1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قائداعظم (ر) کے افکار ونظریات اور موجودہ پاکستان

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏7 اگست 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات اور موجودہ پاکستان

    پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے۔ جس کا خواب عظیم فلسفی و مفکر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا اور اس خواب کی تعبیر کو بابائے قوم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بے مثال جدوجہد اور قائدانہ بصیرت و صلاحیت کے بل بوتے پر سینچ کر دکھایا۔

    پاکستان کا قیام محض اتفاقی امر نہ تھا سب سے پہلے تو یہ مشیت ایزدی تھی اور دوسرے اس کی بنیادوں میں مسلمانان برصغیر کی صدیوں پر محیط اقدار و روایات اور قائدین ملت کے ولولہ انگیز افکار ونظریات کار فرما تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ان تھک محنت کا نتیجہ 14 اگست 1947ء کوپاکستان کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں نکلا۔ اس سرزمین کا ذرہ ذرہ لاکھوں مسلمانوں کے خون کی قربانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر آج جب عصر حاضر میں ہم پاکستان کے حالاتِ حاضرہ پر نظر ڈالتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ وہ پاکستان جس کے قیام کے بعد بانی پاکستان نے عوام کو ملی یکجہتی و اتحاد کا درس دیتے ہوئے فرمایا۔

    ’’اگر ہم خود کو بنگالی، پنجابی، بلوچی اور سندھی وغیرہ پہلے اور مسلمان اور پاکستانی بعد میں سمجھنے لگیں تو پھر پاکستان لازماً پارہ پارہ ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ (ڈھاکہ 31 مارچ 1948ء)

    صد ہا افسوس کہ جس خدشے کا اظہار نصف صدی قبل اس مرد آہن نے کیا آج ہم پاکستان کو اس کی جیتی جاگتی حقیقت میں دیکھ رہے ہیں۔ کہنے کو تو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ اپنے سیاسی، معاشی، گروہی مفادات کی خاطر ملک عزیز کی عزت کو داؤ پر لگانا ہمارے حکمرانوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ آج ہم جغرافیائی طور پر آزاد ہوکر بھی اغیار کے سامنے ذہنی، فکری، سیاسی، معاشی اعتبار سے غلام ہیں۔ وطن عزیز کا ’’عروس البلاد‘‘ کراچی جو بابائے قوم کی جائے پیدائش و مدفن بھی ہے اسی ایک سجے سنورے شہر میں صف ماتم بچھا دیتے ہیں۔ اس کی مانگ جوان بیٹوں کے خون سے رنگین کرتے ہیں۔ جہاں ایک نام نہاد مسیحا لیڈر ملک سے دور بیٹھ کر اپنی ٹیلیفونک سیاست کے ذریعے آن کی آن میں ہنستے بستے شہر کو شہر خموشاں بنا دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد میں اس سوچ کو پروان چڑھایا جائے کہ پاکستان کا ہر شہری خواہ وہ کسی بھی رنگ، نسل، مسلک سے تعلق رکھتا ہو اس میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ احساس ذمہ داری کو اجاگر کیا جائے۔ حکمرانوں سے لے کر عوام تک وفاداری کا احساس زندہ کیا جائے جیسا کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔

    ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس دنیا میں آپ کے ضمیر سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ جب آپ اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوکر کہہ سکیں کہ میں نے اپنا فرض شرافت، شخصی ایمانداری کے بلند ترین احساس کے ساتھ پوری وفاداری، اطاعت گذاری اور دیانت داری سے انجام دیا‘‘۔ (سبی، بلوچستان افسران حکومت سے خطاب)

    اگر آج افسران بالا اور حکمران طبقہ قائد کے اس ارشاد کو اپنا نشان منزل بنالے تو یقیناً پاکستان کا وقار اور مرتبہ دنیا کے ممالک میں سب سے عالیشان ہوگا۔ مگر ہمارے حکمران بے ضمیری کے عادی ہوچکے ہیں۔ ملک کے تقدس و احترام، عوام کے جذبات سے کھیلنا ان کی عادت دیرینہ بن چکی ہے۔ آج یہاں عوام طرح طرح کے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کہیں بھوک و افلاس، بڑھتی ہوئی بے روزگاری و مہنگائی،کہیں لاقانونیت اپنے پنجوں میں بے بس لوگوں کو جکڑے ہوئے ہے اور حکمران طبقہ اس سے چشم پوشی کرتے ہوئے ’’سب اچھا ہے‘‘ کی گردان کر رہا ہے۔

    آج مسلمان اگر اپنی تقدیر کو سنوارنے کے لئے بیدار و متحرک نہ ہوئے تو شاید ان کی تقدیر کسی غیر کے ہاتھوں لکھی جائے۔ سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت اسلام دشمن طاقتوں نے من پسند افراد کو حکومتی مسندوں پر بٹھا کر ان کے ذہنوں کی ڈور کو اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے اور ان کٹھ پتلیوں سے ایسے ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہیں کہ جن سے پاکستان کی سالمیت مستقل خطرے میں ہے۔ بانی پاکستان نے شاید انہی حالات پر اپنی دور رس نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

    ’’مسلمانوں کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ منظم طاقت کی حیثیت سے ہر خطرے اور ہر مصیبت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ مسلمانو! تمہارے ہاتھوں میں ساحرانہ قوت موجود ہے۔ کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ایک ہزار مرتبہ غور کرو لیکن جب کوئی فیصلہ کرلو تو اس پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جاؤ۔
    (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 5 فروری 1938ء)

    اسی مضمون کو شاعر مشرق نے یوں پیش کیا تھا۔

    یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
    جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں​

    عصر حاضر کا یہ تقاضا ہے کہ ہم ارشادات قائد کی روشنی میں بحیثیت قوم اپنے کردار کا جائزہ لیں۔ اپنی خامیوں کو تلاش کرکے اس سے چھٹکارہ پائیں اور قائد کے پاکستان کی تعبیر تشنہ کو مکمل کریں۔

    اللہ رب العزت نے ہر دور میں اس ملت کو کسی نہ کسی مسیحا سے نوازا تو وہ دکھتی، سسکتی انسانیت کے دکھوں کا مداوا بنا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے جہالت، تعصب اور غیر ذمہ داری کا پردہ اتاریں اور تلاش کریں پھر سے کسی ایسے مسیحا کی کہ جو اس خطہ اسلام میں پھر سے وہ روح پھونکے کہ جو اس کے تن مردہ میں جان ڈال دے، جو بیک وقت دنیا اور آخرت کے مناصب کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا جانتا ہو، جس کا کردار مومن کامل اور سچے پاکستانی کا ہو، جس کے افکار، مردہ دلوں میں ولولہ پیدا کردیں، وہ منتشر صفوں کو منظم کردے، بکھری ہوئی افرادی قوت کو یکجا کردے، دین کی آگہی سے لے کر قومی تشخص کی تکمیل کا فریضہ نہایت سہل انداز میں ادا کردے اور وہ مسیحا اس صدی میں مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجدد وقت، مفسر قرآن، شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ اس مردِ مومن کو اللہ رب العزت نے جن صلاحیتوں اور عزم سے نوازا ہے آج ہماری قوم کو ایسے ہی قائد کی ضرورت ہے۔

    خواب اگر اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا، تعبیر محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے عطا کی تو اس تعبیر کی تکمیل میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار ونظریات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو منزل کے حصول کے لئے فرماتے ہیں۔

    ’’حالات جیسے بھی گھمبیر ہوں جیسے بھی مصائب و آلام کا سامنا ہو، جتنے بھی زیادہ مایوس کن ہوں ہر صورت میں استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ ثابت قدمی اور استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر ڈٹ جانا چاہئے‘‘۔ (فرمودات قائد انقلاب۔ 117)

    اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر جذبے صادق ہوں تو منزل خود قریب آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی سالمیت و وقار کو استحکام عطا فرمائے اور افراد پاکستان میں اس شعور کو اجاگر کرے جو قوموں کی زندگی کا لازمہ ہوتا ہے۔ (آمین)

    تحریر: مسز فرح فاطمہ۔ لاہور
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    اچھا مضمون ہے۔

    لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ پاکستان کے درجنوں علماء کو چھوڑ کر صرف ڈاکٹر طاہر القادری جیسے ناکام سیاستدان (قومی اسمبلی کی 1 نشست جیتنا اور اس سے بھی استعفی دے کر ایکطرف ہوجانا ناکامی ہی کہلائے گی ) کو علامہ اقبال اور قائدِ اعظم جانشین کیوں ثابت کیا جارہا ہے ؟؟؟
     
  3. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    زبردست ! بہت اعلیٰ!
    بہت خوشی ہوئی
    کیا ہم اس مضمون کو اپنے کہیں چھاپ سکتے ہیں تاکہ مزید لوگ اس سے استفادہ کریں۔ ذیشان مہدی سکردو موبائل:03554112000
     
  4. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    یومِ قائد اعظم رحمۃ اللہ کی نسبت سے یہ مضمون اور پیغام بہت اہم ہے۔
    اللہ تعالی ہمیں گپ شپ کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار سنجیدہ اور فکر انگیز امور کی طرف توجہ دینے کی بھی توفیق دے۔ آمین
     
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    پیا جی بھائی کہاں رھ گئے ہیں :soch:
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں ایک رائے عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ ۔۔
    ہمیں ہر مضمون کو غور سے پڑھنا چاہیے۔ پھر مضمون پر دل و دماغ جو بھی رائے دے۔۔ اسے یہاں لکھنا چاہیے۔
    بالخصوص اگر اچھا لگے تو دو الفاظ ارسال کنندہ کی حوصلہ افزائی کے لیے ضرور لکھنے چاہیئں ۔
    تاکہ محنت سے مضمون تیار کرنے اور ارسال کرنے والے کو احساس تو ہو کہ کوئی پڑھتا بھی ہے۔
    وگرنہ ارسال کنندہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید فورم پر نہیں بلکہ قبرستان میں مضمون ارسال کررہا ہوں۔

    ہارون بھائی ۔ میں نے عمومی بات کی ہے ۔ امید ہے آپ ناراض نہیں ہوں گے۔
     
  7. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    محترمہ نور العین صاحبہ ۔
    1 نشست جیتنے کو ناکامی و کامیابی سے تعبیر کرنا کم از کم پاکستانی قوم اور پاکستانی نظامِ سیاست میں کسی طور بھی درست نہیں۔
    گو کہ اب یہ ممکن نہیں۔ لیکن ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اگر موجودہ نظامِ انتخابات میں خود قائدِ اعظم اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیھما اپنی سفید پوشی کے ساتھ واپس آ سکیں اور الیکشن لڑیں تو یہ قوم انکے مقابلے میں زرداری اور نواز شریف ہی کو ترجیح دے گی۔

    کیونکہ ہم بطور قوم اکثر جذباتی نعرے لگانے میں بڑے شیر ہیں۔ لیکن ووٹ دینے میں ہمارا معیار، کسی راہنما کی قابلیت، تعلیمی استعداد، اعلی کردار، حب الوطنی ہرگز نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ بلکہ ہم ووٹ اپنے چاچے ، مامے تایے کے کہنے پر دیتے ہیں۔ پاکستان میں 70 فیصد رورل ووٹ بنک ہے ۔ وہاں چودھریوں، وڈیروں، خانوں کا خدائی نظام چلتا ہے۔ وہ کسی غریب کی جیب میں کبھی چند ہزار روپے ڈال کر اسکا ضمیر خرید لیتے ہیں تو کبھی گاؤں کی کچی گلیوں میں چند ہزار اینٹیں لگوا کر انکے ووٹ کے حقدار بن جاتے ہیں۔ یہی ضمیر کبھی بجلی کے کھمبوں تو کبھی گیس پائپ لائن کی کھدائی سے بھی خریدا جاتا ہے۔ جوان بچوں کو وقتی نوکریوں کے خواب بھی ایک اہم ہتھکنڈہ ہے۔

    وگرنہ اگر تعلیمی قابلیت، جذبہ خدمتِ ملک و ملت ، حب الوطنی، شفافیء کردار کے کڑے معیار پر پرکھ کر قومی راہنماؤں کی فہرست مترتب کی جائے تو مرحوم حکیم محمد سعید، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر عبدالقدیر، اور ڈاکٹر طاہر القادری اور جیسے نام سر فہرست رہیں گے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے کسمپرسی کے عالم میں تنہا اپنی جد و جہد کا آغاز کیا، اپنی انتھک محنت سے قوم کو بیدار کیا ، اپنے مخلصین و کارکنان کو ایک مقصد دے کر ایک منزل کی جانب گامزن کیا۔

    اس لیے خدارا ۔ انتخابات کے اس مسمریزم سے نکلیں جس نے جمہوریت کے نام پر اس بد نصیب قوم کو زرداری، نواز شریف، چوہدری شجاعت سمیت درجنوں بےکردار، لٹیروں، ظالم وڈیروں، غریب کش جاگیرداروں، خونخوار سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ جن کے نام کے ساتھ سرے محل سے لے کر کوآپریٹو بنک تک، مہران بنک سے لے کر اسلام آباد کے کروڑوں کے پلاٹس تک، 10 پرسنٹ سے لے کر 50 پرسنٹ تک بلکہ شاید سنٹ پرسنٹ تک کے بدنما داغ ہمیشہ سے لگے ہیں اور لگے رہیں گے۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب عقرب بھائی ۔
    بہت ہی عمدہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔
    میں آپکے موقف سے اتفاق اور تائید کرتا ہوں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں