طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں تعویز بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں جزدان حریر و ریشم کے، اور پھول ستارے چاندی کے پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں جس طرح سے طوطا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں جب قول و قسم لینے، تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت پڑتی ہے، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں کہنے کو میں اک اک جلسہ میں، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے، سچائی سے بڑھ کر دھوکہ ہے اک بار ہنسایا جاتا ہوں، سو بار رلایا جاتا ہوں یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں کس بزم میں مجھ کو بار نہیں، کس عرس میں میری دھوم نہیں پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں http://www.classicalislamgroup.co.uk/au ... d=7bb2855a
بہت ہی خوبصورت اور حقیقت پر مبنی شاعری ہے۔ یہ واقعی ہم سب کےلئے لمحہءِ فکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق دے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین ثم آمین
یہ نظم مرحوم ماہر القادری صاحب کی ہے ، وہ کراچی سے تعلق رکھتے تھے ۔ ایک اسلامی ماہنامہ نکالتے تھے ،اللہ ان کو غریق رحمت کرے ، بہت ہی سبق آموز نظم ہے ،اور سچ کے بےحد قریب ہے ،
یہ نظم 'ماہنامہ فاران کراچی "میں چھپی تھی ، اس وقت سے اب تک یہ نظم بہت پسند کی جاتی ہے، جس کے اڈیٹر مرحوم ماہر القادری تھے اور انہوں نے بڑی دلسوزی سے اسے لکھا تھا،
واہ ۔ بہت دلخراش حقیقت ہے۔ اللہ کریم ہمیں اپنی ابدی ہدایت سے کامل ہدایت لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین