1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قائداعظم ایک کھلی کتاب

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏16 دسمبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    قائداعظم جب بھی بمبئی آتے، ہمارے پاس ٹھہرتے اور فرصت کے اوقات میں اپنے بیتے واقعات سناتے جب وہ انگلستان میں مقیم تھے۔ ایک دفعہ کرسمس کے موقع پر طلبہ و طالبات میں ایک کھیل کھیلا گیا جس میں جیتنے والا لڑکا یا لڑکی دوسرے ساتھیوں کی فرمائش پوری کرتے تھے۔ قائداعظمؒ جیت گئے تو ساتھیوں نے فرمائش کی کہ آپ فلاں لڑکی کا ہاتھ تھام کر رقص کریں، مگر قائداعظمؒ نے یہ کہہ کر انکار کردیا، میں اپنی ہونے والی بیوی کے سوا کسی اور لڑکی کا ہاتھ نہیں تھاموں گا۔ وہ زندگی بھر اس اصول پر عمل پیرا رہے

    (بیگم نصرت عبداللّٰہ ہارون)​


    قائداعظمؒ اور مس فاطمہ جناح ایک دفعہ بمبئی میں ساحل کے ساتھ ساتھ موٹر کی سواری کا لطف لے رہے تھے۔ میں ان کی موٹر چلا رہا تھا۔ اسی دوران میں نے قائداعظم سے عرض کی: ’’عالی جاہ! والد کا خط آیا ہے، کچھ پیسے دہلی بھیجنے ہیں۔‘‘انھوں نے فرمایا: ’’ابھی ہم نے تم کو دو سو روپیہ دیا تھا، کدھر گیا؟‘‘میں نے عرض کی ’’عالی جاہ! وہ تو خرچ ہوگئے۔‘‘آپ نے برجستہ جواب دیا ’’ویل! تم ایک دم مسلمان ہوگیا؟ تھوڑا ہندو بنو۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ اس لطیفے سے وہ مجھے کفایت شعاری کی جانب مائل کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کی مجموعی فضول خرچی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔
    (محمد حنیف آزاد)

    ہندو اور مسلمان کانگرسی لیڈروں کا اکٹھ تھا۔ بات پاکستان پر چل پڑی اور جلے دل کے پھپھولے پھوڑے جانے لگے۔ ایک مسلمان شریکِ مجلس نے جو کانگرس کی مجلسِ عاملہ کے رکن رہ چکے تھے، قائداعظمؒ کو انگریزوں کا زر خرید کہہ دیا۔ یہ سنتے ہی سروجنی نائیڈو بولیں ’’ کیا کہا تم نے؟ جناح انگریزوں کا زرخرید ہے؟ یاد رکھو۔ تم بک سکتے ہو، میں خریدی جا سکتی ہوں، باپو (گاندھی) اور جواہر لعل نہرو کا سودا ہوسکتا ہے، مگر جناح انمول ہے، اسے کوئی نہیں خرید سکتا۔ ہمارے نقطۂ نظر سے وہ غلط راستے پر گامزن ہے لیکن اس کی دیانت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے‘‘۔(رئیس احمد جعفری)میرے والد مرحوم (ملک برکت علی ایڈووکیٹ) کی طرف سے چائے کی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں قائداعظمؒ کے سامنے وہ کیک رکھا گیا جو ہندوستان کے نقشے کے مطابق بنایا گیا تھا۔ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں کا رنگ سبز تھا۔ بابائے قوم نے کیک کاٹا تو بڑی احتیاط سے سبز حصہ الگ کر دیا۔ کسی نے کہا ’’جناب! ذرا سا اور کاٹ لیجئے۔‘‘جواب ملا: ’’میں تجاوز پسند نہیں کرتا، نہ کسی کا حق غصب کرو اور نہ اپنا حق چھوڑو۔‘‘
    (عباس احمد عباسی)

    میں قائداعظمؒ کا اے۔ڈی۔سی تھا۔ ایک بار ان کے ایک بھائی ملنے آئے۔ انھوں نے مجھے اپنا وزٹنگ کارڈ دیا جو میں نے قائداعظمؒ کو دیا۔ قائداعظمؒ نے پوچھا ’’یہ کون ہیں؟‘‘میں نے کہا ’’آپ کے بھائی ہیں۔‘‘وہ بولے ’’انھوں نے پہلے سے وقت لیا تھا؟‘‘میں نے کہا ’’جی نہیں۔‘‘فرمایا ’’انھیں کہو تشریف لے جائیں۔‘‘میں دروازے کی طرف مڑا تو قائداعظمؒ نے مجھے دوبارہ بلایا، کارڈ میرے ہاتھ سے لے سرخ پنسل سے اس پر ’’قائداعظمؒ‘‘ کا لفظ کاٹا، پھر گورنر جنرل آف پاکستان کے بھائی کا لفظ کاٹا اور پھر مجھے کارڈ تھماتے ہوئے بولے: ’’ان سے کہو کہ کارڈ پر صرف اپنا نام لکھیں، مجھ سے یا گورنر جنرل کے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔‘‘ میں نے باہر جا کر کارڈ اُن کے بھائی کو دے دیا۔ وہ چلے گئے اور پھر واپس نہ آئے۔
    (جنرل گل حسن)


    بیماری کے آخری دنوں میں ہمیں کراچی میں نواب بہاولپور کے بنگلے کی ضرورت پڑی جو ملیر میں تھا۔ قائداعظمؒ کوئٹہ میں صاحبِ فراش تھے۔ ہم نے اجازت طلب کی کہ وہ فرمائیں تو ہم نواب آف بہاولپور کو لندن تار دے کر اجازت حاصل کرلیں؟قائداعظمؒ نے جواب دیا ’’آپ نے سنا ہوگا کہ جب کوئی وکیل ہائی کورٹ کا جج بن جاتا، تو وہ کلبوں اور نجی محفلوں میں نہیں جاتا تھا کہ یوں اس کی غیر جانبداری مشکوک ہو جائے گی۔ چنانچہ میں سمجھتا ہوں، مجھے گورنرجنرل کے اعلیٰ منصب کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت ہم ضرورت مند ہیں لیکن میں اپنی ذات کی خاطر اس عظیم منصب کی عظمت اور غیر جانبداری خاک میں نہیں ملا سکتا۔ لہٰذا انھیں تار دینے کی اجازت نہیں۔‘‘
    (کرنل الٰہی بخش)


    یہ ۱۹۴۶ء کا ذکر ہے۔ میں ان دنوں مسلم لیگ کی مزنگ شاخ (لاہور) کے شعبہ نشرواشاعت سے منسلک تھا۔قائداعظمؒ لاہور تشریف لائے، تو میں اپنے دوستوں کو ساتھ لیے اسمبلی ہال پہنچ گیا۔ اگرچہ یہ بے ضابطگی تھی تاہم مجھے قائداعظمؒ کی اس شفقت کا زعم تھا جو وہ نوجوانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے۔اسمبلی ہال کے باہر چبوترے پر تمام مسلم لیگی ارکان اسمبلی نیم دائرے کی شکل میں قائداعظمؒ کا استقبال کرنے جمع تھے۔ ہم پانچ چھ ساتھی بائیں طرف آرایشی پیالے والے ستون کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ منتظمین میں سے بیشتر میرے شناسا تھے لہٰذا کوئی مزاحم نہ ہوا۔ قائداعظمؒ تشریف لائے۔ گاڑی سے اُتر کر انھوں نے سیڑھیوں پر قدم رکھا تو ہم اپنی جگہ سے کھسک کر آگے نکل آئے۔راجہ غضنفر علی خان نے ہمیں ٹوکا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ذوق و شوق کا ذکر کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ پل بھر کے لیے قائداعظمؒ سے ملنا ہے۔ اس کے بعد ہم فوراً چلے جائیں گے۔ راجہ صاحب کااستدلال تھا کہ قائداعظمؒ کو یہ حرکت ناگوار گزرے گی کیونکہ وہ اس قسم کی بے قاعدگی پسند نہیں کرتے۔ اتنے میں قائداعظمؒ چبوترے پر پہنچ چکے تھے۔اتفاق سے اسی وقت وہ ہماری طرف متوجہ ہوگئے اور راجہ صاحب سے پوچھا ’’What is the matter‘‘ (کیا معاملہ ہے؟) انھوں نے بوکھلا کر مختصراً ماجرا بیان کیا۔قائداعظمؒ نے میری طرف دیکھا، مجھے ان کی عقابی نگاہیں دل کو چیرتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ ایک سرد لہر میری ریڈھ کی ہڈی میں اتر گئی۔اچانک انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’Youngsters First‘‘ (پہلے نوجوان)۔ یہ سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ جلدی جلدی ہم نے ان سے مصافحہ کیا اور خوش خوش واپس ہونے لگے۔ اچانک انھوں نے ہمیں روک کر فرمایا ’’Discipline First‘‘ (پہلے نظم و ضبط) اور ہم پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔
    (حسن اے شیخ)

    عثمان بھائی رحیم بھائی سپاہی بمبئی کے معمولی کاروباری اور پرائمری مسلم لیگ وارڈ نمبر۳؍بمبئی کے صدر تھے۔ قائداعظمؒ بھی اسی پرائمری مسلم لیگ کے رکن تھے۔۱۹۴۲ء میں قائداعظمؒ بیمار پڑ گئے۔نواب بہادر یار جنگ ان کی عیادت کرنے حیدرآباد سے بمبئی آئے۔صوبائی مسلم لیگ کے دفتر سے انہوںنے ٹیلی فون پرقائداعظمؒ سے رابطہ قائم کیا اورملنے کی خواہش ظاہر کی۔قائداعظمؒ نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر نے انہیں ایک دودن کے لیے ملاقات سے منع کررکھا ہے۔ یوں نواب صاحب کوانکار ہوگیا۔اتفاق سے دفتر میں عثمان بھائی بھی بیٹھے تھے۔ وہ کہنے لگے ’’نواب صاحب! قائداعظمؒ نے آپ کو تو وقت نہیں دیا‘ مجھے ضرور ملیں گے۔ میں ابھی ٹیلی فون کرتاہوں اوروہ مجھے فوراً بلائیں گے۔‘‘نواب بہادر یار جنگ عثمان بھائی سے متفق نہیں ہوئے تو انہوں نے فون ملایا اور کہا ’’عثمان بھائی رحیم بھائی سپاہی صدر پرائمری مسلم لیگ وارڈ نمبر ۳؍ بول رہا ہوں۔ میں پرائمری مسلم لیگ کے سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ قائداعظمؒ نے بیماری اور ڈاکٹر کی ہدایت کے باوجود ’اپنے صدر ‘کو وقت دے دیا۔ دراصل وہ پرائمری مسلم لیگ کے عہدے داروں کوان کامقام دیتے تھے۔چنانچہ جب کبھی بمبئی میںانہیںپرائمری مسلم لیگ کے جلسے میںشرکت کاموقع ملتا‘وہ اسی کے صدر کوکرسیء صدارت پربٹھاتے۔

    (حسن اے شیخ)

    اوٹا کمانڈ میں قیام کے دوران مہاراجہ بہ یتھاپرم نے قائداعظمؒ کو کھانے پر بلایا۔ ۸۰؍ میل کا فاصلہ تھا۔ جگہ جگہ استقبال ہوا۔ ایک جگہ لوگوں نے روک لیا کہ تقریر کے بغیر نہیں جانے دیں گے۔ سٹیج انھوں نے پہلے ہی تیار کررکھا تھا۔ ’’قائداعظمؒ زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے۔ سو دو سو گز کے فاصلے پرایک ننگ دھڑنگ لڑکا اکیلا کھڑا یہی نعرے لگا رہا تھا۔ قائداعظمؒ نے اسے سٹیج پر بلایا اور کہا ’’تم ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے کیوں لگاتے ہو؟ پاکستان کیا چیز ہے؟‘‘پہلے تو وہ لڑکا گھبرا گیا۔ لیکن قائداعظمؒ نے اس کی ہمت بندھائی تو وہ کہنے لگا ’’میں آپ جتنا تو نہیں جانتا، بس اس قدر سمجھتا ہوں کہ جہاں ہندو آباد ہیں، وہاں ہندوئوں کی حکومت ہوگی اور جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔‘‘اس بچے کا یہ جواب سن کر قائداعظمؒ بہت مسرور ہوئے، اسے تھپکی دی اور فرمایا ـ ’’قرارداد لاہور کی اس سے بہتر اور کوئی تشریح نہیں ہوسکتی۔‘‘
    (مطلوب الحسن سید)

    ۱۹۴۴ء کا واقعہ ہے۔ قائداعظمؒ ریل میں سفر کرتے ہوئے نصف شب کے قریب علی گڑھ سے گزرے۔ ریلوے اسٹیشن پر طلبہ کے ہجوم نے ان سے ملاقات پر اصرار کیا۔ ان کے سیکرٹری نے لاکھ منع کیا کیونکہ اس وقت قائداعظمؒ سو رہے تھے لیکن طلبہ مصر رہے۔ آخر قائداعظمؒ نے کھڑکی کھولی تو طلبا نے کہا ’’ہمارے لیے کوئی پیغام دیجئے۔‘‘قائداعظمؒ نے گرجدار آواز میں جواب دیا ’’جائو جس طرح تم نے مجھے گہری نیند سے جگایا ہے، اسی طرح قوم کو بھی اس کی گہری نیند سے جگا دو۔‘‘ یہ سن کر پلیٹ فارم ’’اللّٰہ اکبر‘‘ اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔
    (مسٹر جسٹس یعقوب علی)

    ان دنوں آسام کی کافی زمین خالی پڑی تھی۔ مسلمان دوسرے علاقوں سے آکر وہاں آباد ہو رہے تھے تاکہ اسے قابل کاشت بنا سکیں۔ کانگرس کی حکومت تھی، وہ ان نئے آبادکاروں پر بے پناہ مظالم ڈھانے لگی اور ایک تصوراتی لکیر کھینچ کر کہا کہ ادھر کوئی نہیں آئے گا۔ بے چارے مسلمانوں نے محنت کی، دھان اُگایا، کپاس اُگائی اور ہندوئوں نے انھیں مار بھگایا۔ ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی اور قائداعظمؒ کے دورۂ آسام کے موقع پر مسئلہ مسلم لیگ کی مجلس عامہ کے اجلاس میں پیش کیا۔قائداعظمؒ نے کہا ’’خالی زمین پر آباد ہونا اور اسے زیرِکاشت لانا ہر انسان کا حق ہے۔ اگر کوئی قانون اس حق کی نفی کرتا ہے تو وہ سرے سے قانون ہی نہیں۔ ایسے قانون کو ہرگز اہمیت نہیں دینی چاہیے۔‘‘ انھوں نے پھر خود ایک قرارداد کا مسودہ تیار کیا جو مجلس عاملہ نے منظور کرلیا۔ قائداعظمؒ نے فرمایا ’’پھیل جائو، اور جہاں جہاں خالی زمین نظر آئے، اسے کاشت کرو۔‘‘
    (محمود علی)


    دلی میں قائداعظمؒ کا گھر سڑک کے عین اوپر تھا۔ لیکن اس کا رُخ سڑک کی دوسری جانب تھا۔ اس رُخ پر گھر کے بالکل سامنے محکمہ پی۔ڈبلیو۔ڈی کے کچھ کوارٹر تھے۔ محکمہ والوں نے ان کے گھر کے سامنے بیت الخلا بنانے شروع کردیے۔ قائداعظمؒ کے دوستوں نے ان سے کہا ’’آپ پی۔ڈبلیو۔ڈی والوں سے بات کریں، وہ کبھی آپ کی بات رد نہیں کریں گے۔قائداعظمؒ نے کہا کہ میں ذاتی کام کے لیے کسی سرکاری محکمے کا احسان نہیں اٹھانا چاہتا۔چند دنوں بعد ایک موقع پرقائداعظمؒ نے اپنا دایاں ہاتھ میز پر گھماتے ہوئے کہا ’’I turned my house like this‘‘ (میں نے اپنے گھر کا رُخ یوں بدل دیا)۔ انھوں نے اپنا گھر گرا کر اس کا رُخ تبدیل کردیا لیکن محکمے والوں سے بات نہ کی۔
    (حسین امام)

    قائداعظمؒ سفرِریل کے دوران اپنے لیے دو برتھیں مخصوص کرایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے وجہ دریافت کی تو جواب میں انھوں نے یہ واقعہ سنایا ’’میں پہلے ایک ہی برتھ مخصوص کراتا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، میں لکھنٔو سے بمبئی جا رہا تھا۔ کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ریل رکی تو ایک اینگلو انڈین لڑکی میرے ڈبے میں آکر دوسری برتھ پر بیٹھ گئی۔ چونکہ میں نے ایک ہی برتھ مخصوص کرائی تھی، اس لیے خاموش رہا۔ریل نے رفتار پکڑی تو اچانک وہ لڑکی بولی ’’تمھارے پاس جو کچھ ہے فوراً میرے حوالے کردو، ورنہ میں ابھی زنجیر کھینچ کر لوگوں سے کہوں کی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی کرناچاہتا ہے۔‘‘ میں نے کاغذات سے سر ہی نہیں اٹھایا۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں پھر خاموش رہا۔ آخر تنگ آ کر اس نے مجھے جھنجھوڑا تو میں نے سر اٹھایا اور اشارے سے کہا ’’میں بہرہ ہوں، مجھے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ جو کچھ کہنا ہے، لکھ کر دو۔‘‘اس نے اپنا مدعا کاغذ پر لکھ کر میرے حوالے کردیا۔ میں نے فوراً زنجیر کھینچ دی اور اسے مع تحریر ریلوے حکام کے حوالے کردیا۔ اس دن کے بعد سے میں ہمیشہ دو برتھیں مخصوص کراتا ہوں۔‘‘
    (سید ہاشم رضا)


    قائداعظمؒ ایک روز بمبئی میں مسلم لیگ کے جلسے میں شرکت کرنے تشریف لے گئے۔ راستے میں انھوں نے مجھ سے ’’Proud‘‘ کے معنی پوچھے۔ میں نے بتایا کہ اس کا مطلب مغرور ہوتا ہے۔ قائداعظمؒ نے جلسہ گاہ میں اپنی تقریر کے دوران اُردُو جملہ بولتے ہوئے یہ لفظ اس طرح استعمال کیا ’’میں مغرور ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘ انھوں نے احتیاطاً Proudکا لفظ بھی ساتھ بول دیا۔واپسی پر میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ پورے جملے کا اُردُو مطلب دریافت فرماتے تو میں آپ کو بتاتا، آپ کو ’’مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔‘‘ کہنا چاہیے تھا۔ اس پر قائداعظمؒ نے فرمایا ’’میں اپنی تقریر یا اس کا کوئی اقتباس قبل از وقت کیسے افشا کرسکتا تھا؟‘‘
    (سید شریف الدین پیرزادہ)


    قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے ایک مسلمان سول افیئر سنٹرل انٹیلی جنس میں متعین تھا۔ اس کی دلی ہمدردی پاکستان کے ساتھ تھی۔ ایک روز اتفاقاً ایک فائل اس کے ہاتھ لگی جسے پڑھ کر اسے پتا چلا کہ ہندو لیڈر درپردہ ایسے منصوبے بنا رہے ہیں کہ پاکستان بنتے ہی اسے اپاہج بنا دیا جائے۔ مسلمان افسر نے محسوس کیا کہ اس امر سے قائداعظمؒ کو آگاہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔اس نے یہ فائل چرا لی، تین دن کی رخصت لی، بھیس بدلا اور بمبئی روانہ ہوگیا۔آدھی رات کو وہ قائد کی کوٹھی پر پہنچا۔ اندر اپنے نام کی چٹ بھجوائی۔ تھوڑی دیر بعد قائداعظمؒ نے اسے اندر بلا لیا۔ مسلمان افسر نے مختصراً اپنی آمد کی وجہ بیان کی اور پھر فائل سامنے رکھ دی۔ قائداعظمؒ نے بڑے اطمینان سے ساری فائل پڑھی پھر بولے ’’نوجوان! کیا تم نے پاکستان میں ملازمت کے لیے OPT(خود کو پیش)کیا ہے؟‘‘ پیشتر اس کے کہ وہ کوئی جواب دیتا، قائداعظمؒ نے کہا ’’میں تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے افسروں کے لیے قطعاً جگہ نہیں جو دفتری راز غیر متعلقہ لوگوں پر فاش کریں، اب تم جا سکتے ہو۔‘‘(ممتاز مفتی)میں قائداعظمؒ کے پاس ملازم تھا۔ ایک مرتبہ جمعہ کے دن میں نے مس فاطمہ جناح سے کہا، مجھے نماز کے لیے چھٹی چاہیے۔ انھوں نے اجازت دے دی۔ اسی وقت بے بی (قائداعظمؒ کی بیٹی) اندر سے آئی اور کہا کہ اسے اپنی سہیلیوں سے ملنے جانا ہے۔ وہ کار کے ساتھ مجھے لے جانا چاہتی ہے۔ اگرچہ بے بی کی خاطر میں اپنے پروگرام میں ایک آدھ گھنٹے کی ترمیم کے لیے تیار تھا، لیکن اسی دوران قائداعظمؒ تشریف لے آئے۔ انھوں نے بے بی سے سختی سے کہا ’’فقیر محمد نمازِجمعہ پڑھنے جا رہا ہے، تم کار پر نہیں جا سکتیں۔ کسی سے کہو، تمھارے لیے ٹیکسی لے آئے۔‘‘
    (فقیر محمد)ؒ
     
  2. سہیل اقبال
    آف لائن

    سہیل اقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏27 نومبر 2011
    پیغامات:
    128
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قائداعظم ایک کھلی کتاب

    بہت خوب
    عظیم انسان کے اعمال اس کے الفاظ سے بہت اونچی آواز میں اس کے کردار کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں۔
     
  3. معصومہ
    آف لائن

    معصومہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏2 نومبر 2011
    پیغامات:
    15,314
    موصول پسندیدگیاں:
    167
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قائداعظم ایک کھلی کتاب

    بہت خوب۔
    ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قائداعظم ایک کھلی کتاب

    کاش ہم اپنے قائد کے افکار و نظریات پر عمل کرنے والے پاکستانی بن جائیں۔
     
  5. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قائداعظم ایک کھلی کتاب

    آمین۔۔۔۔۔۔۔
     
  6. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: قائداعظم ایک کھلی کتاب

    قائد وہ ہوتا ہے جو کردار و گفتار و عمل میں عظمت کا مینار ہو جیسا قائداعظم محمد علی جناح تھے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں