی اولاد کیلئے تحفظ فراہم کرے جبکہ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نسل انسانی کے فروغ کے عمل کو کماحقہ سر انجام دے۔
    اس نقطہ نظر کو مان لینے کے بعد ایک وضاحت مزید رہ جاتی ہے، اور وہ یہ کہ معاشرے میں کچھ عورتیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بوڑھی ہو چکی ہوں یا بانجھ ہوں تو کیا اس صورت میں بھی اس عورت کی کفالتی ذمہ داری مرد پر عائد ہوتی ہے؟
    اس سوال کا جواب بھی بہت آسان ہے اور اس کا فلسفہ وہی ہے جو ہر معاشرہ بے روزگاری الاؤنس یا پنشن کیلئے رکھتا ہے کیونکہ یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ اس فرد نے اپنی ڈیوٹی خاطر خواہ طور پر انجام دی ہے یا دینے کی کوشش کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی فرد چاہے اپنی ڈیوٹی دے چکے یا دینے سے معذور ہو تو ہر صورت وہ اس نعم البدل کا مستحق ہے جو اسے ڈیوٹی کی صورت میں ملنا تھا۔ یہی فلسفہ ہم ایک عورت کی فطری ڈیوٹی کیلئے بھی متعین کریں گے۔ اگر وہ بوڑھی یا بانجھ ہو یا کسی دیگر جسمانی یا ذہنی مجبوری کی بناء پر عارضی یا مستقل طور پر اپنی فطری ڈیوٹی سے دور ہو گئی ہو تو بھی اس سے کفالتی تحفظ وصولنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ عورت کو اپنے لیے کفالتی تحفظ پیدا کرنے پر صرف اسی صورت میں مجبور کیا جا سکتا ہے جب وہ اپنی فطری ڈیوٹی یعنی نسل انسانی کی پیدائش یا پرداخت کے عمل سے انکار کر دے۔
    تاریخ کا جائزہ لینے پر ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی قریب میں ایسا ہی ایک قانون جس کے مطابق عورت کا معاشی انحصار مرد پر تھا، تقریباً تمام معاشروں میں مروج تھا مگر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ شخصی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے شعوری ارتقاء کے ساتھ ساتھ یہ قانون ناکام ثابت ہونے لگا اور وومن لبریشن کی تحریک وجود میں آئی۔
    اس قانون کی جو بادئ النظر میں فطرت کے قریب محسوس ہوتا ہے، ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟ اسے سمجھنے کیلئے پہلے ان اعدادوشمار اور نتائج پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہو گا جو اس تحریک کے مختلف مراحل اور ثمرات کی صورت میں ہمارے سامنے آئے۔
    فرداً فرداً ہر معاشرے کا جائزہ لینا ممکن نہیں لٰہذا یہاں صرف امریکی معاشرے کو زیر نظر لایا گیا ہے جہاں اس تحریک کی ابتدا اور انتہا ہوئی۔
    امریکہ میں امن وامان قائم رکھنے اور انسداد جرائم کیلئے دنیا کا جدید ترین اور منظم ترین نظام موجود ہے لیکن پھر بھی نیویارک میں اوسطاً ہر تین منٹ بعد ایک قتل اور ڈیڑھ منٹ بعد چوری یا ڈکیتی کی واردات ہو جاتی ہے۔ صرف واشنگٹن ڈی سی میں جرائم کا گراف اس قدر تیزی سے بلند ہو رہا ہے کہ اوسطاً ہر گھنٹے کے دوران عورتوں پر ہونے والے مجرمانہ حملوں کی تعداد پچیس سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ان حملوں کا شکار ہونے والیوں کی عمریں پانچ سے پچھتر سال تک ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بہت سی وارداتیں جو رپورٹ نہیں ہوتیں، ان کے علاوہ ہیں۔
    یہ وہ معاشرہ ہے جہاں آج سے تقریباً تیس برس قبل وومن لبریشن کا تصور ایک تحریک کی شکل میں پروان چڑھا۔ ممکن ہے کہ اس انقلاب کے بانی قابل احترام سمجھے جائیں، اس لیے کہ عورت کی حالت بہتر بنانے کیلئے اٹھ کھڑے ہونا بہرحال ایک قابل قدر جذبہ ہے، لیکن ان سے حماقت یہ سرزد ہوئی کہ وہ اس کوشش میں فطری تقاضوں سے صرف نظر کر بیٹھے۔ ان کی رائے میں عورت کے استحصال کا سبب یہ تھا کہ اس کا معاشی انحصار مرد پر تھا.... اور یہی وہ اکتسابی غلطی تھی جس نے اس تحریک کو ٹریجڈی بنا دیا۔
    اس دور میں عورت اور مرد کے باہمی سماجی تعلقات کا عمومی منظر کچھ اس قسم کا تھا کہ باپ یا شوہر خود تو اپنے لیے ہر قسم کی خرافات، فحاشی، بدکرداری، عیاشی روا رکھتا مگر گھر پہنچ کر بیوی یا بیٹی پر نت نئی پابندیاں عائد کرتا، غیر مردوں سے بات کرنے پر بھی ڈانٹ ڈپٹ کرتا، مختلف بہانوں سے ان کا خرچ بند کر کے معاشی آمریت کا مظاہرہ کرتا اور انہیں اپنے سامنے گڑگڑانے پر مجبور کرتا، غصے کا اظہار کرنے اور جھڑکنے یا زدوکوب کرنے کے بہانے ڈھونڈتا اور ہر لمحہ عورت کو بےبسی اور بےچارگی کا احساس دلاتا۔
    اس کے نتیجے میں وومن لِبریشن یعنی تحریک آزادی نسواں کی ابتدا ہوئی۔ امریکی حکومت فلاحی معاشرے کے اصول پر افراد کو بے روزگاری الاؤنس کا تحفظ دے ہی چکی تھی چنانچہ قانونی طور پر بالغ ہوتے ہی عورت کیلئے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ اپنے ڈکٹیٹر باپ کو آنکھیں دکھا سکے۔ اسی طرح شوہر کو بھی آنکھیں دکھانا گویا طے ہو گیا۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلا کہ ڈکٹیٹر مرد اوراس پر معاشی انحصار رکھنے والی عورت کا ایک ہی چھت کے نیچے رہنا ممکن نہ رہا چنانچہ اس سے پہلے کہ وہ مرد جس پر اس عورت کی کفالت کا انحصار تھا، اسے گھر سے نکالتا، وہ خود ہی گھر چھوڑنے پر تیار ہو جاتی۔ اس تحریک نے گھر سے بھاگنا جرم کے دائرے سے باہر کر دیا چنانچہ اس عمل میں احساس جرم اور ضمیر بھی رکاوٹ نہ رہا۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنا ایک عام سی بات ہو گئی کیونکہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی کے نام پر بننے والے قوانین نے شادی کے بغیر ہی ازدواجی زندگی کو جائز ٹھہرا دیا تھا۔اس طرح عورت کے ایک Intramenstal Period کے دوران ایک سے زیادہ مردوں سے جسمانی تعلق کو قانونی تحفظ مل گیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب مغرب کی عورت نے اس حقیقت سے آنکھیں موند لیں کہ وہ مرد کے چنگل سے نکلنے کیلئے فطرت سے بغاوت کا مہلک فیصلہ کر بیٹھی ہے۔
    مختصر یہ کہ اس دور میں جنسی انقلاب Sexual Revolution نے سر اٹھایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسانوں میں جنس کے نام پر کوئی تفریق نہیں ہے، یعنی یہ فرض کر لیا گیا کہ عورت اور مرد میں جنسی طلب کی حیثیت یکساں ہے اور عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے جس طرح کی روش مناسب سمجھے، اختیار کرے۔ اس نے سوچا کہ ہر عیاشی اور ہر آزادی جسے وہ بچپن سے مرد کے تصرف میں دیکھتی آئی ہے، اب وہ خود اس سے لطف اندوز ہو گی۔
    قدرتی طور پر یہ تحریک مردوں کے نوجوان طبقے میں مقبول ہو گئی۔ مرد جانتا تھا کہ عورت حصول حقوق کے جوش میں اس پر کفالتی انحصار کی ڈور توڑ کر بے سہارا اور غیر محفوظ ہو چکی ہے اور اب اپنے مستقبل سمیت مرد کے رحم وکرم پر ہے۔ اس نے اقدار بدل ڈالیں اور عورت کو سہل الحصول بنانے کیلئے نئی سماجی لغت ترتیب دی جس میں بری باتوں کو عین جائز اور درست قرار دے کر ان کا پرچار شروع کر دیا۔
    کچھ ہی دیر میں ان غیر فطری اقدار کے نتائج مرتب ہونا شروع ہو گئے اور بیوقوف عورت آزادی نسواں کی خوش فہمی میں مرد کا کھلونا بن گئی چنانچہ مرد نے فراوانی کی وجہ سے کیلنڈر کے اوراق کی طرح عورتیں بدلنا شروع کر دیں۔ وہ تو اپنی قدرتی بناوٹ کی وجہ سے بہرحال نیا رہتا لیکن عورت پے در پے تبادلوں کی تاب نہ لا کر بدشکل ہونے لگی۔ حصول حقوق کی سر خوشی نے اسے باقاعدہ گھر بسانے کے خیال سے غافل رکھا اور جب ہوش آیا تو وہ مرد کیلئے بطور بیوی قابل قبول نہیں رہی تھی۔
    اس آزاد عورت کی اگلی نسل نے اس سے سبق سیکھنے کی کوشش کی لیکن فطرت کا قانون وہ بھی نہیں سمجھ سکی۔ اس نے رائے قائم کی کہ اپنے آئیڈیل مرد سے ایسی شادی کرنے کیلئے جس میں اس کی آزادی کے حقوق قائم رہیں اور اس کا شوہر اس کو کوئی حکم نہ دے سکے، ایسی شادی کیلئے مرد کی سماجی برابری لازم ہے تاکہ اس پر کفالتی انحصار نہ کرنا پڑے اور ایسی برابری کیلئے اس جیسا معاشی مقام حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ مقام اعلٰی ذریعہ معاش ہے اور اس کیلئے اعلٰی تعلیم کی ضرورت ہے جس کیلئے وقت اور سرمایہ دونوں درکار ہیں۔ یوں اس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ والدین جہاں تک برداشت کریں، تعلیم کیلئے ان سے سرمایہ اینٹھا جائے اور کوئی پارٹ ٹائم جاب کے ذریعے اس سرمائے کی کمی پوری کی جائے یعنی بھرپور توجہ کریئر Career بنانے پر صرف کی جائے اور جب تک یہ منزل سر نہ ہو، اس وقت تک گھر بسانے کا پروگرام موخر رکھا جائے۔ ظاہر ہے اس صورت میں اس کے پاس اپنی فطری ڈیوٹیوں یعنی نسل انسانی کی پیدائش اور پرورش کو وقت پر ادا کرنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔
    آج بھی یہی صورت حال ہے، جو عورت اپنا سوشل سٹیٹس بلند کرنے کی کوشش میں دولت کمانے کیلئے ہاتھ پیر مارتی ہے اسے صحیح وقت پر اپنا گھر اپنی جنت نہیں ملتی اور اسے مامتا کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ جو سٹیٹس کی پروا نہیں کرتی وہ احساس کمتری کی شکار رہتی ہے اور جو دونوں باتیں ایک ساتھ نبھانا چاہتی ہے اس کیلئے مسائل کی بھرمار ہو جاتی ہے اور وہ ایک ذمہ داری بھی کماحقہ ادا نہیں کر پاتی جس سے مزید الجھنیں نمودار ہو جاتی ہیں۔
    چند برس قبل پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات نے ایک تفصیلی جائزہ شائع کیا جس میں چند سنسنی خیز حقائق کی نشاندہی کی گئی۔
    اس جائزے کے مطابق امریکہ میں عورتوں کی آبادی بڑھ کر کل آبادی کے ساٹھ فیصد سے زائد ہو گئی ہے۔ اکثریت ایسی خواتین کی ہے جو اعلٰی تعلیم کیلئے کوشش کرتی ہیں۔ گریجوایشن کے بعد اعلٰی ڈگری حاصل کرنے میں تین چار برس لگ جاتے ہیں۔ اگر یہ ڈگری کسی تحقیق سے متعلق ہو تو اس سے بھی زیادہ مدت درکار ہوتی ہے چنانچہ اعلٰی تعلیم کے مکمل ہوتے ہوتے عورت کی عمر اٹھائیس انتیس برس ہو جاتی ہے اور خاطر خواہ ملازمت کی تگ و دو میں سر میں چاندی جھلملانے لگتی ہے یعنی وہ تیس کی عمر پھلانگ کر زندگی کے چوتھے عشرے میں قدم رکھ چکی ہوتی ہے۔
    ملازمت حاصل ہونے پر اس کی باعزت معاشرتی مقام حاصل کرنے کی ضرورت تو کسی حد تک پوری ہو جاتی ہے لیکن اس وقت تک ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو چکا ہوتا ہے۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے اس جائزے کے مطابق امریکی عورت اٹھائیس اور اکتیس برس کے درمیان اپنی قدرتی زرخیزی عدم استعمال کی وجہ سے اس حد تک کھو دیتی ہے کہ اس کے ماں بننے کے امکانات نصف رہ جاتے ہیں اور اگر عمر چونتیس سے زیادہ ہو جائے تو یہ امکانات صرف پانچ فیصد رہ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جائزہ ٹھوس میڈیکل بنیادوں پر قائم ہے۔
    ایک معروف ماہنامے “دی فیملی” نے انکشاف کیا ہے کہ ان بیس برسوں کے دوران جب جنسی انقلاب نے معاشرے میں پذیرائی حاصل کی تھی، طلاق کی شرح میں ایک سو ترانوے فیصد اضافہ ہوا۔
    اس جائزے سے نسوانی ذہنی اور جسمانی بناوٹ کے تناظر میں جو نتیجہ نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ عورت پر ضروریات زندگی بشمول معاشرتی اعلٰی مقام یعنی برتری کی ضرورت کی اپنے لیے فراہمی کا بوجھ ڈالا ہی نہیں جا سکتا۔ دوسری طرف اگر مرد کو عورت کی کفالت سے مستثنٰی قرار دے دیا جائے تو اس کا وجود ہی بے مقصد ٹھہرتا ہے لٰہذا اس فطری حقیقت کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عورت کو انسان کی پیدائش اور نشوونما کی ذمہ داری سنبھالنا ہے اور مرد کو اس عمل کو بیرونی تحفظ دینا یعنی عورت اور بچے کو ضروریات زندگی فراہم کرنا ہے۔ اسی تصور کو مہذب معاشرے شادی کا نام دیتے ہیں۔
    اب ہم ان وجوہات کی طرف آتے ہیں جن کی وجہ سے وومن لبریشن کی تحریک ابھری۔ ہمیں اس عائلی قانون میں موجود نقائص کا تجزیہ کرنا ہے جو بظاہر مرد اور عورت میں ذمہ داریوں کی تقسیم فطری انداز میں کرتا ہوا محسوس ہوتا تھا مگر معاشرے میں بری طرح ناکام ہوا۔
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس قانون کے تحت وضع ہونے والی سماجی ترتیب یہ ہے کہ عورت کے پاس کفالتی تحفظ حاصل کرنے کا راستہ صرف ایک ہوتا ہے، شادی کے بعد وہ باپ یا سرپرست کے زیر کفالت رہتی اور شادی کے بعد شوہر کے دیئے ہوئے کفالتی تحفظ پر زندگی گزار دیتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے اس کا سرپرست یا شوہر اس کی ضروریات زندگی کو تسلی بخش طریقے سے پورا نہ کرے تو اس کے پاس کوئی ایسا متبادل راستہ نہیں ہے جس کے ذریعے اسے معاشرے میں کوئی دوسرا مساویانہ کفالتی تحفظ فوراً مہیا ہو سکے۔
    یہی وہ نکتہ تھا جسے ہم نے سمجھنے میں غلطی کی اور اس غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قانون میں عورت کو متبادل راستہ تو کیا فراہم ہوتا، الٹا مرد کو عورت کی کفالت سے بچنے کا جواز مل گیا۔ کئی معاشروں میں یہ قانون بنا دیا گیا کہ عورت اپنے کفالتی تحفظ کی خود ذمہ دار ہے جبکہ بچے کو پیدا کرنا اس کی اپنی صوابدید پر ہے۔ اب فطرت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تسخیر نہیں ہو سکتی، آپ کے خود ساختہ بنیادی حقوق اور ان پر مبنی قوانین کچھ بھی کہتے رہیں، اگر وہ غیر فطری ہیں تو منفی نتائج ضرور سامنے آئیں گے جیسا کہ قبل ازیں جائزہ لیا جا چکا ہے۔
    یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس بحث کا مقصد عورت کو روزگار حاصل کرنے سے روکنا نہیں ہے۔ اسے پورا حق ہے کہ وہ معاشرے میں جس حیثیت کو اختیار کرنا چاہے، اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر کوئی عورت نسل انسانی کے فروغ کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتی اور نہ ہی کفالتی تحفظ کی طلب گار ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اس کا پورا حق حاصل ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عورت انسانی نسل کو فروغ دینے کی فطری ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے یا حتی المقدور حد تک دے چکنے کے بعد معاشی میدان میں بھی کوئی ایسی کارکردگی دکھانا چاہتی ہے جس سے اس کی فطری ڈیوٹی (اگر وہ دے رہی ہے تو) متاثر نہ ہو، تو بھی اسے اس سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس بحث سے تو صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عورت کو اس امر یعنی معاشی ذمہ داریوں پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ فطری ڈیوٹی کو ڈسٹرب کیے بغیر اپنی خوشی سے انہیں اٹھانا چاہتی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اس کی قابلیت اور عظمت ہی تصور کی جا سکتی ہے، مجبوری نہیں۔
    اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ دنیا میں عورت اور مرد کی ذمہ داریاں گو کہ مختلف ہیں مگر عظمت اور اہمیت کے اعتبار سے کسی کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ فطرت کا اصول ہے کہ عورت جب نسل انسانی کے فروغ کی ذمہ داری نبھاتی ہے تو مرد اس عمل کو بیرونی تحفظ دیتا ہے اور اسے قلعہ بند کرتا ہے تاکہ مسائل اس عمل تک نہ پہنچ سکیں۔ یہ دونوں ذمہ داریاں زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اور دونوں کی حیثیت برابر ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ضروریات زندگی کی فراہمی کے ردعمل میں مرد خود کو عورت سے برتر سمجھنے لگتا تھا اور ڈکٹیٹر بن بیٹھتا تھا اور کئی معاشروں میں اب بھی یہی کیفیت ہے جو کہ بلاشبہ ناقابل برداشت بھی ہے اور غیر فطری بھی، چنانچہ آزادی نسواں یا اس سے ملتی جلتی تحریکوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔
    آیئے مرد کی اس منفی سوچ کی وجوہات کو سمجھیں۔
    1۔ اس کی پہلی وجہ تو وہی ہے جو برتری کی ضرورت کے ضمن میں بیان ہو چکی ہے یعنی مرد یہ سمجھتا ہے کہ اُسے کفالتی ذمہ داریوں کو نبھانے میں جس قدر دشواریوں کا سامنا ہے وہ عورت کی ذمہ داریوں کی مشقت سے زیادہ ہیں لٰہذا وہ عورت کی نسبت عظیم تر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر معاشرے میں برتری اور افضلیت کا معیار دولت مندی کی نمائش نہ ہو بلکہ اخلاقی اقدار بن جائیں تو مرد کیلئے کفالتی ضروریات کی فراہمی معمولی بات ہو جائے اور یوں اس کی لاشعوری سوچ جو اسے عورت سے زیادہ مشکل ذمہ داریاں سنبھالے ہونے کا احساس دلاتی ہے، ختم ہو جائے۔
    2۔ میڈیکل سائنس کے نظریات میں یہ غلط مفروضہ شامل کر دیا گیا کہ جنسی تعلق کی صورت میں مرد اور عورت ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہ مفروضہ قدرتی طور پر مرد کے ذہن میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر اس تعلق سے دونوں نے ایک دوسرے کی ضرورت پوری کی تو حساب برابر ہو گیا، اب وہ عورت کو کفالتی تحفظ کیوں فراہم کرے؟ اس سوچ کے ردعمل میں وہ کفالت کے عوض عورت کا آقا بن جاتا ہے۔
    دوسری طرف حقوق نسواں کے نام پر اس طرح کے قوانین نافذ کر دیئے جاتے ہیں کہ شوہر کو اپنی بیوی سے بھی جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے ہر مرتبہ اس کی اجازت اور رضامندی حاصل کرنا لازم ہے ورنہ اس کا یہ فعل قانون کی نظر میں جبری آبرو ریزی Rape کا جرم شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کے قوانین کے باعث جھلائے ہوئے مرد کی طرف سے معاشرے میں شادی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے جس سے عورت کے فرسٹریٹڈ ہونے کے امکانات اور بڑھ جاتے ہیں۔ اگر فساد کی جڑ یعنی میڈیکل سائنس کا غلط مفروضہ نکال باہر پھینکا جائے اور یہ تصور کر لیا جائے کہ جسمانی تعلق مرد کے لیے تو بنیادی ضرورت ہے لیکن عورت کی طرف سے مرد کے لیے ایک “عطا” کا درجہ رکھتا ہے تو شادی کی صورت میں مرد کی طرف سے عورت کو فراہم ہونے والا نعم البدل، اپنے ساتھ فطری جسمانی تعلق کا کلی اختیار مرد کو عطا کرنے کے عوض عورت کا حق ٹھہرے گا تب نہ تو احسان مند مرد کی آمریت یا آقائیت کی ممکنات رہیں گی اور نہ ہی اپنا حق وصول کرنے والی عورت کو وومن لبریشن کے نام پر مفاد پرست لوگ استعمال کر سکیں گے۔
    3۔ ہم سمجھ چکے ہیں کہ قدرت نے عورت اور مرد کی سماجی ذمہ داریاں ایک دوسرے سے مختلف رکھی ہیں اور اسی مقصد کیلئے دونوں کے جسموں کو ان کی ضرورتوں کے مطابق بنایا ہے۔ مرد کو معاش کا اہل رکھنے کیلئے اس کی جسمانی ساخت اور ذہنی طرز فکر کو سخت اور ٹھوس بنایا اورعورت کو نسل انسانی کے فروغ کی اہلیت دینے کیلئے اس کے جسم اور ذہن میں لچک اور نرمی رکھی۔ مرد کے ڈکٹیٹر شپ کی طرف مائل ہونے کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو جسمانی قوت میں عورت سے برتر پاتا ہے۔ چند صفحات پہلے ہم اس امر پر غور کر رہے تھے کہ مرد میں جنس کو ضرورت کیوں بنا دیا گیا جبکہ عورت میں اس کی حیثیت بنیادی ضرورت کی نہیں ہے؟ اب اس امتیاز کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔ قدرت نے عورت کو مرد کی جسمانی قوت سے محفوظ رہنے کیلئے ایک پلس پوائنٹ دیا ہے مگر یہ پوائنٹ اس قدر بڑا اور شدید ہے کہ اگر بات یہاں ختم کر دی جاتی تو فطرت کے توازن کا پلڑا عورت کے حق میں بھاری پڑ جاتا۔ اگر جنس کو مرد کیلئے بنیادی ضرورت لیکن عورت کیلئے بے معنی بنا دیا جاتا تو عورت اپنی تمام تر جسمانی کمزوری کے باوجود نہ صرف مرد پر ڈکٹیٹر بن بیٹھتی بلکہ نسل انسانی کی پروڈکشن سے ہی انکار کر دیتی لٰہذا اس سے عورت کو باز رکھنے کیلئے اس کی جنسی لذت میں مرد کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا۔ اس طرح یہ امر عورت کیلئے زندگی کی اہم اور قابل ذکر خواہش کا درجہ تو حاصل کر گیا لیکن فرسٹریشن کا سبب بننے والی بنیادی ضرورت نہ بنا۔ اگر مرد کے سامنے اس پلس پوائنٹ کی حقیقی تصویر آ جائے تو اس کا اپنی جسمانی قوت کے بالاتر ہونے کا احساس معدوم ہو جائے۔
    اس ساری ترتیب کا مقصد صرف یہ تھا کہ نسل انسانی کی پیدائش بھی ہوتی رہے اور عورت اور مرد کی معاشرتی برابری بھی قائم رہے۔ اگر ہم اس بنیادی اصول پر کہ جنسی تعلق مرد کیلئے عورت کی طرف سے ایک “عطا” ہے، قوانین وضع کرتے تو بھی مرد کو ڈکٹیٹر شپ کا راستہ فراہم نہ ہوتا جو عورت کے استحصال کا سبب بنا۔
    اب ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک فطری قانونِ عائلت وہی ہو سکتا ہے جو مرد کو عورت سے یہ تعلق قائم کرنے کا غیر مشروط حق دے اور اس کے عوض عورت کو مرد سے اس کا نعم البدل وصول کرنے کا حق دے۔
    بعض معاشروں میں شادی کا تصور بھی یہی ہے مگر ہماری کم عقلی یا ہمارے قانون ساز اداروں کی مفاد پرستی یہ رہی کہ شادی کے اس تصور کو نہایت محدود کر دیا گیا۔ اب شادی کا مفہوم نہ صرف یہ کہ ہر معاشرے میں مختلف ہے بلکہ کہیں بھی نقائص سے مبرا، وسیع اور ہمہ گیر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شادی شدہ مرد بھی اپنی اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مثبت راستہ دستیاب نہ ہونے پر چور دروازہ ڈھونڈتا رہتا ہے خواہ اسے یہ دروازہ کسی جرم کے ذریعے ہی کیوں نہ ملے۔
    شادی کا ایک دوسرا فطری تصور معاہدہ روزگار سے مشابہ بھی ہے جس میں شوہر آجر کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بیوی سے جسمانی تعلق کی خدمت “وصول” کرتا ہے یا اولاد کی ابتدائی پرورش کی خدمات لیتا ہے اور اس کے بدلے میں نعم البدل ادا کرتا ہے۔
    اب غور طلب پہلو ہمارے سامنے یہ ہے کہ اگر یہ دوسرا معاہدہ جو ایک روزگار کی مانند ہے اور جس میں شوہر کی حیثیت ایک آجر کی سی ہے تو اس میں شوہر کو اس امر پر کس طرح راغب کیا جائے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کی خدمات یعنی جسمانی تعلق یا اولاد کی پرورش کا یہ نعم البدل کسی داشتہ کی طرح رقم کی صورت میں نہیں بلکہ مکمل مساویانہ کفالتی تحفظ کی صورت میں ہی ادا کرے تاکہ عورت کی اصل ضرورت کی تکمیل ہو سکے؟ ہم اس معاہدے میں مرد کیلئے کیا کیا تراغیب متعین کر سکتے ہیں؟.... یاد رکھنا چاہیے کہ ہم مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کے تقاضے کے مطابق مرد کو اس امر پر یعنی عورت کو صرف کفالتی تحفظ ہی دینے پر مجبور نہیں کر سکتے کیونکہ اس مجبوری کے نتیجے میں اس کیلئے اس معاہدے کی دلک
     
  24. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    15۔ ضابطہ قانون اور طریق

    15۔ ضابطہ قانون اور طریقہ نفاذ

    یہ قانون اس تصور پر استوار کیا جا رہا ہے کہ ہر بالغ انسان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جو جدوجہد کرتا ہے اس کے بدلے میں اگر وہ چاہے تو دولت کے درمیانی رابطے کے بغیر بھی اپنے مقصد کو حاصل کر سکے یعنی مکمل اور بے عیب کفالتی تحفظ حاصل کر سکے۔

    1۔ یہ قانون ایسے معاہدہ روزگار کی اجازت دیتا ہے جس کی رو سے ہر آجر اپنے اجیر کو اس کی خدمات کے عوض اجرت کی کسی متعینہ رقم کی بجائے مکمل کفالتی تحفظ فراہم کرے گا۔ یہ تحفظ تمام ضروریات زندگی یعنی خوراک، لباس رہائش، تعلیم، تفریح، عائلت، میڈیکل پروٹیکشن، غرض زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہو گا اور اس کفالتی تحفظ کا کم از کم معیار عین وہی ہو گا جو خود آجر کے اپنے استعمال میں ہے۔

    اگر کوئی آجر ایک سے زیادہ اجیروں سے یہ کفالتی خدمت گاری کا معاہدہ کرے تو اس پر لازم ہے کہ تمام اجیروں کو یکساں معیار کی کفالت فراہم کرے۔ اگر وہ کسی ایک یا زائد اجیروں کو دوسرے اجیروں کی مرضی کے بغیر کوئی ایسی خصوصی سہولت فراہم کرے جو دیگر اجیروں کو نہ دی گئی ہو تو خواہ وہ سہولت مساویانہ کفالت کے دائرے میں نہ بھی آتی ہو یعنی خود آجر کے استعمال میں نہ بھی ہو تو بھی اس کا یہ اقدام خلاف قواعد اور دیگر اجیروں کی حق تلفی تصور ہو گا۔

    2۔ استعفٰی دینے کا حق اور اختیار پیدائشی طور پر ہر اجیر کی فطری اور ذاتی ملکیت Personalty ہے اور وہ اجیر شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کے تقاضوں کے مطابق اپنی اس ذاتی ملکیت کو جب چاہے اپنے آجر کو اپنی دیگر زیر ملکیت اشیاء کی مانند منتقل کرنے کا مجاز ہے۔

    3۔ حق استعفٰی پر اختیار کی یہ منتقلی تبھی ممکن ہے جب اس کی واپسی قیمت کا تعین ہو چکا ہو تاکہ ہر اجیر کو ایسا معاہدہ کرتے ہوئے یہ معلوم رہے کہ وہ کس طرح جب چاہے اس حق کو واپس حاصل کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کو ایسے رہن کی مثال سمجھا جا سکتا ہے جس میں کسی شے کی رہن رکھوائی کا بدل قیمت اور اس کی واپسی کا بدل قیمت الگ الگ متعین ہو سکتا ہو۔

    4۔ حق استعفٰی پر اختیار دیگر تمام زیرملکیت اشیاء اور جائداد کی طرح قابل انتقال صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ منتقلی کے بعد آجر کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے اجیر کا یہ اختیارجو اس کے پاس ایک رہن کی مثال ہے، جب چاہے معاہدے میں واپسی قیمت کے ضمن میں متعین شرائط کی موجودگی میں کسی تیسرے فرد کو منتقل یا فروخت کر سکے۔

    5۔ آجر کے مرنے کے بعد معاہدے کی ملکیتی حیثیت اس کی دیگر اشیاء کی طرح اس کا ورثہ یا ترکہ تصور ہو گی اور اس کے وارث یا ورثاء کو منتقل ہو گی۔ اگر ان ورثاء کی تعداد ایک سے زیادہ ہو گی تو ورثاء کو دیگر وراثت کی تقسیم سے قبل نئے آجر کا فیصلہ کرنا ہو گا تاکہ کفالتی تحفظ کے معیار کا تعین اور اجیر کی خدمات پر اختیار کی وضاحت ہو سکے۔

    جب تک ورثاء نئے آجر کا تعین نہیں کرتے، اجیر سے کوئی خدمات نہیں لی جا سکتیں جبکہ فوت شدہ آجر کے ترکے میں سے اجیر کو کفالتی تحفظ کی فراہمی سابقہ معیار کے مطابق جاری رہے گی یا اس معیار کے برابر مالیت اس کی واپسی قیمت میں سے منہا ہوتی رہے گی۔

    6۔ اجیر کے مرنے کی صورت میں چونکہ حق استعفٰی کا کوئی وجود نہیں رہے گا اس لیے یہ معاہدہ کالعدم تصور ہو گا اور آجر اجیر کے ورثاء سے اس حق کی واپسی قیمت طلب کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔

    7۔ اجیر کی خدمات کیلئے نوعیت، دورانیہ اور مقام خدمت گاری (جائے ملازمت) کا تعین لازمی نہیں ہے تاہم غیر فطری، مافوق البشری (ڈبل ڈیوٹی) یا غیر قانونی خدمات کا اجیر کو حکم نہیں دیا جا سکے گا۔

    8۔ خدمت گار کی سماجی و قانونی حیثیت بالکل اس کے آجر کی سی ہے اور شہری حقوق، عدالتی گواہی اور وسیع تر قومی امور میں وہ دیگر شہریوں کا ہم پلہ ہے۔ ریاستی تعزیراتی پابندیاں اور معاشرتی حد بندیاں نبھانے کا وہ ذاتی طور پر ذمہ دار ہے اور اس کے ایسے ہر جرم یا خطا پر اس کا آجر بری الذمہ ہے۔

    9۔ خدمت گار کو اپنی ذاتی زندگی میں مکمل خود مختاری حاصل ہے، حتٰی کہ وہ خود اپنی خدمت کیلئے مزید کفالتی خدام رکھنے کا بھی اہل ہے۔

    10۔ کفالتی سہولتوں کی فراہمی کے ضمن میں خود آجر کی ذات معیار کا درجہ رکھتی ہے اور اسے اس امر کی آزادی ہے کہ وہ اپنے بجٹ کے مطابق اس معیار کو اپنی صوابدید پر سستا یا قیمتی کر سکتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ اسے وہی معیار زندگی خود بھی اپنانا ہو گا جو وہ اپنے اجیر کو فراہم کر رہا ہے۔

    11- بیرون ملک رہائش پذیر کوئی بھی شخص آجر بننے کا اہل نہیں ہے کیونکہ کفالتی معیار کے تعین اور گرفت کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وہاں عملداری نہیں ہے۔

    12- آجر کے لیے کسی ایک فرد کا ہونا لازم نہیں ہے۔ کوئی بھی افراد کا مجموعہ یعنی ادارہ، فرم یا کمپنی لفظ “آجر” کی تعریف میں آ سکتے ہیں۔ اس صورت میں کفالتی معیار اس ادارے یا کمپنی کے مالک یا با اختیار شیئر ہولڈر (چیئر مین بورڈ آف ڈائریکٹرز چیف ایگزیکٹو مینجنگ ڈائریکٹر) کا معیار زندگی قرار پائے گا۔

    13- حکومت لفظ “آجر” کی تعریف میں نہیں آ سکتی اس لیے اسے یہ معاہدہ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کسی فرد یا افراد کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک ایسی مشینری کا نام ہے جس میں شامل افراد کسی حکومتی پراجیکٹ کے “مالک” نہیں ہوتے لٰہذا کفالتی تحفظ کیلئے شخصی معیار ممکن نہیں ہے۔

    14- (الف) اگر اس معاہدے کی رو سے خدمت گار بننے والا فرد ایک مرد ہو تو وہ اس معاہدے کا اہل تبھی ہو سکتا ہے جب اس پر کسی دوسرے فرد یا افراد کی کفالت کی ذمہ داری نہ ہو۔ اگر اس پر پہلے ہی کسی فرد یا افراد یعنی اس کے بیوی بچوں اور دیگر اہل خانہ کی کفالتی ذمہ داری ہے یا وہ ایسا ارادہ رکھتا ہے تو اس صورت میں وہ تبھی کفالتی خدمت گار بن سکتا ہے جب اس کا آجر اس کی یہ ذمہ داری بھی مساویانہ کفالتی تحفظ کی صورت میں اٹھانے پر آمادہ ہو۔

    (ب) اگر اس معاہدے کی رو سے خدمت گار بننے والا فرد ایک عورت ہو تو وہ اس معاہدے کی اہل تبھی ہو سکتی ہے جب وہ کسی کے حبالہ نکاح میں نہ ہو۔ اگر وہ پہلے ہی کسی کے نکاح میں ہے یعنی اس نے اپنے لیے مساویانہ کفالتی تحفظ کی فراہمی کی ذمہ داری کسی اور مرد پر ڈال رکھی ہے تو وہ اس معاہدے کی اہل نہیں ہے۔

    15۔ اگر اس معاہدہ روزگار کے دونوں فریقوں کی صورت یہ ہو کہ آجر کوئی ادارہ نہ ہو بلکہ فرد واحد ہو اور مرد ہو جبکہ عورت اجیر ہو اور عورت گزشتہ کم از کم چار ماہ (تین طہر Intramenstal Clean Periods) سے عفیفہ (غیر شادی شدہ، بیوہ یا طلاق یافتہ) ہو تو انہیں باہمی رضامندی سے اس معاہدے کو ایک معاہدہ نکاح کے طور پر ڈکلیئر کرنے کی اجازت ہو گی تاہم اس معاہدے کی قانونی حیثیت نکاح زوجیت سے مختلف ایک نکاح روزگار کی ہو گی اور اس میں آجر شوہر اپنی اجیر بیوی سے اجرت یعنی مساویانہ کفالتی تحفظ کے عوض اولاد کی پیدائش کی خدمات لینے کا استحقاق رکھتا ہو گا۔ اس صورت میں “دونوں کا جسمانی تعلق اور اولاد کی پیدائش،” “رضاعت” اور “گھر سنبھال “House Keeping یا کوئی بھی دوسری خدمت اجیر بیوی کی الگ الگ خدمات تصور ہوں گی اوراگر اس کے آجر شوہر کی طرف سے ایک سے زیادہ خدمات بیک وقت ادا کرنے کی پیشکش کی جائے تو وہ ہر زائد خدمت کا علیحدہ سے مالی معاوضہ لینے کی اہل ٹھہرے گی اور اگر وہ یہ خدمات بھی انجام دینے کے باوجود کوئی معاوضہ نہیں لیتی تو اس کا یہ عمل قانون کی نظر میں اس کا ایثار قرار دیا جائے گا اور اس کو مذکورہ معاوضہ نہ لینے کے بدلے میں کوئی اضافی اختیارات حاصل نہیں ہوں گے جبکہ اول الذکر خدمت یعنی اولاد کی پیدائش کے ضمن میں آجر شوہر کو اس سے جب چاہے فطری جسمانی تعلق کا پورا اور غیر مشروط حق اور اختیار ہو گا اور اس ضمن میں اس اجیر بیوی کی رضامندی یا غیر رضامندی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔ آجر شوہر کو یہ حق بھی حاصل ہو گا کہ وہ جب چاہے مساویانہ کفالتی تحفظ کے عوض اجیر بیوی سے حاصل ہونے والی خدمات کی نوعیت میں حسب منشا تبدیلی کر سکتا ہے اور اس کی جسمانی تعلق اور اولاد کی پیدائش پر مبنی خدمات عارضی یا مستقل طور پر موقوف کر کے کوئی دوسری خدمت اس کے سپرد کر سکتا ہے۔ اس شادی کے معاہدے میں مندرجہ ذیل ضمنی شرائط کی پابندی ہو گی۔

    (الف)۔ اگر آجر اس معاہدے کی قابل انتقال حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے اسے کسی دوسرے آجر کو منتقل کرے تو اس کی عائلی حیثیت ساقط ہو جائے گی اور یہ انتقال ایک عمومی معاہدہ روزگار کی حیثیت سے ہو گا چنانچہ نئے آجر کو اس اجیر عورت سے جسمانی تعلق اور نسل انسانی کی پیدائش پر مبنی خدمات لینے کا استحقاق نہیں ہو گا تاہم فریقین کو یہ اجازت ہو گی کہ وہ باہمی رضامندی سے سطور بالا میں مذکور شرائط کے مطابق اس معاہدہ روزگار کو بھی معاہدہ نکاح کے طور پر ڈکلیئر کر سکتے ہیں۔

    (ب)۔ اگر آجر شوہر مر جائے تو اس معاہدے کا حصہ عائلت خود بخود کالعدم ہو جائے گا اور اجیر عورت کے ساتھ جسمانی تعلق کا حق اور اختیار جو اس کے شوہر کو حاصل تھا، ورثا کو منتقل نہیں ہو گا اور یوں وہ اجیر عورت اگر معاہدے میں متعین واپسی قیمت ورثا کو ادا کر کے معاہدہ ختم نہ کرنا چاہے تو نئے آجر کے تعین کے بعد اس کی خدمات کی نوعیت بدل جائے گی تاہم اپنے شوہر کے ترکے میں اس کا معروف حق اسی طرح موجود رہے گا جیسے نکاح زوجیت کے معاہدے میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر اجیر بیوی مر جائے تو اس کے ترکے میں آجر شوہر کا معروف حق موجود رہے گا۔

    (ج)۔ اگر آجر شوہر ایسی حالت میں وفات پائے کہ اجیر بیوی اس کے بچے یعنی زندہ وارث کی ماں بن چکی ہو تو اس صورت میں معاہدے کی قابل انتقال صلاحیت بھی ساقط ہو جائے گی چنانچہ اس اجیر بیوی کو شوہر سے ملنے والی وراثت میں سے اس کے حق استعفٰی کی واپسی قیمت منہا کر لی جائے گی اور معاہدہ کالعدم تصور ہو گا۔ اگر اس واپسی قیمت کی مالیت اس کے حقِ وراثت سے زیادہ ہو تو بھی معاہدہ منسوخ تصور ہو گا اور پھر یہی تنسیخ معاہدہ ہی اس کی وراثت تصور ہو گی جبکہ دیگر وراثت میں سے اس کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

    (د)۔ اگر آجر شوہر ایسی حالت میں وفات پائے کہ اجیر بیوی اپنی کوکھ سے اس کے پہلے بچے کو جنم دینے والی ہو تو اس صورت میں یہ معاہدہ تبھی کالعدم ممکن ہو گا جب وہ بچے یعنی اپنے آجر شوہر کے ایک زندہ وارث کو کامیابی سے جنم دے دے۔

    16۔ آجر کی طرف سے معاہدے میں طے کردہ کسی شرط کی خلاف ورزی اور اجیر کی حق تلفی پر متعلقہ لیبر کورٹ کو معاہدے کی مارکیٹ ویلیو میں کمی کرنے کیلئے معاہدے میں متعین واپسی قیمت کی مالیت میں یا کسی دوسری شرط میں اجیر کے حق میں ترمیم یا تنسیخ کرنے کا اختیار ہے۔

    17- اجیر کی طرف سے معاہدے کی کسی شرط کی خلاف ورزی یا جان بوجھ کر آجر کا نقصان کرنے کی صورت میں عدالت کو اختیار ہے کہ معاہدے کی ویلیو میں اضافہ کرنے کیلئے اس میں متعین شرائط کی آجر کے حق میں ترمیم کرے۔ علاوہ ازیں اسے اجیر کی منقولہ و غیرمنقولہ جائداد ضبط کر کے آجر کا نقصان پورا کرنے کا بھی اختیار ہے۔

    اب صرف ایک پہلو تشنہ ہے، نظم عدالت کا پہلو۔

    اس حوالے سے یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک یعنی غریب ممالک میں جہاں پہلے ہی مقدمات کی بھرمار ہے، اس نئے نظام کے عدالتی سیٹ اپ اور علیحدہ پرائمری کورٹس کے قیام کیلئے فنڈز کہاں سے فراہم ہوں گے؟

    اس اعتراض کے جواب کیلئے اگر ذرا سی باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ تقریباً سبھی مہذب معاشروں میں ایک بنا بنایا ایسا سیٹ اپ موجود ہے جو کسی سرکاری مالی سہارے کا محتاج نہیں ہے اور محض اختیارات کے تعین سے ہی نہ صرف عدل وانصاف کا ضامن بن سکتا ہے بلکہ اپنی نئی شناخت کے ذریعے قومی خزانے کی غیر معمولی تقویت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہ بنا بنایا سیٹ اپ ہر معاشرے کا مذہبی عبادات کا ڈھانچہ ہے۔

    اگر ہر مذہبی عبادت گاہ کو، ہر مسجد چرچ اور معبد کو محلے کی سطح پر کفالتی تحفظ کی ایسی اعزازی لیبر کورٹ کا درجہ دے دیا جائے جس میں اس مسجد یا معبد کے ذمہ دار فرد (انتظامیہ کمیٹی کے ارکان یا امام، خطیب اور پادری پروہت وغیرہ) اس کورٹ کے اعزازی مجسٹریٹ ہوں اور کرپشن کا امکان ختم کرنے کیلئے محلے یا علاقے کے پڑھے لکھے افراد ایک روٹیشن کے ساتھ اس عدالت میں جیوری کے اعزازی ارکان بنیں تو اس مسئلے کا آسان اور سیدھا سادا حل نکل آئے گا۔

    حکومت کی طرف سے ناظم انفاق Funds Collector کی ذمہ داریاں بھی ان اعزازی مجسٹریٹ صاحبان کے سپرد کی جائیں یعنی حکومتوں کی طرف سے اجتماعی فلاحی مقاصد کیلئے عوام سے جو مالی تعاون وصول کیا جائے، انہی کی وساطت سے وصول کیا جائے۔ یہ اعزازی مجسٹریٹ موصوف اپنے محلے کے افراد کیلئے روزمرہ کی دستاویزات اور نقول وغیرہ کی تصدیق کرنے کے بھی مجاز ہوں تاکہ انہیں یہ فنڈز زیادہ سے زیادہ مقدار میں حاصل کرنے کیلئے ترغیب و تشویق کی فضا بنانے میں آسانی ہو۔ ان خدمات کے عوض ان مجسٹریٹ صاحبان کیلئے قومی خزانے سے اسی معیار کی کفالت فراہم ہو جیسی سربراہ مملکت کو حاصل ہو رہی ہے۔ اس سے نہ صرف طبقاتی امتیاز ختم ہو گا اور سربراہ مملکت کو اپنے معیار زندگی کو پر تعیش کے درجے سے نیچے لانا پڑے گا بلکہ ان ناظمین انفاق اور ان کے خاندان کیلئے وسیلہ کفالت بھی بنے گا جبکہ دوسری طرف ان ناظمین کی ترغیب و تشویق کے باعث ریونیو کی مقدار میں بھی تیزی سے اضافہ ہو گا (اس تصور کی مزید تفصیل آئندہ صفحات میں زیر نظر آئے گی۔) اسی طرح ہر عبادت گاہ کو “شیرف آفس” کے سے انداز میں عوام اور حکومت کے درمیان رابطے کا ذریعہ، محلے کا میڈیا سنٹر یا مقامی سرکاری انتظامی اہلکاروں یا لوکل گورنمنٹ کے منتخب کونسلروں کے چیک اینڈ بیلنس کیلئے انہی مجسٹریٹ اور جیوری پر مشتمل پرائمری اعزازی عدالت احتساب کی شکل دی جا سکتی ہے اور اس تمام عمل کو مالی تعاون کیلئے ایڈورٹائزنگ سپانسر شپ مل سکتی ہے جس سے یہ تمام عدالتی نظام خود کفیل ہو سکتا ہے اور اگر ایسے ہر میڈیا سنٹر کے ساتھ کمرشل پوائنٹس مثلاً دکانیں سٹالز وغیرہ بھی ہوں تو یہ نظام بذات خود وسائل کا منبع ثابت ہو سکتا ہے، وعلٰی ہٰذالقیاس.... غرض ایسے کئی ذرائع تخلیق ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ عدالتی ڈھانچہ نہ صرف حکومتی مالی سہارے کا محتاج نہیں رہتا بلکہ اپنے آپ میں قومی خزانے کیلئے ایک بہت بڑی تقویت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک بالواسطہ فائدہ یہ ہو گا کہ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے بھی انسانیت کو نجات مل جائے گی کیونکہ کسی بھی مذہب کی مذہبی پیشوائیت کو اپنے لیے روزگار اور معاشرے کے افراد کی نظر میں محترم حیثیت حاصل کرنے کیلئے مذہب فروشی کی دکان سجانے کی ضرورت نہیں رہے گی.... الغرض ایسی رائے کہ یہ نظام نافذالعمل نہیں ہو سکتا، عذرلنگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔

    یہ ایسا قانون ہے جو موجودہ دور کے تمام نامکمل قوانین کے خلا کو بھرتا ہے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کا حتمی اور قانونی، مثبت اور محفوظ راستہ مہیا کرتا ہے۔ اس میں بنیادی انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے تمام تقاضے فی الواقعہ پورے کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے یعنی یہ کسی بھی فرد کو محض اسی نظام تک محدود رہنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اگر کوئی فرد اس معاہدے کے بنیادی تصور یعنی اجرت کی صورت میں کفالتی تحفظ کے تصور سے متفق نہیں ہے تو اسے پورا استحقاق ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ترتیب میں اجرت کا مروجہ تصور یعنی تنخواہ کا تصور ہی اختیار کرے مگر اسے بہرحال یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے افراد کیلئے اس معاہدے کو اختیار کرنے کی آزادی میں رکاوٹ بنے۔ شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کا فلسفہ ہر مہذب معاشرے کی اساس ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ معاہدہ روزگار کے دونوں تصورات یعنی اجرت کی رقم کی صورت میں ادائیگی اور کفالتی تحفظ کی شکل میں ادائیگی کے راستے معاشرے کو دستیاب ہوں اور انہیں کسی بھی وقت اختیار کرنے یا چھوڑ دینے کی ہر فرد کو آزادی ہو۔ ہم بخوبی سمجھتے ہیں کہ استعفٰی دینے کا حق ہر شخص کی فطری آزادی کا حصہ ہے اور اس کی ذاتی ملکیتی جائداد Personalty کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم کسی فرد کو اس کی ملکیتی چیز کو رہن رکھنے کی اجازت نہ دیں تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے یہ نام نہاد شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے تصورات اور ان کا پراپیگنڈا محض بے ہنگم شور سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
     
  25. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    16۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منظر نامہ

    16۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منظر نامہ

    سابقہ ابواب میں آپ نے ایک ایسا قانونی ضابطہ ملاحظہ فرمایا جس کا کوئی ہیولہ اس سے پہلے آپ کے ذہنوں میں نہیں تھا لٰہذا اس امر کا امکان موجود ہے کہ کچھ لوگوں کی نظر میں معاشرتی نظام کا یہ تصور اور اس کے فوائد ابھی پوری طرح اجاگر نہ ہوئے ہوں، اس لیے مناسب ہو گا کہ اس قانون کی اجازت مل جانے کے بعد معاشرے کے کینوس پر اس کے مابعد اثرات کا جو منظر ابھر سکتا ہے اسے چشم تصور پر دیکھا جائے۔ اس باب میں ہم ایسے ہی چند مناظر اجاگر کریں گے۔
    ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ قانون بالواسطہ یا بلاواسطہ، زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے لٰہذا اس باب میں ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اس کے اثرات کا باری باری جائزہ لینا ہو گا۔ سب سے پہلے معاشی پہلو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    فرض کیجئے ایک صنعتکار یا زمیندار جو روز روز کی ہڑتالوں، لیبر ڈیمانڈ، تنخواہوں، بونس اور قانونی جکڑ بندیوں کے نت نئے بکھیڑوں سے پریشان ہے، اس ایکٹ کے تحت اپنی تمام یا منتخب لیبر سے کفالتی خدمت گاری کا معاہدہ کر لیتا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ اسے ان الجھنوں سے نجات ملے بلکہ اس کے وہ ملازمین بھی جو اس کے ہاں کام کا تجربہ حاصل کر کے قیمتی بن چکے ہیں، جب چاہے اسے چھوڑ کر بھی نہ جا سکیں۔ اب اس پر لازم ہے کہ جس طرح کا ماحول، جس طرح کی بودوباش خود اس نے اختیار کر رکھی ہے، وہی اپنے خادموں کو بھی فراہم کرے۔ جتنی بڑی کوٹھی میں وہ خود رہتا ہے، جس کار یا ائیر کنڈیشنر کو وہ خود استعمال کرتا ہے، جس سکول میں اس کے اپنے بچے پڑھتے ہیں، جس طرح وہ اپنی تقریبات مناتا ہے ویسا ہی ماحول فرداً فرداً ہر خدمت گار کو فراہم کرے۔ ظاہر ہے کہ نمودونمائش کی فضا میں یہ سب کچھ اس کیلئے ممکن نہیں ہو گا چنانچہ اس کے پاس اس قانون سے فائدہ اٹھانے کا ایک ہی طریقہ ہو گا کہ وہ اپنا معیار زندگی سادہ کر لے اور ویسی ہی سہولتیں خود بھی اختیار کر لے جیسی وہ اپنے خدام کو فراہم کرنے جا رہا ہے یعنی انہی کی طرح فلیٹ میں رہے، انہی جیسی یونیفارم یا دوسرا لباس پہنے، وہی خوراک اور وہی طبی سہولت خود بھی اختیار کرے جو اس نے اپنے ملازموں کو مہیا کرنی ہے۔ بچوں کی تعلیم وتربیت، تفریحات اور تقریبات کے درجوں میں مکمل یکسانیت ہو اور وہ اپنے اور اپنے اجیروں کے درمیان کوئی طبقاتی امتیاز نہ رکھے تاکہ عدالت کی طرف سے اسے قانونی تحفظ حاصل رہے اور وہ خاطر خواہ طور پر اپنے کاروبار سے استفادہ حاصل کرتا رہے۔
    بطور مثال اس نوع کی مثالیں صنعت وحرفت، زراعت، تجارت، غرض زندگی کے ہر اس شعبہ سے دی جا سکتی ہیں جہاں کسی بھی معاہدہ روزگار کی ممکنات موجود ہیں۔
    حقیقت یہ ہے کہ اگر اس قانون کی عملی اجازت ہو جائے تو اس کے سامنے اجرت کا دوسرا نظام اجازت ہونے کے باوجود ناکام ہو جائے گا اور کوئی ایسا آجر جو جاہ وحشم اور نمودونمائش کی ترتیب اپنی زندگی میں رکھتا ہو، مارکیٹ میں Survive ہی کر نہیں پائے گا۔ بادی النظر میں یہ ایک ناقابل یقین سی بات لگتی ہے لیکن دیکھ لیجیے، یہ دو اور دو چار کی طرح ثابت ہو رہی ہے۔
    فرض کیجیے ایک بڑا صنعتکار یا زمیندار اپنی تمام یا منتخب لیبر سے اس کفالتی خدمت گاری کا معاہدہ کر لیتا ہے۔ اب اس کیلئے تنخواہ، بونس، انشورنس، پنشن اور دیگر اسی قسم کے اخراجات کا بکھیڑا ختم ہو چکا ہے۔ شرط وہی ہے کہ کفالت کا وہی معیار اپنے اجیروں کو فراہم کرے جو خود اس کے اپنے تصرف میں ہے۔ اب اگر وہ اپنا طرز زندگی سادہ اور کم خرچ کر لے تو ویسی ہی سہولتیں اپنے اجیروں کو فراہم کرنے میں اس کا خرچ بہت کم اٹھے گا لٰہذا اس کی مصنوعات کے اخراجات پیداوار بھی بہت کم رہ جائیں گے چنانچہ اس کے لیے غیر معمولی کم مارکیٹ ریٹ بھی اچھے خاصے منافع کا باعث ہونے لگیں گے۔ اب اگر اس کے Competitors کو مارکیٹ میں Survive کرنا ہے تو ان کے پاس بھی اس نظام کو بادل نخواستہ اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔
    اب میکرو اکنامکس کے تناظر میں اس قانون کا جائزہ لیجیے۔
    اس قانون کا ایک بہت بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس سے پرائیویٹ سیکٹر میں زراعت اور صنعت کو یکلخت عروج نصیب ہو گا، چھوٹی صنعتیں تک نہایت تیزی سے تقویت حاصل کریں گی اور برآمدات کی منڈیوں میں کم نرخ بھی زیادہ منافع کا باعث بنیں گے کیونکہ اخراجات پیداوار کو جتنا چاہے کم کرنے کا فارمولا ہاتھ آ چکا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو معاشرہ بھی اس نظام کی اپنے شہریوں کو پہلے اجازت دے گا وہ برآمدات کے گراف کو دوسرے ممالک کی نسبت کہیں زیادہ تیزی سے بلند کرے گا اور دولت مندی میں اس قدر آگے نکل جائے گا کہ پھر دوسرے معاشروں کیلئے اس نظام کی اجازت کے بعد بھی اس سے آگے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔
    اس قانون کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بالواسطہ طور پر صنعتی نیشنلائزیشن، حتٰی کہ سوشلزم کے خلاف بھی تحفظ دیتا ہے، وہ اس طرح کہ اگر حکومت کسی صنعت کو نیشنلائز کرتی ہے تو اس کے پاس کفالت کیلئے شخصی معیار نہ ہونے کی وجہ سے صرف رقم کی صورت میں اجرت کی ادائیگی کا نظام ہو گا کیونکہ وہ لفظ “آجر” کی تعریف میں نہیں آسکتی چنانچہ اس معاہدے کو اختیار کرنے کی اہل نہیں ہے اور اجرت کے رقم کی صورت میں ادا ہونے کا تصور اس معاہدے کا سامنے چل ہی نہیں سکتا جیسا کہ قبل ازیں جائزہ لیا جا چکا ہے لٰہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیشنلائزیشن یا قومی تحویل میں لینے کا مطلب صنعت کا دیوالیہ ہونا اور سوشلزم کا مطلب پورے ملک کا دیوالیہ ہونا ہو گا اور کوئی بھی حکومت اس قدر احمق نہیں ہو سکتی۔
    اس طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو دنیا سے سوشلزم کا کہ جس کے کندھوں پر کمیونزم کا جبر سوار ہوتا ہے، خاتمہ کر دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی کمیونسٹ ملک بھی جو کم قیمت مصنوعات بنانے کی شہرت ہی کیوں نہ رکھتا ہو، برآمدات کی منڈیوں میں اس ملک کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا جہاں اس کفالتی نظام روزگار کی قانونی اجازت ہو یعنی جہاں کے صنعتکاروں کو اخراجات پیداوار لامحدود حد تک کم کرنے کی آزادی ملی ہوئی ہو۔ تب اس کمیونسٹ ملک کی پوری صنعت تباہ ہوجائے گی اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے پورے ملک کا دیوالیہ ہونا قرار دیا ہے۔ اسی بات کو مزید آگے بڑھائیں تو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی اس نظام کو قانونی حیثیت حاصل ہو گئی، سوشلزم اور کمیونزم جہاں کہیں بھی ہو گا، براہ راست اس کی زد میں آ جائے گا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قانون انسانیت کو سوشلزم سے بھی تحفظ دیتا ہے جبکہ خود انحصاری اور معاشرتی خوشحالی جیسے مسائل اس نظام کے سامنے خس وخاشاک سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔
    آئیے اب اس نظام کو اجیر کی نظر سے دیکھیں۔
    اجیر کے لیے ایک بڑی نعمت وہ رقم ہے جو اسے اپنے حق استعفٰی کی منتقلی پر اپنے آجر سے ملتی ہے۔ اس رقم سے وہ اپنے قرض ادا کر سکتا ہے، کسی بے سہارا عزیز کا فوری علاج کرا سکتا ہے یا کوئی اور ایسی فوری ضرورت پوری کر سکتا ہے جو کفالتی تحفظ کے دائرے سے باہر ہو۔
    دوسری نعمت اس کی بے فکری ہے۔ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی بے عیب کفالت کی ذمہ داری اب اس پر نہیں رہی۔ اب یہ تمام ضروریات فراہم کرنا یعنی خوراک، رہائش، لباس، تفریحات، تعلیم، طبی تحفظ، غرض تمام ضروریات کا اپنے مساوی انتظام اور ان کی حفاظت کرنا اس کے آجر کی ذمہ داری ہے جس میں عدم مساوات پر وہ بڑے مزے کے ساتھ عدالت سے رجوع کر کے واپسی قیمت ادا کیے بغیر معاہدہ منسوخ کرا سکتا ہے اور دوبارہ کسی دوسرے آجر سے معاہدہ کر کے مزید رقم حاصل کر سکتا ہے۔
    تیسری نعمت اس کیلئے ترقی کے مواقع ہیں۔ اس پر لیبر ایکٹ کے مطابق مقررہ دورانیے کے بعد فرصت کے اوقات میسر ہوں گے۔ وہ روز مرہ کی فکروں سے آزاد ہے چنانچہ تفریح کر سکتا ہے، تعلیم حاصل کر سکتا ہے، زائد آمدنی حاصل کر سکتا ہے یا کوئی بھی علمی، ادبی، سائنسی، قومی، مذہبی یا سماجی خدمت کر کے خود کو معاشرے میں سربلند کر سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے، ذمہ داریوں اور تشویش کے عالم میں اس کیلئے ناممکن ہے۔
    یہ قانون غریب سے غریب اور امیر سے امیر شخص کو بھرپور تحفظ دیتا ہے کیونکہ یہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے، غرض ہر طرح کے معاہدہ روزگار میں موثر ہے۔
    ہم اپنے اردگرد بہت سے ایسے افراد کو دیکھتے ہیں جو کسی نہ کسی ہنر میں مہارت کے حامل ہوتے ہیں مگر یہ لوگ اپنی قابلیت، اپنی ہنرمندی ایک راز بنا کر رکھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اپنا ذریعہ آمدن تخلیق کیے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے علم میں کوئی خفیہ ترکیب یا فارمولا ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر وہ کوئی ایسی چیز بناتے ہیں جو مارکیٹ میں اجارہ داری قائم کر لیتی ہے۔ یہی ترکیب،فارمولا یا نسخہ ان کا وہ راز ہوتا ہے جس کا تحفظ انہیں ہر قیمت پر رکھنا ہوتا ہے۔
    اس نوعیت کی بے شمار مثالیں ہمیں طب و حکمت، ہاؤس ہولڈ یا کاسمیٹکس مصنوعات، تیکنیکی میدان مثلاً ورکشاپس، کوکنگ مثلاً کسی ریسٹوران کی کوئی خصوصی ڈش، غرض زندگی کے تقریباً سبھی پہلوؤں میں بکھری نظر آتی ہیں جن میں تکنیک یا ترکیب کی راز داری پر اسے جاننے والے کے بزنس کی بقاء اور امارت کا دارومدار ہوتا ہے۔
    بڑی کمپنیوں کے مالکان کیلئے اپنی مصنوعات کی تکنیک پیدائش اور مارکیٹنگ کے داؤ پیچ کا تحفظ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور ان کے پاس اس کا راستہ یہی ہوتا ہے کہ وہ ان ملازموں کو جو ان کی کمپنی میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اپنے تجربہ کی وجہ سے ان میں سے کسی امر کے ماہر ہو چکے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں دے کر انہیں اپنی کمپنی میں روکے رکھیں.... اور یہ بڑی بڑی تنخواہیں ان اداروں کے اخراجات پیداوار پر بہت بڑا بوجھ ہوتی ہیں۔
    اس تحفظ کی اہمیت ہم سب سمجھتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ جونہی ترکیب یا تکنیک کی حقیقت کسی دوسرے کو مل گئی، وہ اس سے فائدہ اٹھا لے گا اور جس شخص کیلئے یہ فارمولا اب تک غیر معمولی آمدن کا باعث بنتا رہا ہے، اپنی آمدن کم یا شاید ختم ہی کر بیٹھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ کسی طرح کی بھی خفیہ تکنیک، نسخے، فارمولے یا مہارت سے واقف ہیں، اپنے فن کا راز کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے، حتٰی کہ ایک روز مر جاتے ہیں اور انسانیت ایک فائدہ مند حقیقت سے محروم ہو جاتی ہے۔
    اب کفالتی تحفظ کے معاہدے کے تناظر میں اس مسئلے کو دیکھیے۔
    جب حق استعفٰی اپنے نام منتقل کرانے والے آجر کو یہ معلوم ہو گا کہ اس کا ملازم اس کے کاروبار کا راز جان لینے کے بعد یعنی اس کے ہاتھوں ایک قیمتی شخص بن جانے کے بعد اسے فائدہ پہنچائے بغیر محض اپنی مرضی سے اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا اور اسے اس وقت تک فائدہ پہنچاتا رہے گا جب تک وہ آجر خود چاہے گا، اور اگر اجیر اپنی مرضی سے اسے چھوڑنا چاہے گا تو اسے واپسی قیمت کی شکل میں اپنے قیمتی بننے کا معاوضہ ادا کرنا پڑے گا تو یقیناً اس کا احساس تحفظ برقرار رہے گا اور وہ اپنی تمام تکنیک یا مہارت جس پر اس کی دولت مندی کا دارومدار ہے، اپنے اجیر کو اس قدر تیزی سے سکھا دے گا جس کا تنخواہ کے نظام میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
    اس کا مطلب ہے کہ اس نظام کی بدولت معاشرہ کسی فائدہ مند راز سے یوں محروم ہونے سے بچ جائے گا جیسے وہ آجر کے مر جانے کی صورت میں ہوتا تھا۔
    وسیع تر کینوس پر اس فائدے کو Imagine کرنے سے یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ جب کوئی بھی دریافت، کوئی نادر فارمولا ضائع نہ ہو گا تو طبی سائنسی علمی تحقیق وترقی کی رفتار خود بخود تیز ہو جائے گی۔ بہت سے ایسے راز جو انفرادی طور پر مختلف افراد کو معلوم ہیں، اس ترقی میں تبھی مددگار ہو سکتے ہیں جب وہ ماہرین کے ہاتھوں میں پہنچ جائیں اور اس کی امید تبھی ہو سکتی ہے جب معاشرے سے ان رازوں کے غائب ہونے کا سلسلہ ختم نہ ہو جائے.... اور اس کی گارنٹی صرف کفالتی تحفظ کا یہی نظام دے سکتا ہے۔
    اجیر کی نظر سے دیکھنے پر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اس کیلئے ایک بڑی نعمت وہ فوری علم یا مہارت ہے جو اس کفالتی معاہدے کے طے پا جانے کے بعد اسے اپنے آجر سے برق رفتاری کے ساتھ حاصل ہو گی اور جس کے نتیجے میں وہ دیکھتے ہی دیکھتے عام آدمی سے ایک قیمتی انسان بنتا چلا جائے گا۔ تب آجر کی نظر میں اس کی وقعت تقریباً ویسی ہی ہو جائے گی جیسی منہ بولے بیٹے کی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قیمتی بننے کی یہ رفتار اسے تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے پاس استعفٰی کا غیر مشروط حق نہ ہو اور وہ قیمتی بننے کے بعد آجر کو اسی طرح جب چاہے چھوڑ کر نہ جا سکے جس طرح ایک فرمانبردار بیٹا باپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔
    ماہرین طب اس بات پر متفق ہیں کہ نوے فیصد بیماریاں بالواسطہ یا براہ راست، فکروپریشانی اور ذہنی تشویش سے یا تو جنم لیتی ہیں یا طوالت اختیار کرتی ہیں۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہمارے گردوپیش کا ماحول تشویش کو جنم دینے والا نہ ہو تو بیماریوں کی شرح تقریباً معدوم ہو جائے گی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تشویش کی وجوہات کم مائیگی یا جنسی تشنگی کے احساسات ہیں۔ یہ بھی سمجھا جا چکا ہے کہ ان احساسات کی وجہ طبقاتی امتیاز، ہوسِ زر اور جنس کے ضمن میں ہمارا بنیادی انسانی حقوق کا غلط تعین ہے اور یہ کہ انہیں درست کرنے یا نکال باہر پھینکنے کیلئے ابتدائی لائحہ عمل یہی ہو سکتا ہے کہ ذہنوں میں افضلیت اور عظمت کی علامت بدل دی جائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر انسان کو اپنی جدوجہد کے عوض دولت کے درمیانی رابطے کے بغیر بھی فول پروف کفالتی تحفظ حاصل ہونے کا راستہ دستیاب ہو اور فطری جائداد یعنی حق استعفٰی کی منتقلی کی اجازت ہو تاکہ اخلاقیات اور خصائل “برتری اور عظمت” کی علامت بن جائیں اور شہرت اور ناموری، عہدہ واختیارات کی پرشکوہ عمارت اسی علامت پر ایستادہ ہو۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہو گا جب معاشرے کے امیر اور غریب آدمی کا طرز زندگی ایک جیسا ہو جائے، اور امیر آدمی اپنے معیار زندگی کو سادہ بنانے پر اس وقت تک آمادہ نہیں ہو سکتا جب تک اسے اس کام کا بہت بڑا فائدہ اپنے سامنے دکھائی نہ دے.... اور یہ فائدہ صرف کفالتی خدمت گاری کا ایکٹ اسے دے سکتا ہے۔
    گزشتہ صفحات میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ اس کفالتی معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ نظام معاشرے میں اخلاق و اطوار، رویے، وطیرے، سلوک اور خصائل کو مالی اقدار Commercial Values بنا دیتا ہے۔ آیئے اس منظر کو چشم تصور سے دیکھیں۔
    یہ معاہدہ کرتے وقت جب کوئی اجیر اپنے آجر کو اپنے حق استعفٰی کی اپنے آجر کو منتقلی کیلئے مالیت کا تعین کرنا چاہے گا تو وہ یقیناً آجر کے رویے، ہمدردی، انصاف پسندی،خوش مزاجی، حسن سلوک،عجز و انکسار، سخاوت اور فراخ دلی، غرض اعلٰی انسانی اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھے گا۔ اسی طرح آجر بھی اجیر کے حق استعفٰی کی مالیت اور واپسی قیمت اس کے نیک نیت، وفادار اور دیانت دار ہونے کے تاثر، صداقت، سادگی پسندی، خوش مزاجی، سلیقہ وعادات، تعاون پسندی اور دیگر اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ہی طے کرے گا۔ ہر دو فریق میں سے جس کی بھی یہ خصوصیات جتنی زیادہ ہوں گی اتنی ہی اس کی مارکیٹ قدروقیمت بھی زیادہ ہو گی۔ اگر آجر بہت اچھا، بااخلاق اور محبتی ہے تو اجیر اپنے حق استعفٰی کی کم مالیت بھی قبول کر لے گا۔ اسی طرح اگر اجیر بہت سے اوصاف اور اچھی ساکھ کا حامل ہے تو آجر اس کے حق کی زیادہ مالیت ادا کرنے پر بھی آمادہ ہو گا اور یوں ظاہر ہے کہ انسان کی ان ذاتی خوبیوں کو معاشرے میں کمرشل حیثیت حاصل ہو جائے گی جنہیں خود میں لامحدود تعداد یا مقدار میں پیدا کرنے کیلئے نہ تو دولت درکار ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کسی سے خریدی یا چھینی جا سکتی ہیں۔ تب پھر کسی کوشش کے بغیر یہ خوبیاں معاشرے میں برتری کی علامت قرار پا جائیں گی اور افراد اخلاقی اقدار، سادگی، ہمدردی، سچائی اور ایمانداری کی اپنی ساکھ بنانے کے لیے اسی طرح دیوانے ہوں گے جس طرح آج دولت کے ہو رہے ہیں۔ تب وہ معاشرہ دوبارہ وجود میں آجائے گا جس کے بارے میں تاریخ میں لکھا ہے کہ لوگ خیرات کرنے کیلئے رقم لے کر نکلتے تھے اور لینے والا نہیں ملتا تھا، اور یہی اسلامی کلچر کا جزو لازم ہے۔
    نفسیات کے ماہرین اس امر پر سو فیصد متفق ہیں کہ تشویش میں مبتلا کوئی بھی فرد اپنے فرائض خاطر خواہ طور پر انجام نہیں دے سکتا، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ افراد کی بھرپور ذہنی و جسمانی کارکردگی جو مجموعی شرح ترقی میں اضافے کے حوالے سے کسی بھی معاشرے کی سب سے پہلی ضرورت ہے، صرف اسی کفالتی نظام روزگار کی اجازت سے ممکن ہے۔
    اب ہم جنسی ضرورت کے تناظر میں اس نظام کی افادیت کو دیکھتے ہیں۔
    قدرت نے انسان میں جنس کا جو نظام رکھا ہے اس میں مرد کو باہ کا پابند کیا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ عورت کے جسمانی نظام میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مرد کی اس بناوٹ میں جب ناتوانی اور کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اس سے دیگر بہت سی طبی اور عائلی پیچیدگیوں کے علاوہ اس کے ذہن میں احساس کمتری یا احساس محرومی کی مہلک سوچ بھی جنم لیتی ہے۔ تب وہ اس صلاحیت کو سہارا دینے کیلئے برانگیختہ کرنے والی ادویات Stimulants شراب یا ضرر رساں کیمیائی مرکبات کشتے Aphrodesics وغیرہ استعمال کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والے برے اثرات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں منشیات کے استعمال کے امکانات بھی کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ اس کو اپنی مردانہ پہچان میں نقاہت دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے کہ اس نقاہت کا امکان ہی ختم کر دیا جائے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ معاشرے سے عطائیت تو درکنار، منشیات کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ امکان کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کریں۔
    اس نقاہت کی سب سے بڑی وجہ تشویش ہے۔ یہ تشویش نفسیاتی بھی ہو سکتی ہے یعنی عورت کو رضامند کرنے کی شرط۔۔ یہ تشویش معاشی بھی ہو سکتی ہے یعنی دولت کی کمی کا احساس اور اس کے نتیجے میں معاشرتی وقار میں کمی کی فرسٹریشن۔ یہ تشویش طبی بھی ہو سکتی ہے یعنی انفیکشن کا احتمال جو اس ضرورت کی تکمیل میں رکاوٹ بنتا ہے۔
    ماہرین طب جانتے ہیں کہ قوت مردمی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا عامل ذہنی تشویش ہے۔ جب کوئی شخص متفکر ہوتا ہے تو اس کا یہی تفکر اپنی شدت کے تناسب کے مطابق اس قوت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تشویش کے محرکات اور ان کے ازالے کا ہم پہلے ہی سیر حاصل احاطہ کر چکے ہیں لٰہذا انہیں یہاں خوامخواہ آموختہ بنانا بے سود ہے۔
    اس صلاحیت میں نقاہت کی دوسری بڑی وجہ اس کی نشوونما میں کمی ہے۔ انسانی جسم کی کارکردگی کا فطری اصول عام مشینوں سے مختلف، بلکہ متضاد ہے۔ انسان کی جس صلاحیت کو جتنا جلدی اور جتنا زیادہ استعمال میں لایا جائے وہ اسی قدر افزائش حاصل کرتی ہے اور اتنی ہی زیادہ طویل العمر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ابتدا ہی سے محنت و مشقت کے عادی افراد کے قوٰی بڑھاپے تک متحرک اور فعال رہتے ہیں، کھلی فضا میں رہنے والوں پر موسم کی تبدیلی کا اثر کم ہوتا ہے، ذہنی صلاحیت تعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے، اسی طرح اگر ہر مرد کو اس کی اس ضرورت کی تکمیل کا آسان اور محفوظ راستہ ابتدائے بلوغت سے ہی میسر رہے تو اسے نہ صرف اپنی قوت میں کبھی نقاہت محسوس نہیں ہو گی بلکہ یہ توانائی اس میں کسی خارجی سہارے، کسی کیمیائی مرکب یا منشیات کے بغیر اس کے آخری سانس تک موجود رہے گی خواہ وہ سو سال کا ہی کیوں نہ ہو جائے۔
    آج ہمارے مہذب معاشروں میں دستور یہ ہے کہ لڑکا جب بالغ ہوتا ہے تو اسے سب سے پہلے عورت کو رضامند کرنے کی شرط کا سامنا ہوتا ہے، تب وہ شادی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اس سے بیوی کے انتخاب میں کوئی غلطی ہو گئی تو ساری عمر کا پچھتاوا مقدر ٹھہرے گا چنانچہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ شادی کا فیصلہ موخر کرتا جاتا ہے۔ اس تاخیر کے نتیجے میں اس کی جنسی طلب عدم تکمیل کی وجہ سے فرسٹریشن میں بدلنے لگتی ہے۔ تب وہ شادی کے بغیر بھی عورت کو رضامند کرنے کیلئے بہت سی دولت حاصل کرنے کے بارے میں سوچتا ہے اور چکلے کی طرف بھاگتا ہے۔ وہ عورت کی نظریں خود پر مرکوز کرانے کیلئے سپورٹس، ایڈونچر، شو بزنس یا کسی منفی میدان مثلاً غنڈہ گردی کے ذریعے جسمانی قوت اور دلیری کا مظاہرہ کر کے خود کو ہیرو پوز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ عورت سے نقلی وفا و محبت اور سوچ کی ہم آہنگی کا ناٹک رچاتا ہے تاکہ قسموں وعدوں کے راستے سے اس کے جسم تک پہنچے۔ کوئی مثبت ذریعہ نہ بننے پر یا کسی ناکامی پر وہ شدید فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر Rape کا ارتکاب کرسکتا ہے یا اس فرسٹریشن سے جان چھڑانے کیلئے کوئی راہ فرار اختیار کر سکتا ہے۔ یہ وہی راہ فرار ہے جس کی آخری منزل منشیات ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمارے معاشروں میں اسے جہاں نشوونما کا ماحول نصیب نہیں ہوتا وہاں ساتھ ہی تشویش کے عوامل بھی بڑھتے جاتے ہیں جو بذات خود اس کمزوری کے پیدا ہونے کا بہت بڑا باعث ہیں۔
    اس تمام خرابی کی وجہ یہی ہے کہ ہر مرد کیلئے ابتدائے بلوغت سے ہی عورت تک شائستہ، محفوظ اور حسب ضرورت رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ کفالتی تحفظ کے نظام میں شادی کے معاہدے کے مطابق عورت چونکہ اجیر ہے اور اس کی خدمات کا صرف نسل انسانی کی پیدائش اور پرورش تک محدود ہونا لازم نہیں ہے لٰہذا ایسا معاہدہ ممکن ہے جس میں یہ اس کے آجر شوہر کو حق ہو کہ وہ نسل انسانی کی پیدائش کی جگہ کوئی دوسری خدمات اپنی اجیر بیوی کی ذمہ داری قرار دے سکتا ہے۔ (پابندی صرف یہ ہے کہ بیک وقت دو جگہ خدمات نہیں لی جا سکتیں) ظاہر ہے کہ اس صورت میں مرد کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں اس کفالتی شادی کو مو خر کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی، اس لیے کہ کسی مجبوری یا ناپسندیدگی کی صورت میں اس کیلئے اپنی اجیر بیوی کی خدمات کو نسل انسانی کی پیدائش کی بجائے کسی ذریعہ آمدن مثلاً تدریسی یا تربیتی ادارے وغیرہ کی شکل میں بدل دینا یا کسی اور شخص کو منتقل کر دینا اور کسی دوسری عورت سے یہی معاہدہ کرنا عین ممکن ہو گا۔
    یہاں ممکن ہے کہ بعض قارئین کو اس نظام کی افادیت پر شک ہو اور انہیں یہ گمان گزرے کہ یہ قانون صرف امیر آدمی کو ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور غریب آدمی چونکہ حقوق خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو گا لٰہذا اس کیلئے یہ قانون بے معنی ہے.... اس غلط فہمی کی اصلاح ضروری ہے۔
    سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس ایکٹ میں اجیر کیلئے اپنے حقوق کی قیمت کیلئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ اگر کوئی عورت چاہے تو اپنا حق استعفٰی ایک گلاس پانی کے عوض بھی فروخت کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدہ روزگار کا اصل مقصد تو اجیر کو بے عیب یعنی مساویانہ کفالتی تحفظ کی فراہمی ہے جبکہ حقوق کی منتقلی سے رقم کا حصول اجیر کیلئے ایک اضافی فائدہ کا درجہ رکھتا ہے جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آجر کیلئے احساس اپنائیت کی ایک بہت بڑی ترغیب پیدا ہو سکے اور اسے ہر وقت یہ معلوم رہے کہ وہ جس سے اپنے فیملی ممبر کی طرح سلوک کر رہا ہے وہ جب چاہے اسے دھتکار کر، اس کی نوکری کو لات مار کر نہیں جائے گا۔
    اسی طرح کفالت بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، مثال ملاحظہ فرمائیے۔
    فرض کیا آپ ایک غریب لیکن نہا
     
  26. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    17۔ ۔ ۔ ۔ قرآنی آئین “اُم الکتاب”

    17۔ ۔ ۔ ۔ قرآنی آئین “اُم الکتاب” اورٹیکس فری سٹیٹ

    گزشتہ صفحات میں ہم نے ایک ایسے قانونی نظام کا مشاہدہ کیا جو ہم نے قرآن سے اخذ کیا ہے (حوالے آئندہ ابواب میں ملاحظہ فرمایئے) اور جو معاشرے میں Moral Values کو Commercial Values کی حیثیت دے دیتا ہے اور افضلیت یا برتری حاصل کرنے کی ضرورت کے تناظر میں دولت مندی کے اظہار کو بے وقعت کر دیتا ہے چنانچہ اس سے معاشرے میں طبقاتی امتیاز اور ہوسِ زر کا خاتمہ ہو جانا یقینی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ قانون اگر معاشرے کو دستیاب ہو جائے تو عالمی قارون اور مفاد پرست حکمرانوں (فرعونوں) کے مفادات کو اکھاڑ پھینکے گا کیونکہ ان کی تمام مفاد پرستی کا محور یہ ہے کہ معاشرے میں ہوس زر روز افزوں رہے تاکہ ان کا طبقہ جو محکوم افراد کی محنت کا ثمر ان سے چھین چھین کر اپنے پاس دولت کے انبار لگا چکا ہے اور اسی بنیاد پر اقتدار پر قابض ہے، بالاتر رہے، چنانچہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ اس نظام کو جس کے نتیجے میں دولت مندی معاشرے میں بے حیثیت ہو جائے، نافذ نہ ہونے دینے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔
    اس مقصد کیلئے وہ منفی پراپیگنڈے کے ساتھ ساتھ باہمی منافرت، فرقہ واریت، دہشت گردی، کرنسی کی ڈی ویلیویشن اور افراط زر یا مہنگائی، سیاسی ہنگامہ آرائی اور اکھاڑ پچھاڑ، انارکی اور طوائف الملوکی، مختلف ممالک کے مابین جنگ و جدل اور دیگر ایسے گوناگوں مسائل کھڑے کر کے عوام کی توجہ منتشر کرنا چاہیں گے.... لیکن سب سے مہلک ہتھیار جو وہ اس تصور کو کچل ڈالنے کیلئے استعمال کریں گے اس کا نام ٹیکس ہے۔
    اس حوالے سے اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ تیسری دنیا میں بھی کفالتی تحفظ کے اصول پر مبنی یہ نظام روزگار اول تو نافذ ہی نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگر عوامی دباؤ کے زیر اثر کہیں ہو بھی گیا تو ظالمانہ ٹیکس کا نشانہ خاص طور پر ان افراد اور فرموں کو بنایا جائے گا جو اس نظام کو اختیار کریں گی تاکہ ان کے پیداواری اخراجات منڈی کی قیمت خرید سے بڑھ جائیں۔ اس کا سیدھے سبھاؤ مطلب یہ ہے کہ جب تک حکومت کے پاس مادرِ وطن نام پر جمہوریت بادشاہت اور آمریت وغیرہ کے جواز سے “حسب منشاء“Law of the Land نافذ کرنے اور لامحدود ٹیکس اور پابندیاں لگانے کا صوابدیدی اختیار Sovereignty موجود ہے، یہ سنہری نظام اپنی افادیت ثابت نہیں کر سکتا اور دستیاب ہونے کے باوجود بے سود رہے گا، عام آدمی کی بیزاری کا باعث بنے گا۔
    یہ عرض کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ظالمانہ ٹیکس وطن اور قوم کے نام پر عائد کیے جاتے ہیں اور یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ایک اجتماعی تشخص بھی ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اسی اجتماعی شناخت کو اگر ناقابل تغیر (یعنی ایسا تشخص جو تبدیل نہ ہو سکے مثلاً، نسل یا قومی شہریت وغیرہ) رکھا جائے تو یہ بنیادی انسانی ضرورت ہونے کی وجہ سے فرد کی ایسی مجبوری بن جاتا ہے جس کے ذریعے اسے نفسیاتی طور پر بلیک میل کر کے اس سے کوئی بھی مفاد پرستانہ حکم منوایا جا سکتا ہے۔
    دنیا میں صرف ایک تشخص ایسا ہے جس کو قانون سازی کیلئے بنیاد کی حیثیت دی گئی ہے.... اور وہ ہے جغرافیائی بنیادوں پر مبنی قومی شہریت۔ اب اس قومی تشخص کی اساس اگر درست کر دی جائے یعنی قانون سازی کیلئے خالق کائنات کی ہدایات کو معیار مقرر کر دیا جائے اورپھر ہر فرد کو یہ آزادی بھی مل جائے کہ اگر وہ اپنے اس تشخص کو بدلنا چاہے تو اس کا سیدھا اور آسان طریقہ اسے دستیاب ہو تو یقیناً اس تشخص کا ڈنک نکل جائے گا اور اس کی بنیاد پر صرف ٹیکس ہی نہیں بلکہ ہر صوابدیدی قدغن، ہر جبرواستبداد کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔
    اس ڈنک کا نام وطنی یعنی جغرافیائی یا علاقائی قومیت ہے جس کی بنیاد ملکی آئین ہوتا ہے اور یہ ایک ایسا تشخص ہے جو ہر شہری پر پیدائشی طور پر ہی چسپاں ہوتا ہے اور کسی ناپسندیدگی کی صورت میں وہ اس لیبل کو اتار پھینک بھی نہیں سکتا۔ اس کا سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ شہری اس کو اپنانے پر اس قدر مجبور ہوتا ہے کہ اس کے نام پر ظالمانہ آئین مسلط کیے جانے کو اپنی مرضی سے روک بھی نہیں سکتا۔
    اس کا دوسرا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ یہ قومی تشخص اگر کسی اعتبار سے کمتر ہے تو وہ شہری اسے بالاتر کرنے کی فطری مجبوری کے باعث اجتماعی جرم یعنی جنگ یا دہشت گردی سے بھی گریز نہیں کرتا۔
    اگر کسی معاشرے کا آئین علاقے کی بجائے نظریئے کی بنیاد پر متشکل ہو تو اس فساد کی ممکنات ہی نہیں رہیں گی۔ عام آدمی جو نفسیات کی باریکیاں نہیں سمجھتا، اتنا تو ضرور جانتا ہو گا کہ اگر وہ اپنے اجتماعی تشخص سے غیر مطمئن ہو تو اس کے لیے اپنا نظریاتی تشخص بدل لینا یعنی اپنی قوم سے نکل کر دوسرے نظریہ کی علمبردار قوم میں شامل ہو جانا ایسی بات نہیں جس کیلئے دولت درکار ہو۔ مثال کے طور پر وہ شخص جو نظام قانون سازی ، درآمد و برآمد، صنعتی و تجارتی و زرعی پالیسی، عائلی قوانین، لیبر ایکٹ، تعزیرات کے تعین یا ایسے کسی اور معاملے میں حکومت کے صوابدیدی اختیار اورپابندیوں میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اور اس قوم کو اپنی شناخت سمجھتا ہے جو ہر اچھے برے ملکی قانون کی اطاعت اپنا فرض قرار دیتی ہے، وہ شخص اگر کسی وقت حکمرانوں کے رویے سے دکھی ہو کراس صوابدیدی اختیار کو نامناسب قرار دے اور اُس قوم میں شامل ہونا چاہے جو اس اختیار سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو خود کو ان قوانین کا مطیع مانتی ہے اور نہ ہی اس آئین کے عقب میں موجود تشخص کو اپناتی ہے بلکہ یہ استحقاق رکھتی ہے کہ اپنے ملکیتی قطعہ اراضی میں ایک الگ قوم کی طرح اپنا آئین اور اپنا اقتصادی، انتخابی، عائلی، انتظامی، تعزیری اور بہبودی ڈھانچہ قرآن کی روشنی میں خود متعین کرے.... تو اس فرد کو اس قوم میں شامل ہونے کا راستہ دستیاب رہے اور اس قوم کی قانونی حیثیت اس مملکت میں اسی طرح ایک مہمان کی سی ہو جائے جس طرح دوسرے ممالک کے سفارتی عملے کی ہوتی ہے اور ان کے سفارت خانے کی عمارت کا قطعہ اراضی اگرچہ میزبان ملک کا ہی حصہ ہوتا ہے لیکن اس چاردیواری کے اندر اسی ملک کے آئین کا اطلاق ہوتا ہے جس ملک کا وہ سفارت خانہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرد جو مملکت میں مہمان کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے، اگر کسی موقع پر مرکز کے زیر انتظام فیڈرل ایریا کے آئین کی افادیت کا قائل ہو کر اپنی مہمان شہری کی حیثیت ختم کرتے ہوئے مرکز کا باقاعدہ شہری بننا چاہے تو یہ اس کا حق تصور کیا جائے.... تب آزادی کا یہی احساس ہر فرد کو جرم یعنی جنگ یا دہشت گردی سے مانع ہو گا اور عالمی امن کیلئے کلید بنے گا۔
    گویا ایک فطری آزاد مملکت وہی ہوگی جو مختلف دساتیر پر مبنی ریاستہائے متحدہ کی صورت رکھتی ہو اور جس کے شہریوں کو اپنے نجی ملکیتی علاقے کو نیم خود مختار ریاست کے طور پر ڈکلیئر کرتے ہوئے اس میں اپنے لیے قوانین منتخب اور مرتب کرنے کی یعنی مکمل آئین سازی کی آزادی ہو تاکہ ریاستوں میں مسابقت کی فضا جنم لے اور بہتر سے بہتر قوانین اور معاشرے وجود میں آتے چلے جائیں۔ ان ریاستوں کے ملکیتی رقبے کے سوا دیگر تمام علاقہ فیڈرل ایریا سمجھا جائے اور اس مملکت کا مرکز اپنے فیڈرل ایریا اور سرکاری جائداد (یعنی مملکت کے ناقابل فروخت علاقے، عسکری تربیت گاہیں، راستے، قدرتی وسائل وغیرہ) کے سوا کسی دوسرے قطعہ اراضی پر یعنی کسی فرد یا افراد (کمیونٹی یا قوم) کے نجی ملکیتی علاقے میں ان افراد (کمیونٹی یا قوم) کی مرضی کے بغیر اپنے صوابدیدی قوانین اور قدغن عائد اور مسلط کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو۔ اب چونکہ آزادی کی اس نعمت کا تمام بنی نوع انسانیت کیلئے دستیاب رکھنا قرآن کی رو سے مملکت کی ذمہ داری ہے لٰہذا اس مملکت میں دنیا کے ہر شخص کو اس شرط کے ساتھ آن بسنے کی اجازت ہو کہ اسے مرکز کے زیر انتظام فیڈرل ایریا یا کسی نہ کسی ریاست کے آئینی تشخص کو بہرصورت اختیار کرنا ہو گا یا اپنا آئین ڈکلیئر کرنا ہو گا۔
    عوام کی طرف سے اس مملکت کی وہ ذمہ داری جس کیلئے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں، صرف مواصلات، امن عامہ اور افراد و جائداد کی آئینی ریاستی حیثیت کی رجسٹریشن اور عدلیہ کے انتظامات ہوں۔ دیگر تمام شعبے جنہیں حکام اپنی ذمہ داری قرار دیتے ہیں جبکہ درحقیقت ان میں سے اکثر شعبے ان حکام کی مفاد پرستی کا بہانہ اور ذریعہ ہوتے ہیں مثلاً کرنسی، جیل خانہ، تعلیمی نصاب اور نظام امتحانات، سرکاری مہمانداریاں، امور خارجہ وغیرہ.... یہ شعبے حکومت کی ایسی ذمہ داریاں نہیں ہو سکتیں جن کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ان میں تعلیم اور روزگار تو ایسے شعبہ ہائے زندگی ہیں کہ اگر قانون درست کر دیا جائے تو یہ عوامی سطح پر امداد باہمی اور "این جی او" کے انداز میں کسی مالی سہارے کے بغیر بھی زیادہ بہتر طریقے سے انجام دیئے جا سکتے ہیں، کرنسی ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز کے چلن کی صورت میں تو اس کے اخراجات بالکل ہی برائے نام رہ جائیں گے چنانچہ ایسی کسی بھی بنیاد پر عوام سے ان کی محنت کا ثمر چھیننے اور ٹیکس لگانے کا جواز پیدا نہیں کیا جا سکتا.... اگر حکومت ان ذمہ داریوں کو بھی سر انجام دینا چاہے تو یہ اس کی اپنے عوام کیلئے ایسی خدمت تصور ہو جس کا مالی انحصار قدرتی وسائل، غیر ملکی سیاحوں سے حاصل شدہ ریونیو یا ایسے دیگر وسائل پر ہو جن کا بوجھ مملکت کے شہریوں پر نہیں ہوتا چنانچہ حکومت ان ذمہ داریوں کے جواز پر عوام سے زبردستی کچھ وصولنے کا حق نہ رکھتی ہو تاکہ مفاد پرستی کا دروازہ نہ کھل سکے.... جیل خانہ جات کا متبادل، خارجہ پالیسی اور مملکت کے دفاع کا مالی اعتبار سے خود کفیل نظام تو آئندہ صفحات میں زیر نظر آئے گا جبکہ دیگر شعبے عوام کی ایسی ضرورت نہیں ہیں جن کیلئے انہیں حکومت کی مالی احتیاج ہو، اس لیے یہ شعبے عوام کی طرف سے حکومت کی ذمہ داری نہ قرار دیئے جائیں۔ جہاں تک داخلی امن وامان کا تعلق ہے تو یہ کوئی الگ شعبہ نہیں ہے بلکہ مواصلات کے تحفظ کے دائرے میں آتا ہے، لیکن جرم اگر مملکت کے فیڈرل ایریا میں نہیں ہوا تو حکومتی انتظامیہ کی ذمہ داری ملزم کی کھوج، تفتیش، گرفتاری، تحویل اور عدالتی کارروائی تک ہے جبکہ استغاثہ اور تعزیر کے تعین پر بہرحال حکومت کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ استحقاق اس ریاست کا ہے جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب ہوا ہے، وہی ریاست اپنے تعزیری معاملات کا مالی بوجھ بھی برداشت کرے گی۔ حکومت صرف انہی جرائم پر اپنے قانون تعزیر کے اطلاق کا اختیار رکھتی ہے جو اس کے علاقے یعنی فیڈرل ایریا میں مرتکب ہوں۔ ان تعزیری اخراجات مثلاً جیل خانہ جات کا مالی بوجھ بھی مملکت کے تمام باشندوں پر یعنی قومی خزانے پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ بوجھ خود مجرم اور صرف ان افراد کو اٹھانا ہو گا جو کسی ریاست کے نہیں بلکہ فیڈرل ایریا کے شہری یا سیاح ہیں۔ دیگر جرائم میں مرکزی انتظامیہ کی ذمہ داری صرف ملزم کی گرفتاری، اس کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کے عدالتی فیصلے اور اس کے ریکارڈ تک محدود ہو۔ اس اصول کے متعین ہونے کے بعد اس شعبے پر بھی حکومتی غیر معمولی اخراجات کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔
    مختصر یہ کہ رجسٹریشن اور ریکارڈ، رسل و رسائل، صحت عامہ، امن و امان اور فلاح و بہبود قائم رکھنے والے انتظامی و عدالتی اداروں، اموال و جائداد کے تنازعات تک محدود سول عدالتوں اور مرکزی سطح پراعلٰی عدالتوں کی ذمہ داری کیلئے بہت کم مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ یہ وسائل صنعت وتجارت کے حکومتی پراجیکٹس کی کھلی منڈی میں مسابقت ، غیر ملکی افراد کی سیاحت اور قدرتی معدنی و آبی وسائل کے علاوہ ان عوامی عطیات سے بھی حاصل ہوں جو معاشرے میں دولت کے برتری کی علامت نہ رہنے کی وجہ سے مملکت کے تمام افراد یعنی فیڈرل ایریا کے شہری اور مہمان شہری بصد ذوق وشوق اس لیے بھی پیش کریں گے کہ اس سے ان کے معاشرتی وقار میں اضافہ ہو گا۔ قرآن کی رو سے تو ہر شہری پر اپنی ضرورت سے زائد سب کچھ اجتماعیت کیلئے بطور عطیہ یا بطور قرض پیش کر دینے کا حکم ہے خواہ اس کی کمائی محض ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو، تاہم اس زائد از ضرورت کے تعین کا اختیار بھی کسی محکمہ انکم ٹیکس وغیرہ کو نہیں بلکہ خود اس شہری کو حاصل ہے۔ اسی لئے اس عمل کو قرآن میں ٹیکس یعنی خراج کی بجائے عفو، صدقات، اللہ کو قرض حسنہ اور انفاق کا نام دیا گیا ہے۔ (عفو کے ان عطیات و صدقات کی کولیکشن کا لائحہ ہم گزشتہ باب “ضابطہ قانون اور طریق نفاذ” میں کفالتی نظم عدالت کے ذیل میں اعزازی مجسٹریٹ یعنی ہر مذہب کے مذہبی رہنماﺅں اور پیشواﺅں کے لیے ذریعہ معاش کی فراہمی کے حوالے سے زیر نظر لا چکے ہیں۔) مزید ترغیب کیلئے ایسے عطا کنندگان شہریوں کو مرکزی قیادت کیلئے ووٹ کے حق اور عزت افزائی کے خطابات و اعزازات سے نوازا جا سکتا ہے، اعزازی عدالت ہائے احتساب میں رکن جیوری اور مدعی کی اہلیت دی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں اعزاز و اکرام کی سالانہ میرٹ لسٹ اس سوال کے جواب کی بنیاد پر بنے گی کہ کیا اس نے اللہ کی دی ہوئی دولت کا کچھ حصہ ضروریات زندگی کے نام پر پرتکلف گھریلو سامان، قیمتی ملبوسات، زیورات اور سامان تعیش و نمودونمائش کی کن کن صورتوں میں روک رکھی ہے؟ (اس عدالت احتساب کا ذکر آئندہ سطور میں آ رہا ہے۔) اسی طرح اپنے تمول کے بارے میں جھوٹ بول کر سامان نمودونمائش کی زیادہ صورتوں پر دولت روک رکھنے اور کم بتانے والے شہری کو خبیث ملعون قرار دے کر معاشرے میں رسوا کیا جا سکتا ہے مثلاً اس کی عدالتی گواہی اور ووٹ کو ناقابل قبول قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ لین دین کرنے والوں کیلئے حکومت خود کو اس کی ضمانت سے بری الذمہ قرار دے سکتی ہے، اسے کسی بھی اعزازی عدالت کی کارروائی میں ذمہ دارانہ حیثیت سے شامل ہونے کے لیے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے.... وغیرہ، لیکن اس سے ٹیکس کے نام پر بہرحال کچھ بھی زبردستی وصول نہیں جا سکتا۔
    ان وسائل کے علاوہ جب ان مثالی معاشروں میں دنیا کے کونے کونے سے افراد آنا شروع ہوں تو افرادی قوت کے زور پر یہ نظامِ آزادی پوری انسانیت کو فراہم کرنے والا ایسا خود کفیل عسکری نظام متشکل ہو جو ریاستی مالی وسائل کا بہت بڑا ماخذ بنے، ایسا ماخذ کہ یہ مالی وسائل سنبھالے سے بھی سنبھلنے میں نہ آئیں۔ (اس کی تفصیل آئندہ باب “قوت نافذہ” میں مذکور ہے) آزادی کے اسی دستور کی پوری انسانیت کیلئے دستیابی اس مملکت کی خارجہ پالیسی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ پالیسی مالی وسائل کی محتاج نہیں ہے۔
    قومی خزانے کا استعمال نہایت محدود ہے۔ یہ عدل و احسان یعنی انصاف اور فلاح و بہبود اور امن عامہ کے علاوہ صرف مواصلات اور ان کے انتظام،ترقی و تحفظ کیلئے استعمال ہو سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی، دفاع اور غیر ترقیاتی معاملات کی مد میں اس کا اخراج مرکز کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں ہو سکتا۔
    مرکزی حکومت صرف انہی افراد پراپنا ریاستی آئین، اپنے صوابدیدی قوانین وتعزیرات نافذ کر سکے جو اس مملکت میں مہمان نہیں بلکہ فیڈرل ایریا کی ریاست (یعنی وہ ریاست یا صوبہ جس کی آئین سازی مرکز کرے گا) میں رہنے والے شہری یا سیاح ہوں۔ جو فرد فیڈرل ایریا کا شہری نہیں ہے بلکہ کسی دیگر ریاست کا شہری ہے اور اس کی حیثیت مملکت میں مہمان شہری کی ہے، اس پر فیڈرل ایریا کے قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا بلکہ ان قوانین کا اطلاق ہو گا جو اس ریاست نے بطور آئین ڈکلیئر کر رکھے ہیں۔
    قرآن کے منافی کوئی قانون بنانے کی اجازت دیگر ریاستوں کی طرح اس فیڈرل ریاست کو بھی نہیں ہے اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس فیڈرل ریاست کے آئین کی تشکیل کیلئے آیات قرآنیہ کی تعبیر و تاویل کا اختیار دیگر ریاستوں کی طرح قیادت کو حاصل ہو گا اور اس حوالے سے فیڈرل ایریا سمیت تمام ریاستیں یکساں آزاد حیثیت رکھتی ہیں۔ (مثال کے طور پر اگر کسی وقت فیڈرل ایریا یا کسی بھی ریاست میں ایسی قانون سازی کی جاتی ہے جس کیلئے قرآن کے مقابلے میں گورننگ باڈی، پارلیمنٹ یا کسی بھی فرد یا ادارے کی صوابدید کو قانون سازی کی دلیل قرار دیا گیا ہو تو عدالت اس قانون کو منسوخ کرنے کا فیصلہ سنائے گی اور اگر اس فیصلے کو مسلم عوام کی طرف سے اعتماد کا ووٹ مل گیا تو متعلقہ ریاست میں یہ قانون منسوخ تصور ہو گا مثلاً یہ کہ سودی معیشت کو قانونی تحفظ تو کسی ریاست میں بھی نہیں دیا جائے گا، تاہم الفاظ "سود" اور "ربٰوا" کی قرآنی تعبیر ہر ریاست اپنی صوابدید، اقوال اسلاف، فقہ وغیرہ کی بنیاد پر خود کر سکے گی۔ ایسے قوانین جن میں قرآن کی طرف سے کوئی دو ٹوک ہدایات جاری نہیں کی گئیں مثلاً ٹریفک کے قوانین وغیرہ، تو اس ضمن میں فیڈرل ایریا سمیت ہر ریاست کو اپنے لیے اپنے من پسند ضوابط کا انتخاب کرنے کی آزادی ہو گی۔)
    سرکاری ملازمت کا حق بھی صرف انہی فیڈرل ایریا کے شہریوں کیلئے مخصوص کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے فیڈرل ایریا کے شہری بنے ہیں۔ حکومت کسی ایسے فرد پر جبراً کوئی ٹیکس، کوئی قدغن نہیں مسلط کر سکتی اور نہ ہی اس پر تجارت یا درآمد و برآمد اور تعلیم و عقائد وغیرہ کے حوالے سے کوئی شرط عائد کر سکتی ہے جو سرکاری ملازمت جیسی کسی ترغیب کا طلب گار نہیں ہے چنانچہ اس مملکت کے فیڈرل ایریا کا نہیں بلکہ اس کی کسی ریاست کا شہری ہے اور جسے مملکت کے قانون شہریت میں مہمان شہری کی حیثیت حاصل ہے۔
    قرآن کے بنیادی اجتماعی اصولوں کی پابندی اس ریاستی یعنی صوبائی آزادی کی بنیادی شرط ہے۔ اجتماعی اصول ان قوانین کیلئے ہوتے ہیں جن کا اطلاق معاشرے کے ہر فرد پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر اقتصادیات اور مصارف خزانہ، کرنسی اور سود، انفاق فی سبیل اللہ اور اللہ کو قرض دینے کا آسان راستہ، عسکریت اور دفاع کا انتظامی لائحہ، مرکزی قیادت کا انتخاب اوراس قیادت کے ہمہ وقت اور فوری احتساب کا طریقہ کار، انتظامیہ اور عدلیہ، یہ سب اجتماعی معاملات ہیں جبکہ عائلت، تعزیرات، غذا، طریقہ پرستش، قانون ملکیت جائداد وغیرہ معاملات اس لیے انفرادی حیثیت کے حامل ہیں کیونکہ ان سے متعلق قوانین کا اطلاق معاشرے کے ہر فرد پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اسی فرد پر ہوتا ہے جو متعلقہ قانون کی شرائط پر پورا اترتا ہے اور اسی لیے ان کے بارے میں قرآن کے ماننے والوں میں فروعات کا اختلاف بھی موجود ہے چنانچہ ہم اگر عوام کے سامنے اعتماد کے ووٹ کیلئے کسی ریاستہائے متحدہ کے وفاق کا دستور بنا کر احتساب عدالت میں پیش کریں گے تو اس وفاقی دستور میں ریاستوں کیلئے ان فروعات کی آزادی برقرار رکھیں گے تاکہ ہر فرد ان معاملات میں اپنی صوابدید کے مطابق اپنے انفرادی معاملات کیلئے متعلقہ قوانین کا انتخاب یا تدوین کر سکے یعنی اپنے حسب منشا ریاست کا انتخاب کر سکے۔ اس آزادی کی ایک آسان مثال سرکاری محکمہ جات کی ہے۔ ہر وہ حکم جو پورے محکمے پر محیط ہو وہ عام طور پر متعلقہ وزارت کی طرف سے جاری ہوتا ہے جبکہ اندرونی محکمانہ انتظامی معاملات اور تبادلوں وغیرہ کے ضمن میں متعلقہ عہدیداروں کے پاس ہی اختیارات ہوتے ہیں۔ دوسری آسان تر مثال یہ ہے کہ جمہوری نظام میں عام طور پر صدر مملکت مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے اور ہر ایسا حکم جو پوری مسلح افواج پر لاگو ہوتا ہو صدر مملکت کی طرف سے ہی جاری ہوتا ہے لیکن اگر فوجی عدالت کسی جوان کے خلاف اس کی کسی بے ضابطگی کے ارتکاب پر کوئی تعزیری کارروائی کرتی ہے تو یہ سپریم کمانڈر اس سزا پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ عین یہی تصور ہماری رائے میں قرآن کی طرف سے پوری مملکت کیلئے عطا کیا گیا ہے۔
    قرآن کے بنیادی اصولوں کی دوسری تمثیل یہ ہے کہ کسی پر اللہ کے احکام کے تعین کے ضمن میں زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر ہماری دانست میں زمین اللہ کی نعمت ایک امانت ہے اور کسی کی ملکیت نہیں ہے چنانچہ جس چیز کو اس کی ملکیت سمجھا جاتا ہے وہ قرآن کی رو سے دراصل اس کے تصرف پر اختیار کا نام ہے جس کو قرآن نے وراثت ارضی کی اصطلاح سے معنون کیا ہے اور ہمارے خیال میں اس نعمت و امانت کا کفران یہ ہے کہ اسے بیکار چھوڑ رکھا جائے چنانچہ اگر ہم کوئی ریاست تشکیل دیں گے تو اس میں یہ قانون ہو گا کہ اگر کوئی شخص کسی قطعہ زمین کا مالک یا قرآن کے الفاظ میں “وارث” ہے تو اس پر لازم ہو گا کہ اس کو زراعت، صنعت، تجارت، رہائش یا کسی بھی طرح استعمال میں لائے ورنہ اس کا حق تصرف ساقط ہے۔ ہماری رائے میں یہ ملکیت زمین بھی صرف سطح زمین تک محدود ہے، زیر زمین معدنی ذخائر پر پورے معاشرے کا حق ہے لٰہذا وہ مرکز کے تصرف میں آئیں گے اور اجتماعی مقاصد کیلئے استعمال ہوں گے۔ اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کے مطابق مطلق سرمایہ کاری کی بنیاد پر ہونے والی آمدن مثلاً سلیپنگ پارٹنرشپ، جائداد کا کرایہ، مزارعت، زرعی زمین کا ٹھیکہ، غرض ہر وہ منافع جس میں سرمایہ کار کی محنت شامل نہیں ہے، اس پر کسی فرد واحد کا انفرادی طور پر کوئی حق نہیں ہے، یہ ساری آمدن پوری امت کیلئے ہے۔ ہماری دانست میں قرآن کے مطابق فرد کا استحقاق اسی منافع پر ہے جس کے حصول میں اس کی محنت بھی شامل ہوئی۔ دوسری طرف ہر شہری کیلئے اپنے تمام منقولہ و غیر منقولہ اثاثے مرکز کے زیر علم رکھنے اور اپنی کمائی میں سے اپنی ضرورت کیلئے رکھ کر باقی رقم مرکز کو فلاحی مقاصد کیلئے پیش کرنے کی ذمہ داری بنیادی اصول ہے۔ فرد کی آزادی صرف اپنی ضروریات کیلئے اخراجات کی مقدار کے تعین تک ہے یعنی اس کو یہ آزادی تو حاصل ہے کہ وہ اگر چاہے تو اپنی تمام دولت اپنی ضروریات کیلئے ہی مختص کر سکتا ہے لیکن اس ذمہ داری سے ہی انکار کر دینے کی آزادی نہیں ہو گی کہ اپنی ضروریات کا تعین اپنی مرضی سے کرنے کے بعد بھی اگر اس کے پاس کچھ دولت باقی ہے اور وہ اس کو کسی معاشی استعمال میں لانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتا تو بھی اسے اپنی کسٹڈی میں بلاک کر کے رکھنے پر مصر رہے اور اس دولت کے اجتماعی فلاحی مقاصد کیلئے استعمال ہونے کی راہ میں مزاحم ہو۔ مختصر یہ کہ ہماری ریاست میں ایسے بنیادی اجتماعی اصولوں سے انحراف کی آزادی کسی شہری کیلئے نہیں ہے۔ اب اگر کچھ لوگ جو اس استشہاد اور اجتہاد کو اسلام کے مطابق نہیں سمجھتے انہیں اجازت اور آزادی ہونی چاہیے کہ وہ جس رائے کو مطابق اسلام سمجھتے ہیں اس کے مطابق قانون سازی کر کے اسے اپنی ڈکلیئرڈ ریاست میں نافذ کر سکیں۔ آسان مثال میں اسی تصور کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ داڑھی نہ رکھنے والا فاسق ہے جس کی کوئی نماز روزہ قابل قبول نہیں اور اسی وجہ سے وہ نماز کی امامت کیلئے نااہل ہے۔۔۔۔ چنانچہ اس کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ریاست میں ہر مرد شہری کیلئے داڑھی رکھنے کو قانونی طور پر لازم قرار دے سکے جبکہ دوسری طرف اگر کوئی فرد اس رائے سے متفق نہیں ہے تو وہ اس ریاست کا شہری بنے رہنے پر مجبور نہ ہو۔
    اجتماعی اصولوں کی پہچان یہ بھی ہے کہ یہ اصول قانون کی روح کے عکاس ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی، جیسے "دین میں زبردستی نہیں ہے" اور "ہرفرد اپنے دائرہ مشاکلت میں کام کرتا رہے جو درست اور بہتر ہو گا، وقت کے ساتھ خود ہی ثابت ہو جائے گا " یہ اصول ایسے معام
     
  27. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کرنسی کی ڈی ویلیویشن ٹیکس کا متبادل ہے۔ اس قسم کے حربے اس لیے اختیار کیے جاتے ہیں تاکہ اندھا دھند ٹیکسوں اور پابندیوں کی بھرمار دیکھ کر عوام انقلاب پر نہ اتر آئیں۔ مزید حفظ ماتقدم کیلئے اس اصول کو آئی ایم ایف کے چارٹر کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی ممبر ملک اپنی کرنسی کی قیمت حقیقی دولت یعنی سونے کے مقابلے میں منجمد Freezeنہیں کر سکتا.... اس شق کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی ملک کے عوام اپنی کرنسی کی مسلسل ڈی ویلیویشن یعنی افراط زر اور روز افزوں مہنگائی سے تنگ آ کر حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھ دیں کہ ملکی کرنسی کی ویلیو سونے یا چاندی کے مقابلے میں منجمد کرو تو ان حکمرانوں کو آئی ایم ایف کی پناہ دستیاب رہے کہ ہم کو تو اس کی اجازت ہی نہیں ہے۔
    اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عبوری دور میں جب تک قومی خزانہ اتنی تقویت حاصل نہ کر لے کہ کرنسی کی قیمت سونے کے مقابلے میں منجمد کر سکے، اس وقت تک کیلئے اس مجوزہ آزاد مملکت میں ہر شہری کو کرنسی کی “اجارہ داری” سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ دستیاب رہے اور اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ افراد کو خرید و فروخت اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے ملکی کرنسی کے ساتھ ساتھ قدرتی اور فطری کرنسی کے استعمال کی اجازت بھی ہونی چاہیے یعنی وہ اپنے تمام معاشی معاہدوں، اکاؤنٹس اور دیگر لین دین میں سونے اور چاندی کو بطور کرنسی متعین کر سکیں۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فرد قانونی دستاویزات میں اپنی کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد بشمول حق استعفٰی کی مالیت اور اپنا بینک ڈپازٹ اگر ملکی کرنسی کی بجائے سونے یا چاندی کی کسی مقدار میں متعین کرنا چاہے تو اسے اس کی قانونی اجازت حاصل ہو۔
    جرائم کیلئے ضابطہ تعزیرات اگرچہ ہر ریاست کا انفرادی استحقاق ہے تاہم اس استحقاق کے قابل عمل ہونے کے بارے میں وضاحت ضروری ہے۔
    آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تقریباً سبھی معاشروں میں جرائم فزوں تر ہیں۔ دراصل ہر جگہ تعزیرات کے ناکام ہونے اور ان سے جرائم ختم نہ ہو سکنے کی وجہ بھی ان سزاﺅں کا غیر فطری تصور ہے۔ سزائے قید تو خاص طور پر ایک غیر منطقی اور معاشرے کیلئے مہلک تصور مروج ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جیل خانہ جات کیلئے ہر ملک کو اپنے بجٹ میں اچھی خاصی رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم قوم ادا کرتی ہے۔ اب یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ جو شخص معاشرے کا مجرم ہو، اس کو قید کر کے اس کی کفالت کا بوجھ بھی معاشرے پر ہی ڈال دیا جائے؟ سزائے قید کے دوران قیدی کے اہل خانہ نفسیاتی حوالوں سے جو ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتے ہیں اور اس کے نتیجے میں عدم تحفظ کے شکار ہو کر اور فرسٹریشن میں مبتلا ہو کر آمادہ جرائم ہو سکتے ہیں وہ اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ مظلوم کی داد رسی کی راہ میں بھی یہی تصور مانع ہے۔ جب ایک قاتل عمر قید کے نام پر سات سال یا اس میں بھی حکومت سے کچھ معافی حاصل کر کے اور بھی کم مدت کی قید کاٹ کر مقتول کے اہل خانہ کے سامنے دندناتا ہے تو اس وقت وہ لوگ کس اذیت سے گزرتے ہیں، یہ وہی جان سکتا ہے جو اس کیفیت سے گزرا ہو۔ فطرت کے اصول کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے کہ مجرم کی سزا ایسی ہو جو نہ تو معاشرے پر بوجھ ہو اور نہ ہی غیر متوازن ہو، یعنی ظالم کیلئے بھی اتنے ہی اور ویسے ہی سلوک کا فیصلہ دیا جائے جتنا اس نے ظلم کیا ہے اور اس سزا میں تخفیف کا اختیار کسی حاکم کے پاس نہ ہو۔ البتہ یہ استحقاق صرف اس صورت میں مظلوم ورثاء کا ہو سکتا ہے جب وہ اس مجرم کی “نادانستہ بربریت” کے شکار ہوئے ہیں، مثال کے طور پر ایک قاتل کیلئے عدالتی فیصلہ تو اس کے اسی طرح قتل کرنے کا ہی صادر کیا جائے جس طرح خود مجرم نے ارتکاب قتل کیا تھا، تاہم اگر قتل غلطی سے حادثاتی طور پر سرزد ہو گیا ہو تو مقتول کے لواحقین کو یہ اختیار دیاجائے کہ اگر وہ چاہیں تو اس قاتل کی سزا مشروط یا غیر مشروط طور پر معاف بھی کر سکتے ہیں۔ اسی اصول کا سبھی نادانستہ جرائم پر اطلاق ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دیگر جرائم پر بھی طویل مدت تک جاری رہنے والی سزائے قید کی بجائے فوری عمل درآمد مکمل ہو جانے والی جسمانی سزائیں ہوں.... لیکن ہماری حکومتیں اس فطری اصول کو اس لیے برداشت نہیں کرتیں کہ یہ اصول حکمرانوں کی مفاد پرستی اور کرپشن میں مانع ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی پسماندہ معاشروں میں جہاں اقتدار کی سیاست غنڈہ گردی کے زور پر استوار کی جاتی ہے وہاں بدمعاش افراد ان سیاست دانوں کے اشارے پر مخالف گروپ کے لوگوں کا جانی و مالی نقصان کرتے ہیں۔ یہ افراد اگر قانون کی گرفت میں آ جائیں تو ان سیاستدانوں کو اپنے ان زر پروردہ غنڈوں کو سزا سے بچانے کیلئے چور دروازہ درکار ہوتا ہے اور یہ دروازہ قانون میں صرف اسی صورت میں فراہم ہو سکتا ہے جب سزا کا دورانیہ طویل ہو اور معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑنے پر وہ اپنے ملازم غنڈوں کو قانون کی گرفت سے بحفاظت آزاد کرا سکیں۔ اگر چور دروازہ فراہم کرنے والا یہ اختیار ان کے ہاتھ میں نہ ہو اور سزائے قید کی بجائے سزا پر عمل درآمد کو یکلخت پایہ تکمیل تک پہنچا دینے والی جسمانی سزا کا قانون نافذ ہو اور یہ سزا معاف کرنے کا اختیار کسی کو حاصل نہ ہو تو کوئی بھی غنڈہ بدمعاش ان رسہ گیر سیاست دانوں کیلئے ایسے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہو گا۔
    جرمانے کی سزا بھی اسی چور دروازے کے ضمن میں آتی ہے۔ حکام کو لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی کا راستہ فراہم کرنے کے علاوہ یہ سزا سیاستدانوں کیلئے غنڈہ عناصر کے تحفظ کا بھی سب سے آسان راستہ فراہم کرتی ہے چنانچہ اسے معاشرے کیلئے اگر سزائے قید سے بھی زیادہ مہلک قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ ایک فطری سزا کی شان یہ ہے کہ مجرم سے سزا کے طور پر کوئی ایسی چیز نہ چھینی جائے جو کسی دوسرے کے کام آ سکے تاکہ حکام کی بدنیتی یا لالچ کا احتمال ہی پیدا نہ ہو اور دولت یعنی جرمانہ یقیناً ایسی شے نہیں ہے۔ فطری تعزیر کی یہ فول پروف صورت صرف جسمانی سزا سے ہی ممکن ہے۔
    سزا کا ایک بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے دیگر افراد کو عبرت حاصل ہو اور اس کے نتیجے میں کسی کو جرم کرنے کا حوصلہ نہ ہو۔ مجرم کے جیل جانے کے بعد وہ معاشرے کی نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے اور باعث عبرت نہیں رہتا۔ سنگین جرم کی سزا ایسی ہونی چاہیے کہ اگر معاشرہ اس مجرم کو اپنے اندر سے نکال باہر نہیں بھی پھینکتا یعنی ملک بدر نہیں بھی کرتا یا سزائے موت کا مستحق نہیں بھی قرار دیتا تو بھی وہ جب تک اس معاشرے میں رہے، اس سنگین جرم کی بدانجامی کا اشتہار بن کر رہے۔ عبرت کا یہی تصور اس معاشرے سے جرائم کے خاتمے کا ضامن ہو گا، مثال کے طور پر بینک میں ڈاکہ ڈالنے والا مجرم جو سزائے موت کا مستحق نہیں ٹھہرتا، اسے کسی ایسے حصہ جسم سے محروم کر دیا جائے جس نے اس ڈاکے میں فعال کردار ادا کیا ہے.... اور وہ حصہ جسم اس کا ہاتھ ہی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر جرم بہت سنگین نہیں ہے یعنی قواعد کی ایسی خلاف ورزی کا ہے جس سے کسی کا کچھ بگڑا تو نہیں لیکن اس سے بگاڑ کا احتمال پیدا ہو گیا تھا تو عبرت کا یہی تاثر پیدا کرنے کیلئے سزا کی یہ جسمانی اذیت اسے سرعام ملنی چاہیے، مثال کے طور پر اگر کسی نے ٹریفک کا کوئی قاعدہ توڑا ہے تاہم اس کے نتیجے میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا تو اس جرم پر اسے کسی حصہ جسم سے تو محروم نہیں کیا جا سکتا البتہ اسے کسی طرح کی جسمانی اذیت پہنچانے کا فیصلہ بہرحال کیا جائے گا یا یہ کہ اگر اس سے اس جرم کا ارتکاب پہلی دفعہ ہوا ہے اور وہ اس پر نادم ہے تو وہ متعلقہ ریاست کی مذہبی عبادت گاہ میں قائم اعزازی مجسٹریٹ کی ہفتہ وار مرکزی کھلی عدالت میں جس کا ذکر گزشتہ ابواب میں ہو چکا ہے، جیوری سے معافی حاصل کر لے، ورنہ اسے دوسروں کی عبرت کیلئے سب کے سامنے زدوکوب کیا جائے.... وعلٰی ہٰذالقیاس۔
    سرعام جسمانی سزا کے اصول پر اگر نظام تعزیرات وضع کیا جائے تو ہر ریاست کیلئے اپنا خود مختار نظم تعزیر تشکیل دینا بالکل آسان ہو جائے گا خواہ وہ ریاست کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو۔
    اسی طرح نظام تعلیم کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستیں اپنے تعلیمی نصاب میں سے وطن پرستی کا یہ خناس کیسے نکالیں؟
    اس مسئلے کا حل بھی بالکل سیدھا سادا ہے۔ اگر کوئی ریاست اتنی مختصر ہے کہ اپنا نظم تعلیم و امتحان مو ثر نہیں بھی کر سکتی تو بھی ایک اضافی مضمون کی تشکیل کے ذریعے اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں کو ان نظریات کی ویکسین تو مہیا کر ہی سکتی ہے جن کو وہ غلط تصور کرتی ہے.... اور سچ تو یہ ہے کہ جب تک غلط اور صحیح، دونوں طرح کے افکار زیر نظر نہ آئیں، علم نامکمل رہتا ہے، قرانی الفاط میں” سمع و بصر” کے بعد “فواد” کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔
    لیبر ایکٹ کی مثال بھی یہی ہے۔ گزشتہ ابواب میں ہم نے کفالتی نظام خدمت گاری پر مشتمل جس تصور روزگار کا مشاہدہ کیا وہ بھی ہر ریاست کا صوابدیدی استحقاق ہے یعنی اگر کوئی فرد خواہ وہ سربراہ مملکت ہی کیوں نہ ہو، اس تصور روزگار کے خلاف رائے رکھتا ہے یا اس نظام کو مزید قابل ترمیم و اصلاح تصور کرتا ہے تو اسے یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ ایسی ریاست کا شہری بن جائے جس کا آئین اس فرد کے نظریئے سے ہم آہنگ ہے تاہم اس کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہے کہ کسی بھی دوسرے فرد کو اس تصور روزگار کے اختیار کرنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکے یعنی کسی بھی ریاست کو آئینی طور پر یہ تصور روزگار اپنے لیبر ایکٹ کا حصہ بنانے سے روک سکے۔
    اسی طرح قیادت کے احتساب کا سوال اٹھتا ہے کہ معاشرے پر اقتصادی بوجھ ڈالے بغیر ایسا عدالتی طریق کار کیسے وضع کیا جا سکتا ہے جس سے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنے حکام سے ان کی کسی بھی انتظامی کارکردگی یا قانونی اوضاع و نفاذِ قرآنیہ کے بارے میں سب کے سامنے بازپرس کرنے کا استحقاق حاصل رہے اور جس سے ان حکام کو ہر وقت عوام کے سامنے جواب دہی کا وہ خوف دامن گیر رہے جو ان کو ان کی مفاد پرستی کیلئے کوئی چور دروازہ تخلیق کرنے کا حوصلہ ہی نہ بخشے اور وہ طوعاًوکرہاً فرشتہ سیرت بنے رہیں؟
    اسی قسم کے ایک مسئلے کا حل ہم گزشتہ باب “ضابطہ قانون” میں زیر نظر لا چکے ہیں۔ ہر مذہبی عبادت گاہ کو جسے کفالتی نظام روزگار کی اعزازی فیصل عدالت بنانا تجویز کیا گیا تھا اور جسے اعزازی مجسٹریٹ اور اعزازی ارکان جیوری کے بنیادی ستونوں پر مشتمل رکھا گیا تھا، ایسی ہی ایک عدالت کوحکام کے احتساب کیلئے ہفتہ وار عدالت احتساب کی حیثیت بھی دے دی جائے جس میں ارکان جیوری کے طور پر شامل ہونے کیلئے وہ پڑھے لکھے افراد اہل ہوں جنہوں نے قومی اجتماعی مقاصد کیلئے انفاق کے حوالے سے تقوٰی کی میرٹ لسٹ میں برتر مقام پایا ہے.... اور یہ دونوں طرح کے عدالتی نظم خود مختارانہ انداز میں اپنے اپنے معاشرے کے حجم کی مناسبت سے ہر سطح کی عدالتی درجہ بندی کا تعین رکھتے ہوں یعنی محلے کی سطح پر پرائمری کورٹ، آبادی کی حلقہ بندی کی سطح پر سیکنڈری، پورے قصبے شہر یا تحصیل کی سطح پر ہائر سیکنڈری، پھر اسی طرح ضلعی، عالیہ اور عظمٰی غرض جتنے بھی دائرہ ہائے اختیارات موجود ہوں، اسی مناسبت سے آنریری عدالت ہائے احتساب کا تعین بھی موجود ہونا چاہیے۔
    مختصر یہ کہ آپ کسی بھی حوالے سے اس منشور آزادی کا جائزہ لیں یہ ہر تشنگی کے خاتمے کا آئینہ دار ہو گا اور ذرا سے غور اور تدبر کے نتیجے میں ہر الجھن کا حل اس میں دکھائی دینے لگے گا۔
    اب ہم اس اسٹیج پر ہیں کہ اس نظام مملکت کا بنیادی تصورِ تشکیل مدون کر سکیں۔
    یہ آزاد مملکت ہر باشندے کو یہ حق دے کہ وہ اگر فیڈرل ایریا کے دستور سے متفق نہیں ہے تو قرآنی اساس جس کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے، کی موجودگی میں اپنے لیے اپنے زیر عملداری جگہ میں اپنی مرضی کا آئین متشکل یا منتخب کر سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کی حیثیت ایک مہمان شہری کی ہو گی اور وہ آئین جو اس نے اپنے لیے منتخب کیا ہے، اس علاقے میں نافذ ہو گا جو اس فرد کی عملداری میں ہے، خواہ یہ عملداری اسے ملکیت کے ذریعے حاصل ہوئی ہو یا الاٹمنٹ، کرایہ داری اور رہن وغیرہ کے معاہدے کے تحت۔ اس علاقے کی حیثیت اس مملکت کی ایک نیم خود مختار ریاست کی سی ہو گی، خواہ یہ ریاست ایک ہی گھر پر مشتمل کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر کچھ افراد کسی ایک آئین پر متفق ہو کر اسے اپنے زیر عملداری علاقوں میں نافذ کریں تو ان تمام علاقوں یعنی گھروں کو ایک ہی ریاست تسلیم کیا جائے گا خواہ یہ علاقے متصل نہ بھی ہوں اور ان علاقوں کا باہمی فاصلہ کافی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ مرکز اور ریاستوں کے مابین اختیارات کی تقسیم کا جائزہ ہم گزشتہ سطور میں لے چکے ہیں۔
    دنیا کے ہر فرد کو ہر وقت کسی بھی ریاست میں شامل ہونے یا اسے چھوڑ دینے کی آزادی ہو یعنی اسے کسی بھی تشخص کو اپنانے یا چھوڑ دینے کی ہر وقت آزادی ہو۔
    آمدم برسر مطلب کہ عوامی استحصال اور حکام کی مفاد پرستی کا تمام تر دارومدار جغرافیائی وطنیت پر استوار آئین پر ہوتا ہے کیونکہ وہ آئین انہیں قومی مفاد کے نام پر حسب منشا ظالمانہ قوانین مسلط کرنے کا اختیار دیتا ہے، اس لئے نظریاتی تشخص پر متحد ہونے والا معاشرہ انہیں کسی بھی قیمت پر گوارا نہیں ہو گا۔
    یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر صورت حال یہی رہی تو مسائل سے نجات دلانے والا نظام انسانیت کو کیسے فراہم ہو؟
    ہم اس مسئلے پر جتنا بھی غور کریں اتنا ہی اس کا پرامن راستہ مشکل سے مشکل تر دکھائی دیتا ہے چنانچہ تمنا یہ ہے کہ انسانیت کے اعلٰی اور مخلص دماغ جنہیں قرآن نے اولوالالباب کہہ کر پکارا ہے، اس مسئلے پر سنجیدگی سے سر جوڑیں اور اگر دنیا میں کوئی معاشرہ، کوئی خطہ،کوئی گوشہ، کوئی جزیرہ ایسا ہو جو یہ سنہری نظام اور اس کی حفاظت کی گارنٹی اپنے شہریوں کو دے کر انہیں عالمی بیگار کیمپ کے سٹیٹس سے نجات دلاسکے یعنی اسی گارنٹی اور آزادی پر استوار نظریاتی تشخص اور ٹیکس سے مبرا آئین انہیں عطا کر سکے تو اس کیلئے کوشش کی جائے، بصورت دیگر صرف مسلح انقلاب کا ہی راستہ رہ جاتا ہے۔
    آج درد مند نظریں ان بے لوث افراد کی متلاشی ہیں جن کے دل پر وہ بھاری ہے جو انسانیت پر گزرتی ہے اور جو ہمیں قارون، فرعون اور ہامان کی اس غلامی سے نجات دلانے کیلئے خود فراموشی کی منزل تک جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
    ٭
     
  28. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    18۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی آزادی کی قوت

    18۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسانی آزادی کی قوت نافذہ

    گزشتہ صفحات میں ہمارے سامنے دو نمایاں سوالات ابھرے تھے۔ ایک یہ کہ کسی معاشرے میں اگر یہ سنہری نظام دستیاب کر دیا گیا تو دنیا بھر سے لٹے پٹے افراد کا جم غفیر اس معاشرے کی طرف رجوع کرے گا، تب ان افراد کو ایڈجسٹ کیسے کیا جائے گا؟.... اور دوسرا سوال یہ تھا کہ جب اس نظام سے عالمی مفاد پرست ٹولے کے مفادات پر ضرب پڑے گی اور وہ اس نظام کو سبوتاژ کرنے کیلئے عالمی ذرائع ابلاغ پر جو پہلے ہی اس کی ملکیت ہیں، منفی پراپیگنڈا کرے گا اور پھر عالمی رائے عامہ کو اس نو آزاد معاشرے یا مملکت کے خلاف ابھار کر مختلف ممالک میں اپنے آلہ کار حکام کے ذریعے اس معاشرے کے خلاف جارحیت کرے گا تو اس آئین آزادی کو تحفظ کیسے دستیاب ہو گا؟ اس آئین کی قوت نافذہ یعنی آرمی اتنی مضبوط کیسے ہو سکتی ہے کہ نہ صرف اس معاشرے پر بوجھ نہ ہو اور اس نظام کو اندرونی اور بیرونی، ہر طرح کے خطرات سے تحفظ فراہم کرے بلکہ پوری انسانیت کی سطح پر اس آئین کی دستیابی کی ضامن بھی بن سکے۔؟
    دراصل یہ دونوں سوالات ہی ایک دوسرے کا جواب ہیں۔
    یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ اس منشورِ آزادی کی راہ میں اس وقت تک رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہیں گی جب تک اس آئین کے پھیلاؤ اور پوری انسانیت تک اس کی دستیابی کا بندوبست بھی اس منشور کا حصہ نہ ہو۔ دوسری طرف انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ بیچارے لوگ جو غیر فطری تھیوریوں اور عالمی ذرائع ابلاغ پر اس قارونی ٹولے کے پراپیگنڈے کے باعث ٹرانس میں آ چکے ہیں یا جن کی قوت متخیلہ میں اس نعمت کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور جنہیں ہم نے اس تحریر کے آغاز میں بھیڑ بکریوں کی مانند قرار دیا تھا یا وہ لوگ جو غربت و جہالت اور پسماندگی و بے بسی کے باعث اس نظام کیلئے از خود کوئی جستجو کرنے کے قابل نہیں ہیں اور اپنے رب سے التجائیں کرتے ہیں کہ وہ ان کیلئے کوئی نجات دھندہ بھیج دے، ان لوگوں کو بھی آزادی کی یہ نعمت دستیاب کرائی جائے کیونکہ فطرت کی نظر میں تو بہرحال پوری انسانیت ایک ہی کنبہ کی مثال ہے۔ اب اگر کسی کنبے میں کوئی فرد معذور یا ضعیف ہو تو اسے خاندان سے باہر تصور کرتے ہوئے سسک مرنے کیلئے تو نہیں چھوڑ دیا جاتا۔
    قوت نافذہ کو خاطر خواہ طور پر مضبوط کرنے کیلئے لازم ہے کہ اسے عسکری خطوط پر تشکیل دیا جائے، اور یہ عسکری خطوط جن دو نکات کو ملانے سے بنتے ہیں وہ ہیں افرادی قوت اور معاش۔ اب اگر یہ نظام پوری انسانیت کو ہمیشہ کیلئے فراہم کرنا اور فراہم رکھنا ہے تو اس حربی افرادی قوت کی کوئی حد بھی متعین نہیں کی جا سکتی اور پوری انسانیت کی سطح پر قوت نافذہ کی جنگی مہموں میں شامل ہونے کے خواہشمند کسی فرد کو اس شمولیت سے روکا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ جب تک دنیا میں کہیں بھی اس نظام کی انسان کو فراہمی کی راہ میں رکاوٹ موجود رہے گی، یہ مہمیں جاری رہیں گی.... چنانچہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ عسکری خطوط کو ملانے والے یہ دونوں نکات یعنی افرادی قوت اور معاش کس طرح اس نظم عسکریت کے دائرہ رسائی میں لائے جا سکتے ہیں؟
    افرادی قوت کی وسیع ضرورت کا حل تو مذکورہ دو سوالات میں سے پہلے سوال میں ہی موجود ہے لٰہذا اس پر مزید گفتگو وقت کا ضیاع ہے کہ جب افراد کا جم غفیر آئے گا تو یہ ضرورت خود بخود پوری ہو جائے گی.... البتہ دوسرے سوال کا کہ ان آزادی پسند جانبازوں کیلئے معاش کی صورت کیا ہو گی، جواب قدرے وضاحت طلب ہے۔
    معاشی سہارا فراہم کرنے کا یہ کام بادی النظر میں نہایت کٹھن دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ کٹھن دکھائی دینے کی وجہ ہماری اقتصادی کم نظری ہے۔ ہماری چشم بصیرت کے سامنے عسکری روزگار کا بس ایک وہی تصور ہے جو آج کی مسلح افواج کیلئے مروج ہے یعنی اجرت دو اور لڑاؤ۔ یہ وہی تصور ہے جو کرائے کے قاتلوں کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اعلٰی تر مقاصد آزادی کیلئے ہر اعتبار سے غیر موزوں ہے، اس لیے کہ معاش کا یہ تصور ہر عسکری ترتیب کو سرمایہ کاری کا محتاج بنا دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس عسکری روزگار کی بنیاد اجرت یا تنخواہ پر نہیں بلکہ شراکت کے اصول پر رکھنا ہو گی۔
    بیس فیصد انفال کا شراکتی تصور اس نظم عسکریت کیلئے قرآن میں متعین ہے اور اس کا فلسفہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں وہ حکام اور ان کی افواج جو اس اساس آزادی کو اپنی رعایا کیلئے دستیاب کرنے میں رکاوٹ ہوں، اس بات کے مستحق ہیں کہ صرف انہی کے اموال، اسلحہ اور جائدادیں جن کی بنیاد پر وہ انسانیت کو غلام بنانے میں شریک جرم ہوتے ہیں، ان سے چھین کر اُن افراد کو دے دیئے جائیں جو انسانیت کو اس غلامی سے نجات دلانے کیلئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلے ہوئے ہیں، تاہم اس میں یہ امر ملحوظ رکھنا ہو گا کہ ان علاقوں کے غیر متحارب عوام یعنی رعایا کی جان و مال و آبرو محفوظ رہیں۔
    اس کا مطلب یہ ہے کہ ان متحارب حکام کے خلاف عسکری مہماتِ آزادی کا ہر وقت جاری رہنے والا ایسا سلسلہ شروع ہو جس میں ہر کامیاب مہم کے بعد مفتوحہ اموال کو انفال تصور کیا جائے اور یہ اموال شرکائے مہم میں تقسیم کیے جائیں۔ ان اموال میں اسی فیصد شرکائے مہم کیلئے مختص ہوں جبکہ مذکورہ مہم کے انتظامی اخراجات کیلئے قرض اور عسکری سازوسامان فراہم کرنے والے قومی ادارے، خزانے (بینک) کیلئے بیس فیصد مختص ہوں جن کے ذریعے داخلی امن و تحفظ کی گارنٹی شہریوں کو فراہم ہو اورباقی انفال اس ادارے یا بینک کے اکاﺅنٹ ہولڈرز میں یا اگر یہ ادارہ کمپنی کے انداز میں قائم کیا گیا ہو تو اس کے شیئر ہولڈرز میں تقسیم کیا جائے۔
    اب اس نظام عسکریت کے خود کفیل ہونے کے ضمن میں صرف ایک پہلو تشنہ ہے، جنگی قیدیوں کا پہلو۔ اس حوالے قرآن کا حکم تو یہ ہے کہ جب متعلقہ متحارب حکومت کے ساتھ جنگ اختتام کو پہنچ جائے اور فتنہ یعنی اسلام کے آئین آزادی کے عوام کو دستیاب ہونے کی راہ میں رکاوٹ ختم ہو جائے تو ان جنگی قیدیوں سے خواہ فدیہ وصول کر کے انہیں چھوڑو یا بطور احسان آزاد کرو۔
    اب ظاہر ہے کہ اگر فدیہ وصول کیا جائے تو یہ بھی انفال کا حصہ ہو گا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس وقت تک کہ جب تک دشمن نبرد آزما ہے، جنگ اختتام کو نہیں پہنچ جاتی، فتنہ ختم نہیں ہوتا اور یوں جب تک جنگی قیدیوں کا فیصلہ نہیں ہو سکتا اس وقت تک ان قیدیوں کی کفالت کا بندوبست کیسے ہو؟ اس سوال کا آسان جواب بھی ان قیدیوں کے حق استعفٰی کی مالیت کے تصور میں پنہاں ہے۔
    انفال میں اُن “متحارب” عورتوں اور مردوں کے حق استعفٰی کی ملکیت بھی شامل تصور ہو جو اس مہم میں حریف کے طور پر لڑیں یا لڑنے والوں کے مددگار رہے ہوں اور شکست کے نتیجے میں جنگی قیدی بن کر آزادی پسندوں کے زیر حراست آئیں۔ ان قیدیوں کو فتنہ ختم ہو جانے تک کے عبوری دور کیلئے ایسے مساویانہ کفالت کے اجیر تصور کیا جائے جن کے حقوق استعفٰی کی مالیت طے کرنے پر پورے معاشرے کا استحقاق ہو.... تاکہ ان کے حقوق کی زیادہ سے زیادہ مالیت بن سکے اور جانباز آزادی پسندوں کو ان کی توقع کے مطابق اتنا زیادہ حق محنت مل سکے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کوئی عظیم انسانی خدمت انجام دینے کے عوض ملنا چاہیے۔ ان جنگی قیدیوں کے حق استعفٰی کی مالیت کا تعین اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایسے ہر زیر حراست فرد کے حق استعفٰی کی مالیت اور واپسی قیمت کا تعین معاشرے کے شہری مسابقت کے اصول پر فرداً فرداً کریں جس طرح نیلامی میں کیا جاتا ہے اور بنیادی حقوق کی رو سے اس مسابقت میں ہر زیر حراست فرد کو بھی شریک ہونے کا اختیار دیا جائے۔ ہر مسابقت میں استعفٰی کی مالیت اور واپسی قیمت کے مابین فرق کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی بنیاد پر حتمی تعین کا فیصلہ کر دیا جائے اور اس فیصلے میں مذکورہ فرق کو انفال کا حصہ تصور کیا جائے جبکہ اس حق کی واپسی قیمت مرکز کے پاس محفوظ رہے۔ اب اگر جنگ قرآن کی اصطلاح میں ہتھیار ڈال دے اور پھر جب ان جنگی قیدیوں میں سے کسی بھی قیدی کو بطور احسان یا بعوض فدیہ آزاد ڈکلیئر کرنے کا مرحلہ آئے اور کھلی عوامی عدالت احتساب سے مرکز کے اس فیصلے کو تائید بھی حاصل رہے تو وہ متعلقہ آجر کو اس معاہدے کی واپسی قیمت انہی محفوظ اموال میں سے ادا کر کے کسی بھی قیدی کو آزاد قرار دے سکے۔ بصورت دیگر یہ محفوظ اموال معاشرے کا مجموعی انفاق تصور کیے جائیں اور اجتماعی بہبود کیلئے استعمال کیے جائیں۔
    یقیناً یہ عسکری ترتیب ایک کارسعد اور خدمت انسانیت ہونے کے علاوہ ایسا منافع بخش ذریعہ روزگار بھی ہو گی جس میں شریک ہونا دنیا کا ہر باضمیر اور جری نوجوان باعث سعادت سمجھے گا۔ ان مہمات کیلئے علیحدہ سے کوئی فنڈز مہیا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی، بلکہ الٹا یہ قوت نافذہ خود ہی اپنے قومی خزانے کیلئے بیس فیصد اموال مفتوحہ کی فراہمی کی صورت میں بے پناہ اقتصادی تقویت کا سبب بنے گی۔ ظاہر ہے کہ اس عسکری ترتیب کی موجودگی میں مملکت کا دفاع اور اس کی خارجہ پالیسی ایک غیر اہم بات ہو کر رہ جائے گی۔
    ٭
     
  29. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    19۔ ۔ ۔ ۔ ۔قرآنی ریفرنس، خلافت اور

    19۔ ۔ ۔ ۔ ۔قرآنی ریفرنس، خلافت اور مقتدر اعلٰی کا تعین
    مقتدراعلٰی کون ہونا چاہیے؟ اس تعین کیلئے مقتدر اعلٰی کی ذمہ داریوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر قانون سازی کے عمل کی نگرانی ہے تاکہ کوئی مفاد پرستانہ قانون نہ بنایا جاسکے۔
    ایسا مقتدر اعلٰی صرف وہی ہو سکتا ہے جس کا اپنا کوئی مفاد نہ ہو اور ایسا شخص وہی ہو سکتا ہے جس کو کوئی ضرورت نہ ہو، جس کی کوئی مجبوری نہ ہو لیکن اس کے باوجود اسے رعایا کی ضرورتوں کا بخوبی ادراک ہو۔
    ایسا بے نیاز مقتدراعلٰی ننگی آنکھ Naked eye سے کوئی دکھائی نہیں دیتا، البتہ کائنات کا عمیق نگاہی سے مشاہدہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسی قوت ضرور موجود ہے جس نے کائنات کو تخلیق کیا ہے اور اس کے نظام کو غیر متبدل قوانین پر چلا رہی ہے اور یہ سیدھی سی بات ہے کہ وہ قوت بے نیاز ہے اور کسی چیز کی محتاج نہیں ہے چنانچہ اس قوت کو مقتدراعلٰی تصور کیا جاسکتا ہے، یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے۔
    اگر کوئی خالق کائنات قوت موجود ہے تو بحیثیت مقتدراعلٰی یہ اس کی ذمہ داری ٹھہرتی تھی کہ وہ انسانی اختیارات کے توازن اور مفاد خویش سے تحفظ کا غیر متبدل قوانین پر مبنی ضابطہ عمل بھی کائنات کے ساتھ انسان کو اسی طرح فراہم کرے جیسے مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کے ساتھ کتابچہ ہدایات برائے استعمال فراہم کرتی ہیں، یہ کتابچہ ہدایات کہاں ہے؟
    اس کتابچہ ہدایات کو تلاش کرنے کے لیے اگر مروجہ علوم پر نگاہ ڈالی جائے تو ان علوم کی صرف ایک قسم ایسی دکھائی دیتی ہے جو انسان کے ذاتی اکتساب کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی ماخذ وہی قوت وہی بتائی جاتی ہے جسے یہ علوم خالق کائنات قراردیتے ہیں۔
    علوم کی یہ قسم مذاہب پر مشتمل ہے۔
    ہر مذہب میں اس خالق کائنات قوت کا نام مختلف ہے اور اسے خدا، ایشور، یزداں، گاڈ اور مذہب اشتراکیت و اشتمالیت میں نیچر اور قوت حیات جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان میں سے صرف سوشلزم اور کمیونزم ایسا مذہب ہے جو انسان کا خود ساختہ ہے اور اسے عام طور پر مذاہب کی درجہ بندی میں شامل نہیں کیا جاتا حالانکہ نظام ریاست کا یہ concept معاشرے میں وہ کردار بھی ادا کرتا ہے جو دوسرے معاشروں میں آسمانی مذاہب کی شریعت کو انجام دینا چاہیے۔ بہرحال چونکہ ایسا ہر مذہب انسان کا خود ساختہ ہے لٰہذا ہمارے موضوع کا حصہ نہیں رہتا اور ہم اپنی قانونی جستجو کا مرکز انہی مذاہب کو بنا سکتے ہیں جو خالق کائنات سے منسوب ہیں کیونکہ وہیں سے ملنے والے قوانین مفاد پرستی سے پاک ہو سکتے ہیں۔
    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب مذاہب اسی خالق کائنات قوت کی طرف سے ہیں تو ان میں اختلاف کیوں ہے اور ہر مذہب کی ماخذ کتاب مختلف ہدایات کیوں دیتی ہے؟
    اس سوال کا منطقی جواب سیدھا سادا ہے اور وہ ہے کہ زبان کی ہیئت تبدیل ہو گئی۔
    انسان کی تخلیق ہوئی تو ہر علاقے میں کتابچہ ہدایات اس کی زبان میں بھیجا گیا۔ یہ زبان جب تبدیل یا معدوم ہوئی تو زبان کی نئی ہیئت میں ان ہدایات کو منتقل کرنے والوں نے انہیں اپنی مفاد پرستی کے مطابق بدل دیا، بگاڑ دیا یا حذف کر دیا چنانچہ نئی زبان میں نیا کتابچہ ہدایات بھیجا گیا۔
    عقل رکھنے والے ان نئی ہدایات کو پرکھنے لگے اور لکیر کے فقیر ان کی مخالفت کرنے لگے۔
    ہر دور میں، ہرعلاقے اور ہر معاشرے میں یونہی ہوتا رہا۔ جب بھی زبان کی اصل لغت ترکیبی بتدریج معدوم ہوتی اور مفاد پرستوں کے ہاتھوں اصل متن یا مفاہیم مسخ کیے جاتے، نئی زبان میں وہی ہدایات دوبارہ آ جاتیں۔ تب اپنے بزرگوں کے اندھے معتقد اپنے غیر منطقی غیر فطری اور اندھے عقائد کو چاٹتے اور قعر مذلت میں گرتے رہتے جبکہ کھلے قلب و ذہن کے لوگ نئی ہدایات کو زیر بحث لاتے، ان کے مقاصد اور متوقع نتائج پر غور کرتے اور ایک فیصلے پر پہنچ کر ان ہدایات کو اپنے اپنے ماحول اور تقاضوں کے مطابق اختیار کر کے ترقی و خوشحالی کے مدارج طے کرنے لگتے۔
    متن اور مفاہیم کے مسخ کر دیئے جانے کی ایک مثال معدوم کی جانے والی زبان عبرانی کی ہے چنانچہ ترجمانی کرنے والوں نے تورات اور انجیل کی ہدایات اجتماعی کو ڈھانپ دیا۔ آج عیسائیت کی مذہبی دنیا میں مبینہ طور پر پانچ چھ ترجمہ شدہ اناجیل دستیاب ہیں جن میں سے چار کو چرچ تسلیم کرتا ہے جبکہ پانچویں انجیل جس کا نام برنباس کی بائیبل بتایا جاتا ہے، غالب عیسائی اکثریت کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح جوڈاس کی بائیبل یہودیوں کی طرف سے پیش کی گئی ہے جسے کیتھولک چرچ اور پروٹسٹنٹ دونوں کی طرف سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ دیگر چاروں انجیلوں میں بھی نوعیت مضامین کا اختلاف موجود ہے کیونکہ ان میں سے ہر انجیل سیدنا عیسٰی نے نہیں بلکہ ان کے کسی نہ کسی حواری نے اپنی یادداشت کی بنیاد پر مرتب کی چنانچہ چرچ کی طرف سے کہا گیا کہ حقیقی بائیبل ان چاروں میں بکھری ہوئی ہے۔
    اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیت جسے سینٹ پال کی “ترامیم” کے بعد عیسائیت کی بجائے کلیسائیت کہنا زیادہ بہتر ہوگا، محض اندھے عقائد Dogmas تک محدود ہو کر رہ گئی اور اس میں معاشرے کی اجتماعیت، اقتدار اعلٰی کا تصور نافذہ، قانون سازی اور تعزیرات پر کوئی قابل ذکر اور دو ٹوک ہدایات نہیں ملتیں چنانچہ یہ مذہب محض اخلاقی پندونصائح کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔
    عیسائیت سے زیادہ قدیم عالمی مذاہب مثلاً بدھ جین ازم اور ہندو ازم کی کیفیت بھی یہی ہے کہ ان کی مذہبی کتابیں معاشرے کی اجتماعی قانونی ساخت کی تشکیل کا “صوابدیدی” اختیار مذہبی پیشوائیت اور اس کی آشیر باد کے حامل حاکم کو دے دیتی ہیں اور انسانیت کو تدبر کرنے اور پردہ تصور پر پرکھنے کیلئے دستور سازی کی کوئی دائمی اور دو ٹوک ہدایات نہیں دیتیں۔
    اسلام کا معاملہ اس سے بھی بدتر بنا دیا گیا ہے۔ یہ سرے سے مذہبِ محض تھا ہی نہیں بلکہ مکمل ضابطہ اجتماعیت و دستور سازی تھا لیکن اسے پوجا پاٹ جیسا مذہب بنا دیا گیا۔ اس کی ماخذ کتاب قرآن ہر چند کہ محفوظ ہے تاہم عربی زبان میں ہے اور یہ جس قوم کی زبان ہے اسے اس کتاب کی ہدایات کو ماننے سے کوئی خاص دلچسپی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ قوم اپنی لذت پسندی بلکہ لذت پرستی اور تکبر میں غرق ہے چنانچہ ان کے حکمران جب قران کو پس پشت رکھ کر زرپروردہ مذہبی پیشوائیت کی آڑ اور ڈھال لے کر غیر فطری قوانین وضع کرتے ہیں تو عوام الناس میں کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہوتا، تب اس کے نتیجے میں بنیادی انسانی اور خاص طور پر خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل پیدا ہوتے ہیں اور معاشرے میں فساد جنم لیتا ہے۔ دیگر زبانوں میں اس کلام الٰہیہ کا ترجمہ کرنے والوں کی اکثریت اپنی مفاد پرستی کو کچل نہیں سکی چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے تراجم موجود ہیں جن میں باہم شدید اختلاف ہے اور جس نے فرقہ وارانہ تصادم کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف ان تراجم اور ان کی شرح یا تفسیر حکام کی خوشنودی کیلئے اس طرح بھی کی جاتی رہی جس سے ان اہل اقتدار کیلئے ان کے اختیارات کی قانونی حدبندیاں واضح اور دوٹوک متعین نہیں کی جا سکتی تھیں چنانچہ ان تراجم اور تفاسیر کی بنیاد پر چور دروازوں سے مبرا آئین مملکت کی تشکیل ممکن نہیں رہتی اور حکومتوں کو من مانے استبدادی قوانین وضع کرنے کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے جس سے دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔
    اس صورت حال میں انسانیت کی فلاح کا امکان تبھی ہو سکتا تھا جب یا تو ساری دنیا میں صرف عربی زبان ہی بولی جاتی یا یہ زبان ہی دنیا سے معدوم ہو جاتی تاکہ خالق کائنات یہ ہدایات نئی زبان میں فراہم کر دیتا.... یا پھر دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ درد دل رکھنے والے کچھ لوگ عربی کی ان ہدایات کو قانون سازی کے نقطہ نظر سے مجتمع کرتے ہوئے ان کی روشنی میں اقتدار کی صوابدید اور اس کے اختیارات کی حدود، عدلیہ اور لاءکمیشن کی طرح متعین کریں لیکن ساتھ ہی ان حدود کے مفاد پرستی سے مبرا ہونے کی دلیل کے طور پر انسانیت کے سامنے خود کو احتساب کیلئے پیش کریں اور عوام الناس کے سامنے ایک کھلی کچہری کے انداز میں جیوری کے زیر نگرانی ان کی ریسرچ پر جرح اور بحث ہو جس کے بعد جمہوری انداز میں اس ریسرچ اور اختیارات کے اس قانونی تعین پر عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جائے۔ آج تک جو انسان کی یہ محرومی اور پیاس برقرار ہے تو اس کی وجہ ہماری دانست میں یہی ہے کہ حکومتوں کے زرپروردہ مفاد پرست محققین تو ایک طرف رہے، اس نوعیت کا تحقیقی کام کرنے والے اِکا دُکا مخلص جینیئس انقلابی قائدین بھی اپنے علمی احتساب اور سرعام جرح کیلئے خود کو انسانیت کے سامنے پیش کرنے سے گریزاں رہتے تھے، شاید اس لیے کہ اگر ان کی تحقیق و قیادت میں کوئی لغزش کجی یا خلا سامنے آئے جس کی وجہ سے انہیں اپنے موقف سے رجوع کرنا پڑے تو انا اور خودداری کو ٹھیس نہ لگے۔ یہ انا اور خودداری، پندار اور عزت نفس دراصل وہی چیز ہے جسے گزشتہ ابواب میں برتری کی ضرورت کا نام دیا گیا ہے اور جو انسان کی ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ اگر اسے سیدھے راستے سے نہ ملے تو وہ جرم پر آمادہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس مجبوری کو ہم ان کا گناہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی جتنی بھی نامکمل یا عدم نتیجہ کاوش ہے، کچھ نہ ہونے سے تو بہرحال بہتر ہے۔ یہاں تو صرف اس نکتے کی بات ہو رہی ہے کہ ان مصلحین کو حتمی انقلابی کامیابی کیوں نصیب نہ ہو سکی اورآج انسانیت کو ایک مکمل اور فول پروف آئین آزادی کیوں دستیاب نہیں ہے۔
    زیر نظر تحریر دراصل آسمانی ہدایات کے اسی قانونی تعین اور احتساب کیلئے اہل درد کو بلاوہ ہے کہ اگر کوئی حوصلہ مند ایسا ہے جو انسانیت کی فلاح اور نجات کی خاطر مفاد خویش، اپنی انا اور پندار کو اسی طرح ذبح کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو جیسا خدا کے پیغمبر ابراہیم اپنے بیٹے کیلئے رکھتے تھے.... تو اسے دیر نہیں کرنی چاہیے۔
    ہمارا دین اسلام، لیکن مذہب Logic ہے۔ یہی مذہب سیدنا ابراہیم کا تھا چنانچہ قرآن میں ان کا اپنے رب کی جستجو کا سارا بیان اور پھر مندر میں بتوں کی توڑ پھوڑ کے بعد قوم کے سامنے عقلی دلیل رکھنا، سب اسی منطقی طرز فکر کی آئینہ داری ہے اور یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن میں ان کی سیرت اور طریق کار کو بھی اسوہ یعنی مثال اور نمونہ بتایا گیا ہے۔ قرآن کے مطابق انہوں نے کبھی کسی مافوق الفطرت معجزے کے زور پر انسانیت کو خالق کی ہدایات ماننے پر مجبور نہیں کیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ سائنسی ترقی کے اس موجودہ دور میں اگر آپ کسی کو عقل سلیم کی بنیاد پر قائل کرنے کی بجائے مافوق الفطرت معجزے کی دہشت سے خوفزدہ کر کے اپنی بات ماننے پر مجبور کریں گے تو آپ کے مذہب کو سچا مذہب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمیں مختلف مذاہب کی کتابوں میں ان مذاہب کے بانیوں اوتاروں کا “ہتھیار” معجزہ اور کرامت دکھائی دیتا ہے ہم ان کتابوں کو یہ سمجھ کر ناقابل اطلاق گردانتے ہوئے اوڑھ لپیٹ رکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں یہ مذاہب اولو الالباب کو مطمئن نہیں کر سکتے۔
    دنیا میں شاید کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس کی ماخذ دستیاب کتاب میں اس مذہب کے بانی کا کوئی خرق عادت معجزہ “بطور ہتھیار” مذکور نہ ہو۔ صرف قرآن ایسی کتاب ہے جس میں حامل قرآن کو مافوق الفطرت معجزے کے زور پر انسانیت کو قائل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دیدہ بینا کیلئے اس کی حقانیت کو یہی دلیل کافی ہے۔ اسی لیے ہم نے مختلف تراجم سے قطع نظر کرتے ہوئے آئین سازی کی محکم ہدایات یعنی ام الکتاب پر نگاہِ عقل و فکر مرکوز کی اور غیر متوقع طور پر بہت سے ایسے نکات سامنے آئے جن کو ملانے سے دور حاضر کیلئے سب مروجہ نظاموں سے انوکھا اور فول پروف نظام اجتماعیت متشکل ہو رہا تھا۔ یہی تشکیل آپ اس تحریر میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔
    ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہم نے یہ تقریباً تمام نکات جن پر یہ مقالہ ایستادہ ہے، قرآن میں سے ہی لیے ہیں۔ یہاں ان حوالوں کا ذکر مناسب ہے جن سے یہ نکات اخذ ہوئے۔
    معجزے کے ذریعے قائل کرنے کی مخالفت کا ذکر قرآن کے باب (سورة) نمبر6”انعام” آیت 32 تا 35 اور باب (سورة) نمبر 17”اسراء” آیت نمبر 93 میں مذکور ہے۔
    قرآن کے آئینی ہدایت نامہ ہونے کا تصور قرآنی مضامین کا محور ہے لٰہذا یہ ذکر مختلف انداز اور حوالوں سے سارے قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے حتٰی کہ اس کتاب کی ابتدا بھی اسی بات سے ہوتی ہے۔ پہلے باب (سورة فاتحہ) جس کی اہمیت قرآن میں وہی ہے جو کسی کتاب میں دیباچے کی ہوتی ہے۔ اس میں اُس حلف کے الفاظ ہیں جو انسان کو اپنے رب کی عطا کردہ زندگی اس کی منشا کے مطابق بہترین اور شاندار طریقے سے گزارنے کا عہد کرنے کیلئے اٹھانا ہوتا ہے چنانچہ یہاں انسان کی بنیادی طلب یعنی زندگی دینے والے سے اس زندگی کو گزارنے کا طریقہ یعنی صراط مستقیم سمجھنے کی فطری طلب کا ذکر بھی ہے اور اس حلف کے فوراً بعد اگلے باب یعنی دوسری سورة کی سب سے پہلی آیت میں ہی اس طلب کا جواب یہی مذکور ہے کہ یہ ہے وہ ضابطہ جو طلب گاروں کیلئے ہدایت نامہ ہے۔ اب مملکت کی قانون سازی کیلئے سیکولر نظریئے کی مناہی اور قرآن کو اساس بنانے کا دو ٹوک حکم قرآن کے باب (سورة) نمبر3”آل عمران” کی آیت نمبر 79 میں دیا گیا ہے۔ بلا تخصیص مرد و زن ہر شہری کیلئے جمہوری بنیادوں پر ووٹ اور احتساب کا حق باب (سورة) نمبر3”آل عمران” کی آیت نمبر110 اور باب(سورة) نمبر9” توبہ” کی آیت نمبر71 سے مستنبط ہوتا ہے۔ خود مختار احتساب عدالت کیلئے باب (سورة) نمبر3”آل عمران” کی آیت نمبر104 سے استدلال کیا گیا۔
    ہم نے زیر نظر تحریر کو اہل درد کیلئے بلاوہ قرار دیا ہے۔ ان اہل درد کی پہچان اور ان کا کردار قرآن کے باب(سورة) نمبر9”توبہ” کی آیت نمبر128 میں مذکور ہے اور اس کردار کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ اس پر بھاری ہے جو دوسروں پر گزرتی ہے۔ یہ Empathy کا تصور ہے اور اس کا کوئی خاطر خواہ اردو مترادف لغت میں نہیں ہے۔
    گزشتہ اوراق میں حب الوطنی کو زہر کے مترادف یعنی مہلک قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات باب(سورة) نمبر2”بقرہ “آیت نمبر165، باب (سورة) نمبر37”صافات” آیت نمبر 28-30اور باب (سورة) نمبر12”یوسف “آیت نمبر 40 سے مستنبط ہوئی۔ ٹیکس فری سٹیٹ کا تصور آپ نے ملاحظہ فرمایا،یہ تصور باب (سورة) نمبر 2”بقرہ “آیت نمبر 219میں اور باب (سورة) نمبر 9 “توبہ “آیت نمبر 103میں ملا۔ پہلے مقام پر بتایا گیا ہے کہ شہری اپنا ضرورت سے زائد مال اجتماعی ضروریات کیلئے حکومت کو دے دیں ....اور دوسرے مقام پر بتایا گیا ہے کہ حکومت ان سے وہی لے جو یہ حکومت کو دیں، گویا دونوں مقامات پر ٹیکس کا Assessor ٹیکس لینے والا نہیں بلکہ دینے والا ہے۔ اس اصول کے نتیجے میں ٹیکس کی حیثیت حکومت کو دیئے جانے والے عطیے کی سی رہ جاتی ہے اور حکومت ٹیکس وصول نہیں کرتی بلکہ قبول کرتی ہے کیونکہ اس بات کا فیصلہ ٹیکس دینے والا کرتا ہے کہ اپنی جان و مال اور عزت آبرو کے تحفظ کی گارنٹی اس کے ملک میں کتنی مہنگی ہے اور اسے خریدنے کے بعد اس کے پاس کتنا مال زائد از ضرورت ہے۔
    کرنسی کی قیمت سونے کے مقابلے میں منجمدکرنے کے لزوم کا استدلال باب (سورة) نمبر14”ابراہیم” کی آیت نمبر 24-26 ہے۔ یہاں کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی اصطلاحوں کے ساتھ دو متضاد قوانین کی جو پہچان بتلائی گئی ہے وہ دور حاضر میں کرنسی کی ویلیو منجمد کرنے اور نہ کرنے کے تصور پر بھی ٹھیک ٹھیک بیٹھتی ہے۔ یاد رہے کہ یہاں سیاق و سباق میں اللہ کے مقابلے میں طاغوت یعنی مطلق العنان Sovereignگورنمنٹ کا کردار ذکر کیا جا رہا ہے۔
    باب (سورة) نمبر 20” طاہا” کی آیت نمبر 15میں نماز کا ایک مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس نظام کے باعث ہر شخص کو اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ ملے یعنی ٹیکس، ڈیوٹی، سرچارج وغیرہ کے نام پر اس کی محنت کا ثمر اس سے کوئی چھین نہ سکے۔ آیت نمبر14 میں نظام صلٰوة قائم کرنے کی تاکید ہے اور اس سے اگلی آیت میں اس تاکید کا یہ ایک مقصد ذکر کیا گیا ہے کہ محنت کا پوراپورا معاوضہ ہر محنت کرنے والے کو ملے یعنی اس سے مادر وطن کے ٹیکس وغیرہ کے نام پر چھینا نہ جاسکے۔
    نماز کے دیگر مقاصد کا ذکر باب (سورة) نمبر 29 “عنکبوت” آیت نمبر45 میں ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ نظام معاشرے کو فحشاء اور منکر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اب فحشاء اور منکر کیا ہوتے ہیں؟ اس کا مفہوم باب (سورة) نمبر16”نحل” کی آیت نمبر 90 سے واضح ہوتا ہے کہ فحشاء “عدل” کا متضاد ہے اور منکر “احسان” کا، اور احسان کی جڑ یا مادہ “حسن“یعنی درستگی ہے چنانچہ عربی روزمرہ کی رو سے احسان کا مفہوم دور حاضر کے تناظر میں یہ بھی ٹھہرے گا کہ قومی وسائل کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہو اور دولت چند ہاتھوں خاندانوں اور نسلوں میں محدود نہ ہونے پائے۔ عربی گرامر کی رو سے بھی فحشاء کا مفہوم یہی ہے کہ غلط اور درست کا التزام رکھے بغیر سب کچھ اپنے لیے سمیٹنا، گویا نماز کا نظام ایک مشاورتی اور احتسابی نیٹ ورک ہے جو اس بات کی ضمانت کیلئے قائم کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں نہ تو ناانصافی اور طبقاتی ناہمواری و عدم مساوات “فحشاء” ہو گی اور نہ بدعنوانی “منکر“(Corruption) یا عدم بہبود۔ مزید یہ کہ باب (سورة) نمبر 4”نساء” آیت نمبر 103 کے مطابق اسلامی حکومت اپنی تمام کارکردگی بشمول آمدن و اخراجات کے ضمن میں پوری رعایا کے سامنے جوابدہ ہوگی۔ الفاظ “فاذکرواللہ” کی عملی صورت دور حاضر کی اصطلاح میں یہی ہے کہ قانونی نظام معاشرہ پر قرآنی تناظر میں بھرپور نگاہِ احتساب رکھی جائے جس کی مثال دورِ اول میں ملتی ہے جہاں سربراہ مرکز سے پوچھا گیا تھا کہ تمہارے پاس دو چادریں کہاں سے آ گئیں....؟ یہیں سے اور باب (سورة) نمبر 21 “انبیاء” آیت نمبر23 سے ہفتہ وار عدالت احتساب کا تصور اخذ کیا گیا۔
    افراد معاشرہ اور ان کے اہل و عیال کیلئے ناگہانی صورت حال میں عمال یعنی سرکاری ملازمین کے مساوی کفالتی تحفظ کا استدلال باب(سورة) نمبر6 “انعام” کی آیت نمبر151 سے لیا گیا۔
    مرکز کے تحت خود مختار آئینی ریاستوں کے تصور کیلئے باب (سورة) نمبر 4”نساء” آیت نمبر97، باب (سورة) نمبر 5 “انعام” آیت نمبر135، باب (سورة) نمبر 2 “بقرہ” آیت نمبر62 اور باب (سورة) نمبر 17”اسراء” آیت نمبر84 کا حوالہ ہے۔
    مرکز کی ذمہ داری بہبود، رسل ورسائل اور مواصلات کا انتظام باب (سورة) نمبر 9”توبہ” آیت نمبر 60 سے مستنبط ہوا جہاں ریونیو کے استعمال کی مدات ذکر کی گئی ہیں۔
    اس ذمہ داری کو کما حقہ انجام دینے اور حکومت کے احتساب کا نظام نافذ کرنے کی حتمی تاکید باب (سورة) نمبر 22” حج” آیت نمبر 41 میں ذکر کی گئی ہے کہ یہ نظام اسی وقت نافذ ہوتا ہے جب اس پر یقین رکھنے والوں کو اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ گویا یہ ممکن ہی نہیں کہ حکومت تواس نظام کے مخالفین کی ہو جو عوام کے سامنے ایک مقررہ ٹائم ٹیبل کے مطابق باقاعدگی سے اپنے احتساب کیلئے پیش ہوتے رہنے کے روادار ہی نہ ہوں اور عوام کی نماز قائم ہو جائے۔ رعایا کی نماز یہ ہے کہ وہ حکومت سے یہ نظام احتساب (صلٰوة) اور بد عنوانی سے پاک عوامی فلاح و بہبود کا نظام (زکوٰة) نافذ کرائے۔ آج کے مسلمان جس چیز کو نماز تصور کرتے ہیں، وہ صلٰوة نہیں دراصل صلٰوةکا حلف ہے اور صلٰوة تو اس حلف کے بعد شروع ہوتی ہے۔ باب (سورة) نمبر 70”معارج” آیت نمبر19 سے 35 تک نظام صلٰوة کے یہی خط و خال واضح کیے گئے ہیں۔
    انفاق، ووٹ اور حکام کا احتساب شہادت کا حصہ ہے اور شہادت خفیہ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح نکاح اور وصیت کیلئے از روئے قرآن گواہوں کی موجودگی لازمی ہے اور یہ التزام ان دونوں Declarations کے علانیہ ہونے پر دلیل ہے۔ وصیت کے علانیہ ہونے کی تائید میں تو باب (سورة) نمبر2 “بقرہ” آیت نمبر 182 ہی کافی ہے جہاں نامناسب وصیت کرنے والے اور اس سے متاثر ہونے والے کے درمیان صلح کرا دینے کی تاکید ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ صلح تبھی ممکن ہے جب یہ وصیت اپنے تعین کے وقت سے ہی دوسروں کے علم میں ہو۔
    اگرچہ ایسے نہ جانے کتنے ہی مقامات ہیں جہاں اس ہدایت نامہ کا مقصد عربی نہ جاننے والے کی نگاہ سے اوجھل ہو چکا ہے لیکن شاید نمایاں ترین مثال یہی ملک یمین (جسے غلامی سمجھا جاتا ہے) کا قرآنی تصور ہے اور جسے انگلش ترجمہ کرنے والوں کی اکثریت نے Slavery قرار دے رکھا ہے۔
    یہی وہ اہم ترین مقام ہے جہاں ترجمہ کرنے میں مخلص مترجمین سے بھی لغزش ہوئی اور اسی غلطی کی پاداش میں آج صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت مسائل سے دوچار ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے مساویانہ نظام کفالت کا جو مطالعہ کیا، وہ اسی نظام “ملک یمین” کی حقیقی صورت ہے جسے تقریباً سبھی ترجمہ کرنے والوں سے غلامی Slavery کا نظام سمجھنے کی سنگین غلطی ہو گئی۔
    اس غلطی کی وجہ بظاہریہ ہوئی کہ عربی میں غلام کا لفظ منفی تاثر نہیں رکھتا جبکہ اس کا اگر انگلش میں ترجمہ کیا جائے تو ڈکشنری میں اس کا ترجمہ Slavery مقرر ہے جو انسانیت پر ایک لعنت کے مترادف ہے۔ مترجمین سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ لفظ غلام کا مفہوم ہی متعین نہیں کر سکے۔ وہ شاید سمجھ نہیں سکے کہ قرآن کے لفظ “ملک یمین” سے Slave مراد نہیں ہے اور Slave کیلئے عربی میں جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ “عبد” ہے اور قرآن کی رو سے انسان کی عبدیت یعنی Slavery جائز نہیں ہے۔ اردو اور شاید دیگر زبانیں بھی اس معاملے میں تہی دست ہیں کہ ان میں قرآن کے اس تصور روزگار کا مترادف کوئی لفظ موجود ہی نہیں ہے چنانچہ انسانیت گمراہ ہونے پر گویا مجبور ہے۔ اہل زبان اگر اس طرف توجہ دیں اور اس تصور کیلئے اپنی اپنی زبانوں میں کوئی متعین اصطلاح وضع کر لیں تو یہ انسانیت پر ایک احسان ہو گا۔ ذیل میں ہم اسی تصور کے مختلف پہلوؤں کا حوالہ دیکھیں گے۔
    یہ تصور روزگار مختلف حوالوں سے بیسیوں مقامات پرذکر ہوا ہے۔ چند حوالے یہ ہیں۔ مساویانہ معیار کفالت کے لئے باب (سورة) نمبر 16”نحل” آیت نمبر 70 اور باب (سورة) 30”روم” آیت 28 سے استنباط کیا گیا۔ حق استعفٰی کی ملکیت کا تصور خود انہی مندرجہ بالا الفاظ میں موجود ہے جن کا ترجمہ غلامی کیا جاتا ہے۔ ان الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ “دائیں ہاتھ کی ملکیت“.... اور دائیں ہاتھ میں صرف کلائی پکڑی جا سکتی ہے تاکہ اجیر اپنی مرضی سے جب چاہے اپنی کلائی چھڑا نہ سکے۔ اجیر کے باقی جسم، مال و متاع، اہل خانہ، آزادی اظہار و کردار اور دیگر بنیادی حقوق پر ملکیت کا کوئی جواز یا شائبہ تک ان الفاظ میں نہیں ملتا جن سے غلامی کا مفہوم لے لیا گیا ہے چنانچہ اس سے کسی بھی طرح کی Slavery مراد نہیں لی جا سکتی۔ ان الفاظ کا تعلق صرف حق استعفٰی سے بنتا ہے۔ اس حق استعفٰی کی واپسی قیمت کیلئے “مکاتبت” کا حکم باب (سورة) 24”نور” آیت 33 میں موجود ہے۔
    معاہدہ شادی کی دو اقسام یعنی “نکاح زوجیت” اور “نکاح ملک یمین” باب (سورة) 23”مومنون” آیت6 میں مذکور ہیں۔ مرد پر عورت کے کفالتی انحصار کا حوالہ باب (سورة) 4”نساء” آیت34 سے ملتا ہے۔ Aids اور طہر کا تصور باب (سورة) 2”بقرہ” آیت228 سے لیا گیا ہے۔ جنس کے مرد کی ضرورت ہونے اور اس کا مقصد نسل انسانی کی پیدائش قرار دیئے جانے کا حوالہ باب (سورة) نمبر 7”اعراف” آیت نمبر 189، باب (سورة) 2”بقرہ” آیت 222-223 اور باب (سورة) 4”ن
     
  30. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    20۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخری گزارش

    20۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخری گزارش

    معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی رو سے اس نظام کے پورے کرہ ارض پر پھیلنے کیلئے حرم کعبہ کو مرکز مقرر کیا گیا ہے چنانچہ اس تحریرکے براہ راست مخاطب خاص طور پر تو حرم کعبہ یعنی مکہ و سعودی عرب کے اور بحیثیت مجموعی دنیا کے تمام مسلمان ممالک کے حکام ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کار سعد کو انجام دینے کا اولین فرض تو انہی کا ٹھہرتا ہے جو کسی معاشرے میں قانون سازی اور قوت نافذہ کی تشکیل کا اختیار رکھتے ہیں اور خون بہائے بغیر اپنی رعایا کوآزادی کی یہ نعمت دستیاب کر سکتے ہیں، تاہم اگر یہ نعمت انسان کو فراہم کرنے کیلئے دنیا بھر میں کوئی بھی مقتدر شخص سامنے نہ آئے تو یہ خود رعایا کا فرض بن جاتا ہے کہ اس آزادی کا حصول اپنے لیے ممکن بنائے اور اس کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے بیگار کیمپ یعنی وطن کے اہل اختیار و اقتدار کے سامنے اس قانونی نظام کی دستیابی کا مطالبہ رکھے۔
    اس مطالبے کا طریق کار ہر علاقے میں وہاں کی معاشرتی فضا کے مدنظر ترتیب دینا ہو گا۔ اس کا پہلا اور آسان مرحلہ یہ ہے کہ اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ افراد کے زیر نظر لا کر اس مطالبے کیلئے باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
    اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے لازم ہے کہ ہر فرد اس کے ابلاغ میں اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ حصہ دار بنے۔ اب خواہ یہ ابلاغ ای میل کے ذریعے ہو یا کسی بھی زبان میں اشاعت کی صورت میں، یہ تصورِ آزادی جتنی دور اور جتنے افراد تک پہنچے اور جتنی جلد اس پر مشاورت اور نقدونظر کا سلسلہ شروع ہو، بنی نوع انسان کی آزادی کی منزل اتنی ہی قریب ہوتی چلی جائے گی۔
    یہاں ایک تاکید ضروری ہے۔
    یہ ایک سوچی سمجھی حقیقت ہے کہ اس تحریر کا ابلاغ بھی اُس مفاد پرست ٹولے کو کبھی گوارا نہیں ہو گا چنانچہ اس کی بھرپور کوشش ہو گی کہ انسانیت کی توجہ اس منشور پر مرکوز ہی نہ ہونے پائے۔ عالمی میڈیا اس کے قبضے میں ہے چنانچہ اس مقصد کیلئے اس کے پاس کئی راستے ہیں لیکن یہ سب طریقے تبھی اس کارسعد کو متاثر کر سکتے ہیں جب ہماری طرف سے آزادی کے اس تصور کے ابلاغ میں سستی اور تساہل برتا جائے۔ ایسے ٍ ہر زہریلے ہتھکنڈے کی ویکسین، اس سازش کی پیش بندی یہی ہے کہ یہ منشورِ آزادی جلد از جلد زیادہ سے زیادہ افراد کے علم میں آ جائے اور اس پر ہر زبان میں اور سمجھدار لوگوں کی ہر مجلس میں بحث و نظر اور مشاورت کا سلسلہ زور پکڑ جائے۔ اسی لیے قارئین سے التجا یہی ہے کہ اس کے ابلاغ، اشاعت اور ترجمانی کو پہلی ترجیح دیں، اسے ای میل کریں، انٹرنیٹ کی ویب سائیٹس پر اسے سب کیلئے دستیاب رکھیں، اسے دیگر زبانوں میں ڈھالیں یا اسے شائع کریں، غرض یہ عزم رکھیں کہ دنیا میں خواہ کیسے ہی حوادث، کیسے ہی خوفناک واقعات اور جنگیں کیوں نہ برپا کی جانے لگیں، اس ابلاغ میں تساہل نہیں ہونے دیں گے۔ قرآن میں اس مقصد کی ابتدا کیلئے ایک نہایت آسان طریق کار کی رہنمائی موجود ہے۔ باب (سورۃ) نمبر 34”سبا” آیت نمبر46 میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کیلئے یعنی پوری انسانیت کی خاطر ایک ایک دو دو کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اس امر پر غور کرنا شروع کر دو کہ انسانیت کیلئے قرآن کا عطا کردہ یہ تصور آزادی کوئی دیوانے کی بڑ نہیں ہے بلکہ یہ نظام تو تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ اگر تم نے اس اذیت ناک غلامانہ زندگی سے نجات حاصل نہ کی تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں مثلاً یہ کہ معاشرے میں جرائم کی شرح اتنی بڑھ جائے گی کہ کسی کی جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ تشویش اور فرسٹریشن کے باعث بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ہوس زر کے باعث بدعنوانیاں، کرپشن اور بدکرداریاں، لوٹ کھسوٹ، بددیانتی، جہیز اور ایسی اخلاقی خرابیاں فزوں تر ہوتی چلی جائیں گی۔ عائلی انحطاط کے باعث بے راہروی، بے ہودگی، بدکاری اور پھر ایڈز کنٹرول سے باہر ہو جائیں گی اور یہ مجموعی صورت حال معاشرے کی بدترین تباہی پر منتج ہو گی۔ اس سے تحفظ کے عمل کی ابتدا یہ ہے کہ ایک ایک دو دو کر کے “کھڑے” ہو جائیں اور غور کرنے لگیں یعنی اپنے اپنے مقامات پر اپنے اقربا و احباب کے ساتھ اس موضوع کو زیر نظر لانے کیلئے بار بار نشست رکھیں، جینیئس کلب قائم کریں،انتخابی منشور کا حصہ بنائیں، مساجد میں باجماعت نمازوں کے بعد اس حوالے سے باہمی مشاورت کی ترتیب استوار اور مستحکم کریں۔ زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کریں اور روز مرہ زندگی میں جب بھی اور جہاں بھی موقع ملے، اس موضوع کو گفتگو میں زندہ کریں۔ جیسے جیسے اس تناظر میں مشاورت کے دائرے بڑھتے جائیں گے یہ دائرے ایک زنجیر کی صورت میں مربوط ہوتے چلے جائیں گے اور پھر قدرتی طور پرمرکزیت کی تشکیل ممکن ہو جائے گی۔ تب پھر اس مرکزیت کی صورت گری کیلئے ابتدا اس صورت میں بھی ممکن ہے کہ اقدار قرآنی کو بنیاد بنا کر کسی علاقے،کسی انتخابی حلقے، کسی محلے، کسی بڑی عمارت، کسی کھلی جگہ پر سکاوٹس کے کیمپنگ گراؤنڈ کے سے انداز میں ہی سہی، “انا اوّل المسلمین” کے اصول پر اسلامی آئینی معاشرے کی حتی المقدور ابتدا کی جائے اور وہاں پر قرآن کے بیان کردہ جنت نظیر معاشرے کو پوری دنیا میں عملاً وجود میں لانے کیلئے باقاعدہ تیاری اور جہد بھی شروع کر دی جائے۔
    ہمیں یقین ہے کہ انسانیت کی اس غلامی کے دن تھوڑے ہیں.... کاش ہمارا یہ یقین محض خوش فہمی ثابت نہ ہو۔
    ٭٭
     

اس صفحے کو مشتہر کریں