بیسویں صدی کی اُردو شاعری میں اقبال کے بعد جو نام اُبھر کر سامنے آئے اُن میں نمایاں ترین نام فیض احمد فیض کا ہے۔ سن تیس کے عشرے میں شروع ہونے والی اُن کی شاعری سن اسّی کی دہائی تک جاری رہی اور یوں اُن کے کلام نے نصف صدی کا عرصہ اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔۔۔ اور یہ کوئی معمولی عرصہ نہ تھا بلکہ حادثات، سانحات اور انقلابات کا ایک ایسا سلسلہ تھا جس کی مثال تاریخِ عالم میں دکھائی نہیں دیتی۔فیض کی شاعری میں جمال، محبت، ہجر، وفا، کے ساتھ ساتھ معاشرتی نشیب و فراز کے گہرے اثرات اور مظالم کے خلاف انقلاب کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں سارے جھگڑے اَنا کے ہوتے ہیں بات نیت کی ہے صرف ورنہ وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں بھول جاتے ہیں ، مت برا کہنے لوگ پُتلے خطا کے ہوتے ہیں وہ جو بظاہر کچھ نہیں لگتے ان سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں وہ ہمارا ہے اسطرح سے فیض جیسے بندے خدا کے ہوتے ہیں فیض احمد فیض
آج بازار میں پابجولاں چلو چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں آج بازار میں پابجولاں چلو دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے؟ شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟ دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟ رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو پھر ہمیں قتل ہوں آئیں یارو چلو آج بازار میں پابجولاں چلو
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر ابھی زنجیر چھنکتی ہے پسِ پردۂ ساز مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی ساغرِ ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں لغزشِ پا میں ہے پابندیِ آداب ابھی اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو اپنے میخانوں کو میخانہ تو بن لینے دو جلد یہ سطوتِ اسباب بھی اُٹھ جائے گی یہ گرانباریِ آداب بھی اُٹھ جائے گی خواہ زنجیر چھنکتی ہی، چھنکتی ہی رہے
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی کسیے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں گرفتِ سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
تم آئے ہو، نہ شبِ انتظار گزری ہے تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے جنوں میں جتنی بھی گزری، بکار گزری ہے اگرچہ دل پہ خرابی ہزار گزری ہے ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے نہ گل کھلے ہیں، نہ اُن سے ملے، نہ مے پی ہے عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے چمن میں غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے
شامِ فراق، اب نہ پوچھ، آئی اور آ کے ٹل گئیدل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی بزمِ خیال میں ترے حسن کی شمع جل گئیدرد کا چاند بجھ گیا، ہجر کی رات ڈھل گئی جب تجھے یاد کر لیا، صبح مہک مہک اٹھیجب ترا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہمکہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی آخرِ شب کے ہمسفر فیض نجانے کیا ہوئےرہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی
اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہےجو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حراماب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصحگفتگو آج سرِ کوئی بتاں ٹھہری ہے ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہننگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھیہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیمدل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھیبوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہارجاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجادفیض گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں سبھی کلفتیں کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں کبھی قربتیں یہ سخن جو ہم نے رقم کیے یہ ہیں ورق سب تیری یاد کے کوئی لمحہ صبحِ وصال کا ، کوئی شامِ ہجر کی مدتیں جو تمھاری مان لیں ناصحا ! تو رہے گا دامنِ دل میں کیا نہ کسی عدو کی عدوتیں، نہ کسی صنم کی مروتیں چلو آؤ تم کو دکھائیں ہم جو بچا ہے مقتلِ شہر میں یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں میری جان آج کا غم نہ کر، کہ نہ جانے کاتبِ وقت نے کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں فیض